Saturday, 27 December 2025

نئے سال کا اسلامی تصور اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں

 نئے سال کا اسلامی تصور اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال ارائیں المعروف غلام مصطفٰی ارائیں، کراچی

سال کی یہ تبدیلی ہر انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ عمر کا ایک اور حصہ گزر گیا، اور زندگی کے محدود سفر میں ایک اور سنگ میل پیچھے رہ گیا۔ شمسی سال کے اختتام و آغاز کے اس موقع پر پوری دنیا میں مختلف تہذیبیں اپنے اپنے انداز میں اس "نئے آغاز" کو مناتی ہیں۔ لیکن ایک مسلمان کے لیے سوال یہ ہے کہ اس موقع پر اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا وہ عمومی تہواروں کی طرح اسے بھی خوشی کے اظہار کا موقع سمجھے، یا اس کے نزدیک اس کا کوئی اور مفہوم ہونا چاہیے؟

مبارکباد کا شرعی حکم: ایک متوازن نقطہ نظر

علمائے کرام کے فتاویٰ کے مطابق، نئے شمسی یا قمری سال کے آغاز پر محض خیر و برکت کی دعا دینا یا مبارکباد کا تبادلہ کرنا، اگر اسے کوئی شرعی فریضہ یا ضروری عمل نہ سمجھا جائے، تو جائز ہے . بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نئے مہینے یا سال کی آمد پر ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے:

"اَللّٰهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمٰنِ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ" .

اس دعا کا مفہوم یہ ہے کہ اے اللہ! اس (نئے زمانے) کو ہمارے لیے امن و ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ داخل فرما، ساتھ ہی اپنی رحمت کی رضا اور شیطان سے بچاؤ کے ساتھ۔ یہ دعا درحقیقت ہمارے رویے کی بنیاد ہونی چاہیے نہ کہ محض رسمی تہنیت۔

وقت کی قدر اور محاسبہ نفس کا موقع

اسلامی نقطہ نظر سے، وقت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر وقت کی قسمیں کھائی گئی ہیں . حدیث نبوی ہے کہ قیامت کے دن انسان سے اس کی عمر اور جوانی کے بارے میں سوال ہوگا کہ اس نے اسے کس طرح گزارا . ایک اور حدیث میں پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جاننے کی تلقین کی گئی ہے: جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے.

اس لیے سال کا اختتام و آغاز درحقیقت محاسبہ نفس کا بہترین موقع ہے۔ گزرے ہوئے سال میں ہم سے کیا کوتاہیاں ہوئیں؟ ہمارے اعمال میں کس طرح کی بہتری لائی جا سکتی ہے؟ آنے والے وقت کے لیے ہمیں کیا عہد کرنا چاہیے؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے کہ وہ کسی چیز پر اتنا نادم نہیں ہوئے جتنا اس دن کے گزرنے پر جس میں ان کے اعمال میں اضافہ نہ ہو سکا.

قمری تقویم سے تعلق اور اسلامی شناخت

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اسلام میں احکام و عبادات کا مدار قمری (ہجری) تقویم پر ہے۔ روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کا تعین اسی سے ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہجرتِ نبوی کو اسلامی سن کا نقطہ آغاز بنایا گیا، کیونکہ یہی وہ واقعہ تھا جس سے حق و باطل میں واضح فرق ہوا .

شمسی سال کا آغاز دراصل عیسائی تہذیب و مذہب سے وابستہ ہے . اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی اصل شناخت — اسلامی قمری کیلنڈر — سے وابستہ رہے اور اسے اپنی زندگی میں زندہ رکھے۔ ہجری مہینوں کے نام اور ان میں پیش آنے والے تاریخی واقعات (جیسے محرم میں واقعہ کربلا) سے آگاہی ہماری دینی و تہذیبی پہچان کا حصہ ہے۔

غیر شرعی اعمال سے اجتناب

افسوس کے ساتھ، آج کل نئے سال کے موقع پر کئی ایسے کام رائج ہو چکے ہیں جو صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ 31 دسمبر کی رات آتش بازی، نائٹ کلبوں میں شراب و شباب کی محفلیں، بے ہنگم شور شرابہ اور بے حیائی کے مظاہرے — یہ سب وہ امور ہیں جن سے ہر مسلمان کو سختی سے بچنا چاہیے . نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک و سلم کا ارشاد ہے: "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں سے ہے" . لہٰذا، ایسے تمام کام جو غیر مسلم اقوام کے مخصوص مذہبی یا اخلاقی طور پر قابل اعتراض طریقوں کی نقل ہوں، ان سے اجتناب فرض ہے۔

اجتماعی ذمہ داری: دعا، صلہ رحمی اور خیر کی تلقین

نئے سال کا یہ موقع درحقیقت ہمیں اپنے اردگرد پھیلی انسانیت کے لیے سوچنے کا موقع دیتا ہے۔ ہم اپنے خاندان، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور تمام مسلمان بھائیوں کے لیے دُعاگو ہوں۔ صلہ رحمی کریں، مفلس و محتاج لوگوں کی مدد کریں، اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں  جیسا کہ سورہ العصر میں ایمان والوں کی صفت بیان کی گئی ہے .

خلاصہ

مختصراً، نئے شمسی سال کے موقع پر مسلم کمیونٹی کا طرز عمل مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے:

· وقت کی قدر کے شعار کے ساتھ محاسبہ نفس کا اہتمام کریں۔ گزرا سال اللہ کی دی ہوئی مہلت تھی، آنے والا وقت اس کی نئی نعمت ہے۔

· دعا اور نیک تمناؤں کا تبادلہ کریں، مگر اسے غیر اسلامی رسومات سے پاک رکھیں۔

· اپنی اسلامی شناخت — ہجری تقویم — کو زندہ رکھیں اور اس کی اہمیت نئی نسل کو سمجھائیں۔

· ہر قسم کی غیر شرعی سرگرمیوں، بے حیائی اور فضول خرچی سے حتی الامکان بچیں۔

· اس موقع کو اجتماعی بہتری، باہمی محبت اور انسانیت کی خدمت کے جذبات کو ابھارنے کے لیے استعمال کریں۔

دیکھا گیا ہے نئے شمسی سال کے آغاز پر کروڑوں روپے فائرنگ پر فخریہ طور پر خرچ کیے جاتے ہیں، بیماروں کے آرام کا بھی ذرا بھر احساس نہیں کیا جاتا. اس کے علاوہ بھی دیگر خرافات کو لازم سمجھا جاتا ہے۔

آئیے، نئے سال کو نئے عزم کے ساتھ شروع کریں عزم اس بات کا کہ ہم بہتر صالح مسلمان، بہتر انسان اور معاشرے کے لیے زیادہ مفید فرد بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے آنے والے تمام لمحات کو ایمان، امن اور فلاح سے بھر دے۔ (آمین)

بدعت، نفل، واجب اور فرض میں واضح فرق

 بدعت، نفل، سنۃ، واجب اور فرض میں واضح فرق

تحریر و تحقیق: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں المعروف غلام مصطفٰی آرائیں، کراچی۔

قرآن و سنۃ سے ثابت صلوٰۃ قائم کرنے کے واضح حکم كو "نماز پڑھنے" میں بدلنے کا عمل بلاشبہ تمام دیگر بدعات سے بڑی اور بدترین بدعت ہے، جس پر کہ ہم سب بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث، سلفی، وہابی، سنی، تبلیغی، جماعتی، عطاری، منہاجی و طاہری وغیرہم مکمل طور پر متفق و متحد ہیں، آئیں تھوڑی دیر کےلیے ذرا اکابر پرستی و مقابر پرستی اور فرقہ پرستی کی خود غرضانہ و محدود سوچ و فکر سے آزاد ہو کر حقائق کی دنیا میں تحمل، خلوص اور سنجیدگی سے تلاش حق کی سچی لگن و جستجو کے ساتھ نظریں دوڑائیں اور غور و فکر کریں کہ کہیں ہم قرآن و سنۃ کے احکامات و ہدایات اور تعلیمات و فرمودات سے روگردانی و انحراف کر کے ملاؤں کے حکم و تعلیم کو دانستہ یا نا دانستہ، ارادی یا غیر ارادی طور پر "حکم اللہ" پر اولیت، فوقیت اور ترجیج دینے اور "حکم الله" کو ترک کر کے "حکم ملا" کی  تعمیل و اطاعت کرنے کے گناہ کبیرہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ 

بلا شبہ دین و ایمان ہی ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے جس کی بہرصورت ہمیں حفاظت کرنی چاہیئے اور ان کےلیے خطرہ بننے والی ہر چیز سے بچنا، پرہیز و اجتناب برتنا چاہیئے یہ ایک دعوت غور و فکر ہے، صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کےلیے۔

ہمیں خوب اچھی طرح جان لینا اور یقین کر لینا چاہیئے کہ دین اسلام فقط قرآن وسنۃ پر مبنی ہے اور وہ مکمل نظام زندگی (ضابطہء حیات) ہے، قرآن و سنۃ میں جس عبادت کو ہر دن رات میں پانچ وقت قائم کرنے کو ہر مؤمن و مسلم پر فرض عین قرار دیا گیا ہے اس کا اصطلاحی نام قرآن و سنۃ ميں صلاة و صلوٰۃ مقرر ہے اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک مالی عبادت کا نام زکوٰۃ اور ایک بدنی و جسمانی عبادت کا نام حج مقرر فرمایا گیا ہے، جس طرح زکوٰۃ کو اور حج کو کوئی بھی دوسرا نام دے کر انجام دینے سے ان فرائض کی ادائیگی نہیں ہوتی بعینہٖ اسی طرح صلاة و صلوٰۃ کو اسی نام سے قائم کرنا ضروری ہے۔ "نماز پڑھ" کر اس فرض عین کی ادائگی بھی نہیں ہوتی کیونکہ حکم صلوٰۃ قائم کرنے کا دیا گیا ہے، لفظ نماز، قرآن و سنت میں کہیں نہیں آیا ہے اور نہ ہی آئمہ محدثین، مجتہدین، ائمہ فقہاء نے کسی بھی مقام پر لفظ نماز پڑھنا ذکر و بیان یا اختیار کیا ہے۔

 اس کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ لفظ نماز مجوسیوں کی مشرکانہ پوجا پاٹ کا نام ہے اور جضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کے جنم سے بھی کئی سو سال پہلے سے لے کر آج آخر دسمبر 2025ء تک  رائج ہے، مجوسی کم و بیش تین ہزار سال سے پانچ تا آٹھ وقتی "نماز پڑھتے" ہیں، اسی لیے قرآن و سنۃ میں کہیں بھی "نماز پڑھنے" کا حکم یا ذکر و بیان نہیں ملتا، بلکہ قرآن و سنۃ میں متعدد مقامات پر یہود و نصارٰی اور صابئین کی موافقت، مشابہت اور مطابقت اختیار کرنے کی سخت ممانعت ثابت ہے۔                                          یاد رہے کہ صلاة الليل جسے صلاة التہجد بھی کہا جاتا ہے وہ فقط رسول الله صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم پر فرض تھی جبکہ امت کےلیے سنت ہے، باقی اس کے فضائل، فیوض و برکات بے انتہاء ہیں اگرچہ کہ فرض صلاة قائم کرنے کا اجر و ثواب بہرحال نفل صلاة قائم کرنے سے ستر گنا زیادہ ہے!

 مؤمنون و مؤمنات اور مسلمون و مسلمات پر پر جن صلوۃ خمسہ کو قائم کرنا فرض عین قرار دیا گیا ہے ان میں صلاة الفجر، صلاة الظہر، صلاة العصر، صلاة المغرب اور صلاة العشاء، صلاة الجمعۃ شامل ہیں جبکہ أن کے علاوہ جنازه، عيد الفطر و عيد الاضحٰی کی صلوة قائم کرنا واجب ہے، صلاة الحاجۃ و صلاة التوبہ اور صلاة الاستسقاء، صلاة الكسوف، صلوة الخسوف، صلاة الاستخارة، صلاة التسبيح وغیرہم سب سنۃ ہیں.ایک اور بات نہایت اہمیت کی حامل ہے اور وہ یہ کہ صلاۃ و صلوٰۃ ايسی عبادات ہیں جو پڑھنے کی چیز یا عمل ہر گز نہیں ہیں بلکہ قرآن مجید میں کم و بیش یا پورے سات سو مرتبہ صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہیں ایک جگہ بھی پڑھنے پڑھانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور اسی طرح سینکڑوں مقامات پر احادیث رسول صلی اللّٰہ عليہ و آلہ و سلم سے بھی صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم ہی بخوبی ثابت ہے، نماز پڑھنے کا نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، سلف صالحین، ائمہء فقہاء اربعہ اور اقوال محدثین و مجتہدین و محقیقین سے بھی صلاة قائم کرنا اور اسی کی تعلیم دینا ثابت ہے، ان تمام اسلاف میں سے کسی ایک نے بھی اور بھولے سے بھی کبھی نماز پڑھی نہ ہی لفظ نماز کبھی ان کی زبان سے ادا ہوا اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی شخص کو نماز پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی بلکہ وہ سب کے سب باقاعدگی سے، پابندی کے ساتھ صلوٰۃ خمسہ کی اقامت کو یقینی بناتے اور لازم پکڑتے تھے لہٰذا ہمیں بھی صلاة کو نماز نہیں کہنا چاہیئے اسی طرح قائم کرنے کو پڑھنا بھی نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ ایسا کرنے سے قرآن و سنۃ سے روگردانی و انحراف لازم آتا ہے اور دوسری وجہ یہ کہ صلاۃ و صلوٰۃ كو نماز پڑھنا کہنے، بولنے اور سمجھنے سے مجوسیوں کے ساتھ موافقت، مشابہت اور مطابقت بھی لازم آتی ہے جس سے گریز و اجتناب کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے اور یہ ممانعت قرآن و سنۃ سے بخوبی ثابت ہے۔

بلا شک و شبہ ہم سب قران و سنہ اور أسوة حسنۃ کی تعمیل و اطاعت اور اتباع و پیروی کے مکلف (پابند) بنائے گئے ہیں، سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم اللہ تعالٰی کے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و بارک و سلم پر نازل کردہ دین پر قائم ہیں یا اس سے انحراف و روگردانی کرتے ہوئے اسے پس پشت ڈال کر اکابر پرست و مقابر پرست اور فرقہ پرست بن گئے یا بن چکے ہیں؟ اللہ تعالٰی اپنے خاص لطف و کرم اور رحمۃ سے ہر کلمہ گو کو فرقہ پرستی، اکابر پرستی و مقابر پرستی کو ترک کر کے قرآن و سنۃ کے احکامات، تعلیمات، ہدایات اور فرمودات کی تکمیل و تعمیل، اطاعت و اتباع اور کامل پیروی کرنے والا بنائے، گمراہی سے بچائے، صراط مستقیم اور اسوۃ حسنہ پر قائم رکھے، اللہم آمین ثم آمین برحمتک یا ارحم الراحمین بحق رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و بارک و سلم

بعثت نبوی ﷺ اور نزول اسلام کے بنیادی مقاصد، ایک تحقیقی جائزہ

 بعثت نبوی ﷺ اور نزول اسلام کے بنیادی مقاصد: ایک تحقیقی جائزہ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں المعروف غلام مصطفٰی آرائیں، کراچی

انسانی تاریخ کا سب سے عظیم اور انقلاب آفرین واقعہ بعثت نبوی ﷺ ہے جس نے نہ صرف جزیرۃ العرب کی تقدیر بدلی بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا ابدی نظام فراہم کیا۔ نزول اسلام کا اصل مقصد محض ایک مذہبی عقیدے کا ظہور نہیں تھا، بلکہ یہ انسانیت کی تکمیل، اجتماعی اصلاح اور ربانی ہدایت کا جامع منصوبہ تھا۔ ذیل میں بعثت نبوی ﷺ کے پانچ اہم مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے:

1. توحید کی بالادستی اور شرک کے اندھیروں کا خاتمہ

نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت کا اولین اور بنیادی مقصد توحید کی دعوت تھی۔ آپ ﷺ ایک ایسے معاشرے میں مبعوث ہوئے جہاں بت پرستی، نجومیوں اور جھوٹے خداؤں کا دور دورہ تھا۔ انسانیت حقیقی خالق سے کٹ چکی تھی اور خود ساختہ معبودوں کے سامنے سجدہ ریز تھی۔ اسلام نے نہ صرف "لا الہ الا اللہ" کا اعلان کیا بلکہ عقل و فکر کو بت پرستی کی زنجیروں سے آزاد کیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: "ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو" (النحل: 36)۔ یہ توحید کا تصور محض نظریاتی نہ تھا بلکہ عملی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی حاکمیت کا قیام تھا۔

2. اخلاقی انقلاب اور انسانیت کی تعمیر

بعثت نبوی ﷺ کا دوسرا اہم مقصد اخلاقیات کی بلندی اور انسان کی باطنی اصلاح تھا۔ رسول اللہ ﷺ خود اخلاق عظمیٰ کا مجسم نمونہ تھے اور آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد اخلاقیات کی تکمیل قرار دیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں"۔ جاہلیت کے دور میں ظلم، لاقانونیت، عورت کی تحقیر، شراب نوشی اور قتل و غارت گری عام تھی۔ اسلام نے ان تمام برائیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع اخلاقی نظام دیا جس میں انصاف، رحم، صداقت، امانت اور اخوت کے اصول مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔

3. علم اور عقل کی آزادی

اسلام کی آمد تاریک جاہلیت کے خلاف علم کی تحریک تھی۔ پہلی وحی کا آغاز ہی "پڑھ" کے حکم سے ہوا، جو علم کے حصول کی اہمیت کی طرف واضح اشارہ تھا۔ اسلام نے تخیلاتی اور وہمی عقائد کے بجائے عقل و استدلال کو پروان چڑھایا۔ قرآن مجید بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور کائنات کی نشانیوں میں تدبر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ علمی انقلاب صرف مذہبی علوم تک محدود نہ تھا بلکہ اس نے سائنس، طب، فلکیات اور ریاضی جیسے شعبوں میں بھی حیرت انگیز ترقی کا راستہ ہموار کیا۔

4. اجتماعی انصاف اور معاشی توازن

بعثت نبوی ﷺ نے معاشرتی اور معاشی انصاف کے قیام کے لیے بنیادی اصلاحات متعارف کرائیں۔ اسلام نے غلامی کے خاتمے کے لیے مرحلہ وار اقدامات کیے، عورتوں کے حقوق متعین کیے، وراثت کے منصفانہ قوانین بنائے، اور زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے معاشرے سے غربت کے خاتمے کا نظام قائم کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے"۔ یہ اجتماعی انصاف کا تصور اسلام کے مرکزی مقاصد میں سے ہے جس کا تعلق فرد کی نجات کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود سے ہے۔

5. عالمگیر ہدایت اور رحمت للعالمین کا پیغام

نبی کریم ﷺ کو صرف عربوں یا کسی خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ قرآن میں ارشاد ہے: "اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے" (الانبیاء: 107)۔ یہ عالمگیریت اسلام کے مقاصد کی وسعت کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلام کا پیغام نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے بالاتر ہے اور پوری انسانیت کو ایک خدا کی عبادت اور بنی نوع انسان کے طور پر باہمی اخوت و مساوات کی دعوت دیتا ہے۔

نتیجہ

بعثت نبوی ﷺ کے مقاصد کثیر الجہت اور ہمہ گیر ہیں جن میں فرد کی اصلاح سے لے کر معاشرے کی تعمیر، اور عقیدے کی درستگی سے لے کر تہذیب کی تشکیل شامل ہے۔ یہ محض چند رسمی عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں ہدایت کا ایک مکمل نظام تھا۔ آج بھی جب انسانیت مادہ پرستی، اخلاقی بحران اور روحانی پستی کا شکار ہے، بعثت نبوی ﷺ کے انہی مقاصد کی طرف رجوع ہی اس کے مسائل کا حقیقی حل پیش کر سکتا ہے۔ اسلام کا پیغام زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے اور ہر دور کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ اسے اس کی صحیح روح میں سمجھا اور اپنایا جائے۔