Wednesday, 31 December 2025

بلدیاتی انتخابات: آئینی تقاضا اور جمہوریت کی اساس

 بلدیاتی انتخابات: آئینی تقاضا اور جمہوریت کی اساس

تحریر: پرویز اقبال آرائیں المعروف غلام مصطفٰی اراییں، کراچی

آج جب ہم پاکستان میں جمہوریت کی بالیدگی اور عوامی نمائندگی کے فروغ کی بات کرتے ہیں، تو بلدیاتی نظام ایک ایسا بنیادی ستون ہے جسے نظرانداز کرنے کا مطلب جمہوریت کی جڑوں کو کمزور کرنا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140-A کے تحت ہر صوبے کے لیے بلدیاتی نظام قائم کرنا اور اس کے انتخابات کروانا نہ صرف قانونی بلکہ اخلاقی فریضہ ہے۔ مگر افسوس، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں مقامی حکومتیں مفلوج پڑی ہیں یا انتظامی افسران کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں، جس سے نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ عوامی مسائل کے فوری حل کا راستہ بھی بند ہو جاتا ہے۔

آئینی و قانونی فریم ورک: صرف کاغذی کارروائی؟

قانونی طور پر معاملہ بالکل واضح ہے۔ گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے آرٹیکل 114 میں کہا گیا ہے کہ "بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات الیکشن کمیشن کے ذریعے کرائے جائیں گے"۔ اسی طرح الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 219 میں الیکشن کمیشن پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے 120 دن کے اندر نئے انتخابات کروائے۔ قانون میں یہ بھی تصریح ہے کہ انتخابات کی تاریخوں کا اعلان وفاقی یا صوبائی حکومت سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا، مگر حتمی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک تاریخی فیصلے میں واضح کیا تھا کہ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے، اور ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں ختم کرنا آئینی عمل نہیں۔ عدالت نے کہا کہ حکومت اداروں کی ساخت میں تبدیلی کر سکتی ہے، مگر براہ راست منتخب نمائندوں کو ان کے آئینی مدعد سے محروم نہیں کر سکتی۔

عملی رکاوٹیں اور سیاسی مصلحتیں

آئین اور قانون کی یہ واضح ہدایات ہونے کے باوجود، عملی صورتحال المناک ہے۔

صوبائی سطح پر ٹال مٹول کا رویہ عام ہے۔ پنجاب میں حال ہی میں الیکشن کمیشن کے 2022 کے قانون کے تحت انتخابات کرانے کے حکم کے جواب میں، صوبائی حکومت نے فوری طور پر ایک نیا بلدیاتی ایکٹ 2025 منظور کروا لیا۔ اس نئے قانون میں اگرچہ کچھ مثبت شقیں ہیں، جیسے اقتصادی ترقی کی حکمت عملی تیار کرنے کا اختیار اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی ذمہ داری، مگر بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا یہ اقدام انتخابات میں تاخیر کا جواز بنانے کے لیے تھا؟

خیبرپختونخوا میں حالات اس سے بھی زیادہ دگرگوں ہیں، جہاں بلدیاتی نمائندوں نے صوبائی حکومت کے "ناانصافی" کے خلاف 5 جنوری کو احتجاج کی تیاری کر رکھی ہے۔ ان نمائندوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں ان کے پرامن احتجاجوں کو لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

کوئٹہ میں بھی بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر عدالت کی جانب سے حکم امتناعی جاری کیا گیا، جس پر جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ اس سے عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔

سیاسی جماعتوں کا کردار اور عوامی مطالبہ

سیاسی جماعتیں اپنے بیانات میں تو بلدیاتی نظام کی اہمیت تسلیم کرتی ہیں، مگر عملی اقدامات اکثر اس کے برعکس ہوتے ہیں۔

· جماعت اسلامی نے پنجاب میں بلدیاتی نظام کے لیے لائحہ عمل دینے کے لیے گرینڈ کنونشن طلب کیا ہے۔

· پیپلز پارٹی پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اپنی سیاسی جگہ بنانے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے۔

· پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، حالانکہ وہ ایکٹ میں تبدیلیوں سے مطمئن نہیں۔

یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ بلدیاتی انتخابات اب محض انتظامی معاملہ نہیں رہے، بلکہ وہ قومی سیاسی محاذ آرائی کا اہم میدان بن گئے ہیں۔

نتیجہ اور راستہ

بلدیاتی انتخابات میں تسلسل کی کمی کا نقصان صرف سیاسی جماعتوں کو نہیں ہوتا، اس کا سب سے بڑا خمیازہ عام شہری بھگتتا ہے۔ جب مقامی حکومتیں غیر فعال ہوں، تو گلی محلے کے مسائل، صفائی ستھرائی، بنیادی صحت، چھوٹے تعمیراتی امور براہ راست صوبائی حکومت یا بیوروکریسی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، جس میں تاخیر اور ناانصافی کا عنصر بڑھ جاتا ہے۔

آئین اور قانون کا تقاضا ہے کہ بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے اور بلا تعطل کروائے جائیں۔ اس کے لیے درکار اقدامات واضح ہیں:

· الیکشن کمیشن کو اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے انتخابات کے شیڈول کا حتمی اعلان کرنا چاہیے۔

· صوبائی حکومتوں کو سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے عمل کو تیز کرنا چاہیے۔

· عدلیہ کو چاہیے کہ وہ آئین میں مقرر کردہ اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنائے، جیسا کہ ماضی میں سپریم کورٹ نے کیا۔

· عوام اور سول سوسائٹی کو بلدیاتی نظام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کے قیام کے لیے اجتماعی آواز بلند کرنی چاہیے۔

بلدیاتی نظام صرف ایک انتظامی ڈھانچہ نہیں، یہ جمہوریت کی نرسری ہے۔ یہیں سے مستقبل کی قومی قیادت پروان چڑھتی ہے اور یہیں عوام کو براہ راست اپنے معاملات چلانے کا موقع ملتا ہے۔ اگر ہم واقعی مضبوط جمہوریت اور موثر حکمرانی چاہتے ہیں، تو بلدیاتی انتخابات کے آئینی تقاضے کو پورا کرنا ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ سیاسی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کیے جائیں اور عوامی نمائندگی کی اس بنیادی اکائی کو اس کا حقیقی مقام و اختیار دیا جائے۔

No comments:

Post a Comment