Wednesday, 31 December 2025

نئے سال کے سورج کی پہلی کرن، نوید صبح نو

 نئے سال کے سورج کی پہلی کرن، نوید صبح نو

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال ارائیں المعروف غلام مصطفٰی ارائیں، کراچی

 اللہ کرے کہ نئے شمسی سال کا سورج قرآن و سنت کے احکامات کے نفاذ، غلبے اور بالادستی، خیر و عافیت، امن و آشتی، خوشحالی، مساوات اور معاشی و معاشرتی عدل و انصاف کی نوید کے ساتھ طلوع ہو، نیا شمسی سال محض کیلنڈر کی تبدیلی کا نام نہیں، بلکہ یہ لمحۂ فکریہ ہے ایک ایسا موقع جو فرد، معاشرہ اور ریاست سب کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے گزشتہ اعمال کا محاسبہ کریں اور مستقبل کے لیے ایک واضح، صالح اور بامقصد سمت متعین کریں۔ دعا یہی ہے کہ نئے شمسی سال کا سورج اس امت اور پوری انسانیت کے لیے خیر و برکت، امن و سلامتی اور عدل و انصاف کی نوید لے کر طلوع ہو، اور سب سے بڑھ کر قرآن و سنت کے احکامات کو محض انفرادی عبادات تک محدود رکھنے کے بجائے اجتماعی اور ریاستی سطح پر نافذ کرنے کی توفیق عطا ہو۔

قرآنِ حکیم ہمیں یاد دلاتا ہے: “إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ” (النحل: 90)۔ عدل اور احسان محض اخلاقی تصورات نہیں بلکہ ایک مکمل سماجی نظام کی بنیاد ہیں۔ جب تک قانون سازی، معیشت، عدلیہ، تعلیم اور حکمرانی کے تمام شعبے ان اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہوں گے، اس وقت تک امن و آشتی اور حقیقی خوشحالی ایک خواب ہی رہیں گے۔ نیا سال اس عزم کی تجدید کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم انصاف کو کمزور کے لیے رحم اور طاقتور کے لیے احتساب بنا سکیں۔

قرآن و سنت کی بالادستی کا مطلب کسی خاص طبقے کی اجارہ داری نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کا قیام ہے جہاں جان، مال اور عزت کا تحفظ یقینی ہو؛ جہاں رشوت، ذخیرہ اندوزی اور استحصال کی کوئی گنجائش نہ ہو؛ جہاں مزدور کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ اور کسان کو اس کی پیداوار کا منصفانہ حق ملے۔ رسولِ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو—یہ محض ایک نصیحت نہیں بلکہ معاشی عدل کا منشور ہے۔

آج ہماری معاشرتی بے چینی، طبقاتی خلیج اور معاشی ناہمواری اس امر کی گواہ ہیں کہ ہم نے اجتماعی سطح پر عدل کے تقاضوں کو نظرانداز کیا۔ نیا شمسی سال اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم مساوات کو نعرہ نہیں، عملی پالیسی بنائیں۔ تعلیم، صحت اور روزگار تک مساوی رسائی کو یقینی بنائے بغیر خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ قرآن اعلان کرتا ہے: “لِكَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ” (الحشر: 7)—یعنی دولت صرف چند ہاتھوں میں گردش نہ کرے۔ یہ آیت معاشی انصاف کا وہ سنہرا اصول ہے جسے آج کے جدید معاشی نظام بھی نظرانداز نہیں کر سکتے۔

امن و آشتی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ داخلی انتشار ہو یا علاقائی کشیدگی، اس کا حل طاقت کے استعمال میں نہیں بلکہ انصاف، مکالمے اور قانون کی بالادستی میں ہے۔ نیا سال ہمیں یہ پیغام دے کہ نفرت، تعصب اور فرقہ واریت کے خاتمے کو یقینی بنا کر برداشت، رواداری اور اخوت کو فروغ دیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی ریاست میں مختلف مذاہب اور قبائل کو ایک سماجی معاہدے کے تحت جوڑ کر عملی طور پر ثابت کیا کہ امن کا راستہ انصاف سے ہو کر گزرتا ہے۔

فرد کی اصلاح کے بغیر اجتماعی تبدیلی ممکن نہیں۔ نیا سال ہر فرد سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا ہم صداقت، دیانت اور امانت اور شرافت کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں؟ کیا ہم قانون کی پابندی کو کمزوری نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھتے ہیں؟ قرآن کہتا ہے: “إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ” (الرعد: 11)۔

اللہ نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔ جسے نہ ہو خیال خود آپ اپنی حالت بدلنے کا۔ یہی وہ اصول ہے جو فرد سے ریاست تک تبدیلی کا راستہ متعین کرتا ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ نیا شمسی سال ہمارے لیے محض تمناؤں کا سال نہ ہو بلکہ عملی عزم، اخلاقی جرات اور اجتماعی اصلاح کا سال بنے۔ اللہ کرے کہ اس سال کا سورج قرآن و سنت کے عادلانہ نظام، امن و آشتی، خوشحالی، مساوات اور معاشی و معاشرتی عدل و انصاف کے روشن پیغام کے ساتھ طلوع ہو—اور یہ روشنی ہمارے قول و فعل، نظام و اداروں اور معاشرے کے ہر گوشے میں سرایت کر جائے۔  اللہم آمین یا ارحم الراحمین بحق رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و بارک و سلم

No comments:

Post a Comment