Saturday, 16 July 2016

فرقوں کی کارگذاری و کارکردگی

فرقوں کی کارگذاری و کارکردگی
 (تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)
چندہ، عطیہ، صدقہ و خیرات، نذر نیاز، مالِ زکوٰہ، فطرہ، قربانی کی کھالیں اور اپنی جانیں دینے والے اور زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگانے والے، اپنے اپنے پیروکار تو ہر ایک مذہبی فرقے، فرقہ پرست مذہبی جماعت، ادارے، گروہ، تنظیم، گروپ اور مشہورومعروف فرقہ پرست مذہبی عناصرنے لاکھوں کی تعداد میں ضرور بنالئے کیا کسی بھی ایک فرقے، فرقہ پرست مذہبی جماعت، ادارے، گروہ، تنظیم، گروپ اور مشہورومعروف فرقہ پرست مذہبی شخصیت نے چند ہزار یا چند سو افراد بھی ایسے تیار کئے ہیں جو صالح و مُتَّقی ہوں، فرقوں کے من پسند و من گھڑت، بے بنیاد و خود ساختہ، گمراہ کُن انسانی و بشری افکار و نظریات کے بجائے صحیح معنٰی میں اصل دین اسلام (یعنی قرآن و سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات) کو سمجھ کر اللہ کے نازل کردہ دینِ اسلام (یعنی قرآن و سُنَّۃ) کی تعمیل و پیروی، اطاعت و اتباع اسی طرح کرتے ہوں جیسے جماعۃِ صحابہءِ کران رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمہءِ فقہاء و مجتہدین، اسلاف و صالحین رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین اور اسلام کے ابتدائی بارہ تیرہ سو سال تک کے علماء و صلحاء اور عام مسلمان کرتے تھے۔ جن کا تعلق کسی مذہبی فرقے، فرقہ پرست مذہبی جماعت، ادارے، گروہ، تنظیم، گروپ اور مشہورومعروف فرقہ پرست مذہبی شخصیت کے ساتھ نہیں تھا وہ سب کے سب رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی جماعت تھے اُن میں اسلامی جمعیّۃ و اخوّۃ تھی، وہ جسدِ واحد کی طرح اُمّۃِ واحدہ تھے دُنیا اُن کو اُمّۃِ مصطفوی اور اُمَّۃ مسلمہ کے طور پر ایک قوم، ایک مِلّۃ سمجھتی تھی اور جو جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلتے تھی انہی کے طورو طریقوں اور طرزِ فکر و عمل کو اپناتے تھے، اُن میں باہمی مذہنی منافرت، نفاق و نفرت، انتشار و افتراق کا نام و نشان اور شائبہ تک نہ تھا، وہ بیوبندی تھے نہ بریلوی، اہلحدیث تھے نہ سلفی، حیاتی تھے نہ مماتی، تبلیغی تھے نی جماعتی، عطاری تھے نہ طاہری، تُرابی تھے یہ سیفی وہ سب فقط مسلمان تھے رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی جماعۃ تھے، وہ یہود و ہنود، سکھ ونصارٰی سمیت کفّار و مشرکین اور طاغوتی قُوّتوں سے زیادہ ایکدوسرے کے خون کے پیاسے اور دُشمن نہیں تھے، ایکدوسرے پر کفروشرک اور ارتداد کے فتوؤں کی گولہ باری نہیں کرتے تھے، اُن کی مسجد پر کوئی فرقہ وارانہ شاخت و پہچان نہیں ہوتی تھی، اس وقت دینی مدارس علماءِ دین اور مُبلِّغینِ اسلام تیار کرتے تھے آجکل کی طرح دیوبندی، بریلوی، وہابی، اہلِ حدیث، سلفی، عطاری، تبلیغی اور جماعتی فرقہ پرست نہیں بنائے جاتے تھے۔ اب سے ڈیڑھ و سال پہلے تک کے مسلمان اللہ تعالٰی، رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم ، قرآن و سُنَّۃ پر کسی بھی غیر کو ترجیح و فوقیت اور اوُلیت دینے کا تصوُر تک نہیں کر سکتے تھے وہ فرقہ پرستی، اکابر پرستی، مقابر پرستی، شخصیت پرستی وغیرہ کو بت پرستی کی طرح شرک و کُفر سمجھتے تھے۔ پوری کائنات اورزمین و آسمان کے درمیان موجود اللہ کی مخلوقات اور انسانوں و انسانی رشتوں سے بڑھ کر محبّت و عقیدت رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کے ساتھ رکھنے کو اپنے دین و ایمان کی اساس و شرطِ اوّل سمجھتے تھے۔ اوراللہ و رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی مُحبّت و اطاعت اور اتباع و پیروی پر کسی بھی غیر کو ترجیح دینے کو صریح ارتداد سمجھتے تھے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے تک اسلام کے دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث،  سلفی وغیرہ ورژن ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ سارے کلمہ گو فقط  مُسلمان تھے دیوبندی، حیاتی، مماتی، بریلوی، اہلِ حدیث، سلفی، عطاری، طاہری، تبلیغی، جماعتی، سیفی، تُرابی وغیرہ نہیں تھے اور اُن کا دین فقط اسلام تھا، دیوبندیت، بریلویت، اہلحدیثیت، سلفیت وغیرہ نہیں تھا۔ اگر مُسلمان ہونے کی شرط فرقہ پرستوں کے نزدیک فرقہ سے وابستگی ایمان و اسلام کی شرط ہے (جیسا کہ آجکل سمجھا جاتا ہے) تو پھر وہی بتلائیں کہ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمۃءِ اربعہ، محدّثین و مجتہدین، سلف و صالحین، اسلام کے ابتدائی پونے تیرہ سو سال کے علماءِ اہلُ السُنَّۃ والجماعت اور عامۃُ المسلمین کیا تھے جن کا دیوبندیت، بریلویت، اہلحدیثیت، سلفیت وغیرہ نہیں  مذہبی فرقوں کے ساتھ کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں تھا۔   
حالیہ تقریباً ڈیڑھ سو سال میں بعض عاقبت نا اندیش علماءِ سوء نے دُشمنانِ اسلام کے ایجنڈے کی تکمیل کر دی اور اپنے ذاتی، مالی، معاشی، سیاسی اغراض و مقاصد اور ناجائز مفادات کے حصول و تحفّظ کو یقینی بنانے کےلئے کُفّارومشرکین سمیت اسلام دُشمن و مسلمان کُش طاغوتی قوُْوّتوں کا آلہءِ کار بن کر اُن کےلئے وہ کام کر دکھایا جو وہ بارہ تیرہ سو سال تک مسلسل و متواتر شازشوں اور کوششوں کے باوجود نہیں کر پائے تھے یعنی رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی جماعۃ کو توڑ کر اُمّۃِ مسلمہ کے اتحاد و اخوّۃ کو تباہ و برباد اور پارہ پارہ کرکے اُن کو باہم ایک دوسرے کا بدترین دُشمن بنا دیا گیا تاکہ کُفّار و مشرکین اور طاغوتی قُوّتوں کو مسلم امٗہ سے کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ آج کے نام نہاد کلمہ گواپنے اپنے اپنے فرقوں کے ساتھ انتہائی مضبوط تعلق و وابستگی رکھتے ہیں اور دوسرے فرقوں کے کلمہ گو لوگوں کو کافر و مشرک اور مرتد سمجھتے ہیں، اسلام (قرآن و سُنَّۃ) کت ساتھ اُن کی وابستگی باقی نہیں ہے اگر کوئی تھوڑا سا برائے نام تعلق رہ بھی گیا ہے تو وہ فقط زبانی کلامی ہے عملاً وہ قرآن و سُنَّۃ پر اپنے فرقہ اکابرین کی باتوں کو اوّلین ترجیح و فوقیت دیتے ہیں۔ قرآن و سُنَّۃ سے روگردانی و انحراف کو برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اپنے فرقے کے ایجاد کردہ من پسند و من گھڑت، گمراہ کُن و بے بنیاد، جاہلانہ و بدعتانہ افکار و جاہلانہ نظریات سے روگردانی و انحراف کو شرک و کفر اور ارتداد سمجھنے لگے ہیں۔ اب لوگ قرآن و سُنّۃ کی بات کو نہیں صرف اور صرف اپنے فرقہ اکابرین کی باتوں کو سُننا پسند کرتے ہیں، اللہ رسول  صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی نہیں فرقہ اکابرین اور علماءِ سوء کی ہی بات مانی جاتی ہے۔ یہود و نصارٰی سمیت اسلام دُشمن طاغوتی قُوّتوں کا یہی ایجنڈا تھا جس کی تکمیل اُن کے ایجنٹ نام نہاد جعلی مذہبی بہروپیوں یعنی فرقہ پرست مذہنی عناصر نے خوب اچھی طرح کردی ہے اب یہود و نصارٰی دیگر مُنافقین، کُفّار و مشرکین سمیت اسلام دُشمن شیطانی قُوَّتوں کو اب مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں اب کے فرقہ پرست نام نہاد کلمہ گو مُسلمانوں سے اگر کسی کو انتہاء درجے کا شدید و سنگین ترین خطرہ ہے تو وہ فقط اہلِ ایمان "مُسلمانوں" کوہے۔ فرقوں کی جنس خوب چل نکلی ہے اور مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑتی جا رہی ہے اب تو اُس میں دہشت گردی کا رنگ بھی بہت نمایاں طور پر بھر دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے نام نہاد فرقہ وارانہ مذہبی پیشہ باقی تمام پیشوں پر واضح سبقت و برتری حاصل کرتا جا رہا ہے۔ مُسلم معاشروں میں جہالت و ناخواندگی، بے شعوری زیادہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد مذہبی فرقہ پرست عناصر عددی قُوّۃ اورمالی و مادی وسائل کےاعتبار سے مضبوط تر اور مستحکم ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ معاشرہ تباہی و بربادی کے تاریک گڑھے میں گرتا چلا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے مساجد و مدارس اور فرقہ پرست مذہبی عناصر کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے معاشرے سے امن و سکون، احترام انسانیت، اخوّۃ اسلامی، اسلامی و مشرقی روایات و اخلاقیات، تقوٰی یعنی اللہ کی ناراضگی کا ڈر اور خوف ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آیاۃِ قرآنی اور صحیح و متفق علیہ احادیث مبارکہ کی نصوصِ قطعیّہ سے عبارۃ النّص( دلالۃ القطعیہ ) کے ذریعے یہ حکم ثابت ہے کہ مسلمانوں کی جماعۃ "امّۃِ مسلمہ "کے اندر کوئی الگ مذہبی و دینی گروہ، یا فرقہ بنانا حرامِ قطعی ہے۔ فرقہ پرستی کو جو کہ قرآن و سنّۃ کی رو سے حرامِ قطعی ہے، حلال و جائز سمجھ کر اختیار کرنا بلاشبہ اللہ و رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم سے کھلا اعلانِ بغاوت، دینِ اسلام سے انحراف اور صریحاً ناجائز،حرام اور کفر و ارتداد کے مترادف و مصداق اور مماثل عمل ہے۔
اللہ تعالٰی قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : مفہوم: "(اے محبوب صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم)آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(صلّی اللہ علیہ وسلّم) سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا "(سورۃ التوبہ، اٰیۃ 24)، مفہوم: "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ"(سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر103)، مفہوم: "اور جو رسول (صلّی اللہ علیہ وسلّم) کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان (مؤمنین و مسلمین یعنی جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین) کے راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کر رکھا ہو اور ہم اسے پہنچا دیں گے جہنم میں اور وہ بہتُ بری جگہ ہے لوٹنے کی"(سورۃ النّساء اٰیۃ 115)،  مفہوم: "بیشک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے"(سورۃ آل عمران، آیۃ  19)

یا اللہ یا ارحم الرّاحمین یا قادر یا قدیر یا ربَّ العالَمین اپنے اسماءُ الحُسنٰی اور اپنی رحمت کے صدقے، اپنے حبیبِ کریم رؤف الرّحیم رحمۃُ لِّلْعالَمین  صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کے صدقے، قرآن مجید کے واسطے و وسیلے سے اُمّۃِ مصطفوی پر رحم فرما، اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم صدقِ نیت اور اخلاصِ قلبی کے ساتھ، جماعتِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے طرزِ فکروعمل، طور و طریقوں اور انہی کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے ہوئے قرآن و سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات، دینِ اسلام کے مقاصدِ اصلی کی تفہیم وتعمیل، اطاعت و اتباع، ترویج و تبلیغ اور غلبہ و نفاذ کی حتی المقدور سعی ءِ جمیلہ کرسکیں اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم فرقہ پرستی چھوڑ کر اتحادِ اُمَّت و اخوّۃِ اسلامی کے احیاء اور اللہ کی زمین و اللہ کے بندوں پر اللہ کے نازل کردہ دینِ اسلام کو غالب و سربلند، برترو بالادست کر نے کی بامقصد و حکیمانہ، پُرعزم و کامیاب اور مُخلصانہ جِدّوجُہد کرسکیں اور ہر مرحلے پرہمیں تیری تائید و نصرت حاصل رہے، یا اللہ کچھ ایسا فضل وکرم کردے کہ غلبہءِ اسلام ہر مؤمن و مسلم کی زندگی کا نصبُ العین اور مقصود و مطلوب بن جائے۔ آمین
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)

اسلام، مسلمان اور امَّۃِ مسلمہ

اسلام، مسلمان اور امَّۃِ مسلمہ
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)
اللہ تعالٰی نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے ہمیں اپنا پسندیدہ دینِ اسلام عطا فرمایاا مگرافسوس کہ تقریباً حالیہ ڈیڑھ سو سال کے دوران بالخصوص برِّصغیر ہندوستان و پاکستان میں "اِسلام"کو ترک کرکے اُس کی جگہ بریلویت، دیوبندیت، اہلحدیثیت، سلفیت وغیرہ کو بونر فرقہ وارانہ مذاہب ایجاد واختیار کرلیاگیا۔
قرآن و سُنَّۃِ رسول اللہ ﷺ پر مبنی مُنزَّل مِن اللہ دین ِ اسلام کے ماننے اور اس پر ایمان لانے والوں کو قرآن میں اللہ تعالٰی نے "مسلمان" کے نام سے موسوم کیا اور ان سب کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا گیا مگرافسوس کہ بالخصوص برِّصغیر ہندوستان و پاکستان میں تقریباً حالیہ ڈیڑھ سو سال کے دوران "مُسلمان" کے نام کو عملاً ترک کرکے اُس کی جگہ دیو بندی، حیاتی، مماتی، تبلیغی، جماعتی، بریلوی، عطاری، طاہری، اہلِ حدیث، سلفی وغیرہ کے ناموں سے خود کو موسوم کرلیا گیا اور اپنی دینی و مذہبی شناخت و پہچان بنالیاگیا، اور اُن میں انتہائی حد تک باہمی نفرت و نفاق، مذہبی منافرت، انتشاروافتراق پیدا کرکے ایکدوسرے کا بدترین دشمن بنا کر ان میں باہم تکفیری فتاوٰی کو شعار بنالیا گیا۔
رسول اللہ ﷺ کی جماعت کا نام اُمّتِ مسلمہ تھا جو کہ جسدِ واحد کی طرح متحد و منظم تھی مگرافسوس کہ تقریباً حالیہ ڈیڑھ سو سال کے دوران "مُسلمان"کو ترک کرکے اُس کی جگہ مسلمانوں کو باہم متصادم و متحارب، بدترین دُشمن دیو بندی، حیاتی، مماتی، تبلیغی، جماعتی، بریلوی، عطاری، طاہری، اہلِ حدیث، سلفی وغیرہ فرقوں( یعنی مذہبی گروہوں) میں بانٹ کر اسلام اور مسلمانوں کی اجتماعی قُوّۃ و طاقت اور وقار کا قلع قمع کر دیا گیا۔
برِّصغیر ہندوستان و پاکستان میں بالخصوص آج کے نام نہاد کلمہ گو مسلم معاشرے کی تباہی و بربادی، اسلام کے کم و بیش تیرہ سو ابتدائی سالوں تک قرآن و سُنَّۃ رسول اللہ ﷺ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات کی تعمیل و اطاعت، اتباع ، ترویج و تبلیغ اور غلبے و نفاذ کی حتی المقدور جِدّوجُہد کی جاتی تھی مگرافسوس کہ تقریباً حالیہ ڈیڑھ سو سال کے دوران قرآن و سُنَّۃ اور مقاصدِ اسلام سے صریح روگردانی و انحراف کر کےاپنے اپنے معاشی و سیاسی اغراض و مقاصد کی تکمیل اور حصول و تحفظ کی غرض سے فرقوں کے من پسند و من گھڑت، بے بنیاد و خود ساختہ گمراہ کن انسانی و بشری افکار و نظریات ، تعلیمات و نصابات کی تعمیل و اطاعت، اتباع و ابلاغ، ترویج و تبلیغ اور غلبے و نفاذ، برتری و بالادستی اور سربلندی کی جِدّوجُہدکو اپنا مطمحِ نظر، مقصود و مطلوب اورشعار بنالیا گیا۔
اُمّتِ مسلمہ، مسلم معاشرت کے زوال و انحطاط، تنزٗلی و پستی، تباہی و بربادی ، ذلت و رسوائی اور ہر میدان میں پسپائی کے اسباب و عوامل اور متحرکات میں انہی اسباب کا سب سے بڑا ، اہم اور بنیادی کردار رہا ہے۔
بریلوی، دیوبندی، اہلِ حدیث، وہابی، سلفی، تبلیغی، جماعتی، عطاری، طاہری، ترابی، حیاتی و مماتی وغیرہ فرقہ وارانہ مذاہب کو ایجاد ہوئے اور جنم لئے ابھی تو پورے ڈیڑھ سو سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا، جو اسلام حضرت محمد رسولُ اللہ ﷺ پر اللہ تعالٰی نے نازل کیا تھا اور رسول اللہ ﷺ کی ظاہری حیاۃ طیبہ میں ہی جس کے مُکمل ہونے کا اعلان خود خالقِ کائنات اللہ ربُّ العالَمین نے قرآن مجید میں میں نے فرما دیا تھا وہ دینِ اسلام ساڑھے چودہ سو سال کا ہوا چاہتا ہے۔ فرمانِ اِلٰہی ہے "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا"﴿سورۃ المائدہ، آیۃ نمبر3﴾ مفہوم: "میں نےآج کے دن تمہارے لئے تمہارا دین کامل و مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمادیا اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے پسند فرما لیا"
اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسنديدہ دین فقط اسلام ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا : "اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلَامُ." (سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر19)، مفہوم: "بےشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے(اس کے سوا کوئی اور نہیں(‘‘
پس اسلام ایک دین ہے اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کیلئے پسند فرمایا ہے جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرے گا تو دنیا و آخرت میں ناکام و نامراد ہو گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :"وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُج وَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ" (سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر85) مفہوم: "’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا‘‘ ۔

واللہ و رسولہ ٗاعلم بالصواب۔
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)


بدلنے ہی ہیں تو پھر سارے نام بدلو، صرف صلاۃ و صوم ہی کیوں؟؟؟

بدلنے ہی ہیں تو پھر ساری ہی قرآنی و شرعی اصطلاحات کے نام بدل ڈالو،
صرف  صوم و صلاة کو ہى من پسند ناموں میں بدل کر صابئین (مجوسی و پارسی مشرکین) کے ساتھ مشابہت و موافقت اور مطابقت پیدا کرنے پر ہی اکتفاء کیوں کر لیا گیا   
یہ حقیقت اب تک منظر عام پر نہیں آئی کہ دراصل یہ لفظ "نماز" اپنے اسی نام کے ساتھ انہی حرکات و سکنات اور ان ہی مروجہ پانچ اوقات کے ساتھ اپنی ابتداء (اوریجن) مانوی مذھب میں قدیم پارسیوں یعنی زوروسٹرینز  
 مذھب میں رکھتا ہے(Zoroastrians)  
حکیم مانی صاحب اس مذہب کے بانی تھے اور ساسانی بادشاہوں نے اسے قبول کر لیا تھا۔اس مذہب کی بنیاد ہمارے دینِ اسلام سے لگ بھگ 400 سال قبل تیسری صدی عیسوی میں رکھی گئی ۔ نماز اس وقت سے پڑھی جا رہی ہے اور اپنی اصل میں آگ کی پوجا کا عمل ہے اور دنیا کے بچے کھچے آتش پرست آج تک اپنے آتش کدوں میں یہی نماز پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ دیکھئے (زورواسٹرینز) کی ویب سائٹ۔پارسیوں کے عبادت خانے(واقع فرئر اسٹریٹ صدر کراچی) کا وزٹ بھی کافی چشم کشا ثابت ہو سکتا ہے۔ نماز ایک قطعی غیر قرآنی  ہے اور  خلاف اسلام عمل ہے انفرادی عبادت پر مبنی اور اس کے ذریعے نجات کا مفروضہ لالچ دیتا ہے۔ نماز کے باطل فلسفے کی رو سے نمازی کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اس کو قربِ الٰہی اور خوشنودی و رضائے الٰہی حاصل ہو جائے گی۔ایک مرتبہ جب الله کو خوش کر لیا تو وہ پھر خود ہی نمازی کے تمام اغراض و مقاصد پورے فرما دے گا یعنی کہ کار کشائی و کار سازی کا سارا بار ہمارے مالک کے ذمے ڈالد جاتا ہے۔حالانکہ حکیم الامت تو یہ بتا گئے تھے کہ
   ؎  ہاتھ ہے الله کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کار کشا و کار ساز
ان اغراض و مقاصد میں روز گار کا حصول، رزق کی فراوانی، مسائل کاخاتمہ، حالات کی ساز گاری و خوشحالی، دشمن کی تباہی، حصولِ اولاد وغیرہ وغیرہ شامل ہیں اور ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی کا توشہ بھی حاصل ہوجائے گا۔یہ فلسفہ بھی باور کرایاجاتا ہے کہ تمام کردہ گناہوں اور جرائم سے معافی بھی ساتھ ساتھ ملتی جائے گی۔یعنی جو گناہ و جرائم فی الحال کئے جارہے ہیں وہ اگلی نماز پڑھتے ہی معاف ہوجائیں گے۔اس کے بعد پھر گناہ و جرم کی کھلی چھٹی۔اگلی نماز پڑھنے پر پھر مکمل معافی۔یعنی گناہ و مغفرت اور پھر گناہ کا ایک شیطانی چرخہوشیئس سرکل) ۔بالفاظ دیگر مروجہ نماز گناہوں کا لائسنس، ضمیر کی خلش کا چورن اور مغفرت کا سرٹیفیکٹ سمجھی جاتی ہے کیوں کہ خوشنودئ الٰہی سے تمام ادھورے کام مکمل اور تمام بگڑے مسائل خود بخود سنور جانے کا یقین ہوجاتا ہے اس لئے اکثریت تو داڑھی بڑھائے، ٹوپی پہنے، سب کام کاج چھوڑ صرف مسجدوں کا خوگر ہو جاتی ہے اورمیدانِ عمل میں خون پسینہ ایک کر کے جہد مسلسل کے قابل ہی نہیں رہتی، اس بیکاری میں جو بھی روکھی سوکھی کسی کے طفیل مل جاتی ہے وہی کھا کر شکر ادا کیا جاتا ہے۔صلاحیتیں مرد ہ ہو جاتى ہیں اور "اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں" کے اصول کے تحت کچھ کئے بغیر خوش حالی کا مسلسل انتظار ہڈیوں کو زنگ لگا دیتا ہے۔البتہ زیادہ ہوشیار لوگ اور چالاک شکاری، نمازی کا نقاب اوڑھے اپنی تمام جائر و ناجائز مطلب براریاں، الله کے احکام کی نافرمانیاں کرتے ہوئے، پوری بھی کر لیتے ہیں اور معاشرے میں "بے تاثیر و نام نہاد زُہد و تقوٰی  کی بنیاد پر معتبر بھی بنے رہتے ہیں۔
الله کے نازل کئے ہوئے دین "اسلام" میں نماز نام کی کوئی چیز داخل و شامل نہیں هے۔ قرآن و سنة میں کہیں بھی "نماز" کا  لفظ آیا ہی نہیں  ہے۔
الله تعالٰی نے جو عبادات فرض کی ہیں اُن میں "نماز پڑھنا"شامل نہیں ہے. 
صلٰوۃ قائم کرنا، بیت الله کا حج کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا  رمضان المباک کے صیام کا اہتمام کرنا شامل ہیں، قرآن و سُنَّۃ میں نماز پڑھنے کا کہیں کوئی حکم ہے نہ ذکر و بیان ہے۔
قرآن و سُنَّۃ میں مقرر کردہ شرعی اصطلاح "صلاۃ" "صلوٰۃ" کے مترادف کے طور پر لفظ "نماز" کا استعمال کسی طرح بھی مناسب و موزوں ہے نہ ہی جائز ہے کیونکہ لفظ نماز " صلاۃ (صلوٰۃ")کا متبادل و مترادف ہو ہی نہیں سکتا صلاۃ و صلٰوۃ کا ترجمہ "نماز" ہر گز جائز نہیں
دینِ اسلام میں اللہ سبحانہٗ و تعالٰی نے صلاۃ قائم کرنے کا حکم دیا ہے نماز پڑھنے کا قرآن و سُنَّۃ میں کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا! قرآن و سُنَّۃ میں نماز پڑھنے کا کہیں ذکرنہیں ، ہرجگہ"صلاۃ "قائم کرنے" کا حکم آیا ہے، لِہٰذا اس افضل ترین عبادۃ اور اسلام کے رکنِ ثانی قیام صلاۃ کو نماز پڑھنا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی مخالفت و نافرمانی اورصریح انحراف ہے لہٰذا نماز لفظ کو ترک کرکے اصل لفظ صلاۃ کو اختیار کرنا لازم ہے۔
پانچ وقتی اس عبادۃ کو نمازِ پنجگانہ نہیں صلٰوۃِخمسہ یا صلاۃُ الخمسہ کہیئے، نماز ِجمعہ نہیں صلاۃُ الجمعہ، نمازِ عید نہیں صلاۃُ العید، نمازِ جنازہ نہیں صلاۃُ الجنازہ، نمازِ تسبیح نہیں صلاۃُ التسبیح، نمازِ فجر نہیں صلاۃُ الفجر ، نمازِ ظہر نہیں صلاۃُ الظہر ، نمازِ عصرنہیں صلاۃُ العصر، نمازِ مغرب نہیں صلاۃُ المغرب ، نمازِعشاء نہیں صلاۃُ العشاءکہیئے۔ صوم کو روزہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں جس طرح لفظِ عبادت، تعوّذ، تسمیہ، ثناء، سحر، افطار، عبادت، مسجد، امام، خطیب، جماعت، فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء، خطبہ، دعاء، وضوء، مؤذِن، اَذان، فرض، واجب، سُنّت، نفل، تکبیرتحریمہ، اقامت، نیّت، رکعت، قیام، قعود، قرأت، رکوع، سجدہ، تسبیح، قعدہ، سجدہءِ سہو، سلام، جنازہ، میّت، قبر، تکفین، تدفین، لحد، تکبیر، ذبیحہ، حلال، حرام، مکروہ، منبر، خطبہءِ جمعہ، خطبہءِ عید، قرآن، زکٰوۃ ، حج، جہاد، عمرہ، اعتکاف، استخارہ، صلٰاۃُ التسبیح، کفارہ، صدقہءِ فطر، عیدُالفطر، عیدُالاضحٰی، عمرہ، قضاء، طواف، عدالت، حکم، شریعت، خلافت، حقوق اللہ، حدود اللہ، حدِّقذف، قتلِ عمد، قتلِ خطأ، تصوّف، طریقت، صفت ایمانِ مفصَّل، صفت ایمانِ مجمل، مُتّقی، شہید، تفسیر، ترجمہ، حدیث، تقوٰی، شریعت، بدعت، فقہ، اجتہاد، استنباط، غزوہ، مذہب، رفعُ الیّدَین، صحیح مسلم، صحیح بخاری، التحیات، تکبیرات تشریق، مستحب، جہری قراءت، تشہد، امامِ اعظم، تراویح، کلمہءِ طیب، کلمہءِ شہادت، کلمہءِ تمجید، کلمہءِ توحید، کلمہءِ استغفار، کلمہءِ ردِّ کفر، نفل تحیّۃُ المسجد، نفل تحیّۃ الوضوء، تہجّد، وتر، دعاءِقنوت، مدرسہ، دارُالعلوم، دارُالافتاء، جامعہ عربیہ، کعبۃُ اللہ، حجرِ اسود، سورۃ، آیۃ، اُسوۃُ الحسنہ، حجۃُ الوداع، سورۃ فاتحہ، سورۃ بقرہ وغیرہ کے نام ہیں کہ ان سمیت متعدد اسلامی و قرآنی اصطلاحات و الفاظ و کلمات کوشریعۃِ اسلامیہ(قرآن و سُنَّۃ) میں مخصوص عبادات، اعمال، مقدس مقامات و اشیاء،شعائر ِ اسلامی وغیرہ کے لئے خاص نام مقرر فرما دیا ہے تو صاف ظاہر کہ جب ہم انسانوں کے مقرر کردہ ناموں کو بھی تبدیل نہیں کرسکتے جیسے کہ اپنے والدِ گرامی، اپنے ملک، اپنے صوبے اور شہر کے نام تک کو خاص طریقہءِ کار پر عملدرآمد کے اور معقول و مناسب عذر،وجہ وجواز کے بغیر تبدیل نہیں کر سکتے تو بلا تمثیل اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ نے جو نام مقرر اور خاص کر دیئے ہیں اُن کو تبدیل کس طرح کیا جا سکتا ہے؟اور پھر نماز تو قبل از اسلام سے مجوسیوں (صابئون) کی پوجاپاٹ کا قدیم نام ہے ۔ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ نے کسی بھی معاملے میں یہود و نصارٰی، صابئین سمیت کُفاّرومشرکین کی مشابہت اختیار کرنے سے صاف صاف منع فرمایا ہے۔ لِلّٰہ ذرا سوچیئے، غوروفکر کیجئے، لکیر کے فقیر مت بنیئے، فرقہ پرست مذہبی عناصر کی اندھی کسی طرح بھی جائز نہیں بالکل اُسی طرح جس طرح سے کہ اسلام میں فرقے حرام ہیں اور ان کے ساتھ وابستگی اختیار کرنا حرام و ناجائز ہے۔
ہر کلمہ گو کو اندھی تقلید کے بجائے اللہ کی عطا کردہ عظیم نعمت عقلِ سلیم کو بروئے کار لانے اور سوچنے سمجھنے، غور و فکر کرنت کی ضرورت ہے۔
((تحقیق و تحریر:علّامہ مفتی پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں


بےچارہ کون؟ میں یا وہ موصوف؟ لفظِ خدا اور نماز و صلاۃ پر ایک دلچسپ مباحثہ


حق پر کون؟ 
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر تحریک نفاذ آئین، قرآن و سنۃ پاکستان                                                 لفظِ الله و خدا اور صلاۃ و نماز 
پر ایک دلچسپ مکالمہ و مباحثہ
سرِ راہ ملاقات ہو گئی، علیک
 سلیک کے بعد وہ فرمانے لگے"کیسے ہو؟"
ہم نےعرض کیا: "خدا کا شکر ہے، خداوندِ دو عالم کے کرم سے سب ٹھیک ہے، آپ کیسے ہیں؟"
وہ فرمانے لگے: "الله کا شکر ہے ... اور ہاں، یہ تم نے کیا کہا؟ ’خدا‘ کا شکر ہے؟ تمہیں معلوم ہے؟ خدا نہیں کہتے، الله کہتے ہیں"
ہم نےعرض کیا: "خدا سے میری مراد ظاہر ہے "الله" ہی ہے، میں مجوسی بھی تو نہیں جو آپ کو میرا لفظ "خدا" بولنا اتنا کھٹکا ہے"۔
اُن کا ارشاد ہوا: "جب تمہارے پاس لفظ "الله" موجود ہے، تو پھر "خدا" کہنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی اس کا کیا جواز ہے؟ فارسی مجوسیوں کی زبان ہے، تم مجوسی نہ ہو کر بھی ان کی زبان بول رہے ہو! اور وہ بھی"الله تعالٰی" کی شان میں! لا حول ولا قوۃ الا بالله، کیا زمانہ آ گیا ہے! کسی کو کام کی بات بتائیں تو ناک بھوں چڑھاتا ہے"۔
ہماری طبیعت تو خاصی مکدر ہوئی، تاہم یہ مکالمہ چونکہ ہمارے صدر دروازے پر ہو رہا تھا، سو ہم نے خوش اخلاقی کو خود پر لازم رکھتے ہوئے کہا: "چھوڑئیے! آپ کن چکروں میں پڑ گئے۔ آئیے، آپ کو چائے پلاتے ہیں"۔
وہ کہنے لگے:"نہیں، میرا روزہ ہے، اور نماز پڑھنے کا وقت بھی ہو رہا ہے، میں چلوں گا۔"خدا" اور "الله" کے فرق پر پھر بات ہو گی"۔
وہ جانے لگے تو ہم نے روک لیا: "تو آپ نماز پڑھتے ہیں؟"۔ جواب ملا: "ہاں، کیوں؟ تم نہیں پڑھتے کیا؟"۔
ہم نے عرض کیا: "حضور! نماز تو وہ ہے جو مجوسی پڑھتے ہیں، اور "نماز و روزہ نام کی کسی عبادت کا نہ قرآن شریف میں ذکر ہے اور نہ ہی سُنَّۃ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم (کسی صحیح حدیث) میں۔ یہ عبادت آپ نے کہاں سے لے لی؟" ۔
بہ آوازِ بلند "لاحول" کا مکرر ورد کرتے ہوئے انہوں نے دو تین بار "استغفرالله" کہا اور بولے: "کیا کفر بک رہے ہو میاں؟ میں بھی مجوسی تو نہیں جو تمہیں میرا "نماز" کہنا اتنا برا لگا ہے۔ اور کیا کہتے ہیں نماز روزے کو؟ نماز، روزہ ہی تو کہتے ہیں!"۔
ہم نے عرض کیا: قرآن مجید اور سنة رسول الله صلى الله عليه و اله و سلم ميں صوم و صلوٰۃ کے الفاظ آئے ہیں" اور آپ ہی کا فرمان آپ کو یاد دلایا ہے کہ جب آپ کے پاس لفظ "صوم و صلوٰۃ" موجود ہیں تو نماز و روزہ کہنے کی ضرورت و اہمیت، افادیت و ناگزیریت اور جواز کیا ہے؟
 وہ ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے، مگر ہم نے بات جاری رکھی: "حضور والا! الله کریم بھی جانتا تھا اور جانتا ہے کہ دینِ اسلام کسی ایک محدود علاقے و وقت کےلئے نہیں پورے کرہء ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کےلئے اور روز قیامت کے جن و انس کےلیے نور ہدایت ہے، مکمل ضابطہء حیات ہے اور الله کریم یہ بھی جانتا ہے کہ دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں، مگر الله تعالٰی نے اپنی جن مخصوص فرض عبادات و اعمال و شعائرِ اسلامیہ کے نام خود مقرر فرما دیئے ہیں اُن میں تبدیلی، ترمیم و تحریف کا انسانوں کو کوئی حق و اختیار حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہے، نه ہی جن و انس کے کسی مخصوص طبقے یا گروہ یا تمام جن و انس کے اجتماع کو قرآن مجید کے الفاظ کا متبادل ایجاد و اختیار کرنے کا کوئی حق و اختیار ہے۔ قرآن و سُنَّۃ میں مقرر کردہ شرعی اصطلاح "الصلاۃ" کےلئے "نماز" کا لفظ متبادل ہے نہ ہی لفظ صلاۃ کا ترجمہ ہے! ہم نے اُن سے مزید عرض کیا کہ دین میں رب کائنات نے صلوٰۃ خمسہ قائم کرنے کو فرض قرار دیا ہے نماز کو نہیں! قرآن مجید میں رب تعالٰی نے فرمایا ہے کہ "ان الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر" صلاة قائم نہ کرنے اور اس کے بجائے نماز پڑھنے کی وجہ ہی ہے کہ نماز پڑھنے والے افراد بے حیائی و برائی کے کاموں میں بکثرت ملوث پائے جاتے ہیں اور بے نمازیوں کی نسبت معاملات و کردار میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں آپ دن رات مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ الله تعالٰی کی گارنٹی کے برعکس نمازی حضرات آلا ما شاء الله تمام معاملات میں قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کی بے دھڑک اور بلا خوف و خطر، دیدہ دلیری سے نافرمانی کرتے، جھوٹ بولتے، جھوٹی گواہی دیتے، خیانت کرتے، بددیانتی اور جرائم، وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی کرتے، ناجائز منافع و مال کماتے نظر آتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ نماز پڑھنا، صلاة قائم کرنے کا مماثل و مترادف اور مصداق نہیں ہو سکتا، اسی لیے قرآن و سنة میں نماز کا کہیں ذکر نہیں، ہر جگہ"صلاۃ قائم کرنے" کا حکم آیا ہے، لِہٰذا اس افضل ترین عبادت کو نماز پڑھنا نہیں، صلاۃ قائم کرنا یا اقامتِ صلاۃ کہئے۔ اس عبادت کےلئے نمازِ پنجگانہ کے الفاظ غلط ہیں، اُسے صلٰوۃ خمسہ کہئے۔
 ذرا تفصیل میں جا کر ہم نے مثالوں سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی اور بتایا کہ نماز ِجمعہ نہیں صلاۃُ الجمعہ، نمازِ عید نہیں صلاۃُ العید، نمازِ جنازہ نہیں صلاۃُ الجنازہ، نمازِ تسبیح نہیں صلاۃُ التسبیح، نمازِ فجر نہیں صلاۃُ الفجر، نمازِ ظہر نہیں، صلاۃُ الظہر، نمازِ عصر نہیں صلاۃُ العصر، نمازِ مغرب نہیں صلاۃُ المغرب، نمازِعشاء نہیں صلاۃُ العشاء کہنا چاہیے۔ ہم نے اُن سے مزید یہ بھی عرض کیا کہ جس طرح لفظِ عبادت، تعوّذ، تسمیہ،  ثناء، سحر، افطار، عبادت،  مسجد، امام، خطیب، جماعت،  فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء، خطبہ، دعاء، وضوء، مؤذِن، اَذان، فرض، واجب، سُنّت، نفل، تکبیر تحریمہ، اقامت، نیّت، رکعت، قیام، قعود، قرأت، رکوع، سجدہ، تسبیح، قعدہ، سجدہءِ سہو، سلام، جنازہ، میّت، قبر، تکفین، تدفین، لحد، تکبیر، ذبیحہ، حلال، حرام، مکروہ، منبر و محراب خطبہءِ جمعہ، خطبات عیدین،  قرآن، زکٰوۃ، حج، جہاد، عمرہ، اعتکاف، استخارہ، صلٰاۃُ التسبیح، کفارہ، صدقہءِ فطر، عیدُالفطر، عیدُالاضحٰی، عمرہ، قضاء، طواف، عدالت، حکم، شریعت، خلافت، حقوق الله، حدود الله، حدِّ قذف، قتلِ عمد، قتلِ خطأ، تصوّف، طریقت، صفت ایمانِ مفصَّل، صفت ایمانِ مجمل، مُتّقی، شہید، تفسیر، ترجمہ، حدیث، تقوٰی، شریعت، بدعت، فقہ، اجتہاد، استنباط، غزوہ، مذہب، رفعُ الیّدَین، صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحاح ستہ، التحیات، تکبیرات تشریق، مستحب، قرأت جہری قرأة سرى صلاة، تشہد، امامِ اعظم، تراویح، کلمہ طیب، کلمہءِ شہادت، کلمہءِ تمجید، کلمہءِ توحید، کلمہءِ استغفار، کلمہءِ ردِّ کفر، نفل، تحیّۃُ المسجد، نفل تحیّۃ الوضوء، تہجّد، وتر، دعاءِقنوت، مدرسہ، دارُالعلوم،  دارُالافتاء، جامعہ عربیہ، کعبۃُ الله، حجرِ اسود، سورۃ، آیۃ، ایة كريمه، اُسوۃُ حسنة، حجۃُ الوداع، سورۃ فاتحہ، سورۃ بقرہ وغیرہ سمیت متعدد اسلامی و قرآنی اصطلاحات و الفاظ و کلمات اور شریعۃِ اسلامیہ میں اصطلاحات قرآنی و شعائر ِاسلام کے مقررہ نام بلاوجہ و جواز تبدیل نہیں کر سکتے بلکہ عموماً اصل نام ہی اختیار کرتے ہیں بعینہٖ لفظِ"صلاۃ" و "صوم" قرآن و سُنَّۃ کی مقرر کردہ اصطلاحات ہیں جو مذکورہ مخصوص عبادات کے نام ہیں لہٰذا اُن کا کوئی ترجمہ ہو سکتا ہے نہ ہی ان کا ترجمہ کرنا جائز ہے اور نہ ہی ان کے اصل نام "صلاۃ" و "صوم" وغیرہ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ نماز پڑھنے کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ہے، قرآن و سنة، ائمہء اربعہ، کتب فقہ، کتب حدیث، میں آپ کو جا بجا صوم اور صلاة کے الفاظ ہی ملتے ہیں ان سب میں ہر جگہ "اقامتِ صلاۃ" یعنی صلاۃ قائم کرنے کا حکم ہے جو کہ فرض عبادات میں سب سے اہم و مقدم و افضل ترین ہے"
وہ پھٹ پڑے: "تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟ اب تم یہ کہو گے کہ ہمیں نماز پڑھنی بھی اپنی اپنی زبان میں چاہئے عربی ہی کیوں؟ ہے نا؟"۔
ہم نے عرض کیا: "نماز نہیں حضرت! صلوٰۃ! اور وہ بالکل اس طرح جیسے نبی کریم نے فرمایا: صلوا کما رایتمونی اصلی!
 لفظ نماز سے آپ کی مراد اگر وہی صلاۃ ہے،۔ جس کا قرآن و سنت۔ میں حکم ہے تو نماز کے بجائے صلاۃ کہنے میں حرج ہی کیا ہے؟ اور اگر وہ نماز مراد ہے جو قبل از اسلام سے مجوسیوں کی پوجا پاٹ کا نام ہے تو وہ نہ میں پڑھتا ہوں نہ آپ کو پڑھنی چاہیے، ہم نے عرض کیا کہ اگر نام میں کچھ نہیں رکھا اور اُس کی کوئی خاص اہمیت نہیں تو الله کے نازل کردہ دین کا نام یعنی لفظ "اسلام" اور اس دین پر ایمان لانے والوں کو الله نے قرآن میں جس نام "مسلم"  مسلمان" سے منسوب کیا ہے اور ان کو مؤمن و مسلم قرار ديا ہے اُن سمیت ساری ہی دینی و قرآنی اصطلاحات کے ناموں کو بدل دیجیے ورنہ صلاۃ و صوم پر بھی اسی طرح رحم فرمائیے جس طرح  زکوٰۃ، مسلمان، اسلام، قرآن، مسجد، سجدہ، رکوع، رکعت وغیرہ سمیت دیگر سینکڑوں عربی ناموں پر آپ نے ابھی تک رحم فرمایا ہوا ہے۔ ورنہ الله کے مقرر کردہ ناموں کو تبدیل کرنے سے پہلے اپنے ملک و صوبے، شہر، حاکمِ وقت اور والدِ گرامی کے اسماء کو بھی ضرور بدل دیجیے کیونکہ وہ سب انسانوں کے مقرر کیے ہوئے اور رکھے ہوئے نام ہیں جب الله تعالٰی اور رسول الله ﷺ کے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے تو پھر بندوں کے مقرر کردہ ناموں کو کیوں نہیں بدل لیتے؟ ہم نے مزید عرض کیا پریشانی کی نہیں غور و فکر کرنے اور سوچنے سمجھنے کی بات ہے، خاطر جمع رکھیے اور جائیے کہ آپ کی مسجد میں آپ کی نماز کا وقت ہو چلا ہے"
 وہ پھٹ پڑے: ’’اب یہ کیا بک رہے ہو!‘‘۔
عرض کیا: ’’جناب! یہ بھی آپ کا  ہی ارشاد ہے، پرسوں جب میں نے کہا کہ اذان ہو رہی ہے تو آپ نے فرمایا تھا: یہ ہمارے فرقے کی مسجد کی اذان نہیں ہے۔ فرمایا تھا نا؟"۔
انہوں نے ہمیں یوں گھورا جیسے کچا چبا جانے کا ارادہ ہو اور سلام کہے بغیر چلے گئے۔
اور ہم سوچتے ہی رہ گئے کہ حق اور سچ  بات  لوگوں کو کس قدر ناگوارِ خاطر گذرتی ہے اب نہ جانے وہ اپنے فرقے کے مولبی سے مجھ پر کیا فتوٰی لگوائیں گے اور علم و عقل، منطق و دلائل اور مثالوں سے قرآن و سُنَّۃ کے احکام کو سمجھانے کی نہ جانے مجھے کیا سزا بھگتنی پڑے گی؟ ممکن ہے کہ شہادت ہی مقدر بن جائے۔
یا الله یا ارحم الرّاحمین یا قادر یا قدیر یا ربَّ العالَمین اپنے اسماءُ الحُسنٰی اور اپنی رحمت کے صدقے، اپنے حبیبِ کریم رؤف الرّحیم رحمۃُ لِّلْعالَمین ﷺ کے صدقے، قرآن مجید کے واسطے و وسیلے سے اُمّۃِ مصطفوی پر رحم فرما، اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم صدقِ نیت اور اخلاصِ قلب کے ساتھ، جماعتِ صحابہءِ کرام رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین کے طرزِ فکر و عمل، طور و طریقوں اور انہی کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے ہوئے قرآن و سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات، اور پیغامات، دینِ اسلام کے مقاصدِ اصلی کی تفہیم و تعمیل، اطاعت و اتباع، ترویج و تبلیغ اور غلبہ و نفاذ کی حتی المقدور سعی ءِ جمیلہ کرسکیں، اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم فرقہ پرستی چھوڑ کر اتحادِ اُمَّت و اخوّۃِ اسلامی کے احیاء اور اللہ کی زمین و اللہ کے بندوں پر اللہ کے نازل کردہ دینِ اسلام کو غالب و سربلند، برتر و بالادست کر نے کی بامقصد و حکیمانہ، پُرعزم و کامیاب اور مُخلصانہ جِدّوجُہد کر سکیں اور  ہر مرحلے پرہمیں تیری  تائید و نصرت حاصل رہے، یا الله کریم  کچھ ایسا فضل وکرم کر دے کہ غلبہءِ اسلام ہر مؤمن و مسلم کی زندگی کا نصبُ العین اور مقصود و مطلوب بن جائے۔ آمین
یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآن عام ہو جائے،.                                      ہر اِک پرچم سے اونچا پرچمِ اسلام ہو جائے

یہود و نصارٰی، صابئین، سمیت تمام کُفّارو مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہےلِہٰذالفظ "صلاۃ "اور لفظِ" نماز" بالکل الگ ہیں، نماز مجوسیوں کی عبادت ہے جبکہ صلاۃ مسلمانوں کی فرض عبادت ہے۔

یہود و نصارٰی، صابئین، سمیت تمام کُفّارو مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے
لِہٰذالفظ صلاۃ اور لفظِ نماز بالکل الگ ہیں، نماز مجوسیوں کی مشرکانہ پوجا پاٹ و مشق و وظیفہ ہے
جبکہ صلاۃ  و صلٰوۃ مسلمانوں کی افضل ترین فرض عبادت  کا اصطلاحی نام ہے۔
(تحقیق و تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)
تمام ادیان و مذاہبِ عالَم میں صرف دینِ اسلام کو ہی جامع، کامل و اکمل ہونے کا شرف حاصل ہے، دنیا کے کسی بھی بھی خطہءِ زمین  میں رہنے والا، کوئی بھی انسان ہو ، کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی نسل کا ہو، اگر وہ اپنی زندگی کے کسی شعبے کے بارے میں راہنمائی لینا چاہتا ہو ،تواس کے لیےقرآن و سُنَّہ میں کامل الوہی  راہنمائی و ہدایت کا سامان موجود ہے،اگر کوئی انسان اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی راہنمائی کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دیتاہے تو ایسے شخص کو دنیا و آخرت کی کامیابی  کا مژدہ سنایا گیا ہے، اور اس کے برعکس کوئی مسلمان اپنی زندگی کے معمولات کے سرانجام دینے میں اسلامی احکامات کی طرف دیکھنے کے بجائے اسلام دشمن لوگوں کی طرف دیکھتا ہے دیکھ کر ان کے طور طریقوں کو اختیا ر کرتا ہے، یہ  عبادات کے طور طریقے ہوں یا  رہن سہن کے، معاشرتی رسومات و روائج  میں ہوں یا   شکل و صورت میں ہوں یا  پھرلباس میں ، کھانے پینےمیں ہوں یا سونے جاگنے میں ، معاملات میں ہوں یا معاشرت میں، اَخلاق میں ہوں یا کسی بھی طریقے میں ہوں  تو اس امر کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے، ایسے شخص کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فیصلہ سنا دیا ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی کی مشابہت اختیار کرے گا، کل قیامت میں اس کاحشر اسی شخص کے ساتھ ہو گا؛اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر ،کسی بھی کام میں غیر مسلموں کا طریقہ یا مشابہت اختیار نہ کریں، ہمارے ایمان کا اوّلین  تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے  اللہ کےمحبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اور سیرت سے محبت کرتے رہیں، آپ ﷺ کی مبارک سنتوں کو اپنی زندگی میں  ہرجگہ اپناکر، بالخصوص قرآن و سُنّۃ کے احکامات و فرمودات اور تعلیمات و ہدایات کی تعمیل، اطاعت و اتباع اسی طریقے سے کریں جو طریقہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سکھایا اور بتایا اور جس طریقے سے صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے عمل کیا ہے ہمیں اپنی عملی زندگی  رسول اللہ ﷺ کے اُسوۃُ الحسنہ کے مطابق اُتوار رکھنی چاہیئے  تاکہ ہم  اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوں اور اس خوفناک دن کی رسوایوں سے بچ سکیں جس کو یومُ القیامۃ کہا جاتا ہے۔
تشبیہ کی تعریف
            اپنی حقیقت ، اعمال و افعال، عبادات، مقاماتِ مقدسہ، سمیت  شعائرِ اسلامیہ کے اسماء ، اپنی صورت، ہیئت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اختیار کرنے اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبّہ  تشبیہہے مثلاً جیسے اللہ تعالٰی نے ایمان والوں یعنی مسلمانوں  پر صلاۃ قائم کرنے کو فرض  کیا ہے  اُس  اہم ترین فرض عبادت  کے قرآن میں مقرر کردہ اصطلاحی  وخاص نام صلاۃ کو  مجوسیوں کی پوجا پاٹ والے نام نمازسے  بدل دینا جائز نہیں کیونکہ مجوسی قبل از اسلام سے نماز پڑھتے ہیں، جو مسلمانوں کی عبادت کا نام کبھی نہیں ہو سکتا، مسلمانوں کو لازماً صلاۃ قائم کرکے اُس فرض کو ادا کرنا ہے اور اسی طرح صلاۃ قائم کرنی ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ اور صحابہءِ  کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے کی ہے۔ لفظِ صلاۃ کو نماز اور قائم کرنے کو پڑھنےمیں  بدلنا محض بدعت ہی نہیں ہے بلکہ دین کے حکم میں ترمیم و تحریف ہے جو کہ حرام ہے۔
شریعت مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع،رہن سہن اور چال ڈھال، ناموں اور اعمال و افعال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،اس امتیاز کے لیے ظاہری علامت ، عبادات و اعمالِ صالحہ و مقدس اشیاء و مقامات  کے قرآن و سُنَّۃ میں مقرر کردہ اصطلاحی نام، داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہ لباس ظاہری اور خارجی علامت ہے۔اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بہ موقع اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم کو غیرمسلموں کے مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ذیل میں ان میں سے کچھ احکامات ذکر کیے جاتے ہیں۔
اللہ رب العزت کی طرف سے بواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیرمسلمین کفارویہود اور نصاریٰ سے دور رکھنے کی متعدد مقامات پر تلقین کی گئی، مثلاً
﴿یَآأیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ أولیاء، بَعْضُہُمْ أولیاءُ بَعْضٍ، وَّمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ، فاِنّہ مِنْہُمْ، انّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ﴾ المآئدة ۵۱
اے ایمان والو! مت بناو یہود اور نصاریٰ کو دوست ،وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے،اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے اِن سے ،تو وہ انہی میں سے ہے ،اللہ ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو۔ تفسیر عثمانی، ص ۱۵۰
﴿یَآ أیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾آل عمران ۱۵۶
 اے ایمان والوتم نہ ہو جاوٴان کی طرح جو کافر ہوئے۔تفسیر عثمانی، ص ۹۰
            سنن ترمذی میں ایک روایت ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
 جو شخص ملتِ اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ،اِرشادفرمایا کہ تم یہود اور نصاری کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو۔
سنن الترمذي، کتاب الاستیذان، رقم الحدیث ۲۶۹۵
اس حدیث کی شرح میں صاحب تحفة الأحوذي لکھتے ہیں کہ
            مراد یہ ہے کہ تم یہود و نصاریٰ کے ساتھ ان کے کسی بھی فعل میں مشابہت اختیار نہ کرو۔تحفة الاحوذی ۷/۵۰۴
سنن ابی داوٴد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہو گا
 سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث ۴۰۳۰
علامہ سہارنپوری  لکھتے ہیں کہ مشابہت عام ہے ، خیر کے کاموں میں ہو یا شر کے کاموں میں، انجام کار وہ ان کے ساتھ ہو گا، خیر یا شر میں۔بذل المجہود ۴/ ۵۹

مُلا علی  القاری مَنْ تَشَبَّہ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ جو شخص کفار کی، فساق کی، فجار کی یاپھر نیک و صلحاء کی، لباس وغیرہ میں ہو یا کسی اور صورت میں مشابہت اختیار کرے وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا۔مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،رقم الحدیث ۴۳۴۷، ۸/۲۲۲،رشیدیہ
ایک اور حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے
 ہم میں،اور مشرکین کے درمیان فرق کی علامت  ٹوپیوں پر عمامہ کا باندھنا ہے۔ یعنیہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں اور مشرکین بغیر ٹوپی کے عمامہ باندھتے ہیں۔سنن ابی داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث ۴۰۷۸۔ مرقاة المفاتیح، رقم الحدیث ۴۳۴۰، ۸/۲۱۵
تشبہ کے بارے میں آثارِ صحابہ و تابعین
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں جب سلطنتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیاتو حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اس بات کی فکر دامن گیر ہوئی کہ مسلمانوں کے عجمیوں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے اسلامی امتیازات میں کوئی فرق نہ آ جائے ، اس خطرے کے پیش ِ نظر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک طرف مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کی، تو دوسری طرف غیرمسلمین کے لیے بھی دستور قائم کیا۔
جیسا کہ حضرت ابو عثمان النہدی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ ہم عتبة بن فرقد کے ساتھ آذربائیجان میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خط بھیجا جس میں بہت سارے احکامات و ہدایات تھیں، منجملہ ان کے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ  تم اپنے آپ کو اہلِ شرک اور اہلِ کفر کے لباس اور ہیئت سے دور رکھنا۔
جامع الأصول، الکتاب الأول في اللباس، الفصل الرابع في الحریر، النوع الثاني، رقم الحدیث ۸۳۴۳، ۱۰ / ۶۸۷،مکتبة دارالبیان
 ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ اے مسلمانوں! ازار اور چادر کا استعمال رکھو اور جوتے پہنو اور
 اپنے جدِ امجد اسماعیل علیہ السلام کے لباس لنگی اور چادرکو لازم پکڑو اور اپنے آپ کو عیش پرستی اور عجمیوں کے لباس اور ان کی وضع قطع اور ہیئت سے  سے دور رکھو، مبادہ کہ تم لباس اور وجؑ قطع میں عجمیوں کے مشابہہ بن جاؤ
موٹے ، کھردرے اور پرانے لباس پہنو۔شعب الایمان، رقم الحدیث ۵۷۷۶، ج۸، ص۲۵۳
اور دوسری طرف اہلِ نصاریٰ اور یہود کو دارالاسلام میں رہنے کی صورت میں بہت سے اُمور کا پابند کیا، جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ہی مظبوط انداز میں اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی اَقدار کی حفاظت کی گئی ہے۔
چنانچہ! فتح شام کے موقع پر نصاریٰ شام کے عہدِ صلح کے بعد جو شرائط طے کی گئیں وہ یہ تھیں
 ہم نصاریٰ شام مسلمانوں کی تعظیم و توقیر کریں گے، اور اگر مسلمان ہماری مجالس میں بیٹھنا چاہیں گے توہم ان کے لیے مجلس چھوڑ دیں گے، اور ہم کسی امر میں مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت اختیار نہیں کریں گے، نہ لباس میں ، نہ عمامہ میں ، نہ جوتے پہننے میں ، اور نہ سر کی مانگ نکالنے میں ، ہم اُن جیسا کلام نہیں کریں گے، اور نہ مسلمانوں جیسا نام اور کنیت رکھیں گے، اور نہ زین کی سواری کریں گے، نہ تلوار لٹکائیں گے، نہ کسی قسم کا ہتھیار بنائیں گے، اور نہ اُٹھائیں گے، اور نہ اپنی مہروں پر عربی نقش کندہ کروائیں گے، اور سر کے اگلے حصے کے بال کٹوائیں گے، اور ہم جہاں بھی رہیں گے، اپنی ہی وضع پررہیں گے، اور گلوں میں زنار لٹکائیں گے، اور اپنے گرجاوٴں پر صلیب کو بلند نہ کریں گے، اور مسلمانوں کے کسی راستہ اور بازار میں اپنی مذہبی کتاب شائع نہیں کریں گے، اور ہم گرجاوٴں میں ناقوس نہایت آہستہ آواز میں بجائیں گے، اور ہم اپنے مُردوں کے ساتھ آگ لے کر نہیں جائیں گےیہ آخری شرط مجوسیوں سے متعلق ہے۔
حضرت عبد الرحمن بن غنم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ شرائط نامہ لکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ملاحظہ کرنے کے لیے رکھا، تو انہوں نے اس شرائط نامہ میں کچھ مزید اضافہ کروایا جو یہ تھا
 ہم کسی مسلمان کو ماریں گے نہیں ، یعنی تکلیف نہیں پہنچائیں گے، ہم نے انہی شرائط پر اپنے لیے اور اپنے اہلِ مذہب کے لیے امان حاصل کیا ہے، پس اگر ہم نے شرائط مذکورہ بالا میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی تو ہمارا عہد اور امان ختم ہو جائے گا اور جو معاملہ اہلِ اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہی معاملہ ان کے ساتھ کیا جائے گاتفسیر ابن کثیر، سورہ توبة۲۹
ایک اورروایت جسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے،اس میں کچھ مزید شرائط کا بھی ذکر ہے،جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں
 ہم اپنی آبادی میں کوئی نیا گرجا گھر نہیں بنائیں گے، اور جو گرجا گھرخراب ہو جائیں گے، اس کی مرمت نہیں کروائیں گے، اور جو خطہٴ زمین مسلمانوں کے لیے ہو گا، ہم اُسے آباد نہیں کریں گے، اور کسی مسلمان کو دن ہو یا رات، کسی وقت بھی گرجا میں اُترنے سے نہیں روکیں گے، اور اپنے گرجاوٴں کے دروازے مسافروں اور گزرنے والوں کے لیے کشادہ رکھیں گے، اور تین دن تک ان مسلمان مہمانوں کی مہمان نوازی کریں گے، اور اپنے کسی گرجا اور کسی مکان میں مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے والے کو ٹھکانہ نہیں دیں گے، اور مسلمانوں کے لیے کسی غل و غش کو پوشیدہ نہیں رکھیں گے، اور اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم نہیں دیں گے، اور کسی شرک کی رسم کو ظاہراً اور اعلانیہ طور پر نہیں کریں گے، اور نہ کسی کو شرک کی دعوت دیں گے، اور نہ اپنے کسی رشتہ دار کو اسلام میں داخل ہونے سے روکیں گے
مذکورہ بالا شرائط کو دیکھتے ہوئے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اسلامی تہذیب و تمدن اور تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے کس قدر اہتمام کیا گیا؛ اس لیے کہ اسلام میں غیروں کے طور طریقوں کاداخل ہو جانا مسخِ اسلام اور تخریبِ اسلام ہے۔
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تشبہ بالغیر فی الحقیقت تخریبِ حدود اور ابطالِ ذاتیات کا نام ہے۔ مجموعہ رسائل حکیم الاسلام ، اسلامی تہذیب وتمدن۵/۴۸۵
غیروں کے ساتھ اختلاط ، میل جول اختیار کرنے سے کس قدر سختی سے اور کن کن طریقوں سے روکا گیا، اس کا اندازہ اس مکالمے سے بخوبی ہو سکتا ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا، وہ یہ ہے
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے یہاں ایک نصرانی کاتب ملازم ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تجھے کیا ہو گیا؟اللہ تجھے غارت کرے ! کیا تو نے اللہ کا یہ حکم نہیں سنا کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناوٴ؛ کیوں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تو نے کسی مسلمان کو ملازم کیوں نہیں رکھا؟
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جواب دیا کہ اے امیر الموٴمنین! میرے لیے اس کی کتابت ہے اور اس کے لیے اس کا اپنا دین۔ یعنی وہ نصرانی ہے تو کیا ہوا، مجھے تو اس کی کتابت سے غرض ہے، میرا اس کے دین سے کیا تعلق؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جن کی اہانت اللہ تعالیٰ نے کی ہے، میں ان کی تکریم نہیں کروں گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا ہے میں ان کو عزت نہیں دوں گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہے میں ان کو قریب نہیں کروں گاالمستطرف ۲/۶۰۔
            اس پر مغز مکالمے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ
            ۱ جب تک کوئی اضطراری حالت داعی نہ ہو اس وقت تک اصل یہی ہے کہ غیر مسلمین سے استغاثہ اور وہ بھی ایسا کہ جس میں ان کی تکریم ہوتی ہو ، دینِ متین کی فہم حقیقی اورعقل و دانش اس کی اجازت نہیں دیتی ۔
            ۲ یہ عذر قابلِ سماعت نہیں ہے کہ ہمیں تو ان کی صرف خدمات درکار ہیں،نہ کہ ان کا مذہب؛کیوں کہ اس تحصیل ِ خدمت کے ذیل میں ان کے ساتھ معیت ہماری اس شدت اور تغلیظ کو کم کر دے گی یا محو کر دے گی جو ایک مسلمان کا اسلامی شعار بتایا گیا ہے، اور یہی قلتِ تغلیظ بالآخر مداہنت و چشم پوشی اور اعراض عن الدین کا مقدمہ بن کر کتنے ہی شرعی منکرات کی نشوونما کا ذریعہ ثابت ہو گی۔
 حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی شخص ان جیسا تدین نہیں لا سکتا؛ لیکن اگر کوئی شخص بالفرض لے بھی آئے تو کوئی وجہ نہیں کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو تو کفار کی خدمات حاصل کرنے سے روکا جائے اوراسے نہ روکا جائے۔
یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ ایک شخص پختہ اور راسخ الایمان بھی ہے اور اس اشتراک ِ عمل سے اس میں کوئی تزلزل بھی نہیں آسکتا؛ لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسی ذمہ دار ہستی کا اشتراکِ عمل، عامة المسلمین کے لیے کفار سے استعانت اور اختلاط کے معاملے میں شبہ کا باعث بن جائے اور عوام اپنے لیے اس فعل کو حجت شمار کریں اور اس طرح یہ اختلاط و التباس عام ہو کر ناقابلِ تدارک مفاسد کا باعث بن جائے۔
جس مخلوق کی اس کے خالق نے تکریم نہ کی، اور ان کے لیے عزت کا کوئی شمہ گوارا نہ کیا، تواُسی خالق کے پرستاروں کی غیرت و حمیت کے خلاف ہے کہ وہ اس کے اعداء کی تکریم کریں ، وہ جسے پھٹکار دے، یہ اس سے پیار کریں۔
اسلام میں سیاستِ محضہ مقصود نہیں ؛ بلکہ محض دین مقصودہے، سیاسی الجھنیں محض تحفظ ِ دین کے لیے برداشت کی جاتی ہیں، پس اگر کوئی سیاست ہی کا کوئی شعبہ تخریب ِ دین یا مداہنت و حق پوشی کا ذریعہ بننے لگے، توبے دریغ اس کو قطع کر کے دین کی حفاظت کی جائیگی، ورنہ بصورتِ خلاف قلبِ موضوع لازم آجائے گاکہ وسیلہ مقصود ہو جائے اور مقصود وسیلہ کے درجہ پر بھی نہ رہے گا۔مجموعہ رسائل حکیم الاسلام ، اسلامی تہذیب و تمدن ۵/ ۹۷، ۹۸
تشبہ با لکفارکے مفاسد
غیروں کی وضع قطع اور ان جیسا لباس اختیار کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں
پہلا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ کفر اور اسلام میں ظاہراً کوئی امتیاز نہیں رہے گا، اور ملتِ حقہ ، ملتِ باطلہ کے ساتھ ملتبس ہو جائے گی ، سچ پوچھیے تو حقیقت یہ ہے کہ تشبہ بالنصاریٰ  معاذ اللہ نصرانیت کادروازہ اور دہلیز ہے ۔
دوم یہ کہ غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی خلاف ہے، آخر دینی نشان اور دینی پہچان بھی تو کوئی چیز ہے، جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ شخص فلاں دین کا ہے، پس اگر یہ ضروری ہے تو اس کا طریقہ سوائے اس کے اور کیا ہے کہ کسی دوسری قوم کا لباس نہ پہنیں ، جیسے اور قومیں اپنی اپنی وضع کی پابند ہیں، اسی طرح اسلامی غیرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنی وضع کے پابند رہیں، اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں ہماری خاص پہچان ہو۔
کافروں کا معاشرہ ، تمدن اور لباس اختیار کرنا درپردہ ان کی سیادت اور برتری کو تسلیم کرنا ہے؛ بلکہ اپنی کمتری اور تابع ہونے کا اقرار اور اعلان ہے، جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
نیز! اس تشبہ بالکفارکا نتیجہ یہ ہو گا کہ رفتہ رفتہ کافروں سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہو گا، جو صراحةً نصِ قرآنی سے ممنوع ہے
اَ تَرْکُنُوْا الیٰ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ، وَمَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ أوْلِیَاءَ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ۔
اور تم ان کی طرف مت جھکو، جو ظالم ہیں، مبادا ان کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے تم کو آگ نہ پکڑ لے، اور اللہ کے سوا کوئی تمھارا دوست اور مددگار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پاوٴگے۔بلکہ غیر مسلموں کا لباس اور شعار اختیار کرنا ان کی محبت کی علامت ہے، جو شرعاً ممنوع ہے،
یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ أوْلِیَاءَ، بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ، وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ، فانَّہ مِنْہُمْ، انَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِيْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ المآئدة ۵۱
اللہ اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناوٴ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور رفیق ہیں، وہ تمھارے دوست نہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست بنائے گا، وہ انہی میں سے ہو گا، تحقیق اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔
اس کے بعد رفتہ رفتہ اسلامی لباس اور اسلامی تمدن کے استہزاء اور تمسخر کی نوبت آئے گی، اسلامی لباس کو حقیر سمجھے گا، اور تبعاً اس کے پہننے والوں کوبھی حقیر سمجھے گا، اگر اسلامی لباس کو حقیر نہ سمجھتا تو انگریزی لباس کو کیوں اختیار کرتا؟
اسلامی احکام کے اجراء میں دشواری پیش آئے گی، مسلمان اس کافرانہ صورت کو دیکھ کر گمان کریں گے کہ یہ کوئی یہودی یا نصرانی ہے، یا ہندو ہے، اور اگر کوئی ایسی لاش مل جائے توتردد ہو گا کہ اس کافر نما مسلمان کی صلاۃ جنازہ پڑھیں یا نہیں؟! اور کس قبرستان میں دفن کریں؟
جب اسلامی وضع کو چھوڑ کر دوسری قوم کی وضع اختیار کرے گا تو قوم میں اس کی کوئی عزت باقی نہیں رہے گی، اور جب قوم ہی نے اس کی عزت نہ کی تو غیروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کی عزت کریں، غیر بھی اُسی کی عزت کرتے ہیں جس کی قوم میں عزت ہو۔
دوسری قوم کا لباس اختیار کرنا اپنی قوم سے لا تعلقی کی علامت ہے۔
افسوس! کہ دعویٰ تو ہے اسلام کا ؛ مگر لباس، طعام ، معاشرت ، تمدن ، زبان اور طرزِ زندگی سب کا سب اسلام کے دشمنوں جیسا! جب حال یہ ہے تو اسلام کے دعوے ہی کی کیا ضرورت ہے؟! اسلام کو ایسے مسلمانوں کی نہ کوئی حاجت ہے اور نہ ہی کوئی پرواہ کہ جو اس کے دشمنوں کی مشابہت کو اپنے لیے موجب ِ عزت اور باعث ِ فخر سمجھتے ہوں۔التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي ۱۶ تا ۲۰
تشبہ کے فقہی اعتبار سے مراتب
تشبہ کی ممانعت اور مفاسد اچھی طرح ظاہر ہو جانے کے بعد جاننا چاہیے کہ تشبہ بالکفارکے وہ کون سے مراتب ہیں ، جن سے تشبہ کے جواز ، عدمِ جواز، حرمت و کراہت ، استحسان و عدمِ استحسان اور امکان و عدمِ امکان کی تفصیلات واضح ہو کر سامنے آ سکیں۔چناں چہ انسان سے صادرہونے والے افعال و اعمال کی دو ہی قسمیں ہو سکتی ہیں اضطراری امور اور اختیاری امور۔ ذیل میں ہر دو قسموں پر تفصیلی بحث نقل کی جاتی ہے۔
اضطراری امور میں تشبہ اختیار کرنے کا حکم اضطراری امور سے مراد وہ امور ہیں جن کے ایجاد و عدمِ ایجاد میں انسانی اختیارات کو کوئی دخل نہیں ہوتا، مثلاً انسان کی خلقی اوضاع و اطواراور جبلّی اقتضاء ات، یعنی اس کے اعضاء ِ بدن ، چہرہ مہرہ، پھر اس کے ذاتی عوارض، مثلاً بھوک پیاس لگنا، اس اندرونی داعیہ کی بناء پر کھانے پینے پر مجبور ہونا، اپنے بدن کو ڈھانپنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو اضطراری ہیں اور وہ نہ بھی چاہے ، تب بھی یہ جذبات اس کے دل پر ہجوم کرتے رہتے ہیں۔تو ظاہرہے کہ شریعت ایسے امور میں انسان کو خطاب نہیں کرتی، یہ امور کفار و غیر کفار میں مشترک ہیں، یہ نہیں کہا جائے گا کہ منع تشبہ کی وجہ سے اس اشتراک کو ختم کیا جائے، یعنی شریعت ان امور میں یہ نہیں کہتی کہ چوں کہ کفار کھانا کھاتے ہیں تو ان کی مشابہت کو ترک کرتے ہوئے تم کھانا نہ کھاوٴ، یا چوں کہ وہ کفار  لباس پہنتے ہیں تم ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے لباس نہ پہنو،یا چوں کہ ان کے ہاتھ، پیر ، ناک ، کان ہیں تم ان کی مخالفت میں اپنے یہ اعضاء کاٹ ڈالو؛ بلکہ شریعت اس بات کا حکم دیتی ہے کہ تم کھانا تو ضرور کھاوٴ لیکن تم کھانے کے طریقے کو ترکِ تشبہ کے ذریعے ممتاز ضرور بناوٴ؛ کیوں کہ یہ تمہارا اختیاری فعل ہے ، اضطراری نہیں۔ اسی طرح شریعت یہ نہیں کہتی کہ ترکِ تشبہ کے جوش میں تم لباس پہننا ہی ترک کردو؛ لیکن یہ ضرور کہتی ہے کہ تم لباس کی وضع قطع کو غیر اقوام کے لباس سے ممتاز اور نمایاں رکھو کہ یہ ضرور تمہارے حدود و اختیا ر میں ہے۔
شریعت کبھی یہ نہیں کہے گی کہ اپنے اعضاء ِ بدن کاٹ ڈالو کہ یہ تمہارے اعضاءِ جوارح غیر مسلم اقوام کی طرح ہیں؛ اس لیے بوجہ مشابہت یہ نہیں ہونے چاہیئں، ہاں یہ ضرور کہے گی کہ ٹھیک ہے کہ ان کا وجود میں آنا تمہارے اختیار یا ایجاد سے نہیں ہوا لیکن تمہارے ان اعضاء کی تزیین اور بناوٴ سنگھار کا غیر اقوام سے ممتاز اور نمایاں ہونا تو تمہارے اختیار کا ہی فعل ہے، وہ چھوٹنے نہ پائے۔
اختیاری امور میں تشبہ ختیار کرنے کا حکم
اس کے بعد انسان سے صادرہونے والے افعال اختیاری طور پرصادرہوتے ہیں ، ان اختیاری امور کی دو قسمیں ہیں مذہبی امور اور معاشرتی و عادی امور۔

مذہبی امور میں تشبہ کا حکم
مذہبی امور سے مراد  وہ امور و اعمال ہیں جن کا تعلق دین و مذہب  سے  ہو یعنی اُن افعال و اعمال کو عبادے کے طور پر اختیار کیا جات ہو جیسے مجوسیوں کی پوجا پاٹ کا نام قبل از اسلام سے نمازہے، کسی مسلمان کا  صلاۃ قائم کرنے کے حکمُ اللہ،  معلوم عمل کو جو  افضل  ترین عبادۃ اور فرضِ عین ہے نماز قرار دینا حرام ہے
اسی طرح مساجد میں  عبادت یعنی صلاۃ قائم کرنے کےلئےکرسیوں کااستعمال بھی جائز نہیں ہے کہ یہ عیسائیوں کا طریقہءِ عمل ہے اُن کی پوجاپاٹ کے مراکز چرچ میں کرسیاں رکھی ہوتی ہیں اور بنچوں، کرسیوں وغیرہ پر بیٹھ کر وہ اپنی پوجا پاٹ ، وغیرہ کرتے ہیں، نیز  نصاریٰ کی طرح سینے پرصلیب لٹکانا،  ہندووٴں کی طرح زنار باندھنایا پیشانی پر قشقہ لگانا، یا سکھوں کی طرح ہاتھ میں لوہے کا کڑاپہننا و غیرہ سب حرام ہیں ، تو اس قسم کے مذہبی امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بالکلیہ ناجائز اورحرام ہے۔
معاشرت و عادی امور میں تشبہ کا حکم
معاشرتی و عادی امور بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ، ایک وہ امور جو قبیح بالذات ہیں، یعنی  وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست منع کیا ہے کہ ان افعال کو نہ کیا جائے؛ دوسرے وہ امور جو مباح بالذات ہیں، یعنی وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست تو منع نہیں کیا؛ لیکن دیگر خارجی امور کی وجہ سے وہ ممنوع قرار دیے جاتے ہیں۔
قبیح بالذات امور میں تشبہ کا حکم
قبیح بالذات امور میں غیر مسلم اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بھی حرام ہے، جیسے  ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا، ریشمی لباس استعمال کرنا، یا کسی قوم کی ایسی حرکت کی نقل اتارنا جن میں ان کے معبودانِ باطلہ کی تعظیم ہوتی ہو، جیسے بتوں کے آگے جھکنا وغیرہ، ان افعال میں تشبہ کی حرمت اس وجہ سے ہے کہ یہ امور قبیح بالذات ہیں، شریعت کی طرف سے ان کی ممانعت صاف طور پر آئی ہے۔
مباح بالذات امور میں تشبہ کا حکم
اگر وہ امور اپنی ذات کے اعتبار سے قبیح نہ ہوں؛ بلکہ مباح ہوں تو ان کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک وہ امور کسی غیر قوم کا شعار یعنی علامتی و شناختی نشان ہوں، دوسرے وہ افعال جو کسی غیر قوم کا شعار نہ ہوں، ہر دو کی تفصیل ذیل میں لکھی جاتی ہے
غیر اقوام کے شعار میں مشابہت کا حکم
اگر وہ مباح بالذات  امور غیر مسلم اقوام کے شعار یعنی علامتی و شناختی نشان میں سے ہوں تو ان امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، مثلاً غیر مسلم اقوام کا وہ لباس جو صرف انہی کی طرف منسوب ہو اور انہی کی نسبت سے مشہور ہو اور اس مخصوص لباس کو استعمال کرنے والا انہی میں سے سمجھا جاتا ہو، جیسے  بدھی اور قشقہ۔
مطلقاً غیروں کے افعال میں مشابہت کا حکم
ور اگر وہ مباح بالذات امور غیر مسلم اقوام کے شعار میں سے نہیں ہیں ، تو پھر ان افعال کی دو قسمیں ہیں کہ ان افعال کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے یا ان کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود نہیں ہے، ان دونوں قسموں میں مشابہت کا حکم ذیل میں ملاحظہ فرمائیں
ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم
اگر ان مباح بالذات امور میں مسلمانوں کے پاس امتیازی طور ایسے طور طریقے موجود ہوں جو کفار کے طور طریقوں کے مشابہہ نہ ہوں تو ایسے امور میں غیروں کی مشابہت مکروہ ہے، کیوں کہ اسلامی غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان اقوام کی ان اشیاء کا استعمال بھی ترک کر دیں جن کا بدل ہمارے پاس موجود ہو، ورنہ یہ مسلم اقوام کے لیے عزت کے خلاف ایک چیزہو گی اور بلا ضرورت خوامخواہ دوسروں کا محتاج و دستِ نگر بننا پڑے گا۔
جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے ہاتھ میں فارسی کمان یعنی  ملکِ ایران کی بنی ہوئی کمان دیکھی تو ناخوشی سے ارشاد فرمایا کہ یہ کیا لیے ہوئے ہو؟ اسے پھنک دو اور عربی کمان اپنے ہاتھ میں رکھو ، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوت و شوکت دی اور بلادِ ارض کو مفتوح کیا۔سنن ابن ماجة، باب السلاح، رقم الحدیث ۲۸۱۰
فارسی کمان کا بدل عربی کمان موجود تھا؛ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرت دلا کر روک دیا؛ تاکہ غیر اقوام کے ساتھ ہر ممکن امتیاز پیدا ہو سکے اور چھوٹے سے چھوٹے اشتراک کا بھی انقطاع ہو جائے۔
غیر ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم اور اگر غیر اقوام کی اشیاء ایسی ہوں کہ ان کا کوئی بدل مسلم اقوام کے پاس موجود نہ ہو ، جیسے آج یورپ کی نئی نئی ایجادات، جدید اسلحہ، تہذیب و تمدن کے نئے نئے سامان، تو اس کی پھر دوصورتیں ہیں یا تو ان کا استعمال تشبہ کی نیت سے کیا جائے گا یا تشبہ کی نیت سے نہیں کیا جائے گا، پہلی صورت میں استعمال جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ تشبہ بالکفار کومقصود بنا لینا، ان کی طرف میلان و رغبت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا، اور کفار کی طرف میلان یقینا اسلام کی چیز نہیں ہے؛ بلکہ اسلام سے نکال دینے والی چیز ہے۔نیز! غیر مسلموں کی تقلید کسی مسلم کو بامِ عروج پر نہیں پہنچا سکتی، جیسا کہ ظلمت کی تقلید نور کی چمک میں، مرض کی تقلید صحت میں، اور کسی ضد کی تقلید دوسری ضد میں کوئی اضافہ و قوت پیدا نہیں کرسکتی، ہاں ! اگر ان چیزوں میں تشبہ کی نیت نہ ہو؛ بلکہ اتفاقی طور پر یا ضرورت کے طور پراستعمال میں آرہی ہوں، تو ضرورت کی حد تک ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، اسلامی تہذیب و تمدن  ۵/ ۱۲۸-۱۳۳، التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي ص21-8 فیض الباری ۲/ ۱۵، انوار الباری ۱۱/ ۱۰۵، ۱۰۶
خلاصة کلام
پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی تہذیب اور اپنی اَقدار کو باقی رکھتے ہوئے ہر غیر مسلم قوم کے طور طریقوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
انور شاہ کشمیری کی تحقیق
            فرمایا شعار کی بحث صرف ان امورمیں چلے گی، جن کے بارے میں صاحبِ شرع سے کوئی ممانعت کا حکم موجود نہ ہو ، ورنہ ہر ممنوع ِ شرعی سے احتراز کرنا ضرور ہو گا، خواہ وہ کسی قوم کا شعار ہو یا نہ ہو، اس کے بعد جن چیزوں کی ممانعت موجود نہ ہو ، اگر وہ دوسروں کا شعار ہوں تو ان سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہو گا، اگر وہ نہ رُکیں اور ان کا تعامل بھی دوسروں کی طرح عام ہو جائے یہاں تک کہ اس زمانے کے مسلمان صلحاء بھی ان کو اختیار کر لیں تو پھر ممانعت کی سختی باقی نہ رہے گی، جس طرح کوٹ کا استعمال ابتداء میں صرف انگریزوں کے لباس کی نقل تھی، پھر وہ مسلمانوں میں رائج ہوا یہاں تک کہ پنجاب میں صلحاء اور علماء تک نے اختیار کر لیا تو جو قباحت شروع میں اختیار کرنے والوں کے لیے تھی ، وہ آخر میں باقی نہ رہی، اور حکم بدل گیا، لیکن جو امور کفار و مشرکین میں بطورِ مذہبی شعار کے رائج ہیں یا جن کی ممانعت صاحبِ شرع صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحةً کر دی ہے، اُن میں جواز یا نرمی کا حکم کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا۔ انوار الباری ۵/ ۱۰۱، فیض الباری ۲/ ۱۵
تشبہ سے متعلق اکابر علماء کے فتاویٰ
لباس کی کن کن صورتوں میں تشبہ بالغیر ہے، اس کے بارے میں ہمارے علماء دیو بند نے وقتاً فوقتاً امتِ مسلمہ کی راہنمائی کی ہے، جن میں سے کچھ منتخب فتاویٰ نقل کیے جاتے ہیں، واضح رہے کہ لباس میں مشابہت اگر وہ لباس غیروں کا مخصوص لباس نہ ہو تو اسکا تعلق ہر ہر علاقے کے مزاج اور عرف کے ساتھ ہوتا ہے، ایک ہی چیز ایک شہر و علاقے میں عرف کی وجہ سے ناجائز ٹھہرتی ہے تو وہی چیز دوسرے علاقے میں عرف نہ ہونے کیوجہ سے جائزہوتی؛ اس لیے اس معاملے میں اپنے علاقے کے ماہر و تجربہ کار مفتیانِ عظام سے رابطہ کر کے صورتِ حقیقی سے باخبر رہنا ضروری ہو گا۔
پتلون پہننے کا حکم
سوال دور ِ حاضر میں پتلون اور شرٹ پہننے کا اتنا رواج ہو گیا ہے کہ اب یہ کسی خاص قوم کا شعار نہیں رہا، نیز! قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لباس میں کوئی امتیازی نشان نہیں تھا، یہ بات اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ من تشبہ بقوم فھو منھم میں جس مشابہت کا ذکر ہے، مشابہتِ لباس اس میں داخل نہیں ہے؛ اس لیے پتلون اور شرٹ کا پہننا جائز معلوم ہوتا ہے، جناب اپنی تحقیق فرما کر ممنون فرمائیں، بینوا توجروا
الجواب باسم ملھم الصواب آج کل کوٹ پتلون وغیرہ کا اگرچہ مسلمانوں میں عام رواج ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود اسے انگریزی لباس ہی سمجھا جاتا ہے، بالفرض تشبہ بالکفار نہ بھی ہو تو تشبہ بالفساق میں تو کوئی شبہ نہیں، لہٰذا ایسے لباس سے احتراز ضروری ہے۔یہ کہنا صحیح نہیں کہ پہلے زمانہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لباس میں کوئی امتیاز نہ تھا، نیز! اگر کسی زمانہ یا کسی علاقہ میں امتیاز نہ ہو تو وہاں تشبہ کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو گا، یہ مسئلہ تو وہاں پیدا ہو گا، جہاں غیر مسلم قوم کاکوئی مخصوص لباس ہو، احادیث میں غیر مسلموں کے مخصوص لباس سے ممانعت صراحةً وارد ہوئی ہے۔
یہ تفصیل اس لباس کے بارے میں ہے، جس سے واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر نہ آتا ہو، اگر پتلون اتنی چست اور تنگ ہو اس سے اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو، جیسا آج کل ایسی پتلون کا کثرت سے رواج ہو گیا ہے، تو اس کا پہننا اور لوگوں کو دکھانا اور دیکھنا سب حرام ہے، جیسا کہ ننگے آدمی کو دیکھنا حرام ہے۔احسن الفتاویٰ، کتاب الحظر والاباحة،پتلون پہننے کا حکم ۸/۶۴، ۶۵، ایچ ایم سعید
 مرد اور عورت کے لباس میں ایک دوسرے کی مشابہت
سوال زعفران یا عصفر کے سوا تمام رنگ مرد کو شرعاً جائز ہیں؛ لیکن بعض علاقوں میں سیاہ اور سرخ رنگ کے کپڑے عورتوں کا شعار سمجھے جاتے ہیں اور سفید کپڑے مردوں کا شعار سمجھے جاتے ہیں، کیا ان علاقوں میں مرد کو مختص بالنساء رنگوں کے کپڑے اور عورتوں کو مختص بالرجال رنگوں کے کپڑے پہننا جائز ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب باسم ملھم الصواب مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے ساتھ تشبہ اختیار کرنا جائز نہیں؛ اس لیے ان علاقوں میں اس شعار کی رعایت رکھنا ضروری ہے ، ایک دوسرے کا شعار اختیار کرنا جائز نہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم احسن الفتاویٰ، کتاب الحظرو الاباحة ، مرد اور عورت کے لباس میں ایک دوسرے کی مشابہت ۸/ ۶۶، ۶۷، ایچ ایم سعید
ٹائی کا استعمال
سوال کسی ملازمت میں ترقی کا معیار ٹائی باندھنے پر ہو تو ایسی صورت میں ٹائی باندھنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلیاً ٹائی ایک وقت میں نصاریٰ کا شعار تھا، اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا، اب غیر نصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں ، اب اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس کو شرک یا حرام نہیں کہا جائے گا، کراہیت سے اب بھی خالی نہیں ، کہیں کراہیت شدیدہو گی، کہیں ہلکی، جہاں اس کا استعمال عام ہو جائے، وہاں اس کے منع پر زور نہیں دیا جائے گا۔
اس پر محشی صاحب لکھتے ہیں کہ ٹائی کا استعمال اگرچہ مسلمانوں میں بھی عام ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود انگریزی لباس کا حصہ ہی ہے، اگر انگریزی لباس تصور نہ کیا جائے؛ لیکن فساق و فجار کا لباس تو بہر حال ہے، لہٰذا تشبہ بالفساق کی وجہ سے ممنوع قرار دیا جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ اہلِ صلاح اس لباس کو پسند بھی نہیں کرتے ؛ کیوں کہ یہ علماء و صلحاء کے لباس کے خلاف ہے، تیسری بات یہ کہ اس کے علاوہ ٹائی میں ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ عیسائی ا س سے اپنے عقیدہ صلیب عیسیٰ علیہ السلام یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو کہ نص قرآنی کے خلاف ہے، لہٰذا تشبہ بالکفار کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی مذہبی یادگار اور مذہبی شعار ہونے کی وجہ سے بھی پہننا جائز نہیں
عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ أي مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہ بِالْکُفَّارِ، فِي اللِّبَاسِ
وَغَیْرِہ، أو بِالْفُسَّاقِ أوْ بِالْفُجَّارِ، أوْ بِأہْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الأبْرَارِفَہُو مِنْہُمْ، أي في الاثْمِ وَالْخَیْرِ
مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، رقم الحدیث ۴۳۴۷، ۸/۱۵۵، رشیدیة
            البتہ اگر ادارہ یا حکومت کی طرف سے پابندی ہو، نہ لگانے پر سزا دی جاتی ہو، یا کوئی اور رکاوٹ بنتا ہو تو اس صورت میں لگانے والے پر گناہ نہیں ہو گا؛ بلکہ اس ادارے یا حکومت کے ارکان پر گناہ عائد ہو گا، جس نے ایسا ضابطہ بنایا۔فتاویٰ محمودیہ،باب اللباس، ٹائی کا استعمال ۱۹/۲۹۰، ادارة الفاروق
ساڑھی پہننے کاحکم
سوال تشبہ لباس وغیرہ کے بارے میں ایک استفسار یہ ہے کہ عورتوں کے لیے پیچ دار پائجامہ اور ساڑی جائز ہے یا نہیں؟ اور موٹی ساڑھی پہن کر صلاۃ ہو جاتی ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلیاً
جہاں یہ کفارو فساق کا شعار ہے، وہاں ناجائز ہے۔ جہاں عام ہے، ان کا شعار نہیں، وہاں جائز ہے۔پھر اگر پردہ پورا ہو تو اس سے صلاۃ بھی درست ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ محمودیہ، باب اللباس، فساق و فجار کا شعار ۱۹/ ۲۹۰، ادارة الفاروق
واللہ و رسولہٗ اعلم بالصواب۔
(تحقیق و تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)