Saturday, 16 July 2016

بےچارہ کون؟ میں یا وہ موصوف؟ لفظِ خدا اور نماز و صلاۃ پر ایک دلچسپ مباحثہ


حق پر کون؟ 
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر تحریک نفاذ آئین، قرآن و سنۃ پاکستان                                                 لفظِ الله و خدا اور صلاۃ و نماز 
پر ایک دلچسپ مکالمہ و مباحثہ
سرِ راہ ملاقات ہو گئی، علیک
 سلیک کے بعد وہ فرمانے لگے"کیسے ہو؟"
ہم نےعرض کیا: "خدا کا شکر ہے، خداوندِ دو عالم کے کرم سے سب ٹھیک ہے، آپ کیسے ہیں؟"
وہ فرمانے لگے: "الله کا شکر ہے ... اور ہاں، یہ تم نے کیا کہا؟ ’خدا‘ کا شکر ہے؟ تمہیں معلوم ہے؟ خدا نہیں کہتے، الله کہتے ہیں"
ہم نےعرض کیا: "خدا سے میری مراد ظاہر ہے "الله" ہی ہے، میں مجوسی بھی تو نہیں جو آپ کو میرا لفظ "خدا" بولنا اتنا کھٹکا ہے"۔
اُن کا ارشاد ہوا: "جب تمہارے پاس لفظ "الله" موجود ہے، تو پھر "خدا" کہنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی اس کا کیا جواز ہے؟ فارسی مجوسیوں کی زبان ہے، تم مجوسی نہ ہو کر بھی ان کی زبان بول رہے ہو! اور وہ بھی"الله تعالٰی" کی شان میں! لا حول ولا قوۃ الا بالله، کیا زمانہ آ گیا ہے! کسی کو کام کی بات بتائیں تو ناک بھوں چڑھاتا ہے"۔
ہماری طبیعت تو خاصی مکدر ہوئی، تاہم یہ مکالمہ چونکہ ہمارے صدر دروازے پر ہو رہا تھا، سو ہم نے خوش اخلاقی کو خود پر لازم رکھتے ہوئے کہا: "چھوڑئیے! آپ کن چکروں میں پڑ گئے۔ آئیے، آپ کو چائے پلاتے ہیں"۔
وہ کہنے لگے:"نہیں، میرا روزہ ہے، اور نماز پڑھنے کا وقت بھی ہو رہا ہے، میں چلوں گا۔"خدا" اور "الله" کے فرق پر پھر بات ہو گی"۔
وہ جانے لگے تو ہم نے روک لیا: "تو آپ نماز پڑھتے ہیں؟"۔ جواب ملا: "ہاں، کیوں؟ تم نہیں پڑھتے کیا؟"۔
ہم نے عرض کیا: "حضور! نماز تو وہ ہے جو مجوسی پڑھتے ہیں، اور "نماز و روزہ نام کی کسی عبادت کا نہ قرآن شریف میں ذکر ہے اور نہ ہی سُنَّۃ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم (کسی صحیح حدیث) میں۔ یہ عبادت آپ نے کہاں سے لے لی؟" ۔
بہ آوازِ بلند "لاحول" کا مکرر ورد کرتے ہوئے انہوں نے دو تین بار "استغفرالله" کہا اور بولے: "کیا کفر بک رہے ہو میاں؟ میں بھی مجوسی تو نہیں جو تمہیں میرا "نماز" کہنا اتنا برا لگا ہے۔ اور کیا کہتے ہیں نماز روزے کو؟ نماز، روزہ ہی تو کہتے ہیں!"۔
ہم نے عرض کیا: قرآن مجید اور سنة رسول الله صلى الله عليه و اله و سلم ميں صوم و صلوٰۃ کے الفاظ آئے ہیں" اور آپ ہی کا فرمان آپ کو یاد دلایا ہے کہ جب آپ کے پاس لفظ "صوم و صلوٰۃ" موجود ہیں تو نماز و روزہ کہنے کی ضرورت و اہمیت، افادیت و ناگزیریت اور جواز کیا ہے؟
 وہ ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے، مگر ہم نے بات جاری رکھی: "حضور والا! الله کریم بھی جانتا تھا اور جانتا ہے کہ دینِ اسلام کسی ایک محدود علاقے و وقت کےلئے نہیں پورے کرہء ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کےلئے اور روز قیامت کے جن و انس کےلیے نور ہدایت ہے، مکمل ضابطہء حیات ہے اور الله کریم یہ بھی جانتا ہے کہ دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں، مگر الله تعالٰی نے اپنی جن مخصوص فرض عبادات و اعمال و شعائرِ اسلامیہ کے نام خود مقرر فرما دیئے ہیں اُن میں تبدیلی، ترمیم و تحریف کا انسانوں کو کوئی حق و اختیار حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہے، نه ہی جن و انس کے کسی مخصوص طبقے یا گروہ یا تمام جن و انس کے اجتماع کو قرآن مجید کے الفاظ کا متبادل ایجاد و اختیار کرنے کا کوئی حق و اختیار ہے۔ قرآن و سُنَّۃ میں مقرر کردہ شرعی اصطلاح "الصلاۃ" کےلئے "نماز" کا لفظ متبادل ہے نہ ہی لفظ صلاۃ کا ترجمہ ہے! ہم نے اُن سے مزید عرض کیا کہ دین میں رب کائنات نے صلوٰۃ خمسہ قائم کرنے کو فرض قرار دیا ہے نماز کو نہیں! قرآن مجید میں رب تعالٰی نے فرمایا ہے کہ "ان الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر" صلاة قائم نہ کرنے اور اس کے بجائے نماز پڑھنے کی وجہ ہی ہے کہ نماز پڑھنے والے افراد بے حیائی و برائی کے کاموں میں بکثرت ملوث پائے جاتے ہیں اور بے نمازیوں کی نسبت معاملات و کردار میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں آپ دن رات مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ الله تعالٰی کی گارنٹی کے برعکس نمازی حضرات آلا ما شاء الله تمام معاملات میں قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کی بے دھڑک اور بلا خوف و خطر، دیدہ دلیری سے نافرمانی کرتے، جھوٹ بولتے، جھوٹی گواہی دیتے، خیانت کرتے، بددیانتی اور جرائم، وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی کرتے، ناجائز منافع و مال کماتے نظر آتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ نماز پڑھنا، صلاة قائم کرنے کا مماثل و مترادف اور مصداق نہیں ہو سکتا، اسی لیے قرآن و سنة میں نماز کا کہیں ذکر نہیں، ہر جگہ"صلاۃ قائم کرنے" کا حکم آیا ہے، لِہٰذا اس افضل ترین عبادت کو نماز پڑھنا نہیں، صلاۃ قائم کرنا یا اقامتِ صلاۃ کہئے۔ اس عبادت کےلئے نمازِ پنجگانہ کے الفاظ غلط ہیں، اُسے صلٰوۃ خمسہ کہئے۔
 ذرا تفصیل میں جا کر ہم نے مثالوں سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی اور بتایا کہ نماز ِجمعہ نہیں صلاۃُ الجمعہ، نمازِ عید نہیں صلاۃُ العید، نمازِ جنازہ نہیں صلاۃُ الجنازہ، نمازِ تسبیح نہیں صلاۃُ التسبیح، نمازِ فجر نہیں صلاۃُ الفجر، نمازِ ظہر نہیں، صلاۃُ الظہر، نمازِ عصر نہیں صلاۃُ العصر، نمازِ مغرب نہیں صلاۃُ المغرب، نمازِعشاء نہیں صلاۃُ العشاء کہنا چاہیے۔ ہم نے اُن سے مزید یہ بھی عرض کیا کہ جس طرح لفظِ عبادت، تعوّذ، تسمیہ،  ثناء، سحر، افطار، عبادت،  مسجد، امام، خطیب، جماعت،  فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء، خطبہ، دعاء، وضوء، مؤذِن، اَذان، فرض، واجب، سُنّت، نفل، تکبیر تحریمہ، اقامت، نیّت، رکعت، قیام، قعود، قرأت، رکوع، سجدہ، تسبیح، قعدہ، سجدہءِ سہو، سلام، جنازہ، میّت، قبر، تکفین، تدفین، لحد، تکبیر، ذبیحہ، حلال، حرام، مکروہ، منبر و محراب خطبہءِ جمعہ، خطبات عیدین،  قرآن، زکٰوۃ، حج، جہاد، عمرہ، اعتکاف، استخارہ، صلٰاۃُ التسبیح، کفارہ، صدقہءِ فطر، عیدُالفطر، عیدُالاضحٰی، عمرہ، قضاء، طواف، عدالت، حکم، شریعت، خلافت، حقوق الله، حدود الله، حدِّ قذف، قتلِ عمد، قتلِ خطأ، تصوّف، طریقت، صفت ایمانِ مفصَّل، صفت ایمانِ مجمل، مُتّقی، شہید، تفسیر، ترجمہ، حدیث، تقوٰی، شریعت، بدعت، فقہ، اجتہاد، استنباط، غزوہ، مذہب، رفعُ الیّدَین، صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحاح ستہ، التحیات، تکبیرات تشریق، مستحب، قرأت جہری قرأة سرى صلاة، تشہد، امامِ اعظم، تراویح، کلمہ طیب، کلمہءِ شہادت، کلمہءِ تمجید، کلمہءِ توحید، کلمہءِ استغفار، کلمہءِ ردِّ کفر، نفل، تحیّۃُ المسجد، نفل تحیّۃ الوضوء، تہجّد، وتر، دعاءِقنوت، مدرسہ، دارُالعلوم،  دارُالافتاء، جامعہ عربیہ، کعبۃُ الله، حجرِ اسود، سورۃ، آیۃ، ایة كريمه، اُسوۃُ حسنة، حجۃُ الوداع، سورۃ فاتحہ، سورۃ بقرہ وغیرہ سمیت متعدد اسلامی و قرآنی اصطلاحات و الفاظ و کلمات اور شریعۃِ اسلامیہ میں اصطلاحات قرآنی و شعائر ِاسلام کے مقررہ نام بلاوجہ و جواز تبدیل نہیں کر سکتے بلکہ عموماً اصل نام ہی اختیار کرتے ہیں بعینہٖ لفظِ"صلاۃ" و "صوم" قرآن و سُنَّۃ کی مقرر کردہ اصطلاحات ہیں جو مذکورہ مخصوص عبادات کے نام ہیں لہٰذا اُن کا کوئی ترجمہ ہو سکتا ہے نہ ہی ان کا ترجمہ کرنا جائز ہے اور نہ ہی ان کے اصل نام "صلاۃ" و "صوم" وغیرہ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ نماز پڑھنے کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ہے، قرآن و سنة، ائمہء اربعہ، کتب فقہ، کتب حدیث، میں آپ کو جا بجا صوم اور صلاة کے الفاظ ہی ملتے ہیں ان سب میں ہر جگہ "اقامتِ صلاۃ" یعنی صلاۃ قائم کرنے کا حکم ہے جو کہ فرض عبادات میں سب سے اہم و مقدم و افضل ترین ہے"
وہ پھٹ پڑے: "تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟ اب تم یہ کہو گے کہ ہمیں نماز پڑھنی بھی اپنی اپنی زبان میں چاہئے عربی ہی کیوں؟ ہے نا؟"۔
ہم نے عرض کیا: "نماز نہیں حضرت! صلوٰۃ! اور وہ بالکل اس طرح جیسے نبی کریم نے فرمایا: صلوا کما رایتمونی اصلی!
 لفظ نماز سے آپ کی مراد اگر وہی صلاۃ ہے،۔ جس کا قرآن و سنت۔ میں حکم ہے تو نماز کے بجائے صلاۃ کہنے میں حرج ہی کیا ہے؟ اور اگر وہ نماز مراد ہے جو قبل از اسلام سے مجوسیوں کی پوجا پاٹ کا نام ہے تو وہ نہ میں پڑھتا ہوں نہ آپ کو پڑھنی چاہیے، ہم نے عرض کیا کہ اگر نام میں کچھ نہیں رکھا اور اُس کی کوئی خاص اہمیت نہیں تو الله کے نازل کردہ دین کا نام یعنی لفظ "اسلام" اور اس دین پر ایمان لانے والوں کو الله نے قرآن میں جس نام "مسلم"  مسلمان" سے منسوب کیا ہے اور ان کو مؤمن و مسلم قرار ديا ہے اُن سمیت ساری ہی دینی و قرآنی اصطلاحات کے ناموں کو بدل دیجیے ورنہ صلاۃ و صوم پر بھی اسی طرح رحم فرمائیے جس طرح  زکوٰۃ، مسلمان، اسلام، قرآن، مسجد، سجدہ، رکوع، رکعت وغیرہ سمیت دیگر سینکڑوں عربی ناموں پر آپ نے ابھی تک رحم فرمایا ہوا ہے۔ ورنہ الله کے مقرر کردہ ناموں کو تبدیل کرنے سے پہلے اپنے ملک و صوبے، شہر، حاکمِ وقت اور والدِ گرامی کے اسماء کو بھی ضرور بدل دیجیے کیونکہ وہ سب انسانوں کے مقرر کیے ہوئے اور رکھے ہوئے نام ہیں جب الله تعالٰی اور رسول الله ﷺ کے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے تو پھر بندوں کے مقرر کردہ ناموں کو کیوں نہیں بدل لیتے؟ ہم نے مزید عرض کیا پریشانی کی نہیں غور و فکر کرنے اور سوچنے سمجھنے کی بات ہے، خاطر جمع رکھیے اور جائیے کہ آپ کی مسجد میں آپ کی نماز کا وقت ہو چلا ہے"
 وہ پھٹ پڑے: ’’اب یہ کیا بک رہے ہو!‘‘۔
عرض کیا: ’’جناب! یہ بھی آپ کا  ہی ارشاد ہے، پرسوں جب میں نے کہا کہ اذان ہو رہی ہے تو آپ نے فرمایا تھا: یہ ہمارے فرقے کی مسجد کی اذان نہیں ہے۔ فرمایا تھا نا؟"۔
انہوں نے ہمیں یوں گھورا جیسے کچا چبا جانے کا ارادہ ہو اور سلام کہے بغیر چلے گئے۔
اور ہم سوچتے ہی رہ گئے کہ حق اور سچ  بات  لوگوں کو کس قدر ناگوارِ خاطر گذرتی ہے اب نہ جانے وہ اپنے فرقے کے مولبی سے مجھ پر کیا فتوٰی لگوائیں گے اور علم و عقل، منطق و دلائل اور مثالوں سے قرآن و سُنَّۃ کے احکام کو سمجھانے کی نہ جانے مجھے کیا سزا بھگتنی پڑے گی؟ ممکن ہے کہ شہادت ہی مقدر بن جائے۔
یا الله یا ارحم الرّاحمین یا قادر یا قدیر یا ربَّ العالَمین اپنے اسماءُ الحُسنٰی اور اپنی رحمت کے صدقے، اپنے حبیبِ کریم رؤف الرّحیم رحمۃُ لِّلْعالَمین ﷺ کے صدقے، قرآن مجید کے واسطے و وسیلے سے اُمّۃِ مصطفوی پر رحم فرما، اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم صدقِ نیت اور اخلاصِ قلب کے ساتھ، جماعتِ صحابہءِ کرام رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین کے طرزِ فکر و عمل، طور و طریقوں اور انہی کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے ہوئے قرآن و سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات، اور پیغامات، دینِ اسلام کے مقاصدِ اصلی کی تفہیم و تعمیل، اطاعت و اتباع، ترویج و تبلیغ اور غلبہ و نفاذ کی حتی المقدور سعی ءِ جمیلہ کرسکیں، اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم فرقہ پرستی چھوڑ کر اتحادِ اُمَّت و اخوّۃِ اسلامی کے احیاء اور اللہ کی زمین و اللہ کے بندوں پر اللہ کے نازل کردہ دینِ اسلام کو غالب و سربلند، برتر و بالادست کر نے کی بامقصد و حکیمانہ، پُرعزم و کامیاب اور مُخلصانہ جِدّوجُہد کر سکیں اور  ہر مرحلے پرہمیں تیری  تائید و نصرت حاصل رہے، یا الله کریم  کچھ ایسا فضل وکرم کر دے کہ غلبہءِ اسلام ہر مؤمن و مسلم کی زندگی کا نصبُ العین اور مقصود و مطلوب بن جائے۔ آمین
یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآن عام ہو جائے،.                                      ہر اِک پرچم سے اونچا پرچمِ اسلام ہو جائے

No comments:

Post a Comment