فرقوں کی کارگذاری و کارکردگی
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)
چندہ، عطیہ، صدقہ و خیرات، نذر نیاز، مالِ زکوٰہ، فطرہ، قربانی کی کھالیں اور اپنی جانیں دینے والے اور زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگانے والے، اپنے اپنے پیروکار تو ہر ایک مذہبی فرقے، فرقہ پرست مذہبی جماعت، ادارے، گروہ، تنظیم، گروپ اور مشہورومعروف فرقہ پرست مذہبی عناصرنے لاکھوں کی تعداد میں ضرور بنالئے کیا کسی بھی ایک فرقے، فرقہ پرست مذہبی جماعت، ادارے، گروہ، تنظیم، گروپ اور مشہورومعروف فرقہ پرست مذہبی شخصیت نے چند ہزار یا چند سو افراد بھی ایسے تیار کئے ہیں جو صالح و مُتَّقی ہوں، فرقوں کے من پسند و من گھڑت، بے بنیاد و خود ساختہ، گمراہ کُن انسانی و بشری افکار و نظریات کے بجائے صحیح معنٰی میں اصل دین اسلام (یعنی قرآن و سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات) کو سمجھ کر اللہ کے نازل کردہ دینِ اسلام (یعنی قرآن و سُنَّۃ) کی تعمیل و پیروی، اطاعت و اتباع اسی طرح کرتے ہوں جیسے جماعۃِ صحابہءِ کران رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمہءِ فقہاء و مجتہدین، اسلاف و صالحین رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین اور اسلام کے ابتدائی بارہ تیرہ سو سال تک کے علماء و صلحاء اور عام مسلمان کرتے تھے۔ جن کا تعلق کسی مذہبی فرقے، فرقہ پرست مذہبی جماعت، ادارے، گروہ، تنظیم، گروپ اور مشہورومعروف فرقہ پرست مذہبی شخصیت کے ساتھ نہیں تھا وہ سب کے سب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی جماعت تھے اُن میں اسلامی جمعیّۃ و اخوّۃ تھی، وہ جسدِ واحد کی طرح اُمّۃِ واحدہ تھے دُنیا اُن کو اُمّۃِ مصطفوی اور اُمَّۃ مسلمہ کے طور پر ایک قوم، ایک مِلّۃ سمجھتی تھی اور جو جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلتے تھی انہی کے طورو طریقوں اور طرزِ فکر و عمل کو اپناتے تھے، اُن میں باہمی مذہنی منافرت، نفاق و نفرت، انتشار و افتراق کا نام و نشان اور شائبہ تک نہ تھا، وہ بیوبندی تھے نہ بریلوی، اہلحدیث تھے نہ سلفی، حیاتی تھے نہ مماتی، تبلیغی تھے نی جماعتی، عطاری تھے نہ طاہری، تُرابی تھے یہ سیفی وہ سب فقط مسلمان تھے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی جماعۃ تھے، وہ یہود و ہنود، سکھ ونصارٰی سمیت کفّار و مشرکین اور طاغوتی قُوّتوں سے زیادہ ایکدوسرے کے خون کے پیاسے اور دُشمن نہیں تھے، ایکدوسرے پر کفروشرک اور ارتداد کے فتوؤں کی گولہ باری نہیں کرتے تھے، اُن کی مسجد پر کوئی فرقہ وارانہ شاخت و پہچان نہیں ہوتی تھی، اس وقت دینی مدارس علماءِ دین اور مُبلِّغینِ اسلام تیار کرتے تھے آجکل کی طرح دیوبندی، بریلوی، وہابی، اہلِ حدیث، سلفی، عطاری، تبلیغی اور جماعتی فرقہ پرست نہیں بنائے جاتے تھے۔ اب سے ڈیڑھ و سال پہلے تک کے مسلمان اللہ تعالٰی، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم ، قرآن و سُنَّۃ پر کسی بھی غیر کو ترجیح و فوقیت اور اوُلیت دینے کا تصوُر تک نہیں کر سکتے تھے وہ فرقہ پرستی، اکابر پرستی، مقابر پرستی، شخصیت پرستی وغیرہ کو بت پرستی کی طرح شرک و کُفر سمجھتے تھے۔ پوری کائنات اورزمین و آسمان کے درمیان موجود اللہ کی مخلوقات اور انسانوں و انسانی رشتوں سے بڑھ کر محبّت و عقیدت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کے ساتھ رکھنے کو اپنے دین و ایمان کی اساس و شرطِ اوّل سمجھتے تھے۔ اوراللہ و رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی مُحبّت و اطاعت اور اتباع و پیروی پر کسی بھی غیر کو ترجیح دینے کو صریح ارتداد سمجھتے تھے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے تک اسلام کے دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، سلفی وغیرہ ورژن ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ سارے کلمہ گو فقط مُسلمان تھے دیوبندی، حیاتی، مماتی، بریلوی، اہلِ حدیث، سلفی، عطاری، طاہری، تبلیغی، جماعتی، سیفی، تُرابی وغیرہ نہیں تھے اور اُن کا دین فقط اسلام تھا، دیوبندیت، بریلویت، اہلحدیثیت، سلفیت وغیرہ نہیں تھا۔ اگر مُسلمان ہونے کی شرط فرقہ پرستوں کے نزدیک فرقہ سے وابستگی ایمان و اسلام کی شرط ہے (جیسا کہ آجکل سمجھا جاتا ہے) تو پھر وہی بتلائیں کہ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمۃءِ اربعہ، محدّثین و مجتہدین، سلف و صالحین، اسلام کے ابتدائی پونے تیرہ سو سال کے علماءِ اہلُ السُنَّۃ والجماعت اور عامۃُ المسلمین کیا تھے جن کا دیوبندیت، بریلویت، اہلحدیثیت، سلفیت وغیرہ نہیں مذہبی فرقوں کے ساتھ کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
چندہ، عطیہ، صدقہ و خیرات، نذر نیاز، مالِ زکوٰہ، فطرہ، قربانی کی کھالیں اور اپنی جانیں دینے والے اور زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگانے والے، اپنے اپنے پیروکار تو ہر ایک مذہبی فرقے، فرقہ پرست مذہبی جماعت، ادارے، گروہ، تنظیم، گروپ اور مشہورومعروف فرقہ پرست مذہبی عناصرنے لاکھوں کی تعداد میں ضرور بنالئے کیا کسی بھی ایک فرقے، فرقہ پرست مذہبی جماعت، ادارے، گروہ، تنظیم، گروپ اور مشہورومعروف فرقہ پرست مذہبی شخصیت نے چند ہزار یا چند سو افراد بھی ایسے تیار کئے ہیں جو صالح و مُتَّقی ہوں، فرقوں کے من پسند و من گھڑت، بے بنیاد و خود ساختہ، گمراہ کُن انسانی و بشری افکار و نظریات کے بجائے صحیح معنٰی میں اصل دین اسلام (یعنی قرآن و سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات) کو سمجھ کر اللہ کے نازل کردہ دینِ اسلام (یعنی قرآن و سُنَّۃ) کی تعمیل و پیروی، اطاعت و اتباع اسی طرح کرتے ہوں جیسے جماعۃِ صحابہءِ کران رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمہءِ فقہاء و مجتہدین، اسلاف و صالحین رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین اور اسلام کے ابتدائی بارہ تیرہ سو سال تک کے علماء و صلحاء اور عام مسلمان کرتے تھے۔ جن کا تعلق کسی مذہبی فرقے، فرقہ پرست مذہبی جماعت، ادارے، گروہ، تنظیم، گروپ اور مشہورومعروف فرقہ پرست مذہبی شخصیت کے ساتھ نہیں تھا وہ سب کے سب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی جماعت تھے اُن میں اسلامی جمعیّۃ و اخوّۃ تھی، وہ جسدِ واحد کی طرح اُمّۃِ واحدہ تھے دُنیا اُن کو اُمّۃِ مصطفوی اور اُمَّۃ مسلمہ کے طور پر ایک قوم، ایک مِلّۃ سمجھتی تھی اور جو جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلتے تھی انہی کے طورو طریقوں اور طرزِ فکر و عمل کو اپناتے تھے، اُن میں باہمی مذہنی منافرت، نفاق و نفرت، انتشار و افتراق کا نام و نشان اور شائبہ تک نہ تھا، وہ بیوبندی تھے نہ بریلوی، اہلحدیث تھے نہ سلفی، حیاتی تھے نہ مماتی، تبلیغی تھے نی جماعتی، عطاری تھے نہ طاہری، تُرابی تھے یہ سیفی وہ سب فقط مسلمان تھے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی جماعۃ تھے، وہ یہود و ہنود، سکھ ونصارٰی سمیت کفّار و مشرکین اور طاغوتی قُوّتوں سے زیادہ ایکدوسرے کے خون کے پیاسے اور دُشمن نہیں تھے، ایکدوسرے پر کفروشرک اور ارتداد کے فتوؤں کی گولہ باری نہیں کرتے تھے، اُن کی مسجد پر کوئی فرقہ وارانہ شاخت و پہچان نہیں ہوتی تھی، اس وقت دینی مدارس علماءِ دین اور مُبلِّغینِ اسلام تیار کرتے تھے آجکل کی طرح دیوبندی، بریلوی، وہابی، اہلِ حدیث، سلفی، عطاری، تبلیغی اور جماعتی فرقہ پرست نہیں بنائے جاتے تھے۔ اب سے ڈیڑھ و سال پہلے تک کے مسلمان اللہ تعالٰی، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم ، قرآن و سُنَّۃ پر کسی بھی غیر کو ترجیح و فوقیت اور اوُلیت دینے کا تصوُر تک نہیں کر سکتے تھے وہ فرقہ پرستی، اکابر پرستی، مقابر پرستی، شخصیت پرستی وغیرہ کو بت پرستی کی طرح شرک و کُفر سمجھتے تھے۔ پوری کائنات اورزمین و آسمان کے درمیان موجود اللہ کی مخلوقات اور انسانوں و انسانی رشتوں سے بڑھ کر محبّت و عقیدت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کے ساتھ رکھنے کو اپنے دین و ایمان کی اساس و شرطِ اوّل سمجھتے تھے۔ اوراللہ و رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی مُحبّت و اطاعت اور اتباع و پیروی پر کسی بھی غیر کو ترجیح دینے کو صریح ارتداد سمجھتے تھے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے تک اسلام کے دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، سلفی وغیرہ ورژن ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ سارے کلمہ گو فقط مُسلمان تھے دیوبندی، حیاتی، مماتی، بریلوی، اہلِ حدیث، سلفی، عطاری، طاہری، تبلیغی، جماعتی، سیفی، تُرابی وغیرہ نہیں تھے اور اُن کا دین فقط اسلام تھا، دیوبندیت، بریلویت، اہلحدیثیت، سلفیت وغیرہ نہیں تھا۔ اگر مُسلمان ہونے کی شرط فرقہ پرستوں کے نزدیک فرقہ سے وابستگی ایمان و اسلام کی شرط ہے (جیسا کہ آجکل سمجھا جاتا ہے) تو پھر وہی بتلائیں کہ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمۃءِ اربعہ، محدّثین و مجتہدین، سلف و صالحین، اسلام کے ابتدائی پونے تیرہ سو سال کے علماءِ اہلُ السُنَّۃ والجماعت اور عامۃُ المسلمین کیا تھے جن کا دیوبندیت، بریلویت، اہلحدیثیت، سلفیت وغیرہ نہیں مذہبی فرقوں کے ساتھ کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
حالیہ
تقریباً ڈیڑھ سو سال میں بعض عاقبت نا اندیش علماءِ سوء نے دُشمنانِ اسلام کے
ایجنڈے کی تکمیل کر دی اور اپنے ذاتی، مالی، معاشی، سیاسی اغراض و مقاصد اور
ناجائز مفادات کے حصول و تحفّظ کو یقینی بنانے کےلئے کُفّارومشرکین سمیت اسلام دُشمن
و مسلمان کُش طاغوتی قوُْوّتوں کا آلہءِ کار بن کر اُن کےلئے وہ کام کر دکھایا جو
وہ بارہ تیرہ سو سال تک مسلسل و متواتر شازشوں اور کوششوں کے باوجود نہیں کر پائے
تھے یعنی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ
سلّم کی جماعۃ کو توڑ کر اُمّۃِ مسلمہ کے اتحاد و اخوّۃ کو تباہ و برباد اور پارہ
پارہ کرکے اُن کو باہم ایک دوسرے کا بدترین دُشمن بنا دیا گیا تاکہ کُفّار و مشرکین
اور طاغوتی قُوّتوں کو مسلم امٗہ سے کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ آج کے نام نہاد کلمہ
گواپنے اپنے اپنے فرقوں کے ساتھ انتہائی مضبوط تعلق و وابستگی رکھتے ہیں اور دوسرے
فرقوں کے کلمہ گو لوگوں کو کافر و مشرک اور مرتد سمجھتے ہیں، اسلام (قرآن و
سُنَّۃ) کت ساتھ اُن کی وابستگی باقی نہیں ہے اگر کوئی تھوڑا سا برائے نام تعلق رہ
بھی گیا ہے تو وہ فقط زبانی کلامی ہے عملاً وہ قرآن و سُنَّۃ پر اپنے فرقہ اکابرین
کی باتوں کو اوّلین ترجیح و فوقیت دیتے ہیں۔ قرآن و سُنَّۃ سے روگردانی و انحراف
کو برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اپنے فرقے کے ایجاد کردہ من پسند و من گھڑت، گمراہ
کُن و بے بنیاد، جاہلانہ و بدعتانہ افکار و جاہلانہ نظریات سے روگردانی و انحراف
کو شرک و کفر اور ارتداد سمجھنے لگے ہیں۔ اب لوگ قرآن و سُنّۃ کی بات کو نہیں صرف
اور صرف اپنے فرقہ اکابرین کی باتوں کو سُننا پسند کرتے ہیں، اللہ رسول صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کی نہیں فرقہ
اکابرین اور علماءِ سوء کی ہی بات مانی جاتی ہے۔ یہود و نصارٰی سمیت اسلام دُشمن
طاغوتی قُوّتوں کا یہی ایجنڈا تھا جس کی تکمیل اُن کے ایجنٹ نام نہاد جعلی مذہبی
بہروپیوں یعنی فرقہ پرست مذہنی عناصر نے خوب اچھی طرح کردی ہے اب یہود و نصارٰی
دیگر مُنافقین، کُفّار و مشرکین سمیت اسلام دُشمن شیطانی قُوَّتوں کو اب مسلمانوں
سے کوئی خطرہ نہیں اب کے فرقہ پرست نام نہاد کلمہ گو مُسلمانوں سے اگر کسی کو
انتہاء درجے کا شدید و سنگین ترین خطرہ ہے تو وہ فقط اہلِ ایمان
"مُسلمانوں" کوہے۔ فرقوں کی جنس خوب چل نکلی ہے اور مقبولیت کے سارے
ریکارڈ توڑتی جا رہی ہے اب تو اُس میں دہشت گردی کا رنگ بھی بہت نمایاں طور پر بھر
دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے نام نہاد فرقہ وارانہ مذہبی پیشہ باقی تمام پیشوں پر واضح
سبقت و برتری حاصل کرتا جا رہا ہے۔ مُسلم معاشروں میں جہالت و ناخواندگی، بے شعوری
زیادہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد مذہبی فرقہ پرست عناصر عددی قُوّۃ اورمالی و مادی
وسائل کےاعتبار سے مضبوط تر اور مستحکم ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ معاشرہ
تباہی و بربادی کے تاریک گڑھے میں گرتا چلا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے مساجد و مدارس
اور فرقہ پرست مذہبی عناصر کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے معاشرے سے
امن و سکون، احترام انسانیت، اخوّۃ اسلامی، اسلامی و مشرقی روایات و اخلاقیات،
تقوٰی یعنی اللہ کی ناراضگی کا ڈر اور خوف ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آیاۃِ قرآنی اور
صحیح و متفق علیہ احادیث مبارکہ کی نصوصِ قطعیّہ سے عبارۃ النّص( دلالۃ القطعیہ )
کے ذریعے یہ حکم ثابت ہے کہ مسلمانوں کی جماعۃ "امّۃِ مسلمہ "کے اندر
کوئی الگ مذہبی و دینی گروہ، یا فرقہ بنانا حرامِ قطعی ہے۔ فرقہ پرستی کو جو کہ قرآن
و سنّۃ کی رو سے حرامِ قطعی ہے، حلال و جائز سمجھ کر اختیار کرنا بلاشبہ اللہ و
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم سے
کھلا اعلانِ بغاوت، دینِ اسلام سے انحراف اور صریحاً ناجائز،حرام اور کفر و ارتداد
کے مترادف و مصداق اور مماثل عمل ہے۔
اللہ
تعالٰی قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : مفہوم: "(اے محبوب صلّی اللہ علیہ و
آلہٖ سلّم)آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور
تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور
تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ
گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے
رسول(صلّی اللہ علیہ وسلّم) سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار
کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں
نوازتا "(سورۃ التوبہ، اٰیۃ 24)، مفہوم: "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی
کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد
کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور
تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے
کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے
لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ"(سورۃ آلِ
عمران، آیۃ نمبر103)، مفہوم: "اور جو رسول (صلّی اللہ علیہ وسلّم) کی مخالفت
کرے، اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان (مؤمنین و مسلمین
یعنی جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین) کے راستے کے سوا کوئی
دوسرا راستہ اختیار کرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ
اختیار کر رکھا ہو اور ہم اسے پہنچا دیں گے جہنم میں اور وہ بہتُ بری جگہ ہے لوٹنے
کی"(سورۃ النّساء اٰیۃ 115)، مفہوم:
"بیشک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے"(سورۃ آل عمران، آیۃ 19)
یا اللہ یا ارحم الرّاحمین یا قادر یا
قدیر یا ربَّ العالَمین اپنے اسماءُ الحُسنٰی اور اپنی رحمت کے صدقے، اپنے حبیبِ
کریم رؤف الرّحیم رحمۃُ لِّلْعالَمین صلّی
اللہ علیہ و آلہٖ سلّم کے صدقے، قرآن مجید کے واسطے و وسیلے سے اُمّۃِ مصطفوی پر
رحم فرما، اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم صدقِ نیت
اور اخلاصِ قلبی کے ساتھ، جماعتِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے
طرزِ فکروعمل، طور و طریقوں اور انہی کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے ہوئے قرآن و
سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات، دینِ اسلام کے مقاصدِ اصلی کی
تفہیم وتعمیل، اطاعت و اتباع، ترویج و تبلیغ اور غلبہ و نفاذ کی حتی المقدور سعی
ءِ جمیلہ کرسکیں اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم فرقہ پرستی چھوڑ کر اتحادِ اُمَّت
و اخوّۃِ اسلامی کے احیاء اور اللہ کی زمین و اللہ کے بندوں پر اللہ کے نازل کردہ
دینِ اسلام کو غالب و سربلند، برترو بالادست کر نے کی بامقصد و حکیمانہ، پُرعزم و
کامیاب اور مُخلصانہ جِدّوجُہد کرسکیں اور ہر مرحلے پرہمیں تیری تائید و نصرت حاصل
رہے، یا اللہ کچھ ایسا فضل وکرم کردے کہ غلبہءِ اسلام ہر مؤمن و مسلم کی زندگی کا
نصبُ العین اور مقصود و مطلوب بن جائے۔ آمین
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)
No comments:
Post a Comment