Saturday, 16 July 2016

بدلنے ہی ہیں تو پھر سارے نام بدلو، صرف صلاۃ و صوم ہی کیوں؟؟؟

بدلنے ہی ہیں تو پھر ساری ہی قرآنی و شرعی اصطلاحات کے نام بدل ڈالو،
صرف  صوم و صلاة کو ہى من پسند ناموں میں بدل کر صابئین (مجوسی و پارسی مشرکین) کے ساتھ مشابہت و موافقت اور مطابقت پیدا کرنے پر ہی اکتفاء کیوں کر لیا گیا   
یہ حقیقت اب تک منظر عام پر نہیں آئی کہ دراصل یہ لفظ "نماز" اپنے اسی نام کے ساتھ انہی حرکات و سکنات اور ان ہی مروجہ پانچ اوقات کے ساتھ اپنی ابتداء (اوریجن) مانوی مذھب میں قدیم پارسیوں یعنی زوروسٹرینز  
 مذھب میں رکھتا ہے(Zoroastrians)  
حکیم مانی صاحب اس مذہب کے بانی تھے اور ساسانی بادشاہوں نے اسے قبول کر لیا تھا۔اس مذہب کی بنیاد ہمارے دینِ اسلام سے لگ بھگ 400 سال قبل تیسری صدی عیسوی میں رکھی گئی ۔ نماز اس وقت سے پڑھی جا رہی ہے اور اپنی اصل میں آگ کی پوجا کا عمل ہے اور دنیا کے بچے کھچے آتش پرست آج تک اپنے آتش کدوں میں یہی نماز پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ دیکھئے (زورواسٹرینز) کی ویب سائٹ۔پارسیوں کے عبادت خانے(واقع فرئر اسٹریٹ صدر کراچی) کا وزٹ بھی کافی چشم کشا ثابت ہو سکتا ہے۔ نماز ایک قطعی غیر قرآنی  ہے اور  خلاف اسلام عمل ہے انفرادی عبادت پر مبنی اور اس کے ذریعے نجات کا مفروضہ لالچ دیتا ہے۔ نماز کے باطل فلسفے کی رو سے نمازی کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اس کو قربِ الٰہی اور خوشنودی و رضائے الٰہی حاصل ہو جائے گی۔ایک مرتبہ جب الله کو خوش کر لیا تو وہ پھر خود ہی نمازی کے تمام اغراض و مقاصد پورے فرما دے گا یعنی کہ کار کشائی و کار سازی کا سارا بار ہمارے مالک کے ذمے ڈالد جاتا ہے۔حالانکہ حکیم الامت تو یہ بتا گئے تھے کہ
   ؎  ہاتھ ہے الله کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کار کشا و کار ساز
ان اغراض و مقاصد میں روز گار کا حصول، رزق کی فراوانی، مسائل کاخاتمہ، حالات کی ساز گاری و خوشحالی، دشمن کی تباہی، حصولِ اولاد وغیرہ وغیرہ شامل ہیں اور ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی کا توشہ بھی حاصل ہوجائے گا۔یہ فلسفہ بھی باور کرایاجاتا ہے کہ تمام کردہ گناہوں اور جرائم سے معافی بھی ساتھ ساتھ ملتی جائے گی۔یعنی جو گناہ و جرائم فی الحال کئے جارہے ہیں وہ اگلی نماز پڑھتے ہی معاف ہوجائیں گے۔اس کے بعد پھر گناہ و جرم کی کھلی چھٹی۔اگلی نماز پڑھنے پر پھر مکمل معافی۔یعنی گناہ و مغفرت اور پھر گناہ کا ایک شیطانی چرخہوشیئس سرکل) ۔بالفاظ دیگر مروجہ نماز گناہوں کا لائسنس، ضمیر کی خلش کا چورن اور مغفرت کا سرٹیفیکٹ سمجھی جاتی ہے کیوں کہ خوشنودئ الٰہی سے تمام ادھورے کام مکمل اور تمام بگڑے مسائل خود بخود سنور جانے کا یقین ہوجاتا ہے اس لئے اکثریت تو داڑھی بڑھائے، ٹوپی پہنے، سب کام کاج چھوڑ صرف مسجدوں کا خوگر ہو جاتی ہے اورمیدانِ عمل میں خون پسینہ ایک کر کے جہد مسلسل کے قابل ہی نہیں رہتی، اس بیکاری میں جو بھی روکھی سوکھی کسی کے طفیل مل جاتی ہے وہی کھا کر شکر ادا کیا جاتا ہے۔صلاحیتیں مرد ہ ہو جاتى ہیں اور "اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں" کے اصول کے تحت کچھ کئے بغیر خوش حالی کا مسلسل انتظار ہڈیوں کو زنگ لگا دیتا ہے۔البتہ زیادہ ہوشیار لوگ اور چالاک شکاری، نمازی کا نقاب اوڑھے اپنی تمام جائر و ناجائز مطلب براریاں، الله کے احکام کی نافرمانیاں کرتے ہوئے، پوری بھی کر لیتے ہیں اور معاشرے میں "بے تاثیر و نام نہاد زُہد و تقوٰی  کی بنیاد پر معتبر بھی بنے رہتے ہیں۔
الله کے نازل کئے ہوئے دین "اسلام" میں نماز نام کی کوئی چیز داخل و شامل نہیں هے۔ قرآن و سنة میں کہیں بھی "نماز" کا  لفظ آیا ہی نہیں  ہے۔
الله تعالٰی نے جو عبادات فرض کی ہیں اُن میں "نماز پڑھنا"شامل نہیں ہے. 
صلٰوۃ قائم کرنا، بیت الله کا حج کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا  رمضان المباک کے صیام کا اہتمام کرنا شامل ہیں، قرآن و سُنَّۃ میں نماز پڑھنے کا کہیں کوئی حکم ہے نہ ذکر و بیان ہے۔
قرآن و سُنَّۃ میں مقرر کردہ شرعی اصطلاح "صلاۃ" "صلوٰۃ" کے مترادف کے طور پر لفظ "نماز" کا استعمال کسی طرح بھی مناسب و موزوں ہے نہ ہی جائز ہے کیونکہ لفظ نماز " صلاۃ (صلوٰۃ")کا متبادل و مترادف ہو ہی نہیں سکتا صلاۃ و صلٰوۃ کا ترجمہ "نماز" ہر گز جائز نہیں
دینِ اسلام میں اللہ سبحانہٗ و تعالٰی نے صلاۃ قائم کرنے کا حکم دیا ہے نماز پڑھنے کا قرآن و سُنَّۃ میں کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا! قرآن و سُنَّۃ میں نماز پڑھنے کا کہیں ذکرنہیں ، ہرجگہ"صلاۃ "قائم کرنے" کا حکم آیا ہے، لِہٰذا اس افضل ترین عبادۃ اور اسلام کے رکنِ ثانی قیام صلاۃ کو نماز پڑھنا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی مخالفت و نافرمانی اورصریح انحراف ہے لہٰذا نماز لفظ کو ترک کرکے اصل لفظ صلاۃ کو اختیار کرنا لازم ہے۔
پانچ وقتی اس عبادۃ کو نمازِ پنجگانہ نہیں صلٰوۃِخمسہ یا صلاۃُ الخمسہ کہیئے، نماز ِجمعہ نہیں صلاۃُ الجمعہ، نمازِ عید نہیں صلاۃُ العید، نمازِ جنازہ نہیں صلاۃُ الجنازہ، نمازِ تسبیح نہیں صلاۃُ التسبیح، نمازِ فجر نہیں صلاۃُ الفجر ، نمازِ ظہر نہیں صلاۃُ الظہر ، نمازِ عصرنہیں صلاۃُ العصر، نمازِ مغرب نہیں صلاۃُ المغرب ، نمازِعشاء نہیں صلاۃُ العشاءکہیئے۔ صوم کو روزہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں جس طرح لفظِ عبادت، تعوّذ، تسمیہ، ثناء، سحر، افطار، عبادت، مسجد، امام، خطیب، جماعت، فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء، خطبہ، دعاء، وضوء، مؤذِن، اَذان، فرض، واجب، سُنّت، نفل، تکبیرتحریمہ، اقامت، نیّت، رکعت، قیام، قعود، قرأت، رکوع، سجدہ، تسبیح، قعدہ، سجدہءِ سہو، سلام، جنازہ، میّت، قبر، تکفین، تدفین، لحد، تکبیر، ذبیحہ، حلال، حرام، مکروہ، منبر، خطبہءِ جمعہ، خطبہءِ عید، قرآن، زکٰوۃ ، حج، جہاد، عمرہ، اعتکاف، استخارہ، صلٰاۃُ التسبیح، کفارہ، صدقہءِ فطر، عیدُالفطر، عیدُالاضحٰی، عمرہ، قضاء، طواف، عدالت، حکم، شریعت، خلافت، حقوق اللہ، حدود اللہ، حدِّقذف، قتلِ عمد، قتلِ خطأ، تصوّف، طریقت، صفت ایمانِ مفصَّل، صفت ایمانِ مجمل، مُتّقی، شہید، تفسیر، ترجمہ، حدیث، تقوٰی، شریعت، بدعت، فقہ، اجتہاد، استنباط، غزوہ، مذہب، رفعُ الیّدَین، صحیح مسلم، صحیح بخاری، التحیات، تکبیرات تشریق، مستحب، جہری قراءت، تشہد، امامِ اعظم، تراویح، کلمہءِ طیب، کلمہءِ شہادت، کلمہءِ تمجید، کلمہءِ توحید، کلمہءِ استغفار، کلمہءِ ردِّ کفر، نفل تحیّۃُ المسجد، نفل تحیّۃ الوضوء، تہجّد، وتر، دعاءِقنوت، مدرسہ، دارُالعلوم، دارُالافتاء، جامعہ عربیہ، کعبۃُ اللہ، حجرِ اسود، سورۃ، آیۃ، اُسوۃُ الحسنہ، حجۃُ الوداع، سورۃ فاتحہ، سورۃ بقرہ وغیرہ کے نام ہیں کہ ان سمیت متعدد اسلامی و قرآنی اصطلاحات و الفاظ و کلمات کوشریعۃِ اسلامیہ(قرآن و سُنَّۃ) میں مخصوص عبادات، اعمال، مقدس مقامات و اشیاء،شعائر ِ اسلامی وغیرہ کے لئے خاص نام مقرر فرما دیا ہے تو صاف ظاہر کہ جب ہم انسانوں کے مقرر کردہ ناموں کو بھی تبدیل نہیں کرسکتے جیسے کہ اپنے والدِ گرامی، اپنے ملک، اپنے صوبے اور شہر کے نام تک کو خاص طریقہءِ کار پر عملدرآمد کے اور معقول و مناسب عذر،وجہ وجواز کے بغیر تبدیل نہیں کر سکتے تو بلا تمثیل اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ نے جو نام مقرر اور خاص کر دیئے ہیں اُن کو تبدیل کس طرح کیا جا سکتا ہے؟اور پھر نماز تو قبل از اسلام سے مجوسیوں (صابئون) کی پوجاپاٹ کا قدیم نام ہے ۔ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ نے کسی بھی معاملے میں یہود و نصارٰی، صابئین سمیت کُفاّرومشرکین کی مشابہت اختیار کرنے سے صاف صاف منع فرمایا ہے۔ لِلّٰہ ذرا سوچیئے، غوروفکر کیجئے، لکیر کے فقیر مت بنیئے، فرقہ پرست مذہبی عناصر کی اندھی کسی طرح بھی جائز نہیں بالکل اُسی طرح جس طرح سے کہ اسلام میں فرقے حرام ہیں اور ان کے ساتھ وابستگی اختیار کرنا حرام و ناجائز ہے۔
ہر کلمہ گو کو اندھی تقلید کے بجائے اللہ کی عطا کردہ عظیم نعمت عقلِ سلیم کو بروئے کار لانے اور سوچنے سمجھنے، غور و فکر کرنت کی ضرورت ہے۔
((تحقیق و تحریر:علّامہ مفتی پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں


No comments:

Post a Comment