Monday, 18 May 2020

تحریک نفاذ اردو پاکستان

*"عدالت کتنی مضبوط ہوتی ہے اس کا اندازا آپ ٹماٹر سے لگا لیجئے۔"*
 ٹماٹر 10مارچ 1893ء تک پوری دنیا میں فروٹ تھا۔ سپریم کورٹ کا ایک حکم آیا اور ٹماٹر پوری زندگی کیلئے سبزی بن گیا۔ اس دلچسپ کیس کی بیک گراﺅنڈ کچھ یوں ہے کہ اٹھارہ سو تراسی میں امریکن کانگریس نے ٹریف ایکٹ 1883ءجاری کیا۔ اس ایکٹ کے تحت  نے امریکا درآمد ہونے والی تمام سبزیوں پر دس فیصد ڈیوٹیا لگا دی‘ اس وقت جان ڈبلیو نکس نام کا ایک تاجر لیٹن امریکا سے سبزیاں اور فروٹ نیویارک درآمد کرتا تھا‘
وہ ٹماٹر بھی منگواتا تھا‘ ایک دن کسی بات پر اس کا نیویارک پورٹ کے ٹیکس کلیکٹر ایڈورڈ ہڈن کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔ ہڈن نے انتقاماًاس کے ٹماٹر کو سبزی ڈکلیئر کر دیا اوراس پر دس فیصد ڈیوٹی لگا دی۔ نکس ہڈن کےخلاف عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا‘ نکس کا کیس تقریباً دس سال تک چھوٹی عدالتوں میں چلتا رہاوہاں سے یہ کیس 24اپریل 1893ءمیں سپریم کورٹ پہنچا‘اس وقت مل ویل فولر امریکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے‘ چیف جسٹس نے جان نکس اور ایڈورڈ ہڈن دونوں کو طلب کر لیا۔ ایڈورڈ ہڈن سے پوچھا گیا ”تم بتاﺅ تم ٹماٹر کو سبزی کیوں کہہ رہے ہو“ ہڈن نے جواب دیا ”جناب عالی ٹماٹر سبزیوں میں پیدا ہوتا ہے“ جان نکس سے پوچھا گیا
3”اور تم اسے فروٹ کیوں کہہ رہے ہو“ جان نکس نے عدالت میں ان تمام ڈکشنریوں اور انسائےکلو پیڈیاز کا ڈھیر لگا دیا جن میں ٹماٹر کو پھل قرار دیا گیا تھا۔ جان نکس نے بوٹینیکل رپورٹ بھی پیش کر دی۔ نباتاتی یعنی بوٹینکلی ٹماٹر واقعی پھل تھا۔ عدالت نے یہ دلچسپ کیس سنا اور آخر میں ٹماٹر کو سبزی ڈکلیئر کر دیا۔ یہ کیس جس وقت عدالت میں زیر سماعت تھا اس وقت اٹارنی جنرل نے ٹریف ایکٹ 1883کو پوری طرح ڈیفنڈ کرنے کی کوشش کی لیکن عدالت نے ٹماٹر کو پھل کی جگہ سبزی کا سٹیٹس دے دیا ۔ آج ٹماٹر بوٹینکلی یا سائنسی لحاظ سے پھل ہے لیکن یہ آج پوری دنیا میں سبزی سمجھا جاتا ہے‘کیوں؟ کیونکہ عدالت نے اسے سبزی قرار دے دیا ہے۔
یہ فیصلہ عدالت کی سپرمیسی کو ثابت کرتا ہے اور پکار پکار کر اعلان کرتا ہے پارلیمنٹ ہو‘ وزیراعظم ہو‘ صدر ہو یا پھر خلیفہ وقت ہو‘ یہ سب لوگ‘ یہ ادارے قانون اور عدالت کے سامنے کمزور ہوتےہیں۔
United States Supreme Court, NIX v. HEDDEN, (1893), No.137, Argued: Decided: May 10, 1893
لیکن, پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے، بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمة الله عليه کے قول و ارشاد اور وعدے، آئین پاکستان اور عدالت عظمی کے فیصلے پر سالہا سال تک عملدرآمد نہیں ہو پاتا، قائد اعظم رحمة الله عليه کے کی بصیرت و اعلان کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مخلتلف آئینوں میں پچاس کی دہائی کے اوائل سے ہی اور پھر آج تک نافذ العمل  آئین 1973ء میں اردو زبان کو قومی زبان قرار دیا گیا اور اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر تمام سرکاری و نجی، عدالتی و عسکری اور غیر عسکری اداروں، محکموں، دفاتد، سکولز میں اردو کے مکمل نفاذ کے لیے زیادہ سے زیادہ پچیس سال کا عرصہ مقرر کیا گیا لیکن ائین کی متعلقہ شق پر آج تک بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ ہماری بالخصوص ہم پر ہمارے ملک پر جابرانہ و غاصبانہ طور پر مسلط دو فیصد یا اس سے بھی کم اشرافیہ کی ذہنی پسماندگی و غلامی ہے جو کم و بیش ایک صدی تک برصغیر پر منافقانہ چالوں اور دھوکہ سے زبردستی مسلط ہونے والے انگریزوں کی عملی غلامی ان کے گھوڑوں کی مالش، کتوں کو نہلانے کی بدولت انگریزوں کی عطا کردہ جاگیروں، جائیدادوں اور منصبوں کی بدولت ان کے ذہنوں میں رچ بس گئی ہوئی ہے اور اس غلامانہ سوچ و فکر سے باہر نکلنے کےلیے تیار نہیں اور اج بھی ان کی نسلیں برطانیہ و یورپ میں تعلیم حاصل کرتی ہیں انگریز کی معاشرت، تہذیب و تمدن اور تشخص کو انگریزی میں پڑھ کر اسی سے مرعوب و متاثر ہو کر جب پاکستان واپس آتی ہیں تو اعلی ترین حکومتہ و سرکاری اور ریاستی کلیدی منصبوں پر فائز ہو کر 98 فیصد سے زائد آزاد و خود مختار، محب وطن، محنتی، مخلص، جفا کش و باشعور و غیور پاکستانی شہریوں کو اپنے انگریز آقاؤں کے نقش قدم پر اپنا غلام اور اپنی رعایا سمجھ کر ان پر حق حکمرانی کو اپنا اختیار سمجھ بیٹھتے ہیں اور محض انگریزی زبان جاننے، لکھنے پڑھنے اور بولنے کی صلاحیت کی بناء پر خود کو امتیازی شان و شوکت کا مستحق گردانتے ہیں، اور وہ چونکہ محض ایک انگریزی زبان کے بل ںوتے پر وزیر، مشیر، وزیر اعلی و وزیر اعظم، اعلی سرکاری (عسکری و غیر عسکری) افسران بن بیٹھتے ہیں اور سرکاری اختیارات و وسائل پر اپنے تسلط و اجارہ داری کو دوام بخشنے کی خاطر قومی زبان اردو کے نفاذ کے آئینی تقاضوں سے بھی انحراف و روگرانی اور سرکشی کو جائز سمجھ لیتے ہیں اسی وجہ سے بہتر سال گزر جانے کے بعد بھی پاکسان کے 22 کروز شہریوں کی 98 فیصد سے زائد اکثریت آزادی کے ثمرات، اپنے بنیادی، انسانی، آئینی، قانونی، شرعی، معاشی معاشرتی، شہری حقوق سے محروم ہے اور اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے بھی فرنگی کے غلام انگیزی دان کالے انگریزوں کی غلامی کو اپنا نصیب و مقدر اور قسمت کا لکھا سمجھ کر عملا قبول کر لیا ہو اسی لیے اب تک قومی زبان اردو کے نفاذ سمیت آئین کی بعض دیگر اسلامی شقوں کو عملی طور پر نافذ نہیں کروایا جا سکا۔
سیاسی حکمران و سرکاری (عسکری و غیر عسکری) افسران کا طبقہ نہیں چاہتا کہ مقامی و علاقائی مادری زبانوں اور قومی زبان اردو کو ذریعہء تعلیم و تدریس بنایا جائے کیونکہ اس سے قوم کے بچوں میں شعور بیدار ہو سکتا ہے ان میں غور و فکر کرنے، سوچنے سمجھنے اور حقائق کا مشاہدہ و تجشیہ کر کے درست نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو سکتی ہے جس سے ان کے جابرانہ و غاصبانہ تسلط کو کمزوری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور وہ ایسا ہونے دینا نہیں چاہتے، بہرحال طویل سماعت کے بعد عدذلت عظمی بھی حکومت کو حکم دے چکی ہے کہ قومی زبان اردو کے نفاذ سے متعلق آئینی تقاضے کو فی الفور پورا کیا جائے لیکن حکومت و افسر شاہی کے ناجئز و غیر آئینی و غیر قانونی مکروہ مفادات کو چونکہ عدالت عظمی کے فیصلے پر عممدرآمد زد پڑ سکتی ہے اس لیے اب تک لیت و لعل یعنی ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے، الحمد لله محترم جناب عطاء الرحمن چوہان صاحب اور ان کے رفقاء نے تحریک نفاذ اردو کے جھنڈے تلے نفاذ قومی زبان اردو کےلیے ہمہ گیر و ہمہ جہت منظم، مربوط، مؤثر، فعال اور بامقصد و نتیجہ خیز تحریک شروع کر دی ہے باشعور و محب وطن اور تعلیم یافتہ پاکستانی تحریک میں شمولیت اختیار کر کے اپنی اپنے طور پر تحریک کو کامیاب کرنے کی کوشش شروع کر رہے ہیں، بندہ ناچیز بھی اس تحریک کا ایک رضاکار و ادنی کارکن ہے، بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے ان شاء الله تعالى اب منزل زياده دور نہيں، جلد ہی کامیابی و کامرانی تحریک نفاذ اردو پاکستان کا نصیب و مقدر بنے گی، ہر ایک غیور و باشعور، محب وطن، تعلیم یافتہ پاکستانی شہری کا فرض ہے اور اس پر قرض ہے کہ وہ وسیع تر و بہترین ملکی و قومی مفاد میں تحریک نفاذ اردو پاکستان میں شامل ہو کر، دامے، درہمے، قدمے، سخنے اس اہم ترین تحریک کو  کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلیے مخلصانہ طور پر پوری کوشش کرے اور آئین پاکستان پے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کی کوششوں میں تناپ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے۔ ان شاء الله تعالى پاکستان میں قومی زبان اردو کا عملا نفاذ ہو کر رہے گا، آئین پاکستان اور عدالت عظمی کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد سے کم پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں کیونکہ اس کے بغیر قومی ترقی ممکن ہے اور نہ عام پاکستانی آزادی کے ثمرات سے مستفید و مستفیض ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہمیں معاشی و معاشرتی اور سماجی عدل و انصاف میسر آ سکتا ہے اور نہ ہمیں اپنے سارے بنیادی و انسانی، آئینی و قانونی، معاشی و معاشرتی اور شہری حقوق حاصل ہو سکتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
پرنسپل
پاک ایشیئن سکولنگ سسٹم، ھاکس بے روڈ، کراچی غربی

No comments:

Post a Comment