اس تحقیق و تحریرکو اعتماد و یقین کے ساتھ پڑھیں،
قرآن و سُنَّۃ سے اخذ کیے گئے نتائج پر غور و فکر کریں اور درست سمجھیں تو آگے شیئر کریں کیونکہ یہ ہمارےایمان کا لازمی
تقاضہ ہے:
بسم
الله الرحمن الرحيم.
سوال:
کیا کسی صحت مند اور تندرست و توانا مؤمن
و مسلم شخص کے لیے جائز ہے اور کیا وہ پابند ہےکہ "کورونا وائرس"
کے خوف سے صلاة الجمعه اور صلٰوة خمسه کی
باجماعت اقامت کےلیے مساجد کا رخ
کرنا ترک کرنے کے فتاوٰی اور ان کی روشنی میں حکومتی
احکامات و اقدامات پر عملدرآمد کرے؟ قرآن
و سُنَّۃ کے احکامات کی روشنی میں جواب دے
کر عنداللہ مأجور ہوں۔
لجواب:
و بالله التوفيق.
ان
سوالات کو سمجھنے کی غرض و غایت سے صلاۃ
الجُمعہ اور صلاۃِ خمسہ کی باجماعت اقامت
کے تعلق سے قرآنُ سُنَّۃ کے چند احکام اور
ان سے اخذ ہونے والے مسائل کا کچھ تفصیل سے احاطہ کرنا ضروری و
مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ بات سمجھی جا سکے۔
پہلی
بات:
{فرض
نمازوں کی پابندی کرنے کا حکم}
حٰفِظُوْا
عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰي وَقُوْمُوْا ِﷲِ قٰنِتِيْنَ
(البقرة، 2/ 238)
تمام
صلٰوۃکی محافظت کیا کرو اور بالخصوص صلاۃُ الوسظٰی کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و
نیاز بن کر قیام کیا کرو۔
اِنَّ
الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِيْنَ کِتٰـبًا
مَّوْقُوْتًا (النساء، 4/ 103)
بے
شک اقامتِ صلٰوۃ مؤمنون پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔
وَاَقِمِ
الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ اِنَّ
الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِيْنَ (هود،
11/ 114)
اور
آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں صلٰوۃقائم کیجیے۔ بے شک نیکیاں
برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔
اَقِمِ
الصَّلٰوةَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ
الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْهُوْدًا (بنی اسرائيل، 15/ 78)
آپ
سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) صلٰوۃقائم
فرمایا کریں اور(صلاۃِ) فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بے شک (صلاۃ) فجر کے
قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے (اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے)۔
فَاصْبِرْ
عَلٰی مَا يَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ
وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا ج وَمِنْ اٰنَآیِٔ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ
النَّهَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی (طهٰ، 20/ 130)
پس
آپ ان کی (دل آزار) باتوں پر صبر فرمایا کریں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح
کیا کریں طلوع آفتاب سے پہلے (صلاۃُالفجر میں) اور اس کے غروب سے قبل (صلاۃُالعصر
میں) اور رات کی ابتدائی ساعتوں میں (یعنی صلاۃُ المغرب اور صلاۃُ العشاء میں) بھی تسبیح کیا کریں اور دن کے
کناروں پر بھی (صلاۃُالظہر میں جب دن کا نصفِ اوّل ختم اور نصفِ ثانی شروع ہوتا
ہے، (اے حبیبِ مکرّم!(ﷺ) یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ آپ راضی ہو جائیں۔
وَالَّذِيْنَ
هُمْ عَلٰی صَلَوٰتِهِمْ يُحٰفِظُوْنَ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ الَّذِيْنَ
يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ (المؤمنون، 23/
9-11)
اور
جو اپنی نصلٰوۃ کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ (جنت کے) وارث
ہیں۔ یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جہاں تمام نعمتوں، راحتوں اور قربِ الٰہی
کی لذتوں کی کثرت ہو گی ان) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔
الَّذِيْنَ
هُمْ عَلٰی صَلَاتِهِمْ دَآئِمُوْنَ (المعارج، 70/ 23)
جو
اپنی صلاۃ پر ہمیشگی قائم رکھنے والے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ
هُمْ عَلٰی صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ اُولٰٓئِکَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ (المعارج،
70/ 34-35)
اور
وہ لوگ جو اپنی صلاۃکی حفاظت کرتے ہیںoیہی لوگ ہیں جو
جنتوں میں معزّز و مکرّم ہوں گے۔
اَلْحَدِيْث
عَنْ
عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم:
أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اﷲِ؟ قَالَ: اَلصَّلَاةُ عَلٰی وَقْتِهَا. قَالَ:
ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ. قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:
اَلْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اﷲِ. قَالَ: حَدَّثَنِي بِهِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ
لَزَادَنِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔ أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب مواقيت الصلاة،
باب فضل الصلاة لوقتها، 1/ 197، الرقم/ 504، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب
بيان کون الإيمان باﷲ تعالی أفضل الأعمال، 1/ 89، الرقم/ 85، وأحمد بن حنبل في
المسند، 1/ 409، الرقم/ 389، والترمذي مثله في السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء في
الوقت الأول من الفضل، 1/ 325، الرقم/ 173، والنسائي في السنن، کتاب المواقيت، باب
فضل الصلاة لمواقيتها، 1/ 292، الرقم/ 116.
حضرت
عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا: صلاۃکو
اس کے وقت پر قائم کرنا۔ (میں نے عرض کیا) پھر کون سا؟ فرمایا: پھر والدین کے ساتھ
نیکی (اور حسن سلوک) کرنا۔ میں عرض گزار ہوا کہ پھر کون سا ہے؟ فرمایا: اللہ کی
راہ میں جہاد کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے ان چیزوں کے بارے میں بیان فرمایا اور اگر
میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مجھے اور زیادہ بتا دیتے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم
قَالَ: يَتَعَاقَبُوْنَ فِيْکُمْ مَـلَائِکَةٌ
بِاللَّيْلِ وَمَـلَائِکَةٌ
بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُوْنَ فِي صَـلَاةِ
الْفَجْرِ وَصَـلَاةِ الْعَصْرِ،
ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِيْنَ بَاتُوْا فِيْکُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ
بِهِمْ: کَيْفُ تَرَکْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُوْلُوْنَ: تَرَکْنَاهُمْ وَهُمْ
يُصَلُّوْنَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّوْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه
البخاري في الصحيح، کتاب مواقيت الصلاة، باب فضل صلاة العصر، 1/ 203، الرقم/ 530،
ومسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل صلاتي الصبح والعصر
والمحافظة عليهما، 1/ 439، الرقم/ 632، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 257، الرقم/
7483، ومالک في الموطأ، 1/ 170، الرقم/ 411، والنسائي في السنن، کتاب الصلاة، باب
فضل صلاة الجماعة، 1/ 240، الرقم/ 485.
حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس باری باری آتے رہتے ہیں اور فجر اور عصر کی صلاۃکے
وقت وہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ پھر جب وہ فرشتے جو تمہارے پاس ٹھہرے تھے، اوپر چڑھ جاتے
ہیں اور ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے حالانکہ وہ انہیں (اپنے بندوں کو) خوب
جانتا ہے، تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ کہتے ہیں: جب ہم ان کے پاس سے
روانہ ہوئے تو وہ صلاۃ قائم کر رہے تھے اور جب ان کے پاس پہنچے تھے تو تب بھی وہ صلاۃ
قائم کررہے تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
عَنْ
أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم
وَضَرَبَ فَخِذِي: کَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيْتَ فِي قَوْمٍ يُؤَخِّرُوْنَ الصَّـلَاةَ
عَنْ وَقْتِهَا؟ قَالَ: قَالَ: مَا تَأْمُرُ؟ قَالَ: صَلِّ الصَّـلَاةَ
لِوَقْتِهَا، ثُمَّ اذْهَبْ لِحَاجَتِکَ، فَإِنْ أُقِيْمَتِ الصَّـلَاةُ
وَأَنْتَ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلِّ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ
وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَزَّارُ.
أخرجه
مسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب کراهية تأخير الصلاة عن وقتها
المختار وما يفعله المأموم إذا أخرها الإمام، 1/ 448، الرقم/ (241) 648، وأحمد بن
حنبل في المسند، 5/ 168، الرقم/ 21516، والنسائي في السنن، کتاب الإمامة، باب إعادة
الصلاة بعد ذهاب وقتها مع الجماعة، 2/ 113، الرقم/ 859، وعبد الرزاق في المصنف، 2/
380، الرقم/ 3780، والبزار في المسند، 9/ 374، الرقم/ 3954.
حضرت
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری ران پر
ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا: تم جب ایسے لوگوں میں رہ جاؤ جو اقامتِ صلاۃ میں مقررہ
وقت سے دیر کریں گے۔ تو تم کیا کرو گے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے کہ میں نے
عرض کیا: آپ (مجھے) کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صلاۃ کو اس کے مقررہ وقت پرپڑھ لینا، پھر اپنے کام کے لئے چلے جانا، اور اگر
تمہارے مسجد میں ہوتے ہوئے باجماعت اقامتِ صلاۃ منعقد ہو جائے تو تم بھی (جماعت کے
ساتھ) صلاۃ قائم کر لینا۔ اس حدیث کو امام مسلم، احمد، نسائی، عبد الرزاق اور بزار
نے روایت کیا ہے۔
عَنْ
ثَوْبَانَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم:
اسْتَقِيْمُوْا وَلَنْ تُحْصُوْا، وَاعْلَمُوْا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِکُمُ
الصَّلَاةُ، وَلَا يُحَافِظُ عَلَی الْوُضُوْئِ إِلاَّ مُؤْمِنٌ. رَوَاهُ
أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 282، الرقم/ 22489، وابن ماجه في السنن، کتاب
الطهارة وسننها، باب المحافظة علی الوضوء، 1/ 101، الرقم/ 277، والدارمي في السنن،
1/ 174، الرقم/ 655، وابن حبان في الصحيح، 3/ 311، الرقم/ 1037، والطبراني في المعجم
الأوسط، 7/ 116، الرقم/ 7019.
حضرت
ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(دین کے زیادہ سے زیادہ شعبوں پر) اِستقامت اِختیار کرو اگرچہ تم ہرگز ان کا
اِحاطہ نہیں کرسکو گے۔ اوریہ بات جان لو کہ تمہارے تمام اَعمال میں سب سے اَفضل
عمل صلاۃ قائم کرناہے اور مومن کے سوا کوئی شخص باوضو رہنے کی پابندی نہیں کرتا۔ اس
حدیث کو امام احمد، ابن ماجہ، دارمی، ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور یہ
الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔
عَنْ
أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی
الله عليه وآله وسلم: قَالَ اﷲُ: افْتَرَضْتُ عَلٰی أُمَّتِکَ خَمْسَ صَلَوَاتٍ.
وَعَهِدْتُ عِنْدِي عَهْدًا أَنَّهُ مَنْ حَافَظَ عَلَيْهِنَّ لِوَقْتِهِنَّ
أَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَمْ
يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ، فَلَا عَهْدَ لَهُ عِنْدِي. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ
وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَالطَّيَالِسِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَذَکَرَهُ
َالْمَرْوَزِيُّ وَالْمَقْرِيْزي. أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في
المحافظة علی وقت الصلاة، 1/ 117، الرقم/ 430، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة
الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في فرض الصلوات الخمس والمحافظة عليها، 1/ 450،
الرقم/ 1403، والطيالسي في المسند، 1/ 78، الرقم/ 573، والمقدسي في الأحاديث
المختارة، 8/ 305، الرقم/ 368، والديلمي في مسند الفردوس، 3/ 166، الرقم/ 4440،
وذکره المروزي في تعظيم قدرة الصلاة، 2/ 970، الرقم/ 1054، والمقريزي في مختصر
کتاب الوتر، 1/ 31، الرقم/ 13.
حضرت
ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے آپ کی اُمت پر پانچ صلٰوۃ کی اقامت فرض کی ہے
اور میں نے اپنے ہاں عہد کر رکھا ہے کہ جو شخص ان کے اوقات کے ساتھ ان صلٰوۃ کی اقامت پابندی کے ساتھ کرے گا اسے جنت میں داخل کروں گا اور جو
ان کی پابندی نہیں کرے گا تو اس کے ساتھ میرا کوئی عہد نہیں (کہ اسے سزا دوں یا
بخش دوں)۔ اس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ، طیالسی اور دیلمی نے روایت کیاہے
اور مروزی اور مقریزی نے بیان کیا ہے، مذکورہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔
عَنْ
عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله
وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: إِنَّ أَوْلِيَاءَ اﷲِ الْمُصَلُّوْنَ، وَمَنْ
يُقِيْمُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ الَّتِي کَتَبَهُنَّ اﷲُ عَلٰی عِبَادِهِ،
وَيَصُوْمُ رَمَضَانَ، وَيَحْتَسِبُ صَوْمَهُ، وَيُؤْتِي الزَّکَاةَ طَيِّبَةً
بِهَا نَفْسُهُ يَحْتَسِبُهَا، وَيَجْتَنِبُ الْکَبَائِرَ الَّتِي نَهَی اﷲُ
عَنْهَا.
رَوَاهُ
اْلحَاکِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، وَالْبَيْهَقِيُّ. أخرجه الحاکم
في المستدرک، 1/ 127، الرقم/ 197، والطبراني في المعجم الکبير، 17/ 47، الرقم/
101، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 10/ 186، الرقم/ 20541.
حضرت
عمیر اللّیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ کے ولی پابندی کے ساتھ
اقامتِ صلٰوۃ کرنے والے مُصلّیّین ہوتے
ہیں، اور وہ شخص بھی ولی اللہ ہے جو ان صلٰوۃکو پابندی سے قائم کرتا ہے جو
اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہیں۔ خود احتسابی کے ساتھ اَجر و ثواب کی نیت سے
رمضان کے روزے رکھتا ہے، خوش دلی سے حصولِ ثواب کے لئے زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور ان
کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
اس
حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔مذکورہ الفاظ امام طبرانی کے
ہیں۔
یاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ
فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ
اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۹))
مفہوم
کنزالعرفان: "اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نصلاۃُ الجمعہ کیلئے اذان دی جائے
تو اللہ کے ذکر (اقامتِ صلاۃ)کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ اگر تم جانو
تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے" ۔
تفسیرو مفہوم: اس آیت سے صلاۃُالجمعہ کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں۔یہاں اس آیت سے متعلق تین باتیں ملاحظہ ہوں : : صراط الجنان
تفسیرو مفہوم: اس آیت سے صلاۃُالجمعہ کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں۔یہاں اس آیت سے متعلق تین باتیں ملاحظہ ہوں : : صراط الجنان
(1) اس آیت میں اذان سے مراد پہلی اذان ہے نہ کہ دوسری اذان جو
خطبہ سے مُتَّصِل ہوتی ہے۔ اگرچہ پہلی اذان حضرت عثمان غنی رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں اضافہ کی گئی ، اس فقیر کے فہم کے مطابق ااس سے وہی اذان مراد
ہے جو اس آیۃ کے نزول کے وقت یعنی ع مہبظِ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و
سلم کی ظاہری حیاتِ طیّبہ میں آپ ﷺ کے
وصالِ پُر ملال سے پہلے سےدی جایا کرتی تھی ۔ مگر صلاۃالجمعہ کی تیاری کے
واجب ہونے اور خرید و فروخت ترک کر دینے کا تعلق اسی اذان سے ہے۔
(2)
دوڑنے سے بھاگنا مراد نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ ناقامتِ صلاۃ الجمعہ کیلئے
تیاری شروع کردو اور ذِکْرُ اللّٰہ سے جمہور علماء کے نزدیک خطبہ مراد
ہے جبکہ اس فقیر کے فہم کے مطابق اقامتِ صلاۃ الجمعہ مراد ہے کیونکہ خطبہ اسی کا
ایک لازمی جزو ہے۔
(3)… اس
آیت سے صلاۃَ ِ جمعہ کی فرضیّت،خرید و فروخت وغیرہ سمیت دُنْیَوی مَشاغل کی حرمت اور سعی یعنی صلاۃ
ال؛جمعہ کی اقامت کے اہتمام کا وجوب ثابت ہوا اور خطبہ بھی ثابت ہوا ۔( خزائن
العرفان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۰۲۵، ملخصاً)
جمعہ
کی وجہِ تَسمِیَہ :
عربی
زبان میں اس دن کا نام عروبہ تھا بعد میں جمعہ رکھا گیا اورسب سے
پہلے جس شخص نے اس دن کا نام جمعہ رکھا وہ کعب بن لُوی ہیں ۔اس کی وجہ تسمیہ کے
بارے میں مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جمعہ اس
لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن صلاۃ کیلئے جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے ۔(خازن،
الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۶۵)
تاجدارِ
رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ َکا پہلا
جمعہ:
سیرت
بیان کرنے والے علماء کا بیان ہے کہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے
تو 12ربیع الاوّل ،پیر کے دن، چاشت کے وقت قباء کے مقام پر ٹھہرے،پیر سے لے
کر جمعرات تک یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی ، جمعہ کے
دن مدینہ طیبہ جانے کا عزم فرمایا، بنی سالم بن عوف کی وادی کے درمیان جمعہ
کا وقت آیا، اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہاں جمعہ
پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔یہ پہلا جمعہ ہے جو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اَصحاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُمْ کے ساتھ پڑھا۔( خازن، الجمعۃ، تحت
الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۶۶)
روزِ
جمعہ کے4 فضائل :
کثیر
اَحادیث میں جمعہ کے دن کے فضائل بیان کئے گئے ہیں،یہاں ان
میں سے 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت
ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ
رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا ’’بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت
آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا کیے گئے ، اسی میں جنت میں داخل
کیے گئے اور اسی میں انہیں جنت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی
کے دن قائم ہوگی۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵،
الحدیث: ۱۸(۸۵۴))
(2)…حضرت
ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد
المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا: "جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت کیاکرو کہ یہ دن مشہود ہے، اس
میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش کیا جائے
گا۔حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں : میں نے
عرض کی اور موت کے بعد؟ ارشادفرمایا: بے شک! اللّٰہ تعالیٰ نے زمین پر
انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم کھانا حرام کر
دیا ہے، اللّٰہ تعالیٰ کا نبی زندہ ہے، روزی دیا جاتا ہے۔ ( ابن
ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ
وسلم، ۲ / ۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷)
(3)…حضرت
ابو لبابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ
اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا ’’جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے
اور اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور
وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک عیدالاضحی اورعید الفطر سے بڑا ہے، اس
میں پانچ خصلتیں ہیں :(1) اللّٰہ تعالیٰ نے اسی
میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا
کیا۔ (2) اسی میں انہیں زمین پر
اُتارا۔ (3) اسی میں انہیں وفات دی۔ (4)اور اس میں ایک
ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز
کا سوال کرے اللّٰہ تعالیٰ اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ
کرے۔ (5)اور اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، کوئی مُقَرَّب فرشتہ، آسمان و زمین
،ہوا ، پہاڑ اور دریا ایسا نہیں کہ جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔( ابن
ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فضل
الجمعۃ، ۲ / ۸، الحدیث: ۱۰۸۴)
(4)…حضرت
جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ
اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا’’جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے گا، اسے عذابِ قبر سے بچا
لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مُہر ہوگی۔(حلیۃ
الاولیاء، ذکر طبقۃ من تابعی المدینۃ۔۔۔
الخ، محمد بن المنکدر، ۳ / ۱۸۱، الحدیث: ۳۶۲۹)
جمعہ
کے دن دعا قبول ہونے کی گھڑی:
جمعہ
کے دن ایک گھڑی ایسی ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ خاص طور پر دعا قبول
فرماتا ہے ،جیسا کہ اوپر حدیث نمبر3 میں بیان ہو ا اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اس
میں ایک ساعت ہے، جو مسلمان بندہ اسے
پائے اور وہ کھڑا ہو کرصلاۃ قائم کر رہا
ہو تو اللّٰہ تعالیٰ سے جو چیز مانگے گا وہی عطا فرما دی جائے گی ،اور
ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ وقت بہت تھوڑا ہے۔( بخاری، کتاب الجمعۃ،
باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، ۱ / ۳۲۱، الحدیث: ۹۳۵)
یاد
رہے کہ وہ کون سا وقت ہے اس بارے میں روایتیں بہت ہیں، ان میں سے
دو قوی ہیں : (1) وہ وقت امام کے خطبہ کے لیے بیٹھنے سے نماز ختم تک ہے۔
(2)وہ جمعہ کی آخری ساعت ہے۔(بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا
بیان، ۱ / ۷۵۴، ملخصاً)
نمازِ
جمعہ کے2 فضائل:
اَحادیث
میں جمعہ کی صلاۃ قائم کرنےکے بہت سے فضائل بیان کئے گئے
ہیں،یہاں ان میں سے دو فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت
ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ
اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: "جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر اقامتِ صلاۃ الجمعہ کو آیا اور (خطبہ) سنا اور چپ رہا ، اس کے لیے ان گناہوں کی
مغفرت ہو جائے گی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہوئے ہیں اور(ان کے
علاوہ) مزید تین دن (کے گناہ بخش دئیے جائیں گے ) اور جس نے کنکری چھوئی
اس نے لَغْوْ کیا۔ ( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل من استمع وانصت فی الخطبۃ، ص۴۲۷،
الحدیث: ۲۷ (۸۵۷)) یعنی خطبہ سننے کی حالت میں اتنا کام بھی لَغْوْ
میں داخل ہے کہ کنکری پڑی ہو اُسے ہٹا دے۔
(2)…حضرت
ابو سعید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ
کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا ’’پانچ چیزیں جو ایک دن میں کرے گا، اللّٰہ تعالیٰ اس
کو جنتی لکھ دے گا۔ (1) جو مریض کو پوچھنے جائے ،
(2) جنازے میں حاضر ہو ، (3) روزہ رکھے ، (4) صلاۃُالجمعہ
کو جائے ، (5)اور غلام آزاد کرے۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ،
باب صلاۃ الجمعۃ، ۳ / ۱۹۱، الجزء الرابع، الحدیث: ۲۷۶۰)
جمعہ
کی نماز چھوڑنے کی وعیدیں:
اَحادیث
میں جہاں اقامتِ صلاۃُ الجُمعہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں وہیں جمعہ
کی صلاۃ قائم نہ کرنے پر وعیدیں بھی بیان
کی گئی ہیں چنانچہ یہاں اس کی دووعیدیں ملاحظہ ہوں ،
(1)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور
حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگ صلاۃُالجُمعہ چھوڑنے سے باز آئیں گے
یا اللّٰہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر کر دے گا، پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔ (مسلم،
کتاب الجمعۃ، باب التغلیظ فی ترک الجمعۃ، ص۴۳۰، الحدیث: ۴۰(۸۶۵))
(2)
حضرت اسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ
اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا "جس نے کسی عذر کے بغیر تین جمعے چھوڑے وہ منافقین میں لکھ دیاگیا۔ (معجم الکبیر،
مسند الزبیر بن العوام، باب ما جاء فی المرأۃ السوئ۔۔۔
الخ، ۱ / ۱۷۰، الحدیث: ۴۲۲)
صلاۃُالجُمعہ
کی فرضیّت کی شرائط اور دیگر مسائل کیلئے بہارِ شریعت کامطالعہ فرمائیں ۔
صلاۃُالجُمعہ
کی فرضیت سے متعلق3 شرعی مسائل:
یہاں صلاۃُالجُمعہ
کی فرضیت سے متعلق 3شرعی مسائل ملاحظہ ہوں :
(2)
اقامتِ صلاۃُ الجُمعہ فرضِ عین ہے اور ا س کی فرضیت ظہر سے زیادہ مُؤکَّد ہے اور
اس کا منکر کافر ہے۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، مسائل فقہیہ، ۱ / ۷۶۲)
صلاۃُالجُمعہ قائم کرنےکے لئے 6شرائط ہیں،
ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو جمعہ ہو گا ہی نہیں، (1) جہاں جمعہ پڑھا
جا رہا ہے وہ شہر یا فناءِ شہر ہو۔ (2) جمعہ پڑھانے والاحاکمِ اسلام ہویا اس کا
نائب ہو جسے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔ (3) ظہر کا وقت ہو۔یعنی ظہر
کے وقت میں ہی صلاۃُؒ الجُمعہ کی
اقامت پوری ہو جائے ، لہٰذا اگر اقامتِ
صلاۃ کے دوران اگرچہ تشہد کے بعد عصر کا
وقت آگیا تو جمعہ باطل ہو گیا، اب ظہر کی قضا پڑھیں ۔ (4) خطبہ ہونا۔ (5)جماعت
یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین
مَردوں کا ہونا۔ (6) اذنِ عام،
یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے ،کسی کو کوئی روک ٹوک نہ ہو ۔
(3)
جمعہ فرض ہونے کے لئے 11شرطیں ہیں، اگر ان میں سے ایک
بھی نہ پائی گئی تو جمعہ فرض نہیں،لیکن اگر پڑھے گا تو ادا ہو جائے گا۔ (1) شہر
میں مقیم ہونا (2) صحتمند ہونا، یعنی مریض پر جمعہ فرض نہیں ، مریض سے
مراد وہ ہے کہ جامع مسجد تک نہ جا سکتا ہو، یا چلا تو جائے گا مگر مرض بڑھ جائے گا یا دیر
میں اچھا ہو گا۔ (3) آزاد ہونا، (4) مرد
ہونا، (5) عاقل ہونا ، (6) بالغ ہونا، (7) آنکھوں والا ہونا، یعنی نابینا نہ ہو ،(8)
چلنے پر قادر ہونا، (9) قید میں نہ ہونا (10) بادشاہ یا چور و ڈاکو وغیرہ کسی ظالم و دُشمن کا خوف نہ ہونا، (11) اس قدر
بارش،آندھی، اولے یا سردی نہ ہوناکہ ان سے جان کو نقصان پہنچنے کا صحیح خوف ہو۔
نوٹ:
جمعہ سے متعلق شرعی مسائل کی مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے بہار
شریعت،جلد 1،حصہ4سے "جمعہ کا بیان" مطالعہ فرمائیں ۔
{ذٰلِكُمْ
خَیْرٌ لَّكُمْ: یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔} یہاں بہتری سے مراد
لُغوی بہتری ہے یعنی دنیاوی کاروبار سے نمازِ جمعہ اور خطبہ وغیرہ بہتر ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حاضری واجب نہ
ہو، صرف مستحب ہو۔
فَاِذَا
قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ
اللّٰهِ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۱۰)
ترجمہ:
کنزالعرفان
پھر
جب صلاہُ الجُمعہ پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اوراللہ کا فضل تلاش کرو
اوراللہ کو بہت یاد کرو اس امید پر کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
تفسیر:
صراط الجنان
{فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ: پھر جب صلاۃ ِ جمعہ پوری
ہوجائے۔ } یعنی جب صلاۃِ جمعہ قائم ہو چکے تو اب تمہارے لئے جائز
ہے کہ معاش کے کاموں میں مشغول ہو جاؤ یا علم حاصل کرنے، مریض
کی عیادت کرنے ، جنازے میں شرکت کرنے ، علماء کی زیارت کرنے اور ان جیسے دیگر
کاموں میں مشغول ہو کر نیکیاں حاصل کرو اور صلاۃ قائم کرنے
کے علاوہ بھی ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کیا کرو تاکہ
تمہیں کامیابی نصیب ہو۔ ( خازن، الجمعۃ، تحت
الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۶۸، مدارک، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۱۰،
ص۱۲۴۱، ملتقطاً)
یہ
بات یقینی طور پر ثابت شدہ ہے کہ اللّٰه تعالٰی کے راستے میں دشمن کے سامنے جہاد
کے دوران بھی باجماعت، اقامت صلوٰۃ ساقط نہیں ہوتی تو یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ
صرف ایک بیماری کے وہم سے صلاة الجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کر
دیا جائے۔
چنانچہ
قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
سورۃ البقرۃ، آیۃ نمبر۱۱۴ کا مفہوم: "اوراس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو
اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو؟ ایسے
لوگ اس قابل ہیں کہ ان کی عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی، تو ڈرتے
ہوئے جائیں ان کے لیے تو دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے
دوسرے
مقام پر ارشادِ باری تعالٰی ہے: "وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طائفة
منهم معك...."الآية.
مفہوم:
اور جب آپ ان کے ساتھ(میدانِ جہاد میں) ہوں، پس آپ ان کے ساتھ باجماعت صلوة قائم
کریں، پھر ان میں سے ایک ٹولی آپ کے ساتھ
جماعت میں شریک رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔إلخ
دوسری
بات:
یہ
وبائیں اور بیماریاں درحقیقت گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے آتی ہیں۔ چنانچہ
اللّٰه تعالٰی کا ارشاد ہے:
وما
أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم.
ترجمہ:
" اور جو بھی مصیبت تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے۔"
مزید
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ظهر
الفساد في البر و البحر بما كسبت أيدي الناس ليذيقهم بعض الذي عملوا لعلهم يرجعون.
ترجمہ:
"خشکی اور تری میں جتنی خرابی ہے وہ سب انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے، (یہ
سب اس لیے ہے) تاکہ انہیں چکھائے ان کی بعض بد اعمالیوں کی سزا (اور یہ اس لیے)
تاکہ وہ (اپنی بد اعمالیوں) سے توبہ کرلیں۔"
کیا
اللّٰه تعالٰی نے وبائوں کے علاج کے طور پر توبہ، استغفار، اقامت صلوٰۃ، تلاوت
قرآن اور دعا کو سبب قرار نہیں دیا؟؟؟
اس
کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ فرائض و واجبات، صلاةالجمعه اور
باجماعت صلوة خمسه کو چھوڑ دینے میں وباؤں کا علاج نہیں رکھا گیا ہے۔
تیسری
بات:
اللّٰه
تعالٰی کا ارشاد ہے:
ما
أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها.
ترجمہ:
"جو بھی مصیبت زمین پر آتی ہے یا تمہاری جانوں پر آتی ہے وہ پہلے سے اٹل شدہ
تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔"
مزید
ارشادِ باری تعالٰی ہے:
قل
لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا.
ترجمہ:"
آپ کہہ دیں! ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللّٰه تعالٰی نے ہمارے
لیے لکھ دی ہو۔"
مزید
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قل
لوكنتم في بيوتكم لبرز الذي كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم.
ترجمہ:"
آپ ان سے کہہ دیں! اگر تم اپنے گھروں میں رہو گے تب بھی تمہارے مقدر میں لکھا ہوا
قتل وہ تمہاری خواب گاہوں تک پہنچ کر رہے گا ( یعنی تقدیر کا لکھا ہوا بہرحال نافذ
ہو کر رہے گا)."
نبی
کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و الله و سلم کا ارشاد ہے:
"اچھی
طرح جان لو کہ اگر ساری امت تم کو نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تب بھی اللّٰه
تعالٰی کے لکھے ہوئے سے زیادہ نفع دینے پر قدرت نہیں رکھ سکتی اور اگر ساری امت تم
کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے تب بھی اللّٰه تعالٰی کی تقدیر کے مطابق ہی
نقصان پہنچا سکے گی (اس سے زیادہ نہیں). "
( مسندِ
احمد۔جامع ترمذی۔).
پس
ہمارا اللّٰه تعالٰی کی تقدیر پر ایمان اور اس کی ذات پر بھروسہ ہمیں کسی بیماری
وغیرہ کے وہم سے فرائض و واجبات، صلاةالجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت سے
روک نہیں سکتا۔
چوتھی
بات:
نبی
کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے طاعون وغیرہ سے نمٹنے کے سلسلے
میں یہ ہدایت ارشاد فرمائی ہے جہاں طاعون پھیل جائے وہاں سے کوئی باہر نہ جائے اور
باہر والے طاعون کے علاقے میں داخل نہ ہوں۔
کیا
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے صلاةالجمعه اور صلوة خمسه کہ
باجماعت اقامت کو ترک کرنے کی بھی ہدایت ارشاد فرمائی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
پانچویں
بات:
حضرت
عمر فاروق رضی اللّٰه تعالٰی عنه کے زمانے میں طاعون پھیل گیا تھا۔ چنانچہ انہوں
نے مہاجرین اور انصار سے مشاورت فرمائی اور مختلف اقدامات کیے۔
کیا
ان حضرات نے صلاةالجمعہ اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا
تھا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
چھٹی
بات:
اللّٰه
تعالٰی کا ارشاد ہے: واستعينوا بالصبر و الصلاة"۔ مفہوم:"اور صبر اور صلاة کے ذریعے مدد
حاصل کرو "۔"
اس
آیت کی روشنی میں صلاة کو قائم کرنے کے ذریعے مدد حاصل کی جائے گی یا صلاةالجمعه
اور صلاة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کر کے مدد حاصل ہوگی؟
اور
صلوة قائم کرنے کا طریقه وہ ہوگا جو نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و
سلم نے مسجد میں ادا کر کے دکھایا اور سکھایا یا باجماعت صلاة کو چھوڑ کر؟
ساتویں
بات:
نبی
کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم کا ارشاد ہے "جو شخص صلاة الفجر
باجماعت قائم کرے تو وہ اللّٰه تعالٰی کی ضمانت (تحفظ) میں آجاتا ہے"۔
توکیا
صلاة الفجر کی باجماعت اقامت کے ذریعے اللّٰه تعالٰی کی ضمانت (تحفظ) میں آجانا
ہمارے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا اللّٰه تعالٰی اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟؟
آٹھویں
بات:
نبی
کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے نابینا صحابی کو بھی باجماعت
اقامت صلاة چھوڑنے کی اجازت نہیں دی تھی حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کوئی
لانے والا نہیں اور مدینے میں حشرات اور درندوں کا بھی خطرہ تھا۔
پس
ہمارا کیا خیال ہے کہ صرف ایک بیماری کے وہم کے پیشِ نظر صحت مند لوگوں کو صلاة
الجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت ترک کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟؟
نویں
بات:
نبی
کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم کو جب بھی کوئی سخت اور ناگوار بات
پیش آتی تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام فورا صلاة قائم کرنے کے لیے دوڑتے تھے۔
نبی
کریم صلی الله علیه و اله و سلم کے عمل سے ہمارے لیے یہ راہنمائی نکلتی ہے کہ
کورونا وائرس کے حملے کے موقع پر ہم بھی اقامت صلاة کی طرف دوڑنے والے ہوں۔ نا یہ
کہ صلاةالجمعہ اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ہی ترک کر دیں۔
دسویں
بات:
اسلامی
مملکتوں میں ایک جامع مسجد میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہو کر صلاة الجمعه قائم کیا
کرتے تھے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
کیا
اسلامی تاریخ میں یہ ملتا ہے کبھی کسی زمانے میں علماء کرام نے کسی وبا اور طاعون
کے پیشِ نظر مسجدوں کو تالے لگانے کا فتویٰ دیا ہو؟ نہیں، ہر گز نہیں۔
گیارھویں
بات:
ارشادِ
باری تعالٰی ہے
(وَمَن
لَّمْ یَحْکُم بِمَا اَنزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُون) (المائدہ:
٤٤)
''جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔''
اس آیت مبارکہ میں لفظ من (کوئی) میں عموم پایا جاتا ہے اور دوسرا جملہ فاولئک ھم الکافرون عربی زبان کے قواعد کی رو سے استمرار اور دوام کا معنی دیتا ہے نیز اس ترکیب میں زور بیان بھی ہوتا ہے اس پر مستزاد 'ھم' کی ضمیرہے جو اگر دو اسمائے تعریف کے درمیان آئے تو نفی و اثبات کا معنی دیتی ہے۔گویا معنے کے لحاظ سے جملہ یوں بنے گا: لا کافر الا من لا یحکم بما انزل اللہ اور یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ لفظ کفر بغیر اضافت کے جہاںآئے وہاں دائرہ اسلام سے خارج کردینے والا کفر مراد ہوتا ہے۔خدائی قانون کے بغیر فیصلہ کرنے والا اس قرآنی نص کی رو سے کافر ہوتا ہے۔ جو ایسے شخص کو کافر نہیں سمجھتا وہ اللہ اور اس کی شریعت اور اُس کی کتاب کے برعکس عقیدہ رکھتا ہے۔
جو یہ کہے کہ یہاں کفر سے مراد وہ کفر ہے جس سے بندہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا تو وہ قرآن کے صاف حکم کے خلاف تفسیر کرتا ہے جو معتبر نہیں ہے خواہ کہنے والا کوئی ہو۔
جہاں تک ابن عباس کے اثر کا تعلق ہے اسے امام حاکمl نے جلد دوم ص ٣١٣ میں بیان کیا ہے، اس کی سند میں ہشام بن حجیر ہے جسے ابن معین نے ضعیف کہاہے اور یحییٰ بن قطان کہتے ہیں اُس سے بے چون چراں روایت نہیں لی جاتی تھی اور اُسے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔ بعض دوسرے ائمہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم دونوں اُس سے روایت کرتے ہیں۔ اسی لیے امام حاکم اور امام ذہبی محولہ بالا اثر کی نسبت ابن عباس کی طرف درست سمجھتے ہیں۔
اگر یہ اثر صحیح بھی ہو تو پھر بھی موجودہ حکمرانوں کے طرز عمل کے لیے اس اثر میں کوئی گنجائش نہیں ہے جنہوں نے شریعت اسلامی سے صرف نظر کرتے ہوئے اُسے کھیل سمجھ لیا ہے۔ ابن عباس محض اپنے زمانے کے مسلمان حکمرانوں کے طرز عمل کی تفسیر کررہے ہیں۔ مستقبل میں حکمران کیا گل کھلائیں گے ابن عباس اُس سے آگاہ نہ تھے۔ ابن عباس جیسے متقی اور صاحب بصیرت انسان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ خودساختہ قوانین کو نظام مملکت بنا کر فیصلہ کرنے والے حکمرانوں کو ایمان پر سمجھیں گے بہتان عظیم ہے۔ وہ لوگ کہ جن کا جینا مرنا اور مقصد حیات خود ساختہ قوانین کو نافذ کرنا ہے، جس کا دفاع اُن کا اولین فرض ہے، ملک کا تمام تر نظام و انصرام جس قانون سے چلتا ہو، ایک کوتاہ بیں ہی ان احادیث اور اقوال کو اُن پر چسپاں کرسکتا ہے۔ جو لوگ اپنے گردو پیش سے آگاہ نہیں ہوتے اُن لکیر کے فقیروں کے لیے حضرت عائشہ کی فراست سمجھنا یقینا دشوار ہوگا وہ فرماتی ہیں:'' عورتوں کے یہی لچھن اگر رسولﷺاللہ کے زمانے میں ہوتے تو آپۖ انہیں مساجد میں مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع فرمادیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو مساجد میں جانے سے روک لیاگیا تھا۔''جو شخص ابن عباس کے قول کو بنیاد بنا کر خدائی قانون کے بغیر فیصلہ کرنے والوں کی تکفیر نہیں کرتا وہ دراصل کافروںکو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اللہ کے دین کو معطل کرنے کا باعث بنتاہے، خواہ وہ جان بوجھ کریا جہالت کی وجہ سے ایسا کرے۔!
''جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔''
اس آیت مبارکہ میں لفظ من (کوئی) میں عموم پایا جاتا ہے اور دوسرا جملہ فاولئک ھم الکافرون عربی زبان کے قواعد کی رو سے استمرار اور دوام کا معنی دیتا ہے نیز اس ترکیب میں زور بیان بھی ہوتا ہے اس پر مستزاد 'ھم' کی ضمیرہے جو اگر دو اسمائے تعریف کے درمیان آئے تو نفی و اثبات کا معنی دیتی ہے۔گویا معنے کے لحاظ سے جملہ یوں بنے گا: لا کافر الا من لا یحکم بما انزل اللہ اور یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ لفظ کفر بغیر اضافت کے جہاںآئے وہاں دائرہ اسلام سے خارج کردینے والا کفر مراد ہوتا ہے۔خدائی قانون کے بغیر فیصلہ کرنے والا اس قرآنی نص کی رو سے کافر ہوتا ہے۔ جو ایسے شخص کو کافر نہیں سمجھتا وہ اللہ اور اس کی شریعت اور اُس کی کتاب کے برعکس عقیدہ رکھتا ہے۔
جو یہ کہے کہ یہاں کفر سے مراد وہ کفر ہے جس سے بندہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا تو وہ قرآن کے صاف حکم کے خلاف تفسیر کرتا ہے جو معتبر نہیں ہے خواہ کہنے والا کوئی ہو۔
جہاں تک ابن عباس کے اثر کا تعلق ہے اسے امام حاکمl نے جلد دوم ص ٣١٣ میں بیان کیا ہے، اس کی سند میں ہشام بن حجیر ہے جسے ابن معین نے ضعیف کہاہے اور یحییٰ بن قطان کہتے ہیں اُس سے بے چون چراں روایت نہیں لی جاتی تھی اور اُسے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔ بعض دوسرے ائمہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم دونوں اُس سے روایت کرتے ہیں۔ اسی لیے امام حاکم اور امام ذہبی محولہ بالا اثر کی نسبت ابن عباس کی طرف درست سمجھتے ہیں۔
اگر یہ اثر صحیح بھی ہو تو پھر بھی موجودہ حکمرانوں کے طرز عمل کے لیے اس اثر میں کوئی گنجائش نہیں ہے جنہوں نے شریعت اسلامی سے صرف نظر کرتے ہوئے اُسے کھیل سمجھ لیا ہے۔ ابن عباس محض اپنے زمانے کے مسلمان حکمرانوں کے طرز عمل کی تفسیر کررہے ہیں۔ مستقبل میں حکمران کیا گل کھلائیں گے ابن عباس اُس سے آگاہ نہ تھے۔ ابن عباس جیسے متقی اور صاحب بصیرت انسان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ خودساختہ قوانین کو نظام مملکت بنا کر فیصلہ کرنے والے حکمرانوں کو ایمان پر سمجھیں گے بہتان عظیم ہے۔ وہ لوگ کہ جن کا جینا مرنا اور مقصد حیات خود ساختہ قوانین کو نافذ کرنا ہے، جس کا دفاع اُن کا اولین فرض ہے، ملک کا تمام تر نظام و انصرام جس قانون سے چلتا ہو، ایک کوتاہ بیں ہی ان احادیث اور اقوال کو اُن پر چسپاں کرسکتا ہے۔ جو لوگ اپنے گردو پیش سے آگاہ نہیں ہوتے اُن لکیر کے فقیروں کے لیے حضرت عائشہ کی فراست سمجھنا یقینا دشوار ہوگا وہ فرماتی ہیں:'' عورتوں کے یہی لچھن اگر رسولﷺاللہ کے زمانے میں ہوتے تو آپۖ انہیں مساجد میں مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع فرمادیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو مساجد میں جانے سے روک لیاگیا تھا۔''جو شخص ابن عباس کے قول کو بنیاد بنا کر خدائی قانون کے بغیر فیصلہ کرنے والوں کی تکفیر نہیں کرتا وہ دراصل کافروںکو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اللہ کے دین کو معطل کرنے کا باعث بنتاہے، خواہ وہ جان بوجھ کریا جہالت کی وجہ سے ایسا کرے۔!
دینِ
اسلام میں احکام شریعت کو ترجیح حاصل ہے،
جو شخص اللہ و رسول ﷺکے حکم کو تسلیم نہیں کرتا اور کوئی دوسری رائے رکھتا ہے وہ
منکر و کافر ہے
دین
اسلام کی بنیادی اساس اللہ و رسول ﷺ کے احکامات پر رضامندی، اطاعت و فرمانبرداری
ہے۔ اللہ و رسول ﷺ کا حکم سنتے ہی اپنی گردن جھکا دینااور سر تسلیم خم کر دینا دین
کی بنیادی اساس ہے۔ اسلام’’تسلیم ‘‘سے ہے یعنی قرآن و سنت، اللہ و رسول ﷺ کے احکام
کو تہہ دل سے تسلیم کرنا، ان کے ہرامر، ہر حکم اورہر فیصلے پر راضی ہونا اور کوئی
دوسری رائے نہ رکھنا اسلام ہے۔
بارھویں
بات:
صلاۃ
باجماعت قائم کرنےکا حکم
شریعت
نے مردوں کو صلاۃ جماعت قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور با جماعت صلٰوۃ قائم کرنے کا
حکم قرآن و سُنِّۃ سے بخوبی ثابت ہے
اورصلٰوۃ خمسہ کو باجماعٹ مسجد میں جا کر قائم کرنا، ہر ایک ایسے شخص پر لازم ہے جو اس کی قدرت رکھتا ہو، ایسے تمام عاقل و بالغ مردوں کو شرعی حکم دیا گیا ہے اور اس حکم کی
تعمیل کرنے سے انحراف و روگردانی کی شرعاً ممانعت
ہے۔
آپ
ﷺ نے ان لوگوں کو کوجلانے کا ارادہ
ظاہرکیا جو صلٰوۃ کی باجماعت اقامت کےلیے مسجد میں حاضر نہ ہوئے تھے۔
وہ
جو ابن مسعود رضي الله عنه سے ثابت ہےجو شخص یہ چاہتاہے کہ وہ کل اللہ سے اسلام کی
حالت میں ملے تو وہ صلٰوۃ کی حفاظت کرے جب اسے ان کی طرف بلایا جائے۔ بےشک اللہ نے تمہارے نبی ﷺ کے لیے ہدایت کے
راستوں کو شریعت بنایا ہے۔ اور یہی صلٰوۃ
ہدایت کا راستہ بھی ہیں اور شریعت ِ اسلامیہ کا لازمی جزو بھی اور اگر تم
نے اپنے گھروں میں صلاۃ قائم کرنا شروع کر دی جیسا کہ صلاۃ سے پیچھے رہ جانیوالا
اپنے گھر میں صلاۃ قائم کرتا ہے تو تم نےاپنے نبی ﷺ کی سنّت کو چھوڑ دیا ۔ اگر تم
نےنبی ﷺ کی سنّت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو گئے۔ جو شخص اچھے طریقے سے پاکی حاصل
کرے اور پھر مسجدوں میں سے کسی ایک مسجد کی طرف چل پڑے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہر
قدم پر ایک نیکی سے نوازتا ہے اور ایک درجہ بلندی دیتا ہے اور ایک برائی مٹاتا ہے
اور منافق کے علاوہ کوئی بھی آدمی باجماعت صلاۃ میں سستی نہیں کرتا اور ہم ایک
آدمی کو دو آدمیوں پر سہارا کیے ہوئے جماعت کی صلاۃ میں شریک ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے
صلاۃ
جماعت کی فضیلت اور اسکی حکمت
با
جماعت صلٰوۃ قائم کرنےکی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے اللہ کے لیے بھائیوں اور دوستوں
کا اپس میں تعارف اور جان پہچان ہوتی ہے اور محبت کے رشتے مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ اور
اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کے بغیر ایمان کا برقرار رہنا آسان نہیں ہے کیونکہ
محبت ہی ایمان اور جنت کے حصول کا واحد راستہ ہے۔
صلٰوۃ
باجماعت کی اقامت کی دوسری حکمت اور فضیلت
یہ ہے کہ جو آدمی مسلسل چالیس دن تک تکبیر تحریمہ کے ساتھ باجماعت صلاۃ پڑھے گا تو
اللہ اسکو نفاق اور جہنم کی آگ سے بری اور آزاد کر دیتاہے۔
تیسری
حکمت یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کےاجتماعیت اور خیر اور اصلاح کی طرف میلان کا ظہور
ہونا ہے۔
چوتھی
حکمت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان اپس میں ایک دوسرے کی کفالت اور باہمی تعاون
کرتے ہیں۔
پانچویں
حکمت یہ ہے کہ اس سے شعائر دین اور دین کی قوّت کا اظہار ہوتا ہے۔
چھٹی
حکمت یہ ہے کہ جب ایک ہی مسجد میں ایک ہی صف میں ایک ہی امام کے پیچھے اور ایک ہی
وقت میں سیاہ و سفید، عربی و عجمی، چھوٹے اور بڑے، امیر اور غریب مل کر کھڑے ہوتے
ہیں تو ان کے دل آپس میں مل جاتے ہیںَ۔
ساتویں
حکمت یہ ہے کہ اس سے اللہ کے دشمنوں کو سخت غصہ آتا ہے کیونکہ جب تک مسلمان صلٰوۃ
باجماعت کی اقامت کی حفاظت کرتے رہیں گے اس وقت تک وہ طاقتور رہیں گے۔
حضرت
ابو ہریرہ رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول ﷺ اللہ نے فرمایاکیا میں تمہاری ایسی
چیز کی طرف رہنمائی نہ کر دوں کہ اللہ اس کے ذریعے گناہوں کو مٹا دے اور درجات کو
بلند کردے۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں یا رسول ﷺ اللہ ، فرمایا مشقّت کے باوجود مکمل
وضو کرنا اور ایک صلاۃکےبعد دوسری کا انتظار کرنا اور مسجد کے دور ہونے کے باوجود
مسجد میں ہی اقامتِ صلٰوۃ کا اہتمام کرنا،
۔ پس یہ تمہارے لیے نفس کو اللہ کی عبادت پر مجبور کرنا ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے
روایت کیا ہے
مسجد
میں حاضر ہو کر صلٰوۃ باجماعت کی اقامت ،
اکیلے کی اقامتِ صلاۃسے27 درجے افضل ہے۔ حضرت ابن عمر رضي الله عنه سے مروی ہے کہ
رسول ﷺ اللہ نے فرمایا صلٰوۃ باجماعت کی اقامت ، اکیلے کی اقامتِ صلاۃ سے 27 درجے زیادہ فضیلت والی ہے اس
حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
نے روایت کیاہے
قرآن
و سنة کے متذکرہ بالا دلائل وحوالہ جات اور مباحث سے اس ناچیز کے فہم کے مطابق بخوبی ثابت ہے کہ صلاة
الجمعة اور صلوة خمسه کی باجماعت اور مساجد کے اندر اقامت پر پابندی خلاف شریعة
اور حرام و ناجائز ہے، ایسے من گھڑت و بے بنیاد فتاویٰ جو قرآن و سنة کے احکامات
کے صریحاً خلاف ہوں ان کی کوئی بھی شرعی حیثیت نہیں ہے، لہذا مسلمانوں کو ایسے من گھڑت
و خلافِ شریعتِ اسلامیہ فتاویٰ اور اُن کے
زیرِ اثر حکومتی احکامات کو ماننا لازم
نہیں آتا کیونکہ حکم الله (قرآن و سنة) کے احکام باقى تمام تر احکامات پر مقدم اور
سب پر ترجیح و فوقیت اور اولیت کے متقاضی و مستحق اور واجب التعمیل ہیں۔
توکلت
علی الله العظيم و باللہ التوفيق
والله
تعالٰی و رسوله (صلی الله عليه و اله و سلم) اعلم بالصواب!
الفقیر
پرویز اقبال آرائیں غفرله
No comments:
Post a Comment