Monday, 18 May 2020

قرآن و سنت پر مبنی نظام مصطفٰی کے نفاذ، غلبے اور بالادستی کی ضرورت و اہمیت

بلا سودی نظام معیشت اور قرآن وسنت پر مبنی نظام مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی ضرورت و اہمیت اور 
افادیت و ناگزیریت

 تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ آئین، قرآن و سنت پاکستان

بلا سودی نظام معیشت پر ممتاز علماء کرام اور نامور اسکالرز نے بڑا تحقیقی کام کیا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس پر کافی توجہ دی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے دیگر آئینی و ریاستی ادارے ان تمام سفارشات پر غور کر کے ان کے تحت قرآن و سنة کے احکامات کے مطابق قانون سازی اور نفاذ میں سنجیدہ و مخلص نظر نہیں آتے!
دوسری بڑی رکاوٹ فرقہ واریت بھی ہے، فروعات میں فقہی، مسلکی، فرقہ وارانہ اختلافات سے پیدا ہونے والی الجھننیں، نفاذ قرآن و سنة پر مبنی نظام کے عملی نفاذ میں دوسری بڑی وجہ بلکہ پہلی وجہ کا بھی اہم سبب ہیں!
  بلا سودی نظام معیشت پر ممتاز علماء کرام اور نامور اسکالرز نے بڑا تحقیقی کام کیا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس پر کافی توجہ دی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے دیگر آئینی و ریاستی ادارے ان تمام سفارشات پر غور کر کے ان کے تحت قرآن و سنة کے احکامات کے مطابق قانون سازی اور نفاذ میں سنجیدہ و مخلص نظر نہیں آتے!
دوسری بڑی رکاوٹ فرقہ واریت بھی ہے، فروعات میں فقہی، مسلکی، فرقہ وارانہ اختلافات سے پیدا ہونے والی الجھننیں، نفاذ قرآن و سنة پر مبنی نظام کے عملی نفاذ میں دوسری بڑی وجہ بلکہ پہلی وجہ کا بھی بڑا سبب ہیں!
یقیناَ قادیانی مرتدین کے لاہوری و احمدی گروپس اور رافضی وغیرہ بھی قرآن و سنة کی بالا دستی اور غلبے کے حق میں نہیں، لیکن دیوبندی، ںریلوی، سلفی، اہلحدیث، وہابی، عطاری، تبلیغی، جماعتی وغیرہ فرقے بھی تو قرآن و سنة پر مبنی نظام حکومت و معیشت، نظام عدل و انصاف اور نظام معاشرت پر متفق نہیں ہیں اور میری دانست میں یہی بنیادی اور سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، ورنہ تحریک نظام مصطفی کے ثمرات سے پاکستانی قوم کو کوئی محروم نہیں کر سکتا تھا۔
بات تو کڑوی ہے مگر بات سو فیصد سچی ہے کہ جو کوئی شخص قرآن و سنة کو سمجھنے، ان کے احکامات کی تعمیل و اطاعت، اتباع و پیروی اور نفاذ و غلبے کی طلب و خواہش اور جستجو یا طلب نہ رکھتا ہو تو وہ کوئی کلمہ گو انسان ہو ہی نہیں سکتا، کوئی گدھا یا کوئی دوسرا جانور ہی ہو سکتا ہے یا پھر کوئی زندیق مرتد و کافر یا مشرک اور زندیق و خبیث، شیطان کا پجاری!

بچوں کو اردو پڑھائیں

ہمیں چاہیئے کہ اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان، اپنی قومی زبان اردو بولنا، لکھنا، پڑھنا، سمجھنا سکھائیں، اپنے گھروں، دفاتر، کام کاروبار کے مقامات اور مدارس (سکولز) میں تمام امور و معاملات کو اردو میں نمٹائیں، اردو اور دیگر مقامی و علاقائی زبانوں کو پورے عزم و استقلال کے ساتھ ہر سطح پر رائج کریں اود انہیں فخر و اعتماد سے انگریزی زبان پر ترجیح و فوقیت اور اولیت دیں، اپنے تعارف نامے، دعوت نامے، گھروں پر ناموں کی تختیاں، تمام تر خط و کتابت وغیرہ میں اردو زبان کو اختیار کریں اور بجا طور پر یہ فخر کی بات ہے۔
اس ضمن میں ہمیں مضبوط و مستحکم قوت ارادی، مستقل مزاجی اور خوداعتمادی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی تعمیر و ترقی کی جانب ہمارے تیزی سے قدم آگے بڑھ سکیں، ہمیں انگریزی زبان میں مہارت کو تعلیم یافتہ ہونے کا معیار سمجھنے کی روش ترک کر دینی چاہیئے کیونکہ انگریزی زبان بھی اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، پوٹھوہاری، کشمیری وغیرہ متعدد زبانوں میں سے محض ایک زبان ہی ہے، کوئی علم و ہنر یا امتیازی فن، عقل و شعور، فہم و فراست، علم و دانش، ذہانت و فطانت کا معیار ہر گز نہیں ہے، شکریہ!
(پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)

تعلیمی زبون حالی

*"اُردُو زُبان کے عروج و زوال کی فکر انگیز داستان غم"*
 *اس شرمناک زوال و بتدریج انحطاط کا ذمہ دار کون ہے؟*

یہ 1971ء کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔
لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے، تمام نجی تعلیمی اداروں کو قومیا لیا تھا جسے بعد ازان نیشنلائزڈ قرار دے دیا گیا، اردو زبان میں شائڈ ہونے والے اخبارات بھی اردو لغات و اصناف ادب سے مستغنی ہونے کی روش اپنانے لگے، پھر رفتہ رفتہ اردو الفاظ کی جگہ انگریزی الفاظ مستعمل ہونے لگے، حلانکہ 1970 تک ابھی اردو کا اس طرح زوال شروع نہیں ہوا تھا
مثلا":
ہیڈ ماسٹر،
فِیس،
فیل،
پاس وغیرہ
 "گنتی" ابھی "کونٹنگ" میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اور "پہاڑے" ابھی "ٹیبل" نہیں کہلائے تھے۔

60 کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا" سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے "ٹاٹا" کہلوایا جاتا۔
زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔
 عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی۔
 سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) سکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا- اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
 پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی- اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دھائی میں؛ اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم، جماعتیں ہوا کرتی تھیں، اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
 تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔
گرمیوں کی چھٹیوں یا تعطیلات موسم گرما اور سردیوں کی چھٹیوں یا تعطیلات موسم سرما کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آ گئیں۔
 چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے پریکٹس ورک ہو گیا۔
 پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے-
 ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ فرسٹ ٹرم، مڈ ٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-
 اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔
قلم،
دوات،
سیاہی،
تختی، اور
سلیٹ
 جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل، جیل پین اور بال پین آگئے- کاپیوں پر نوٹ بکس کا لیبل ہوگیا-
نصاب کو کورس کہا جانے لگا
 اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں رکھ دی گئیں۔
ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔
 اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی- انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی- اسی طرح طبیعیات، فزکس میں، حیاتیات بیولوجی اور معاشیات، اکنامکس میں، سماجی علوم، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے-
پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
 اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔
داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔.... اول، دوم، اور سوم آنے والے طلبہ؛ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹس بن گئے۔
پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز اور کلیپنگ کرنے لگے۔
 یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے
اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔
زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔ خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔
باورچی خانہ کچن بن گیا اور اس میں پڑے برتن کراکری کہلانے لگے۔
غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
 مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔
مکانوں میں زمینی یا فرشی منزل کو گراؤنڈ فلور ،پہلی منزل کو فرسٹ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو سیکنڈ فلور۔
 دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا، پہلے مہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
 کمرے روم بن گئے۔ کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں رکھے جانے لگے۔
"ابو جی" یا "ابا جان" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا، اور ہر طرف ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا، پاپے کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان  "ممی" اور مام میں تبدیل ہو گیا۔
سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
 چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
 بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے۔
 یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
ساری عورتیں آنٹیاں، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔
نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا ۔ ۔ ۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہلاتی تھیں اب بھی ماسی ہی ہیں۔
گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔
 دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے، آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نےخریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
سڑکیں روڈز بن گئیں۔
 کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا گیا۔
کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا،
 نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔
ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ہے اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں،
بابو کلرک اور چپراسی پِیئون بن گئے۔
 پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-
سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ دلے دلال، طوائفیں، کنجر اور کنجریاں آرٹسٹ اور سٹارز بن گئے
 اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
 صحافی رپورٹر بن گئے اور اخبارات میں خبریں پڑھنے سننے کے بجائے ہم نیوز پیپرز کے ریڈرز بن گئے
کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہے۔
اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے۔
 وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں
وائے ناکامیِ متاع کارواں جاتا رہا
 کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جاتے جا رہے ہیں؟
 دوسروں کا کیا رونا روئیں، ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں. دوسرا کوئی نہیں۔
 بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کر دیا ہے اور مسلسل دفن کرتے جا رہے ہیں. اور روز بروز یہ عمل تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔
*روکیے، لله روکیے،*
 *ارود کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیے اور اسے مکمل ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کیجئے ۔*
اگر آپ مناسب سمجھیں تو قوم کو بیدار کرنے کی خاطر اس تحریر کو شیئر کریں.
*ملاحظہ: قومیں اپنی قومی زبان کو پروان چڑھا کر ہی ترقی کرتی ہیں۔ موجودہ زمانے کا یہی سکہ بند اصول ہے۔ جرمنی، فرانس، ناروے، جاپان اور چین و روس سمیت دیگر تمام تر تروی یافتہ اقوام عالم اس کی زندہ مثال و ثبوت پیش کرتی ہیں کہ غیر ملکی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا اور اس کی ذھنی غلامی اختیار کر کے آج تک دنیا بھر میں کسی بھی قوم و ملک اور معاشرے نے کبھی ماضی و حال میں ترقی کی ہے اور نہ مستقبل میں کبھی ایسا ہونا ممکن ہے!
(پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں, کراچی)

نفاذ اردو کی ضرورت و اہمیت

یقیناً احباب کی اکثریت کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ضرور رکھتی ہو گی اور کچھ افراد سرکاری محکموں سے وابستہ بھی ہوں گے۔ لہذا سب دوستوں کو چاہیے کہ وہ جس بھی کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اپنے رہنماوں تک بلا واسطہ یا بالواسطہ کسی بھی ممکنہ طریقے سے یہ بات پہنچاٸیں کہ ملکی آزادی ترقی اور سالمیت کے تحفظ کےلیے، تمام تر ملکی و قومی، سرکاری و نجی، ملٹری و سویلین اور عدالتی اداروں، محکموں، دفتری و محمکہ جاتی فیصلوں، ہر طرح کی مراسلت و خط وکتابت سمیت جملہ امور و معاملات کو ہر سطح پر قومی زبان اردو میں نمٹایا اور سرانجام دیا جائے۔ قومی زبان اردو کا نفاذ بہرصورت یقینی بنایا جانا انتہائی ناگزید و لازم ہے کیونکہ یہی آئینی تقاضہ بھی ہے اور عدالت عظمی کے فیصلے پر عملدرآمد بھی اس کا متقاضی ہے۔
 اسی طرح جو احباب سرکاری سویلین و ملٹری یا نیم سرکاری اداروں اور محکموں سے وابستہ ہیں وہ اپنے اپنے اداروں و محکموں میں اردو کے نفاذ کی ہر ممکن کوشش کریں۔
یہ ہر ایک محب وطن، تعلیمیافتہ، غیور پاکستان پر فرض ہے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے اس مقدس فریضے کو بہتر و مؤثر طور پر کماحقہ انجام دے دیں تاکہ ہمارا ملک اور پاکستانی قوم بھی ترقی کی منازل طے کر کے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہو سکے، کم از کم میٹرک تک کا تعلیمی نصابو نظام تدریس و تعلیم مکمل طور پر پورے کا پورا مقامی و علاقائی یعنی مادری زبانوں اور قومی زبان اردو میں ہونا ضروری ہے تاکہ طلباء و طالبات میں فہم و شعور، تخلیقی اور سوچنے سمجھنے، غور و فکر کر کے درست نتائج اخذ کرنے کی صلاحتیں اجاگر ہو سکیں۔
(پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)
پرنسپل
پاک ایشیئن سکولنگ سسٹم، کراچی

تحریک نفاذ اردو پاکستان

*"عدالت کتنی مضبوط ہوتی ہے اس کا اندازا آپ ٹماٹر سے لگا لیجئے۔"*
 ٹماٹر 10مارچ 1893ء تک پوری دنیا میں فروٹ تھا۔ سپریم کورٹ کا ایک حکم آیا اور ٹماٹر پوری زندگی کیلئے سبزی بن گیا۔ اس دلچسپ کیس کی بیک گراﺅنڈ کچھ یوں ہے کہ اٹھارہ سو تراسی میں امریکن کانگریس نے ٹریف ایکٹ 1883ءجاری کیا۔ اس ایکٹ کے تحت  نے امریکا درآمد ہونے والی تمام سبزیوں پر دس فیصد ڈیوٹیا لگا دی‘ اس وقت جان ڈبلیو نکس نام کا ایک تاجر لیٹن امریکا سے سبزیاں اور فروٹ نیویارک درآمد کرتا تھا‘
وہ ٹماٹر بھی منگواتا تھا‘ ایک دن کسی بات پر اس کا نیویارک پورٹ کے ٹیکس کلیکٹر ایڈورڈ ہڈن کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔ ہڈن نے انتقاماًاس کے ٹماٹر کو سبزی ڈکلیئر کر دیا اوراس پر دس فیصد ڈیوٹی لگا دی۔ نکس ہڈن کےخلاف عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا‘ نکس کا کیس تقریباً دس سال تک چھوٹی عدالتوں میں چلتا رہاوہاں سے یہ کیس 24اپریل 1893ءمیں سپریم کورٹ پہنچا‘اس وقت مل ویل فولر امریکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے‘ چیف جسٹس نے جان نکس اور ایڈورڈ ہڈن دونوں کو طلب کر لیا۔ ایڈورڈ ہڈن سے پوچھا گیا ”تم بتاﺅ تم ٹماٹر کو سبزی کیوں کہہ رہے ہو“ ہڈن نے جواب دیا ”جناب عالی ٹماٹر سبزیوں میں پیدا ہوتا ہے“ جان نکس سے پوچھا گیا
3”اور تم اسے فروٹ کیوں کہہ رہے ہو“ جان نکس نے عدالت میں ان تمام ڈکشنریوں اور انسائےکلو پیڈیاز کا ڈھیر لگا دیا جن میں ٹماٹر کو پھل قرار دیا گیا تھا۔ جان نکس نے بوٹینیکل رپورٹ بھی پیش کر دی۔ نباتاتی یعنی بوٹینکلی ٹماٹر واقعی پھل تھا۔ عدالت نے یہ دلچسپ کیس سنا اور آخر میں ٹماٹر کو سبزی ڈکلیئر کر دیا۔ یہ کیس جس وقت عدالت میں زیر سماعت تھا اس وقت اٹارنی جنرل نے ٹریف ایکٹ 1883کو پوری طرح ڈیفنڈ کرنے کی کوشش کی لیکن عدالت نے ٹماٹر کو پھل کی جگہ سبزی کا سٹیٹس دے دیا ۔ آج ٹماٹر بوٹینکلی یا سائنسی لحاظ سے پھل ہے لیکن یہ آج پوری دنیا میں سبزی سمجھا جاتا ہے‘کیوں؟ کیونکہ عدالت نے اسے سبزی قرار دے دیا ہے۔
یہ فیصلہ عدالت کی سپرمیسی کو ثابت کرتا ہے اور پکار پکار کر اعلان کرتا ہے پارلیمنٹ ہو‘ وزیراعظم ہو‘ صدر ہو یا پھر خلیفہ وقت ہو‘ یہ سب لوگ‘ یہ ادارے قانون اور عدالت کے سامنے کمزور ہوتےہیں۔
United States Supreme Court, NIX v. HEDDEN, (1893), No.137, Argued: Decided: May 10, 1893
لیکن, پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے، بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمة الله عليه کے قول و ارشاد اور وعدے، آئین پاکستان اور عدالت عظمی کے فیصلے پر سالہا سال تک عملدرآمد نہیں ہو پاتا، قائد اعظم رحمة الله عليه کے کی بصیرت و اعلان کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مخلتلف آئینوں میں پچاس کی دہائی کے اوائل سے ہی اور پھر آج تک نافذ العمل  آئین 1973ء میں اردو زبان کو قومی زبان قرار دیا گیا اور اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر تمام سرکاری و نجی، عدالتی و عسکری اور غیر عسکری اداروں، محکموں، دفاتد، سکولز میں اردو کے مکمل نفاذ کے لیے زیادہ سے زیادہ پچیس سال کا عرصہ مقرر کیا گیا لیکن ائین کی متعلقہ شق پر آج تک بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ ہماری بالخصوص ہم پر ہمارے ملک پر جابرانہ و غاصبانہ طور پر مسلط دو فیصد یا اس سے بھی کم اشرافیہ کی ذہنی پسماندگی و غلامی ہے جو کم و بیش ایک صدی تک برصغیر پر منافقانہ چالوں اور دھوکہ سے زبردستی مسلط ہونے والے انگریزوں کی عملی غلامی ان کے گھوڑوں کی مالش، کتوں کو نہلانے کی بدولت انگریزوں کی عطا کردہ جاگیروں، جائیدادوں اور منصبوں کی بدولت ان کے ذہنوں میں رچ بس گئی ہوئی ہے اور اس غلامانہ سوچ و فکر سے باہر نکلنے کےلیے تیار نہیں اور اج بھی ان کی نسلیں برطانیہ و یورپ میں تعلیم حاصل کرتی ہیں انگریز کی معاشرت، تہذیب و تمدن اور تشخص کو انگریزی میں پڑھ کر اسی سے مرعوب و متاثر ہو کر جب پاکستان واپس آتی ہیں تو اعلی ترین حکومتہ و سرکاری اور ریاستی کلیدی منصبوں پر فائز ہو کر 98 فیصد سے زائد آزاد و خود مختار، محب وطن، محنتی، مخلص، جفا کش و باشعور و غیور پاکستانی شہریوں کو اپنے انگریز آقاؤں کے نقش قدم پر اپنا غلام اور اپنی رعایا سمجھ کر ان پر حق حکمرانی کو اپنا اختیار سمجھ بیٹھتے ہیں اور محض انگریزی زبان جاننے، لکھنے پڑھنے اور بولنے کی صلاحیت کی بناء پر خود کو امتیازی شان و شوکت کا مستحق گردانتے ہیں، اور وہ چونکہ محض ایک انگریزی زبان کے بل ںوتے پر وزیر، مشیر، وزیر اعلی و وزیر اعظم، اعلی سرکاری (عسکری و غیر عسکری) افسران بن بیٹھتے ہیں اور سرکاری اختیارات و وسائل پر اپنے تسلط و اجارہ داری کو دوام بخشنے کی خاطر قومی زبان اردو کے نفاذ کے آئینی تقاضوں سے بھی انحراف و روگرانی اور سرکشی کو جائز سمجھ لیتے ہیں اسی وجہ سے بہتر سال گزر جانے کے بعد بھی پاکسان کے 22 کروز شہریوں کی 98 فیصد سے زائد اکثریت آزادی کے ثمرات، اپنے بنیادی، انسانی، آئینی، قانونی، شرعی، معاشی معاشرتی، شہری حقوق سے محروم ہے اور اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے بھی فرنگی کے غلام انگیزی دان کالے انگریزوں کی غلامی کو اپنا نصیب و مقدر اور قسمت کا لکھا سمجھ کر عملا قبول کر لیا ہو اسی لیے اب تک قومی زبان اردو کے نفاذ سمیت آئین کی بعض دیگر اسلامی شقوں کو عملی طور پر نافذ نہیں کروایا جا سکا۔
سیاسی حکمران و سرکاری (عسکری و غیر عسکری) افسران کا طبقہ نہیں چاہتا کہ مقامی و علاقائی مادری زبانوں اور قومی زبان اردو کو ذریعہء تعلیم و تدریس بنایا جائے کیونکہ اس سے قوم کے بچوں میں شعور بیدار ہو سکتا ہے ان میں غور و فکر کرنے، سوچنے سمجھنے اور حقائق کا مشاہدہ و تجشیہ کر کے درست نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو سکتی ہے جس سے ان کے جابرانہ و غاصبانہ تسلط کو کمزوری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور وہ ایسا ہونے دینا نہیں چاہتے، بہرحال طویل سماعت کے بعد عدذلت عظمی بھی حکومت کو حکم دے چکی ہے کہ قومی زبان اردو کے نفاذ سے متعلق آئینی تقاضے کو فی الفور پورا کیا جائے لیکن حکومت و افسر شاہی کے ناجئز و غیر آئینی و غیر قانونی مکروہ مفادات کو چونکہ عدالت عظمی کے فیصلے پر عممدرآمد زد پڑ سکتی ہے اس لیے اب تک لیت و لعل یعنی ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے، الحمد لله محترم جناب عطاء الرحمن چوہان صاحب اور ان کے رفقاء نے تحریک نفاذ اردو کے جھنڈے تلے نفاذ قومی زبان اردو کےلیے ہمہ گیر و ہمہ جہت منظم، مربوط، مؤثر، فعال اور بامقصد و نتیجہ خیز تحریک شروع کر دی ہے باشعور و محب وطن اور تعلیم یافتہ پاکستانی تحریک میں شمولیت اختیار کر کے اپنی اپنے طور پر تحریک کو کامیاب کرنے کی کوشش شروع کر رہے ہیں، بندہ ناچیز بھی اس تحریک کا ایک رضاکار و ادنی کارکن ہے، بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے ان شاء الله تعالى اب منزل زياده دور نہيں، جلد ہی کامیابی و کامرانی تحریک نفاذ اردو پاکستان کا نصیب و مقدر بنے گی، ہر ایک غیور و باشعور، محب وطن، تعلیم یافتہ پاکستانی شہری کا فرض ہے اور اس پر قرض ہے کہ وہ وسیع تر و بہترین ملکی و قومی مفاد میں تحریک نفاذ اردو پاکستان میں شامل ہو کر، دامے، درہمے، قدمے، سخنے اس اہم ترین تحریک کو  کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلیے مخلصانہ طور پر پوری کوشش کرے اور آئین پاکستان پے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کی کوششوں میں تناپ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے۔ ان شاء الله تعالى پاکستان میں قومی زبان اردو کا عملا نفاذ ہو کر رہے گا، آئین پاکستان اور عدالت عظمی کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد سے کم پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں کیونکہ اس کے بغیر قومی ترقی ممکن ہے اور نہ عام پاکستانی آزادی کے ثمرات سے مستفید و مستفیض ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہمیں معاشی و معاشرتی اور سماجی عدل و انصاف میسر آ سکتا ہے اور نہ ہمیں اپنے سارے بنیادی و انسانی، آئینی و قانونی، معاشی و معاشرتی اور شہری حقوق حاصل ہو سکتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
پرنسپل
پاک ایشیئن سکولنگ سسٹم، ھاکس بے روڈ، کراچی غربی