*اس فتویٰ کوجلد از جلد یقین کے ساتھ پڑھ اور سمجھ کر آگے شیئر کریں کیونکہ یہ ایمان کا لازمی تقاضہ ہے*
*کرونا وائرس کے ڈر سے کیا مساجد بند ہونی چاہئیں تفصیلی فتوی*
بسم الله الرحمن الرحيم.
تحرير: پروفیسر ڈاکٹر علامہ مفتی پرویز اقبال آرائیں
سوال: *کیا صحت مند اور تندرست و توانا مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ "کورونا وائرس" کے خوف سے صلاة الجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کر دیں؟*
الجواب: و بالله التوفيق.
پہلی بات:
یہ بات یقینی طور پر ثابت شدہ ہے کہ اللّٰه تعالٰی کے راستے میں دشمن کے سامنے جہاد کے دوران بھی باجماعت، اقامت صلوٰۃ ساقط نہیں ہوتی تو یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ صرف ایک بیماری کے وہم سے صلاة الجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کر دیا جائے۔
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طائفة منهم معك....الآية.
ترجمہ: اور جب آپ ان کے ساتھ(میدانِ جہاد میں) ہوں، پس آپ ان کے ساتھ باجماعت صلوة قائم کریں، پھر ان میں سے ایک ٹولی آپ کے ساتھ جماعت میں شریک رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔إلخ
دوسری بات:
یہ وبائیں اور بیماریاں درحقیقت گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے آتی ہیں۔ چنانچہ اللّٰه تعالٰی کا ارشاد ہے:
وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم.
ترجمہ: " اور جو بھی مصیبت تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے۔"
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ظهر الفساد في البر و البحر بما كسبت أيدي الناس ليذيقهم بعض الذي عملوا لعلهم يرجعون.
ترجمہ: "خشکی اور تری میں جتنی خرابی ہے وہ سب انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے، (یہ سب اس لیے ہے) تاکہ انہیں چکھائے ان کی بعض بد اعمالیوں کی سزا (اور یہ اس لیے) تاکہ وہ (اپنی بد اعمالیوں) سے توبہ کرلیں۔"
کیا اللّٰه تعالٰی نے وبائوں کے علاج کے طور پر توبہ، استغفار، اقامت صلوٰۃ، تلاوت قرآن اور دعا کو سبب قرار نہیں دیا؟؟؟
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ فرائض و واجبات، صلاةالجمعه اور باجماعت صلوة خمسه کو چھوڑ دینے میں وباؤں کا علاج نہیں رکھا گیا ہے۔
تیسری بات:
اللّٰه تعالٰی کا ارشاد ہے:
ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها.
ترجمہ: "جو بھی مصیبت زمین پر آتی ہے یا تمہاری جانوں پر آتی ہے وہ پہلے سے اٹل شدہ تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔"
مزید ارشادِ باری تعالٰی ہے:
قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا.
ترجمہ:" آپ کہہ دیں! ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللّٰه تعالٰی نے ہمارے لیے لکھ دی ہو۔"
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قل لوكنتم في بيوتكم لبرز الذي كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم.
ترجمہ:" آپ ان سے کہہ دیں! اگر تم اپنے گھروں میں رہو گے تب بھی تمہارے مقدر میں لکھا ہوا قتل وہ تمہاری خواب گاہوں تک پہنچ کر رہے گا ( یعنی تقدیر کا لکھا ہوا بہرحال نافذ ہو کر رہے گا)."
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و الله و سلم کا ارشاد ہے:
"اچھی طرح جان لو کہ اگر ساری امت تم کو نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تب بھی اللّٰه تعالٰی کے لکھے ہوئے سے زیادہ نفع دینے پر قدرت نہیں رکھ سکتی اور اگر ساری امت تم کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے تب بھی اللّٰه تعالٰی کی تقدیر کے مطابق ہی نقصان پہنچا سکے گی (اس سے زیادہ نہیں). "
( مسندِ احمد۔جامع ترمذی۔).
پس ہمارا اللّٰه تعالٰی کی تقدیر پر ایمان اور اس کی ذات پر بھروسہ ہمیں کسی بیماری وغیرہ کے وہم سے فرائض و واجبات، صلاةالجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت سے روک نہیں سکتا۔
چوتھی بات:
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے طاعون وغیرہ سے نمٹنے کے سلسلے میں یہ ہدایت ارشاد فرمائی ہے جہاں طاعون پھیل جائے وہاں سے کوئی باہر نہ جائے اور باہر والے طاعون کے علاقے میں داخل نہ ہوں۔
کیا نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے صلاةالجمعه اور صلوة خمسه کہ باجماعت اقامت کو ترک کرنے کی بھی ہدایت ارشاد فرمائی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
پانچویں بات:
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه تعالٰی عنه کے زمانے میں طاعون پھیل گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے مہاجرین اور انصار سے مشاورت فرمائی اور مختلف اقدامات کیے۔
کیا ان حضرات نے صلاةالجمعہ اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
چھٹی بات:
اللّٰه تعالٰی کا ارشاد ہے:
واستعينوا بالصبر و الصلاة .
ترجمہ:" اور مدد حاصل کرو صبر اور صلاة کے ذریعے۔"
اس آیت کی روشنی میں صلاة کو قائم کرنے کے ذریعے مدد حاصل کی جائے گی یا صلاةالجمعه اور صلاة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کر کے مدد حاصل ہوگی؟
اور صلوة قائم کرنے کا طریقه وہ ہوگا جو نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے مسجد میں ادا کر کے دکھایا اور سکھایا یا باجماعت صلاة کو چھوڑ کر؟
ساتویں بات:
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم کا ارشاد ہے:
"جو شخص صلاة الفجر باجماعت قائم کرے تو وہ اللّٰه تعالٰی کی ضمانت (تحفظ) میں آجاتا ہے۔"
کیا صلاة الفجر کی باجماعت اقامت کے ذریعے اللّٰه تعالٰی کی ضمانت (تحفظ) میں آجانا ہمارے لیے کافی نہیں ہے؟
کیا اللّٰه تعالٰی اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟؟
آٹھویں بات:
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے نابینا صحابی کو بھی باجماعت اقامت صلاة چھوڑنے کی اجازت نہیں دی تھی حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کوئی لانے والا نہیں اور مدینے میں حشرات اور درندوں کا بھی خطرہ تھا۔
پس ہمارا کیا خیال ہے کہ صرف ایک بیماری کے وہم کے پیشِ نظر صحت مند لوگوں کو صلاة الجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت ترک کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟؟
نویں بات:
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم کو جب بھی کوئی سخت اور ناگوار بات پیش آتی تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام فورا صلاة قائم کرنے کے لیے دوڑتے تھے۔
نبی کریم صلی الله علیه و اله و سلم کے عمل سے ہمارے لیے یہ راہنمائی نکلتی ہے کہ کورونا وائرس کے حملے کے موقع پر ہم بھی اقامت صلاة کی طرف دوڑنے والے ہوں۔ نا یہ کہ صلاةالجمعہ اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ہی ترک کر دیں۔
دسویں بات:
اسلامی مملکتوں میں ایک جامع مسجد میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہو کر صلاة الجمعه قائم کیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
کیا اسلامی تاریخ میں یہ ملتا ہے کبھی کسی زمانے میں علماء کرام نے کسی وبا اور طاعون کے پیشِ نظر مسجدوں کو تالے لگانے کا فتویٰ دیا ہو؟ نہیں، ہر گز نہیں!
*"قرآن و سنة کے متذکرہ بالا حوالہ جات و دلائل سے بخوبی ثابت ہے کہ صلاة الجمعة اور صلوة خمسه کی باجماعت اور مساجد کے اندر اقامت پر پابندی خلاف شریعة اور حرام و ناجائز ہے، ایسے من گھڑت و بے بنیاد فتاویٰ جو قرآن و سنة کے احکامات کے صریحاً خلاف ہوں ان کی کوئی بھی شرعی حیثیت نہیں ہے، لہذا مسلمانوں کو ایسے فتاویٰ و حکومتی احکامات کو نہیں ماننا چاہیئے کیونکہ حکم الله (قرآن و سنة) کے احکام باقى تمام تر احکامات پر مقدم اور سب پر ترجیح و فوقیت اور اولیت کے متقاضی و مستحق اور واجب التعمیل ہیں"*۔
توکلت علی الله العظيم و به التوفيق
والله تعالٰی و رسوله (صلی الله عليه و اله و سلم) اعلم بالصواب!
الفقیر پرویز اقبال آرائیں غفرله
*کرونا وائرس کے ڈر سے کیا مساجد بند ہونی چاہئیں تفصیلی فتوی*
بسم الله الرحمن الرحيم.
تحرير: پروفیسر ڈاکٹر علامہ مفتی پرویز اقبال آرائیں
سوال: *کیا صحت مند اور تندرست و توانا مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ "کورونا وائرس" کے خوف سے صلاة الجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کر دیں؟*
الجواب: و بالله التوفيق.
پہلی بات:
یہ بات یقینی طور پر ثابت شدہ ہے کہ اللّٰه تعالٰی کے راستے میں دشمن کے سامنے جہاد کے دوران بھی باجماعت، اقامت صلوٰۃ ساقط نہیں ہوتی تو یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ صرف ایک بیماری کے وہم سے صلاة الجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کر دیا جائے۔
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طائفة منهم معك....الآية.
ترجمہ: اور جب آپ ان کے ساتھ(میدانِ جہاد میں) ہوں، پس آپ ان کے ساتھ باجماعت صلوة قائم کریں، پھر ان میں سے ایک ٹولی آپ کے ساتھ جماعت میں شریک رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔إلخ
دوسری بات:
یہ وبائیں اور بیماریاں درحقیقت گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے آتی ہیں۔ چنانچہ اللّٰه تعالٰی کا ارشاد ہے:
وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم.
ترجمہ: " اور جو بھی مصیبت تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے۔"
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ظهر الفساد في البر و البحر بما كسبت أيدي الناس ليذيقهم بعض الذي عملوا لعلهم يرجعون.
ترجمہ: "خشکی اور تری میں جتنی خرابی ہے وہ سب انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے، (یہ سب اس لیے ہے) تاکہ انہیں چکھائے ان کی بعض بد اعمالیوں کی سزا (اور یہ اس لیے) تاکہ وہ (اپنی بد اعمالیوں) سے توبہ کرلیں۔"
کیا اللّٰه تعالٰی نے وبائوں کے علاج کے طور پر توبہ، استغفار، اقامت صلوٰۃ، تلاوت قرآن اور دعا کو سبب قرار نہیں دیا؟؟؟
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ فرائض و واجبات، صلاةالجمعه اور باجماعت صلوة خمسه کو چھوڑ دینے میں وباؤں کا علاج نہیں رکھا گیا ہے۔
تیسری بات:
اللّٰه تعالٰی کا ارشاد ہے:
ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها.
ترجمہ: "جو بھی مصیبت زمین پر آتی ہے یا تمہاری جانوں پر آتی ہے وہ پہلے سے اٹل شدہ تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔"
مزید ارشادِ باری تعالٰی ہے:
قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا.
ترجمہ:" آپ کہہ دیں! ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللّٰه تعالٰی نے ہمارے لیے لکھ دی ہو۔"
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قل لوكنتم في بيوتكم لبرز الذي كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم.
ترجمہ:" آپ ان سے کہہ دیں! اگر تم اپنے گھروں میں رہو گے تب بھی تمہارے مقدر میں لکھا ہوا قتل وہ تمہاری خواب گاہوں تک پہنچ کر رہے گا ( یعنی تقدیر کا لکھا ہوا بہرحال نافذ ہو کر رہے گا)."
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و الله و سلم کا ارشاد ہے:
"اچھی طرح جان لو کہ اگر ساری امت تم کو نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تب بھی اللّٰه تعالٰی کے لکھے ہوئے سے زیادہ نفع دینے پر قدرت نہیں رکھ سکتی اور اگر ساری امت تم کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے تب بھی اللّٰه تعالٰی کی تقدیر کے مطابق ہی نقصان پہنچا سکے گی (اس سے زیادہ نہیں). "
( مسندِ احمد۔جامع ترمذی۔).
پس ہمارا اللّٰه تعالٰی کی تقدیر پر ایمان اور اس کی ذات پر بھروسہ ہمیں کسی بیماری وغیرہ کے وہم سے فرائض و واجبات، صلاةالجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت سے روک نہیں سکتا۔
چوتھی بات:
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے طاعون وغیرہ سے نمٹنے کے سلسلے میں یہ ہدایت ارشاد فرمائی ہے جہاں طاعون پھیل جائے وہاں سے کوئی باہر نہ جائے اور باہر والے طاعون کے علاقے میں داخل نہ ہوں۔
کیا نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے صلاةالجمعه اور صلوة خمسه کہ باجماعت اقامت کو ترک کرنے کی بھی ہدایت ارشاد فرمائی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
پانچویں بات:
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه تعالٰی عنه کے زمانے میں طاعون پھیل گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے مہاجرین اور انصار سے مشاورت فرمائی اور مختلف اقدامات کیے۔
کیا ان حضرات نے صلاةالجمعہ اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
چھٹی بات:
اللّٰه تعالٰی کا ارشاد ہے:
واستعينوا بالصبر و الصلاة .
ترجمہ:" اور مدد حاصل کرو صبر اور صلاة کے ذریعے۔"
اس آیت کی روشنی میں صلاة کو قائم کرنے کے ذریعے مدد حاصل کی جائے گی یا صلاةالجمعه اور صلاة خمسه کی باجماعت اقامت کو ترک کر کے مدد حاصل ہوگی؟
اور صلوة قائم کرنے کا طریقه وہ ہوگا جو نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے مسجد میں ادا کر کے دکھایا اور سکھایا یا باجماعت صلاة کو چھوڑ کر؟
ساتویں بات:
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم کا ارشاد ہے:
"جو شخص صلاة الفجر باجماعت قائم کرے تو وہ اللّٰه تعالٰی کی ضمانت (تحفظ) میں آجاتا ہے۔"
کیا صلاة الفجر کی باجماعت اقامت کے ذریعے اللّٰه تعالٰی کی ضمانت (تحفظ) میں آجانا ہمارے لیے کافی نہیں ہے؟
کیا اللّٰه تعالٰی اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟؟
آٹھویں بات:
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم نے نابینا صحابی کو بھی باجماعت اقامت صلاة چھوڑنے کی اجازت نہیں دی تھی حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کوئی لانے والا نہیں اور مدینے میں حشرات اور درندوں کا بھی خطرہ تھا۔
پس ہمارا کیا خیال ہے کہ صرف ایک بیماری کے وہم کے پیشِ نظر صحت مند لوگوں کو صلاة الجمعه اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت ترک کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟؟
نویں بات:
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیه و اله و سلم کو جب بھی کوئی سخت اور ناگوار بات پیش آتی تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام فورا صلاة قائم کرنے کے لیے دوڑتے تھے۔
نبی کریم صلی الله علیه و اله و سلم کے عمل سے ہمارے لیے یہ راہنمائی نکلتی ہے کہ کورونا وائرس کے حملے کے موقع پر ہم بھی اقامت صلاة کی طرف دوڑنے والے ہوں۔ نا یہ کہ صلاةالجمعہ اور صلوة خمسه کی باجماعت اقامت کو ہی ترک کر دیں۔
دسویں بات:
اسلامی مملکتوں میں ایک جامع مسجد میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہو کر صلاة الجمعه قائم کیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
کیا اسلامی تاریخ میں یہ ملتا ہے کبھی کسی زمانے میں علماء کرام نے کسی وبا اور طاعون کے پیشِ نظر مسجدوں کو تالے لگانے کا فتویٰ دیا ہو؟ نہیں، ہر گز نہیں!
*"قرآن و سنة کے متذکرہ بالا حوالہ جات و دلائل سے بخوبی ثابت ہے کہ صلاة الجمعة اور صلوة خمسه کی باجماعت اور مساجد کے اندر اقامت پر پابندی خلاف شریعة اور حرام و ناجائز ہے، ایسے من گھڑت و بے بنیاد فتاویٰ جو قرآن و سنة کے احکامات کے صریحاً خلاف ہوں ان کی کوئی بھی شرعی حیثیت نہیں ہے، لہذا مسلمانوں کو ایسے فتاویٰ و حکومتی احکامات کو نہیں ماننا چاہیئے کیونکہ حکم الله (قرآن و سنة) کے احکام باقى تمام تر احکامات پر مقدم اور سب پر ترجیح و فوقیت اور اولیت کے متقاضی و مستحق اور واجب التعمیل ہیں"*۔
توکلت علی الله العظيم و به التوفيق
والله تعالٰی و رسوله (صلی الله عليه و اله و سلم) اعلم بالصواب!
الفقیر پرویز اقبال آرائیں غفرله
No comments:
Post a Comment