Saturday, 8 July 2017

حُکمِ اِلٰہ یا حکمِ مُلّا؟ اکبر و اکابر


تعمیل کس کی "حکم الله" کی (حُکمِ اِلٰه) یا "حکمِ مُلّا"؟  
"الله اکبر "یا "اکابرِ فرقه"
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)
 فرقہ پرستی و اکابر پرستی نےجنوب مغربی ایشیاء، جنوبی ایشیاء  بالخصوص برِّصغیر میں مسلمانوں کے نہ صرف دینی بلکہ معاشی و معاشرتی اور سیاسی اقدار کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے حالیہ دو سو سال کے دوران کی فرقہ واریت و اکابر پرستی کے تناظر میں صوم و صلاۃ کے ترجمے کے حوالے سےایک مختصر جائزہ پیشِ خدمت ہے:
تمام ادیان و مذاہبِ عالَم میں صرف دینِ اسلام کو ہی جامع، کامل و اکمل ہونے کا شرف حاصل ہے، دنیا کے کسی  خطے میں رہنے والا، کوئی بھی انسان ہو ، کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی نسل کا ہو، اگر وہ اپنی زندی کے کسی بھی شعبے کے بارے میں راہنمائی لینا چاہتا ہو ،تواس کے لیے اسلام میں راہنمائی کا سامان موجود ہے،اگر کوئی انسان اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی راہنمائی کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دیتاہے تو ایسے شخص کو دنیا و آخرت کی کامیا بی کا مژدہ سنایا گیا ہے، اور اس کے برعکس کوئی مسلمان اپنی زندگی کے معمولات کے سرانجام دینے میں اسلامی احکامات کی طرف دیکھنے کے بجائے اسلام دشمن لوگوں کی طرف دیکھتا ہے دیکھ کر ان کے طور طریقوں کو اختیا ر کرتا ہے، یہ  عبادات کے طور طریقے ہوں یا  رہن سہن کے، معاشرتی رسومات و روائج  میں ہوں یا   شکل و صورت میں ہوں یا  پھرلباس میں ، کھانے پینےمیں ہوں یا سونے جاگنے میں ، معاملات میں ہوں یا معاشرت میں، اَخلاق میں ہوں یا کسی بھی طریقے میں ہوں  تو اس امر کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے، ایسے شخص کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فیصلہ سنا دیا ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی کی مشابہت اختیار کرے گا، کل قیامت میں اس کاحشر اسی شخص کے ساتھ ہو گا؛اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر ،کسی بھی کام میں غیر مسلموں کا طریقہ یا مشابہت اختیار نہ کریں، ہمارے ایمان کا اوّلین  تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے  اللہ کےمحبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اور سیرت سے محبت کرتے رہیں، آپ ﷺ کی مبارک سنتوں کو اپنی زندگی میں  ہرجگہ اپناکر، بالخصوص قرآن و سُنّۃ کے احکامات و فرمودات اور تعلیمات و ہدایات کی تعمیل، اطاعت و اتباع اسی طریقے سے کریں جو طریقہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سکھایا اور بتایا اور جس طریقے سے صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے عمل کیا ہے ہمیں اپنی عملی زندگی  رسول اللہ ﷺ کے اُسوۃُ حسنہ کے مطابق اُتوار رکھنی چاہیئے  تاکہ ہم  اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوں اور اس خوفناک دن کی رسوایوں سے بچ سکیں جس کو یومُ القیامۃ کہا جاتا ہے۔
 تشبیہ کی تعریف
            اپنی حقیقت ، اعمال و افعال، عبادات، مقاماتِ مقدسہ، سمیت  شعائرِ اسلامیہ کے اسماء ، اپنی صورت، ہیئت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اختیار کرنے اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبّہ  تشبیہ ہے مثلاً جیسے اللہ تعالٰی نے ایمان والوں یعنی مسلمانوں  پر صلاۃ قائم کرنے کو فرض  کیا ہے  اُس  اہم ترین فرض عبادت  کے قرآن میں مقرر کردہ اصطلاحی  وخاص نام صلاۃ کو  مجوسیوں کی پوجا پاٹ والے نام نمازسے  بدل دینا جائز نہیں کیونکہ مجوسی قبل از اسلام سے نماز پڑھتے ہیں، جو مسلمانوں کی عبادت کا نام کبھی نہیں ہو سکتا، مسلمانوں کو لازماً صلاۃ قائم کرکے اُس فرض کو ادا کرنا ہے اور اسی طرح صلاۃ قائم کرنی ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ اور صحابہءِ  کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے کی ہے۔ لفظِ صلاۃ کو نماز اور قائم کرنے کو پڑھنےمیں  بدلنا محض بدعت ہی نہیں ہے بلکہ دین کے حکم میں ترمیم و تحریف ہے جو کہ حرام ہے۔
 شریعت مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع،رہن سہن اور چال ڈھال، ناموں اور اعمال و افعال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،اس امتیاز کے لیے ظاہری علامت ، عبادات و اعمالِ صالحہ و مقدس اشیاء و مقامات  کے قرآن و سُنَّۃ میں مقرر کردہ اصطلاحی نام، داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہ لباس ظاہری اور خارجی علامت ہے۔اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بہ موقع اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم کو غیرمسلموں کے مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ذیل میں ان میں سے کچھ احکامات ذکر کیے جاتے ہیں۔
اللہ رب العزت کی طرف سے بواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیرمسلمین کفارویہود اور نصاریٰ سے دور رکھنے کی متعدد مقامات پر تلقین کی گئی، مثلاً
﴿یَآأیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ أولیاء، بَعْضُہُمْ أولیاءُ بَعْضٍ، وَّمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ، فاِنّہ مِنْہُمْ، انّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ﴾ (سورۃالمآئدة ۵۱)
اے ایمان والو! مت بناو یہود اور نصاریٰ کو دوست ،وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے،اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے اِن سے ،تو وہ انہی میں سے ہے ،اللہ ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو۔ تفسیر عثمانی، ص ۱۵۰
﴿یَآ أیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾(سورۃآل عمران ۱۵۶)
 اے ایمان والوتم نہ ہو جاوٴان کی طرح جو کافر ہوئے۔(تفسیر عثمانی، ص ۹۰)
            سنن ترمذی میں ایک روایت ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
 جو شخص ملتِ اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ،اِرشادفرمایا کہ تم یہود اور نصاری کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو۔(سنن الترمذي، کتاب الاستیذان، رقم الحدیث ۲۶۹۵)
اس حدیث کی شرح میں صاحب تحفة الأحوذي لکھتے ہیں کہ
            مراد یہ ہے کہ تم یہود و نصاریٰ کے ساتھ ان کے کسی بھی فعل میں مشابہت اختیار نہ کرو۔تحفة الاحوذی ۷/۵۰۴
سنن ابی داوٴد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہو گا ۔
 (سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث ۴۰۳۰)
علامہ سہارنپوری  لکھتے ہیں کہ مشابہت عام ہے ، خیر کے کاموں میں ہو یا شر کے کاموں میں، انجام کار وہ ان کے ساتھ ہو گا، خیر یا شر میں۔(بذل المجہود ۴/ ۵۹)
مُلا علی  القاری مَنْ تَشَبَّہ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ جو شخص کفار کی، فساق کی، فجار کی یاپھر نیک و صلحاء کی، لباس وغیرہ میں ہو یا کسی اور صورت میں مشابہت اختیار کرے وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا۔(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،رقم الحدیث ۴۳۴۷، ۸/۲۲۲،رشیدیہ)
ایک اور حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے
 ہم میں،اور مشرکین کے درمیان فرق کی علامت  ٹوپیوں پر عمامہ کا باندھنا ہے۔ یعنیہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں اور مشرکین بغیر ٹوپی کے عمامہ باندھتے ہیں۔(سنن ابی داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث ۴۰۷۸۔ مرقاة المفاتیح، رقم الحدیث ۴۳۴۰، ۸/۲۱۵)
 تشبّہ کے بارے میں آثارِ صحابہ و تابعین
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں جب سلطنتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیاتو حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اس بات کی فکر دامن گیر ہوئی کہ مسلمانوں کے عجمیوں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے اسلامی امتیازات میں کوئی فرق نہ آ جائے ، اس خطرے کے پیش ِ نظر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک طرف مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کی، تو دوسری طرف غیرمسلمین کے لیے بھی دستور قائم کیا۔
جیسا کہ حضرت ابو عثمان النہدی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ ہم عتبة بن فرقد کے ساتھ آذربائیجان میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خط بھیجا جس میں بہت سارے احکامات و ہدایات تھیں، منجملہ ان کے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ  تم اپنے آپ کو اہلِ شرک اور اہلِ کفر کے لباس اور ہیئت سے دور رکھنا۔
(جامع الأصول، الکتاب الأول في اللباس، الفصل الرابع في الحریر، النوع الثاني، رقم الحدیث ۸۳۴۳، ۱۰ / ۶۸۷،مکتبة دارالبیان)
 ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ اے مسلمانوں! ازار اور چادر کا استعمال رکھو اور جوتے پہنو اور اپنے جدِ امجد اسماعیل علیہ السلام کے لباس لنگی اور چادرکو لازم پکڑو اور اپنے آپ کو عیش پرستی اور عجمیوں کے لباس اور ان کی وضع قطع اور ہیئت سے  سے دور رکھو، مبادہ کہ تم لباس اور وجؑ قطع میں عجمیوں کے مشابہہ بن جاؤ،موٹے ، کھردرے اور پرانے لباس پہنو۔(شعب الایمان، رقم الحدیث ۵۷۷۶، ج۸، ص۲۵۳)
اور دوسری طرف اہلِ نصاریٰ اور یہود کو دارالاسلام میں رہنے کی صورت میں بہت سے اُمور کا پابند کیا، جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ہی مظبوط انداز میں اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی اَقدار کی حفاظت کی گئی ہے۔
چنانچہ! فتح شام کے موقع پر نصاریٰ شام کے عہدِ صلح کے بعد جو شرائط طے کی گئیں وہ یہ تھیں۔
 ہم نصاریٰ شام مسلمانوں کی تعظیم و توقیر کریں گے، اور اگر مسلمان ہماری مجالس میں بیٹھنا چاہیں گے توہم ان کے لیے مجلس چھوڑ دیں گے، اور ہم کسی امر میں مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت اختیار نہیں کریں گے، نہ لباس میں ، نہ عمامہ میں ، نہ جوتے پہننے میں ، اور نہ سر کی مانگ نکالنے میں ، ہم اُن جیسا کلام نہیں کریں گے، اور نہ مسلمانوں جیسا نام اور کنیت رکھیں گے، اور نہ زین کی سواری کریں گے، نہ تلوار لٹکائیں گے، نہ کسی قسم کا ہتھیار بنائیں گے، اور نہ اُٹھائیں گے، اور نہ اپنی مہروں پر عربی نقش کندہ کروائیں گے، اور سر کے اگلے حصے کے بال کٹوائیں گے، اور ہم جہاں بھی رہیں گے، اپنی ہی وضع پررہیں گے، اور گلوں میں زنار لٹکائیں گے، اور اپنے گرجاوٴں پر صلیب کو بلند نہ کریں گے، اور مسلمانوں کے کسی راستہ اور بازار میں اپنی مذہبی کتاب شائع نہیں کریں گے، اور ہم گرجاوٴں میں ناقوس نہایت آہستہ آواز میں بجائیں گے، اور ہم اپنے مُردوں کے ساتھ آگ لے کر نہیں جائیں گےیہ آخری شرط مجوسیوں سے متعلق ہے۔
حضرت عبد الرحمن بن غنم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ شرائط نامہ لکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ملاحظہ کرنے کے لیے رکھا، تو انہوں نے اس شرائط نامہ میں کچھ مزید اضافہ کروایا جو یہ تھا
 ہم کسی مسلمان کو ماریں گے نہیں ، یعنی تکلیف نہیں پہنچائیں گے، ہم نے انہی شرائط پر اپنے لیے اور اپنے اہلِ مذہب کے لیے امان حاصل کیا ہے، پس اگر ہم نے شرائط مذکورہ بالا میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی تو ہمارا عہد اور امان ختم ہو جائے گا اور جو معاملہ اہلِ اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہی معاملہ ان کے ساتھ کیا جائے گا(تفسیر ابن کثیر، سورہ توبة۲۹)
ایک اورروایت جسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے،اس میں کچھ مزید شرائط کا بھی ذکر ہے،جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں
 ہم اپنی آبادی میں کوئی نیا گرجا گھر نہیں بنائیں گے، اور جو گرجا گھرخراب ہو جائیں گے، اس کی مرمت نہیں کروائیں گے، اور جو خطہٴ زمین مسلمانوں کے لیے ہو گا، ہم اُسے آباد نہیں کریں گے، اور کسی مسلمان کو دن ہو یا رات، کسی وقت بھی گرجا میں اُترنے سے نہیں روکیں گے، اور اپنے گرجاوٴں کے دروازے مسافروں اور گزرنے والوں کے لیے کشادہ رکھیں گے، اور تین دن تک ان مسلمان مہمانوں کی مہمان نوازی کریں گے، اور اپنے کسی گرجا اور کسی مکان میں مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے والے کو ٹھکانہ نہیں دیں گے، اور مسلمانوں کے لیے کسی غل و غش کو پوشیدہ نہیں رکھیں گے، اور اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم نہیں دیں گے، اور کسی شرک کی رسم کو ظاہراً اور اعلانیہ طور پر نہیں کریں گے، اور نہ کسی کو شرک کی دعوت دیں گے، اور نہ اپنے کسی رشتہ دار کو اسلام میں داخل ہونے سے روکیں گے
مذکورہ بالا شرائط کو دیکھتے ہوئے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اسلامی تہذیب و تمدن اور تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے کس قدر اہتمام کیا گیا؛ اس لیے کہ اسلام میں غیروں کے طور طریقوں کاداخل ہو جانا مسخِ اسلام اور تخریبِ اسلام ہے۔حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تشبہ بالغیر فی الحقیقت تخریبِ حدود اور ابطالِ ذاتیات کا نام ہے۔ مجموعہ رسائل حکیم الاسلام ، اسلامی تہذیب وتمدن۵/۴۸۵
غیروں کے ساتھ اختلاط ، میل جول اختیار کرنے سے کس قدر سختی سے اور کن کن طریقوں سے روکا گیا، اس کا اندازہ اس مکالمے سے بخوبی ہو سکتا ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا، وہ یہ ہے:حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے یہاں ایک نصرانی کاتب ملازم ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تجھے کیا ہو گیا؟اللہ تجھے غارت کرے ! کیا تو نے اللہ کا یہ حکم نہیں سنا کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناوٴ؛ کیوں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تو نے کسی مسلمان کو ملازم کیوں نہیں رکھا؟حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جواب دیا کہ اے امیر الموٴمنین! میرے لیے اس کی کتابت ہے اور اس کے لیے اس کا اپنا دین۔ یعنی وہ نصرانی ہے تو کیا ہوا، مجھے تو اس کی کتابت سے غرض ہے، میرا اس کے دین سے کیا تعلق؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جن کی اہانت اللہ تعالیٰ نے کی ہے، میں ان کی تکریم نہیں کروں گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا ہے میں ان کو عزت نہیں دوں گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہے میں ان کو قریب نہیں کروں گا(المستطرف ۲/۶۰)۔
         اس پر مغز مکالمے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ:
            ۱ -جب تک کوئی اضطراری حالت داعی نہ ہو اس وقت تک اصل یہی ہے کہ غیر مسلمین سے استغاثہ اور وہ بھی ایسا کہ جس میں ان کی تکریم ہوتی ہو ، دینِ متین کی فہم حقیقی اورعقل و دانش اس کی اجازت نہیں دیتی ۔
            ۲- یہ عذر قابلِ سماعت نہیں ہے کہ ہمیں تو ان کی صرف خدمات درکار ہیں،نہ کہ ان کا مذہب؛کیوں کہ اس تحصیل ِ خدمت کے ذیل میں ان کے ساتھ معیت ہماری اس شدت اور تغلیظ کو کم کر دے گی یا محو کر دے گی جو ایک مسلمان کا اسلامی شعار بتایا گیا ہے، اور یہی قلتِ تغلیظ بالآخر مداہنت و چشم پوشی اور اعراض عن الدین کا مقدمہ بن کر کتنے ہی شرعی منکرات کی نشوونما کا ذریعہ ثابت ہو گی۔
 حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی شخص ان جیسا تدین نہیں لا سکتا؛ لیکن اگر کوئی شخص بالفرض لے بھی آئے تو کوئی وجہ نہیں کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو تو کفار کی خدمات حاصل کرنے سے روکا جائے اوراسے نہ روکا جائے۔
یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ ایک شخص پختہ اور راسخ الایمان بھی ہے اور اس اشتراک ِ عمل سے اس میں کوئی تزلزل بھی نہیں آسکتا؛ لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسی ذمہ دار ہستی کا اشتراکِ عمل، عامة المسلمین کے لیے کفار سے استعانت اور اختلاط کے معاملے میں شبہ کا باعث بن جائے اور عوام اپنے لیے اس فعل کو حجت شمار کریں اور اس طرح یہ اختلاط و التباس عام ہو کر ناقابلِ تدارک مفاسد کا باعث بن جائے۔
جس مخلوق کی اس کے خالق نے تکریم نہ کی، اور ان کے لیے عزت کا کوئی شمہ گوارا نہ کیا، تواُسی خالق کے پرستاروں کی غیرت و حمیت کے خلاف ہے کہ وہ اس کے اعداء کی تکریم کریں ، وہ جسے پھٹکار دے، یہ اس سے پیار کریں۔
اسلام میں سیاستِ محضہ مقصود نہیں ؛ بلکہ محض دین مقصودہے، سیاسی الجھنیں محض تحفظ ِ دین کے لیے برداشت کی جاتی ہیں، پس اگر کوئی سیاست ہی کا کوئی شعبہ تخریب ِ دین یا مداہنت و حق پوشی کا ذریعہ بننے لگے، توبے دریغ اس کو قطع کر کے دین کی حفاظت کی جائیگی، ورنہ بصورتِ خلاف قلبِ موضوع لازم آجائے گاکہ وسیلہ مقصود ہو جائے اور مقصود وسیلہ کے درجہ پر بھی نہ رہے گا۔(مجموعہ رسائل حکیم الاسلام ، اسلامی تہذیب و تمدن ۵/ ۹۷، ۹۸
تشبہ با لکفارکے مفاسد)
غیروں کی وضع قطع اور ان جیسا لباس اختیار کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں
پہلا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ کفر اور اسلام میں ظاہراً کوئی امتیاز نہیں رہے گا، اور ملتِ حقہ ، ملتِ باطلہ کے ساتھ ملتبس ہو جائے گی ، سچ پوچھیے تو حقیقت یہ ہے کہ تشبہ بالنصاریٰ  معاذ اللہ نصرانیت کادروازہ اور دہلیز ہے ۔
دوم یہ کہ غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی خلاف ہے، آخر دینی نشان اور دینی پہچان بھی تو کوئی چیز ہے، جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ شخص فلاں دین کا ہے، پس اگر یہ ضروری ہے تو اس کا طریقہ سوائے اس کے اور کیا ہے کہ کسی دوسری قوم کا لباس نہ پہنیں ، جیسے اور قومیں اپنی اپنی وضع کی پابند ہیں، اسی طرح اسلامی غیرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنی وضع کے پابند رہیں، اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں ہماری خاص پہچان ہو۔
کافروں کا معاشرہ ، تمدن اور لباس اختیار کرنا درپردہ ان کی سیادت اور برتری کو تسلیم کرنا ہے؛ بلکہ اپنی کمتری اور تابع ہونے کا اقرار اور اعلان ہے، جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
نیز! اس تشبہ بالکفارکا نتیجہ یہ ہو گا کہ رفتہ رفتہ کافروں سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہو گا، جو صراحةً نصِ قرآنی سے ممنوع ہے: اَ تَرْکُنُوْا الیٰ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ، وَمَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ أوْلِیَاءَ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ۔
اور تم ان کی طرف مت جھکو، جو ظالم ہیں، مبادا ان کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے تم کو آگ نہ پکڑ لے، اور اللہ کے سوا کوئی تمھارا دوست اور مددگار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پاوٴگے۔بلکہ غیر مسلموں کا لباس اور شعار اختیار کرنا ان کی محبت کی علامت ہے، جو شرعاً ممنوع ہے،"یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ أوْلِیَاءَ، بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ، وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ، فانَّہ مِنْہُمْ، انَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِيْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ"  (سورۃ المائدہ51) اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناوٴ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور رفیق ہیں، وہ تمھارے دوست نہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست بنائے گا، وہ انہی میں سے ہو گا، تحقیق اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔اس کے بعد رفتہ رفتہ اسلامی لباس اور اسلامی تمدن کے استہزاء اور تمسخر کی نوبت آئے گی، اسلامی لباس کو حقیر سمجھے گا، اور تبعاً اس کے پہننے والوں کوبھی حقیر سمجھے گا، اگر اسلامی لباس کو حقیر نہ سمجھتا تو انگریزی لباس کو کیوں اختیار کرتا؟اسلامی احکام کے اجراء میں دشواری پیش آئے گی، مسلمان اس کافرانہ صورت کو دیکھ کر گمان کریں گے کہ یہ کوئی یہودی یا نصرانی ہے، یا ہندو ہے، اور اگر کوئی ایسی لاش مل جائے توتردد ہو گا کہ اس کافر نما مسلمان کی صلاۃ جنازہ پڑھیں یا نہیں؟! اور کس قبرستان میں دفن کریں؟
جب اسلامی وضع کو چھوڑ کر دوسری قوم کی وضع اختیار کرے گا تو قوم میں اس کی کوئی عزت باقی نہیں رہے گی، اور جب قوم ہی نے اس کی عزت نہ کی تو غیروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کی عزت کریں، غیر بھی اُسی کی عزت کرتے ہیں جس کی قوم میں عزت ہو۔دوسری قوم کا لباس اختیار کرنا اپنی قوم سے لا تعلقی کی علامت ہے
افسوس! کہ دعویٰ تو ہے اسلام کا ؛ مگر لباس، طعام ، معاشرت ، تمدن ، زبان اور طرزِ زندگی سب کا سب اسلام کے دشمنوں جیسا! جب حال یہ ہے تو اسلام کے دعوے ہی کی کیا ضرورت ہے؟! اسلام کو ایسے مسلمانوں کی نہ کوئی حاجت ہے اور نہ ہی کوئی پرواہ کہ جو اس کے دشمنوں کی مشابہت کو اپنے لیے موجب ِ عزت اور باعث ِ فخر سمجھتے ہوں۔ (التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي 16تا20)
 تشبہ کے فقہی اعتبار سے مراتب :
تشبہ کی ممانعت اور مفاسد اچھی طرح ظاہر ہو جانے کے بعد جاننا چاہیے کہ تشبہ بالکفارکے وہ کون سے مراتب ہیں ، جن سے تشبہ کے جواز ، عدمِ جواز، حرمت و کراہت ، استحسان و عدمِ استحسان اور امکان و عدمِ امکان کی تفصیلات واضح ہو کر سامنے آ سکیں۔چناں چہ انسان سے صادرہونے والے افعال و اعمال کی دو ہی قسمیں ہو سکتی ہیں اضطراری امور اور اختیاری امور۔ ذیل میں ہر دو قسموں پر تفصیلی بحث نقل کی جاتی ہے۔
اضطراری امور میں تشبہ اختیار کرنے کا حکم اضطراری امور سے مراد وہ امور ہیں جن کے ایجاد و عدمِ ایجاد میں انسانی اختیارات کو کوئی دخل نہیں ہوتا، مثلاً انسان کی خلقی اوضاع و اطواراور جبلّی اقتضاء ات، یعنی اس کے اعضاء ِ بدن ، چہرہ مہرہ، پھر اس کے ذاتی عوارض، مثلاً بھوک پیاس لگنا، اس اندرونی داعیہ کی بناء پر کھانے پینے پر مجبور ہونا، اپنے بدن کو ڈھانپنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو اضطراری ہیں اور وہ نہ بھی چاہے ، تب بھی یہ جذبات اس کے دل پر ہجوم کرتے رہتے ہیں۔تو ظاہرہے کہ شریعت ایسے امور میں انسان کو خطاب نہیں کرتی، یہ امور کفار و غیر کفار میں مشترک ہیں، یہ نہیں کہا جائے گا کہ منع تشبہ کی وجہ سے اس اشتراک کو ختم کیا جائے، یعنی شریعت ان امور میں یہ نہیں کہتی کہ چوں کہ کفار کھانا کھاتے ہیں تو ان کی مشابہت کو ترک کرتے ہوئے تم کھانا نہ کھاوٴ، یا چوں کہ وہ کفار  لباس پہنتے ہیں تم ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے لباس نہ پہنو،یا چوں کہ ان کے ہاتھ، پیر ، ناک ، کان ہیں تم ان کی مخالفت میں اپنے یہ اعضاء کاٹ ڈالو؛ بلکہ شریعت اس بات کا حکم دیتی ہے کہ تم کھانا تو ضرور کھاوٴ لیکن تم کھانے کے طریقے کو ترکِ تشبہ کے ذریعے ممتاز ضرور بناوٴ؛ کیوں کہ یہ تمہارا اختیاری فعل ہے ، اضطراری نہیں۔ اسی طرح شریعت یہ نہیں کہتی کہ ترکِ تشبہ کے جوش میں تم لباس پہننا ہی ترک کردو؛ لیکن یہ ضرور کہتی ہے کہ تم لباس کی وضع قطع کو غیر اقوام کے لباس سے ممتاز اور نمایاں رکھو کہ یہ ضرور تمہارے حدود و اختیا ر میں ہے۔شریعت کبھی یہ نہیں کہے گی کہ اپنے اعضاء ِ بدن کاٹ ڈالو کہ یہ تمہارے اعضاءِ جوارح غیر مسلم اقوام کی طرح ہیں؛ اس لیے بوجہ مشابہت یہ نہیں ہونے چاہیئں، ہاں یہ ضرور کہے گی کہ ٹھیک ہے کہ ان کا وجود میں آنا تمہارے اختیار یا ایجاد سے نہیں ہوا لیکن تمہارے ان اعضاء کی تزیین اور بناوٴ سنگھار کا غیر اقوام سے ممتاز اور نمایاں ہونا تو تمہارے اختیار کا ہی فعل ہے، وہ چھوٹنے نہ پائے۔
 اختیاری امور میں تشبہ ختیار کرنے کا حکم:
اس کے بعد انسان سے صادرہونے والے افعال اختیاری طور پرصادرہوتے ہیں ، ان اختیاری امور کی دو قسمیں ہیں مذہبی امور اور معاشرتی و عادی امور۔
 مذہبی امور میں تشبہ کا حکم :
مذہبی امور سے مراد  وہ امور و اعمال ہیں جن کا تعلق دین و مذہب  سے  ہو یعنی اُن افعال و اعمال کو عبادے کے طور پر اختیار کیا جات ہو جیسے مجوسیوں کی پوجا پاٹ کا نام قبل از اسلام سے نمازہے، کسی مسلمان کا  صلاۃ قائم کرنے کے حکمُ اللہ،  معلوم عمل کو جو  افضل  ترین عبادۃ اور فرضِ عین ہے نماز قرار دینا حرام ہے۔اسی طرح مساجد میں  عبادت یعنی صلاۃ قائم کرنے کےلئےکرسیوں کااستعمال بھی جائز نہیں ہے کہ یہ عیسائیوں کا طریقہءِ عمل ہے اُن کی پوجاپاٹ کے مراکز چرچ میں کرسیاں رکھی ہوتی ہیں اور بنچوں، کرسیوں وغیرہ پر بیٹھ کر وہ اپنی پوجا پاٹ ، وغیرہ کرتے ہیں، نیز  نصاریٰ کی طرح سینے پرصلیب لٹکانا،  ہندووٴں کی طرح زنار باندھنایا پیشانی پر قشقہ لگانا، یا سکھوں کی طرح ہاتھ میں لوہے کا کڑاپہننا و غیرہ سب حرام ہیں ، تو اس قسم کے مذہبی امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بالکلیہ ناجائز اورحرام ہے۔

معاشرت و عادی امور میں تشبہ کا حکم:
معاشرتی و عادی امور بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ، ایک وہ امور جو قبیح بالذات ہیں، یعنی  وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست منع کیا ہے کہ ان افعال کو نہ کیا جائے؛ دوسرے وہ امور جو مباح بالذات ہیں، یعنی وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست تو منع نہیں کیا؛ لیکن دیگر خارجی امور کی وجہ سے وہ ممنوع قرار دیے جاتے ہیں۔
قبیح بالذات امور میں تشبہ کا حکم :
قبیح بالذات امور میں غیر مسلم اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بھی حرام ہے، جیسے  ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا، ریشمی لباس استعمال کرنا، یا کسی قوم کی ایسی حرکت کی نقل اتارنا جن میں ان کے معبودانِ باطلہ کی تعظیم ہوتی ہو، جیسے بتوں کے آگے جھکنا وغیرہ، ان افعال میں تشبہ کی حرمت اس وجہ سے ہے کہ یہ امور قبیح بالذات ہیں، شریعت کی طرف سے ان کی ممانعت صاف طور پر آئی ہے۔
 :مباح بالذات امور میں تشبہ کا حکم
اگر وہ امور اپنی ذات کے اعتبار سے قبیح نہ ہوں؛ بلکہ مباح ہوں تو ان کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک وہ امور کسی غیر قوم کا شعار یعنی علامتی و شناختی نشان ہوں، دوسرے وہ افعال جو کسی غیر قوم کا شعار نہ ہوں، ہر دو کی تفصیل ذیل میں لکھی جاتی ہے
غیر اقوام کے شعار میں مشابہت کا حکم:
اگر وہ مباح بالذات  امور غیر مسلم اقوام کے شعار یعنی علامتی و شناختی نشان میں سے ہوں تو ان امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، مثلاً غیر مسلم اقوام کا وہ لباس جو صرف انہی کی طرف منسوب ہو اور انہی کی نسبت سے مشہور ہو اور اس مخصوص لباس کو استعمال کرنے والا انہی میں سے سمجھا جاتا ہو، جیسے  بدھی اور قشقہ۔
مطلقاً غیروں کے افعال میں مشابہت کا حکم:
ور اگر وہ مباح بالذات امور غیر مسلم اقوام کے شعار میں سے نہیں ہیں ، تو پھر ان افعال کی دو قسمیں ہیں کہ ان افعال کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے یا ان کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود نہیں ہے، ان دونوں قسموں میں مشابہت کا حکم ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
 ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم:
اگر ان مباح بالذات امور میں مسلمانوں کے پاس امتیازی طور ایسے طور طریقے موجود ہوں جو کفار کے طور طریقوں کے مشابہہ نہ ہوں تو ایسے امور میں غیروں کی مشابہت مکروہ ہے، کیوں کہ اسلامی غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان اقوام کی ان اشیاء کا استعمال بھی ترک کر دیں جن کا بدل ہمارے پاس موجود ہو، ورنہ یہ مسلم اقوام کے لیے عزت کے خلاف ایک چیزہو گی اور بلا ضرورت خوامخواہ دوسروں کا محتاج و دستِ نگر بننا پڑے گا۔
جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے ہاتھ میں فارسی کمان یعنی  ملکِ ایران کی بنی ہوئی کمان دیکھی تو ناخوشی سے ارشاد فرمایا کہ یہ کیا لیے ہوئے ہو؟ اسے پھنک دو اور عربی کمان اپنے ہاتھ میں رکھو ، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوت و شوکت دی اور بلادِ ارض کو مفتوح کیا۔سنن ابن ماجة، باب السلاح، رقم الحدیث ۲۸۱۰
فارسی کمان کا بدل عربی کمان موجود تھا؛ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرت دلا کر روک دیا؛ تاکہ غیر اقوام کے ساتھ ہر ممکن امتیاز پیدا ہو سکے اور چھوٹے سے چھوٹے اشتراک کا بھی انقطاع ہو جائے۔
غیر ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم اور اگر غیر اقوام کی اشیاء ایسی ہوں کہ ان کا کوئی بدل مسلم اقوام کے پاس موجود نہ ہو ، جیسے آج یورپ کی نئی نئی ایجادات، جدید اسلحہ، تہذیب و تمدن کے نئے نئے سامان، تو اس کی پھر دوصورتیں ہیں یا تو ان کا استعمال تشبہ کی نیت سے کیا جائے گا یا تشبہ کی نیت سے نہیں کیا جائے گا، پہلی صورت میں استعمال جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ تشبہ بالکفار کومقصود بنا لینا، ان کی طرف میلان و رغبت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا، اور کفار کی طرف میلان یقینا اسلام کی چیز نہیں ہے؛ بلکہ اسلام سے نکال دینے والی چیز ہے۔نیز! غیر مسلموں کی تقلید کسی مسلم کو بامِ عروج پر نہیں پہنچا سکتی، جیسا کہ ظلمت کی تقلید نور کی چمک میں، مرض کی تقلید صحت میں، اور کسی ضد کی تقلید دوسری ضد میں کوئی اضافہ و قوت پیدا نہیں کرسکتی، ہاں ! اگر ان چیزوں میں تشبہ کی نیت نہ ہو؛ بلکہ اتفاقی طور پر یا ضرورت کے طور پراستعمال میں آرہی ہوں، تو ضرورت کی حد تک ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، اسلامی تہذیب و تمدن  ۵/ ۱۲۸-۱۳۳، التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي ص21-8 فیض الباری ۲/ ۱۵، انوار الباری ۱۱/ ۱۰۵، ۱۰۶)
خلاصة کلام : پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی تہذیب اور اپنی اَقدار کو باقی رکھتے ہوئے ہر غیر مسلم قوم کے طور طریقوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
انور شاہ کشمیری کی تحقیق:
            فرمایا شعار کی بحث صرف ان امورمیں چلے گی، جن کے بارے میں صاحبِ شرع سے کوئی ممانعت کا حکم موجود نہ ہو ، ورنہ ہر ممنوع ِ شرعی سے احتراز کرنا ضرور ہو گا، خواہ وہ کسی قوم کا شعار ہو یا نہ ہو، اس کے بعد جن چیزوں کی ممانعت موجود نہ ہو ، اگر وہ دوسروں کا شعار ہوں تو ان سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہو گا، اگر وہ نہ رُکیں اور ان کا تعامل بھی دوسروں کی طرح عام ہو جائے یہاں تک کہ اس زمانے کے مسلمان صلحاء بھی ان کو اختیار کر لیں تو پھر ممانعت کی سختی باقی نہ رہے گی، جس طرح کوٹ کا استعمال ابتداء میں صرف انگریزوں کے لباس کی نقل تھی، پھر وہ مسلمانوں میں رائج ہوا یہاں تک کہ پنجاب میں صلحاء اور علماء تک نے اختیار کر لیا تو جو قباحت شروع میں اختیار کرنے والوں کے لیے تھی ، وہ آخر میں باقی نہ رہی، اور حکم بدل گیا، لیکن جو امور کفار و مشرکین میں بطورِ مذہبی شعار کے رائج ہیں یا جن کی ممانعت صاحبِ شرع صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحةً کر دی ہے، اُن میں جواز یا نرمی کا حکم کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا۔ (انوار الباری ۵/ ۱۰۱، فیض الباری ۲/ ۱۵)
تشبہ سے متعلق اکابر علماء کے فتاویٰ:لباس کی کن کن صورتوں میں تشبہ بالغیر ہے، اس کے بارے میں ہمارے علماء دیو بند نے وقتاً فوقتاً امتِ مسلمہ کی راہنمائی کی ہے، جن میں سے کچھ منتخب فتاویٰ نقل کیے جاتے ہیں، واضح رہے کہ لباس میں مشابہت اگر وہ لباس غیروں کا مخصوص لباس نہ ہو تو اسکا تعلق ہر ہر علاقے کے مزاج اور عرف کے ساتھ ہوتا ہے، ایک ہی چیز ایک شہر و علاقے میں عرف کی وجہ سے ناجائز ٹھہرتی ہے تو وہی چیز دوسرے علاقے میں عرف نہ ہونے کیوجہ سے جائزہوتی؛ اس لیے اس معاملے میں اپنے علاقے کے ماہر و تجربہ کار مفتیانِ عظام سے رابطہ کر کے صورتِ حقیقی سے باخبر رہنا ضروری ہو گا۔
پتلون پہننے کا حکم:سوال دور ِ حاضر میں پتلون اور شرٹ پہننے کا اتنا رواج ہو گیا ہے کہ اب یہ کسی خاص قوم کا شعار نہیں رہا، نیز! قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لباس میں کوئی امتیازی نشان نہیں تھا، یہ بات اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ من تشبہ بقوم فھو منھم میں جس مشابہت کا ذکر ہے، مشابہتِ لباس اس میں داخل نہیں ہے؛ اس لیے پتلون اور شرٹ کا پہننا جائز معلوم ہوتا ہے، جناب اپنی تحقیق فرما کر ممنون فرمائیں، بینوا توجروا
الجواب باسم ملھم الصواب آج کل کوٹ پتلون وغیرہ کا اگرچہ مسلمانوں میں عام رواج ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود اسے انگریزی لباس ہی سمجھا جاتا ہے، بالفرض تشبہ بالکفار نہ بھی ہو تو تشبہ بالفساق میں تو کوئی شبہ نہیں، لہٰذا ایسے لباس سے احتراز ضروری ہے۔یہ کہنا صحیح نہیں کہ پہلے زمانہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لباس میں کوئی امتیاز نہ تھا، نیز! اگر کسی زمانہ یا کسی علاقہ میں امتیاز نہ ہو تو وہاں تشبہ کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو گا، یہ مسئلہ تو وہاں پیدا ہو گا، جہاں غیر مسلم قوم کاکوئی مخصوص لباس ہو، احادیث میں غیر مسلموں کے مخصوص لباس سے ممانعت صراحةً وارد ہوئی ہے۔
یہ تفصیل اس لباس کے بارے میں ہے، جس سے واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر نہ آتا ہو، اگر پتلون اتنی چست اور تنگ ہو اس سے اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو، جیسا آج کل ایسی پتلون کا کثرت سے رواج ہو گیا ہے، تو اس کا پہننا اور لوگوں کو دکھانا اور دیکھنا سب حرام ہے، جیسا کہ ننگے آدمی کو دیکھنا حرام ہے۔(احسن الفتاویٰ، کتاب الحظر والاباحة،پتلون پہننے کا حکم ۸/۶۴، ۶۵، ایچ ایم سعید)
:مرد اور عورت کے لباس میں ایک دوسرے کی مشابہت
سوال زعفران یا عصفر کے سوا تمام رنگ مرد کو شرعاً جائز ہیں؛ لیکن بعض علاقوں میں سیاہ اور سرخ رنگ کے کپڑے عورتوں کا شعار سمجھے جاتے ہیں اور سفید کپڑے مردوں کا شعار سمجھے جاتے ہیں، کیا ان علاقوں میں مرد کو مختص بالنساء رنگوں کے کپڑے اور عورتوں کو مختص بالرجال رنگوں کے کپڑے پہننا جائز ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب باسم ملھم الصواب مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے ساتھ تشبہ اختیار کرنا جائز نہیں؛ اس لیے ان علاقوں میں اس شعار کی رعایت رکھنا ضروری ہے ، ایک دوسرے کا شعار اختیار کرنا جائز نہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (احسن الفتاویٰ، کتاب الحظرو الاباحة ، مرد اور عورت کے لباس میں ایک دوسرے کی مشابہت ۸/ ۶۶، ۶۷، ایچ ایم سعید)
 ٹائی کا استعمال:سوال کسی ملازمت میں ترقی کا معیار ٹائی باندھنے پر ہو تو ایسی صورت میں ٹائی باندھنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلیاً ٹائی ایک وقت میں نصاریٰ کا شعار تھا، اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا، اب غیر نصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں ، اب اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس کو شرک یا حرام نہیں کہا جائے گا، کراہیت سے اب بھی خالی نہیں ، کہیں کراہیت شدیدہو گی، کہیں ہلکی، جہاں اس کا استعمال عام ہو جائے، وہاں اس کے منع پر زور نہیں دیا جائے گا۔
اس پر محشی صاحب لکھتے ہیں کہ ٹائی کا استعمال اگرچہ مسلمانوں میں بھی عام ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود انگریزی لباس کا حصہ ہی ہے، اگر انگریزی لباس تصور نہ کیا جائے؛ لیکن فساق و فجار کا لباس تو بہر حال ہے، لہٰذا تشبہ بالفساق کی وجہ سے ممنوع قرار دیا جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ اہلِ صلاح اس لباس کو پسند بھی نہیں کرتے ؛ کیوں کہ یہ علماء و صلحاء کے لباس کے خلاف ہے، تیسری بات یہ کہ اس کے علاوہ ٹائی میں ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ عیسائی ا س سے اپنے عقیدہ صلیب عیسیٰ علیہ السلام یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو کہ نص قرآنی کے خلاف ہے، لہٰذا تشبہ بالکفار کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی مذہبی یادگار اور مذہبی شعار ہونے کی وجہ سے بھی پہننا جائز نہیں
"عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ أي مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہ بِالْکُفَّارِ، فِي اللِّبَاسِ
وَغَیْرِہ، أو بِالْفُسَّاقِ أوْ بِالْفُجَّارِ، أوْ بِأہْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الأبْرَارِفَہُو مِنْہُمْ، أي في الاثْمِ وَالْخَیْرِ"(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،  الفصل الثاني، رقم الحدیث ۴۳۴۷، ۸/۱۵۵، رشیدیة)
            البتہ اگر ادارہ یا حکومت کی طرف سے پابندی ہو، نہ لگانے پر سزا دی جاتی ہو، یا کوئی اور رکاوٹ بنتا ہو تو اس صورت میں لگانے والے پر گناہ نہیں ہو گا؛ بلکہ اس ادارے یا حکومت کے ارکان پر گناہ عائد ہو گا، جس نے ایسا ضابطہ بنایا۔فتاویٰ محمودیہ،باب اللباس، ٹائی کا استعمال ۱۹/۲۹۰، ادارة الفاروق
ساڑھی پہننے کاحکم:سوال تشبہ لباس وغیرہ کے بارے میں ایک استفسار یہ ہے کہ عورتوں کے لیے پیچ دار پائجامہ اور ساڑی جائز ہے یا نہیں؟ اور موٹی ساڑھی پہن کر صلاۃ ہو جاتی ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلیاً،جہاں یہ کفارو فساق کا شعار ہے، وہاں ناجائز ہے۔ جہاں عام ہے، ان کا شعار نہیں، وہاں جائز ہے۔پھر اگر پردہ پورا ہو تو اس سے صلاۃ بھی درست ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب (فتاویٰ محمودیہ، باب اللباس، فساق و فجار کا شعار ۱۹/ ۲۹۰، ادارة الفاروق)
 اللہ تعالی نے ہر مؤمن و مسلم پر جو پانچ وقتی عبادت فرض کی ہے قرآن و سنة کے مطابق اس کا نام "صلاة" اللہ تعالٰی نے خود مقرر فرمایا ہے،  اس کا ترجمہ و مفہوم "نماز"  ہر گزنہیں  ہو سکتاکیونکہ" نماز"صدیوں پہلے سے مجوسیوں کی پوجا پاٹ کا نام  چلا آ رہا تھا. مجوسی بعثت رسول اللہ صلى الله عليه وآله و سلم  اور حضرت عیسٰی علیہ و علی نبینا علیہما الصلٰوۃ والسّلام کی ولادت سے بھی صدیوں پہلے سے آٹھ وقتی نماز پڑھتےچلے آئے ہیں ان کو پارسی بھی کہا جاتا ہے، بعثتِ رسول اللہ ﷺ کے وقت ان کا وطن فارس تھا جو کہ اپنے وقت کی سپر پاور تھا،  قرآن میں  غالباًان کا صابئین کے نام سے ذکر آیا ہے اور یہود و نصاری و صابئین (مجوسیوں) سمیت کفار و مشرکین سے ہر عمل اور طور و طریقے میں مشابہت و مطابقت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے
حُکمُ اللہ  و حکمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہے کہ   : "صلٰوۃقائم کرو"
قرآن و سُنَّۃ میں روزانہ پانچ وقت فرض عبادۃ: "صلٰوۃ قائم کرنا" یعنی صلاۃ ِفجر، صلاۃِ ظہر، صلاۃِ عصر، صلاۃِ مغرب، صلاۃِ عشاء (بروزِ جمعہ"صلاۃِ جمعہ"بمع خطبتَین) و صلاۃ الجنازہ
عیدَین کے موقع پر صلاۃِ عید بمع خطبہءِ عید،  میت کی صلاۃِ جنازہ،  دیگر نفلی صلوٰۃ:  صلاۃِ تہجّد،  صلاۃُ اللَّیل ، صلاۃُ التسبیح،  صلاۃ الحاجات،  صلاۃ ِاوابیں،  صلاۃِ اشراق،  بارش کے لئے صلاة الاستسقاء،  سورج گرہن کے وقت صلاۃِ کسوف،  چاند گرہن کے وقت صلاۃِ خسوف،  رمضانُ المبارک میں صلاۃِ تراویح  اور صلاۃ التسبیح وغیرہ
قرآن و سُنَّۃ میں لفظِ نماز یا "نماز پڑھنا" کہیں نہیں کیونکہ یہ  مجوسی مشرکین کی پوجا پاٹ کا نام   و عمل ہےکیونکہ وہی  نماز پڑھتے ہیں، مسلمانوں کو اللہ تعالٰی نے  اُن کی مخالفت کرنے اور صلاۃ قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔
"صلاۃ" کا ترجمہ "نماز" کسی صورت ممکن نہیں، بالکل ویسے ہی جیسے "اسلام "کا ترجمہ "مجوسیت" اور" مسجد "کا ترجمہ "مندر ، گرجا گھر یا جماعت خانہ " زکوٰۃ کا ترجمہ خیرات ، بھیک یا چندہ  وغیرہ  اور حج  ، عمرے، جہاد وغیرہ کا کوئی بھی ترجمہ ممکن نہیں۔
مزید برآں یہود و نصارٰی، صابئین، سمیت تمام کُفّارو مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہےلِہٰذالفظ صلاۃ اور لفظِ نماز بالکل الگ ہیں، نماز مجوسیوں کی عبادت ہے جبکہ صلاۃ مسلمانوں کی فرض عبادت ہے۔  
 قرآن حکیم میں کم و بیش سات سو مقامات پر صلاة کا ذکر آیا ہے جن میں سے 80 مقامات پر صریحاً صلاة قائم کا حکم وارد ہوا ہے۔
درج ذیل آیات مبارکہ کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن سے نماز پڑھنے کا نہیں بلکہ صلاة قائم کرنے کا ثبوت ملتا ہے مگر اختصار کے پیش نظر انہی پر اکتفا کیا جا رہا ہے :
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَ۔
(البقرة، 2 : 43)
اور صلاة قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو۔
فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاَةَ فَاذْكُرُواْ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
(النساء، 4 : 103)
پھر (اے مسلمانو!) جب تم صلاة قائم کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالتِ خوف سے نکل کر) اطمینان پالو تو صلاة کو (حسبِ دستور) قائم کرو۔ بے شک صلاة مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي۔
طه، 20 : 14))
بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر صلاة قائم کیا کرو
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
(طه، 20 : 132)
اور آپ اپنے گھر والوں کو صلاة (قائم کرنے) کا حکم فرمائیں اور اس پر ثابت قدم رہیں، ہم آپ سے رزق طلب نہیں کرتے (بلکہ) ہم آپ کو رزق دیتے ہیں، اور بہتر انجام پرہیزگاری کا ہی ہے
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
(الحج، 22 : 41)
(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ صلاة (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
(الروم، 30 : 31)
اسی کی طرف رجوع و اِنابت کا حال رکھو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور صلاة قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ۔
 علاوہ از ایں اقیموا  کا ترجمہ" قائم کرو ہے"  کسی بھی طرح، کسی لحاظ سے "پڑھو" ممکن ہی نہیں  یہ علمی خیانت اور قرآن مجید میں تحریف معنوی کے مصداق خوفناک غلطی ہے جس کی اصلاح  نہ کرنا فرقہ پرستی و اکابر پرستی کے سوا کچھ نہیں۔
اقامت صلوٰۃ کا مفہوم:
قرآن میں 'اقیموا الصلٰوۃ' کا جملہ کثرت و تکرار کے ساتھ قرآن مجید میں   متعددمقامات پر آیا ہے۔ اس لیے صلوٰۃ کے بعد اقامت کے معنی و مفہوم سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ اقامت کے لغوی معنٰی کسی چیز کو اس طرح کھڑا کرنے کے ہیں کہ اس میں کوئی کجی نہ ہو۔ اگر کسی لکڑی کو بالکل سیدھا کھڑا کر دیا جائے تو کہا جائے گا: اقام العود!
اسی معنی میں قرآن مجید میں ہے
فَوَجَدَا فِیْہَا جِدَارًا یُرِیْدُ اَنْ یَنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ.(سورۂ کہف ۱۸: ۷۷)
وہاں ان دونوں نے ایک دیوار کو اس حال میں پایا کہ وہ بالکل گرا چاہتی تھی پس اس نے وہ دیوار کھڑ یعنی سیدھی کر دی۔
حدیث میں آیا ہے:
لن یقبضہ حتی یقیم بہٖ الملۃ العوجآء. بخاری، کتاب البیوع
اللہ ان      (حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کی روح اس وقت تک قبض نہیں کرے گا جب تک کہ ملت عوجاء (ملت عرب) کو سیدھا نہ کر دے۔''
اقامت کے دوسرے معنٰی کسی کام کو اس طرح انجام دینے کے ہیں کہ اس کا حق ادا ہو جائے۔
'اقامۃ الشئ: توفیۃ حقہ'  اس سلسلے میں قرآن کی چند آیات ملاحظہ ہوں۔ فرمایا گیا
قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْکُم مِّنْ رَّبِّکُمْ. سورۂ مائدہ ۵: ۶۸
''اے حبیب (ﷺ) آپ فرما دیجیئے کہ اے اہل کتاب، تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تم تورات، انجیل اور اس چیز (قرآن)کو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے، قائم نہ کرو۔
اس آیت میں تورات، انجیل اور اس چیز، یعنی قرآن کی اقامت کا مفہوم یہ ہے کہ ان کتابوں کی ٹھیک ٹھیک تلاوت کی جائے، ان کے احکام و ہدایات پر کسی کمی و بیشی کے بغیر عمل کو قائم رکھا جائے۔
دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے
وَّاَشْہِدُوْا ذَوَیْْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ. سورۂ طلاق۶۵: ۲
''اپنے میں سے دو عادل (منصف مزاج وثقہ) آدمیوں کو گواہ بنا لو اور اللہ کے لیے ٹھیک ٹھیک گواہی دو۔''
اس آیت میں اقامت شہادت (گواہی)  کا مفہوم، جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے، یہ ہے کہ شہادت ٹھیک ٹھیک حق و انصاف کے مطابق سب کے سامنے دی جائے۔ کسی خوف یا طمع کی وجہ سے شہادت میں کتر بیونت نہ ہو، بلکہ صورت معاملہ کو جوں کا توں بیان کر دیا جائے۔
ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے
وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ. سورۂ رحمن ۵۵: ۹
''انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک ناپ تول قائم رکھو اور ناپ تول میں کمی نہ کرو۔''
اس آیت میں اقامت وزن کا مطلب ناپ  تول میں انصاف کا حق ادا کرنے کو قائم و برقرار  رکھناہے، یعنی ناپ تول کے پیمانے ترازو  وغیرہ مستقیم و بالکل درست  ہوں،  ناپ تول کے آلات و اوزار ، پیمانے باٹ  وغیرہ پوری طرح صحیح  حالت میں رکھے جائیں اور نیک نیتی سے  ناپ تول ،وزن کیا جائے۔ یہ صحیح  ناپ تول کے شرائط ہیں ۔ اگر بظاہر تو ناپ و   تول ٹھیک ہو، یعنی ترازو  کے دونوں پلڑے برابر ہوں، لیکن باٹ صحیح نہ ہو تو  تول کی یہ ظاہری درستی کوئی معنی نہیں رکھتی اور اس  پرصحیح وزن کا اطلاق نہ ہو گا۔ اسی طرح باٹ تو صحیح ہو، لیکن ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہ ہوں تو اس کو بھی صحیح وزن نہیں کہیں گے۔ فی الواقع صحیح وزن اور درست تول وہ ہے جس میں باٹ اور ترازو کی ظاہری درستی کے ساتھ جذبۂ نیک نیتی بھی شامل ہو۔ باٹ کتنا ہی صحیح ہو، ترازو کتنا ہی مستقیم ہو مگر دل میں کھوٹ ہو، یعنی ایمان داری نہ ہو تو ناپ تول میں خرابی کا آجانا ناگزیر ہے۔
اقامت کے مذکورہ لغوی اور قرآنی مفہومات سے معلوم ہوا کہ اقامت صلوٰۃ سےمحض  صلاۃ کی ظاہری ہیئت مراد نہیں، بلکہ صلاۃ کو اس کے جملہ ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے جن میں اس معلوم عمل  کو صلاۃ لفظ کی ہی نیت و ارادے  سے  قائم کرنا لازم ہے  نماز کہنے سمجھنے اور لفظِ نماز کے ساتھ ارادہ و نیت کرکے ادا کرنے سے صلاۃ قائم کا حق ادا نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جیسے بھیک یا خیرات دینے کے ارادے و نیت  سے کسی مستحق کو رقم ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں نہیں ہوتی ، ضروری ہوتا ہے کہ ادا کرنے والے کی نیٹ و ارادے میں زکوٰۃ  کا لفظ شامل نہ ہو ورنہ خیرات و بھیک یا کچھ بھی اور کہہ کر سمجھ کر اور کسی بھی دوسرے لفظ کے ساتھ ادا کرنے سے یہ فرض ادا نہیں ہوتا۔ اسی طرح صلاۃ کو صلاۃ مانے، کہے، سمجھے اور اسی لفظ کو اختیار کئے بغیر صلاۃ بھی قائم نہیں ہوتی یہ بہت ہی عام فہم اور آسان ترین علمی و عقلی بات ہے کسی فتوے وغیرے کی بات نہیں
بفرضِ محال اگر یہ اس مفروضے کو ایک منٹ کےلئے درست مان بھی لیا جائے کہ صلاۃ  قائم کرنے کے حُکمِ ربِّی کو نماز پڑھنا کہنے سمجھنے بولنے اور اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ، حرج ، نقصان یا برائی نہیں تو دو سوال بڑے اہم ہیں جن کا جواب سب سے پہلے انتہاءی ضروری ہے
پہلا یہ کہ   اللہ کے حُکم "صلاۃ قائم کرو" کو چھوڑنا اور مجوسیوں کی عبادۃ کا نام "نماز پڑھنا" اختیار کرنا اتنا ضروری کیوں ہے؟ جس کو آپ بلاجواز نماز قرار دیتے ہو اسی  معلوم عمل کو اللہ کے حکم کی تعمیل و اطاعت میں صلاۃ قائم کرنا مان لینے، سمجھنے اور اختیار کرنے میں  آخر کیا خرابی، مضائقہ، حرج ، نقصان یا برائی ہے؟؟؟
دوسرا یہ کہ دیگر فرائض و احکام و اعمال ، وضوء، احرام، حج، زکوٰۃ، عمرہ، طلاق، نکاح، ایمان، اسلام، مسجد، سجدہ، رکوع، قیام، قراۃ،  التحیّاۃ، سلام وغیرہ  عربی الفاظ کا ترجمہ کیوں نہیں کرتے صرف صوم و صلاۃ پر ہی اکتفاء کیوں ؟ جو بھی دلائل صلاۃ کو نماز میں بدلنے اور اس غلط کو صحیح ثابت کرنے کےلئے ہیں ان سبھی کا بعینہٖ اطلاق  قرآن و سُنَّۃ کے ان سب اور دیگر بہت سارے عربی الفاظ پر بھی تو ہوتا ہے، یقیناً ان دونوں بنیادی سوالات کا کسی بھی فرقہ پرست اور اکابر پرست کے پاس کوءی جواب نہیں سوائے مشرکینِ مکہ والے جواب کے کہ "کیا ہمارے آباء و اجداد اور اکابرین کم فہم، کم عقل، یا غلط تھے؟ ہم  تو بس انہی کی پیروی جاری رکھیں گے، (یعنی اللہ تعالٰی و رسول اللہ ﷺ کا حکم نہیں مانیں گے وہی کریں گے جو ہمارے اکابر سے ثابت ہو گا، یہاں معاملہ اور بھی سنگین یوں ہے کہ اکابرین میں آج کل کے فرقہ پرست و اکابر پرست رسول اللہ ﷺ، آپ ﷺ کے صحابہءِ کرام، رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین،  رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، ائمہءِ اربعہ، اسلام کے ابتدائی 12 سو سالوں کے علماءِ امَّۃ  کو اپنا اکابر نہیں مانتے کیونکہ ان سب میں سے کوئی بھی ان کے جدید ترین فرقے کا  پیروکار نہیں تھا وہ سب کے سب فقط قرآن و سُنَّۃ کت پیروکار تھے
تعجب کی بات ہے کہ شاید انہیں علم نہیں کہ آج بھی مسلمانوں کی بھاری اکثریت صلاۃ ہی قائم کرتی ہے اور اس فرضِ عین حکم و  معلوم  عمل و عبادۃ کو صلاۃ ہی کہتی، بولتی، لکھتی، سمجھتی اور صلاۃ کے نام سے ہی اختیار کرتی ہے مگر شاید اں عرب و عجم کے اُن سب  اکثریّتی مسلمانوں کا تعلق ان کے فرقہ سے نہ ہو یا وہ ان کے فرقہ اکابر کی پیروی کے مقابلے میں اللہ تعالٰی و رسول اللہ ﷺ کی پیروی کو اوَّلین ترجیح و فوفیت اور اہمیت دیتے ہوں ، کاژ کہ ہم بھی ایسا کرنا قبول کر لیں کہ کسی بھی غیر کی ایسی پیروی ہرگز نہ کریں جس سے اللہ تعالٰی و رسول اللہ ﷺ کے احکامات، اصولُ الدّین اور مقاصدِ اسلام سے روفردانی و انحراف یا مخالفت کا کوئی اندیشہ و امکان، شائبہ و خدشہ ہو۔
راغب نے لکھا ہے
ولم یامر تعالی بالصلوۃ حیثما امر ولامدح بہ حیثما مدح الا بلفظ الاقامۃ تنبیھا ان المقصود منھا توفیۃ شرائطھا لاالاتیان بھیئتھا. مفردات راغب ۴۱۸
اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) جہاں کہیں صلاۃ کا حکم دیا ہے یا اس کی مدح کی ہے تو اس کے لیے اقامت کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کیا ہے صرف اس امر پر متوجہ کرنے کے لیے کہ اقامت سے مقصود اس کے شرائط کی تکمیل ہے نہ کہ محض اس کی ظاہری ہیئت کی بجا آوری ہے۔
شرائط صلاۃمیں خصوصیت کے ساتھ تین چیزیں داخل ہیں، محافظت صلاۃ، مداومت صلاۃ اور تعدیل ارکان۔ اگر ان میں سے کوئی شرط بھی ساقط ہو جائے تو اس پر اقامت صلوٰۃ کا اطلاق نہ ہو گا، جیسا کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے معلوم ہوتا ہے
فَاِذَا قَضَیتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ. سورۂ نساء ۴: ۱۰۳
پس جب تم صلاۃ ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے یاد کرو، پھر جب تمھیں اطمینان حاصل ہو جائے تو صلاۃ قائم کرو۔
اس آیت کا تعلق حالت جنگ کی صلاۃسے ہے جو ایک رکعت پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس مختصر صلاۃ کے لیے اقامت کا لفظ استعمال نہیں ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں تعدیل ارکان، جو شرائط صلاۃ میں سب سے اہم شرط ہے، مفقود ہے۔ اس کے علاوہ رکعتوں کی تعداد بھی کم ہے۔ اسی لیے حکم دیا گیا ہے کہ جب اطمینان حاصل ہو جائے تو  صلاۃ قائم کرو، یعنی اس کو جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرو۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اقامت کا اطلاق اسی صلاۃ پر ہو گا جس میں جملہ ارکان صلاۃکامل اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کیے جائیں، عدم اطمینان کی حامل صلاۃ پر اقامت کا اطلاق نہ ہو گا۔
اسی مفہوم میں ایک دوسری جگہ فرمایا گیا ہے
فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَا اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.(سورۂ بقرہ ۲: ۲۳۹)
اگر تم کو خطرہ درپیش ہو تو پیدل اور سوار، دونوں حالتوں میں صلاۃ قائم کرو، اور جب خطرہ جاتا رہے تو  اللہ  کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا جس کو تم نہیں جانتے تھے۔
اس آیت میں 'کَمَا عَلَّمَکُمْ' سے محض صلاۃ کی ظاہری ہیئت کی تعلیم مراد نہیں، بلکہ شرائط صلاۃکی طرف بھی اس میں اشارہ ہے۔ گویا حکم یہ دیا جا رہا ہے کہ حالت خوف رفع ہو جانے کے بعد صلاۃ اس کے تمام ارکان سمیت کامل اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کی جائے۔ جو لوگ صلاۃ کی ظاہری ہیئت ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور شرائط  صلاۃ سے غفلت برتتے ہیں، یعنی نہ تو  صلاۃ اس کے صحیح وقت پر ادا کرتے ہیں (محافظت صلوٰۃ)، نہ اس پر مداومت اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے جملہ ارکان اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کرتے ہیں، وہ مصلی تو ضرور ہیں، لیکن ان کو مقیم صلوٰۃ نہیں کہا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے
انّ المصلین کثیر والمقیمین قلیل. مسند احمد
''مصلی (صلاۃ ادا کرنیوالے) تو بہت ہیں، لیکن مقیم صلاۃ(یعنی صلاۃ کو اس  کے حقوق کے ساتھ کماحقہٗ قائم کرنے والے) بہت تھوڑے ہیں۔
صلاۃ باجماعت کا اہتمام بھی اقامت صلوٰۃ میں داخل ہے، جیسا کہ درج ذیل آیت سے بالکل واضح ہے
وَاَوْحَیْْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ. (سورۂ یونس ۱۰: ۸۷)
اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی (ہارون) کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھر ٹھہرا لو اور اپنے ان گھروں کو قبلہ بنا لو اور صلوٰۃ قائم کرو، اور اہل ایمان کو بشارت دے دو۔
اس آیت میں چند گھروں کو قبلہ بنا لینے اور ان میں اقامت صلوٰۃ کے حکم سے صاف ظاہر ہے کہ یہ دراصل قوم موسیٰ کو صلاۃ باجماعت کے اہتمام کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اقامت کے اس مفہوم کو اور واضح کر دیا گیا ہے
وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآءِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآءِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا.(سورۂ نساء۴: ۱۰۲)
اور (اے رسول ﷺ) جب  آپ ان میں موجود ہو اور ان کو صلاۃ قائم کروا رہے ہو تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ  آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور اپنے ہتھیار لیے ہوئے ہو پھر جب وہ سجدہ کر چکے توپیچھے ہو جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی صلاۃ  ادا نہیں کی  تمھارے ساتھ  صلاۃ  اداکرے ۔
دیکھیں، اس آیت میں جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صلاۃ قائم کروانےکا ذکر ہے وہاں اقامت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے (وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃ) اور جہاں مقتدیوں کی صلاۃ  کا ذکر ہے وہاں اقامت کے بجاے تصلیہ کالفظ آیا ہے (فلیصلوا معک)اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ اقامت صلوٰۃ میں صلٰوۃ  باجماعت شامل ہے۔ حدیث سے بھی اس خیال کی تائید ہوتی ہے، آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے
سؤوا صفوفکم انّ تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلٰوۃ. بخاری و مسلم
''صفوں کو سیدھا کرو، کیونکہ صفوں کو سیدھا کرنا اقامت صلوٰۃ میں داخل ہے۔''
 یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن و سنة میں نماز پڑھنے کا کہیں کوئی ذکر یا حکم و بیان موجود نہیں ہے ہر مقام پر صلاۃ قائم کرنے کا حکم آیا ہے تفصیل اوپر اوپر گزر چکی ہے کہ نماز مجوسیوں کی پوجا پاٹ کا نام ہے جسے وہ نماز پڑھنا کہتے ہیں
اکابر پرستی و فرقہ پرستی کے شرک میں مبتلا ہو کر اپے فرقہ پرست اکابر کی پیروی اختیار کئے رکھنے کے  جنون میں اللہ کے حکم سے انحراف و روگردانی مت کرو، حق کے متلاشی بنو، حق کو قبول کرو، قرآن و سنة کے احکامات کی تعمیل و اطاعت کو ہر غیر پر اولین ترجیح و فوقیت دو, اکابر کی ایسی کوئی بات مت مانو جس سے اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکام کی حکم عدولی ہوتی ہو, اپنے فرقہ اکابرین کی پیروی پر رسول اللہ صلى الله عليه و اله و سلم کی سنة اور اسوة حسنة کو ہر حال میں ترجیح و فوقیت اور اولیت دو نیز اسے بہر صورت مقدم رکھو۔
میرِ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
وحدتِ امّت میں مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک دن نمازِ فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا مزاج کیسا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں! ٹھیک ہی ہے میاں، مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کر دی۔ میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے۔ ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمتِ دیں میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ تو حضرت نے فرمایا کہ میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر ضائع کر دی میں نے عرض کیا کہ حضرت اصل بات کیا ہے؟ فرمایا،ہماری عمر کا ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کوششوں کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفی مسلک کی ترجیح قائم کر دیں، امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں، یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔۔۔ اب غور کرتا ہوں کس چیز میں عمر برباد کر دی۔ پھر فرمایا" ارے میاں! اس بات کا کہ کون سا مسلک صحیح تھا اور کون سا خطا پر, اس کا راز کہیں حشر میں بھی نہیں کھلے گا اور نہ دنیا میں اس کا فیصلہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی قبر میں منکر نکیر پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا؟ آمین زور سے کہنا حق تھا یا آہستہ کہنا حق تھا؟ برزخ میں بھی اسکے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا۔۔۔ روزِ محشر اللہ تعالیٰ نہ امام شافعی کو رسوا کرے گا نہ ہی امام ابوحنیفہ کو نہ امام مالک کو نہ امام احمد بن حنبل کو۔ اور نہ میدانِ حشر میں کھڑا کر کے یہ معلوم کرے گا کہ امام ابو حنیفہ نے صحیح کہا تھا یا امام شافعی نے غلط کہا تھا، ایسا نہیں ہوگا۔ تو جس چیز کا نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے نہ برزخ میں نہ محشر میں، اس کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی اور جو "صحیح اسلام" کی دعوت تھی جو سب کے نزدیک مجمع علیہ، اور وہ مسائل جو سب کے نزدیک متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام لے کر آئے تھے، جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا، وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی، آج اس کی دعوت تو نہیں دی جا رہی۔ یہ ضروریاتِ دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے و اغیار سبھی دین کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگنا چاہئے تھا وہ پھیل رہے ہیں۔ گمراہی پھیل رہی ہے، الحاد آرہا ہے۔ شرک و بدعت پرستی چلی آ رہی ہے، حرام و حلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے۔ لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی وفروعی بحثوں میں، اس لئے غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں کہ عمر ضائع کر دی۔
ذرا غور فرمائیں کہ جب  درست و بجا طور پر اپنے فقہی امام (جس کے آپ مقلّدہوں) ان کے فقہی مسلک و مذہب اور بیان کردہ فقہی مسائل کودیگر ائمہ پر ترجیح دینے اور ان کی حقانیّت کو ثابت کرنے اور ترویج و تبلیغ اور ترجیح دینے کےعمل کواپنی عمررائیگاں کردینے  کے مماثل، مترادف و مصداق  ناپسندیدہ و ناجائز عمل ہے  تو پھر اپنے فرقہ کےبے بنیاد و من پسند، من گھڑت، خود ساختہ،  افکار و نظریات ، اختراعات و خرافات، لغویات و بدعات  کو،قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنہ نیز جماعۃِ صحابہءِ کرام (رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین )کے طرزِ فکروعمل اور طور و طریقوں پر ترجیح و فوقیت دینے اوراپنے فرقہ کی برتری و بالادستی ثابت کرنے کی جدّوجُہدکے عمل کی کیا حیثیت و حالت ہو گی؟
کیا فرقہ پرستی  و اکابر پرستی حرام نہیں ؟ کیا  اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ نے سختی کے ساتھ اس سے منع نہیں فرمایا ہے؟ کیا  فرقہ پرستی پر جہنّم کو واجب قرار دینے کی سخت ترین وعید نہیں  فرمائی ہے؟
جو لوگ قرآن و سنّۃ کے احکامات، تعلیمات، ہدایات کی اطاعت و اتباع اور جماعۃِ صحابہءِ کرام (رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ) کے طریقے کی پیروی، اتحادِ امّۃ اور اخوّۃِ اسلامی کی دعوت کو عملاً ناپسند کرتے اور داعی کو لعن طعن کرتے ہیں اور اپنے فرقہ اکابرین کو قرآن و سُنَّۃ کے احکامات پر عملاً ترجیح دیتے ہیں کیا انہیں  اپنی ایمانی صحت اور حالت پر غور کرنے کی ضرورت  نہیں ہے؟
سورۃ السّجدہ، آیۃنمبر20 میں ارشادِ ربُّ العا لَمین ہےکہ  اور جن لوگوں نے فسق قرآن و سنّۃ کی نافرمانی و حکم عدولی کا راستہ  اختیار کیاہے ان کا ٹھکاناجہّنم ہے کہ جب اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ پلٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس جہنمّ کی آگ کا مزہ چکھو جس کا تم انکار کیا کرتے تھے

 دینِ اسلام میں اکابر
میرے کلمہ گو بھائیو! یاد رکھو  کہ کلماتِ تکبیر "اللہ اکبر" کا معنٰی ہی یہ ہے کہ "اللہ سب سے بڑا ہے"
اکابر اسی لفظ "اکبر" کی جمع ہے اور اکابر بھی اسی کی جمعُ الجمع ہے۔
اب اگر ہم اللہ کا حکم اس لئے چھوڑ دیں کہ اس سے ہمارے فرقہ اکابر(سب سے بڑوں) کی اس غلطی کی اصلاح لازم آتی ہے جو اُن سے دانستہ و نادانستہ سرزد ہوئی ہے تو بتائیے ہم نے عملاً کس کو سب سے بڑا مانا؟ اللہ کو یا معاذ اللہ حالیہ ڈیڑھ دو سو سال کے اپنے  فرقہ کے  کسی انسان کو؟
اصول تو یہ ہے ایسی احادیثِ مبارکہ پر عمل کو بھی ترک کر دیا جاتا ہے جن پر عمل کرنے سے اللہ تعالٰی کےقرآنِ مجید میں دیئے ہوئے  کسی  بھی  واضح اور صریح حکم کی مخالفت ہوتی ہو لیکن عملاً ہم اپنے فرقہ اکابرین کےبےبنیاد و غلط افکار و نظریات اورالفاظ  کا ہر صورت دفاع کرتے ہیں جو صریحاً اور واضح طور پر قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کے منافی ثابت  ہوتے ہیں  اور کوئی دلیل نہ ملے تو محض اس بناء پر قرآن و سُنَّۃ سے انحراف و روگردانی کرنا قبول کر لیتے ہیں کہ کیا ہمارے اکابر کم فہم ، کم علم یا کم عقل تھے کہ اُن کو سمجھ نہیں آئی اور کوئی دوسرا اس غلطی کو سمجھ گیا کہ قرآن کی مخالفت ہو رہی ہے؟ شاید ہم نے غیرشعوری طور پر اپنے  من پسند  فرقہ اکابر ین کو قرآن و سُنَّہ میں آخری اتھارٹی مان لیا ہےاور اُن کو کسی بھی غلطی کے امکان سے مبرّا مان لیا ہے، حالانکہ صحابہءِ کرام، تابعین و تبع تابعین اور ائمہءِ اربعہ اور  فقہاء و مجتہدین اور علماءِ امَّۃ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس سے کسی غلطی کا کوئی امکان ہی نہ ہو یا کوءی بھی غلطی ہوئی ہی نہ ہو۔
 بلاشبہ قرآن مجيد الله کا علم ، الله کی كتاب اور الله کا كلام ہے، قرآن الوہى متن وعبارۃ اور بیان ہے، اس کے الفاظ، معارف و معانى الله تعالٰی کی طرف سے ہیں اور اللہ تعالٰی کی نازل کردہ وحی ہیں ہیں، قرآن وحی سے ذریعے اللہ تعالٰی کاعطا فرمایا ہُوا حقیقی علم ہے اور انسانی علوم و متون پر قرآن مجید کی فضيلت بالكل ويسى ہى ہے جیسی فضیلت خالقِ کائنات اللہ رَبُّ الْعَالَمِیْن سُبحانہ و تعالٰی کی، اپنی مخلوق پر ہے، قرآن مجید ، حضرت جبریل علیہ السّلام کے ذریعے سیدنا و مولانا محمدُ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَ سَلَّمْ پر نازل کیاگیا اور بذریعہءِ وحی قرآنِ مجید کے معارف و معانی اور قرآنِ مجید کے احکامات پر عمل کرنےکے مقصود و مطلوب طریقے رحمۃ لِّلْعَالَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَ سَلَّمْ کو بتائے اور سکھائے گئے جنہیں سُنَّۃِ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَ سَلَّمْ کہا جاتا ہے۔
"سُنَّۃ وہ طرزِفکر وعمل اور طریقہءِ زندگی ہے جس کی دعوۃ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےعالمِ انسانیت کو دی اورجس کو قائم کرنے کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلم کو اللہ تعالٰی نے مبعوث فرمایا یعنی دنیا میں بھیجا اور جس کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے سیکھا، اختیار کیا اور پھر نسلاً بعد نسلاً آگے منتقل کیا اسی طریقہءِ عمل کو عربی زبان اور شریعۃ کی اصطلاح میں "سُنَّۃ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم" کہا جاتا ہے، یا بالفاظِ دیگر یوں سمجھ لیجیئے کہ قرآنی احکامات کی تعمیل، اطاعت و اتباع کرتے ہوئے بہترین زندگی گزارنے، آخرت سنوارنے اور اپنے رحمٰن و رحیم رب کی رضاء و خوشنودی اور معرفت حاصل کرنے کے وہ طور و طریقے "سُنّۃِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کہلاتے ہیں جو اللہ تعالٰی کو پسنداور مطلوب و مقصود ہیں"
گویا کہ زندگی کے ہر ایک معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق قرآن مجید کے احکامات پر عمل کرنا سُنَّۃ ہے جو فقط داڑھی و مسواک اور ٹوپی و دستار وغیرہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہر ایک معاملے میں قرآن و سُنَّۃ پر عمل کرنے کی کوشش ضروری ہے فقط ظاہری حلیہ سُنَّۃ کے مطابق ڈھال کر باقی کے سارے معاملات میں قرآن و سُنَّۃ سے عملاً رعگردانی و انحراف معقول و مناسب طرزِ فکروعمل نہیں کیونکہ اس سے نادانستہ ہی سہی مگر سُنَّتوں کی توہین کا پہلو نکلتا ہے، ظاہرہ حلیہ بھی سُنَّۃ کے مطابق اختیار کرنا بھی انتہائی ضروری ہے مگر اس سے پیشتر صدقِ نیّت و اخلاصِ قلبی کے ساتھ، اپنے باقی معاملات زندگی، قول و عمل اور افعال و کردار، سیرت و اخلاق میں بھی قرآن و سَّۃ کی اطاعت و اتباع اور پیروی کرنے نیزاللہ تعالٰی و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حکم عدولی و نافرمانی سے بچنے کی حتی المقدور اور ہرممکن مخلصانہ کوشش ضروری ہے۔
اللہ تعالٰی ہمیں سمجھنے سوچنے، غور و فکر کرنے، اپنے فرقہ کے بے بنیاد، من گھڑت و من پسند اور خود ساختہ انسانی و بشری افکار و نظریات  کے مقابلے میں قرآن و سُنَّۃ کے احکامات  کی تعمیل و اطاعت کواوّلیّت، ترجیح و فوقیت دینے کی توفیق عطا فرمائے، صراطِ مستقیم  پر چلنے،  پانچوں وقت باقاعدگی اور خشوع و خضوع کے ساتھ کما حقہٗ صلاۃ قائم کرنےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اسوۃ حسنۃ  کی  کامل اتباع و پیروی کو اوَّلیت دینے  اور اختیار کرنے کی کی  توفیق عطا فرمائے ، آمین
واللہ و رسولہٗ اعلم بالصّواب۔
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)

No comments:

Post a Comment