Wednesday, 23 September 2015

خطبہءِ حجۃالوداع، انسانی حقوق کااوّلین اورمثالی منشوراعظم (خلاصہ)


بسم اللہ الرحمٰن الرَّحِیم
خطبہءِ حجۃالوداع، انسانی حقوق کااوّلین اورمثالی منشوراعظم  (خلاصہ)

تحریر:پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
  خُطْبَۃ اَلوَدَاع اصطلاحاً معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہٖ  و سلم کے ان ارشادات جو کہا جاتا ھے جو معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی  صلی اللہ علیہ و آلہٖ  و سلم نےسن  ۱۰ ہجری  کے حج کے موقع پر فرمائے- واضح رھے کہ سن ۱۰ ہجری میں جو حج معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا، یہ ہجرت کے بعد معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی  کا واحد اور آخری حج تھا۔ کیونکہ سن  ۱۱ھ ہجری میں معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی   کا وصال ہوگیا تھا۔ چنانچہ اسی مناسبت سے معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی    صلی اللہ علیہ و آلہٖ  و سلم کا یہ حج ’حجۃ الوداع‘ کہلاتا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشادات فرمائے انہیں ’خطبۃ الوداع‘ یا پھرخطبۃ حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔
خطبہ حجة الوداع معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی  کی مختلف ہدایات کا مجموعہ ہے،  حجۃ الوداع کے موقع پر معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی  صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی ہدایات فرمائیں جن میں دو بڑے خطبے بھی شامل ہیں۔ ایک خطبہ معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی  نے عرفات میں ارشاد فرمایا۔ یہی خطبہ سنت رسول کے طور پر اب بھی ٩ ذی الحجہ کی دوپہر کو عرفات کے میدان میں پڑھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا خطبہ وہ ہے جو معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی   نے منٰی میں ارشاد فرمایا۔ اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بہت سے سوالات پوچھے گئے، معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی  نے ان کے جوابات دیئے۔ معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی  نے حج کے مختلف مسائل کے بارے میں بھی ہدایات دیں۔ عرفات اور منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو جو بات یاد رکھی اور وہ آگے منتقل کی، اس کو محدثین کرام رحمہم اللہ نے محفوظ کیا۔ ان سب کا مجموعہ محدثین کی اصطلاح میں حجة الوداع کا خطبہ کہلاتا ہے۔
خطبۃ حجۃالوداع کواسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے، خطبۃ حجۃالوداع بلاشبہ انسانی حقوق کااوّلین اورمثالی منشوراعظم ہے۔اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کاسب سے پہلامنشورانسانی حقوق ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی،قومی مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کاکوئی شائبہ نظرتک نہیں آیا۔یہ ابلاغ اسلام کی بنیادپر’حجۃالاسلام‘،’حجۃ التمام‘اور’حجۃ البلاغ‘کے نام سے بھی موسوم ہے اس حج کے موقع پرآقاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جوخطبہ ارشادفرمایااسے’’ حجۃ الوداع‘‘ کہتے ہیں۔معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی   کے حکم سے قصوء اونٹنی پرکجاواکساگیااورمعلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی   قصواء اونٹنی پرسوارہوکر بطن وادی میں تشریف لے گئے اسوقت معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی
کے گرد ایک لاکھ چوبیس ہزار  یا ایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں (صحابہءِکرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین  کاسمندرٹھاٹھیں ماررہاتھا  اس موقع پر  ربُّ العالَمین الرّحمٰن والرَّحیم کےحبیب  ِ کریم رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم   نے اُن کے سامنے ایک جامع خطبہ ارشادفرمایا۔اس خطبہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کا مکمل متن پیش خدمت ہے تاکہ ہم سب مصطفی کریمکے ان ارشادات کا بنظرغائر مطالعہ کریں جس میں نوع انسانی کے جملہ حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے اور نوع انسانی کے مختلف اصناف کے حقوق وفرائض کاجوتذکرہ کیاگیاہے۔
ربُّ العالَمین الرّحمٰن والرَّحیم کےحبیب  ِ کریم ،رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے اﷲ پاک کی حمدوثناء کرتے ہوئے خطبہ کی ابتداء یوں فرمائی۔
" اے لوگو!بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بیشک تمھارا باپ(آدم علیہ السلام)ایک ہے۔سن لو،کسی عربی کوکسی عجمی پر،کسی سْر خ کوکسی کالے پراور کسی کالے کوکسی سْرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔اس طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخراور رنگ ونسل کی برتری اور قومیت میں اونچ نیچ وغیرہ تصوراتِ جاہلیت کے بْتوں کوپاش پاش کرتے ہوئے مساواتِ اسلام کاعَلم بلند فرمایا۔فرمایا:اے لوگو!تمھاری جانیں اور تمھارے اموال تم پر عزت وحرمت والے ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو،یہ اس طرح ہے جس طرح تمھارا آج کا دن حرمت والاہے۔اور جس طرح تمھارا یہ شہر حرمت والاہے۔بے شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔سنو!اﷲ کاپیغام میں نے پہنچادیااورجس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہواس پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچادے۔ سارا سود معاف ہے لیکن تمھارے لئے اصل زر ہے،نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پرکوئی ظلم کرے۔
اﷲ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیاہے کہ کوئی سود نہیں۔سب سے پہلے جس ربا(سود،بیاج)کو میں کالعدم کرتاہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کاسود ہے۔یہ سب کاسب معاف ہے۔زمانہ جاہلیت کی ہر چیزکو میں کالعدم قرار دیتا ہوں اور تمام خونوں میں سے جوخون میں معاف کررہاہوں وہ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حارث کے بیٹے ربیعہ کاخون ہے جو اس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھااور ہذیل قبیلہ نے اس کوقتل کردیا۔اے لوگو!شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ اس زمین میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی،لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے ہوشیاررہنا۔پھرفرمایاکہ جس روز اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا،سال کوبارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی قعدہ،ذی الحجہ،محرم اور رجب)ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں۔
اے لوگو!اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو،میں تمھیں عورتوں (بیویوں)کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ وہ تمھارے زیرِ دست ہیں، وہ اپنے بارے میں کسی اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمھارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور اﷲ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمھارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اوران کے تم پر بھی حقوق ہیں۔تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر کی حرمت کو برقراررکھیں اور ان پریہ لازم ہے کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو،پھر اﷲ تعالیٰ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کردو اور انہیں بطور سزا تم مار پیٹ سکتے ہولیکن جو ضرب شدید نہ ہو اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔
اے لوگو!میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو،بے شک میں نے اﷲ کا پیغام تم کو پہنچا دیاہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کہ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اﷲ تعالیٰ کی کتاب(قرآن کریم)اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سنت۔
اے لوگو!میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو،بے شک میں نے اﷲ کا پیغام تم کو پہنچا دیاہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کہ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اﷲ تعالیٰ کی کتاب(قرآن کریم)اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سنت۔
اے لوگو!میری بات غور سے سنواور اس کو سمجھو تمھیں یہ چیز معلوم ہونی چاہئے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لے، پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا!
خوب جان لو کہ دل ان تینوں باتوں پرحسد وعناد نہیں کرتے۔ہرکسی عمل کوصرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا۔حاکم وقت کو ازراہ خیر خواہی نصیحت کرنا۔مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ شامل رہنااور بے شک ان کی دعوت ان لوگوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے علاوہ ہیں۔جس کی نیت طلب دنیاہواﷲ تعالیٰ اس کے فقروافلاس کو اس کی آنکھوں کے سامنے عیاں کردیتاہے اور اس کے پیشہ کی آمدنی منتشر ہوجاتی ہے اور نہیں حاصل ہوتااس کواس سے مگر اتنا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیاہے اور جس کی نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کردیتا ہے اور اس کا پیشہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور دنیا اس کے پاس آتی ہے اس حال میں کہ وہ اپنی ناک گھسیٹ کرآتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری بات کو سنااور دوسروں تک پہنچایا۔بسا اوقات وہ آدمی جو فقہ کے کسی مسئلے کا جاننے والاہے وہ خود فقیہ نہیں ہوتااور بسا اوقات حامل فقہ کسی ایسے شخص کو بات پہنچاتاہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔تمھارے غلام،جو تم کھاتے ہوان سے ان کو کھلاؤ۔جو تم خود پہنتے ہو ان سے ان کو پہناؤ،اگر ان سے کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کردو۔اے اﷲ کے بندو!ان کو سزا نہ دو۔میں پڑوسی کے بارے میں تمھیں نصیحت کرتاہوں(یہ جملہ سرکار دوعالمنے اتنی بار دہرایاکہ یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ ربُّ العالَمین الرّحمٰن والرَّحیم کےحبیب  ِ کریم ،رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم پڑوسی کو وارث نہ بنادیں
اے لوگو!اﷲ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے،اس لئے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کرے۔بیٹا،بستر والے کا ہوتاہے یعنی خاوند کا اور بدکارکے لیے پتھر۔جو شخص اپنے آپ کواپنے باپ کے بغیرکسی طرف منسوب کرتا ہے اس پر اﷲ تعالیٰ،فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔نہ قبول کرے گا اﷲ تعالیٰ اس سے کوئی بدلہ اور کوئی مال۔جو چیز کسی سے مانگ کرلواسے واپس کرو،عطیہ ضرور واپس ہونا چاہئے اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرناچاہئے اور جو ضامن ہو اس پر اس کی ضمانت ضروری ہے۔(بخاری و مسلم وابوداؤد) اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے ربُّ العالَمین الرّحمٰن والرَّحیم کےحبیب  ِ کریم ،رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم  نےفرمایاکہ تم سے میرے بارے میں دریافت کیاجائے گا،تم کیا جواب دوگے؟انہوں نے کہاں ہم گواہی دیں گے کہ ربُّ العالَمین الرّحمٰن والرَّحیم کےحبیب  ِ کریم ،رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے اﷲ کا پیغام پہنچایا،اس کو ادا کیااور خلوص کی حد کر دی۔
ربُّ العالَمین الرّحمٰن والرَّحیم کےحبیب  ِ کریم ،رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا،پھر لوگوں کی طرف موڑااور فرمایا:اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا!
بخاری شریف کی روایت ہےکہ امیرالمؤمنیں فاروقِ اعظم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ان کے دورِ خلافت میں ایک یہودی عالِم نے کہا
کہ یا امیرالمؤمنین (رضی اللہ تعالٰی عنہ) آپ کے قرآن میں ایک آیۃ ایسی ہے کہ وہ آیۃ اگر ہم پر نازل ہوئی ہوتی توہم اس آیۃ کے نازل ہونے کے دن کو عید بنا لیتے۔ ہم اسے باقاعدہ ایک یادگار دن کے طور پر مناتے کہ اس دن میں ہم پر فلاں سنہ میں یہ آیۃ نازل ہوئی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی
عنہ نے پوچھا کہ کون سی آیۃ؟ اس یہودی عالِم نے کہا  اللہ تعالٰی نے فرمایا " اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا"
مفہوم:  "آج میں نے تمہارے لئے دین کامل و مکمّل  کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری (تمام) کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"  (سورۃ المائدہ، آیۃ-3)۔ تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ الصلٰوۃ والسّلام) سے نزولِ وحی کے جس سلسلے کا آغاز ہوا تھا اور ان کے بعد مختلف انبیاء و رسل (علیہم الصّلٰوۃ والسّلام ) کے ذریعے ہدایات و احکام نازل ہوتے رہے ،   اللہ ربُّ العالَمین الرّحمٰن والرَّحیم کےحبیب  ِ کریم ،رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم تک نزولِ وحی کا یہ سلسلہ چلتا رہا، احکام آتے بھی رہے، منسوخ بھی ہوتے رہے ، ان میں ترامیم بھی ہوتی رہیں ، یہ ایک ارتقاء و تدریج کا عمل تھا،  ربُّ العالَمین الرّحمٰن والرَّحیم کےحبیب  ِ کریم ،رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم پر اللہ تعالٰی نے نزولِ وحی کے اس سلسلے کا اختتام فرما دیا، اب قیامت تک کوئی وحی نہیں ہو گی اور نہ احکام میں ردّو بدل ہو گااور نہ ہی کوئی نیا حکم آئے گا۔ تو تکمیل کا معنٰی یہ ہے کہ وہ وحی جو حضرت آدم علیہ الصلٰوۃ والسّلام پر نازل ہونا شروع ہوئی تھی وہ ترتقاء و تدریج کے مراحل طے کرتے ہوئے  ربُّ العالَمین الرّحمٰن والرَّحیم کےحبیب  ِ کریم ،رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم پر مکمّل ہوئی ہے۔ چنانچہ جب غلبہءِدین مکمّل ہوا تو حجّۃالوداع اس کا سب سے بڑا مظہرتھا کہ اتنی شان و شوکت اس سے پہلے مسلمانوں کو کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی
اللہ تعالٰی نے اس موقع پر اعلان فرمایا" اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ" (اورآج کے دن میں  (اللہ)نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمّل کر دیاہے) ۔" وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ" (اور میں (اللہ) نے تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا) ۔ " وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا" ( اور میں (اللہ) اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں)  آج کے بعد ہر ایک انسان سے صرف اسلام ہی دین قبول کروں گا اور اس کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں کروں گا۔ تو اس یہودی عالِم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ یا امیرالمؤمنین ! یہ آیۃ اگر ہم پر توراۃ میں نازل ہوئی ہوتی تو اس آیۃ کے نزول والے دن کو اپنے لئے عید بنا لیتے۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ "اللہ کی قدرت ہے کہ ہم پر یہ آیۃ نازل ہی عید والے دن ہوئی ہے ، تم تو عید بنا لیتے ، ہماری پہلے سے عید ہے۔ فرمایا یوم النّحر کو منٰی میں یہ آیۃ نازل ہوئی تھی اور میں اس موقع پر موجود تھا۔ یوم النّحر یعنی عید الاضحٰی اور قربانی کادن۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہماری تو دو عیدیں تھیں، سالانہ عید بھی اور ہفتہ وار عید بھی تھی یعنی جمعۃ المبارکہ کا دن تھا۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر ثابت و مستقیم رکھے – آمین۔
اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے خود ہی اپنے آخری  نبی و رسول ، اپنے   ِ کریم ،رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کی نبوت و رسالت اوراپنی آخری کتابِ ہدایت قرآنِ مجید  اور اللہ ربُّ العالَمین الرّحمٰن والرَّحیم کےحبیب  ِ کریم ،رؤف و رحیم ، معلّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، فخرِ کائنات، رحمۃُللعالَمین  سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم  کے اسوۃ حسنۃ پر مبنی دین ِ اسلام کو صدقِ نیّت و کامل قلبی اخلاص کے ساتھ  قبول کرنے، اس پرایمان لانے اور اسے تسلیم کرنے والوں کا نام قرآن مجید میں  مُسلِم (مسلمان) مقرر کر دیا  اورعالم انسانیت با لخصوص (مسلمون و مؤمنون )  یعنی مؤموں اور مسلمانوں کو اپنے  نازل کردہ اس کامل و اکمل اور مکمّل  دین اسلام کا مکلف  بنا دیا ۔
قرآن و سُنَّۃ اور اسوۃ حسنۃ پر مبنی اللہ تعالٰی کے نازل  کردہ  اور پسند کردہ ،کامل و اکمل اور مکمّل دینِ اسلام میں  میں حجیّت (اتھارٹی)صرف قرآن وسنۃ  اور اسوۃ حسنۃ ہی ہیں ، ان کے ما سواکسی بھی شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء، مجتہد یا مجتہدین،  کی کسی بھی  اور کوئی سی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب سمیت) کوئی سے بھی انسانی خیالات و بشری افکار کو دین اسلام میں حجیّت (اتھارٹی) کی حیثیت حاصل نہیں ہے لہذا الوھی ہدایت پر مشتمل، قرآن و سنۃ  اور اسوۃ حسنۃ پر مبنی، اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے  پسندیدہ  اور کامل و اکمل اور مکمّل طور پر نازل کردہ دین ِ اسلام میں کسی کمی و بیشی، ردوبدل،  (لفظی  یا معنوی)    ترمیم و تحریف کا کوئی امکان  و جواز باقی نہیں رہا، مقاصدِ اسلام اور اصول الدّین بالکل واضح ہیں  جن پر دین و ایمان کا انحصور ہے  اور جن میں انسانی عقل و شعور، فکر و فلسفے، غور و خوض، فہم و فراست، تفکّر و تدبّر کا کوئی دخل نہیں کیونکہ وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ ہیں،  علمِ الٰہی ہیں، علم بالوحی ہیں ، حضرت محمد رسول اللہ کی نبوّۃ و رسالت ہیں ۔  باقی جو بھی کچھ ہے وہ اُسی الوہی ہدایت، قرآن و سُنَّۃ اور اسوۃ حسنۃ کے تابع ہے اور اور مقاصدِ اسلام  اور اصول الدّین  سے اس کا کوئی تعلق و واسطہ نہیں کیونکہ اُن فروعات میں انسانی فہم و فراست، فکر و فلسفے، سوجھ بوجھ، غور و فکر  کا عمل دخل ہے اور جہاں بھی انسانی و بشری افکار و نظریات، سوچ و فکر، غور و خوض، تفکّر و تدبّر  کا عمل دخل ہو گا وہاں پر اختلاف کا ہونا ایک لازمی و فطری تقاضہ ہے  جبکہ اصول الدّین اور مقاصدِ اسلام میں اختلاف کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہ صریحاً ارتداد ہے ، لہٰذا فروعات میں فقہاءِ کرام اور مجتہدین و علماء کی آراء میں فرق لازماً ہو گا مگر اس پر دین و ایمان کا انحصار نہیں ، اس  فطری  و علمی اختلاف ِ رائے کی وجہ سے یا اس کی پیروی کرنے سے کوئی فسق و فجور ، اللہ تعالٰی اور رسول اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی اور حکم عدولی، انحراف و روگردانی لازم نہ آئے تو اس سے دین و ایمان متاثر نہیں ہوتا۔
الله سبحانه و تعالى ، انبياء و رسل عليہم الصلواة والسلام کے سوا کسی بھی عام انسان کو براه راست اوربلا واسطہ ہدايت عطا نہیں كرتا بلکہ  اپنے انبياء و رسل عليہم الصلواة والسلام کے سوا باقی تمام انسانوں اپنے انبياء و رسل عليہم الصلواة والسلام کے توسل و توسط سے  ہدایت دیتا ہے- لہذا اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی جسے چاھتا ھے ، حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم میں مکمل ہو جانے  والے اپنے نازل کردہ دینِ اسلام پرقائم رہنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔
اصدِ دین کو پیشِ نظر رکھ کر، صدقِ نیَّۃ و اخلاصِ قلبی کے ساتھ، صرف اور صرف قران وسنۃ کےاحکامات وتعلیمات، ہدایات وفرمودات کی تعمیل و اطاعت اور اُسوۃ حسنۃ کی اتباع و پیروی کو اختیار کرنے،حقوق اللہ و حقوق العباد، اوامر (اچھے اور نیکی و بھلائی کےکام کرنے کے احکامات) و نواہی (بدی و برائی کے کاموں سے رکنے کے احکامات) کو بیان کرنے، اسی کی وعظ ونصیحت،تاکید وتلقین کرنے پر اکتفاء کرنے اور اس کے ماسوا کوئی بھی انسانی و بشری افکار و نظریات، سوچ و خیالات، فکر و فلسفے، اختراع  کو دین کہہ کر بنان کرنے سے اجتناب و گریز کرنے کو ہی  دعوۃ اِلی اللہ یعنی اللہ کے دین کی طرف بلانے کے مترادف  سمجھنا چاہیئے کہ یہی دين کی خدمت و تبلیغ ہے۔
دین فقط قرآن و سُنَّۃ پر مبنی ہے اور کامل و اکمل و مکمّل دین، ضابطہ ومنشورِ حیات ہے جو کہ پورے کا پورا اللہ تعالٰی کا نازل کردہ ہے، اس کے سوا کوئی چیز اصولُ الدّین میں شامل نہیں البتہ فروعات ہو سکتی ہیں جن پر دین و ایمان منحصر نہیں ہے۔
دینِ اسلام کے اندر کسی قسم کی ترمیم و تحریف، ردّو بدل، کمی و بیشی، اختراعات و بدعات، تجاوزات کا کسی بھی مُلُّا، مولوی، مفسِّر، محدث، فقیہ، مجتہد، عالِمِ دین، پیش امام، خطیب، شیخ الاسلام کو یا ان سبھی کو ملکر کوئی حق و اختیار حاصل نہیں ہے، ایسی ہر کوشش رسول اللہ ﷺ کے
ختمِ بنوَّۃ سے منکر ہونے کے مترادف کفر و ارتداد اور شرک و حرام ہے۔
خالقِ کائنات اللہ ربُّ العالمین نے اپنے حبیبِ کریم، رؤف و رحیم ، رحمۃ للعالَمین پر قرآن میں حکم نازل فرمایا ہے :
" وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ"(سورۃ المائدۃ، آیۃ44)
مفہوم: "اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکامات و ہدایات، تعلیمات و فرمودات کے مطابق زندگی کے تمام تر امور و معاملات میں فیصلے نہیں کرتے ، وہی لوگ تو کافر ہیں"
آیۃ مبارکہ کامفہوم ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق تمام تر فیصلے"توحید ربوبیت"کی قبیل سے ہیں، اس لئے کہ یہ اللہ تعالی کے اس حکم کو نافذ اور جاری کرنا ہے، جو اللہ جل شانہ، کی ربوبیت، اس کی کمال بادشاہی اور کامل تصرف و اختیارکا تقاضا کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے ان پیشواؤں کا، جن کی، اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت اور حکم سے ہٹ کر پیروی کی جاتی ہے، ان کے پیروکاروں کے ہاں، ان کا نام ارباب (رب کی جمع) رکھا ہے، اللہ سبحانہ وتعالی اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے:"انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ تعالی کے سوا اپنا رب بنالیا ہے اور اسی طرح عیسی علیہ السلام بن مریم علیہما السلام کو بھی ، حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں(سورۃ التوبة: 31)
٭....تو اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ان لوگوں کا نام، جو اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے خلاف پیروی کئے جاتے ہیں، "ارباب"(جو کہ رب کی جمع ہے) لیا ہے، حالانکہ ان کے پیروکاروں نے، ان کو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ (مشرعين) (یعنی شریعت کے اصول و احکام کو متعین اور ان کی وضاحت کرنے والے، جو کہ صرف اورصرف اللہ جل شانہ، کاحق ہے) ٹھہرایا ہے۔ جبکہ اللہ نے ان کے (متبعين) (یعنی پیروکاروں) کو (عباد) (یعنی ان کی عبادت کرنے والے) کانام دیا ہے، اس اعتبار سے کہ جو انہوں نے ان کے سامنے انتہاء درجے کی عاجزی اور تواضع اختیار کرتے ہوئے، اللہ سبحانہ وتعالی کے حکم کی مخالفت، میں ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی ہے اور اسی بات کی وضاحت میں، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کہ ان (متبعين) (پیروکاروں) نے اپنے ان (متبوعين) (پیشواؤں) کی عبادت تو نہیں کی" تو اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: (بل إنهم حرموا عليهم الحلال ، فاتبعوهم فتلك عبادتهم إياهم)
"بلکہ ان لوگوں نے ان (اپنے پیروکاروں) پر (اللہ تعالی کی) حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا اور حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا، تو ان پیروکاروں نے ان کی (اللہ تعالی کے مقابلے میں) اس شریعت سازی پر سرتسلیم خم کیا تو یہ ان کی اپنے (احبار و رہبان) یعنی مذہبی اور روحانی اماموں اور پیشواؤں کی بندگی کرنا ہے"
ان آیاۃ و احادیث سے بخوبی ثابت ہوا کہ اکابر پرستی شرک ہے، علماء و روحانی بزرگانِ دین کی کسی بھی بات کو اس اطمینان و تصدیق کے بغیر کہ اُن کی کہی ہوئی، بتائی ہوئی بات قرآن و سُنَّۃ کے عین مطابق ہے، اندھی تقلید و عقیدت میں مان لینا صریحاً "شرک" ہے جیا کہ آج کل اکابر پرستی عام ہے، اکابرین فرقہ کی عقیدت و احترام اور محبت میں اللہ تعالٰی و رسول اللہ کے احکامات سے انحراف و روگردانی، بغاوت و سرکشی اور حکم عدولی و نافرمانی کرتے ہوئے اکثر و بیشتر فرقہ پرستوں نے فرقوں کو اپنا دین و ایمان بنا رکھا ہے اور اُن کے من گھڑت، لغو، بے بنیاد، خود ساختہ، فسق و فجور اور گمراہی و ضلالت پر مبنی انسانی و بشری افکار و نظریات کو قرآن و سُنَّۃ کے احکامات پرعملاً ترجیح و فوقیت دیجاتی ہے۔
٭خوب جان لیجئےکہ جو شخص اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ یا فتوی نہ دے اور اس فیصلے و فتوی کو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے علاوہ کسی اور (طاغوت) کی طرف لے جانا چاہے، تو ایک تو ایسے شخص کے ایمان کی نفی کے بارے میں آیات کریمہ وارد ہوئی ہیں اور دوسرے اس کے کفر، ظلم اور فسق کے اثبات پر قرآن حکیم میں آیات ذکر ہوئی ہیں:(والعياذ بالله)
پہلی قسم: اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرنے یا فتوی دینے والے کے ایمان کی نفی کے بارے میں سورۃ النساء کی یہ آیت کریمہ ہیں:
مفہوم: "(اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم!) آپ نے ان لوگوں کے حال پر غور کیا، جو دعوٰی تو یہ کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کی طرف نازل کیا گیا ہے، اس پر بھی ایمان لائے ہیں اور اس پر بھی، جوآپ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) سے پہلے اتارا گیا تھا، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ "طاغوت"کے پاس لے جائیں، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا، کہ وہ "طاغوت"کے فیصلے تسلیم نہ کریں اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں گمراہ کرکے بہت دور تک لے جائے، اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ، جو اللہ تعالی نے اتاری ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کی طرف آؤ، تو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ) کے پاس آنے سے گریز کرتے ہیں، پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے، جب ان کے اپنے کرتوتوں کی بدولت ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے، وہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس اللہ (تعالٰی) کے نام کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی اور باہمی موافقت کے سوا کچھ نہ تھا، ایسے لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے، سو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) ان سے اعراض کیجئے اور نصیحت کیجئے، اور ایسی بات کہئے، جو ان کے دلوں میں اتر جائے، اور(انہیں بتلائیےکہ) ہم نے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) بھی بھیجا ہے، تو اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ تعالی کے حکم کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے، اور جب انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کرلیا تھا، تو اگر وہ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کے پاس آجاتے، اور اللہ (تعالی) سے بخشش طلب کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) بھی ان کےلئے (اللہ ) سے بخشش طلب کرتا، تو یقینا (وہ) اللہ تعالی کو تو بہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے، (اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم!) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ اپنے تنازعات (باہمی جھگڑوں) میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حکم (فیصلہ کرنے والا) تسلیم نہ کرلیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) جو فیصلہ کریں، اس کے متعلق اپنے دلوں میں گھٹن بھی محسوس نہ کریں اور اس فیصلہ پر پوری طرح سر تسلیم خم کردیں"۔ (سورۃ النِّساء، آیاۃ 60 تا 65)
تو اللہ تعالی نے ان آیات مبارکہ میں ایمان کے ان دعویداروں کا درج ذیل صفات کے ساتھ ذکر کیا ہے جبکہ وہ حقیقت میں منافق ہیں۔ :
پہلی صفت: وہ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے اور مقدمات نپٹانے کے لئے انہیں “طاغوت”کی طرف لے جائیں اور ہر وہ شخص جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرے وہ “طاغوت”ہی تو ہے، کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت ہی اس ذات کے خلاف سرکشی، بغاوت اور اس کے حکم پر ظلم و زیادتی ہے، جس کےلئے ہی حکم ہے اور ہر حکم اور معاملہ اسی ذات کی طرف ہی لوٹنے والا ہے اور وہ اللہ معبود برحق ذات ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ) (سورۃالأعراف: 54)
"خبردار رہو! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ سارے جہانوں کا مالک و پروردگار"
دوسری صفت: جب وہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر نازل کردہ احکامات (قرآن و سُنَّۃ) اور فیصلے کی طرف بلائے جاتے ہیں، تو وہ اس طرف آنے سے گریز کرتے ہیں اور صاف پہلو تہی برتتے  ہیں۔
تیسری صفت: جب انہیں کوئی ایسی مصیبت آپہنچے، جو ان کے اپنے ہاتھوں ہی کی شامت اعمال ہوتی ہے اور اس میں ان کے کرتوتوں کا بھانڈاپھوٹ جانا بھی شامل ہے، تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاس آکر اللہ کے نام کی (جھوٹی قسمیں) کھانا شروع کرتے ہیں، "کہ وہ اس عمل کے ورے صرف اور صرف اچھائی اور صلاح و فلاح کا ارادہ رکھتے تھے۔" یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے آج کے دور میں کوئی اسلامی احکام کا انکار کردے اور اسلام کے بالکل مخالف اور متضاد قوانین کے نفاذ کے بعد، انہی اسلام کے معارض و مخالف قوانین کے ساتھ یہ گمان اور دعوٰی کرتے ہوئے فیصلے کرے، کہ ان مروجہ قوانین کے مطابق فیصلے کرنا ہی عصر حاضر کے حالات کا تقاضا اور معاشرے کی صلاح و فلاح کا ضامن ہے۔
٭....پھر اللہ سبحانہ و تعالی نے ایمان کے (ان جھوٹے) مدعین اور ان مذکورہ صفات سے متصف (منافقین) کو اس بات سے خبردار کیا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالی، ان کے دلوں کی باتوں سے بخوبی آگاہ ہے اور منہ سے، جو بولتے ہیں اس کے برخلاف، جو کچھ وہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، اسے بھی وہ خوب جانتا ہے(کہ کہیں یہ لوگ دھوکے میں نہ رہیں)....اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو یہ حکم فرمایا: کہ ان لوگوں کو نصیحت کیجئے اور ان کے دلوں میں اتر جانے والی مؤثر بات ان سے کہئے....پھر اللہ جل شانہ، نےانبیاء و رُسل علیہم السلام کو اس دنیا میں بھیجنے کی یہ حکمت و مصلحت بیان فرمائی کہ وہی متبوعین (جن کی پیروی کی جائے) ہستیاں ہیں، ان کے علاوہ لوگوں میں سے کوئی بھی واجب الاطاعت نہیں کہ، جس کی اطاعت و اتباع کی جا سکتی ہو، خواہ لوگوں میں کتنے ہی مضبوط افکار، بلند کردار اور فہم و فراست میں وسعت رکھنے والے، فقیہ و عالم، امام و خطیب، مبلِّغ اورروحانی پیشوا ہوں۔"
پھر اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے لئے، اپنی اس ربوبیت کی قسم کھائی ہے، جو ربوبیت خاص ترین انواع میں سے ہے، اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی رسالت کی سچائی اور صحت کو شامل ہے، اللہ جل شانہ، نے اپنی اس صفت ربوبیت کی انتہائی پختہ قسم کھائی (جس سے یہ بات عیاں ہوئی ہے) کہ تین امور پائے جانے کے سوا، کسی کا ایمان صحیح اور مکمل نہ ہوگا:
پہلا: کہ ہر جھگڑے اور مقدمے کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی عدالت میں لے جایا جائے یا نبیءِ کریم کے احکامات کے عین مطابق کیا جائے۔
دوسرا: کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے دئیے ہوئے فیصلے اور رسول اللہ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات کے عین مطابق کئے گئے فیصلوں پر شرح صدر، خوشدلی، رضامندی ہو، اور اس بارے میں دلوں کے اندر معمولی تنگی یا خلش نہ رہے۔
تیسرا: کہ جو حکم آپ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم)کی عدالت سے صادر ہو، یا رسول اللہ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات کے عین مطابق ہو اس کو دل و جان سے قبول کیا جائے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ اور انحراف کے اسے من و عن نافذ کردیا جائے۔
دوسری قسم: اور اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے دوسری قسم کے لوگوں کی مثالیں اللہ جل شانہ، کے درج ذیل ارشادات میں ذکر ہوئی ہیں:
(وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ(المائدة: 44)
"ور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکامات کےعین مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی لوگ تو کافر ہیں"
(وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ) (المائدة: 45)
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکامات کےعین مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی لوگ تو ظالم ہیں"
(وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (المائدة: 47)
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکامات کےعین مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی لوگ تو فاسق ہیں"
اور یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان آیات میں مذکور تینوں اوصاف ایک ہی موصوف (شخص)پر چسپاں ہوتے ہیں؟ مطلب یہ کہ جو شخص اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر بھی ہے، ظالم بھی ہے اور فاسق بھی، اس لئے کہ اللہ تعالی نے کفار کو ظلم و فسق کے اوصاف سے بھی موصوف ٹھہرایا ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: "اور کافر لوگ وہی ظالم ہیں"(البقرة: 254))
نیز اللہ تعالی کا یہ بھی ارشاد ہے: "بے شک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم)کے ساتھ کفر کیا ہے، اور وہ اس حال میں مرے ہیں کہ وہ فاسق تھے"(التوبة: 84)
تو اللہ تعالی کے ان فرامین کی رو سے ہر کافر، ظالم اور فاسق بھی ہوتا ہےیا پھر یہ تینوں اوصاف الگ الگ ان موصوفین (اشخاص) پر، ان کے اللہ جل شانہ کے نازل کردہ حکم سے پہلو تہی برتنے اور اس سے اعراض و انحراف کے حساب سے ان پر چسپاں ہوں گے اور یہی مفہوم میرے نزدیک صحت کے زیادہ قریب ہے۔(والله أعلم بالصواب)
لہذا ہم ان آیات کریمہ کے مفہوم کی وضاحت میں کہیں گے کہ جو شخص تو اللہ تعالی کی نازلکردہ دین (قرآن و سُنَّۃ کے احکامات) کو معمولی سمجھتے ہوئے یا اسے حقیر جانتے ہوئے یا یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ اس کے علاوہ دیگر مروجہ قوانین و دساتیر زیادہ مناسب اور درست ہیں اور اللہ کی مخلوق کےلئے زیادہ فائدہ مند بھی ہیں، اس کے خلاف فیصلہ دے، تو وہ شخص کافر ہے، جس کا کفر اس کو ملت اسلامیہ سے نکال باہر کرے گا اور ایسے ہی لوگوں میں سے وہ (جو اپنے تئیں عہد جدید کے مفکرین، دانشور اور ترقی پسند) بھی ہیں، جو لوگوں کی خاطر شریعت اسلامیہ کی تشریعات و تعلیمات کے صریح منافی قرانین وضع کرتے اور خود ساختہ تشریعات کو فروغ دیتے ہیں، تاکہ یہ ایک مستقل ملکی دستور و آئین کی شکل اختیار کرسکیں اور عامتہ الناس کے لئے ان کے مطابق زندگی گزارنا آسان اور ممکن ہوسکے اور ظاہر ہے کہ یہ لوگ شریعت طاہرہ کے صریع مخالف ان تشریعات (اور آئینی شقوں) کو یہ اعتقاد رکھتے ہوئے محض اس لئے وضع کرتے ہیں، کہ یہ مخلوق کے حق میں زیادہ باعث صلاح و فلاح اور منفعت بخش ہیں۔
یہ بات عقلی ضرورت اور انسان کے جبّلی اور فطری تقاضوں کے اعتبار سے بھی معلوم شدہ ہے کہ وہ ایک راستے کو چھوڑ کر اس کے مخالف کسی بھی دوسرے راستے کو اس وقت تک نہیں پکڑتا، جب تک وہ یہ اچھی طرح سے نہ سمجھ لے کہ جس راستے کو اس نے اختیار کیا ہے وہ اس پہلے راستے کی نسبت، جس کو اس نے ترک کیا ہے، زیادہ بہتر بھی ہے اور فائدہ مند بھی۔ (لہذا ایسا اعتقاد رکھتے ہوئے اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے خلاف فیصلے کرنا اور یہ گمان رکھنا کہ یہ جدید اور اختراعی نظام، شریعت اسلامی کے لائے ہوئے نظام سے زیادہ پائیدار، بہتر اور منفعت بخش ہے، تو ایسا اعتقاد اور گمان رکھنے والا شخص بلاشک وشبہ کافر ہے۔(والعياذبالله)
اور جو شخص اللہ تعالی نازل کردہ دین (قرآن و سُنَّۃ کے احکامات)کے مطابق فیصلے نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے ان احکام کو کم تر اور حقیر بھی نہ سمجھتا ہو اور نہ یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ ان کے علاوہ دیگر نظام و احکام ان شرعی و سماوی احکام سے زیادہ بہتر اور پائیدار ہیں، تو ایسا شخص کافر تو نہیں، ظالم ہے، اور ظلم کے بھی کئی ایک مراتب ہیں، لہذا اس شخص کے ظلم کا درجہ اس “محکوم بہ” (جس چیز کے ذریعے حکم لگایا گیا ہو) اور “وسائل حکم” (کہ حکم لگانے کے لئے کون سے وسائل اور ذرائع اختیار کئے گئے ہیں) کے مطابق متعین کیا جائے گا (کہ اس نے فیصلہ کیسا دیا ہے اور فیصلہ دینے کے لئے کون ساطریقہ اختیار کیا ہے اور کس چیز سے رہنمائی لی ہے؟)
اور وہ شخص، جس نے اللہ تعالی کے اتارے ہوئے "دینِ اسلام" (یعنی قرآن و سُنَّۃ)کے مطابق فیصلہ نہ کیا ہو، نہ اس کو معمولی گردانتے ہوئے، نہ ہی حقیر اور کم تر سمجھتے ہوئے اور نہ یہ اعتقادرکھتے ہوئے کہ اس کے مقابلے میں دیگر وضعی و اختراعی احکام زیادہ درست اور مخلوق کے لئے زیادہ نفع بخش ہیں، بلکہ اس نے یہ فیصلہ محض کسی ظالم و جابر حاکم وغیرہ کے دباؤ میں آکر یا پھر کسی دنیوی فائدے (رشوت وغیرہ) کے حصول کے لئے دیا ہو، تو ایسا شخص بھی کافر نہیں، فاسق(اللہ تعالی کی اطاعت سے نکل جانے والا)ہے اور “ظلم”کی طرح “فسق”کے بھی درجات ہیں اور یہ شخص “فسق”کے کون سے درجہ پر ہے؟ تو اس کا تعین اس معاملے کی جانچ پرکھ سے ہوگا کہ اس نے کیسا فیصلہ دیا اور یہ فیصلہ کرنے کے لئے اس نے کون سے ذرائع و وسائل اختیار کئے؟
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے احبار (مذہبی پیشواؤں) اور رہبان (روحانی رہنماؤں) کو اللہ تعالی کے سوا "ارباب"پکڑلیتے ہیں، دو قسم کے حکم لگائے ہیں:
ان میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں: جو یہ اچھی طرح جان لیں کہ ان کے مذہبی پیشواؤں اور روحانی رہنماؤں نے اللہ تعالی کے دین کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اس تبدیلی کا علم رکھنے کے باوجود وہ اپنے ان مشائخ کی پیروی میں اندھے ہو کر اور یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو بھی حرام قرار دیا ہے، ان کی اتباع کرتے ہیں....تو یہ کفر ہے اور اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے “شرک”قرار دیا ہے۔(والعياذ بالله من ذلك)
اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں: "جو اپنے مذہبی پیشواؤں اور روحانی رہنماؤں کے حرام کو حلال کرنے اور حلال کو حرام قرار دینے پر ایمان و اعتقاد تو رکھتے ہیں " یہ عبارت اسی طرح سے ہی شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے منقول ہے۔ مگر ان کی یہ اطاعت اللہ تعالی کی معصیت میں ایسے ہی ہے، جیسے عام حالات میں ایک مسلمان اللہ تعالی کی نافرمانی کا یہ اعتقاد رکھتے ہوئے مرتکب ہوتا ہے کہ اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہے، تو ایسے لوگوں کا حکم اپنے جیسے گناہ گاروں کا ساحکم ہے۔
 یہ مسئلہ (اس سے میری مراد اللہ تعالٰی کے نازل کردہ دینِ اسلام (قرآن و سُنَّۃ کے احکامات)کے خلاف فیصلہ دینے اور ایسا فیصلہ دینے والے شخص کے بارے میں شرعی حکم کا مسئلہ ہے) ان بڑے مسائل میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں موجودہ دور کے حکام اور ملکوں کے سربراہان کڑے امتحان سے گزررہے ہیں، تو ایسی صورت حال میں ایک حقیقت پسند اور زیرک شخص پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ ان پر ایسا حکم لگانے میں کبھی جلدی نہ کرے، جس حکم کے وہ حقیقت میں مستحق نہ ہوں، یہاں تک کہ اس پر حق بات واضح ہوجائے، اس لئے کہ یہ معاملہ بڑا خطرناک ہے، ہم اللہ تعالی کے حضور دعاء کرتے ہیں کہ وہ اہل اسلام کے حق میں ان کے تمام حکام اور سربراہان کی اصلاح فرمادے!۔ آمین
اسی طرح اس شخص پر، جسے اللہ تعالی نے علم کی نعمت سے نوازا ہے، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان حاکموں، ججوں، جرنیلوں، حکّام و عمّال کے سامنے اصل مسئلہ کھول کر بیان کرے، تاکہ ان پر (ان کے رب کے حضور اور پھر رعایا کے ہاں) حجت قائم ہو اور اس طرح سے اصل اور صحیح راستہ ان کے لئے واہوجائے اور ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں کوئی راہ فرار بھی باقی نہ رہے، پھر اس حق کی وضاحت کے بعد، جو ہلاکت اور تباہی کے گڑھےمیں گرنا چاہتا ہو، وہ کسی دلیل پر (على وجه البصيرة) ہلاک ہو اور جو سعادت مندی کی زندگی گزارنے کے لئے زندہ رہنا چاہے، تو وہ بھی کسی دلیل پر پورے اطمینان اور وثوق کے ساتھ زندگی گزارے، لہذا وہ صاحب علم (داعی)،حق کے بیان میں کسی "کسر نفسی" کا شکار نہ ہو،اور نہ اس بارے میں وہ کسی سے ڈرمحسوس کرے۔
تمام عزت و وقار (سارے کا سارا)اللہ جل شانہ، کے لئے اور پھر اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے لئےخاص ہے اوراس کے بعد تمام مؤمنوں، مسلمانوں، صالحین و متقین کے لئے ہے جو اللہ کے نازل کردہ دین (قرآن و سُنَّۃ و اسوۃ حسنۃ کی کامل اطاعت و اتباع اور تعمیل و پیروی اور تبلیغ کرتے ہیں اپنے ذاتییا اپنے اکابرین کے انسانی و بشری افکار و نظریات، خیالات و اختراعات و بدعات اور دیگر کسی بھی قول و عمل اور بات کو کبھی بھی اللہ کے نازل کردہ دین ِ اسلام (قرآن و سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات پر کبھی بھی ترجیح و فوقیت اور اوّلیت نہیں دیتے)۔"
تو اب جو کوئی بھی مسلمان ، فرد یاافراد، طبقہ یا گروہ، کتاب اللہ اورسنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے سواء بھی کسی اور شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء ، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب یا کوئی سےبھی انسانی خیالات و بشری افکارکو منزل من اللہ الوہی دین الاسلام میں اتھارتی (حجیت) مانتا ہے، یا قرآن وسنۃ پر اولیّت، ترجیح ، فوقیّت یا برابر کی حیثیّت دیتا ہے تو اسے اپنے رویّے پر غور کرنا ضروری ہے ،  ہر ایک صاحبِ ایمان کے لئے لازم ہے کہ وہ  اپنے آپ کو کو دینی اعتبار سے  صرف اور صرف مسلمان سمجھے اور  مسلمان کہلوائے مسلمان کے علاوہ اپنی  کوئی بھی دیگر دینی ومذہبی شناخت، پہچان یا نام اختیار نہ کرے  جیسے کہ آجکل لوگ فخریہ طور پر دینِ اسلام کے ساتھ اپنی وابستگی کے اظہار کے لئے خود کو مسلمان سمجھنے، کہلوانے کے بجائے بد قسمتی سے اپنی فرقہ وارانہ مذہبی پہچان و شناخت کو زیادہ اختیار کرتے ہیں  اور مسلم یا مسلمان کہلوانے اور بتانے کہلوانے کے بجائے عموماً دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، سلفی، عطاری، تبلیغی، جماعتی وغیرہ  کے طور پر اپنا مذہبی تعارف کرواتے، کہلواتے ہیں  ،  ایسے عملِ  بد کو  اختیار کرنے سے گریز کرنا لازم ہے کہ کیوں کہ یہ عمل قرآ ن و سنۃ کے صریحاً خلاف ، ناجائز ،  حرام اور سختی کے ساتھ ممنوع ہے
مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راہنماؤں اورمسلم حکمرانوں کا کام (فرض منصبی) کا لازمی تقاضہ توصرف یہ ہے کہ وہ اخلاص قلب اور صدق نیت کے ساتھ، قرآن وسنۃ کے مقصود اصلی، حقیقی پیغام و تعلیمات، معارف و معانی، مطلوب مقاصد دین ، نظامہائے معیشت و معاشرت، عدل و انصاف، تعلیم و تربیت، سیاست و مشاورت، حقوق اللہ و حقوق العباد، مساوات انسانی سمیت اسوة الحسنۃ کو اس کے مقصود اصلی اور حقیقی روح کے عین مطابق صحیح طور پر پہلے خودخوب اچھی طرح سمجھیں اور کامل اطاعت و اتباع کریں،تقویٰ اختیار کریں اور اس کے بعدپھرنبوی منہاج کے عین مطابق اور کسی بھی کمی و بیشی، تغیّر و تبدّل کے بغیر، خالصتاً قرآن و سنۃ کی انہی اصل تعلیمات کو دوسرے عام مسلمانوں تک پہنچائیں۔
مسلم علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راھنماؤں اورمسلم حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی نے ذاتی یا کوئی سے بھی انسانی خیالات، بشری افکار و نظریات پر مبنی نظاموں کو بالائے طاق رکھ کر، فقط قرآن وسنۃ کی بالا دستی قاےم کرنے، انہی کی تدریس وتعلیم، ترویج و تبلیغ ، تنفیذسمیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مقدس فریضہ دیانتداری و ایمان داری کے ساتھ سر انجام دیتے رھیں اور عام مسلمانوں کو  مقاصدِ اسلام، اصول الدّین ،حقوق اللہ اور حقوق العباد ، اوامر و نواہی کے متعلق قرآن و سُنَّۃ  کے احکامات و تعلیمات ، فرمودات و ہدایات سے پوری طرح آگاہ کریں اور ان کی اہمیت کو معلِّمِ انسانیت، مُحسنِ آدمیت، رحمۃ للعَالَمین سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفٰی نے خطبات، وعظ و نصیحت، تقاریر و گفتگو میں پھلی ترجیح بنائیں خود بھی ان  کی تعمیل،مکمل خیال رکھیں اور عام لوگوں کو بھی ان دونوں قسم کے احکام و تعلیمات کی کامل پاسداری و پابندی کی تاکید کرتے رہیں۔ ۔
مسلم معاشرے کے افراد کو اجتماعی و انفرادی سطح پر قرآن وسنۃ کی اطاعت و اتباع ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم)کے اسوةحسنۃ کی مکمل پیروی کرنے پر مائل و آمادہ اور قائل و راغب کرنے، مسلم معاشرے کے افراد کی ہر سطح پر اصلاح کرنے، ان کو ہر قسم کی گمراہی، بے راہ روی اورقرآن وسنۃ کے احکامات کی نافرمانی اور انحراف سے روکنے، ممنوعات، فحشاء و منکرات میں مبتلا ھونے سے باز رکھنے، عام مسلمانوں کو باعمل و صالح مسلمان اورمعاشرے کا مفید فرد بنانے، قول و فعل کے تضادات، حرص وحوص، طمع و لالچ، بغض و عناد، کینہ پروری و عداوت، علاقائی، لسانی، گروہی، فرقہ وارانہ عصبیتوں اور تعصبات سمیت ہر قسم کے انتشار و افتراق، باہمی فسادات، سود خوری و حرام کاری، رشوت ستانی،فسق و فجور، بدعات، مذہبی منافرت، جھوٹ، بد عہدی، دھوکہ دہی ،وعدہ خلافی، نا جائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی، غیر اسلامی رسومات روائج سمیت تمام رزائل اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچتے رہنے ، حقوق اللہ و حقوق العباد کا پورا پورا خیال رکھنےکی وعظ و نصیحت،تلقین و تاکید کرتے رہنا اور امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی، امن و استحکام ، خوش حالی اور فلاح و ترقی کے لئے مخلصانہ، با مقصد اور نتیجہ خیز جدّو جہد کرتے رہنا بھی مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راہنماؤں اورمسلم حکمرانوں کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
انہی کی یہ بھی ایک اہم ذمہ داری ہےکہ امّۃِمسلمہ کے افراد کو دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز، نیچرل سائنسز ، ہیلتھ سائنسز، ڈیفنس سائنسز، صنعت و حرفت، انجینئرنگ و جدیدٹیکنولوجیز سمیت عصری علوم و فنون کی معیاری و اعلیٰ تعلیم و عملی تربیت کے حصول ، تحقیقات و ایجادات کیلئے ضروری سہولیات و وسائل اور ترغیبات فراہم کریں تاکہ دیگر اقوام عالم کے مقابلے میں ہر اعتبار سے،مسلم امّہ زیادہ مضبوط و مستحکم ، متحد و منظم ، خوشحال و ترقّی یافتہ ہو اور دنیا میں اللہ سبحانہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دین کو غالب و سربلند کر سکے۔
ہر ایک سطح پر قرآن وسنۃ کے علمی نفاذ اور دین اسلام کے غلبے و سربلندی کی ہر ممکن کوشش کرنا، امتِ مسلمہ کو (جو کہ جسد واحد کی طرح، امتِ واحدہ ہے) متحد، مربوط و منظم رکھنے اور ہر قسم کے تفرقے اور انتشار و افتراق، بد امنی، مذہبی منافرت، عدم استحکام سے بچانے کی حتی المقدور اور مخلصانہ جدّوجہد کرتے رہنا اور غیر مسلموں پر اسلام کی حقانیت ثابت کر کے احسن طریقوں سے، نبوی منہاج کے مطابق ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا بھی مسلم امراء و علماء کرام، مذہبی پیشواؤں، دینی قائدین و رہنماؤں اورمسلم حکمرانوں کی اصل، اولین اور سب سے اہم ذمہ داری اور منصبی فریضہ ہے۔
دین اسلام مسلمانوں کو باہم اخوتِ اسلامی اور امداد باہمی جبکہ غیر مسلموں کے ساتھ بقائے باہمی کے زرّین اصولوں پر قائم رہنے اورامن و سلامتی ، عدل و انصاف، مساوات وغیرہم سمیت فلاح انسانی کی دیگر تعلیمات سے روشناس کرواتا ہے مگر حیرت و تعجب میں غرق ہو جاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ اکثر و بیشتر افراد امت میں فرقہ واریت کا گندہ و غلیظ زہر اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ اب مسلمان کو منزّل مِن اللہ دین اسلام یعنی قرآن مجید اور رسول اللہ کی سنّۃ اور اسوۃحسنہ (جو قرآن کی عملی تعبیر و تشریح اور مجسم تفسیر ہیں) کے ساتھ کوئی بھی تعلق، واسطہ، وابستگی اور رغبت ہی نہیں ہے اور وہ  اپنے  فرقہ پرست ملاؤں کی من گھڑت، خود ساختہ، گمراہ کن خلاف اسلام باتوں اور جاہلانہ تعلیمات کے دفاع میں قرآن مجید اور سنّۃ رسول اللہ یعنی اسوۃحسنہ کے بالکل واضح احکامات و تعلیمات کا صاف انکار کر دیتے ہیں معاذ اللہ ایسا محسوص کرتا ہوں جیسے ان لوگوں کو اس عقیدہ پرانتہائی پختہ اور راسخ کیا جا چکا ہے اور ان کو مکمل اطمینان و یقین دلا دیا گیا ہےکہ جو ہم بتائیں بس وہی حق اور سچ ہے اور اسی کو دین مانو تمہارا فرقہ ہی دین اسلام پر ہے قرآن و سنہ اور اسوۃ حسنہ کو پڑہنے سمجھنے کی کوشش مت کرنا ورنہ گمراہ ہو کر جہنّمی ہو جاؤ گے کیوں کہ جنّت الفردوس ہمارے ہی نظریات
و افکار پر منحصر ہے( اس میں قرآن مجید و سنۃِ رسول اللہ (احادیث مبارکہ اور رسول اللہ کے اسوۃ حسنہ ) کوئی عمل دخل نہیں ہےجو ہم کہتے بس فقط اسی کو مانو باقی سب چھوڑو ورنہ ایمان ختم ہو جائے گا۔ اب لوگ اب برملاکہتے ہیں کہ مجھے قرآن و سنّت اور اسوۃ حسنہ سے کوئی براہِ راست کوئی سروکار، تعلق واسطہ نہیں ہے ۔ لگتا ہے کہ جیسے معاذ اللہ ہر فرقے کے پیروکاروں نے  اپنے اپنے فرقہ کے نام نہاد مذہبی پیشواؤں اور مسجد کے ملّا جی کو اللہ تعالٰی کے دین اسلام میں پہلی ، آخری اور واحد اتھارٹی یعنی حجیت تسلیم کرلیا ہے اور رسول اللہ کو اور قرآن کو اس کواس کے بیچ نکال کر فارغ کر دیا ہے۔ لوگوں کو سکھلا دیا گیا ہےکہ تم کہا کرو میرے فرقے کا ملّا جی جو کہتا ہے بس وہی حق ہے باقی سب کفر و شرک اور ارتداد ہے میں قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنہ کے بارے میں کچھ بھی سننا یا جاننا چاہتا ہی نہیں ہوں۔ یہ اسی برین واشنگ کا ہی نتیجہ ہے کہ فرقوں نے اپنے  گمراہ کئے ہوئے لوگوں میں سے بعض نوجوانوں کو آتشین اسلحہ سے لیس کر کے مذہبی دہشت گردی اور خود کش حملے کرنے پر لگا دیا ہوا ہے ۔اصل دین اسلام جو کہ پورے کا پورا منزّل من اللہ ہے اور جس میں انسانی و بشری افکار و نظریات کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے اور جو فقط قرآن مجید، رسول اللہ کی سنۃ  اور اسوۃ حسنۃ  پر مشتمل اور الوہی ہدایت پرمبنی ہے اور وہی صراط مستقیم ہے اس میں فرقوں کی کوئی گنجائش ہے نہ ہی مذہبی منافرت کی، مسلمانوں کے درمیان کسی بھی قسم کے انتشار و افتراق کی کوئی اجازت ہے نہ ہی مذہبی دہشت گردی اور خود کش حملوں کی۔ اللہ ہم سب مسلمانوں کو  قرآن و سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات کی تعمیل و اطاعت اور رسول اللہ کے اسوۃ حسنۃ کی کامل  اتباع وپیروی کرنے ، صراطِ مستقیم  پر چلنے اور اپنے  دین و ایمان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
قرآنِ مجید میں ربِّ کائنات کا فرمانِ عالی شان ہے :
مفہوم: "اے محبوب صلّی اللہ علیہ و  آلہٖ و سلّم) " آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارےباپ  اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول() سے، اور اللہ کی راہ میں جہاد(کوشش) کرنے سے تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے  اپنا حکم  (عذاب)، اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا "  (سورۃ التوبہ، اٰیۃ نمبر:24)
ھذا ما عندی واللہ  و رسولہٗ اعلم بالصواب!
(تحریر:  ڈاکٹرپرویزاقبال آرائیں)

No comments:

Post a Comment