بِسمِ
اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
کمیونزم، سوشلزم، کیپیٹلزم کا اسلامی نظامِ اقتصادیات، معاشیات، مالیات
و بینکاری کے ساتھ تقابلی و تحقیقی جائزہ (تلخیص شدہ)
مقالہ نگار: پروفیسر ڈاکٹر پرویز
اقبال آرائیں
عیسائیت کی تاریخ:
حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے آسمانی
دین کی نعمت سے سرفراز کیا۔اور اس قوم کو دنیا کی امانت کا مقدس فریضہ سونپا
گیا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے لادینی افکار وخیالات کو اپنے مذہب میں
جگہ دینی شروع کی اور چھوٹی چھوٹی بے اصل ظاہری باتوں میں مبتلا ہوکر بڑے بڑے اعلیٰ
روحانی مقاصد سے غافل ہوگئے تھے۔مزید برآں اسی پر اکتفاءنہیں کیا بلکہ دین سماوی
میں اپنی خواہشات کے مطابق تحریف کرنا بھی ان کا معمول بن گیا ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی
کتاب میں تحریف کرتے ہوئے دین میں اپنی مرضی کی باتیں شامل کرنے لگے۔وہ روحانی
ترقی سے زیادہ مذہبی رسوم و شعائر کو اہمیت دے کر اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوگئے
۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے وقت یہودی قوم کا
شیرازہ بکھر گیا تھا۔ بیحرہءِ روم کے آس پاس کے ممالک میں ان کی مختلف نو آبادیاں
قائم تھیں اور مشرقی وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔بابل
کی جلاوطنی پر تھوڑے بہت یہودی فلسطین میں دوبارہ آبسے تھے لیکن افراد کی اکثریت
بابل میں مستقل قیام پذیر تھی۔یرو شلم رومی حکومت کا ایک صوبہ تھا۔ جہاں رومیوں کی
طرف سے ایک حاکم مقرر تھا۔مادی اسباب کے لحاظ سے بظاہر اس امر کا کوئی امکان نہ
تھا کہ یہودی پھر کبھی آزادی کی فضاءمیں سانس لے سکیں گے یا بیرونی حاکموں کے ظلم
و ستم سے نجات حاصل کرسکیں گے۔
ان تمام حالات اور زبوں حالی کا یہودیوں کو شدت سے احساس تھا اس لئے ان
کی امیدیں مستقبل پر مرکوز تھیں اور وہ خدا وند تعالیٰ کی راست مداخلت کے منتظر
رہتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ وہ وقت قریب ہے جب ظالمانہ بیرونی سلطنت کا خاتمہ
ہوجائے گااور بنی اسرائیل ایک بار پھر آزادی اور بالا دستی کی نعمت سے سرفراز
ہوجائیں گے۔ اس کے نتیجے میں بنی اسرائیل کو ایک ایسی عالمگیر قوت اور سلطنت حاصل
ہوگی جو ہمیشہ قائم رہے گی اور یہ وہی سلطنت ہوگی جس کا وعدہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے اور دیگر پیغمبروں سے کیا گیا تھا
یہ وہ حالات تھے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام یروشلم کے قریب ایک مقام
بیت اللحم میں پیدا ہوئے َ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت اور اصلاح سے قبل حضرت
یحییٰ علیہ السلام نے روحانی پیغام کی اشاعت شروع کی انہوں نے لوگوں کو خبر دار
کیا کہ مسیح (نجات دہندہ)کی آمد قریب ہے اسی دوران حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف
لائے ، ان کی تعلیمات بھی وہی تھیںجوکہ بنی اسرائیل کی طرف دیگر پیغمبر وقتاََ
فوقتاََ لا تے رہے تھے۔انہوں نے بنی اسرائیل کے لادینی افکار و خیالات کو صاف کرکے
ان کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی اور ان کی تمام سرگرمیوں کو رضائے الٰہی کی
طرف موڑنے کی کوشش کی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے بگڑے ہوئے حالات کو
سنوارناچاہا لیکن یہ تعلیمات مذہبی طبقے اور سیاسی حکمرانوں کیلئے باعث اطمنان قلب
نہ ہوئیں بلکہ انہوں نے ان تعلیمات کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتے ہوئے بزعم خویش
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت کی ڈیڑھ یا تین سال بعد صلیب دے دی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سحر انگیز شخصیت اور لوگوں کے بعض روحانی
تجربات نے ان کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ان پیروؤں کے اندر اس یقین کو پیدا کیا
کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے اور آسمانی بادشاہت کا
آغاز کریں گے۔ حالانکہ یہ آسمانی بادشاہت نبی کریم ﷺ کے دور کی نشاندہی تھی جس کی
خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خبر دی تھی۔ چنانچہ اس غلط فہمی کا شکار ہونے کے
بعد یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور ثانی کا انتظار کرنے لگے ۔ وہ دوسرے
لوگوں کو بھی آنے والے دور کی برکات سے آگاہ کرتے رہے ۔ وقت کی یہ جامع ترین دعوت
لوگوں میں مقبول ہوئی حتیٰ کہ مقامی یہودیوں کے علاوہ یونانی یہودی بھی اس دعوت سے
متاثر ہونے لگے جن کی زبان یونانی تھی۔ان یونانی پیروانِ مسیح نے فلسطین سے باہر
بھی اپنے خیالات کی تبلیغ شروع کی اور ایک علیحدہ مذہب کی حیثیت سے عیسائیت کی
بنیاد ڈالی۔
عیسائیت کے پھیلاؤ میں میں پال نے اہم کردار ادا کیا ۔ اس نے روم میں
عیسائیت کی باقاعدہ منظم تبلیغ کی جس کی وجہ سے وہاں عیسائیت حد سے بڑھ کر مقبول
ہوئی۔اس نے یہودیوں کی مذہبی پابندیوں کو عام لوگوں سے ختم کیا اور مقامی قوانین و
رسم و رواج کو ایک طرح کی مذہبی اور قومی شکل دے کر رائج کیا ۔
ابتداءمیں مسیح کی پیروکا عقیدہ مسیح ثانی کے ظہور اور آسمانی مملکت کے
قیام کا تھا اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا درجہ نہیں دیتے تھے لیکن
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کی امیدیں مایوسیوں میں بدلتی گئی اور عیسائیوں میں یہ
عقیدہ پیدا ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی موت سے انسانیت کا کفارہ ادا
کرکے اس کی روحانی نجات کا بندو بست کرلیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کی اس قربانی کی وجہ سے عیسائیوں کے گناہ دھل گئے ہیں اور وہ آسمانی
بادشاہت کے دائرے میں داخل ہوگئے ہیں ۔
بنی اسرائیل میں خدا کیلئے باپ کا لفظ بطور استعارہ استعمال ہوتا تھا
جس کا مطلب یہ تھا کہ انسان ہر حال میں خود کو خدا کے قریب سمجھے اور مشکلات میں
اس کی طرف سے مدد کی امید رکھے ۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات اور ان کی
غیر معمولی شخصیت کو دیکھ کر متاخرین عیسائیوں کا عقیدہ بگڑ گیا اور یونانی مذہب
سے متاثر ہوکر انہوں نے آسمانی باپ کے تصور میں تبدیلی پیدا کی اور یہ عقیدہ قائم
ہوا کہ مسیح واقعتاََ اللہ کے بیٹے ہیں جنہیں اللہ نے اپنی مقدس روح کو حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کے جسم میں داخل کرکے نجاتِ انسانی کیلئے دنیا میں بھیجا تھا اس لیے
یہیں سے نظریہءِتثلیث نے جنم لیا یعنی باپ ،بیٹا اور روح القدس تینوں خدائی میں
برابر کے شریک ہیں ۔ روح القدس کا یہ فلسفہ یونانی تصور سے آکر عیسائیت میں شامل ہوا۔
ہیومنزم کی اصطلاح نےعیسائیوں
کے مذہبی عقیدے میں ایک اور دراڑ ڈالتے ہوئے یہ تصور دیاکہ انسان اللہ کی صفات اپنا
کر خدائی اختیارات حاصل کر سکتا ہے کیونکہ خدا ئی کوئی ماورائے کائنات ہستی کا نام
نہیں بلکہ چند صفات کا مجموعہ ہے جو انسان اور کائنات کے دیگر اجسام میں حلول
کرسکتا ہے ۔اور اسی بات سے یہ بھی لارم ہوگیا کہ انسان کو خدائی اختیارات ملنے کے
بعد وہ خیرو شر کی راہیں اور تعریفیں بھی خودمدوّن کر سکتا ہے انسانی قانون دراصل
رومن قانون کی حکمرانی ہے اور اس قانون کے تحت مضبوط سلطنت اور مضبوط کلیسائی نظام
ایک دوسرے کو لازم و ملزوم ہیں ۔ اس لئے کسی عیسائی شہنشاہ کی سیکولر حکمرانی
اقتدارِ اعلٰی و خود مختاری کو پوپ کی تصدیق حاصل ہونا ضروری ہے ۔ اس فلسفے کے
نتیجے میں خدائی بادشاہت کا دائرہ محدود جبکہ انسانی شہنشائیت کا دائرہ لا محدود
ہوگیا۔
سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر کی تحریک اصلاح سے پہلے پوپ کو مرکزی
حیثیت حاصل تھی جو عیسائی دنیا کا روحانی پیشوا تھا اور پوری رومن امپائر اس کے
ماتحت تھی۔بائبل کی تشریح کا حق بھی صرف چرچ کو حاصل تھا اور گناہوں کے کفارے اور
آخرت کی نجات کا دارومدار بھی چرچ کی خوشنودی میں منحصر تھا ۔پوپ کے بعد دوسرا
درجہ رومی بادشاہ کا ہوتا تھا جو حکومتی معاملات کی دیکھ بھال کرتا تھااور تیسرے
درجے میں وہ سینکڑوں چھوٹے چھوٹے نواب تھے جو پوری رومن سلطنت میں پھیلے ہوئے تھے
۔ لوتھر نے اس نظام کے خلاف تحریک ِاصلاح شروع کی جو مکمل طور پر مذہبی جذبے سے
سرشار ہوکر شروع کی گئی تھی۔لیکن آگے چل کر یہ تحریک لبرل ازم کی بنیاد ثابت ہوئی
۔ لوتھر کی یہ تحریک ابتداءمیں ایک سیاسی جدوجہد تھی لیکن اس کے نتیجے میں صدیوں
سے تعمیر شدہ سیاسی ، معاشی اور معاشرتی افکار و خیالات تبدیل ہوکر رہ گئے۔
نیشنلزم:
تحریک اصلاح کے نتیجے میں ہر فرد کو بائبل کی تشریح کا اختیار حاصل
ہوگیا، پوپ اور چرچ کے اختیارات پر کاری ضرب لگادی گئی اور ریاست کے نواب اتنے
طاقتور ہوگئے کہ وہ رومن ریاست اور چرچ دونوں کیلئے خطرہ بن گئے۔ چنانچہ مذہب
قومیت کے سانچے میں ڈھل گیا اور ریاست تقسیم ہوگئی۔
سیکولرازم:
لوتھر کی تحریک سے عام لوگوں میں آزادی اور مساوات کے جذبے کو پذیرائی
حاصل ہوئی ۔ پھر یہ ہوا کہ ہر چیز کو عقل کے پیمانے پر رکھ کرنا پا اور سمجھا جانے
لگا۔ ہر شخص کویہ حق حاصل ہوگیا کہ وہ خدائی احکامات کی تشریح خود کرسکتا ہے۔اس
طرح کے دیگر عوامل کے نتیجے میں سیکولرزم نے مجموعی طور پر انسان کی زندگی کو دو
حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک سماجی زندگی اور دوسری ذاتی زندگی۔ سماجی زندگی سے اس نے مذہب
کو بالکل علیحدہ کردیاتھا اور اس کی جگہ عقلیت کی بالا دستی تسلیم کی تھی ، دوسرا
حصہ جو انہوں نے ذاتی زندگی کے نام سے رکھا تھا اس میں عقلیت اور ریاستی نظام کو
بے دخل کردیا تھا اور اس کی جگہ مذہب کو دے رکھی تھی۔ اس پورے نظام کے تحت مطلق
العنان بادشاہت دوڈھائی صدیوں تک قائم رہی۔
لبرل ازم:
سیکولر ازم اگرچہ مذہب بیزار تھا مگر اس میں پھر بھی مذہب کی تھوڑی بہت
گنجائش رکھی گئی تھی۔لبرل ازم اس سیکولر تقسیم کے خلاف بغاوت بن کر ظہور پذیر ہوا۔
لبرل ازم نے بھی اپنی بنیاد عیسائیت سے لی۔لبرل ازم نے اپنی تہذیب کی بنیاد حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت کو بنا کر فرد کو بحیثیت فرد اپنا نظامِ زندگی خود
وضع کرنے کی آزادی دی۔ اس میں کسی کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ کسی فرد کی ذاتی
معاملات اور زندگی میں مداخلت کرے ۔ نہ کوئی کسی کو کسی خاص طرزِ زندگی گزارنے پر
مجبور کرسکتا ہے ۔لبرل لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مصلوب ہوکر
ہمارے گناہوں کا کفارہ پہلے ہی ادا کردیا ہے ۔اس لئے ہم سب کچھ کرنے میں آزاد ہیں
۔ لبرل ازم کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کا جو جی چاہے وہ کرے لیکن اس حد تک کہ جہاں
آپ دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہوں یعنی آپ اپنا مکا وہاں تک گھما سکتے ہیں جہاں
سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔
(تلخیص از: سرمایہ دارانہ نظام، ایک تنقیدی جائزہ)
نیشنلزم ، سیکولرازم اور لبرل ازم جیسے اصطلاحات در اصل اسی تحریف شدہ
دین عیسائیت کی پیداوار ہیں ۔بائبل کوئی انجیل مقدس کا نام نہیں بلکہ محرفین کے
اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے قوانین و احکامات کا مجموعہ ہے جنہیں عیسائی دنیا دینی
کتاب کا نام دیتے ہیں۔
سول سوسائٹی یا اختیارات کی تقسیم:
قرونِ وسطیٰ کے عیسائی مذہبی معاشرے میں حاکمیت کی سند اور جواز مذہبی
تھی۔اس جواز کا ابتدائی خاکہ سینٹ آگسٹائن نے پیش کیا اس نے اپنی کتاب سٹی
آف گاڈ میں خدا کے شہر اور آدمی کے شہر کی موجود گی کی دلیل پیش کی۔ آگسٹائن کے
مطابق خداکے شہر پر پوپ کی حکمرانی ہوگی اور آدمی کے شہر پر بادشاہ کی حاکمیت
تسلیم کی جائے گی۔ دنیاوی اور دینی قیادت کی یہ تفریق اس لحاظ سے مذہبی تھی کہ اس
تقسیم کا جواز مذہبی تھا اور ایک مذہبی سند نے تجویز کیا تھا۔ لِہٰذاس تقسیم کے
نتیجے میں چرچ کے اختیارات الگ اور بادشاہ و ریاست کے اختیارات الگ الگ
متعین کیے گئے ۔ چرچ ریاست کے معاملات میں دخل نہیں دےگا اور بادشاہ پوپ کے
معاملات میں دخل اندازی سے باز رہے گا۔ عیسائیت کی دنیا میں یہ ایک عجوبہ تفریق
تھی جس نے عیسائی معاشرے کو اس کی تباہی کا پروانہ تھما دیا۔
چرچ کے مقابلے میں ریاستی قوانین کی بالا دستی:
اختیارات کی تقسیم کے بعد عیسائی پھر بھی انصاف پر قائم نہ رہ
سکے۔لوتھر اور پروٹسٹنٹ تحریک نے ایک طرف تو چرچ کے مقابلے میں انسان کی خود
مختاری کاپرچار کیا لیکن دوسری طرف اس نے دنیاوی حکومتوں اور حکمرانوں کی مکمل
تابعداری کے عقیدے کو فروغ دیا۔ لوتھر کے خیال میں ریاستی حکومتوں اور قوانین کی
پیروی اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر دنیاوی نظام کا قیام اور تسلسل ناممکن ہوجائے
گا کیونکہ بصورت دیگر:
Every
one would become a judge against the other,
No
power no authority, no law or order would remain in the world,
There
would be nothing but murder and bloodshed
(Admonition
to peace)
لوتھر کے مطابق ریساتی حاکمیت اور قوانین کی پاسداری میں ریاست کا نظام
درہم برہم ہوجائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ جس دلیل کی بنیاد پر دنیاوی سند کو مقبول
کرنا لازمی ہے اس دلیل کی بنیاد پر دینی سند کو قبول کرنا کیوں لازمی نہیں ٹھہرتا
؟لوتھر کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔
(تلخیص از: سرمایہ دارانہ نظام ایک تحقیقی جائزہ)
قرونِ وسطیٰ کے اس پورے زمانے میں عیسائی کیتھولک کلیسا پورے یورپ کا
مذہبی اجارہ دار تھا۔یورپ ریاستی انتظام کے حوالے سے ٹکڑوں میںبٹ چکا تھا اور اس
کے اندر ریاستوں اور بادشاہتوں کی اجارہ داریاں قائم ہوگئیں تھیں ۔لیکن کلیسا کی
مرکز یت اب بھی باقی تھی۔پوری عیسائی دنیا کامذہبی محور اب بھی یہی مرکزی کلیسا
تھا ۔تمام زمینوں کے پیدوار میں جو کسانوں اور کاشتکاروں کی خون پسینے کا نتیجہ
ہوتا تھا ۔کلیسا کا ایک معقول حصہ متعین تھا۔ اس کے علاوہ نذرانوں کی صورت میں بھی
کلیسا کو بھاری آمدنی ہر سال ہوتی تھی اور کلیسا کے سیاہ و سفید کا مالک پوپ ہوتا
تھا۔
کلیسا کی اجارہ داری میں علم و حکمت پر پابندیاں:
کلیسا کی کوشش تھی کہ خواص کے علاوہ کسی کوبھی عیسائی تعلیمات اور
انجیل کے مطالعے کا موقع نہ دیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہایت اہتمام سے لوگوں کے
ذہنوں پر اپنی حاکمیت کے پہرے بٹھاکر انہیں صحیح علم اور فکر و نظر سے دور رکھتے
تھے۔کلیسا لوگوں میں مذہبی معلومات کے حصول اور عقلی و فکری صلاحیتوں کی پیدائش
اور پروان چڑھنے کا سخت مخالف تھا ۔ اس دور میں انجیل کی تشریح کا حق ، اس کے درس
کا حق اور اس کی اجازت کا حق صرف کلیسا کو حاصل تھا ۔ مقامی اور علاقائی زبانوں
میں انجیل کا ترجمہ تک کرنے کی بھی مما نعت تھی ۔
اذیت ناک ریاضتیں:
توحید و تثلیث کے ناقابلِ حل معمے کے علاوہ نفس پرست مذہبی پیشواؤں نے
عوام کو عجیب و غریب سخت اذیت ناک ریاضتوں میں مشغول کردیا تھا۔ان ریاضتوں کے
بھگتے بغیر کوئی شخص دین دار نہیں ہوسکتا تھا۔تجارت کو مذہبی نقطہءِنگاہ سے نا
پسند کیا جاتا تھا۔ غرض عیسائی مذہب و ساوس اور اوہام کا گورکھ دھندا بن چکا
تھا۔معمولی معمولی مسائل پر کشت و خون ہورہا تھا۔
مینار پر کھڑے رہنا ، ہاتھ پاؤں کو ساکت کرلینا ، نفس کشی کا عام طریقہ
بن چکا تھا ، شادی بیاہ سے اجتناب اورر اہبانیت اختیار کرنا مقدس عبادت تھی۔ عوام
پوپ کی اندھی تقلید میں جکڑے ہوئے تھے۔
(تلخیص از: یورپ کے تین معاشی نظام: بحوالہ تواریخ کلیسا)
پوپ کا اقتدار:
یورپ کے اس دور میں عوام بادشاہوں سے اتنے نہیں ڈرتے تھے جتنا ان کے
دلوں میں پوپ کا رعب بیٹھا ہوا تھا ۔عوام توکجا بڑے بڑے بادشاہ بھی پوپ کو نارارض
کرنے سے ڈرتے تھے ۔ ہر ملک کا بادشاہ ان کی خدمت میں نذرانے اور کلیسا کیلئے مقررہ
ٹیکس بھیجنے پر مجبور تھا
لہٰذا پوپ کا اقتدار صرف مذہبی امور تک محدود نہ تھا بلکہ در حقیقت اس
زمانے میں یورپ کی سب سے بڑی سیاسی طاقت بھی پوپ ہی تھا۔
کلیسا کے مخصوص جائیددادوں کے علاوہ پوپ ، تمام بشپ اور پادری الگ بڑی
بڑی جاگیروں کے مالک تھے۔اور ان وسیع و عریض زمینوں میں رہنے والے کاشت کرنے والے
کسان جو عملی طور پر غلامانہ زندگی گزاررہے تھے ،پوپ اور کلیسا کی زبردست فوجی
طاقت کا کام بھی دے رہے تھے۔
پوپ کے خدائی اختیارات:
خدائی اختیارات پوپ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے ۔لوگوں کو گناہوں سے
پاک کرنے کا کلیسا نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیاتھا ۔ وہ یہ کہ کوئی کتنے ہی سنگین
گناہ کا مرتکب ہوجائے ، کسی غریب کو قتل کیا ہو ، چوری یا زنا کیا ہو،وہ اس گناہ
سے اس طرح سے پاک ہوسکتا تھا کہ پوپ کو مقررہ قیمت دے کر مغفرت نامہ حاصل کرلے ۔
جس کو یہ مغفرت نامہ مل گیا وہ جہنم کی آگ سے آزاد ہے ۔صلیبی جنگوں کے زمانے میں
تو مغفرت ناموں کی یہ تجارت اتنی عام ہوگئی تھی کہ مالدار اور امیر لوگ دھڑا دھڑ
ان بخشش کے پروانوں کو خرید رہے تھے۔اس طرح مال دار لوگوں کیلئے غریبوں پر مظالم
توڑنے کے مواقع بھی حاصل ہوگئے تھے اور کلیسا کا خزانہ بھی معمور ہوتا چلا جا رہا
تھا۔
پوپ کی چیرہ دستیاں:
غرض پوپ ایسی مطلق العنان طاقت تھی جس کے سامنے کسی کو پر مارنے کی گنجائش
نہ تھی اور اگر کبھی کسی بد بخت نے کلیسا یا یورپ کی دھاندلیوں کے خلاف آواز
بلندکی یا عیسائی عقائد کے معموں کو عقل کی کسوٹی پر کھنا چاہا اسے فوراََ بدعتی
قرار دے دیا جاتا ۔ بدعتی کی اصطلاح ایسے ہی افراد کیلئے استعمال کی جانے لگی تھی
جو مذہبی احکام کی کوئی ایسی تعبیر یا تشریح کرے جو پوپ کے رائے کے خلاف ہویا جو
کلیسا کے جابرانہ قوانین یا اس کے غیر معقول اعتقادی گورکھ دھندوں سے الجھ جائیں۔
ایسے بدعتیوں کا کھوج لگانے کیلئے کلیسا کے جاسوس دور دور کا سفر کرتے
تھے۔ پھر کسی بھی شخص کو قانونی طور پر بدعتی قرار دینے کیلئے جاسوس کا اتنا کہہ
دینا کافی تھا کہ یہ بدعتی ہے ۔بیکار ڈی فرقے نے لایسی زبان میں انجیل کا ترجمہ
کرنے کی کوشش کی تو ان کو بدعتی قرار دے دیا گیا ۔ جب بدعتی کلیسا سے خارج کیے
جاتے تو حکومت ان سے حقوق شہریت چھین لیتی تھی۔ انہیں ملک بدر کیا جاتا تھا اور ان
کی تمام املاک ضبط کرلی جاتی تھیں ۔
پھر رفتہ رفتہ ایسے افراد کو وحشیانہ طریقوں سے سزائے موت دی جانے
لگی۔جس کی چند مثالیں تاریخ میں بھی ملتی ہیں جیسے پوپ کلیمنٹ پنجم نے شا ہِ فرانس
کے اشارے پرانہتر 69راہب سپاہیوں پر مشرقی بدعتی ہونے کا الزام لگایا اور انہیں آگ
میں زندہ جلا دیا گیا۔
انگلینڈ کے دو فلسفی
فرقوں کھاتری اور ایلیبجینز کے مبلغین کو1166ءمیں آکسفورڈ کے مقام پر بدعتی قرار
دے کر شہر سے باہر برف پر دھکیل دیا گیاتاکہ یہ ابدی نیند سو جائیں اور اکثر کو
زندہ جلا دیا گیا۔
1022ء میں رابرٹ نے 13 کھاتری اپنی موجودگی میں زندہ جلوادیے اور بعض کھاتریوں
کو پھانسی پر لٹکا دیا
پادری خورشید عالم نے اپنی کتاب تواریخ کلیسائے رومة الکبریٰ میں اس
قسم کی چیرہ دستیوں کے متعدد لرزہ خیز واقعات بیان کیے ہیں
ظاہر ہے علوم و فنون پر اتنے سخت پہروں کی موجودگی میں کسی علم و فن کے
پنپنے کا دور دور بھی امکان نہ تھا ۔ان تمام چیرہ دستیوں کی تان جس طبقے پر سب سے
زیادہ ٹوٹتی تھی وہ کسانوں کا طبقہ تھا ۔ وہ دوہرے مظالم کا شکار تھے ایک طرف
جاگیرداروں کا سنگ دل طبقہ ان کا خون چوس رہا تھا اور دوسری طرف سے کلیسا کے محافظ
ان کی ہڈیوں کا گودا نکال رہے تھے ۔یہ چکی کے دو پاٹ تھے جن کے درمیان یورپ کے
مظلوم عوام ایک ہزار سال تک پستے رہے۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
دہقان ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرز میں ہے
جاں بھی گر وغیرہ بدن بھی گروغیر
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے
لیکن بمصداقظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے بالآ خرکلیسا کا یہ بے
رحمانہ سلوک خود اس کیلئے موت کاپیغام ثابت ہوا۔ کلیسا کے لرزہ خیز مظالم اور نام
نہاد مذہبی پیشواؤں کی تنگ نظری اور نفس پرستی بالآ خر ان کیلئے خود کشی بن کررہی
۔ کیونکہ یورپ کے تعلیم یافتہ طبقے میں سیاسی اور معاشی ترقیوں کے ساتھ ساتھ وہ
ذہنی جمود ٹوٹ رہا تھا جو ایک ہزار سال سے ان پر چھا یا ہوا تھا ۔ اب اصلاحِ مذہب
، جدید سائنسی تحقیقات اور فلسفے میں نئے افکار و خیالات و نظریات کی ایک زبر دست
تحریک جنم لے چکی تھی۔جو کہ پوپ اور کلیسا کو بالکل بھی پسندنہ تھیں۔
کلیسا کے خلاف بغاوت:
چنانچہ پوپ اور کلیسا کے دیگر پادریوں نے ابتداءمیں اس نئی علمی تحریک
کی شدید مخالفت کی ۔اسے روکنے کیلئے مذہبی عدالتیں قائم کی گئیں ،جنہوں نے اس
تحریک کے علمبرداروں کو سخت ترین سزائیں دینے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔
1415ءمیں اس تحریک کا ایک رہنما جان ہس کو کانسٹینن کے مقام پر آگ لگا کر جلا دیا گیا۔
اور1416ءمیں اس کے شاگرد جیروم کو بھی زندجلا دیاگیا۔
لیکن یہ تحریک حقیقی بیداری کا نتیجہ تھی۔اس لئے تشدد سے دبنے کے بجائے
بڑھتی چلی گئی۔ تاآنکہ آزادی فکر کے سیلاب نے مذہبی اقتدار اور پاپائیت کے رعب و
دبدبے کا خاتمہ کردیا۔
ابتداءمیں یہ جنگ صرف پوپ اور کلیسا کے خلاف لڑی گئی تھی۔لیکن چونکہ
کلیسا آزاد خیال لوگوں سے مذہب کے نام پر جنگ کررہا تھا اس لئے رفتہ رفتہ یہ نئی
تحریک پورے مسیحی مذہب کے خلاف ہوگئی۔اور چونکہ اہل یورپ نے مسیحی مذہب کے علاوہ
قریب سے کسی دوسرے مذہب کو دیکھا ہی نہ تھا اس لئے وہ دنیا کے ہر مذہب کو اپنا،
عقل کا اور دنیا کی تمام ترقیوں کا دشمن سمجھنے لگے۔ اور پورے یورپ میں یہ تاثر
سختی سے قائم ہوگیا کہ مذہب ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
پروٹسٹنٹ فرقے کا ظہور:
ان حالات میں جبکہ عیسائی مذہب کا خاتمہ ہونے والا تھا کہ عیسائیوں کا
ایک نیا فرقہ پروٹسٹنٹ نمودار ہوا۔اور اس نے پالیسی اختیار کی کہ عیسائی مذہب کو
نسبتاََ آسان بنا دیا۔ جدید علمی تحقیقات کو سراہا۔ دنیاوی کاروبار اور تجارت کو
مذہب کی قید سے آزاد کردیا۔قوم کی باغیانہ تحریکوں اور مخالفانہ عناصر کا مقابلہ
کرنے میں حکومت کی تائید و حمایت کو اپنا شعار بنایا ۔ اور بڑے بڑے رئیسوں اور
بادشاہوں کے دامن میں پناہ لے کر ان کی ہر ناجائز حرکت کو جائز قرار دینے لگا۔ان
خدمات کے عوض بھاری رشوتیں اس کا ذریعہ معاش بن گئیں۔
اس طرح پروٹسٹنٹ مذہب کا لباس پہن کر نصرانیت نے حکمرانوں کی آغوش میں
زندہ رہنے کے ڈھنگ تو کرلیے لیکن اس کی آبروجو لُٹ رہی تھی، لٹتی ہی چلی گئی۔
کلیسا کی آمدنی پھر بھی برقرار رہی۔ پہلے ظلماََ لیتے تھے اب حیلوں اور بہانوں سے
وصول کیا جاتا ہے۔
مذہب دشمنی:
آزادیءِفکر کے علمبرداروں نے اسلام کی روشنی کو دیکھا ہی نہ تھا اس لیے
انہوں نے عیسائیت کو چھوڑ کر بالکل دوسری انتہاپر پہنچ کر دم لیا ۔ وہ سرے سے خدا
کے وجود کا انکار کر بیٹھے اور یہ نظریہ قوی تر ہوگیاکہ:
مذہب کا کوئی حقیقی وجود نہیں بلکہ یہ من گھڑت فرضی قصہ کہانیوں کا
مجموعہ ہے جسے مذہبی پیشوا اپنی نفسانی اغراض کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں
(تلخیص از: یورپ کے تین معاشی نظام ،مفتی رفیع عثمانی)
اس کے بعد یورپ میں جتنے فلسفوں اور نظریات نے جنم لیا وہ سرا سر
مادیت، دہریت اور الحاد پر مبنی تھے ۔جتنے معاشرے قائم ہوئے وہ مذہب اور قدیم
رویات کی ہر قید سے آزاد تھے۔ اور جتنے سیاسی انقلابات رونما ہوئے وہ مذہب کے
اقتدار اور اخلاق کی قدیم روایات کو فنا کرتے چلے گئے۔
سرمایہ دارانہ معیشت:
سرمایہ داری کی تاریخی اور نظیریاتی بنیادیں:
سرمایہ دارانہ نظام یورپ کی پیداوارہے۔یورپ میں سلطنت روم کے الخطا کے
بعد جاگیردارانہ نظام قائم تھا اور اس نظام کو کلیسا کی پوری حمایت حاصل تھی ۔ اس
نظام میں اقدار کی وقعت کا تعین مذہبی پیمانوں کی بنا پر کیا جاتا تھا ۔ کلیسا اس
عمل کو کلیسائی حصار میں رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ دنیا پر مبنی دولت کے اضافہ اور
ارتکاز غلّہ کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور حرص و حسد کو مذہبی قبولیت اور
جواز کبھی فراہم نہیں کیا گیا اور معاشرتی اقدار پر ہمیشہ مذہبی رنگ غالب ہی رہا
لیکن عیسائیت کے پاس اپنا کوئی قانونی نظام نہ تھا نہ ان کے
پاس دیناوی معاملات کو سلجھانے کیلئے فقہ کی قوت تھی اس لیے سلطنت روما
کے قوانین ہی کی عمل داری
کیلئے قبول کیا جاتا تھا اور اس کی اپنی اقدار ان قوانین میں بہت مشکل
سے منعکس تھیں۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا خود کلیسا بھی ان اخلاقیات کی پابند ی باقی
نہ رکھ سکا۔ معاشی میدان میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور لوٹ مار میں کلیسائی ادارے
ملوث ہوئے اور ایک ہزار عیسوی تک پاپائے روم مغربی یورپ کا سب سے بڑا زمیندار بن
گیا۔ان حالات میں عیسائی اقدار سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا اور وہ حدود وقیود ٹوٹنے
لگیں جنہوں نے دنیا پرستی ،حرص اور حسد کی ترقی کو محدود کردیا تھا۔
پندرہویں صدی کے بعد سے پروٹیسٹنٹ تحریکات نے دنیا پرستی کو مذہبی جواز
فراہم کرنا شروع کیا۔ یہ تحریکات انفرادیت کا پرچار کرتی تھیں اور کیتھولک چرچ کے
اس دعوے کی نفی کرتی تھیں کہ بندے اور خدا کے درمیان وسیلہ کی ضرورت ہے ۔پروٹیسٹنٹ
پادریوں کو دعویٰ تھا کہ ہر شخص انجیل کی خود تفسیر کرسکتا ہے ۔ پھر مذہبی نظام
میں وہ بادشاہ کی برتری کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ خدانے بادشاہ کو حاکمیتِ مطلق
بخشی ہے۔ اس نظریہ کو کہا جاتا ہے ۔
چونکہ بادشاہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں معاشرے میں عموماََ سب سے زیادہ
قوت اور دولت کے حریص اور حاسد تصور کیا جاتا تھالہٰذا منطقی طور پر بادشاہوں کی
بالادستی قبول کرکے پروٹسٹنٹوں نے حرص اور حسد کو مذہبی طور پر سند کاجواز فراہم
کی اور احتکار اور ارتکاز دولت کو خدائی نظام تصور کرنے لگے اور خیرات و صدقہ کی
جگہ بخل اور بچت کی تحسین کرنے لگے دنیاوی ترقی کو نہ صرف فرض قرار دیا گیا بلکہ
وہ اخروی انعام کا مظہر سمجھی جانے لگی۔
سرمایہ داری کا ارتقاء:
سرمایہ داری اس معاشرتی نظام کا نام ہے جہاں حرص اور حسد غالب معاشرتی
اور انفرادی اقدار کی حیثیت حاصل کرلیتی ہےں۔تاریخی طور پر حرص اور حسد کا عام
ہونا تین مراحل سے گزرتا ہے سب سے پہلے دور میں حرص اور حسد صرف چند تجارتی اور
صنعتی مراکز میں عام ہوتے ہیں ۔ اس دور میں سرمایہ دار ریاستی جبر کو استعمال کرکے
بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے ذریعہ دیگر تمام علاقوں سے وسائل و دولت حاصل کرتے ہیں۔
اس لوٹ میں قومی ریاستیں اور کسانوں کی زمینیں چھینی جاتی ہیں۔بین الاقوامی سطح پر
ایک ایسا نظام قائم کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں دور دراز ممالک کے وسائل پر قبضہ
ہو۔اس مقصد کیلئے طاقتور سرمایہ دار ممالک نے کہیں تو ظلم کے پہاڑ توڑ کر مقاصد
حاصل کیے اور کہیں حیلے بہانوں اور سازشوں کے ذریعے دولت کو ان ممالک سے کھینچ لیا
۔اس بہیمانہ پالیسی کا اثر یورپی اخلاق پر اس طرح پڑ اکہ لوٹ مار اور قتل غارتگری
لگ بھگ تین صدی تک منظم طور پر جاری رہی اور یہی بہمیت مغربی تہذیب کی اصل بنیاد ہے
۔ اس بنیاد پر قومی سرمایہ دارانہ فلاحی ریاست نے جنم لیا۔ یہ سرمایہ داری کا
دوسرا دور ہے اور اس دور میں سرمایہ داری چند مراکز سے نکل کر پورے ملک پر چھا
جاتی ہے ۔
سرمایہ داری کا تیسرا مرحلہ وہ ہے جب حرص اور حسد پوری انسانیت پر غالب
آجائے اور ایک ایسا بین الاقوامی نظام قائم کیا جاسکے جو مکمل طور پر سرمایہ
دارانہ اقدار، ترجیحات اور ضابطوں کا عکاس ہو یہ دور ابھی تک تاریخ انسانی میں
نہیں آیا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں معاشرہ میں خواہشات بے لگام ہوجاتی ہیں کیونکہ
ہر فرد خود غرض اور لذت پرست ہوجاتا ہے ۔ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ جو وہ خرید
رہا ہے اس کی کم سے کم قیمت دے اور جو فروخت کررہا ہے اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت
وصول کرے۔قیمتیں گویا قوت کی بنیاد پر متعین ہوتی ہےں۔بازار میں جس کی قوت سب سے
زیادہ ہوگی وہ اپنی چیز کی زیادہ قیمت وصول کرسکتا ہے ۔قیمتوں کے تعین کا کوئی
مستقل پیمانہ باقی نہیں رہتاقیمتوں کا تعین سبجیکٹولی ہوتا ہےاس بات کو جدید معاشی نظریہ پوری طرح
قبول کرتا ہے لیکن معاشی تھیوری دھوکا
دینے کی کوشش کرتی ہے کہ قیمتوں کا تعین صارف کی خواہشات پر ہوتا ہے۔ اور سرمایہ دارانہ
معیشت میں صارف خود مختار صارف ہے ،یہ بات
غلط ہے۔
(تلخص از: سرمایہ دارانہ نظام ایک تحقیقی جائزہ)
آئندہ صفحات میں ہم معیشت کی چند بنیادی اصطلاحات کی تشریح کرنے کے بعد
رسداور طلب نیز مارکیٹ اکانومی پر مفصل بحث کریں گے۔ اس کے بعد اشتراکی نظام کی
خدوخال اور اس کا معاشی نظریہ ذکر کرنے کے بعد ان دونوں نظاموں کا اسلامی تعلیمات
سے تقابل پیش کریں گے۔انشاءاللہ ۔
معیشت
کے بنیادی مسائل:
اس
بحث میں ہم اس موضوع پر گفتگو کریں گے کہ معیشت کیا ہوتی ہے؟اور اس کے بنیادی
مسائل کیا ہوتے ہیں ۔ آج جس کو ہم اردومیں معاشیات کہتے ہیںوہ درحقیقت انگریزی کا
لفظ اکنامکس
(Economics)کا ترجمہ ہے ۔ اور در اصل اکنامکس کا صحیح ترجمہ معاشیات نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا
صحیح ترجمہ وہ ہے جو عربی میں لفظ اقتصاد سے کیا جاتا ہے۔ اور اسی لفظ سے یہ بات
نکل رہی ہے کہ یہ مفروضہ تمام معاشی افکار میں تسلیم کیا گیا ہے کہانسانی ضروریات
اور خواہشات وسائل کے مقابلے میں زیادہ ہیںبالفاظ دیگر انسانی وسائل کے ذخائر
انسانی ضروریات اور حاجتوں کے بالمقابل بہت کم ہیں۔ اور ضروریات کا لفظ جب موجودہ
معیشت میں استعمال ہوتا ہے تو اس میں خواہشات بھی داخل ہوتی ہیں۔غرض انسانی وسائل
محدود اور اس کے مقابلے میں ضروریات اور خواہشات بہت زیادہ ہیں۔بلکہ خواہشات کو تو
لا محدود کہا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ خواہشات کی تان صرف موت ہی سے ٹوٹ سکتی ہے
اس سے پہلے نہیں ۔
اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لا محدود ضروریا ت اور خواہشات کو محدود وسائل کے
ذریعے کس طرح پورا کیا جائے؟
اقتصاد
اور اکنامکس کے یہی معنی ہیں۔ کہ ان وسائل کو اس طریقے سے استعمال کیا جائے کہ ان
کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ضرورتیں پوری ہوسکیں۔ اس وجہ سے اس علم کو اکنامکس اور
اقتصاد کہتے ہیں۔ اس نقطہءِنظر سے معیشت میں کچھ بنیادی مسائل ہوتے ہیں جن کو حل
کیے بغیر وہ معیشت نہیں چل سکتی ، عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی مسائل
چار ہوتے ہیں:
(۱) ترجیحات کا تعین :( Determination of Priorities)
پہلا
مسئلہ جس کو معیشت کی اصطلاح میں ترجیحات
کا تعین کہا جاتا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی ضروریات اور خواہشات بے
شمارہوتے ہیں اور ان کے مقابلے میں وسائل محدود ہیں۔ظاہر ہے کہ ان محدود وسائل کے
ذریعے تمام ضروریات اور خواہشات پوری نہیں ہوسکتیں لہٰذا کچھ ضروریات اور خواہشات
کو مقدم کرنا پڑیگا اور کچھ کو مؤخر کرنا پڑیگا۔ لیکن کون سی ضرورت کو مقدم کیا
جائے اور کو نسی ضرورت کو مواخر کیا جائے؟ مثلاََ ایک آدمی کے پاس ہزار روپے ہیں ،
ان ہزار رپے سے وہ آٹا بھی خرید سکتا ہے ، کپڑا بھی خرید سکتا ہے، کسی ہوٹل جاکر
ریفریشمنٹ کھانے پر بھی خرچ کرسکتا ہے ۔ یہ چار پانچ اختیارات (Option)اس کے سامنے ہیں۔ اب وہ ان
ہزار روپے سے کیا کام کرے؟ اس کو ترجیحات کا تعین کہتے ہیں۔
یہ
مسئلہ جس طرح ایک انسان کو پیش آتا ہے اسی طرح پورے ملک اور پوری ریاست کو بھی پیش
آتا ہے مثلاََ پاکستان کے کچھ قدرتی وسائل ہیں، کچھ انسانی وسائل ہیں، کچھ معدنی
وسائل ہیں، یہ تمام وسائل محدود ہیں جبکہ ان کے مقابلہ میں ضروریات اور خواہشات لا
متنا ہی ہیں۔اب یہ متعین کرنا پڑے گا کہ ان وسائل کو کس طرح کس کام میں صرف کیا
جائے َ اور کس چیز کی پیداوار کو ترجیح دی جائے؟اس مسئلے کا نام ترجیحات کا تعین
ہے۔
(۲) وسائل کی تخصیص :( Allocation of Resources)
دوسرا
مسئلہ ہے وسائل کی تخصیص ۔ہمارے پاس وسائل
پیداوار ہیں یعنی ، سرمایہ ، محنت اور زمین ۔ ان کو ہم کن کاموں میں کس مقدار میں
لگائیں؟مثلاََ ہماری زمین ہے۔ اب کتنی مقدار میں ہم گندم کاشت کریں؟کتنی زمین پر
چاول کاشت کریں؟اور کتنی زمین پر روئی کاشت کریں؟یا اسی طرح ہمارے پاس کار خانے
لگانے کی صلاحیت ہے جس سے ہم کپڑا بنا سکتے ہیں،جوتے بھی بنا سکتے ہیں ، اور کھانے
پینے کی اشیاءبھی تیار کرسکتے ہیں۔اب کتنے کارخانوں کو کپڑا بنانے میں استعمال
کریں۔اور کتنے کارخانوں کو جوتے بنانے میں لگائیں ؟اور کتنے کارخانوں کو کھانے
پینے کی اشیاءمیں استعمال کریں؟اس سوال کے تعین کو معیشت کی اصطلاح میں وسائل کی
تخصیص کہتے ہیں۔
(۳) آمدنی کی تقسیم :( Distribution of Income)
تیسرا
مسئلہ آمدنی یا پیداوار کی تقسیم یعنی
مندرجہ بالا وسائل کو کام میںلگانے کے بعد اس کے نتیجے میں جو پیداوار یا آمدنی
حاصل ہو اس کو کس طرح معاشرے میں تقسیم کیا جائے ؟اور کس بناد پر تقسیم کیا
جائے؟اس کو معاشیات کی اصطلاح میںآمدنی کی تقسیمکہتے ہیں۔
(۴) ترقی :( Development)
چوتھا
مسئلہ ہے ترقی یعنی اپنی معاشرتی محصولات کو کس طرح ترقی دی جائے ؟ تاکہ جو
پیداوار حاصل ہورہی ہے وہ معیار کے لحاظ سے پہلے سے زیادہ اچھی ہو اور مقدار کے
لحاظ سے اس میں اضافہ ہو۔ اور کس طرح نئی نئی ایجادات اور مصنوعات وجود میںلائی جائیں
تاکہ معاشرہ ترقی کرے اور لوگوں کے پاس اسباب معیشت میں اضافہ ہو۔ اور لوگوں کو
آمدنی کے ذرائع میسر ہوں ۔ا س مسئلے کو معاشیات کی اصطلاح میں ترقی کہا جاتا ہے۔
یہ
چار بنیادی مسائل ہیں جنہیں حل کرنا ہر معاشی نظام کیلئے ضروری ہے۔یعنی ترجیحات کا
تعین، وسائل کی تخصیص ، آمدنی کی تقسیم اور ترقی ۔یہ مسائل اگرچہ فطری ہیں لیکن
ایک نظام کے تحت ان کو سوچنے ان کا حل تلاش کرنے کی فکر آخری صدیوں میں زیادہ ہوئی
اور اس کے نتیجے میں دو متقابل نظریات ہمارے سامنے آئے ، ایک سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)اور دوسرا اشتراکی نظام۔(Socialism)
(تلخیص از: اسلام اور جدید معیشت و تجارت)
ان
چاروں مسائل کو کن بنیادوں پر حل کیا جاتا ہے ؟ اس میں سرمایہ داریت کا فلسفہ کچھ
اور کہتا ہے؟ اشتراکیت کا وظیفہ کچھ اور ہے؟ اور اسلامی نظام اقتصادیات اس کا کیا
حل پیش کرتا ہے ۔ آئندہ صفحات میں اس پر بحث کرینگے۔
سرمایہ
دارانہ نظام اور معیشت کے بنیادی مسائل:
سرمایہ
دارانہ نظام ان چاروں مسائل کے حل کے بارے میں کہتا ہے کہ ان کو حل کرنے کا ایک ہی
طریقہ ہے ہر انسان کو تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کیلئے بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے ۔
اور اسے یہ چھوٹ دی جائے کہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے جو طریقہ مناسب سمجھے
، اختیار کرے ۔ اس سے مذکورہ بالا چاروں مسائل آپ ہی آپ حل ہوتے چلے جائینگے
۔کیونکہ جب ہر شخص کو یہ فکر ہوگی کہ میں زیادہ سے زیادہ نفع کماؤں تو ہر شخص
معیشت کے میدان میں وہی کام کریگا جس کی معاشرے کو ضرورت ہے۔اور اس کے نتیجے میں
چاروں مسائل خودبخود ایک خاص توازن کے ساتھ طے ہوتے چلے جائیں گے۔اب سوال یہ ہے کہ
چاروں مسائل خود بخود کیسے حل ہو ں گے ، اس کا تفصیلی جواب یہ ہے کہ :
(۱)در حقیقت اس کائنات میں بہت قدرتی
قوانین کار فرما ہیں جو ہمیشہ ایک جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں ۔ انہی میں ایک قانون
رسد(Supply)اور طلب(Demand)کا بھی ہے۔رسد کسی بھی سامان تجارت کی اس مجموعی مقدار سے
عبارت ہے جو بازار میں فروخت کیلئے لائی گئی ہو اور طلب خریداروں کی اس خواہش کا
نام ہے کہ وہ یہ سامانِ تجارت قیمتاََ بازار سے خریدیں ۔ اب رسد و طلب کا قدرتی
قانون یہ ہے کہ بازار میں جس چیز کی رسد طلب کے مقابلے میں زیادہ ہو اس کی قیمت
گھٹ جاتی ہے اور جس چیز کی طلب اس کی رسد کے مقابلے میں بڑھ جائے اس کی قیمت بڑھ
جاتی ہے ، یہ ایک قدرتی قانون ہے جس کو قانونِ رسد و طلب (Law of Demand and Supply)کہا
جاتا ہے۔
(۲)سرمایہ دارانہ نظام کا فلسفہ یہ کہتا ہے
کہ رسد و طلب کا یہ قدرتی قانون ہی در حقیقت زراعت پیشہ افراد کیلئے اس بات کا
تعین کرتا ہے کہ وہ اپنی زمینوں میں کیا چیز اگائیں؟اور یہی قانون صنعتکاروں اور
تاجروں کیلئے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ وہ کیا چیز کتنی مقدار میں بازار میں
لائیں؟اور اس طرح معیشت کے چاروں مذکورہ بالا مسائل خود بخود طے ہوتے چلے جائیں
گے۔
(۳)طلب اور رسد کے قانون سے ترجیحات کا
تعین اس طرح ہوتا ہے کہ جب ہم نے ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے چھوڑ
دیا تو ہر شخص اپنے منافع کی خاطر وہی چیز بازار میں لانے کی کوشش کریگا جس کی
ضرورت یا طلب زیادہ ہوگی۔تاکہ اسے اس کی زیادہ قیمت مل سکے ۔ زراعت پیشہ افراد وہی
چیز اگانے کو ترجیح دینگے جن کی بازار میں طلب زیادہ ہے۔ اور صنعتکار وہی چیزتیار
کرنے کی کوشش کرینگے جن کی بازار میں زیادہ مانگ ہے ۔کیونکہ اگر یہ لوگ ایسی چیز
بازار میں لائیں جن کی طلب کم ہے تو انہیں زیادہ منافع نہیں مل سکے گا۔اس کا نتیجہ
یہ ہے کہ ہر شخص اگرچہ اپنے منافع کی خاطر کام کررہا ہے ۔ لیکن رسد و طلب کی قدرتی
طاقتیں اسے مجبور کررہی ہیں کہ وہ معاشرے کی طلب اور ضرورت کو پورا کرے۔
(۴)جب کوئی شخص ترجیحات کا باقاعدہ تعین
کرلیتا ہے تو اسی حساب سے موجودہ وسائل کو مختلف کاموں میں لگاتا ہے ۔لہٰذا رسد
اور طلب کے قوانین جس طرح ترجیحات کا تعین کرتے ہیں ۔اسی طرح وسائل کی تخصیص کا
کام بھی انجام دیتے ہیں ۔چنانچہ ہر کس اپنے وسائل کو اسی کام اور سرگرمی میں لگانے
کی کوشش کرتا ہے جن کی بازار میں طلب زیادہ ہے اور اس کو بازار میں لانے سے زیادہ
منافع کی توقع ہو ۔لہٰذا رسد و طلب کے قوانین کے ذریعے وسائل کی تخصیص کا مسئلہ
بھی خود بخود طے ہوجاتا ہے۔
(۵)۔عمل
پیدائش (Production)کے نتیجے میں جو پیداوار یا آمدنی حاصل ہوئی ہے اسے معاشرے میں
کس بنیاد پرتقسیم کیا جائے ؟ سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا یہ ہے کہ جو کچھ آمدنی
حاصل ہو وہ انہی عوامل کے درمیان تقسیم ہونی چاہئے،جنہوں نے پروڈکشن میں حصہ لیا،
سرمایہ دارنہ فلسفے کے مطابق یہ عوامل کل چار ہیں۔
(۱) زمین۔ (Land)
(۲) محنت۔ (Labour)
(۳) سرمایہ۔ (Capital)
(۴) آجریا تنظیم۔ (Entrepreneur)
تو
یہ تقسیم اس طرح ہونی چاہئے کہ زمین مہیا کرنے والوں کو کرایہ دیا جائے۔محنت کرنے
والوں کو اجرت دی جائے سرمایہ فراہم کرنے والوں کو سود دیا جائے۔اور وہ آجر جو اس
عمل پیدائش کا اصل محرک تھا اسے منافع دیا جائے۔ یعنی زمین کا کرایہ، محنت کی اجرت
اور سرمائے کا سود اداکرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ آجر کا منافع ۔ ان عوامل کے
معاوضے کا تعین ان کی طلب و رسد ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ ان عوامل میں جس عامل کی
طلب زیادہ ہوگی۔ اس کا معاوضہ بھی اتنا زیادہ ہوگا۔
(۶)اب ہر معیشت کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے
کہ وہ اپنی پیداوار کو ترقی دے اور اپنی پیداوار میں کماََ اور کیفاََ اضافہ کرے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے فلسفے کے مطابق یہ مسئلہ بھی اسی بنیاد پر حل ہوتا ہے کہ ہر
شخس کو جب زیادہ سے زیادہ منافع کیلئے آزاد چھوڑا جائے گا تو رسد و طلب کے قدرتی
قوانین اسے خودبخود اس بات پر آمادہ کریں گے کہ وہ نئی سے نئی چیز اور بہتر کوالٹی
بازار میں لائے ۔ تاکہ اس کی مصنوعات کی طلب زیادہ ہو اور اسے زیادہ نفع حاصل ہو۔
سرمایہ
دارانہ نظام کے اصول :
سرمایہ
دارانہ نظام کے بنیادی اصول تین ہیں:
۱۔ذاتی ملکیت:(Private
Property)
پہلا
اصول یہ ہے کہ اس نظام میں ہر انسان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ذاتی
ملکیت میں اشیاءبھی رکھ سکتا ہے اور وسائل پیداوار بھی رکھ سکتا ہے ۔ اشتراکی نظام
میں اگرچہ ذاتی استعمال کی اشیاءتو ذاتی ملکیت میں آسکتی ہےں لیکن وسائل پیداوار
مثلاََ زمین یا کارخانہ عموماََ ذاتی ملکیت میں نہیں ہوتے ۔ البتہ سرمایہ دارانہ
نظام میں ہر قسم کی چیز چاہے وہ استعمالی اشیاءسے تعلق رکھتی ہویا اشیائے پیداوار
میں سے ہو وہ ذاتی ملکیت میں آسکتی ہیں۔
۲۔ذاتی منافع کا محرک:(Profit Motive)
دوسرا
اصول یہ ہے کہ پیداوار کے عمل میں جو محرک کار فرما ہوتا ہے وہ ہرانسان کے ذاتی
منافع کے حصول کا محرک ہوتا ہے۔
۳۔حکومت کی عدم مداخلت:(Laissez Faire)
سرمایہ
دارانہ نظام کا تیسرا اصول یہ ہے کہ حکومت کو تاجروں کی تجارتی سرگرمیوں میں
مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔ وہ جس طرح کام کررہے ہیں ان کی معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ
نہ ڈالنی چاہئے ۔ نہ ان پر حکومت کی طرف سے زیادہ پابندیاں عائد کرنی چاہئے ۔
Laissez Faireفرانسی لفظ ہے اور اس کے معنی ہے کرنے دویعنی حکومت سے کہا
جارہا ہے کہ جو لوگ اپنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہیں وہ جس طرح بھی کام کررہے
ہیں کرنے دو۔ اس میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالونہ اس کو قانونی پابندیوں میں جکڑا جا سکتا
ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کا اصل فلسفہ ہے کہ معیشت اور معاشی سرگرمیوں کو آزاد
چھوڑا جائے۔اگر چہ بعد میں سرمایہ دارانہ ممالک میں رفتہ رفتہ اس پالیسی کو محدود
کردیا گیا اور عملاََ ایسا نہیں ہوا کہ حکومت بالکل مداخلت نہ کرے ۔ بلکہ حکومت کی
طرف سے بہت سی پابندیاں نظر آئیںگی۔کبھی ٹیکسوں کے ذریعے مختلف پابندیاں عائد کی
جاتی ہیں۔ کبھی کسی کام کی ہمت افزائی کیلئے سبسڈی اور انعامات دئے جاتے ہیںوغیرہ۔
(تلخیص از: اسلام اور جدید معیشت و تجارت)
نظام
سرمایہ داری کے اثرات:
سرمایہ
دارانہ نظام کے جو اثرات ملک و قوم پر پڑتے ہیں وہ یہ ہیں:
(1) مذہب کو نظام سیاست و معیشت سے خالی ہاتھ کرکے گرجاؤں
مسجدوں اور خانقاہوں میں گوشہ نشین کردیا جاتا ہے۔ تاکہ وہ ناجائز نفع اندوزی میں
رکاوٹ نہ بنے۔
(2) اس نظام میں تجارت و صنعت اور دولت کی گردش سود، سٹہ
،قمار اور آڑھت کی بنیادوں پر ہوتی ہے ۔ ان چیزوں کی وجہ سے پورے ملک میں وسائل
پیداوار اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔
(3) بڑےسرمایہ داروں کی پالیسیوں کی وجہ سے چھوٹے تاجر اور سرمایہ
دارکاروبا رکو ترقی نہیں دے سکتے ۔ بالآ خر تاجر اور صنعتکار کار خانے بند کرکے
بیٹھ جاتے ہیں یا بڑے سرمایہ داروں کی تجارتی پالیسیوں کے تابع ہوکر زندگی گزارنے
پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
(4) غریب کی غربت اور سرمایہ داری کی دولت روز افزوں بڑھتی رہتی ہے
اور متوسط طبقہ روز بروز کم اور بے دست وپا ہوتا چلا جاتا ہے ، بعض لوگوں کا معیار
زندگی بہت بلند ہوتا ہے تو بعض کا انتہائی پستی میں چلا جاتا ہے ۔
(5) گھریلودستکاریاں اور آبائی پیشے ختم ہوجاتے ہیں اور لوگ دوسروں
کے دست نگر بن کر نوکریاں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ملازمتوں کی طلب بڑھ جاتی ہے
اور مزدوری کے طلبگاروں میں روز بروز اضافہ ہوتاہے۔لیکن مشین کے روز افزوں استعمال
کے باعث انسانی محنت کی کھپت روز بروز کم ہونے لگتی ہے ۔ جس سے ملک میں بے روزگاری
پھیلتی ہے اور مزدور کم اجرت پر زیادہ محنت کا سودا کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
کارخانوں
میں صرف وہی مصنوعات تیار ہونے لگتی ہیں جن میں سرمایہ دار کا زیادہ سے زیادہ نفع
ہو۔ ملک و قوم کا فائدہ سرمایہ دار کی پیش نظر نہیں ہوتا ۔ بسا اوقات ایسی بے کار
بلکہ مضر اشیاءکو تجارتی منصوبہ بندی کے تحت فیشن بنادیا جاتاہے جو پوری قوم کی
صحت اور اخلاق کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
سرمایہ
دارانہ نظام اس جیسی اور بھی بہت ساری خرابیوں کو پیدا کرتا ہے اور اس کا عملی
مشاہدہ ہم اور آپ اس وقت پوری دنیا میں عموماََ اور مغربی معاشرے میں خصوصاََ
کررہے ہیں۔
سوشلزم:(Socialism)
سوشلز
کے لغوی معنی اجتماعیتاور اصطلاحی معنیاشتراکیت کے ہیں۔لفظ سوشلزم ا نفر ا د یت کی
ضد ہے۔انفرادیت کا حاصل یہ تھا کہ فرد ہی سب کچھ ہے ، جماعت کچھ نہیں ، لہٰذا
حکومت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ فرد کے معاشی معاملات میں دخل اندازی کرے۔
اور
اشتراکیت کاحاصل یہ ہے کہ جماعت ہی سب کچھ ہے ۔فرد کچھ نہیں ، لہٰذا حکومت ہی تمام
وسائل پیداوار کی مالک ہے۔وہی تمام زرعی اور صنعتی تجارتی پالیسی بنانے اور نافذ
کرنے کی مجاز ہے۔وہی افراد کے پیشے متعین کرنے کا حق رکھتی ہے ، انفرادی طور پر
کوئی شخص کسی ذریعہ پیدوار کا مالک نہیں ہوسکتا ،حکومت اس کیلئے جو ڈیاٹی یا اجرت
مقرر کردے، فرد پر اس کی تعمیل واجب ہے ۔
نام
ہی سے ظاہر ہے کہ سوشلزم اس حد سے گزری ہوئی انفرادیت کا رد عمل ہے جس پر سرمایہ
دارانہ نظام نے اپنا تانا بانا بنا تھا ۔ بالفاظ دیگر سوشلز م خدا سے بغاوت کی
دوسری بنیاد ہے۔
(یورپ کے تین معاشی نظام)
سوشلزم
اور کمیونزم ایک ہی فلسفے کے دو درجے ہیں ، کمیونزم سو شلسٹوں کا منتہائے مقصود ہے
اور سوشلز اس کے راستے کی ایک منزل ہے۔ بس اس سے زیادہ کوئی فرق ان دونوں میں
نہیں۔اس لئے ان دونوں اصطلاحوں کو بکثرت ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔
موجودہ
زمانے میں کمیونزم کی نظیریاتی صداقت کا افسانہ عملاََ ختم ہوچکا ہے۔ اب کمیونزم
کی اہمیت اتنی رہ گئی ہے کہ چند سر پھرے اپنی ذاتی اقتدار کی خواہش اور لوگوں پر
اپنی دادو دہش کا رعب جمانے کیلئے اس نظام کو خیالی حد تک رکھتے ہیں لیکن آج کل
ایسا ہونا تقریباََ محال ہے ۔معاش کا مسئلہ ایک سادہ انسانی مسئلہ ہے ۔مگر کہیں اس
کو مصنوعی فلسفوں نے پیچیدہ بنا رکھا ہے۔اور کہیں بے قید و بے لگام انسانی خود غرض
نے۔ معاشی مسئلے کو اگر جھوٹے انسانی نظیریات سے آزاد کرکے اس کی فطری بنیادوں پر
قائم کردیا جائے تو وہ اس طرح ایک حل شدہ مسئلہ بن جائے گا، جیسے اس کے اندر کوئی
پیچیدگی ہی نہ تھی۔
(سوشلزم اور اسلام، وحید الدین خان)
مارکسزم
یا سوشلزکا نظریہ:
مولانا
وحید الدین خان اپنی کتاب اسلام اور سوشلزممیں رقم طراز ہیں۔
اشتراکیوں
کے نظریے کو ایک جملے میں یوں ادا کرسکتے ہیں :
ذاتی
ملکیت کا خاتمہیہ مارکس اور اینگلز کے مشہور کمیونسٹ مینی فسٹو کا ایک فقرہ
ہے۔ذاتی ملکیت کا خاتمہ یا دوسرے لفظوں میں سماجی ملکیت کا نظاممعمولی اختلافات کے
ساتھ ایک زمانے میں عام طور پر انسان کے معاشی مسائل کا حل سمجھا جاتا تھا۔یہی وہ
نظریہ ہے جو انارکزم ، سنڈیکزم ،کمیونزم اور سوشلزم وغیرہ مختلف ناموں سے ظاہر ہوا
تھا۔ ان نظریات کے آپس میں اختلافات بھی ہیں مگر جو بات سب میں مشترک ہے وہ یہ ہے
کہ تمام نظریے اجتماعی ملکیت کے نظام پر یقین رکھتے ہیں ۔ اور زندگی کے بارے میں
اس فلسفے کو کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کرتے ہیں جو مارکس اور اس کے ہم خیال مفکرین
نے اپنے نظریے کی تائید میں مرتب کیا تھا ۔ یہ مختلف جماعتیں نہیں بلکہ صحیح الفاظ
میں یہ ایک تحریک کے مختلف فرقے ہیں جو بعض جزئی یا عملی مسائل میں اختلاف کی وجہ
سے الگ الگ ٹکڑوں میں بٹ گئے تھے۔
کارل
مارکس نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے ۔ لینن کے مطابق مارکس نے ان سوالوں کے جوابات
فراہم کیے ہیں جن پر اس سے پہلے ممتاز لوگوں نے دماغ سوزی کی تھی۔مارکس کی تعلیمات
فلسفہ معاشیات اور سوشلزم کے بڑے بڑے نمائندوں کی تعلیمات کا براہ راست نتیجہ اور
اس سلسلہ کی اگلی کڑی ہیں۔
(تلخیص از: اسلام اور سوشلزم)
سوشلز
م ایک مستقل نظریہ حیات ہے:
مفتی
رفیع عثمانی(صدر دارلعلوم کراچی)اپنی کتا ب یورپ کے تین معاشی نظام میں لکھتے ہیں:
بعض
لوگ ناواقفیت کی بناءپر سوشلزم اور اشتراکیت کو صرف ایک مخصوص معاشی نظام کی حیثیت
سے جانتے ہیں ۔جس میں مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی علمبرداری، سرمایہ داری کی
بیخ کنی، دولت کی مساوی تقسیم اور انفرادی ملکیت کے خاتمے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا
جاتا۔حالانکہ اشتراکیت صرف معاشی یا سیاسی نظریے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مستقل
فلسفہ اور تمام مذاہب سے مختلف ایک الگ نظریہ حیات ہے۔
جس
طرح اسلام چند عقائد و عبادات یا چند قوانین کا نام نہیں بلکہ ایک کامل مرتب اور
مربوط نظام حیات ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے کی مکمل تنظیم کرتا ہے ۔ اسی طرح
اشتراکیت (سوشلزم) بھی ایک نظریہ زندگی ہے جو سیاست و معیشت ، اخلاق و معاشرت اور
مابعد الطبیعی تخیلات و عقائد میں دنیا کے تمام مذاہب سے یکسر مختلف ہے۔
جس
اشتراکیت سے ہم بحث کررہے ہیں ۔ اسے جرمنی کے مشہور انقلابی مفکرکارل مارکساور اس
کے ساتھیفریڈرک اینگلزنے مرتب کیا تھا ۔ کارل مارکس نے اسے ایک مرتب اور دقیق
فلسفہ بنا دیا ہے ۔ جس میں تاریخی انقلابات کی تعبیر بھی ایک نئے ڈھنگ سے کی گئی
ہے ۔اس فلسفے نے انسانی تاریخ میں ایک نیا بہاؤ پیدا کیا اور یہی ایک نئے عہد کو
جنم دینے کا مدعی ہے ۔نیز اسی فلسفے کی بنیاد پر 1917ءمیں مشہور انقلابی لیڈرلینن
نے روس میں زار کی حکومت کا تختہ الٹ کر سب سے پہلے اشتراکی حکومت قائم
کی(گویااشتراکی نظام جمہوری یا انتخابی راستے سے نہیں بلکہ ڈکٹیٹر شپ کے چور
دروازے سے روسی عوام پر مسلط ہوا) اور اشتراکی حکومت کا مطلب اس فلسفے کی روسے
ایسی آمریت (ڈکٹیٹر شپ )ہے جو نہ خدا کے سامنے جوابدہ سمجھی جائے ، نہ عوام کے
سامنے ۔ جو نہ تو کسی مذہب کی پابند ہو نہ اخلاق کی آئین کی ،پا بندہو نہ قانون کی
۔ایک ایسی آمریت جو عوام کے انتخاب کے بجائے محض طاقت اور تشدد کے ذریعہ اقتدار
حاصل کرلے اور انفرادی آزادیوں کا خاتمہ کر ڈالے ۔ اس کے ہر حکم کی بلا چوں چراں
تعمیل کی جائے اور کسی کو سرتابی کی مجال نہ ہو۔
نظام
سرمایہ داری فرد کو آزادی دینے سے اگر ایک انتہا پر تھا تو سوشلزم نے اس کے مقابلے
میں بالکل دوسری انتہا پر پہنچ کر دم لیا کہ اس نے انفرادی آزادی کی اس بے لگامی
ہی کا ازالہ نہیں کیا ، جس نے نظام سرمایہ داری کو پروان چڑھایا تھا ، بلکہ ہر فرد
کی وہ فطری آزادی بھی سلب کرلی جو اس کے انسان ہونے کا طبعی تقاضا تھی اور جسے
تاریخ عالم کے تمام مذاہب اور نظام ہائے حیات تسلیم کرتے چلے آئے ہیں ۔
سوشلزم
نے تمام وسائل پیداوار کی ملکیت اور سیاست و معیشت کے تمام اختیارات مطلق العنان
ڈکٹیٹر شپ کے ہاتھ تھما دیئے ۔ اور اس طرح بہت سارے سرمایہ داروں کو نگل کر ایک
بڑا سرمایہ دار(حکومت) وجود میں آگیا ۔ جس نے ہر فرد کے ساتھ وہ سلوک کیا جو مشین
کے بے جان پرزے کے ساتھ کیا جاتا ہے انسان کو پیشے کی آزادی ، اظہار رائے کی آزادی
اور انفرادی ملکیت وغیرہ کے حقوق سے بھی محروم کردیا۔
(تلخیص: یورپ کے تین معاشی نظام ،مفتی رفیع عثمانی)
خیالی
سوشلز م کے علمبرداروکا کہنا تھا کہ بنیادی معاشی سرگرمیاں حکومت کے قبضہ یا
کنٹرول میں رہنی چاہئیں تاکہ وہ عمومی انصاف کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی تنظیم کرے۔
مگر مارکس نے کہا کہ اصل مسئلہ حکومت کے کنٹرول یا نگرانی کا نہیں ہے بلکہ اصل
مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ سماج میں تمام انسان اپنی غرض اور ذاتی مفاد کے تحت
جیتے ہیں ۔ جب تک لوگوں کے اندر ذاتی مفاد کا ذہن ختم نہ ہو۔ بہتر انسانی سماج کی
تعمیر نہیں ہوسکتی۔
مارکس
کے متعلق مشہور ہوگیا کہ وہ مساوات کا علمبردار ہے ۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ نظام استحصال (Exploitation)کو مٹانا چاہتا ہے۔
مارکس کے نزدیک انسانیت کی تمام پچھلی تاریخ لوٹ کھسوٹ کی تاریخ ہے جس میں ایک
طبقہ دوسرے طبقہ کو لوٹتا ہے ۔ وہ اسی صورتحال کو ختم کرنا چاہتا ہے۔اس کے نظریات
جو جدلیاتی مادیت (Dilectial
Materialism)پرولتاریہ کی ڈکٹیٹر شپ اور قدر زائد (surplus value)کے نام سے مشہور ہیں ۔در اصل تاریخ ، سیاست اور اقتصادی قوانین کی وہ
تشریحات ہیں جن کے ذریعے مارکس یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ماضی میں کیوں استحصال
جاری رہا ہے اور آئندہ اشتراکی نظام میںکیوں یہ استحصال ختم ہو جائیگا۔
انسانی
تاریخ کا قانون مارکس کی نظر میں بالکل وہی ہے جو مادیت برست دنیا کا ہے ۔ جس طرح
مادی دنیا کی چیزیں ایک عالمگیر نظام میں جکڑی ہوئی ہیں اور اسی کے مطابق ان کے
تمام خواص اور افعال ظاہر ہوتے ہیں ۔ اسی طرح انسانی زندگی کا بھی ایک قانون ہے ۔
انسان بظاہر شعور اور ارادہ رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک خو د مختار مخلوق
ہے اور اپنی مرضی سے جو چاہے کرسکتا ہے ۔ مگر انسان کے ارادہ کی حقیقت اس کے سوا
کچھ نہیں کہ وہ انسانی ذہن میں خارجی حالات کا عکس ہے ۔ایک تاریخی قانون ہے جو
انسانی زندگی کی تمام سرگرمیوں کا حقیقی سبب ہے ۔
مارکس
اس نظریے سے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ جب سب کچھ کا اختیار آدمی کے اپنے ہاتھوں
میں ہے تو پھر تاریخ انسانی میں جاری لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ بھی وہی خود کرسکتا ہے ۔
کیونکہ ایک قانون کو جس طرح جن ہاتھوں نے خود درہم برہم کیا ہے وہی ہاتھ اس کو
ٹھیک بھی کرسکتے ہیں ۔ مثلاََ طوفان ایک طاقت ہے اور وہ شہروں اور دیہات کو تباہ
کرکے رکھ سکتا ہے ۔لیکن اس کو اگر قابو کیا جائے ، اس پر ڈیم بنا کر اسے بند کردیا
جائے تو اس کو مفید اغراض کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح انسانی زندگی
میںاس کے اپنے بنائے ہوئے قوانین کی خرابیاں دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی
نظریے کو ٹھیک رخ پر ڈال کر بیش بہا فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔
(تلخیص: اسلام اور سوشلزم)
سوشلز
م کی انتہا خدا کے وجود کا انکار ہے:
کمیونسٹ
لوگ مارکس کے فرمودات کی روشنی میں نظام عالم کی گردش کومؤثر حقیقی سمجھتے ہیں ۔
ان کے نزدیک دنیا میںجو کچھ ہوتا ہے وہ خود بخود ایک خود کار نظام کے تحت سرانجام
پاتا ہے ۔سورج اپنی طاقت سے اپنے وقت پر مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں جاکر
غروب ہوتا ہے ۔ چاند اور تارے اپنے مقررہ ٹائم پر طلوع ہوتے ہیں ، جاندار حیوانات میں
بڑھوتری اور تولید اس کے اپنے نظام حیات کے تحت ہوتا ہے ۔ اسی سے پھر ایک اور
نظریہ بھی نکلتا ہے جو ہندووں کا ہے وہ یہ کہ اگر کسی انسان نے اپنی پہلی زندگی
میں نیکیاں کی ہوں تو اس کو اس کا بدلہ کہاں اور کیسے ملے گا؟یا اگر بد عملیاں کی
ہوں تو اس کی سزا کہاں اور کیسے بھگتے گا؟ تو اس کا جواب دہریت اور ہندومت نے یہ
نکالا کہ انسانی حیات ایک گردش مسلسل ہے ۔ اس لیے ایک انسان اس وقت حیات ہے مگر اس
کے اعمال نیک ہیں تو جب وہ مریگا تو اس کی زندگی میں نیک اعمال کا بدلہ ملنے کا
راستہ یہ ہے کہ اس کی روح دنیا میں آنے والے کسی دوسرے انسان کے جسم میں حلول
کرجائے اور پھر اس کی زندگی لکی(Lucky)اور خوش بخت ہو۔ یا اگر بد عمل
ہوکر مر ا ہے تو اس کی روح دوسرے میں حلول کرکے ۔یہاں پریشان حال زندگی گزارے گا
اور دوسرے جنم میں اس کا بدلہ پائیگا۔ اس کو تنا سخ کہا جاتا ہے۔
مارکسزم
اور کمیونزم کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کا یہ نظام ایک خود کار مشین کی طرح چل رہا
ہے۔ لہٰذا نہ تو خدا کا کوئی وجود ہے نہ مذہب کوئی چیز ہے ۔انسان فطرتی طور پر
آزاد ہے اور اسے اپنی زندگی کے اختیارات پر مکمل عبور ہے ۔ کمیونزم کے اس نظریے سے
ان حضرات کی تروید ہوجاتی ہے جو اس کو صرف ایک معاشی نظام کے طور پر متعارف کرتے
ہیں۔ کیوںکہ ہم عملی طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں جہاں کمیونزم کے اثرات
پہنچے ہیں اور جس جس نے اس نظریے کو قبول کیا ہے وہ خدا سے برگشتہ ، مذہب سے بیزار
اور معاشرتی پابندیوں سے آزاد نظر آتا ہے ۔اور یہی اس نظام کا خلاصہ اور منشاءہے ۔
سوشلزم
کی نظریاتی ناکامی:
اشتراکی
لٹریچر میں جہاں ماضی اور حال کے سماج کا تجزیہ کیا گیا ہے اس کو دیکئے تو ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ گویا انسان کتے سے زیادہ خود غرض اور بھیڑیئے سے زیادہ خونخوار
ہے ۔اس کو تاجر اور صنعتکار بننے کا موقع ملتا ہے تو وہ دوسروں کو لوٹنا شروع
کردیتا ہے۔اس کو اقتدار مل جاتا ہے تو اپنے جیسے انسانوں کو غلام بنا لیتا ہے۔اس
کو سرمایہ داروں اور وقت کے حکمرانوں کی طرف سے کچھ نفع کا لالچ دیا جائے تو محض
اپنے ذاتی فائدے کیلئے وہ ہزاروں انسانوں کے ساتھ غدّاری کرنے سے بھی نہیں
چوکتا۔غرض قوت اور اسباب و ذرائع کا تھوڑا سا حصہ بھی کسی انسان کو بگاڑ دینے
کیلئے کافی ہے ۔
اس
نظریئے کے مطابق ساری انسانی تاریخ لوٹ کھسوٹ کی تاریخ ہے۔دنیا اس کی نگاہ میں
کتوں کا دسترخوان ہے ۔ جہاں معاشی مفاد اور مادی خوشحالی کیلئے سارے انسان چھین
جھپٹ کررہے ہیں ۔ بڑے بڑے مصلحین اور پیغمبروں سے لے کر عوام تک کسی کے سامنے اس
کے سوا کوئی چیز نہیں ۔ جس کو موقع مل گیا وہ لوٹ رہا ہے۔جو ابھی تک محروم ہے وہ
کوشش میں ہے کہ کس طرح وہ بھی لوٹنے والوں کی صف میں پہنچ جائے ۔
مارکس
نے جب اپنے پیش رو فلسفیوں پر تنقید کرکے اپنا نظریہ پیش کیا تو اس زمانے میںاس کو
زورو شور کے ساتھ لیا گیا۔ لوگوں نے سمجھا کہ گویا یہ آخری سچائی اور اور وہ آخری
عادلانہ نظام ہے جو انسان نے دریافت کیا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس کی سچائی کو
قبول کرلیا جائے اور انسانی سوچ کے اس نظام کو عملاََ ہر کہیں نافذ کیا
جائے۔اشتراکی ذہن کے لوگ مارکس کے نظریات سے اس قدر متاثر تھے کہ وہ چاہتے تھے یہ
نظام ہر حال میں نافذ ہونا چاہئے ۔ ان کی دیوانگی کا عالم یہ تھا کہ اگر اس مقصد
کیلئے کروڑوں لوگوں کو قتل کرنا پڑے تو بھی اس سے دریغ نہ کیا جائے ۔اس نظام کی
راہ میں رکاوٹ بننے والے ہر انسان کو راستے سے ہٹانے کو معمولی چیز سمجھتے
تھے۔کیونکہ ان کے نزدیک دنیا کو حقیقی آزادی دلانے کیلئے یہ ایک معمولی قیمت
تھی۔لیکن بعد کے تجربات سے معلوم ہوا کہ مارکسزم بھی انسانی دماغ کی ایک فکری
خرابی تھی جیسے کہ اس سے پہلے کے فلسفیوں کے دماغ نے اس طرح کے اختراعات گھڑے تھے
۔ لینن کی آمرانہ حکومت اور روس پر قائم کردہ اشتراکی سلطنت کے ظلم و ستم نے
مارکسزم کے فلسفیوں کے خیالات کو تو سچا کردکھایا کہ اس راہ میں کسی رکاوٹ کو
برداہشت نہ کیا جائے لیکن پچھتر سال75کے تجربات نے سوشلزم کے جراثیم کو اتنا واضح
کردیا کہ اس نظام کو اسی سویت یونین کی تجربہ گاہ میں ہی دم توڑنا پڑا اور اس کی
سرایت دنیا میں عام نہ ہوسکی ۔
اشتراکیت
کی سرکردہ فلسفیوں نے اپنے زمانے کے حالات میں انسانی سماج کا جو تجزیہ کیا تھا وہ
بعد کے حالات میں غلط نکلا۔ انہوں نے جو طریقہ کار متعین کیا تھا وہ بے کار ثابت
ہوا اس نظام کے نفاذ کیلئے جو طریقہ کار وضع کیا تھا وہ تاریخ کا ایک بدترین ظلم و
ستم ثابت ہوا۔
کارل
مارکس نے مستقبل کے فلسفہ کے اصولکے نام سے ایک کتاب لکھی جو اس وقت1843ءمیں شائع
ہوئی ۔مارکس نے اس کتاب میں سوشلزم کے نفاذ کا طریقہ کار اس کے فوائد اور دوررس
اثراتکا استقضا کیا تھا۔ مگر جب یہ کتاب تاریخ کی عدالت میں پیش کی گئی تو بعد کے
حالات نے مارکسزم کے خلاف فیصلہ دیا۔ مگر مارکس کے متبعین نے تاریخ کے اس سچے
فیصلے کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا ۔ بلکہ جب بھی مارکسی اصول کے خلاف کوئی بات
ظاہر ہوتی تو وہ جھٹ سے اس کی تاویل کرتے ہوئے کہتے تھے کہ :یہ مارکسز کے ذخیرہ
میں نئی سچائیوں کا اضافہ ہے مگر یہ نئی سچائیاں در اصل مارکس کی غلطیوں کا اعتراف
ہیں جو مزید غلطیوں کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ مارکسز کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی
شخص دن کو رات ثابت کرنے کیلئے اپنا کمرہ بند کرکے کہے کہ دیکھ سورج کہیں نظر نہیں
آتا۔ اور جب اس سے کہاجائے کہ یہ روشن دان سے جو کرنیں آرہی ہیں وہ کس چیز کا ثبوت
ہیں تو وہ جواب دے کہ احمق معمار نے روشن دان کا رخ غلط بنا دیا ورنہ تم دیکھتے ہو
کہ کمرے میں بالکل اندھیرا ہے اور یہ کہتے ہوئے وہ بھول جائے کہ اس دلیل سے خود
اپنے پچھلے دعوے کی تردید کررہاہے۔
اشتراکی
نظام کے بارے میں تلخ حقائق اب سرمایہ داروں کا پروپیگنڈہنہیں رہے بلکہ اشراکی
نظام کے آخری دور میں جب کہ یہ نظام دم تو ڑ رہا تھا۔ خود روسی لیڈروں نے اس کی
تصدیق کردی ۔اس نظام میں جب ایک بار کوئی شخص بر سیر اقتدار آجائے تو موت کا فرشتہ
ہی انسانیت کو اس کے عذاب سے نجات دلا سکتا ہے ۔چنانچہ مشہور روسی جنرلاسٹالن جب
روس کے سیاہ و سفید کا مالک بنا تو اس نے سوشلز م کی آڑ میں اپنی مطلق العنان
بادشاہت قائم کردی۔ وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرتا تھا اور حکومت کی مرکزی کمیٹی کی
رائے پر غور کرنا بھی چھوڑ دیا۔ اس کی زندگی میں روسی پریس نے اس کے مظالم کو تاریخ
کے عظیم انصاف کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔اس کے بارے میںیہ بھی کہا کہ اسٹالن
کلاسیکل کمیونزم کا حقیقی پیرو ہے ۔ اسٹالن کے مظالم سب کی نظروں میں تھے مگر اس
کے خلاف بولنے کی سزاء موت کسی کو بھی نہ ہوئی ۔ نہ اس کو معزول کیا جاسکا اور نہ
اس کے خلاف کوئی تحریک پیدا ہوئی ۔مگر اس کے مرنے کے بعد خود سوشلسٹ پریس نے تسلیم
کیاکہ اسٹالن تاریخ کا سب سے بڑا ظالم انسان تھا۔روسی کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری
اول مسٹر خروشیف(N.Khrushchev)نے اسٹالن کے مرنے کے بعد پارٹی کی بیسویں کانفرنس
(فروری1956ءمیں ایک تقریر کی جس میں اسٹالن کے جرم گنائے ،خروشیف نے کہا : ایک شخص
سب کچھ جانتا ہے ، سب کچھ سیکھتاہے ، ہر فرد سے واقف ہے ، ہر کام کرسکتا ہے ، اس
سے کبھی غلطی نہیں ہوسکتی۔ کسی شخص میںاس قسم کی غیر معمولی صفات کو ماننا اسے خدا
ماننا ہے مگر اسٹالن کے بارے میں سالہا سال تک ہمارا عقیدہ یہی تھا جس کی تردید اس
کے مرنے کے بعد مرکزی کمیٹی نے کی ہے
خروشیف
مزید کہتا ہے:
اسٹالن
نے عوام دشمن کی اصطلاح استعمال کی جس کا مطلب خود بخود یہ ہوگیا کہ ایک شخص کی
رائے خواہ صحیح ہو یا غلط لازماََ قبول کی جانی چاہئے ۔ا س اصطلاح کے ذریعہ یہ
ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص جو کسی بھی پہلوسے اسٹالن کی تائید نہ کرتا ہو جس کے بارے
میں ایسا شبہ کیا جائے اس کے خلاف ہر ظالمانہ سلوک کیا جاسکتاہے ۔ اور اس کے خلاف
ہر قسم کے تشدد کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ عوام دشمن کی اصطلاح کے بعد اختلافِ رائے
اور کسی معاملہ میں بحث و نظریہ کے بعد ایک نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرنا نا ممکن
ہوگیا ۔ ایسے تمام مجرمین کے خلاف کاروائی کرنے کیلئے جو قانونی بنیاد فراہم کی
گئی وہ اعتراف (Confession)تھا جو جسمانی اذیتوں کے ذریعہ اگلوایا جاتا تھا۔
(تلخیص: اسلام اور سوشلزم)
سوشلز
کے بانیوں کی حتمی رائے یہ تھی کہ یہ نظام جمہوری اور آئینی طریقوں سے وجود میں
نہیں آسکتا بلکہ اس کیلئے مسلح انقلاب ناگزیرہے جو خالص تشدد پر مبنی ہوگا۔اس لیے
غریب اور محنت کش طبقے کو منظم کیاجائے گا۔مذہب اور سرمایہ دار طبقے کے خلاف ہر
ممکن طریقے سے جنگ کی جائے گی۔موجودہ حکومتوں کا تختہ الٹ کر ان کی جگہ مزدوروں کی
آمریت قائم ہوگی۔زمینیں کار خانے اور تجارتیں ان کے مالکوں سے جبراََ چھین لی
جائیں گی اور جو مزاحمت کرے گا اسے موت کے گھاٹ اتارا جائےگا ۔اس سوشلز کوکئی
ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔انقلابی سوشلزمسائنٹفک سوشلزم مارکسزمبالشویزم لینن ازم
یہ سب اسی ایک نظریے کے مختلف نام ہیں۔ اس سوشلزم نے دعویٰ کیا تھا کہ فتح بالآ خر
سوشلز م کی ہوگی۔رفتہ رفتہ تمام ممالک میں انقلاب آئیں گے۔ مزدوروں کی آمریتیں
قائم ہوں گی۔جب پوری دنیا میں انقلاب مکمل ہوجائے گا تو خود بخود مزدوروں کی
ڈکٹیٹر شپ ختم ہوجائےگی۔اور وہ کمیونسٹ معاشرہ ان کی جگہ لے لے گا جس کی پیشنگوئی
کارل مارکس نے کی ہے۔ اور جس کی حیثیت محض ایک خیالی جنت کے سوا کچھ نہیں ۔
اشتراکیت
مارکس سے پہلے بھی کئی مختلف لباسوں میں ظاہر ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اشتراکیت کو
تین حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔
(۱) قدیم اشتراکیت کی نظریات، جو
افلاطون ، ارسطو وغیرہ نے مدوّن کئے تھے ۔
(۲) ارتقائی یا معاشی اشتراکیت، اس کے
بانی سینٹ سائمن، پرودھان، لوئی بیلن وغیرہ تھے۔
(۳) مارکس کی انقلابی اشتراکیت۔
(تلخیص: یورپ کے تین معاشی نظام)
اشتراکیت
کا معاشی نظام:
اشتراکیت
در حقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے رد عمل کے طور پر وجود میں آئی۔سرمایہ دارانہ
فلسفے کا پورا زور چونکہ اس بات پر تھا کہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے ہر شخص
آزاد ہے اور معیشت کا ہر مسئلہ بنیادی طور پر صرف رسد و طلب کی بنیاد پر طے ہوتا
ہے۔اس لئے اس فلسفے میں فلاح عامہ اور غریبوں کی بہبود وغیرہ کا کوئی واضح اہتمام
نہیں تھا۔ اور زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں کمزور افراد کے پسنے کے واقعات بکثرت
پیش آئے ۔ جس کے نتیجے میں امیر و غریب کے درمیان فاصلے بہت زیادہ بڑھ گئے ۔اس لیے
اشتراکیت ان خرابیوں کا سد باب کو دعویٰ لے کر میدان میں آئی ۔ اور اس نے سرمایہ
دارانہ نظام کے بنیادی فلسفے کو چیلنج کرتے ہوئے یہ ماننے سے انکارکردیا کہ معیشت
کے مذکورہ بالا چار بنیادی مسائل محض ذاتی منافع کے محرک ، شخصی ملکیت اور بازار
کی قوتوں کی بنیاد پر حل کیے جاسکتے ہیں ۔
اشتراکیت
نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت کے تمام بنیادی مسائل کو رسد و طلب کی
اندھی بہری طاقتوں کے حوالے کردیا گیاہے ۔ جو خالصتاََ ذاتی منافع کے محرک کے طور
پر کام کرتی ہے اور ان کو فلاح عامہ کے مسائل کا ادراک نہیں ۔خاص طور پر آمدنی کی
تقسیم میں یہ قوتیں غیر منصفانہ نتائج پیدا کرتی ہیں۔جس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے
کہ اگر مزدوروں کی رسد زیادہ ہوتو ان کی اجرت کم ہوجائے گی اور بسا اوقات مزدور اس
بات پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ انتہائی کم اجرت پر کام کریں اور جوپیداوار ان کے
گاڑھے پسینے کی محنت سے تیار ہورہی ہے اس میں سے انہیں اتنا بھی حصہ نہ ملے جس کے
ذریعہ وہ اپنے بچوں کیلئے صحت مند زندگی کا انتظام کرسکیں۔ سرمایہ دار کو ان کی
محنت کے بقدر ان کا صلہ دینے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی وہ محض اپنے منافع اور
زیادتی مال کے خاطر ان سے کام لیتا ہے ۔
اشتراکیت
کے نزدیک ترجیحات کا تعین، وسائل کی تخصیص اور ترقی جیسے اہم معاشی مسائل بھی رسد
و طلب کی اندھی بہری قوتوں کے حوالے کرنا معاشرے کیلئے نہایت خطرناک ہے ایک
نظریاتی فلسفے کے طور پر تو یہ بات درست ہوسکتی ہے کہ ذاتی منافع کے محرک کے تحت
ایک ذراعت پیشہ شخص یا ایک صنعتکار اس وقت تک اپنی پیداوار جاری کررکھے گا جب تک
کہ اس کی رسد طلب کے برابر نہ ہوجائے لیکن عملی دنیا میں دیکھا جائے تو کسی تاجر
یا ذراعت پیشہ کے پاس ایسا کوئی نپا تُلا پیمانہ نہیں ہوتا جس کی مدد سے وہ بروقت
یہ جان سکے کہ اب فلاں پیداوار کی رسد طلب کے برابر ہوگی۔لہٰذا بسا اوقات وہ
پیداور میں اضافہ کرلیتا ہے جبکہ بازار میںرسد طلب سے بھی زیادہ ہوچکی ہوتی ہے ۔
اس صورت میں بسا اوقات ایسی چیزوں کی بازار میں فراوانی ہوجاتی ہے جن کی طلب اتنی
نہیں ہے ۔ اور اس طرح معیشت کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں بہت سے
کارخانے بند ہوجاتے ہیں۔ تاجر دیوالیہ ہوجاتے ہیں اور طرح طرح کی معاشی خرابیاں
پیدا ہوجاتی ہیں۔
اشتراکیت
نے ان مسائل کے حل کا طریقہ یہ نکالا کہ وسائل پیداوار یعنی زمینیں اور کارخانہ
جات کو لوگوں کی انفرادیت ملکیت میںہونے کے بجائے ریاست کی اجتماعی ملکیت میں ہوں
۔اور جب یہ سارے وسائل ریاست کی ملکیت میں ہوں گے تو حکومت کو یہ پتہ ہوگا اس کے
پاس کل وسائل کتنے ہیں ۔ اور معاشرے کی ضروریات کیا کیا ہیں ؟ اس بنیادپر حکومت
ایک منصوبہ بندی کرے گی جس میں یہ طے کیا جائیگا کہ معاشرے کی کن ضروریات کو مقدم
کیاجائے؟کس مقدار میں کونسی چیز پیدا کی جائے؟اسی طرح وسائل کی تخصیص ،ترجیحات کا
تعین اوترقی کے تینوں کام حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت انجام پائیں گے۔ البتہ
آمدنی کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ زمین چونکہ انفرادی ملکیت نہیں اس لیے اس کے کرایہ
دینے کی ضرورت نہیں۔ رہی مزدور کی محنت تو اس کا تعین بھی حکومت اپنی منصوبہ بندی
کے تحت کرے گی اور ہر مزدور کو اس کی محنت کا مناسب حصہ ملے گا۔
جس
طرح سرمایہ دارانہ نظام نے معیشت کے چاروں بنیادی مسائل کو صرف ذاتی منافع کے محرک
اور بازار کی قوتوں پر حل کرنا چاہا تھا۔ اسی طرح اشتراکیت نے ان چاروں مسائل کے
حل کیلئے ایک بنیادی حل تجویز کیا۔ یعنی منصوبہ بندی۔ اس لیے اشتراکی معیشت کو
منصوبہ بند معیشت (Planned
Economy)کہا جاتا ہے ۔ جس کا عربی ترجمہ اقتصاد موجہ یا اقتصادمخطط کیا گیا ہے ۔
اشتراکیت
کے بنیادی اصول :
اشتراکیت
کے مذکورہ بالا فلسفے کے نتیجے میں اشتراکی معیشت میں مندرجہ ذیل بنیادی اصول کار
فرما ہوتے ہیں :
(۱) اجتماعی ملکیت :( Collective property)
اس
اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ وسائل پیداوار یعنی زمینیں اور کار خانے وغیرہ کسی شخص کی
ذاتی ملکیت میں نہیں ہوں گے بلکہ وہ قومی ملکیت میں ہوں گے۔اور حکومت کے زیر
انتظام چلا ئے جائینگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹھیٹ اشتراکی ممالک میں نہ صرف
زمینیں اور کار خانے بلکہ تجارتی دکانیں بھی کسی فردِ واحد کی ملکیت میں نہیں
ہوتیں۔ ساری آمدنی حکومت کے خزانے میں جاتی ہیں اور وہیں سے ملازمین کو تنخواہیں
ملتی ہیں۔
(۲) منصوبہ بندی :( Planning)
اشتراکی
نظام کا دوسرا بنیادی اصول منصوبہ بندی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام بنیادی معاشی
ضروریات اور تمام معاشی وسائل کی اعداد و شمار جمع کئے جاتے ہیں۔اور یہ فیصلہ کیا
جاتا ہے کہ کون سے وسائل کس چیز کی پیداوار میں لگائے جائیں؟ کیا چیز پیدا کی جائے
اور محنت کرنے والوں کی کیا اجرت مقرر کی جائے؟
منصوبہ
بندی کا یہ تصور اشتراکیت کے ذہن کی تخریب کاری تھی مگر بعد میں جزوی طور پر
سرماداریت نے بھی منصوبہ بند معیشت کے اصول اپنائے ۔حکومت کو کاروبار سے بلکل الگ
رکھنا سرمایہ دارانہ نظام کے لیے بھی ممکن نہ ہوا اور آخر کار حکومتوں کو تجارتی
مراکز (Trade
Centres)میں مداخلت کرنی پڑی۔اور اشتراکی نظام میں حکومت
جزوی نہیں بلکہ کلی طور پر با اختیار ہوتی ہے اور تمام فیصلے ان کے اپنے ہاتھوں
میں ہوتے ہیں۔
(۳) اجتماعی مفاد:(Collective interest)
اشتراکیت
کا تیسرا اصول اجتماعی مفاد سے وابستہ ہے ۔ یعنی اشتراکیت کا دعویٰ یہ ہے کہ
سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں ساری معاشی سرگرمیاں افراد کی ذاتی مفاد کے تابع
ہوتی ہے لیکن اشتراکی نظام میں منصوبہ بندی کے تحت اجتماعی مفاد کو بنیادی طور پر
مد نظر رکھا جاتا ہے ۔
(۴) آمدنی کی منصفانہ تقسیم :( Equitable Distribution of Income)
چوتھا
اصول اشتراکیت کا یہ ہے کہ پیداوار سے جو آمدنی حاصل ہو وہ افراد کے درمیان
منصفانہ طور پر تقسیم ہو۔اور غریب و امیرکے درمیان زیادہ فاصلے نہ ہوں ۔ آمدنیوں
میں توازن ہو۔ اشتراکیت نے شروع میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ آمدنی میں مساوات ہوگی۔
یعنی سب کی آمدنی برابر ہوگی لیکن اس پر کبھی بھی عمل دار آمد نہیں ہوا ۔ لوگوں کی
اجرتیں اور تنخواہیں کم اور زیادہ ہوتی رہیں۔ البتہ اشتراکیت میں کم از کم یہ
دعویٰ ضرور کیا گیا ہے کہ اس نظام میں اجرتوں کے درمیان تفاوت بہت زیادہ نہیں ہے ۔
(ملخص از: اسلام اور جدید معیشت و تجارت
تقابل
و تحقیقی جائزہ:
ایک
مکمل ضابطہ حیات اور آفاقی مذہب ہونے کی بناءپر اسلام ایک منفرد تہذیب روشناس
کرانے اور ایک نیا انقلاب پربا کرنے کا پیش خیمہ بنا۔ اسلام نہ تو روحانیت پر مبنی
محض چند سطحی قسم کے تصورات کا نام ہے اور نہ ہی یہ محض اخلاقی قدروں کا ایک سادہ
مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا نظام حیات ہے جس میں زندگی کا ہر پہلو ایسا مربوط اور ہم
آہنگ کیا گیا جس سے ایک منفرد و متوازن معاشی ، سیاسی اور سماجی نظام اجاگر ہوتا
ہے ۔ دیوانی اور فوجداری قوانین کے ظابطوں سے لے کر عالمی قوانین تک کے اساسی اصول
زندگی کی مادی و روحانی ضرورتوں کو پورا کر نے کیلئے بھی فراہم کیے گئے ہیں۔
اسلام
کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر دور کے تقاضوں سے عہدہ بر آہونے کی صلاحیت سے پوری طرح بہرہ
ور ہے ۔یہی دعویٰ ہر دور میں مخالفین اور موافقین دونوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت
سے موجود رہا ہے ۔ اگر ایک طرف مخالفین نے مختلف ہتھکنڈوں سے اس کی آفاقی حیثیت کو
مشکوک ثابت کرنے کی کوشش کی تو دوسری جانب خود مسلمانوں کے اندر باہمی آویزش اور
فرقہ پرستی اس کےپھیلاؤ اور اثر پذیری میں رکاوٹ بنتی رہی۔
اسلام
کے وجود پر اعداءاسلام کی پیہم ضرب کاریاں بھی جاری رہیں لیکن اس کے باوجود اس دین
نے جو اپنی صورت جس کمال بانکپن سے بر قرار رکھی ہے ۔ دنیا میں یہ اعزازکسی بھی
مذہب اور کسی بھی نظریے کو نہیں ملا۔ کہیں کہیں مغربی تہذیب کی چمک اور اہل کفر کی
ترقی نے بعض مسلمانوں کو مر عوبیت کا شکار کیا لیکن مجموعی فضا اسلام کے حق ہی میں
ہے ۔
دورِ
حاضر کے علما اور اہل فکر نے جدید ذہن کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ
اسلامی تعلیمات دورِ حاضر کے تمام چیلنجز سے عہدہ بر آ ہونے کی صلاحیت سے پوری طرح
بہرہ ور ہیں ۔ بیشتر دانشوروں نے اسلام کے اساسی اصولوں کی روح کو مد نظر رکھتے
ہوئے اپنی تعلیمات کو پیش کیا۔ ان کی فکر میں حرکت پذیری، میانہ روی اور حقیقت
پسندی کا عنصر غالب نظر آتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ بیشتر اہل فکر نے عملی میدان میں
بھی امت مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کیا۔ حتیٰ کہ ان میں سے بعض تو اپنی
ذات میں ایک تحریک تھے ۔ اور انہی لوگوں کی کوششوں سے اسلام جدید ذہن میں راسخ
ہوتا جاتا ہے۔
(ملخص از: اسلام اور جدید ریاستی نظام، ڈاکٹر محمد سرور)
اسلام
صرف مذہب نہیں ۔ اکثر لوگ اسے دیگر مذاہب کی مانند ایک مذہب سمجھنے کی غلطی میں
مبتلا ہوتے ہیں۔اور پھر جب مذہب و سائنس یا مذہب و فلسفہ کے تصادم کا وقت آتاہے
اور جب عمتہ الناس کٹر و متعصب قسم کی ملائیت کی جکڑ بندیوں سے گھبراکر دوسرے
نظاموں اور ازموں کی طرف بھاگتے ہیں تو وہ اسلام کو بھی پس پشت ڈالنے کے گناہ عظیم
کے مرتب ہوتے ہیں ۔ کارل مارکس نے جس مذہب کو انسانی ترقی کیلئے افیون قرار دیا
اور کہا کہ مذہب انسان کیلئے ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ، بے شک وہ اہل مغرب کا
وہی مذہب تھا جو ان کے اپنوں ہاتھوں کا بنایا ہوا، تحریف شدہ منجمد اور اٹل عقائد
کا مجموعہ تو ہے مگر اخلاقیات کے اصول ، سیاست و معیشت کا نظام اور تحقیق و تفتیش
کیلئے کسی قسم کے محرکات دینے میں ناکام رہا ہے ۔ ایسا مذہب واقعی افیون سے بدتر
ہے جو انسانیت کی ترقی ،فلاح اور غور فکر کا مخالف ہو ۔اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ
بھی کسی ایسے مذہب کا معتقد ہے تو یقینا وہ اسلام کا صحیح ادراک اور اس کی روح کو
سمجھنے سے قاصر رہا ہے ۔
اسلام
فرمانبرداری اور اخلاص کے ایک ضابطہ ، ایک نظام اور ایک نظریہ کا نام ہے جو دیگر
مذاہب باطلہ کے مقابل فطری و عملی پہلوؤں سے لیس ہے۔ یہ ایک طرزِ فکر ہے، ایک
فلسفہ ہے، ایک دین ہے اور ایک منتہائے ثقافت ہے ۔
(ملخص از: اسلام فکر و ثقافت ، عطش درانی ،مکتبہ عالیہ، لاہور)
اسلام
ایک سادہ سادین ہے نہ اس میں عقیدے کے حوالے سے کوئی غامض پیچیدگی ہے نہ احکام و
اعمال میں کوئی تنگی ۔ نہ اس میں منطقی موشگافیوں کو عمل دخل ہے اور نہ فلسفیانہ
مباحث کو ، یہ ایک آسان اور عام فہم دین ہے جو ایک ادنیٰ عام ا نسان اور مسلمان
کوبھی اتنا ہی سمجھ آتا ہے جتنا کہ ایک متبحر عالم اور اسکالر کو۔
اسلامی
عقیدہ:
اسلامی
عقیدے کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے:
لاالہ
الا اللّٰہ محمد الرّسول اللّٰہ
اس
میں خدائے تعالیٰ بزرگ و برتر کی وحدانیت اور حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت کا ذکر ہے ۔
جب کوئی شخص ایک مرتبہ یہ کلمہ کہہ دے تو اسلام میں داخل ہوجاتا ہے اور سارے کے
سارے احکامات کا مکلف ہوجاتا ہے ۔ اگر اسلام کے عقیدے کا عیسائیت کے ساتھ تقابل
کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی عقیدے میں بڑی گنجلک ہے ۔ وہ خلاف عقل
بھی ہے اور خلاف، دستور بھی ۔ ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک، ایک ہے اور تین،
تین ۔ ایک تین نہیں ہوسکتا اور تین ایک نہیں ہوسکتے۔ عیسائی حضرات اس عقیدہءِکلیہ
سے انحراف کرتے ہوئے ایک کو تین اور تین کو ایک کا نام دیتے ہیں۔ عجیب منطق ہے جو
سمجھ سے بالا تر ہے ۔ وہ خدا کو تین میں سے تیسرا سے تعبیر کرتے ہیں اور حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا گردانتے ہیں:
قرآن
کریم نے ذالک قولھم با فواھھم کہہ کر ان کی تردید کی ہے ۔
ارشاد
ہے:
وقالت
الیھود عزیرنِ بن اللّٰہ وقالت النَّصرٰی المسیح ابن اللّٰہ ط ذالک قولھم بافوا
ہہم، یضاھﺅن
قول الذین کفروامن قبلُط قٰتَلھمہ اللّٰہ ، انّیٰ یوء¿فکون ط
اور
یہود میں سے بعض نے کہا کہ (نعوذ باللہ )عزیر(علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں اور
نصارٰی (میں سے اکثر )نے کہا کہ مسیح (علیہ السلام) خد ا کے بیٹے ہیں ۔ یہ ان کا
قول ہے ان کے منہ سے کہنے کا ( جس کا واقع میں کہیں نام و نشان نہیں ) یہ بھی ان
لوگوں کی سی باتیں کرنے لگے جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں ۔........خدان کو غارت
کرے یہ کدھر الٹے جارہے ہیں(کہ خدا پر ایسے افتراءباندتے ہیں یہ تو ان کے اقوال
کفریہ تھے)
(معارف القرآن ج ، ۴ ص۸۵۳،سورة توبہ۔ ترجمہ تھانویؒ)
اسلام
و حدیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں :
حضرت
عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس
بیٹھے تھے کہ
ناگاہ
ایک شخص نمودار ہوا، جس کے کپڑے بہت اجلے اور سفید تھے بال نہایت سیاہ تھے ۔ اس
شخص پر سفر کا کچھ اثر معلوم نہ ہوتا تھا ۔ اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ
تھا۔ یہاں تک کہ وہ نبی کریم ﷺکے پاس پہنچ گیا اور اس نے اپنا زانو آنحضرت ﷺ کے
زانو سے ملادیا اور اپنی ہتھیلیاں زانوؤں پر رکھ کر عرض کرنے لگا:
اے
محمد ! مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟
آپﷺ
نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تو اس امر کی گواہی دے کہ اللہ سوا کوئی عبادت کے لائق
نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ تو نماز قائم کرے اور یہ کہ تو زکوٰة
دے اور یہ کہ تو رمضان کے روزے رکھے اور یہ کہ اگر استطاعت ہوتو بیت اللہ کا حج
کرے۔
اس
شخص نے کہا : آپﷺ نے درست فرمایا۔
حضرت
عمر ؓ نے کہا کہ ہم متعجب ہوئے کہ یہ شخص خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی اس کی
تصدیق بھی کرتا ہے ۔ پھر اس شخص نے پوچھا :آپ مجھے ایمان سے واقف کیجئے ۔
آنحضرت
ﷺ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور
اس کے رسولوں پر آخرت پر اور نیک و بد تقدیر پر ایمان لے آئے۔
حضرت
عمرؓ نے فرمایا کہ اس پر وہ شخص بولا:آپ نے سچ فرمایا
پھر
اس شخص نے پوچھا: اب مجھے احسان کے بارے میں بھی کچھ بتائیے۔
آنحضرت
ﷺ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا
ہے اور اگر یہ حالت میسر نہ ہوتو کم از کم تو یہ محسوس کرے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے
۔
اس
کے بعد آنحضرت ﷺ نے پوچھا: اے عمر! جانتے ہو کہ وہ سائل کون تھا؟
حضرت
عمرؓ نے جواب دیا :اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے ۔
اس
پر آپﷺ نے فرمایا : وہ جبرائیل تھا اور تم لوگوں کو تمھارا دین سکھانے کیلئے آیا
تھا ۔
مسلم
ج ۱ ،ص۷۲/قدیمی کتب خانہ ....مشکوٰة ص ۱۱ ،ج ۱، قدیمی
سوشلزم
اور اسلام:
اسلام
اور سوشلزم دو الگ الگ نظریے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام اور سوشلزم کو
بیک وقت اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔یہ ایک سراسر غلط خیال
ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے غلط خیال پر قائم ہے ۔ ایسا کہنے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ
اسلام ایک مذہبی نظریہ ہے اور سوشلز م ایک معاشی سیٹ اپ کا نام ہے ۔بالفاظ دیگر
اسلام ایک عقیدہ ہے اور سوشلزم ایک سماجی نظام ہے ۔پھر دونوں پر ایک ساتھ ایمان
لانے میںکیا حرج ہے ۔ جس طرح کسی بھی مذہب کی پیروی کرتے ہوئے آدمی اپنے رزق کے
حصول کیلئے کوئی پیشہ اختیار کرسکتا ہے اسی طرح کسی بھی ذریعہ سے رزق حاصل کرتے
ہوئے آدمی کسی مذہب کا پیرو بن سکتا ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ تو اسلام محض ایک مذہبی نظریہ ہے اور نہ سوشلزم محض ایک معاشی
نظام ، یہ دونوںہی باتیں غلط ہیں۔
بعض
لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلام خواہ کچھ بھی ہو وہ سوشلزم کا مخالف نہیں ہے ۔
بلکہ سوشلزم خود اسلام ہی کی صدائے باز گشت ہے ۔ جو ایک ہزار سال بعد یورپ سے بلند
ہوئی ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور سوشلزم دو الگ الگ نظام ہیں۔ جو فلسفہ اور
عمل دونوں اعتبار سے متصادم ہیں۔ وہ مکمل طور پر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔یہ دو مختلف
سمتوں میں جانے والے زاویے اور لکیریں ہیں جن کے سرے کہیں بھی ایک دوسرے سے نہیں
ملتے۔
(ملخص از: سوشلز م اور اسلام ، وحید الدین خان)
سوشلزم
کی خودکشی:
سوشلز
م کے ستم اور درندگی سے کئی مسلم اور غیر مسلم ممالک متاثر ہوئے ۔ جہاں جہاں
سوشلزم کا انقلاب پہنچا وہاں ظلم و ستم کا بازار گرم ہوگیا۔ اور کاروباری ترقیاں
ٹھپ ہوکر رہ گئیں۔افغانستان اکیسواں مسلم ملک ہے جو سوشلزم کا شکار بنا۔ لیکن یہی
درندگی اس کیلئے خودکشی ثابت ہوئی ، کیونکہ اس کی فوجیں جب27دسمبر1979ءکویہاں داخل
ہوئیں تو روس کی سوشلسٹ معیشت پر، جسے کبھی بھی کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا
تھا62سال کی عمر میں ہی بڑھاپا آچکا تھا پھر یہاں جس مسلم قوم سے اس کا سامنا ہوا
یہ وہ قوم ہے جس کا ماضی غلامی کے داغ سے پاک ، اور جس کی لغت بھی شاید محکومی کے
لفظ سے خالی ہے ، ان غیور مسلمانوں نے اپنا سب کچھ قربان کرکے روسی فوج سے جو اس
وقت دنیا کی سب سے بڑی فوج تھی لگا تار 12سال تک تاریخ ساز جہاد کیا اور آزادی کی
حفاظت کیلئے اپنے ملک کے کھنڈر ہوجانے کی بھی پروا نہیں کی ۔پاکستان نے بھی جس کا
اقتدار اس وقت افواج پاکستان کے ہاتھ میں تھا اپنی سلامتی کو داؤ پر لگا کر افغان
بھائیوں کا بھر پور ساتھ دیا بلکہ دنیا کے بہت کم ملک ایسے ہوں گے جہاں کے
مسلمانوں نے یہاں آکر فتح یا شہادت کے جذبے سے جان کی بازی نہ لگائی ہو بالآ خر
روسی فوج جس کی ستر سالہ تاریخ یہ ریکارڈ رکھتی تھی کہ وہ جس ملک میں داخل ہوگئی
اسے کوئی نکال نہیں سکا۔وہی فوج بری طرح رسوا اور نڈھال ہوکر14فروری1989ءکو اپنے
رستے ہوئے زخموں کو چاٹتی ہوئی سر زمین افغانستان سے دریا ئے آموپار کرگئی۔
روسی
سوشلزم جو افغانستان میں داخل ہوتے وقت دنیا کی ایک سپر طاقت تھا افغانستان کے
پہاڑوں سے اپنی12سالہ قسمت آزمائی کے نتیجے میں اپنے اندر کی سیاسی اور معاشی ٹوٹ
پھوٹ کا اس بری طرح شکار ہوا کہ وہ نہ صرف یہ کہ بین الاقوامی کردار کے قابل نہ
رہا بلکہ خود اپنے وجود کو بھی نہ سنبھال سکااور دیکھتے ہی دیکھتے 1991ءمیں اس کی
سوویت یونین ہی دنیا کے نقشے سے غائب ہوگئی ،خود روس میں کمیونسٹ پارٹیکو بینڈ
کردیا گیا اور عوام نے لینن کے مجسمے کو اپنے ہاتھوں سے گرا کرپاش پاش کر ڈالا۔ جس
دیوار برلن نے جرمنی کو مغربی اور مشرقی جرمنی میں تقسیم کر رکھا تھا وہ زمین بوس
ہوئی درجنوں ممالک ایسے اچانک آزاد ہوئے کہ آج تک بھی ان کو اپنی آزادی کا یقین نہ
آسکا ۔ اور دنیا نے دیکھا کہ جو سوشلز م، نظام سرمایہ داری کی چیرہ دستیوں کا
خاتمہ کرنے چلا تھا وہ74سال تک لاکھوں کروڑوں انسانوں کو ہلاک و برباد کرکے بھی
اقتصادیات و معاشیات کا کوئی ایک مسئلہ حل نہ کرسکا۔ خود روس کی معیشت جو انقلاب
کے وقت ہی سے مسلسل ناکامی کا سامنا کررہی تھی بری طرح تباہ ہوچکی تھی۔ چنانچہ صدر
بورس یلسنکو بڑی حسرت سے یہ کہنا پڑا کہ:
کاش
سوشلزم کی خیالی جنت کا تجربہ روس جیسے عظیم ملک میں کرنے کے بجائے افریقہ کے کسی
چھوٹے علاقے میں کرلیا گیا ہوتا تاکہ اس کی تباہ کوریوں کو جاننے کیلئے 74سال نہ
لگتے۔
نظام
سرمایہ داری نے ایک انتہاءکو اپنایا تھا کہ نجی ملکیت کو اتنا بے لگام کردیا کہ
سرمایہ داروں کو دین و اخلاق کی ہر بندش سے آزاد کرکے عوام اور مفلوک الحال غریبوں
کا خون چوسنے کی کھلی چھوٹ دے دی ، سوشلزم نے دوسری انتہا پر پہنچ کر سر سے نجی
ملکیت ہی بر ہتھوڑا اور درانتی چلادی جو نجی ملکیت کے ساتھ لاکھوں کروڑوں انسانوں
کی زندگی ہی صفایا کرتی چلی گئی۔
سوشلزم
کی خودکشی کے نتیجے میں جو درجنوں ممالک اب تک آزاد ہوئے ہیں ان میں یہ مسلم ممالک
شامل ہیں:
(۱) تاجکستان۔
(۲) ازبکستان۔
(۳) ترکمانستان۔
(۴) قرغیزستان۔
(۵) قزاقستان۔
(۶) آذربا ئیجان۔
(۷) چیچنیا یا شیشان۔
(۸) بوسنیا و ہر زہگونیا۔
(۹) البانیہ۔
موخرالذ
کر دو ملک یورپ میں ہیں باقی ایشیا میں ۱۲ مسلم ممالک ابھی تک آزادی کے منتظر ہیں۔
سرمایہ
داری اور اشتراکیت کے مختصر تعارف کے بعد اب میں مختصراََ یہ عرض کرنا چاہتا ہوںکہ
معیشت کے جو چار بنیادی مسائل بیان کئے گئے تھے۔ ان کے بارے میں اسلامی
نقطہءِنظریہ کیا ہے ؟یہ بات پہلے ہی قدم پر واضح رہنی چاہئے کہ اسلام کوئی معاشی
نظام نہیں ہے بلکہ وہ ایک دین ہے ، جس کے احکام ہر شعبہءِزندگی سے متعلق ہیں ، جس
میں معیشت بھی داخل ہے لہٰذا قرآن و حدیث نے معروف معنوں میں کوئی معاشی فلسفہ یا
نظریہ پیش نہیں کیا جس کو موجودہ دور کی معاشی اصطلاحات میں تعبیر کیا گیا
ہو،لہٰذا ترجیہات کا تعین وسائل کی تخصیص آمدنی کی تقسیم اور ترقی کے عنوان سے
قرآن و سنت یا سلامی فقہ میں براہ راست کوئی بحث موجود نہیں ہے۔
لیکن
زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اسلام نے معیشت کے بارے میں بھی کچھ احکام دیئے ہیں،
ان احکام کے مجموعی مطالعے سے ہم یہ مستنبط کرسکتے ہیں کہ مذکورہ چار مسائل کے
سلسلے میں اسلام کا نقطہءِنظریہ کیا ہے ؟
اسلام
کے معاشی احکام اور تعلیمات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے بازار
کی قوتوں یعنی رسد و طلب کے قوانین کو تسلیم کیا ہے اور وہ معیشت کے مسائل کے حل
کیلئے ان کے استعمال کافی الجملہ حامی ہے ۔
چنانچہ
قرآن کریم کا ارشاد ہے :
نحن
قسمنا بینھمہ معیشتھم فی الحیوة الدنیا ورفعنا بعضھم فوق بعضِِ درجت لینتحذ بعضھمہ
بعضا سخر یا(الزخرف: ۲۳)
ہم نے ان کے درمیان معیشت کو تقسیم کیا ہے اور ان میں سے بعض
کو بعض پر درجات میں فوقیت دی ہے تاکہ ان میں سے ایک ، دوسرے سے کام لے سکے
ظاہر
ہے کہ ایک دوسرے سے کام اس طرح لیا جائیگا کہ کام لینے والا کام کی طلب اور کام
دینے والا کام کی رسد ہے ۔ اس طلب و رسد کی باہمی کشمکش اور باہمی امتزاج سے ایک
متوازن معیشت وجود میں آتی ہے ۔ اس طرح آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جب دیہاتی اپنی زرعی
پیداوار شہر میں فروخت کرنے کیلئے لاتا تو بعض شہری لوگ اس دیہاتی سے کہتے کہ تم
اپنا مال خود لے جاکر شہر میں مت بیچو ، بلکہ سامان مجھے دے دو، میں مناسب وقت پر
اس کو فروخت کرونگا تاکہ اس کی قیمت زیادہ ملے۔
آنحضرت
ﷺ نے شہریوں کو ایسا کرنے سے روکا، اور اس کے ساتھ یہ جملہ ارشاد فرمایا:
دعواالناس
یرزق اللّٰہ بعضعم عن بعض
لوگوں
کو آزاد چھوڑ دو تاکہ اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے رزق عطا فرمائے
اسی
طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان تیسرے شخص
کی مداخلت کو اس لئے مسترد فرمایا تاکہ بازار میں طلب و رسد کا صحیح توازن قائم ہو
۔ ظاہر ہے کہ دیہاتی جب براہ راست بازار میں کوئی چیز فروخت کریگا تو اپنا مناسب نفع
رکھ کرہی فروخت کریگا ، لیکن اسے چونکہ جلدی واپس جانا ہے ، اس لئے اس کے پاس
ذخیرہ اندوزی کی گنجائش نہیں اور خود اس کے بازار میں پہنچنے کی صورت میں طب و رسد
کا ایسا امتزاج ہوگا جو صحیح قیمت متعین کرنے میں مدد دے گا ۔اس کے بر خلاف اگر
کوئی تیسرا آدمی ان دونوں کے درمیان آجائے اور مال کی ذخیرہ اندوزی کرکے اس کی
مصنوعی قلت پیدا کرے تو وہ طلب و رسد کے قدرتی نظام میں بگاڑ پیدا کریگا۔۔لہٰذا اس
حدیث میں بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے طلب و رسد کے قدرتی نظام کو
تسلیم فرمایا اور اس کو باقی رکھنے کی کوشش فرمائی ۔ اسی طرح جب آپ سے یہ درخواست
کی گئی کہ آپ بازار میں فروخت ہونے والی اشیاءکی قیمتیں سرکاری طور پر متعین
فرمادیں۔
تو
اس موقع پر بھی حضور اکرم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
ان
اللّٰہ ھوا المعسرالقابض الباسط الرازق
بے
شک اللہ تعالیٰ ہی قیمت متعین کرنے والے ہیں وہی چیزوں کی رسد میں کمی کرنے والے
اور زیادتی کرنے والے ہیں اور وہی رازق ہے
اللہ
تعالیٰ کو قیمت مقرر کرنے والا قرار دینے کا واضح مطلب اس حدیث کے سیاق میں یہ بھی
ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ طلب و رسد کے فطری اصول مقرر فرماتے ہیں۔ جن سے قیمتیں
فطری طور پر متعین ہوتی ہیں اور اس فطری نظام کو چھوڑ کر مصنوعی طور سے قیمتوں کا
تعین پسندیدہ نہیں ۔
قرآن
وسنت کے ان ارشادات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے بازار کی قوتوں یعنی طلب و
رسد کے قوانین کو فی الجملہ تسلیم کیا ہے ۔اسی طرح ذاتی منافع کے محرک سے بھی فی
الجملہ کا م لیا ہے ، لیکن فرق یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس محرک کو بالکل
آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ، جس کے نتیجے میں وہ خرابیا ں پیدا ہوئیں جن کا ذکر پیچھے
کیا گیا۔ اسلام نے ذاتی منافع کے محرک کو برقرار رکھتے ہوئے اور رسد و طلب کے
قوانین کو تسلیم کرتے ہوئے تجارتی اورمعاشی سرگرمیوں پر کچھ ایسی پابندیاں عائد
کردیں کہ ان پر عمل کی صورت میں ذاتی منافع کا محرک ایسے غلط رخ پر نہیں چل سکتا
جو معیشت کو غیر متوازن کرے یا اس سے دوسری اخلاقی یا اجتماعی خرابیاں پیدا
ہوں۔اسلام نے ذاتی منافع کے محرک پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، انہیں تین قسموں پر
منقسم کیا جاسکتا ہے ۔
۱۔ خدائی پابندی:
سب
سے پہلے تو اسلام نے معاشی سرگرمیوں پر حلال و حرام کی کچھ ایسی ابدی پابندیاں
عائد کی ہیں ،جوہر زبان میں اور ہر جگہ نافذ العمل ہیں۔ مثلاََ سود ، قمار ، سٹہ،
اکتناز ، احتکار یعنی ذخیرہ اندوزی اور دوسری تمام بیوع باطلہ کو کلی طور پر
ناجائز قرار دے دیا، کیونکہ یہ چیز عموماََ اجارہ داریوں کے قیام کا ذریعہ بنتی
ہیں اور ان سے معیشت میں ناہموار یاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح ان تمام چیزوں کی
پیداوار اور خریدو فروخت کو حرام قرار دیا ۔ جن سے معاشرہ کسی بد اخلاقی کا شکار
ہو، اور جس میں لوگو ں کے سفلی جزبات بھڑکا کر ناجائز طریقے سے آمدنی حاصل کرنے کا
راستہ پیدا کیا جائے۔
یہاں
یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ یہ خدائی پابندیاں قرآن و سنت کے ذریعے عائد کی گئی
ہیں۔انہیں اسلام نے انسان کی ذاتی عقل پر نہیں چھوڑا کہ اگر اسکی عقل مناسب سمجھے
تو یہ پابندی کردے اور اگر مناسب نہ سمجھے تو عائد نہ کرے۔
اس
کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کرنے کیلئے بسا اوقات
انسانوں کی عقلوں میں تفاوت اور اختلاف ہوتا ہے ۔ ایک انسان کی عقل ایک چیز کو
اچھا اور دوسرے انسان کی عقل اس کو برا سمجھ سکتی ہے۔ لہٰذا اگر ان پابندیوں کو
بھی محض عقل انسانی کے حوالے کیا جاتا تو اس بات کا امکان تھا کہ لوگ ان پابندیوں
کو اپنی عقل کی روشنی میں نامناسب قرار دے کر معاشرے کو ان سے آزاد کر دیتے ۔
اور
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم میں یہ پابندیاں ہر زمانے اور ہر جگہ کیلئے
ضروری تھیںاس لئے ان کو وحی کے ذریعہ ابدی حیثیت دی گئی ، تاکہ انسان اپنی عقلی
تاویلات کے سہارے ان سے چھٹکارا حاصل کرکے معیشت اور معاشرے کو نا ہموار یوں میں
مبتلا نہ کرسکے ۔
یہی
سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خدائی پابندیاں جو قرآن و سنت نے عائد کی ہیں ، بہر
صورت واجب العمل ہیں ،خواہ انسان کو ان کی عقلی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
جیسا
کہ گذشتہ سطورمیں عرض کیا گیا ہے کہ موجودہ دور میں بیشتر سرمایہ دار ممالک بھی
ذاتی منافع کے محرک پر کچھ نہ کچھ پابندیاں ضرور عائد کرتے ہیں ،لیکن وہ پابندیاں
چونکہ وحی الٰہی سے مستفید نہیں ہوتیں ، اس لئے وہ متوازن معیشت کے قیام کیلئے
کافی نہیں ہوتیں ۔ چنانچہ ان سرمایہ دار ملکوں میں کہیں بھی سود، قمار اور سٹہ
وغیرہ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ۔ جو معاشی ناہمواریوں کا بہت بڑا سبب ہیں
۔
۲۔ریاستی پابندی:
مذکورہ
خدائی پابندیاں تو ابدی نوعیت کی تھیں، انہی کے ساتھ اسلامی شریعت نے حکومت وقت کو
یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ کسی مصلحت کے تحت کسی ایسی چیز یا ایسے فعل پر بھی
پابندی عائد کرسکتی ہے جو بذات خود حرام نہیں بلکہ مباحات کے دائرے میں آتی ہے،
لیکن اس سے کوئی اجتماعی خرابی لازم آتی ہے ۔ یہ پابندی ابدی نوعیت کی نہیں ہوتی
جو ہر زمانے میں اورہر جگہ نافذ العمل ہو، بلکہ اس کی حیثیت وقتی حکم کی ہوتی ہے
،جو وقتی مصلحت کے تابع ہوتا ہے ۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ فقہائے کرام نے
لکھا ہے کہ جب ہیضے کی وبا پھوٹ رہی ہوتو حکومت یہ پابندی لگا سکتی ہے کہ خربوزے
کی خرید و فروخت اور اس کا کھانا ممنوع ہے ۔
جب
تک حکومت کی طرف سے عائد کردہ یہ پابندی باقی رہے ، اس وقت تک خربوزہ کھانا اور اس
کا بیچنا شرعاََ بھی ناجائز ہوجائے گا۔ اسی طرح اصول فقہ میں سدّ ذرائعکے نام سے ایک مستقل باب ہے ۔ جس کا
مطلب یہ ہے کہ اگر ایک کام فی نفسہ جائز ہو لیکن اس کی کثرت کسی معصیت یا مفسدے کا
سبب بن رہی ہوتو حکومت کیلئے جائز ہے کہ اس جائز کو بھی ممنوع قرار دیدے۔
اس
اصول کے تحت حکومت تمام معاشی سرگرمیوں کی نگرانی کر سکتی ہے اور جن سرگرمیوں سے
معیشت میں ناہمواری پیدا ہو نے کا اندیشہ ہو، ان پر مناسب پابندی عائد کرسکتی ہے ۔
کنز العمال میں روایت ہے کہ حضرت فاروق اعظم ؓ ایک مرتبہ بازار میں آئے تو دیکھا
کہ ایک شخص کوئی چیز اس کے معروف نرخ سے کم داموں فروخت کررہا ہے۔ آپ نے اس سے
فرمایا کہ :
اما
ان تذید فی السعر ، و اما ترفع عن سوقی
یا
تو دام میں اضافہ کرو ، ورنہ ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ
روایت
میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے کس وجہ سے اس پر پابندی لگائی ، ہوسکتا
ہے کہ وجہ یہ ہو کہ وہ متوازن قیمت سے بہت کم قیمت لگا کر دوسرے تاجروں کیلئے جائز
نفع کا راستہ بند کررہا ہو ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پابندی کی وجہ یہ ہو کہ کم
قیمت پر مہیا ہونے کی صورت میں لوگ اسے ضرورت سے زیادہ خرید رہے ہوں۔جس سے اسراف
کا دروازہ کھلتا ہو، یا لوگوں کیلئے ذخیرہ اندوزی کی گنجائش نکلتی ہو، بہر صوارت
قابل غور بات یہ ہے کہ اصل شرعی حکم یہ ہے کہ ایک شخص اپنی ملکیت کی چیز جس دام پر
چاہے فروخت کرسکتا ہے ، لہٰذا کم قیمت پر بیچنا فی نفسہ جائز تھا ۔لیکن کسی
اجتماعی مصلحت کی وجہ سے حضرت عمر ؓ نے اس پر پابندی عائد کی ۔
اس
قسم کی ریاستی پابندیوں کے واجب التعمیل ہونے کامأخذ قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے :
یا
ایھاالذین امنوااطیعوااللّٰہ و اطیعوالرسول واولی الامرمنکم
اے
ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی ، اور اپنے میں سے با اختیار لوگوںکی
اطاعت کرو
اس
آیت میں اولی الامر( بااختیار افراد) کی اطاعت کو اللہ اور رسول کی اطاعت سے الگ
کر کے ذکر کر گیا ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ جن چیزوں میں قرآن و سنت نے کوئی معین
حکم نہیں دیا ، ان میں اولی الامر کے احکام واجب التعمیل ہیں۔
یہاں
یہ بات واضح رہنا چاہئے کہ حکومت کو مباحات پر پابندی عائد کرنے کا اختیار غیر
محدود نہیں ہے ، بلکہ اس کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں ، جن کی تفصیل کا یہاں موقع
نہیں ، لیکن دو باتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ایک یہ کہ حکومت کا وہی حکم واجب
التعمیل ہے جو قرآن و سنت کے کسی حکم سے متصادم نہ ہو ، اور دوسرے یہ کہ حکومت کو
اس قسم کی پابندی عائد کرنے کا اختیار صرف اس وقت ملتا ہے جب کوئی اجتماعی مصلحت
اس کی داعی ہو، چنانچہ ایک مشہور فقہی قاعدے میں اس بات کو اس طرح تعبیر کیا گیا
ہے کہ :
تصرف
الامام بالرعیة منوط بالمصلحة
عوام
پر حکومت کے اختیارات مصلحت کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں
لہٰذا
اگر کوئی حکومت کسی اجتماعی مصلحت کے بغیر کوئی پابندی عائد کرے تو یہ پابندی جائز
نہیں، اور قاضی کی عدالت سے اس کو منسوخ کرایا جاسکتا ہے ۔
۳۔اخلاقی پابندیاں:
جیسا
کہ گذشتہ سطر میں عرض کیا گیا ہے کہ اسلام ٹھیٹ معنوں میں کسی معاشی نظام کا نام
نہیں بلکہ ایک دین کا نام ہے ، اس دین کی تعلیمات اور احکام زندگی کے دوسرے شعبوں
کی طرح معیشت سے بھی متعلق ضرور ہیں ۔ لیکن اس دین کی تعلیمات میں یہ بات قدم قدم
پر واضح کی گئی ہے کہ معاشی سرگرمیاں اور ان سے حاصل ہونے والے مادی فوائد انسان
کی زندگی کا منتہائے مقصود نہیں ہے ۔ قرآن و سنت کا تمام تر زور اس بات پر ہے کہ
دنیاوی زندگی ایک محدود اور چند روزہ زندگی ہے اور اس کے بعد ایک ایسی ابدی زندگی
آنیوالی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں اور انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنی دنیاوی
زندگی کو اس آخرت کی زندگی کیلئے زینہ بنائے اور وہاں کی بہبود کی فکر کرے لہٰذا
انسان کی اصل کامیابی یہ نہیں کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں چار پیسے زیادہ کمائے ،
بلکہ اس کی کامیابی یہ ہے کہ وہ آخرت کی ابدی زندگی میں زیادہ سے زیادہ عیش و آرام
کا انتظام کرے ، جس کا راستہ یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے وہ کام کرے جو اس کیلئے
زیادہ سے زیادہ اجرو ثواب کا موجب ہو۔
جب
یہ ذہنیت افراد میں پیدا ہوجاتی ہے تو ان کے معاشی فیصلوں پر اثر انداز ہونیوالی
وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ کونسی صورت میں ہماری تجوری زیادہ بھر ے گی۔بلکہ اکثر
اوقات ان کے معاشی فیصلے اس بنیاد پر بھی ہوتے ہیں کہ کون سے کام میں مجھے آخرت
میں زیادہ فائدہ حاصل ہوگا؟ اس طرح بہت سے معاملات میں شریعت نے کوئی وجوبی حکم (Mandatory order)تو نہیں دیا،
لیکن کسی خاص بات کے اخروی فضائل بیان فرمائے ہیں جو ایک مومن کیلئے بہت بڑی کشش
کا ذریعہ ہیں اور ان کے بتوسط انسان خود اپنے اوپر بہت سی پابندیاں عائد کر لیتا
ہے ۔ اخلاقی پابندیوں سے میری مراد اسی قسم کی پابندیاں ہیں۔
اس
کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس سرمایہ کاری کیلئے دو راستے ہیں
، ایک یہ کہ وہ اپنا سرمایہ کسی جائز تفریحی مگر تجارتی منصوبے میں لگائے جس میں
اس کو زیادہ آمدنی کی توقع ہو، اور دوسرا یہ کہ وہ سرمایہ بے گھر لوگوں کیلئے سستے
مکان تعمیر کرکے فروخت کرنے میں صرف کرے ، جس میں اسے نسبتاََ کم منافع کی توقع ہے
تو ایک سیکولر ذہنیت کا حامل شخص یقیناََ پہلے راستے کو اختیار کرے گا، کیونکہ اس
میں منافع زیادہ ہے ، لیکن جس شخص کے دل میں آخرت کی فکر بسی ہو ۔ وہ اس کے برعکس
یہ سوچے گا کہ اگر چہ رہائشی منصوبے میں مالی نفع نسبتاََ کم ہے ، لیکن میں غریب
لوگوں کیلئے رہائشی مکان فراہم کرکے اپنے لیے آخرت میں اجرو ثواب زیادہ حاصل کر
سکتا ہوں ، اس لئے مجھے تفریحی منصوبے کے بجائے رہائشی منصوبے کو اختیار کرنا
چاہئے ۔
یہاں
اگرچہ دونوں راستے شرعی اعتبار سے جائز تھے ، اور ان میں سے کسی پر کوئی ریاستی
پابندی بھی عائد نہیں تھی، لیکن عقیدہ آخرت پر مبنی اخلاقی پابندی نے لوگوں کی
ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس شخص کے دل میں ایک اندرونی رکاوٹ پیدا کردی ، جس سے
ترجیحات کا بہتر تعین اور وسائل کی بہتر تخصیص عمل میں آئی۔ یہ ایک چھوٹی سے مثال
ہے ، لیکن اگر واقعتاََ اسلام کا عقیدہ آخرت دل میں پوری طرح جاگزیں اور مستحضر
ہوتو وہ معاشی فیصلوں کی بہتری میں بہت زبردست کردار ادا کرتا ہے ۔
مجھے
اس سے انکا ر نہیں کہ غیر اسلامی معاشروں میں بھی اخلاق کا ایک مقام ہے ۔ اور بعض
مرتبہ اخلاقی نقطہءِ نظر معاشی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ، لیکن چونکہ ان
اخلاقی تصورات کی پشت پر آخرت کا مضبوط عقیدہ نہیں ۔ اس لیئے وہ بحیثیت مجموعی
معیشیت کے اوپر کوئی بہت نمایاں اثرات نہیں چھوڑتا ، اس کے بر خلاف اسلام اپنی
تمام تعلیمات کے ساتھ بماقم و کمال نافذ العمل ہوتو اس کی اخلاقی تعلیمات کا اثر
معیشیت پر بہت نمایاں ہوگا، جیسا کہ ماضی میں ان کی بے شمار جیتی جاگتی مثالیں
سامنے آچکی ہیں ۔ لہٰذا اخلاقی پابندیوں کا یہ عنصر ٹھیٹ اسلامی معیشیت کے تناظر
میں کسی بھی طرح کوئی کمزور عنصر نہیں ، بلکہ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔
مختلف
نظامہائے معیشت میں دولت کی پیدائش و تقسیم:
اب
تک جو بحث کی گئی ، وہ معیشیت کے بارے میں بنیادی نظریاتی بحث تھی ۔ اب میں
مختصراََ اس موضوع پر گفتگو کرنا چاہت اہوں کہ مختلف نظامہائے معیشت کے جو بنیادی
نظریات پیچھے بیان کیے گئے ، ان پر عمل کرنے کیلئے ہر نظام معیشت کیا طریقہ کار
اختیار کرتا ہے؟ اس طریقہ کار کو عموماََ علم معاشیات میں چار عنوانات کے تحت بیان
کیا جاتا ہے ۔
۱۔پیدائشی دولت:
اس
عنوان کے تحت ان مسائل سے بحث ہوتی ہے جو دولت کی پیداوار سے متعلق ہیں یعنی یہ
بتایا جاتا ہے کہ ہر نظام معیشت کے تحت پیداوار حاصل کرنے کیلئے کیا طریقے اختیار
کیے جاتے ہیں ؟ اس میں افراد، اداروں اور حکومت وغیرہ کا کیا کردار ہوتا ہے ؟اس
عنوان کا عربی فام انتاج الثروة ہے۔
۲۔تقسیم دولت:
اس
عنوان کے تحت اس بات سے بحث ہوتی ہے کہ حاصل شدہ پیداوار کو اس کے مستحقین کے
درمیان کس طریقہ کار سے تقسیم کیا جائے؟ اس کو عربی میں توزیع الثروة کہتے ہیں۔
۳۔مبادلہءِ دولت:
اس
عنوان کے تحت ان طریقوں سے بحث کی جاتی ہے جو لوگ ایک چیز کے بدلے دوسری چیز حاصل
کرنے کیلئے اختیار کرتے ہیں اس عنوان کو عربی زبان میں مبادلہ الثروة کہتے ہیں۔
۴۔صرف دولت:
اس
عنوان کے تحت حاصل شدہ پیداوار یا دولت کو خرچ کرنے سے متعلق مسائل سے بحث ہوتی ہے
۔ اس کو عربی میں استھلاک الثروة کہا جاتا
ہے ۔ جہاں تک مبادلہ دولت اور صرف دولت کا تعلق ہے ، میں فی الحال ان عنوانات کو
نظر انداز کرتا ہوں۔البتہ پیدائش دولت اور تقسیم دولت کے بارے میں چند بنیادی
باتیں اشتراکیت ، سرمایہ داری اور اسلام کے تقابلی مطالعے کیلئے ضروری ہیں ، ان کو
مختصراََ بیان کرنا پیش نظر ہے ۔
پیدائش
اور تقسیم کا سرمایہ دارانہ نظریہ :
سرمایہ
دارانہ نظام میں یہ بات ایک مسلمہ کے طور پر طے شدہ ہے کہ کسی بھی چیز کی پیداوار
میں چار عوامل کار فرما ہوتے ہیں، جن کو اردو میں عوامل پیداواراور عربی میں عوامل
الانتاج اور انگریزی میں Factory
of productionکہتے ہیں ۔
۱۔ زمین:(Land)
اس
سے مراد قدرتی عاملِ پیدائش ہے ۔جو براہِ راست اللہ کی تخلیق ہے ، اور اس کے پیدا
کرنے میں کسی انسانی عمل کا کوئی دخل نہیں۔
۲۔ محنت:(Labour)
اس
سے مراد وہ انسانی عمل ہے جس کے ذریعے کوئی نئی پیداوار وجود میں آتی ہے ۔
۳۔سرمایہ :(Capital)
اس
کی تعریف سرمایہ دارانہ نظام میں یہ کی گئی ہے کہ سرمایہ پیدا کردہ عاملِ پیدائش (Produced Factor of Production)کا نام
ہے ۔اس تعریف کو ذرا وضاحت کے ساتھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ سرمایہ وہ عاملِ پیداوار
ہے جو قدرتی نہ ہو۔بلکہ کسی عملِ پیدائش کے نتیجے میں پیدا ہواور اس کے بعد کسی
اگلے عملِ پیدائش میں استعمال ہورہا ہو۔
۴۔ آجر:(Entrepreneur)
اس
سے مراد وہ شخص یا ادارہ ہے جو کسی عملِ پیدائش کا محرک ہوتاہے ، اور مذکورہ بالا
تین عواملِ پیداوار کو جمع کرکے انہیں پیدائش کے عمل میں استعمال کرتا ہے اور نفع
و نقصان کا خطرہ مول لیتا ہے ۔سرمایہ دارانہ نظریہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں پیدائش
کا عمل ان چار عوامل کی مشترکہ کاروائی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔اگرچہ بعض اوقات عوامل
ایک ہی شخص کی ذات میں بھی جمع ہوجاتے ہیں ، یعنی وہی زمین فراہم کرتا ہے ، وہی
محنت کرتا ہے ، اور وہی سرمایہ فراہم کرتا ہے ۔ لیکن بڑے پیمانے کی صنعتوں میں
عموماََ چا روں عوامل الگ الگ شخصیت میں ظاہر ہوتے ہیں ، اور چونکہ پیداوار ان کے
اشتراک سے عمل میں آتی ہے ۔ لہٰذا حاصل شدہ پیداوار کے مستحق بھی یہی ہیں۔ چنانچہ
تقسیمِ دولت کا سرمایہ دارانہ نظریہ یہ ہے کہ زمین کو لگان یا کرایہ(Rent)ملنا چاہئے ، محنت کو اجرت(Wages)،سرمائے کو سود (Interest)اور آجر کو نفع(Profit)۔ ان میں سے تقسیم کی پہلی تین مدات یعنی
کرایہ، اجرت اور سودپہلے سے متعین ہوتی ہیں۔
اور
ان کا تعین رسد و طلب کی بنیاد پر ہوتا ہے ، جس کی تشریح پیچھے گزر چکی ہے ، البتہ
تقسیم کی چوتھی مد یعنی منافع کاروبار شروع کرتے وقت متعین طور سے معلوم نہیں ہوتا
، بلکہ اس کا تعین کاروبار کے نتیجہ خیز ہونے کے بعد ہوتا ہے ، یعنی پہلی تین مدات
دولت تقسیم کرنے کے بعد جو کچھ بچے ، وہ آجر کا منافع ہوتا ہے۔
اشتراکی
نظام میں پیدائش و تقسیم :
اشتراکیت
کا کہنا یہ ہے کہ حقیقاََ عواملِ پیداوار چار نہیں ، بلکہ صرف دو ہیں ۔ ایک زمین
اور دوسرا محنت ، انہی دونوں کے اشتراک سے پیداوار وجود میں آتی ہے۔ سرمائے کو اس
لئے عاملِ پیداوار نہیں کہہ سکتے کہ وہ خود کسی عملِ پیدائش کا نتیجہ ہوتا ہے ۔
اور آجرکو اس لئے مستقل عاملِ پیداوار قرار دینے کی ضرورت نہیں کہ اس کاعمل محنت
میں داخل ہوسکتا ہے ۔ دوسرے خطرہ مول لینے کی صفت کسی شخص یا پرائیویٹ ادارے میں
تسلیم کرنے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ یہ کام اشتراکی نظام میں حکومت کرتی ہے ،
افراد کو کاروباری مہم جوئی کی نہ اجازت ہے اور نہ ضرورت ہے ۔
چونکہ
اشتراکی نظام میں حقیقی عاملِ پیداوار صرف زمین اور محنت ہیں ، زمین کسی کی شخصی
ملکیت نہیں ہوتی ۔ اس لئے اس کو الگ سے معاوضہ دینے کی ضرورت نہیں ، لہٰذا تقسیم
دولت کی صرف ایک مدرہ جاتی ہے ، اور وہ ہے اجرت ، جس کا تعین سرکاری منصوبہ بندی
کے تحت ہوتا ہے ۔ کارل مارکس کا مشہور نظریہ ہے کہ کسی چیز کی قدر میں اضافہ صرف
محنت سے ہوتا ہے ۔اس لئے اجرت کا استحقاق صرف محنت کوہے ، سرمائے کا سود، زمین کا
لگان اور آجر کا نفع ایک فالتو چیز ہے ، جسے مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ اس
نظریے کو قدرے زائد کا نظریہ(Theory
of surplus value)کہا جاتا ہے ۔ اور اس کا عربی نام نظریہ
القدر ہے ۔
اسلامی
تعلیمات:
قرآن
و سنت میں پیدائشِ دولت اور تقسیم دولت پر اس انداز سے تو گفتگو نہیں کی گئی، جس
طرح کسی معاشیات کی کتاب میں کی جاتی ہے ۔لیکن معیشت کے مختلف ابواب میں قرآن وسنت
نے جو احکام عطا فرمائے ہیں ، ان پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام
میں سرمایہ (capital)اور آجر(Entrepreneur)کی تفریق کو تسلیم نہیں کیا گیا ، سرمایہ دارانہ نظام میں
کاروبار کے نفع و نقصان کا خطرہ آجر پر ڈالا گیا ہے اور سرمائے کو متعین شرح سے
سود دیا جاتا ہے ۔ اسلام میں چونکہ سود حرام ہے ، اس لئے نفع و نقصان کا خطرہ خود
سرمایہ دار پر عائد ہوتا ہے ، لہٰذا ہر وہ شخص جو کسی کاروبار میں سرمایہ کاری
کررہا ہو، اسے نفع کی امید کے ساتھ نقصان کا خطرہ بھی مول لینا پڑے گا ۔ اس طرح یا
تویوں کہا جائے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے اگرچہ سرمایہ اور آجر الگ الگ عاملِ
پیدائش ہیں لیکن سرمایہ فراہم کرنے والا ہر فرد چونکہ خطرہ بھی مول لیتا ہے ،اس
لئے وہ جزوی یا کلی طور پر آجر بھی ہے اور تقسیمِ دولت میں سرمائے اور آجر دونوں
کا صلہ منافع ہے ۔ یا یوں کہا جائے کہ سرمایہ اور آجر دو الگ الگ عاملِ پیداوار
نہیں، بلکہ یہ ایک ہی عامل ہے اور تقسیمِ دولت میں اس کو منافع ملتا ہے ۔ بہر صورت
جس طرح زمین کو متعین کرایہ اور محنت کو متعین اجرت دی جاتی ہے ، اسی طرح سرمائے
کو متعین سود نہیں دیاجاسکتا ، سرمایہ دارانہ نظام کو زمین پر قیاس کیا جاتا ہے کہ
جس طرح زمین فراہم کرکے ایک شخص متعین کرایہ وصول کر سکتا ہے ، اسی طرح سرمایہ
فراہم کرکے متعین سود بھی وصول کرسکتا ہے ، لیکن اسلامی احکام کی رو سے یہ قیاس
درست نہیں ، صورتِ حال یہ ہے کہ زمین اور سرمائے میں مندرجہ ذیل تین وجود سے
زبردست فرق پایا جاتا ہے ۔
۱۔ زمین بذاتِ خود ایک قابلِ انتفاع چیز ہے ، اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے
اسے خرچ کرنا نہیں پڑتا ، بلکہ اس کا وجود بر قرار رکھتے ہوئے اسے عاملِ پیدائش کی
طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ، اور اس سے دوسرے فوائد بھی حاصل کئے جاسکتے
ہیں ۔ لہٰذا اس کا کرایہ در حقیقت ان فوائد کا معاوضہ ہے جو زمین براہِ راست دے
رہی ہے ۔اس کے برعکس سرمایہ یعنی روپیہ ایسی چیز ہے جو بذاتِ خود قابلِ انتفاع
نہیں ، وہ اس وقت تک انسان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک اسے خرچ کرکے اس کے
بدلے کوئی قابلِ انتفاع چیز خرید نہ لی جائے ۔ لہٰذا جس نے کسی کو روپیہ فراہم کیا
، اس نے کوئی ایسی چیز فراہم نہیں کی جو براہِ راست قابلِ انتفاع ہو، لہٰذا اس پر
کرایہ وصول کرنے کا سوال نہیں، کیونکہ کرایہ اس چیز کا ہوتا ہے جس سے اس کا وجود
بر قرار رکھتے ہوئے فائدہ اٹھایا جائے ۔
۲۔زمین ،مشینری ، آلات وغیرہ ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے استعمال سے
ان کی قدر میں کمی ہوتی ہے ، اس لئے ان چیزوں کو جتنا زیادہ استعمال کیا جائیگا ،
ان کی قدر اتنی ہی گھٹتی جائیگی، لہٰذا ان چیزوں کا جو کرایہ وصول کیا جاتا ہے اس
میں قدر کے نقصان کی تلافی بھی شامل ہوتی ہے اس کے بر خلاف روپیہ ایسی چیز ہے کہ
محض استعمال سے اس کی قدر میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔
۳۔جب کوئی شخص اشیاءکو کرایہ پر دیتا ہے تو یہ چیزیں اس کے ضمان(Risk)میں نہیں ہوتیں بلکہ اصل مالک کے
ضمان میں ہوتی ہیں ۔مطلب اس کا یہ ہے کہ جب کوئی نقصان آسمانی آفت وغیرہ کی صورت
میں ہوجاتے ہیں تو اس کا ضمان کرایہ دار پر نہیں بلکہ اصل مالک پر آئے گا۔ جب وہ
نقصان کی ذمہ داری اٹھاتا ہے تو وہ بجاطور پر کرایہ کا بھی حقدار ہے۔ لیکن اگر
کوئی شخص کسی کو روپیہ قرض دیتا ہے تو اس کا ضمان (Risk)قرض دار کے ضمان میں چلا
جاتا ہے ۔ اب اگر روپیہ برباد ہوجائے تو نقصان کا ذمہ دار بھی قرض دار ہی ہوگا۔تو
جب قرض دینے والا اس کے کسی نقصان کی ذمہ داری نہیں لے سکتا تو پھر اس پر کسی
معاوضے کا حقدارکیسے ہوسکتاہے؟
خلاصہ
یہ ہے کہ اسلام میں نہ صرف سود کے اس فضول جوا جیسی بیماری کو ختم کردیا گیا ہے
بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ارتکاز دولت اور چند ہاتھوں تک دولت کو محدود رکھنے کی بھی
زبردست حوصلہ شکنی کی گئی ہے ۔
اس
کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دولت پر کسی کی ذاتی ملکیت ہی نہیں ہوسکتی ، جیسا کہ
اشتراکیت کا نظریہ ہے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اپنی دولت میں اللہ تعالیٰ کے مقرر
کردہ حقوق بھی ادا کرنے ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ دولت اللہ کا دیا ہوا خزانہ ہے تو
اللہ تعالیٰ نے اس پر جو حقوق مقرر کیے ہیں وہ بھی بخوبی ادا کرنے چاہئیں۔قرآن
کہتا ہے:
وفی
اموالھم حق معلوم، للسآئل والمحروم
اور
ان کے مالوں میں محتاج اور محروم کا معین حق ہے
اسی
طرح زرعی پیداوارمیں بھی :
واٰتوحقہ¾ یوم حصادہ
اور
کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو
اسلامی
تعلیمات میں اشتراکیت اور سرماداریت دونوں ذہنیتوں کی تردید ہے اور ان کی حصول
انتہا پسند انہ سوچ کی نفی ہے ۔
ملحض
از: اسلام اور جدید معیشت و تجارت ، مفتی محمدتقی عثمانی
اسلامی
نظام وقت کی پکار
آج
دنیا گھوم پھر کر پھر اسی دوراہے پر آپہنچی ہے جہاں اس صدی کے شروع میں کھڑی تھی
جس نظام سرمایہ داری کی ضد پر سوشلزم وجود میں آیاتھا وہی نظام پھر پوری دنیا پر
اب اکیلا دندنا رہا ہے۔ اقوام عالم کی بے چین نظریں پھر ایک ایسے نظام معیشت کی
تلاش میں ہیں جو انسانیت کو سرمایہ داری نظام کے جو روستم سے نجات دلا کر عمومی
خوشحالی، حقیقی انصاف ، چین و سکون اور عزت و تحفظ فراہم کرسکے۔
دنیا
اب تیزی سے بدل رہی ہے پورا کرہءِزمین ایک محلے کی سی شکل اختیار کرگیا ہے اور اس
پورے گلوب پر نظام سرمایہ داری اپنا جال جدید ترین آلات و وسائل کے ساتھ تیزی سے
پھیلا رہا ہے ۔ اورنیو ورلڈ آرڈر کا صور پوری قوت سے پھونک رہا ہے۔ اس نظام کی
خرابی نجی ملکیت(Private
Property)میں نہیں بلکہ نجی ملکیت کی خالص مادیت پر مبنی
اس غیر محدود آزادی میں ہے جس نے حلال و حرامکا فرق مٹاکر معاشی آزادی کے سارے
میدان سرمایہ داروں کیلئے خاص کردیئے ہیں ،بازار و تجارت اور پورے نظام معیشت پر
ان کی اجار ہ داری (Monopoly)قائم کرکے وسائل معاش پر پہرے بٹھادیتے ہیںاور عوام کو انہی کی
نوکری چاکری یا بے روزگاری پر مجبور کرکے ان پر مہنگائی کا ہمزاد مستقل طور پر
مسلط کیا ہوا ہوتا ہے۔
بازار
وتجارت اور ذرائع معاش کی یہ آزادیاں سود وقمار، سٹے خود غرضانہ آڑھت اور ذخیرہ
اندوزی کے چور دروازوں سے کس کس طرح سلب کی گئیں؟اور عوام پر رزق حلال کے دروازے
جو اسلام نے ان پر چوپٹ کھول رکھے تھے ۔کن کن راستوں سے تنگ کئے گئے ؟یہ سب کچھ
علما دین اور مسلم ماہرین معاشیات نے خوب کھول کھول کربتادیا ہے۔ اب اردو عربی اور
انگریزی زبانوں میں اس پر کافی لٹریچر موجود ہے جس میں وہ عملی منصوبہ بھی برسوں
کی کاوش کے نتیجے میں پیش کردیا گیا ہے جس کے تحت بینکنگ اور انشورنس کے پورے نظام
کو سود و قمار کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے بغیر چلا کر تقسیم دولت (Distribution of wealth)کے نظام
میں توازن پیدا کر سکتا ہے اور رفتہ رفتہ اسلام کا وہ عادلانہ فطری نظام معیشت
دنیا کے سامنے لایا جاسکتا ہے جو ارتکاز دولت(Concentration of wealth)کا ہر چور
دروازہ بند کردیتا ہے اور رسد و طلب(Demand
and Supply)پر سرمایہ داروں کی عائد کردہ پابندیوں کا
خاتمہ کرکے ایک خوشحال معیشت وجود میں لاتا ہے ، اور انسانوں کے سامنے جھکنے سے
نجات دلاکر انسانیت کو عمومی خوشحالی ، حقیقی انصاف، چین و سکون اور عزت و تحفظ
فراہم کرتا ہے نظام کتنا ہی بہتر کیوں نہ ہو اور اسے دلائل سے کتنا ہی واضح کیوں
نہ کردیا جائے، جب تک اسے میدان عمل میں لاکر نافذ نہ کیا جائے گا اور دنیا کو اسے
تجربات کی کسوٹی پر رکھنے کا موقع نہ ملے گا ، دنیا اس کی خوبیوں سے واقف ہوسکتی
ہے نہ وہ اپنے برگ وبار لاسکتا ہے، لہٰذا اس وقت جبکہ موجودہ نسل سوشلزم اور نظام
سرمایہ داری کے سنگین نتائج بھگت کر ان کی افراط و تفریط سے بیزار ہوچکی ہے ، عالم
اسلام کے حکمرانوں کیلئے نادر موقع ہے وہ احساس کمتری اور تقلید مغرب کی دلدل سے
نکلیں جس کے سہارے اسلام کی معتدل تعلیمات کی روشنی آزادی و خوشحالی پر ڈاکہ ڈالا
گیا ہے ۔اور دنیا کو دکھا دیں کہ اسلام جو اللہ کا آخری پیغام ہے اور امیر و غریب
سب کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ، وہ آج کے معاشی میدان میں بھی اپنا فطری
کردار کامیابی سے ادا کرسکتا ہے اور غریبوں کی دنیا بدل سکتی ہے ۔
بے
خبر !تو جو ہر آئینہ ایام ہے
تو
زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
دانشوران
عالم کیلئے لمحہ فکریہ :
بلکہ
ہم تو پوری خیر خواہی کے ساتھ مغرب کے ان دانشور مفکرین اور ماہرین معاشیات کو بھی
دعوت دیتے ہیں جو انسانیت کا درد واقعی اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور ہر قسم کے
تعصبات سے بالاتر ہوکر خالص فنی بنیادوں پر موجودہ نظام کی خرابیوں کا علاج کرنا
چاہتے ہیں کہ وہ اسلام کی جو صرف ایک مذہب نہیں بلکہ دین ہے ، معاشی تعلیمات کا
گہرائی ے ساتھ ، بلکہ تنقیدی جائزہ لیں۔ ان کے مقاصد اور منطقی نتائج کو سمجھنے کی
کوشش کریں۔ اور اس میں محقق علمائے دین اور مسلم ماہرین معاشیات سے مشترکہ تعاون
حاصل کریں ۔ قوی امید ہے کہ خالص فنی تحقیق اور معروضی حقائق کی روشنی میں بھی وہ
بھی اسی نتیجے پر پہنچےں گے کہ موجودہ معاشی بگاڑ کا اگر کوئی متوازن حل انسانیت
کے مقدر میں ہے تو وہ صرف ان تعلیمات ہی سے حاصل کیا جا سکتاہے ۔
مزدکی
ہوکہ فرنگی ، ہوس خام میں ہے
امن
عالم تو فقط دامن اسلام میں ہے
موجودہ
خدا بیزار ظالمانہ نظام کے خلاف ایک بیتاب انقلابی لہر جنم لے چکی ہے ۔ جس کے واضح
آثار نہ صرف عالم اسلام میں بلکہ مغربی ممالک میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس امید
افزاالہر کو سنجیدہ و محقق علمائے دین کی رہنمائی ، اور مسلم حکمرانوں کی دستگیری
کی ضرورت ہے ، اگر اسے اسلام کی حقیقی منزل کی طرف بڑھنے سے روکا گیا یا یوں ہی بے
مہار چھوڑ دیا گیا تو یہ سنجیدہ قیادت کے قابو سے باہر ہو جائیگی اور مذہب کے نام
پر انارکی اور لاقانونیت کا راستہ اختیار کرے گی اس کے آثار بھی آج کئی ممالک میں
دیکھے جاسکتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بے قابو ہوکر دنیا کو پھر سوشلز م جیسے
انتہاپسندانہ انقلاب سے دوچار کر ڈالے ۔
موجودہ
بگاڑ کا شافی حل، اسلامی حل وقت کی پکار ہے ، جو لوگ وقت کی پکار پر کانوں میں
انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں،وقت کا بے رحم سیلاب انہیں خس و خاشاک کی طرح بہالے جایا
کرتاہے۔یہ تاریخ کا ایک سبق ہے ، جو سیاستدانوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے اور
حکمرانوں کو بھی ۔ واللّٰہ المستعان وعلیہ التکلان۔
کتابیات
1۔قرآن مجید۔
2۔کتب احادیث حسب ضرورت۔
3۔انعام الباری، مفتی محمد تقی عثمانی
صاحب۔مکتبہ الحرائ2011
4۔اسلام اور جدید معیشت ، مفتی محمد تقی
عثمانی صاحب، مکتبہ معارف القرآن 2010
5۔اسلام کا نظام تقسیم دولت،کراچی1968
6۔انور اقبال قریشی، اسلام اور
سود،لاہور1971
7۔اسلام کے معاشی نظریے،محمد یوسف الدین ،
الائیڈ بک کمپنی1984
8۔اسلام کا اقتصادی نظام ، حفظ الرحمٰن
سیوہارویؒ، ادارہ اسلامیات، لاہور1984
9۔سید ابو الاعلیٰ مودودی، قرآن کے معاشی
نظریات،لاہور،1987
10۔اسلام کا نظام بیت المال،مولانا محمد
بخش مسلم،مکتبہ خاور، لاہور،1972
11۔اسلام کا نظریہ ملکیت ، ڈاکٹر نجات اللہ
صدیقی، اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ، لاہور،1989
12۔اسلامی ریاست کا مالیاتی نظام، رفیع اللہ
شہاب، اسلام آباد،1973
13۔بینکوںکی دہشت گردی، بل اسٹل
14۔سوشلزم ، وحید الدین خان ، مکتبہ قاسم
العلوم،1985
15۔سرمایہ دارانہ نظام ،محمد احمد حفیظ،
الغزالی پبلشرز،2009
16۔سید یعقوب علی شاہ،چند معاشی مسائل اور
اسلام، لاہور،1967
17۔سید قطب شہید، مترجمہ ڈاکٹر نجات اللہ
صدیقی ،اسلام کی اقتصادی پالیسی، لاہور،1969
18۔سید ابو الاعلیٰ مودودی، قرآن کی معاشی
تعلیمات،لاہور،1984
19۔غیر سودی بنکاری ، نجات اللہ
صدیقی،لاہور،1969
20۔اسلام کا نظریہ سوداور بنکاری،شیخ محمد
احمد، لاہور،1960
21۔جعفر پھلواری ، کمرشل انٹرسٹ کی فقہی
حیثیت،لاہور،1950
22۔محمد اکرم خان ، آنحضرتﷺ کی معاشی
تعلیمات، اسلامیات،1989
23۔نور محمد غفاری، اسلام کا قانون تجارت،
لاہور،دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری۔
24۔متفرق رسائل و جرائد حسب ضرورت۔
27۔یورپ کے تین معاشی نظام مفتی محمد رفیع
عثمانی صاحب، مکتبہ، ادارة المعاروف،2012
26۔تفسیر معارف القرآن ۔ مفتی شفیع عثمانی
صاحب ؒ، مکتبہ ادارة المعارف2012
-27Syed Abdul
Quddus, Social Change in Pakistan, Lahore,1990
-28Dr, Anwar
Iqbal Qureshi, Economics Problems facing pakistan,1971
excellent topic
ReplyDelete