Friday, 4 September 2015

حق و باطل کا امتزاج

بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
حق و باطل کا امتزاج
تحریر: پرویز اقبال آرائیں
ارشادِ باری تعالٰی ہے: "وَلاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ" ترجمہ: اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ (2سورۃ البقرۃ، اٰیۃ نمبر42)
کتمان حق سے ممانعت: جان بوجھ کر حق کو چھپانے کے ہولناک جرم سے ممانعت : سو جان بوجھ کر حق کو چھپانے کا جرم ایک ہولناک جرم ہے - والعیاذ باللہ - کہ جان بوجھ کر حق کو چھپانا اور حق کو باطل کے ساتھ ملانا اور گڈ مڈ کرنا، دو ہرا جرم ہے، کہ اس میں اپنی محرومی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی حق سے محروم کرنا ہے۔ یعنی حق کو مت چھپاؤ اس حال میں کہ تم جانتے ہو کہ یہ حق ہے اور یہ باطل۔ اور یہ کہ حق کو چھپانا بڑا سنگین جرم ہے کہ ایسے میں کتمان حق یعنی حق کو چھپانا اور بھی سنگین جرم بن جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم - پس تم لوگ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) سے متعلق ان نعوت اور صفات کو مت چھپاؤ جن سے تم واقف و آگاہ ہو، اور جو ان سے متعلق تمہاری کتابوں میں موجود ہیں،۔ کہ اس طرح کر کے تم لوگ نور حق سے محروم ہونے اور محروم کرنے کے دوہرے جرم کے مرتکب ہوؤ گے جس کا انجام نہایت برا اور انتہائی ہولناک اور سنگین ہے - والعیاذ باللہ العظیم –
یہ بات اچھی طرح نوٹ کر لیجیے کہ مغالطے میں غلط راہ پر پڑ جانا ضلالت اور گمراہی ہے‘ لیکن جانتے بوجھتے حق کو پہچان کر اسے ردّ کرنا اور باطل کی روش اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ اسی سورۃ البقرۃ میں آگے چل کر آئے گا کہ علماءِ یہود محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اور قرآن کو اس طرح پہچانتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے: (یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ھُمْ ط) (آیت ۱٤٦) لیکن اس کے باوجود انہوں نے محض اپنی دنیوی مصلحتوں کے پیشِ نظر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور قرآن کی تکذیب کی۔
حق بات کو چھپانا یا اس میں خلط ملط کرنا حرام ہے:
آیت وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ الخ سے ثابت ہوا کہ حق بات کو غلط باتوں کے ساتھ گڈمڈ کرکے اس طرح پیش کرنا جس سے مخاطب مغالطہ میں پڑجائے جائز نہیں اسی طرح کسی خوف یا طمع کی وجہ سے حق بات کا چھپانا بھی حرام ہے مسئلہ واضح ہے اس میں کسی تفصیل کی ضرورت نہیں امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں حق کو چھپانے سے پرہیز کرنے کا ایک واقعہ اور مفصل مکالمہ حضرت ابو حازم تابعی اور خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کا نقل کیا ہے جو بہت سے فوائد کی وجہ سے قابل ذکر ہے،
حضرت ابو حازم تابعی سلیمان ابن عبد الملک کے دربار:
مسند دارمی میں سند کے ساتھ مذکور ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان بن عبد الملک مدینہ طیبہ پہنچے اور چند روز قیام کیا تو لوگوں سے دریافت کیا کہ مدینہ طیبہ میں اب کوئی ایسا آدمی موجود ہے جس نے کسی صحابی کی صحبت پائی ہو؟ لوگوں نے بتلایا ہاں ابوحازم ایسے شخص ہیں سلیمان نے اپنا آدمی بھیج کر ان کو بلوا لیا جب وہ تشریف لائے تو سلیمان نے کہا کہ اے ابوحازم یہ کیا بےمروتی اور بیوفائی ہے؟ ابوحازم نے کہا آپ نے میری کیا بےمروتی اور بیوفائی دیکھی ہے؟ سلیمان نے کہا کہ مدینہ کے سب مشہور لوگ مجھ سے ملنے آئے آپ نہیں آئے ابوحازم نے کہا امیر المؤ منین میں آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اس سے کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں جو واقعہ کے خلاف ہے آج سے پہلے نہ آپ مجھ سے واقف تھے اور نہ میں نے کبھی آپ کو دیکھا تھا ایسے حالات میں خود ملاقات کے لئے آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بیوفائی کیسی؟
سلیمان نے جواب سن کر ابن شہاب زہری اور حاضرین مجلس کی طرف التفات کیا تو امام زہری نے فرمایا کہ ابوحازم نے صحیح فرمایا آپ نے غلطی کی ،
اس کے بعد سلیمان نے روئے سخن بدل کر کچھ سوالات شروع کئے اور کہا اے ابوحازم یہ کیا بات ہے کہ ہم موت سے گھبراتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی آخرت کو ویران اور دنیا کو آباد کیا ہے اس لئے آبادی سے ویرانہ میں جانا پسند نہیں ۔
سلیمان نے تسلیم کیا اور پوچھا کہ کل اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کیسے ہوگی؟ فرمایا کہ نیک عمل کرنے والا تو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس طرح جائے گا جیسا کوئی مسافر سفر سے واپس اپنے گھر والوں کے پاس جاتا ہے اور برے عمل کرنے والا اس طرح پیش ہوگا جیسا کوئی بھاگا ہوا غلام پکڑ کر آقا کے پاس حاضر کیا جائے،
سلیمان یہ سن کر رو پڑے اور کہنے لگے کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کیا صورت تجویز کر رکھی ہے ابوحازم نے فرمایا کہ اپنے اعمال کو اللہ کی کتاب پر پیش کرو تو پتہ لگ جائیگا، سلیمان نے دریافت کیا کہ قرآن کی کس آیت سے یہ پتہ لگے گا ؟ فرمایا اس آیت سے، اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ ۚوَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِيْ جَحِيْمٍ (۱٤:۱۳:۸۲) یعنی بلاشبہ نیک عمل کرنے والے جنت کی نعمتوں میں ہیں اور نافرمان گناہ شعار دوزخ میں ،
سلیمان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو بڑی ہے وہ بدکاروں پر بھی حاوی ہے فرمایا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ (۵٦:۷) یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک عمل کرنے والوں سے قریب ہے، سلیمان نے پوچھا اے ابو حازم اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ کون عزت والا ؟ فرمایا وہ لوگ جو مروّت اور عقل سلیم رکھنے والے ہیں،
پھر پوچھا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ تو فرمایا کہ فرائض وواجبات کی ادائیگی حرام چیزوں سے بچنے کے ساتھ ،
پھر دریافت کیا کہ کونسی دعا زیادہ قابل قبول ہے؟ تو فرمایا کہ جس شخص پر احسان کیا گیا ہو اس کی دعا اپنے محسن کے لئے اقرب الی القبول ہے،
پھر دریافت کیا کہ صدقہ کونسا افضل ہے؟ تو فرمایا کہ مصیبت زدہ سائل کے لئے باوجود اپنے افلاس کے جو کچھ ہوسکے اس طرح خرچ کرنا کہ نہ اس سے پہلے احسان جتائے اور نہ ٹال مٹول کرکے ایذاء پہونچائے،
پھر دریافت کیا کہ کلام کونسا افضل ہے؟ تو فرمایا کہ جس شخص سے تم کو خوف ہو یا جس سے تمہاری کوئی حاجت ہو اور امید وابستہ ہو اس کے سامنے بغیر کسی رو رعایت کے حق بات کہہ دینا پھر دریافت کیا کہ کونسا مسلمان سب سے زیادہ ہوشیار ہے؟ فرمایا وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے تحت کام کیا ہو اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دی ہو،
پھر پوچھا کہ مسلمانوں میں کون شخص احمق ہے؟فرمایا وہ آدمی جو اپنے کسی بھائی کی اس کے ظلم میں امداد کرے جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اس نے دوسرے کی دنیا درست کرنے کے لئے اپنا دین بیچ دیا سلیمان نے کہا کہ صحیح فرمایا
اس کے بعد سلیمان نے اور واضح الفاظ میں دریافت کیا کہ ہمارے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، ابوحازم نے فرمایا کہ مجھے اس سوال سے معاف رکھیں تو بہتر ہے سلیمان نے کہا کہ نہیں آپ ضرور کوئی نصیحت کا کلمہ کہیں ۔
ابوحازم نے فرمایا اے امیر المؤ منین تمھارے آباء واجداد نے بزور شمشیر لوگوں پر تسلط کیا اور زبردستی ان کی مرضی کے خلاف ان پر حکومت قائم کی اور بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ اب وہ مرنے کے بعد کیا کہتے ہیں اور ان کو کیا کہا جاتا ہے،
حاشیہ نشینوں میں ایک شخص نے بادشاہ کے مزاج کے خلاف ابوحازم کی اس صاف گوئی کو سن کر کہا کہ ابوحازم تم نے یہ بہت بری بات کہی ہے ابوحازم نے فرمایا کہ تم غلط کہتے ہو بری بات نہیں کہی بلکہ وہ بات کہی جس کا ہم کو حکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علماء سے اس کا عہد لیا ہے کہ حق بات لوگوں کو بتلائیں گے چھپائیں گے نہیں لَتُبَيِّنُنَّهٗ للنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَهٗ (۱۸۳:۳) یہی وہ بات ہے جس کے لئے یہ طویل حکایت امام قرطبی نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں درج فرمائی ہے،
سلیمان نے پھر سوال کیا کہ اچھا اب ہمارے درست ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ فرمایا کہ تکبر چھوڑو مروّت اختیار کرو اور حقوق والوں کو ان کے حقوق انصاف کے ساتھ تقسیم کرو ۔
سلیمان نے کہا کہ ابوحازم کیا ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں فرمایا خدا کی پناہ سلیمان نے پوچھا یہ کیوں؟فرمایا کہ اس لئے کہ مجھے خطرہ یہ ہے کہ میں تمہارے مال ودولت اور عزت وجاہ کی طرف کچھ مائل ہوجاؤں جس کے نتیجہ میں مجھے عذاب بھگتنا پڑے،
پھر سلیمان نے کہا کہ اچھا آپ کی کوئی حاجت ہو تو بتلائیے کہ ہم اس کو پورا کریں ؟ فرمایا ہاں ایک حاجت ہے کہ جہنم سے نجات دلادو اور جنت میں داخل کردو، سلیمان نے کہا کہ یہ تو میرے اختیار میں نہیں فرمایا کہ پھر مجھے آپ سے اور کوئی حاجت مطلوب نہیں ،
آخر میں سلیمان نے کہا کہ اچھا میرے لئے دعا کیجئے تو ابوحازم نے یہ دعا کی یا اللہ اگر سلیمان آپ کا پسندیدہ ہے تو اس کے لئے دنیا وآخرت کی بہتری کو آسان بنا دے اور اگر وہ آپ کا دشمن ہے تو اس کے بال پکڑ کر اپنی مرضی اور محبوب کاموں کی طرف لے آ،
سلیمان نے کہا کہ مجھے کچھ وصیت فرمادیں ارشاد فرمایا کہ مختصر یہ ہے کہ اپنے رب کی عظمت وجلال اس درجہ میں رکھو کہ وہ تمہیں اس مقام پر نہ دیکھے جس سے منع کیا ہے اور اس مقام سے غیر حاضر نہ پائے جس کی طرف آنے کا اس نے حکم دیا ہے،
سلیمان نے اس مجلس سے فارغ ہونے کے بعد سو گنیاں بطور ہدیہ کے ابوحازم کے پاس بھجیں ابوحازم نے ایک خط کے ساتھ ان کو واپس کردیا خط میں لکھا تھا کہ اگر یہ سو دینار میرے کلمات کا معاوضہ ہیں تو میرے نزدیک خون اور خنزیر کا گوشت اس سے بہتر ہے اور اگر اس لئے بھیجا ہے کہ بیت المال میں میرا حق ہے تو مجھ جیسے ہزاروں علماء اور دین کی خدمت کرنے والے ہیں اگر سب کو آپ نے اتنا ہی دیا ہے تو میں بھی لے سکتا ہوں ورنہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ،
ابوحازم کے اس ارشاد سے کہ اپنے کلمات نصیحت کا معاوضہ لینے کو خون اور خنزیر کی طرح قرار دیا ہے اس مسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ کسی اطاعت وعبادت کا معاوضہ لینا ان کے نزدیک جائز نہیں۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حق و باطل کو خلط ملط کرنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں کتمانِ حق سے منع فرمایا ہے، ارشاد فرمایا : (اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ للنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ) [ البقرۃ : ۱۵۹ ] ’’بے شک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔‘‘
سیدنا براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے سے گزرا۔ حالت اس شخص کی (زنا کی پاداش میں) کچھ اس طرح تھی کہ اسے راکھ اور کوئلے سے سیاہ کیا گیا تھا اور وہ جسم پر کوڑے کھائے ہوئے تھا۔ یہ کیفیت دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہودیوں کو اپنے پاس بلا لیا اور فرمایا: ’’ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ یہودیوں نے کہا، جی ہاں ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے علمائے یہود میں سے ایک شخص کو بلا کر فرمایا: ’’میں تجھے قسم دیتا ہوں اس اللہ کی، جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل فرمائی ! تم یہ بتاؤ کہ کیا تمھاری کتاب میں زنا کی یہی حد ہے؟ ‘‘ یہودی عالم نے کہا، نہیں ! اگر آپ مجھے اللہ کی قسم نہ دیتے تو میں حق بات نہ کہتا ( مگر اب سچ کہنا ہی پڑے گا اور وہ یہ ہے کہ ) ہماری کتاب میں زنا کی حد تو ’’رجم‘‘ ہی ہے، لیکن جب ہمارے شرفا میں زنا بہت زیادہ پھیل گیا، تو پہلے یہ ہوا کہ جب ہمارے شرفا اور معززین جرم زنا میں پکڑے جاتے تو ہم انھیں چھوڑ دیتے اور جب کوئی غریب اور کمزور پکڑا جاتا تو ہم اس پر حد جاری کر دیتے۔ پھر ہم نے جمع ہو کر باہمی مشورہ سے طے کیا کہ امیر اور غریب کے لیے ایک درمیانی سزا مقرر کر لی جائے ( اور سب کو وہی سزا دی جائے ) چنانچہ پھر ہم نے ’’رجم‘‘ کے بدلے زنا کی سزا منہ کالا کرنا اور کوڑے لگانا مقرر کر لیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہودی عالم کی بات سنی، پھر کہا : ’’ اے اللہ! سب سے پہلے میں ہی تیرے حکم ’’رجم‘‘ کو زندہ کرتا ہوں، جبکہ ان لوگوں (یہودیوں) نے اسے مردہ کر ڈالا تھا۔‘‘ پھر آپ کے حکم سے یہودی مجرم کو رجم کیا گیا۔ [ مسلم، کتاب الحدود، باب رجم الیہود، أہل الذمۃ فی الزنٰی : ۱۷۰۰ ]
فہم القرآن: ربط کلام: بنی اسرائیل کو خطاب جا ری ہے ۔ دنیا کے فائدے کی خاطر حق و باطل کا التباس نہ کرو۔ بلکہ نماز کی صورت میں حقوق اللہ اور زکوٰۃ کی شکل میں حقوق العباد کا اہتمام کرتے ہوئے نماز میں رکوع کرتے ہوئے اسے جماعت کے ساتھ پڑھا کرو۔
بنی اسرائیل کے علماء اور سیاسی رہنما نہ صرف اپنے مفادات پر شریعت کے احکامات قربان کرتے بلکہ جو احکامات ان کی ’’ انا‘‘ گروہی مفادات اور سیاسی سوچ کے خلاف ہوتے ان کو ہر ممکن چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ بصورتِ دیگر اپنے دھڑے کی حمایت کی خاطر ان کی تاویلات کرتے ہوئے اس طرح اپنے عقیدے کے سانچے میں ڈھالتے اور اس طرح التباسِ حق و باطل کرتے کہ پڑھنے اور سننے والا آسمانی کتاب اور علماء کی فقہ‘ فتاو ٰی جات ، ذاتی نظریات کے بارے میں فرق نہیں کر سکتا تھا کہ ان میں تورات و انجیل کی اصل عبارت کونسی ہے۔ بلکہ وہ ان کے فروعی مسائل‘ فقہی تاویلات اور اصطلاحات کو بنیادی اور اصل دین تصور کرتا تھا۔ ان کے منصف مزاج لوگ اس بات کا کھلا اعتراف کرتے ہیں۔
عبداللہ بن سلام اور تورات۔۔ حدیث
چنانچہ ایک مسیحی فاضل لکھتا ہے:
Careful comparison of the Bibles published recently with the first and other early versions will show great differences; but by whose authority the sechanges havebeen made, no one seems to know. (J.R. Dore: op.cit., p.98)
’’ حال میں (یہ بات ۱۸۷٦ میں کہی گئی تھی) شائع ہونے والے بائبل کے نسخوں کا اگر پہلے اور ابتدائی نسخوں سے مقابلہ کیا جائے، تو ان میں بہت زیادہ اختلافات ظاہر ہوں گے۔ لیکن یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ یہ تبدیلیاں کس سند اور اختیار کی رو سے کی گئی ہیں۔‘‘
برنارڈ ایلن (Bernard M.Allen) نے درج ذیل تبصرہ اناجیل اربعہ پر کیا تھا‘ مگر یہی بات عہدِ عتیق اور بائبل کے دوسرے حصوں پر بھی صادق آتی ہے:
We have, therefore, no security that the narratives and sayings as given in the Gospels necessarily represent what actually happened or what was actually said. (B.M. Allen: op. cit., p.9)
’’ہمارے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اناجیل میں دیے ہوئے واقعات و اقوال لازماً وہی کچھ پیش کرتے ہیں جو حقیقت میں واقع ہوا اور جو کہا گیا تھا۔‘‘ [عیسائیت تجزیہ ومطالعہ]
حق چھپانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے:
(إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ م بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ للنَّاسِ فِي الْکِتَابِ أُولٰٓءِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ o) [البقرۃ:۱۵۹]
’’یقینا جو ہم نے واضح دلائل اور ہدایت نازل کرنے کے بعد اسے لوگوں کے سامنے بیان کردیا جو لوگ اسے چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتاہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔‘‘
صحابہ کرام (رض) کی خدا خوفی یہ تھی کہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے یقین جانیے کہ اگر قرآن مجید میں یہ دو آیات (البقرۃ:۱۵۹ و ۱۷٤) نہ ہوتیں تو میں تمہیں کبھی کچھ بیان نہ کرتا۔ (رواہ البخاری: کتاب العلم ، باب حفظ العلم)
ف 153۔ (کلام الہی میں لفظی یا معنوی تحریف کرکے) (آیت) ’’ لاتلبسوا ‘‘ تلبیس کے اصلی معنی ہیں کسی چیز کو ڈھانپ لینا ، چھپالینا ۔ واصل اللبس ستر الشئی (راغب) ادھوری بات کہنا کہ مطلب کچھ کا کچھ ہوجائے ، یاجھوٹ کو لفظی اور ظاہری سچائی کا رنگ دے دینا ، بعض اوقات بالکل گھڑے ہوئے جھوٹ سے کہیں بڑھ کر دھوکے اور مغالطہ کا سبب بن جاتا ہے ۔ اسی سے ملتی جلتی ہوئی شے کا نام آج کی اصطلاح میں پروپیگنڈہ ہے ۔ موجودہ فرنگیوں کی طرح یہود بھی اس فن میں استاد رہ چکے ہیں ۔
ف 154۔ احکام الہی کو بدل دینے کی ممکن صورتیں دو ہیں ۔ ایک ان میں اندرونی تحریف ، تلبیس وتخلیط ۔ دوسرے ان کا سرے سے اخفاوکتمان ۔ یہود نے اپنے دینی صحیفوں میں دونوں طرح کے عمل جاری کررکھے تھے ۔ توریت کے مکرر تلف ہوجانے سے اول تو یوں ہی کتنے احکام سرے سے غائب اور گم ہوگئے تھے ۔ پھر جو باقی رہ گئے تھے ، انہیں حاملان توریت نے اپنے اپنے اغراض ومصالح کے ماتحت خدا معلوم کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا ۔
ف 155۔ (کہ تم تلبیس وکتمان کے مرتکب ہورہے ہو) یعنی تحریف تمہارے ارادہ واختیار سے باہر نہیں ، دیدہ دانستہ تمہارے علم کے اندر ہورہی ہے ۔ فی حال علمکم انکم لا بسون کاتمون (کشاف) یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ تم اپنے ان اعمال تلبیس وکتمان کی شناعت سے بھی خوب واقف ہو ۔
بدخو یہودی : یہودیوں کی اس بدخصلت پر ان کو تنبہہ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جاننے کے باوجود کبھی تو حق و باطل کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے کبھی حق کو چھپا لیا کرتے تھے۔ کبھی باطل کو ظاہر کرتے تھے۔ لہذا انہیں ان ناپاک عادتوں کے چھوڑنے کو کہا گیا ہے اور حق کو ظاہر کرنے اور اسے کھول کھول کر بیان کرنے کی ہدایت کی حق و باطل سچ جھوٹ کو آپس میں نہ ملاؤ اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کرو ۔ یہودیت و نصرانیت کی بدعات کو اسلام کی تعلیم کے ساتھ نہ ملاؤ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بابت پیشنگوئیاں جو تمہاری کتابوں میں پاتے ہو انہیں عوام الناس سے نہ چھپاؤ تکتموا مجزوم بھی ہو سکتا ہے اور منصوب بھی یعنی اسے اور اسے جمع نہ کرو ۔ ابن مسعود کی قرأت میں تکتمون بھی ہے۔ یہ حال ہو گا اور اس کے بعد کا جملہ بھی حال ہے معین یہ ہوئے کہ حق کو حق جانتے ہوئے ایسی بےحیائی نہ کرو ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ علم کے باوجود اسے چھپانے اور ملاوٹ کرنے کا کیسا عذاب ہو گا۔ اس کا علم ہو کر بھی افسوس کہ تم بدکرداری پر آمادہ نظر آتے ہو ۔ پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ نمازیں پڑھو زکوٰۃ دو اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ رکوع و سجود میں شامل رہا کرو، انہیں میں مل جاؤ اور خود بھی آپ ہی امت بن جاؤ، اطاعت و اخلاص کو بھی زکوٰۃ کہتے ہیں ۔ ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں زکوٰۃ دو سو درہم پر۔ پھر اس سے زیادہ رقم پر واجب ہوتی ہے نماز و زکوٰۃ و فرض و واجب ہے۔ اس کے بغیر سبھی اعمال غارت ہیں ۔ زکوٰۃ سے بعض لوگوں نے فطرہ بھی مراد لیا ہے۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو سے مراد یہ ہے کہ اچھے اعمال میں ایمانداروں کا ساتھ دو اور ان میں بہترین چیز نماز ہے اس آیت سے اکثر علماء نے نماز باجماعت کے فرض ہونے پر بھی استدلال کیا ہے اور یہاں پر امام قرطبی نے مسائل جماعت کو سبط سے بیان فرمایا ہے۔

No comments:

Post a Comment