بسم
اللہ الرحمٰن الرَّحِیم
اعلائے
کلمۃ الحق
تحریر:
پرویز اقبال آرائیں
رسول اللہ ﷺ کی کامل محبّت ، تعظیم و توقیر،اطاعت و
اتباع کے بغیر اللہ تعالٰی کی رضاء و
خوشنودی اور معرفت کا حصول ممکن ہی نہیں، محسنِ انسانیّت ، مُعلّم ِ آدمیت، رحمۃ
للعالمین رسول اللہ ﷺ کی سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ ہی انسانیّت کی معراج
ہےاور انسانی فوزو فلاح اسی کی پیروی میں مضمر ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کا
انتہائی خوبصورت و دلکش، متوازن و معتدل حسین امتزاج ہے جس کسی نے رسول اللہ
ﷺ کے اسوۃ الحسنہ سے روگردانی کی تحقیق اس نے انسانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے
کی راہ ہموار کی اور انسانیت کے ساتھ ظلم کیا۔
جس
وقت تک فرقہ پرست مذہبی پیشوا، مُبَلّغ و مُصلح، خطیب و واعظ مسلمانوں کو صحابہءِ
کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی جماعۃ کے طریقے پر قرآن و سنّۃ،
اسوۃ الحسنہ کے احکامات و ہدایات اور تعلیمات کی اطاعت کو اتباع سے
بیگانہ و غافل کرنے، اپنے اپنے خود ساختہ باطل و گمراہ فرقوں کے،
اسلام مخالف افکار و نظریات اور احکام و تعلیمات کی حقانیّت کو بد
نیّتی کے ساتھ، جعلی دلائل سے ثابت کرنے، انہی کی دعوت و تبلیغ،
بالادستی و
برتری اور پیروی کو اپنا مقصدِ اوّلین بنائے رکھنے میں مصروفِ عمل رہیں گے اور اپنے علاوہ
باقی سارے دوسرے فرقوں کو بدعتی، فاسق، فاجر، کافر، مشرک، مرتد ،
جہنّمی واجب القتل قرار دیکر
مسلمانوں میں مذہبی منافرت، انتشار و افتراق ، دشمنی، مذہبی کرپشن ودہشت
گردی پیدا کرنے میں مشغول رہیں گے، یعنی کفار و مشرکین سمیت تمام اسلام دشمن اور
مسلمان کش باطل و طاغوتی قوّتوں کے آلہءِ
کار بن کر انہی کے ایجنڈے کی تکمیل، اُن کے
اغراض و مقاصد اور مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے تب تک کُفّار و مشرکین طاغوتی قُوّتوں کو، اِسلام، مسلمانوں، پیغمبرِ اسلام ﷺ کی حرمت و تقدیس،
عزّت و عظمت کا بلا خوف و خطر اور بے دریغ کھلّے عام مذاق اڑانے کی،
بے روح و بے جان، فقط نام کے کلمہ گو مسلمانوں پر بلا خوف وخطرہر طرح
کے بہیمانہ مظالم ڈھانے ان کو اپنا غلام اور تابع بنانے اور ان کا معاشی و جانی
قتلِ عام کرتے رہنےمیں کوئی مشکل درپیش ہو سکتی ہے نہ ہی
کوئی رکاوٹ ان کے ظلم و ستم کی راہ میں حائل ہو کر آڑے آسکتی ہے۔ فرقہ پرست
علماءِ سوء نے ان کا راستہ ایسا صاف کر دیا ہے کہ جو ان کی افواج اور ساری عسکری
قوّتیں بھی کبھی نہ کر سکتی تھیں۔
فرقہ پرست
مذہبی پیشواؤں کی پرستش و پیروی کرنےوالےعاقبت نااندیش کلمہ گو مسلمانوں نے بے حسی
و بے حجابانہ ڈھٹائی کی حد کر دی ہے کہ مجھ
سے تقاضہءِ احترام کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ
ہمارےاکابر کی تعظیم و توقیر کو لازم پکڑو، ان کے بارے میں حرفِ شکایت اور علمی اختلافِ رائے
بھی بے ادبی ہے اس سے (فرقہ پرست) اکابرین کی تحقیر و تذلیل اور رسوائی کا اندیشہ ہے،
میں پوچھتا ہوں کہ تمہارے ان"نام نہاد فرقہ پرست اکابرین" کا احترام مجھ
پر رحمۃ للعالمین رسول اللہ ﷺ کےاحترام سے بڑھ کر زیادہ لازم و واجب کیسے ہو سکتا ہے؟
نبیءِ اکرم ﷺ کی تعظیم و توقیر، عزّت و احترام تکریم و اتباع اور اطاعت کا حکم تاکید
کے ساتھ، میرے اور آپ کے خالق و مالکِ حقیقی اللہ ربّ العالمین سبحانہ و تعالٰی نے
خود صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی جماعت سمیت جمیع مؤمنین و مؤمنات اور مسلمین و مسلمات کو اپنے
الوہی کلام نورِ ہدایت قرآنِ مجید میں جا بجا
دیا ہے اور اس میں ذرا سی بھی لاپرواہی، کوتاہی
اور غفلت پر دائمی جہنّم وعید فرمائی ہے۔
نہیں
بھائی ہرگز نہیں! مجھ سے ایسے نا نہاد، جعلی، خودغرض و مفاد پرست اور عاقبت نااندیش
مذہبی عناصر کے احترام کی توقع مت رکھنا جنہوں نےکہ دینِ اسلام میں ترمیم و تحریف کی،
بدعات و اختراعات، لغویات و خرافات، بےبنیاد فرقہ پرستانہ انسانی افکار، خودساختہ و
من گھڑت بشری نظریات کو دین میں داخل و شامل کیا اور اللہ کے نازل کردہ دین میں تجاوزات
قائم کیں، اللہ اور اس نبیﷺ کے بالکل واضح اور صریح احکامات کے برعکس اور اُن کی مخالفت
میں اپنے اپنے من پسند فرقے بنائے ہیں، اللہ کے مقرر کردہ نام "مسلمان" کو
ترک کرکے اپنے اپنے من گھڑت مذہبی ناموں کو اپنی اپنی پہنچان و شناخت بنایا، اسلام
کو اپنا دین ماننے پر اکتفا کرنے کے بجائے اپنے دین و مذہب کے مختلف مذہبی نام خود
اختیار کر لیئے اور جنہوں نے کہ خود دین اسلام (قرآن و سُنَّت) کے اصل احکامات و پیغامات،
ہدایات و تعلیمات و مقاصد کی اطاعت و اتباع و تعمیل و تکمیل کی نہ ہی لوگوں کو تلقین
و تبلیغ اور تاکید و نصیحت کی اور جنہوں نے کہ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم
اجمعین کی جماعت، تابعین و تبع تابعین، اسلام کے اوّلین ہزار سال کے سلف صالحین اورفقہاء
و مجتہدین اور علماءِ اُمَّت کے طرز فکر و عمل اور طور و طریقوں کی پیروی کو خودلازم پکڑا اور نہ ہی لوگوں کو اُس پر چلنے کی
تلقین و تاکید، تبلیغ و نصیحت کی۔ بلکہ لوگوں کو اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع سے
ہٹا کر اپنے فرقوں کی پیروی پر لگا دیا، اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی خاطر، صرف اور
صرف اپنے فرقوں کی تبلیغ و اشاعت کو ہی اپنا مقصدِ حیات بنا لیا اور رسول اللہ ﷺ کی
جماعۃ "امّۃِ مسلمہ" کے اتحاد، اخوّۃِ اسلامی کو پارہ پارہ پارہ کر کے اس
کا شیرازہ بکھیر دیا، رسول اللہ ﷺ کی جماعۃ کا خاتمہ کر کے فرقوں کے نام پر اپنی اپنی
جماعتیں (فرقوں کی صورت میں ایجاد کر لیں، اللہ کے دین "نظامِ مصطفوی"کی برتری، بالادستی، سربلندی،غلبے
اور نفاذ کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے بجائے( اپنے ذاتی اغراض و مقاصد، مذموم مفادات، سیاسی، معاشی اور معاشرتی منفعتوں کے حصول
و تحفظ کی خاطر) اسی راہ میں خود سب سے بڑی
رکاوٹ بن کر حائل ہوگئے۔ اللہ کے دین کےبالمقابل اپنے اپنے فرقوں کو بالادست و برتر، سربلند اور
غالب کرنے میں مصروف و مشغول ہو گئے، اور اللہ کے دین کا حلیہ بگاڑا اور اس میں اپنے
اپنے پسندیدہ، خودساختہ برانڈز کے مذاہب ایجاد کرلئے اور پھر انہی فرقوں کی بالادستی و برتری کی خاطر امّۃِ مسلمہ کے اتحاد
و اخوّۃِ اسلامی کا گلا گھونٹ دیا، مجھ سے تمہارے ایسے نام نہاد اکابرین کا احترام
کسی صورت بھی نہیں ہو سکے گا۔ کیوں کہ ان کا احترام، قرانِ مجید اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات و تعلیمات
اور ہدایات کی کامل اطاعت و اتباع اسی کی تبلیغ و تنفیذ کی کوششوں اور زیادہ تقوٰی اختیار کرنے سے مشروط تھا۔ موجودہ و درپیش صورتِ حال اور حقائق کے مشاہدے
کے باوجود بھی ان کا احترام کرکےمعاذ اللہ میں اپنے اللہ کریم اور اس کےرسول
ﷺ کی توہین نہیں کر سکتا جن کا کلمہ پڑھ کر میں مسلمان ہوں ۔ مجھے اپنا دین و ایمان
تمہارے فرقہ پرست اکابرین کے احترام سے زیادہ عزیز ہے اور ہر مؤمن و مسلمان پر بھی
یہی فرض ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبّت و احترام اور تعظیم و توقیر کا جذبہ کسی اور انسان کےلئے
نہ رکھے کیوںکہ ایمان کی یہ اوّلین شرط ہے۔ لہٰذا " دُنیا میں احترام کے قابل
ہیں جتنے لوگ، میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفٰے ﷺ کے بعد!
اپنا فرض منصبی سمجھ کرپوری ذمّہ داری، ایمانداری و دیانتداری
کےساتھ علی الاعلان کہتا ہوں کہ فرقہ پرستی حرام ہے، اسلام اور فرقہ پرستی دو
متضاد اور باہم متصادم و متحارب چیزیں ہیں ان کا یکجا ہونا امرِ محال اور قطعی نا
ممکن ہے۔
فرقہ پرستی کا واحد مطلب ، اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی
اتباع (قرآن و سنّۃ) سے انحراف، مخالفت اور بغاوت کر کے
ان کے مقابے میں باطل انسانی افکار و نظریات اور نظاموں کو بہتر
تسلیم کرنا، ان کی بالادستی و برتری کوقبول کرنا، ان کی پیروی کو اللہ
کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اتباع (قرآن و سنّۃ) کے احکامات و تعلیمات اور ہدایات
پر ترجیح دیناہے۔یہی حرام و مشرکانہ عمل ہے جو مسلمانوں کے زوال، تباہی و
بربادی، ذلّت و رسوائی کی سب سے بڑی وجہ اور سارے فساد وبگاڑ اور موجودہ
زبوں حالی و تنزلّی کی اصل جڑ ہے!
اختلافِ رائے کا حق ہر کسی کو پورا حق ہے مگر اس شرط کے
ساتھ کہ قرآن و سنّۃ، اسوۃ الحسنہ اور جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی
علیہم اجمعین کے طرزِ فکر و عمل اور طور و طریقے کے خلاف کوئی دلیل
معتبراور قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ محض
چند مخصوص عبادات ہی کا نام اسلام نہیں بلکہ اسلام ایک
مکمل ضابطہءِ حیات اور حیاتِ
انسانی کے کامل فلاحی نظام کا نام ہے۔ للہ! ذرا سوچئے!
باہمی
خیرخواہی،عدل و انصاف، امدادِ باہمی، بقائے باہمی، خیر و فلاح، امن و سلامتی،
احترام انسانیت، و مساواتِ انسانی پر مبنی انصاف پسندی صالح، خوشحال
انسانی معاشرت کا خواب، تعبیر میں کیسے ڈھل سکتا ہے؟ جب تک کہ انسان اپنے خالق و
مالک اللہ ربّ العالمین اور رحمۃ للعالمین رسول اللہ ﷺ کی عنایت فرمائی ہوئی راہِ
ہدایت کو اختیار نہیں کرتا۔ اللہ کے دین الاسلام کے نظام، احکامات و تعلیمات اور
واضح ہدایات کے منافی انسانی افکار و نظریات اور باطل نظاموں کے نفاذ و پیروی کرکے
کسی خیر و فلاح اور بھلائی و بہتری کی امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ سورج کو مشرق
کے بجائے مغرب سے طلوع کرنے کا خواب دیکھنا۔ جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ
تعالٰی علیہم اجمعین کے طریقے پرچل کر قرآن و سنّۃ، اسوۃ الحسنہ کی کامل اطاعت و
اتباع اور اللہ کے دین "الاسلام" کی بالادستی، سربلندی اور غلبے کے بغیر
اصلاحِ احوال کی ہر کوشش سرابِ محض، خود فریبی اور جہلِ مرکب کے سوا کچھ نہیں۔
بندہءِ مؤمن و مسلمان کی زندگی کا اوّلین مقصد بھی یہی ہونا ضروری ہے کہ اللہ کی
زمین اور بندوں پر انسانوں کی خیروفلاح کےلئے اللہ کا نازل کردہ نظام "دینِ
اسلام" غالب ہو جائے! باطل طاغوتی قوّتوں نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر
مسلمانوں میں فرقہ پرستی، مذہبی منافرت پیدا کر کے امّۃِ مسلمہ کا وجود ہی ختم
کرڈالا تاکہ اللہ کے نظام کو غالب کرنے کا تصور بھی مسلمانوں کے دلوں سے نکل جائے۔
افسوس کہ وہ اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے
ہیں اور آج کے اکثر و بیشتر مسلمان
اپنےاصل مقصدِ حیات (اتحادِ امّۃ و غلبہءِ اسلام) کے اپنے عہد ("کلمہءِ طیّبہ و کلمہءِ شہادۃ کے تقاضوں) کو بھول کرمحض چند
عبادات کو ہی اسلام سمجھ بیٹھے ہیں جو کہ بجائے خود ایک غیراسلامی
طرزِ فکروعمل ہے، حالیہ دو تین صدیوں کے بعض نام نہاد مذہبی پیشوا خود
بھی باطل طاغوتی نظاموں کے پیروکار و محافظ بنے ہوئے ہیںان ہی کے ایجنڈے پر فرقہ
پرستی کے فروغ کو اپنی اوّلین ترجیح بنائے ہوئے ہیں اور مقاصدِ
دین سے عملاً منحرف نظر آتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں تو ضلالت و گمراہی کی دلدل میں
مزید پھنستے اور دھنستےچلے جائیں گے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مبنی
دینِ اسلام کے نظام "نظامِ مصطفوی" کا غلبہ ہی انسانیت کی فلاح کا ضامن
ہے باقی ساری باتیں جھوٹی اور افسانوی ہیں۔ مسلمانوں کی موجودہ بدترین زبوں حالی،
ذلّت و رسوائی پر ہر مؤمن و مسلمان کو مضطرب ہونا اور ااصلاحِ احوال کی
کوششوں میں حتّی المقدور سرگرمِ عمل ہونا لازم ہے آؤ میرے مسلمان
بھائیو! جسدِواحد کی طرح متحد و منظم ہو کر واپس ایک امّۃِ واحدہ بن جائیں،
جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے طریقے پرچل کر قرآن و سنّۃ،
اسوۃ الحسنہ کی کامل اطاعت و اتباع اور اللہ کے دین "الاسلام "کی
بالادستی، سربلندی اورغلبے کواپنا مقصدِ حیات بنائیں۔
از
قلم: پرویز اقبال آرائیں
No comments:
Post a Comment