Friday, 4 September 2015

فرقہ پرستی کا شاخسانہ

بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
فرقہ پرستی کا شاخسانہ
تحریر: پرویز اقبال آرائیں
 فرقے اوراسلام دونوں باہم متضاد و متصادم چیزیں ہیں ان کا  یکجا ہونا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے! خالقِ کائنات اللہ رب العالمین کا فرمانِ عالیشان ہے:  وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا) 3۔ آل عمران:103)  یعنی تم لوگ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، اور آپس میں فرقہ فرقہ مت ہو جانا۔ مراد  یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی تعلیمات کو سچائی سے مانا اور اپنایا جائے اور ان پر دیانتداری اور راست بازی سے عمل کیا جائے۔ اللہ ربّ العالمین سبحانہ وتعالٰی نے عالم انسانیت کے لئے اپنی اس عظیم نعمت،  الوھی ھدایت یعنی دین "الاسلام" کی تکمیل کا بالکل واضح،  واشگاف اورغیر مبہم اعلان (خود اپنی آخری الہامی کتاب ، نورِ ہدایت قرآن مجید میں فرما دیا  ہوا ہے:  اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ ترجمہ: "آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"۔ (5سورۃ المائدہ، جزوِآخر۔  اٰیۃ  3) حقیقت یہ ہے کہ فرقہ اور فتنہ پیدا کرنا نہ تو کسی جاہل آدمی کا کام ہے علماءِ اسلام جنہیں علماءِ حق بھی کہا جاتا ہے وہ ایسے گناہِ کبیرہ اور شرک کے مترادف حرام عمل کا تصور بھی بھی نہیں کر سکتے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: "بیشک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے، اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس (حق اور حقیقت کے بارے میں صیحح) علم پہنچ گیا، محض آپس کی ضد (اور حسد) کی بنا پر، اور جو کوئی کفر کرے گا اللہ کی آیتوں کے ساتھ تو (وہ یقینا اپنا ہی نقصان کرے گا کہ) بیشک اللہ بڑا ہی جلد حساب لینے والا ہے" ایک اور مقام پر قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا: ترجمہ: "جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا"۔(سورۃ آلِ عمران، آیۃ-85) پس جو لوگ لاپرواہی اور غیر ذمہ داری سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ سب دین ٹھیک ہیں سب نیکی کی دعوت دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ وہ سراسر غلط، جھوٹ اور ناحق بات کہتے ہیں دین حق صرف اسلام ہے۔ اسکے بغیر نجات کی کوئی صورت ممکن نہیں، اسلام ہی دین فطرت اور اس پوری کائنات کا دین ہے۔
امن و سلامتی، اخوّۃ و محبّت، خیروفلاح کے دین" الاسلام "کے نام پر مذہبی منافرت اور انتشار و افتراق پھیلانے والے  نام نہاد مذہبی پیشواؤں، دینی رہنماؤں میں کے لبادے میں موجود،  خود غرض و مفاد پرست، شرپسند و رہزن عناصر  کو پہچانو  اور   ان کوسوں دور بھگاؤ اور ان  سے اپنادین وایمان بچاؤ، ان سے ناطہ توڑو، رسول اللہ  ﷺ کے دامنِ رحمۃ کے ساتھ اپنا ناطہ جوڑو،۔  صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے طریقے  کے مطابق، قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ  کی اطاعت و اتباع اور کامل پیروی کو لازم پکڑو، اللہ کی رسّی  کو مضبوطی سے تھامو، آپس میں فرقہ فرقہ مت ہو جاؤ۔  بس یہی دین و ایمان ہے۔ اللہ نے اپنی مخلوقات میں سب سے اعلٰی ترین مرتبہ رسول اللہ ﷺ کو عطا فرمایا ہے بلاشبہ آپ ﷺ تمام انسانوں میں سب سے افضل ہیں ۔ اپنے اکابر کی پیروی کے شوق میں رسول اللہ ﷺ کے احکام و تعلیمات کے خلاف عمل کو اختیار کرکے خود کو خود کو جہنّم کا ایندھن مت بناؤ، اپنی جانوں پہ رحم کرو، قبر وحشر میں تمہارے  اکابر اور یہ آجکل کے مذہبی پیشواؤں کی پیروی کام نہیں آئے گی بلکہ اللہ کے رسول شفیع المذنبین ﷺ کی اطاعت و اتباع اور سچی محبّت و عقیدت اور تعظیم و توقیر  ہی جہنّم سے نجات  کا باعث بنے گی ۔آپ ﷺ کی وعید کے بجائے شفاعت کے مستحق بنو! کیونکہ "جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ تعالٰی ہی کی اطاعت کی" ایمان کی اساس ہی اس جذبے پر قائم ہوتی ہے کہ بندہءِ مومن  ، اللہ سبحانہ و تعالٰی  اور رسول اللہ ﷺ کی محّبت ،  اطاعت و اتباع کو  باقی تمام انسانوں اور چیزوں کی  محبّت، اطاعت و اتباع پر ترجیح دے۔ ارشادِ باری تعالٰی ہے : ترجمہ: "بے شک  ایمان لانے والوں (مسلمانوں) پراللہ کا بڑا احسان ہوا کہ ان میں، انہیں میں  سے ایک رسول بھیجا  جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے  اور انہیں پاک کرتا ہے انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے  اور یقیناًیہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے"۔ (3آلِ عمران اٰیۃ164)-  اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: (اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے  کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے  ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ)  تمہیں زیادہ پیارا   ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ  میں  جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا  "۔ (9سورۃ التوبہ، اٰیۃ 24)۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: ترجمہ: "اور جو رسول  (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرے،  اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان(صحابہءِ کرام  رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی جماعۃ) کے راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیارکرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کر رکھا ہو اور ہم اسے پہنچا دیں گے  جہنم  میں اور وہ بہتُ بری جگہ ہے لوٹنے کی"۔ (4-سورۃ النّساء– اٰیۃ- 115)۔ 
جیسا کہ اوپر بھی ذکر ہو چکا ہے   قرآنِ مجید کی سورۃ المائدہ،   اٰیۃ  3کے جزوِآخرمیں خالقِ کائنات نے ارشاد فرما دیا: ترجمہ: "آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"۔ اس آیۃِ کریمہ (کے زیرِ نظرآخری جزو ) میں تکمیلِ دین کا مُژدئہ بےمثال و جانفزا  سنایا گیا ہے: سو تکمیلِ دین کی بشارت ایک عظیم الشان اور بےمثال بشارت ہے۔ اور اس جیسی دوسری کوئی بشارت ممکن ہی نہیں - فللّٰہِ الحمْدُ وَلَہُ الشُّکْرُ- بہرکیف اس ارشاد ربانی سے واضح فرما دیا گیا کہ اس دین کی تکمیل کردی گئی۔ احکام و مسائل ، اُصول و کلیات ، بنیادی قواعد و ضوابط اور فرائض و واجبات کے اعتبار سے۔ اور اس درجہ مکمل کہ اب قیامت تک نہ تمہیں کسی اور وحی و کتاب کی کوئی ضرورت ہوگی نہ کسی نبی اور شریعت کی۔ دین وہدایت سے متعلق تمہیں جو بھی ضرورت پیش آئے گی اس کا حل اور جواب و علاج تم اس کتاب میں موجود پاؤ گے - سبحان اللہ!- کیسی عظیم اور کتنی بڑی اعجازی شان ہے اس دین حنیف کی جس سے قدرت کی طرف سے ہمیں نوازا گیا ہے - فالحمدللہ رب العالمین - سو اس دین حق اسلام کو اس کے اُصول و کلیات کے اعتبار سے ایسا اور اس حد تک مکمل کردیا گیا کہ لاکھوں کروڑوں، بلکہ اربوں کھربوں انسانوں سے تعلق رکھنے والے لاتعداد و بےشمار اور بےحد و حساب مسائل اور قیامت تک پھیلے جملہ زمانوں اور تمام اَدوار کے تقاضوں کا کافی و شافی حل اور واضح جواب اس میں موجود ہے۔ اور عقائد و عبادات ، مسائل و معاملات ، امن و جنگ، حرب و ضرب ، سیاست و سماج ، اَخلاق و عادات ، اِجتماع و انفراد ، تمدن و معاشرت ، مصالحت و مسالمت ، معیشت و اقتصاد ، نکاح و طلاق ، تطہیر و تزکیہ ، حلال و حرام ، عدل و انصاف ، صحت و فساد، غرضیکہ دن و رات، ماہ و سال اور دنیا و آخرت سے متعلق ہر گوشے کے بارے میں اس دین متین میں ایسی صاف و صریح اور واضح و جلی اور اعلیٰ وارفع اور مجلیٰ و منقیٰ تعلیماتِ مقدسہ اور علم و حکمت پر مبنی ارشاد اتِ عالیہ موجود ہیں جن کی کوئی نظیر و مثال تو کیا اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے دین و مذہب میں نہیں پایا جا سکتا ۔ روئے زمین پر پائے جانے والے مختلف مذاہب و اَدیان کی اکثریت تو انسانی فکر و کاوش اور خیالات وتصورات اور دوسرے مختلف عوامل اور احوال و ظروف کا ثمرہ و نتیجہ ہے سوائے یہودیت و نصرانیت کے۔ جو کہ بنیادی طور پر اور اپنی اصل کے اعتبار سے آسمانی دین ہیں ۔ ان کے بارے میں بھی ان کے حاملین اور پیروکاروں کا کہنا ہے کہ مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے اور بس ۔ پس ان کے یہاں دین ومذہب کے نام سے کچھ رسم و رواج اور تقالید و عادات ہیں جن کو ان لوگوں کے یہاں لگے بندھے طریقوں سے اپنے گھروں یا گرجاؤں میں بجا لایا جاتا ہے اور بس۔ باقی سیاست و سماج ، معیشت و معاشرت اور نظام حکومت وغیرہ وغیرہ سب اس سے آزاد اور اس کی گرفت و کنٹرول سے خارج اور باہر ہیں ۔ اور یہ ان لوگوں کے یہاں گویا حکومت و عوام دونوں کے درمیان ایک طے شدہ پالیسی ہے۔ اور جب ان آسمانی دینوں کا یہ حال ہے تو پھر باقیوں کا کہنا ہی کیا۔ ان کا معاملہ تو سرے سے ہی خارج ازبحث ہے۔ سو اس پسِ منظر میں دیکھنے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ دین حق اسلام کس قدر عظیم، کتنا جامع اور قدرت کا کتنا بڑا عدیم النظیر اور بےمثال عطیہ و احسان ہے۔ اسی لئے ایک انگریز جب اسلام میں داخل ہوا تو اس سے پوچھا گیا کہ تم کیوں مسلمان ہوئے ہو؟ تم نے اسلام میں ایسا کیا دیکھا جس نے تمہارے دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچا ؟ تو اس نے جواب میں اسی حقیقتِ عظمیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا " اس لئے کہ اسلام میں ہر سوال کا جواب موجود ہے " - فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ شَرَّفَنَا بِہٰذَا الدِّیْنِ الْعَظِیْمِ الْمُبَارِکِ، بِمَحْضِ مَنِّہٖ وَکَرَمِہ جَلَّ وَعَلَاٗ - فَاِیَّاہُ نَسْاَلُ الثَّبَاتَ عَلَیْہِ وَ الاِسْتَقَامَۃَ - نیز اس موقع پر ذرا اس جانب بھی ایک نظر ڈال لیجئے اور ایک لمحے کے لئے سوچئے اور غور کیجئے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی حیاتِ نبوت کے صرف تئیس -23- سالوں کے مختصر و محدود عرصے میں اپنی امت کو کیا کچھ دے گئے اور پوری نوع انسانیت کے لئے کتنے عظیم الشان اور مقدس وبے مثل خزانے چھوڑ گئے جو قیامت تک دنیا جہاں کو فیضیاب کرتے رہیں گے - صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلامُہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَمَنِ اہْتَدٰی بِہَدْیِہ وَدَعَا بِدَعْوَتِہ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ وَجَزَاہُ عَنَّا وَعَنْ سَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ مَا جُوْزِیَ بِہٖ نَبِیٌّ عَنْ اُمَّتِہٖ وَاَنْزَلَہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَہ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ- آمین ثم آمین۔ بہرکیف دین حنیف ایک ایسا کامل اور مکمل دین ہے جو ہر انسان کی تمام ضروریات کی تکمیل کا کفیل و ضامن ہے کہ یہ دین دین فطرت ہے جو فطرت کے تمام تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے - فالحمد للہ رب العالمین۔
اِتمامِ نعمت کا مژدۂ جانفزا : سو ارشاد فرمایا گیا اور میں نے پورا کر دیا تم لوگوں پر ـ یعنی تم پر اپنے اس دین کو مکمل کردیا جو کہ حضرت آدم سے شرع ہوا تھا اور تمہاری اس شریعت کی تکمیل کرکے جس کا آغاز غارِ حراء میں اترنے والی پہلی وحی سے ہوا تھا۔ نیز تم کو سیاسی غلبہ سے نوازا کہ مکہ مکرمہ فتح ہو گیا اور اس سے بتوں کی نجاست کا ازالہ کردیا گیا۔ (معارف ، محاسن ، تدبر وغیرہ) ۔ اور تکمیلِ دین کی یہ نعمت سب سے بڑی نعمت ہے کہ دین حق کی نعمت سے بڑھ کر کوئی نعمت ممکن ہی نہیں کہ نور حق و ہدایت کی یہ نعمت ہی وہ نعمت ہے جو انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی راہیں منور اور روشن کرتی ہے - فِللّـہ الحمدُ ربِّ العالمین - سو دین حنیف جس کا آغاز ابو البشر حضرت آدم پر وحی سے ہوا تھا جو ہر زمانے کی ضرورتوں اور مشیتِ الٰہی کے تقاضوں کے مطابق نازل ہوتا رہا یہاں تک کہ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اس کی تکمیل اور خاتمہ ہو گیا۔ اور قیامت تک کی دنیا کو دین کامل نصیب ہو گیا۔ جبکہ اس سے پہلے آنے والے تمام دینوں کی حیثیت اسی دین کامل کے مختلف اَجزا کی سی ہے۔ اور اتمامِ نعمت سے مراد اس وحی کی تکمیل ہے جس کا آغاز تئیس برس قبل غارِ حرا میں ہوا تھا۔ سو اس موقع پر اس کی بھی تکمیل ہو گئی۔ اس طرح اس روز اہل ایمان کو دو انعام یکجا مل گئے کہ حضرت آدم سے شروع ہونے والا سلسلہ وحی بھی مکمل ہو گیا اور اس سلسلہ وحی کی بھی تکمیل ہو گئی جس کا آغاز اس سے تئیس سال قبل حضرت امام الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) پر غار حرا میں ہوا تھا ۔
خداوند قدوس کا پسندیدہ دین ، اسلام : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ میں نے پسند کر لیا تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر ۔ پس اسلام کے سوا اور کوئی بھی دین اس کے یہاں قابلِ قبول نہیں ۔ لہذا جس نے اسلام کے سوا کسی بھی دوسرے دین کو اپنایا وہ اس سے قبول نہیں ہو گا۔ اور ایسا شخص سراسر خسارے میں ہو گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی تصریح فرمائی گئی - { وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الاِسْلامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الاٰخٰرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْن} - (آلِ عمران : 85) ۔ اور دین حنیف اسلام ہی وہ دین ہے جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اور انسان کو حقیقی کامیابی اور ابدی سعادتوں سے بہرہ مند و سرفراز کرنے والا دین ہے۔ اور اسلام کا حاصل اور اس کا خلاصہ ہے اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک اللہ وحدہ لاشریک کے حوالے کر دینا جیسا کہ حضرت ابراہیم نے کہا تھا - { اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ } - (البقرۃ: 131) یعنی " میں نے اپنے آپ کو حوالے کر دیا پروردگار عالم کے " ۔ اور یہی دین ہے اس پوری کائنات کا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا - { وَلَہُ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ } - (آل عمران : 83) یعنی " اسی کے آگے سرنگوں ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمیں میں ہیں خوشی سے یا مجبوری سے ۔ اور سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے "۔
الیوم سے مراد یا تو 9 ذی الحجہ کا خاص دن ہے اور یا الیوم زمانہ پر دلالت کرنے کے لئے ہے۔ یعنی اب کفار کی قوت ٹوٹ چکی ہے انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ وہ اب تم کو نہیں مٹا سکتے۔ اب اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو اور اس کے کسی حکم کی تعمیل میں پس وپیش نہ کیا کرو۔
(آج میں نے مکمل کردیا ہے تمھارے لیے تمھارا دین ) جیسے پہلے عرض کیا جا چکا ہے یہ آیت 9 ذی الحجہ 10ھ بمقام عرفات بروز جمعہ سرور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی۔ اس میں بتایا گیا کہ جس دین کا داعی بنا کر آپ کو بھیجا گیا تھا آج وہ ظاہری اور باطنی، صوری اور معنوی ہر لحاظ سے پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس دین کے غلبہ اور فتح مندی کا جو وعدہ آپ سے کیا گیا تھا آج آپ نے اپنے غلاموں سمیت مشاہدہ کر لیا کہ وہ پورا کر دیا گیا۔ نیز وہ عقائد جن پر تمہاری نجات کا انحصار ہے وہ مکمل طور پر تمہیں سکھادئیے گئے۔ شریعت وقانون کے وہ بنیادی قواعد تفصیلا یا اصولا تم کو بتا دئیے گئے جو ہر زمانہ اور تمام حالات میں تمہارے لئے روشنی کا مینار ثابت ہوں گے۔ تمہیں ایسے اصولوں کی تعلیم بھی دے دی جن کی مدد سے تم ہر نئی مشکل کا حل اور ہر جدید مسئلہ کا جواب معلوم کر سکو گے۔
(اور پوری کردی ہے تم پر اپنی نعمت) یعنی قرآن جیسی کتاب ہدایت ، محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثنا جیسا رسول اور ہادی عطا فرمایا۔ ہدایت کی راہ تم پر روشن کر دی اور اس پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائی۔ مکہ جہاں کفر و شرک کی حکومت تھی وہاں آج اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے۔ جہاں لات وہبل کی پوجا ہوا کرتی تھی وہاں اللہ وحدہ لا شریک کے حضور میں پیشانیاں محو سجود ہیں۔
(اور میں نے پسند کرلیا تمھارے لیے اسلام کو بطور دین) دین اسلام جو تمام سابقہ انبیا اور رسل کا دین تھا وہی دین اپنی کامل صورت میں تمہارے لئے پسند کر لیا گیا ہے۔ اب اس میں اضاضہ اور تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ یہ آیت حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خاتم الانبیا ہونے کی واضح دلیل ہے۔ کیونکہ جب دین مکمل ہو چکا اس کے احکام میں ردو بدل کی گنجائش نہ رہی تو پھر کسی دوسرے نبی کے آنے کی بھی ضرورت نہ رہی۔
شان نزول : بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم روز نزول کو عید مناتے فرمایا کون سی آیت ؟ اس نے یہی ( اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۝) 5- المآئدہ:3) پڑھی آپ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقام نزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا ، آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے ۔ ترمذی شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن ۲ دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔
 (پس جو لاچار ہوجائے بھوک میں درآں حا لیکہ نہ جھکنے والا گناہ کی طرف 14 تو یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔) مندرجہ بالا آیۃ کریمہ کے ابتدائی جزو میں بعض چیزوں کو حرام کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر کوئی شخص ایسی حالت میں ہو کہ اسے کھانے کے لئے ان چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیز میسر نہ ہو تو اس نے اگر اپنی جان بچانے کے لئے بقدر ضرورت ان میں سے کوئی چیز کھائی تو اس سے باز پرس نہ ہوگی۔
اللہ ربّ العالمین سبحانہ وتعالٰی کےآخری رسول ، امام الانبیاء، رحمةّ لِّلعالمین حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) نے بھی اپنے خطبہء حجة الوداع میں دین اسلام کے مکمل ھونے کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان فرمادیا۔
خُطْبَۃ اَلوَدَاع اصطلاحاً حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان ارشادات جو کہا جاتا ھے جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ۱۰ھ کے حج کے موقع پر فرمائے- واضح رھے کہ سن ۱۰ھ میں جو حج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا، یہ ہجرت کے بعد آپ کا واحد اور آخری حج تھا۔ کیونکہ ۱۱ھ میں حضور کا وصال ہوگیا تھا۔ چنانچہ اسی مناسبت سے حضور کا یہ حج ’حجۃ الوداع کہلاتا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشادات فرمائے انہیں ’خطبۃ الوداع یا پھر ’خطبۃ حجۃ الوداع‘ کہا جاتا ہے۔
خطبہ حجة الوداع حضور کی مختلف ہدایات کا مجموعہ ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی ہدایات فرمائیں جن میں دو بڑے خطبے بھی شامل ہیں۔ ایک خطبہ حضور نے عرفات میں ارشاد فرمایا۔ یہی خطبہ سنت رسول کے طور پر اب بھی ٩ ذی الحجہ کی دوپہر کو عرفات کے میدان میں پڑھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا خطبہ وہ ہے جو حضور نے منٰی میں ارشاد فرمایا۔ اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بہت سے سوالات پوچھے گئے، حضور نے ان کے جوابات دیے۔
حضور نے حج کے مختلف مسائل کے بارے میں بھی ہدایات دیں۔ عرفات اور منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو جو بات یاد رکھی اور وہ آگے منتقل کی، اس کو محدثین کرام رحمہم اللہ نے محفوظ کیا۔ ان سب کا مجموعہ محدثین کی اصطلاح میں حجة الوداع کا خطبہ کہلاتا ہے۔
خطبۃ حجۃالوداع کواسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔خطبۃ حجۃالوداع بلاشبہ انسانی حقوق کااوّلین اورمثالی منشوراعظم ہے۔اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کاسب سے پہلامنشورانسانی حقوق ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی،قومی مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کاکوئی شائبہ نظرتک نہیں آیا۔یہ ابلاغ اسلام کی بنیادپر’حجۃالاسلام‘،’حجۃ التمام‘اور’حجۃ البلاغ‘کے نام سے بھی موسوم ہے اس حج کے موقع پرآقاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جوخطبہ ارشادفرمایااسے’’ حجۃ الوداع‘‘ کہتے ہیں۔آپ ﷺ کے حکم سے قصوء اونٹنی پرکجاواکساگیااورآپ ﷺ قصواء اونٹنی پرسوارہوکر بطن وادی میں تشریف لے گئے اسوقت اآپ ﷺکے گردایک لاکھ چوبیس ہزاریاایک لاکھ چوالیس ہزارانسانوں (صحابہءکرام) کاسمندرٹھاٹھیں ماررہاتھاآپ ﷺنے انکے سامنے ایک جامع خطبہ ارشادفرمایا۔اس خطبہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کا مکمل متن پیش خدمت ہے تاکہ ہم سب  مصطفی کریمﷺکے ان ارشادات کا بنظرغائر مطالعہ کریں جس میں نوع انسانی کے جملہ حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے اور نوع انسانی کے مختلف اصناف کے حقوق وفرائض کاجوتذکرہ کیاگیاہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اﷲ پاک کی حمدوثناء کرتے ہوئے خطبہ کی ابتداء یوں فرمائی۔ "اے لوگو!بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بیشک تمھارا باپ(آدم علیہ السلام)ایک ہے۔سن لو،کسی عربی کوکسی عجمی پر،کسی سْر خ کوکسی کالے پراور کسی کالے کوکسی سْرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔اس طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخراور رنگ ونسل کی برتری اور قومیت میں اونچ نیچ وغیرہ تصوراتِ جاہلیت کے بْتوں کوپاش پاش کرتے ہوئے مساواتِ اسلام کاعَلم بلند فرمایا۔فرمایا:اے لوگو!تمھاری جانیں اور تمھارے اموال تم پر عزت وحرمت والے ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو،یہ اس طرح ہے جس طرح تمھارا آج کا دن حرمت والاہے۔اور جس طرح تمھارا یہ شہر حرمت والاہے۔بے شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔سنو!اﷲ کاپیغام میں نے پہنچادیااورجس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہواس پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچادے۔ سارا سود معاف ہے لیکن تمھارے لئے اصل زر ہے،نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پرکوئی ظلم کرے۔
اﷲ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیاہے کہ کوئی سود نہیں۔سب سے پہلے جس ربا(سود،بیاج)کو میں کالعدم کرتاہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کاسود ہے۔یہ سب کاسب معاف ہے۔زمانہ جاہلیت کی ہر چیزکو میں کالعدم قرار دیتا ہوں اور تمام خونوں میں سے جوخون میں معاف کررہاہوں وہ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حارث کے بیٹے ربیعہ کاخون ہے جو اس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھااور ہذیل قبیلہ نے اس کوقتل کردیا۔اے لوگو!شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ اس زمین میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی،لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے ہوشیاررہنا۔پھرفرمایاکہ جس روز اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا،سال کوبارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی قعدہ،ذی الحجہ،محرم اور رجب)ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں۔
اے لوگو!اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو،میں تمھیں عورتوں (بیویوں)کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ وہ تمھارے زیرِ دست ہیں،وہ اپنے بارے میں کسی اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمھارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور اﷲ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمھارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اوران کے تم پر بھی حقوق ہیں۔تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر کی حرمت کو برقراررکھیں اور ان پریہ لازم ہے کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو،پھر اﷲ تعالیٰ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کردو اور انہیں بطور سزا تم مار پیٹ سکتے ہولیکن جو ضرب شدید نہ ہو اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔
اے لوگو!میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو،بے شک میں نے اﷲ کا پیغام تم کو پہنچا دیاہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کہ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اﷲ تعالیٰ کی کتاب(قرآن کریم)اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سنت۔
اے لوگو!میری بات غور سے سنواور اس کو سمجھو تمہیں یہ چیز معلوم ہونی چاہئے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لے، پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔جان لو کہ دل ان تینوں باتوں پرحسد وعناد نہیں کرتے۔ہرکسی عمل کوصرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا۔حاکم وقت کو ازراہ خیر خواہی نصیحت کرنا۔مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ شامل رہنااور بے شک ان کی دعوت ان لوگوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے علاوہ ہیں۔جس کی نیت طلب دنیاہواﷲ تعالیٰ اس کے فقروافلاس کو اس کی آنکھوں کے سامنے عیاں کردیتاہے اور اس کے پیشہ کی آمدنی منتشر ہوجاتی ہے اور نہیں حاصل ہوتااس کواس سے مگر اتنا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیاہے اور جس کی نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کردیتا ہے اور اس کا پیشہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور دنیا اس کے پاس آتی ہے اس حال میں کہ وہ اپنی ناک گھسیٹ کرآتی ہے۔اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری بات کو سنااور دوسروں تک پہنچایا۔بسا اوقات وہ آدمی جو فقہ کے کسی مسئلے کا جاننے والاہے وہ خود فقیہ نہیں ہوتااور بسا اوقات حامل فقہ کسی ایسے شخص کو بات پہنچاتاہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔تمھارے غلام،جو تم کھاتے ہوان سے ان کو کھلاؤ۔جو تم خود پہنتے ہو ان سے ان کو پہناؤ،اگر ان سے کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کردو۔اے اﷲ کے بندو!ان کو سزا نہ دو۔میں پڑوسی کے بارے میں تمھیں نصیحت کرتاہوں(یہ جملہ سرکار دوعالمﷺنے اتنی بار دہرایاکہ یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ حضورﷺپڑوسی کو وارث نہ بنادیں)۔ اے لوگو!اﷲ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے،اس لئے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کرے۔بیٹا،بستر والے کا ہوتاہے یعنی خاوند کا اور بدکارکے لیے پتھر۔جو شخص اپنے آپ کواپنے باپ کے بغیرکسی طرف منسوب کرتا ہے اس پر اﷲ تعالیٰ،فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔نہ قبول کرے گا اﷲ تعالیٰ اس سے کوئی بدلہ اور کوئی مال۔جو چیز کسی سے مانگ کرلواسے واپس کرو،عطیہ ضرور واپس ہونا چاہئے اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرناچاہئے اور جو ضامن ہو اس پر اس کی ضمانت ضروری ہے۔(بخاری و مسلم وابوداؤد)۔
اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایاکہ تم سے میرے بارے میں دریافت کیاجائے گا،تم کیا جواب دوگے؟انہوں نے کہاں ہم گواہی دیں گے کہ آٓپ ﷺ نے اﷲ کا پیغام پہنچایا،اس کو ادا کیااور خلوص کی حد کر دی۔حضورﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا،پھر لوگوں کی طرف موڑااور فرمایا:"اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا"
بخاری شریف کی روایت ہےکہ امیرالمؤمنیں  فاروقِ اعظم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ان کے دورِ خلافت میں ایک یہودی عالِم نے کہا کہ یا امیرالمؤمنین (رضی اللہ تعالٰی عنہ)  آپ کے قرآن میں ایک آیۃ ایسی ہے کہ وہ آیۃ اگر ہم پر نازل ہوئی ہوتی توہم اس آیۃ کے نازل ہونے کے دن کو عید بنا لیتے۔ ہم اسے باقاعدہ ایک یادگار دن کے طور پر مناتے کہ اس  دن میں ہم پر فلاں  سنہ میں یہ آیۃ نازل ہوئی تھی۔ حضرت عمر  رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ کون سی آیۃ؟  اس یہودی عالِم نے کہا  " اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ" (اللہ تعالٰی نے فرمایا ترجمہ: "آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"۔ (5سورۃ المائدہ، جزوِآخر۔  اٰیۃ  3) تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ الصلٰوۃ والسّلام) سے   نزولِ وحی  کے جس سلسلے کا آغاز ہوا تھا اور ان کے بعد مختلف انبیاء و رسل (علیہم الصّلٰوۃ والسّلام ) کے ذریعے ہدایات و احکام نازل ہوتے رہے ، نبی کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  تک نزولِ وحی کا یہ سلسلہ چلتا رہا، احکام آتے بھی رہے، منسوخ بھی ہوتے رہے ، ان میں ترامیم بھی ہوتی رہیں ، یہ ایک ارتقاء و تدریج کا عمل تھا، نبی کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  پر اللہ تعالٰی نے  نزولِ وحی کے اس سلسلے کا اختتام فرما دیا، اب قیامت تک کوئی وحی نہیں ہو گی اور نہ احکام میں ردّو بدل ہو گااور نہ ہی کوئی نیا حکم آئے گا۔ تو تکمیل کا معنٰی یہ ہے کہ  وہ وحی جو حضرت آدم (علیہ الصلٰوۃ والسّلام) پر نازل ہونا شروع ہوئی تھی  وہ ترتقاء و تدریج کے مراحل طے کرتے ہوئے  نبی کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  پر مکمّل ہوئی ہے۔ چنانچہ جب غلبہءِدین مکمّل ہوا تو حجّۃالوداع  اس کا سب سے بڑا مظہرتھا کہ اتنی شان و شوکت اس سے پہلے مسلمانوں کو کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی ۔ اللہ تعالٰی نے اس موقع پر اعلان فرمایا" اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ" ترجمہ:  آج  کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا  دین مکمّل کر دیاہے۔" وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ" ترجمہ:  اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی ہے۔ " وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ" ترجمہ: اور تمہارے لئے اسلام  کے دین ہونے پر راضی ہوں۔  آج کے بعد ہر ایک انسان سے صرف اسلام ہی دین قبول کروں گا اور اس کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں کروں گا۔ تو اس یہودی عالِم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ یا امیرالمؤمنین ! یہ آیۃ اگر ہم پر توراۃ میں نازل ہوئی ہوتی تو اس آیۃ کے نزول والے دن کو اپنے لئے عید بنا لیتے۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ "اللہ کی قدرت ہے کہ ہم پر یہ آیۃ نازل ہی عید والے دن ہوئی ہے ، تم تو عید بنا لیتے ، ہماری پہلے سے عید ہے۔ فرمایا یوم النّحر کو منٰی میں یہ آیۃ نازل ہوئی تھی اور میں اس موقع پر موجود تھا۔ یوم النّحر یعنی عید الاضحٰی اور قربانی کادن۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ  فرماتے ہیں کہ ہماری تو دو عیدیں تھیں، سالانہ عید بھی اور ہفتہ وار عید بھی تھی یعنی جمعۃ المبارکہ کا دن تھا۔  اللہ ہمیشہ راہ حق پر ثابت و مستقیم رکھے – آمین۔
کاش فرقوں کے وجود نے امّۃِ مصطفوی کی تباہی و بربادی میں کچھ تھوڑی بہت  بھی  کسر باقی چھوڑی ہوتی تو زبوں حالی کی ایسی نوبت کبھی نہ آتی جو آج مسلمانوں کو درپیش ہے۔ فرقہ پرستوں کے وجودنےدین اسلام اورامّۃ مصطفوی کو وہ دکھ، نقصانات اور زخم دیئے ہیں کہ جو ساری طاغوتی اور اسلام دشمن قوّتیں مل کر بھی کبھی اس کا تصوّر تک نہ کر سکتی تھیں، جہاں فرقہ وہاں فقط فتنہ ، اسلام کا وجود ممکن نہیں اور جہاں اسلام کا وجود ہو وہاں فرقہ کے وجود کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں، فرقہ جہنّم کے وجوب کا دوسرا نام ہے فرقہ پرستی بت پرستی سے بھی بری ہے کہ بت پرستی نے فرقہ پرستی کے مقابلے میں اسلام کا کچھ بھی حلیہ نہیں بگاڑا ہے ۔ مسلمانوں کی تباہی و زبوں حالی فرقوں کے ہاتھوں ممکن ہوئی ہے وگرنہ اس کی کوئی بھی دوسری صورت کارگر ہو سکتی تھی نہ ہی ممکن! فرقہ پرستوں نے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد ، سیاسی، معاشی و معاشرتی فوائد و مراعات کے حصول کی خاطر امّۃِ مصطفوی کو پارہ پارہ کر کے اس کا شیرازہ بکھیر دیا، لوگوں کو قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنۃ نیز صحابہءِ کرام کے طرزِ عمل سے بیگانہ کر کے اپنے فرقوں کی پیروی پر لگا کر اسلامی اخوّۃ کا جنازہ نکال دیا، فرقہ وارانہ مذہبی منافرت اور انتشار ق افتراق کے ذریعے سارے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بد ترین دشمن بنا ڈالا، ہر فرقے نے دوسرے فرقوں کوبلا دلیلِ شرعی محض بد نیّتی کے ساتھ اپنے ذاتی مفادکے حصول و تحفظ کے لئے، بدعتی، فاسق و فاجر، کافر و مرتد اور مشرک واجب القتل قراردے ڈالا، اب تو مساجد و مدارس، مزارات اور خانقاہیں تک کچھ بھی فرقہ وارانہ مذہبی دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے سے محفوظ نہیں رہیں۔ دیگر اسلام دشمن قوّتوں کے مسلم کش ایجنڈے اور مذموم عزائم کی تکمیل ، ان کے اپنے ارادوں، وہم و گمان اور توقع سے بھی دو قدم آگے بڑھکر، فرقوں نےکر دی ہے۔ اسلام دشمن دیگر قوّتوں کے کرنے کو فرقوں نے کوئی کام باقی ہی نہیں بچایا سوائے اس کے کہ بچے کھچے اور بکھرے ہوئے منتشر و بے روح و بے جان، فقط نام کے کلمہ گو "مسلمانوں" کو چن چن کر اپنے ظلم و ستم کانشانہ بنا کر، بلا خوف و خطر قتل کرتے رہیں ۔ ان فرقوں نے اللہ کے دینِ حق "الاسلام " اور مسلمانوں کوتباہ و برباد اور رسوا کر کے رکھ دیا ۔ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ نے فرقہ پرستی سے منع فرمایا تھا اور اس پر جہنّم کی وعید فرمائی تھی! لیکن آج ان فرقہ پرستوں نے اسی ممنوعہ و حرام فرقہ پرستی کو اپنا دین و مذہب بنا رکھا ہے اور اپنے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد، مالی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، دنیوَی فوائد و مراعات کی خاطر انہی کا پرچار کرنے کو اپنا شعار و وطیرہ بنا رکھا ہے۔حل صرف ایک ہی ہے کہ ہم فرقوں کی ماننے کے بجائے اللہ ربّالعالمین اور اس کےرسول رحمۃ للعالمین ﷺ کی بات مان لیں، فرقوں کو چھوڑ کر اللہ کے دین کو قبول کر لیں، صرف اسلام کو اپنا دین مان لیں جو کہ فقط قرآن و سنّۃ، اسوۃ الحسنۃ اور صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے طرزِ فکروعمل یعنی طور طریقوںپر مبنی ہے۔ خود کوصرف مسلمان سمجھیں اور کہلائیں، باقی ساری لادینی شناختوں سے احتراز و اجتناب برتیں۔ اصول الدّین (قرآن و سنّۃ، اسوۃ الحسنہ، جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے طرزِ فکروعمل) میں سارے مسلمانوں کا کامل اتفاق و اتحاد ہے جو اتحادِ امّۃ کی بنیاد بن سکتا ہے باقی محض فروعی وفقہی، مسائل و معاملات میں فقہاء و مجتہدین کے اجتہادی اختلافِ رائے کی بناء پر دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، بدعتی، کافر و مرتد، مشرک وغیرہ قرار دینے اور سمجھنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
اس طرح  اب بھی مقاصدِ دین کی تکمیل یعنی اللہ کی زمین اور اللہ کے بندوں پر اللہ کے دین کی بالادستی، سربلندی اور غلبے کو یقینی بنا کر فلاحِ انسانی اور اخوّۃِ اسلامی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔


No comments:

Post a Comment