ایک
نو مسلم انگریز امریکی پروفیسرکی انتہائی دلچسپ اور فکرانگیز آپ بیتی
ازقلم: ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
ایک
عیسائی فزیشن نے (جو امریکا کی ایک نامور
میڈیکل یونیورسٹی میں پروفیسر تھا) قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھا رسول اللہ ﷺ کی
سیرتِ طیّبہ (اسوۃ حسنہ) کا مطالعہ کیا ، بہت متاثر ہوا، نتیجتاً اس نے اسلام
قبول کر لیا، اس نے دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت اسلامی جمہوریہءِ پاکستان کے
دینی مدارس کا دورہ کرنے اور حسبِ استطاعت ان کی مالی استعانت کا ارادہ کیا،۔
پاکستان پہنچ کر وہ جس دینی تعلیمی درسگاہ میں گیا وہ اہلِ حدیث (سلفی) فرقے کی تھی وہاں اس سے جو
پہلا استفسارکیا گیا وہ یہ تھا کہ آپ کون سے فرقے کے مسلمان ہیں ، اس کی سمجھ میں
کچھ بھی نہ آیا تو اسے تفصیل کے ساتھ سمجھایا گیا کہ مسلمانوں میں متعدد فرقے ہیں
باقی سارے جہنّمی ہیں، رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے اپنے الگ الگ امام
بنا لئے ہوئے ہیں اور وہ محمد الرّسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ کو چھوڑ کر اپنے
اپنے اماموں کی تقلید کرتے ہیں حق پر فقط ہم ہیں اس لئے آپ سلفی (اہلحدیث) غیر
مقلّدمسلمان بن جائیں تو آپ کا مقصد پورا ہو سکتا ہے ورنہ آپ کے مسلمان ہونے کا آپ
کوکوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا۔ اس نے سوچا کہ اچھا ہوا میں پاکستان آگیا اور مجھے
اصل حقیقت کا علم ہو گیا ورنہ تو شاید واقعی مجھے اسلام قبول کرنے کا کوئی اخروی فائدہ ہی نہ ہوتااور میں بدستور گمراہ ہی
رہتا۔ اس نے مدرسے کے علماءِ کرام کی
رہنمائی کا شکریہ ادا کیا اور ان کو بہت دعائیں دیں اور مالی معاونت بھی کی۔
اگلے روز وہ نومسلم اپنےہوٹل کی قریبی مسجد میں مترجم (ترجمان) کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کرنے گیا ،
خطیب صاحب کی تقریر کا موضوع ردّ سلفیت و اہلحدیثیت اور تقلید کی فرضیت تھا، مولوی
صاحب خاصی تیاری کر کے آئے تھے اور خوب زورِ خطابت اور دلائل کے ساتھ اہلِ حدیث
(سلفی)فرقے کو گمراہ اور جہنّمی ثابت کر رہے تھا، نماز کے بعد اس نو مسلم پروفیسر
صاحب نے ان کے ساتھ ملاقات کی اور اپنی گذشتہ روز کی روئیداد سنائی مولوی صاحب نے ان
کو مزید دلائل کے ذریعے قائل کر لیا کہ حنفی مسلمان ہی زیادہ بہتر مسلمان ہیں اور
باقی دوسرے تینوں ائمہ کی تقلید بھی اگرچہ کہ بالکل جائز ہے مگر امامِ اعظم
ابوحنیفہ کی تقلید اوروں کی نسبت افضل و اولٰی ہے۔ مولوی صاحب نے ان کو پوری طرح
قائل کرلیا اور اگلی صبح ان کو اپنے مدرسے کے دورے کی دعوت بھی دے دی جو کہ اس نو
مسلم نے بخوشی قبول کر لی۔
مولوی
صاحب کے ہمراہ وہ نومسلم امریکن پروفیسر صاحب شہر کے ایک بہت معروف و مشہور مدرسے
میں پہنچے جو کہ دیوبندی فرقے کا نامور ادارہ تھا وہاں جانے کے بعد علماءِ کرام سے
ان کے علم میں مزید اضافہ ہوا اور ان کو بتایا گیا کہ احناف کے اندر بھی مختلف
گمراہ فرقے بن چکے ہیں جن میں سے ایک بریلوی فرقہ کافی معروف ہے یہ لوگ بدعتی،
کافر و مشرک اور مرتد ہیں ، قبروں کو سجدے کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی شان معاذ اللہ
خالقِ کائنات اللہ سبحانہ و تعالٰی سے بھی
بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں کہیں ان کے دامِ فریب میں آ کر اپنے ایمان کا خاتمہ نہ
کر بیٹھنا۔ نو مسلم پروفیسر صاحب نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے رہنمائی فرمائی
اور گمراہی سے بچا لیا اس نے دیوبندی اسلام قبول کرلیا ، دعائیں دے کر اور
کچھ ہزار ڈالروں کا نذرانہ پیش کر کے رخصت ہوا۔
اسی
رات وہ نو مسلم پروفیسر صاحب پاکستان کے
دوسرے بڑے شہر پہنچے اور ہوٹل کے قریب
واقع مسجد میں نمازِ فجر ادا کرنے پہنچے ،
پیش امام صاحب نے اعلان فرمایا کہ تبلیغی جماعت آئی ہوئی ہے دعا کے بعد بیان ہو گا
نمازی حضرات بیان سننے بغیر نہ جائیں۔
درس
میں حاضرین کو بتایا گیا کہ جہاد بمعنٰی قتال ساقط اور حرام ہو چکا ہے ، اب جہادِ اکبر تبلیغی
جماعت کے ساتھ وقت لگانا اور چلے کاٹنا ہے اور یہی عصرِ حاضر کی اوّلین ضرورت
ہےاور سب سے اعلٰی و افضل ترین عبادت ہے ، مسلمانوں کی یہی ایک جماعت ہے جو حق پر
ہے اور دینِ اسلام کی داعی ہے باقی سب کے سب مسلمان راہِ حق سے بھٹک چکے ہیں ،
ضنّتی جماعت بس ایک یہی ہے۔ حاضرین سے تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانے کی نیّت
کروائی گئی اور عہد بھی لے لیا گیا۔ نو مسلم پروفیسر صاحب سے بھی حامی بھروا لی
گئی ۔ بیان کے بعد سارے مبلغین نے مل کر پروفیسر صاحب کو گھیر لیا اور اپنے رائے
ونڈ کے تبلیغی مرکز لے گئے وہاں موصوف کی اور بھی خوب اچھی طرح برین واشنگ کر دی
گئی اور ان سے وعدہ لے لیا گیا کہ امریکہ جا کر وہ وہاں تبلیغی جماعت کے مبلغ بنیں
گے اور تبلیغی جماعت کے ساتھ وقتاً فوقتاً چلّے لگایا کریں گے۔
پروفیسر
صاحب کو بریلوی علماءِ کرام نے بھی بریف کیا اور اپنے دلائل سے اچھی طرح سمجھایا کہ صرف اور صرف ہم ہی اصل
اہل السّنّۃ والجماعۃ ہیں جو کہ جنّتی ہیں باقی سارے گستاخِ رسول کافر و مشرک،
مرتد اور جہنّمی ہیں، دعوۃِ اسلامی کے
میٹھے میٹھے مدنی بھائیوں نے بھی باقی سب کے خلاف زہرافشانی میں کوئی کسر باقی نہ
چھوڑی اور اپنے دلائل سے اپنے علاوہ باقی سب کے سب فرقوں کو جہنمی اور خود کو
جنّتی فرقہ ثابت کر دیا۔
الغرض
بریلوی، دیوبندی، مماتی،
حیاتی، طاہری، وہابی،
اہلحدیث، سلفی، جماعتی، اسراری، عثمانی، مسعودی ، توحیدی،
رضوی، تبلیغی، عطاری، پرویزی،
جکڑالوی وغیرہ منکرین حدیث، لاہوتی ، مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی، چشتی، قادری، نقشبندی، اور سہروردی ، و غیرہ سمیت تمام فرقوں، مذہبی جماعتوں ، مسالک و مشارب
کے اکابر و ممتازعلماء و مشائخ اور قائدین کے ساتھ، اسنو
مسلم ، امریکی پروفیسر صاحب کی ملاقاتیں ہوئیں اور سب نے ان کو اپنے اپنے افکار و
نظریات دلائل کے ساتھ سمجھائے ہر ایک نے فقط خود کو مسلمان بتایا اور باقی سب کو
بدعتی، فاسق و فاجر ،کافر، مشرک ا و ر پکا
جہنّمی قرار دیا۔
اس
ناقابلِ فہم
پریشان کن صورتِ حال میں پروفیسر
صاحب نے از سرِ نو قرآن و سنّۃ کا گہرا مطالعہ کر نےکا فیصلہ کیا اور اس پر غور وفکر کے بعد
اپنی تحقیق سے نتیجہ اخذ کیا کہ بریلوی، دیوبندی، مماتی، حیاتی، طاہری،
وہابی، اہلحدیث، سلفی، جماعتی، اسراری،
عثمانی، مسعودی ، توحیدی، رضوی، تبلیغی، عطاری، پرویزی،
جکڑالوی وغیرہ منکرین حدیث، مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی، چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی، سیفی اور لاہوتی و غیرہ سب کے
سب نے دراصل قرآن و سنّۃ کو پسِ پشت ڈال
رکھا ہے اور اس کو ثانوی جبکہ اپنے اپنے خود ساختہ نظریات و افکار اور اپنی اپنی
سوچ و خیالات اور اپنے اپنے فرقے کے اکابرین کو آسل دین ِ اسلام ( قرآن و سنّۃ) اور
اللہ و رسول اللہ ﷺ پر عملا پر اوّلین
ترجیح دے رکھی ہے جبکہ یہ عمل سراسر خلافِ دین و ایمان ہے۔ اسی کی وجہ سے مسلمانوں میں مذہبی منافرت اپنی
انتہائی سرحدوں کو چھو رہی ہے، تمام فرقوں
سے وابستہ نام نہاد مسلمان ایک دوسرے کو بدعتی، فاسق و فاجر، کافر و مشرک اور مرتد
گردانتے ہیں حلانکہ ڈینِ اسلام سے سب ہی منحرف اور باغی ہیں۔ ایسا کوئی بھی انسان
مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جو قرآن و سنّۃ اور اللہ و رسول اللہ ﷺ کے احکامات اور
تعلیمات کے مقابلے میں کسی بھی دوسرے اکابر کی بات، فکر و فلسفے، حکم و تعلیم کو قابلِ توجہ یا قابلِ قبول سمجھے ۔ اس نے کامل
یقین سے کہا کہ اب بھی اگر تمام فرقوں کے ماننے والے اللہ و رسول ﷺ کی تعلیمات و احکامات کو ، اپنے اپنے اکابرین کے بے بنیاد، من گھڑت، من پسند، خود ساختہ،
گمراہ کن انسانی و بشری افکار و نظریات سے
بہتر تسلیم کر لیں ، اپنے اپنے اکابرین کو ثانوی جبکہ اللہ و رسول اللہ ﷺ کے
احکامات و تعلیمات (قرآن و سنّۃ ) کو اپنی اوّلین حیثیت و ترجیح کے طور پر قبول کر لیں ۔ قرآن و سنّۃ کو باقی سب پر فوقیت دینے لگیں ، اپنے اپنے فرقوں کے اکابرین کے طرزِ
عمل اور طور طریقوں کی پیروی کے
بجائے ، صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین، تابعین
و تبع تابعین ، سلف صالحین، ائمہءِ فقہاء، مجتہدین و متفقہ اکابرین امۃ کے طرزِعمل
اور طور طریقوں کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے
اسوۃ الحسنۃ کو اپنا لیں اس پر متفق و متحد ہو جائیں تویقیناً آج بھی مسلمانوں میں اتحادِ امّت ، اخوّۃِ اسلامی کا
احیاء ممکن ہے جس کے نتیجے میں اللہ کی زمین اور اللہ کے بندوں پر اللہ کے دین
الاسلام کےغلبہ ، بالادستی، سربلندی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کیوں کہ الوہی ہدایت پر مبنی دینِ اسلام تو فقط قرآن و
سنّۃ پر مبنی و مشتمل ہے اس بات میں کسی
مسلمان کو کوئی اختلاف ہو ہی نہیں سکتا۔ سارے مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق فقط قرآن
و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ پر ممکن ہے جو کہ ان کے ایمان کا بنیادی تقاضہ ہے، اس بغیر ایمان کا دعوٰی بے روح و بے
جان اور ناقابلِ اعتبار ہے۔ اس حقیقت میں میں بھی کسی مسلمان کو کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا کہ کہ رسول اللہ کی بنائی ہوئی
مسلمانوں کی جماعت میں پھوٹ (تفرقہ ) ڈالنا ، کسی بھی بنیاد پر ان میں مذہبی منافرت
کو جنم دینا یا قبول کرنا، قرآن و سنّۃ میں سختی کر ساتھ ممنوع، حرام اور گناہِ
کبیرا ہے اس حرام عمل پر انتہائی سخت ترین
وعید فرمائی گئی ہے۔ یہ بھی سارے مسلمان جانتے ہیں کہ کسی بھی قرآن و سنّۃ کے واضح اور صریح حکم کے خلاف کسی
بھی (حرام و ناجائز ) کام کو جائز سمجھ کر
اختیار کرنا یا اسے جائز سمجھ کر قبول و
اختیار کرنا دینِ اسلام میں بالاتفاق کفر و ارتداد ہے۔
حیرت ہے کہ اتنی سیدھی و سادی اور آسان
ترین بات جو، قرآن و سنّۃ میں ہر
طور و طریقے سے دلائل کے ساتھ سمجھائی گئی ہے ، آج کل کے علماءِ اسلام ، مولانا صاحبان اور عام مسلمانوں کی
سمجھ میں آخر کیوں نہیں آتی؟؟؟ اس کی
بنیادی وجہ عام مسلمانوں کا قرآن و سنّۃ، رسول اللہ ﷺ کے اسوۃ الحسنۃ اور صحابہءِ
کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سے بے اعتنائی، بے رغبتی و استغناء کا رویّۃ اور حالیہ دو تین صدیوں کے بعض علماءِ اسلام کی اپنے اصل فرائضِ منصبی سے
پہلوتہی (فرض ناشناسی ) اور مجرمانہ غفلت ہی
ہو سکتی ہے۔
(آپ بیتی اگرچہ کہ مفروضہ پر مشتمل ہے مگر زمینی حقائق اور اصل صورتِ حال کیا اس سے
کچھ مختلف ہے؟؟؟ )
No comments:
Post a Comment