Tuesday, 25 August 2015

اہل السّنّۃ والجماعۃ میں (فقہءِ حنفی کے پیروکار) دیوبندی اور بریلوی فرقوں کی حقیقت

اہل السّنّۃ والجماعۃ میں (فقہءِ حنفی کے پیروکار)  دیوبندی اور بریلوی فرقوں کی حقیقت
دارالعلوم دیوبند کا قیام سنہ 1283ھ - 1866ء ،   مولانا احمد رضا خان  کا جنم 1272ھ- 1856ء
ازقلم: پرویز اقبال آرائیں
دارالعلوم دیوبند کا قیام سنہء1866  میں میں عمل میں آیا
سنۃ1857ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانان ہند کے سیاسی اور معاشی زوال کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق ، ثقافت ، مذہب اور معاشرت پر بھی دوررس نتائج کے حامل برے اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ مسلمانوں کا ملی تشخص خطرے میں پڑ گیا تھا اگر ایک طرف سقوط دہلی کے بعد مدرسہ رحیمیہ کے دروازے بند کر دئیے گئے تھے تو دوسری طرف ان کو ان کے مذہب سے بیزار کرنے کے لیے مذموم کوششوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا تھا۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ مسلمانوں کو اسلامی احکامات کی اصل روح سے باخبررکھا جائے اور ان میں جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت کی تجدید کا عمل بلا تاخیر شروع کیا جائے تاکہ سپین اور خلافت عثمانیہ کے مسلمانوں کی طرح ان کا شیرازہ ملت کہیں بکھر نہ جائے
دارلعلوم دیوبند کا قیام: مندرجہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ کی تعلیمات اور تحریک سے متأثر کچھ علماء نے برطانوی ہند میں دینی مراکز قائم کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی ۔ اسی ضرورت کے پیش نظر یو۔ پی کے ضلع سہارن پور  کے ایک قصبے نانوتہ کے حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے 30 مئی 1866ء بمطابق 15 محرم الحرام 1283ھ کو دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد (مسجد چھتہ) میں مدرسۃ دیوبند کی بنیاد رکھی۔ واضح رہے کہ اس نیک کام میں انہیں مولانا محمود الحسن کے والد مولوی ذولفقار علی صاحب  اور ( بابائے قوم  ،بانیءِ پاکستان، قائدِ اعظم ،محمّد علی جناح کی نمازِ جنازہ پڑھانے والے)  شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی  کے والد مولوی فضل الرّحمٰن  صاحب کا عملی تعاون حاصل رہا۔
یہاں یہ وضاحت بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس مدرسے کا آغاز مسجد چھتہ دیوبند کے انار کے درخت کے نیچے ایک معلم اور ایک طالب علم کے درمیان نشست سے ہوا۔ معلم مولوی محمود  اور طالبعلم محمود الحسن تھے۔حسن اتفاق دیکھیے کہ استاد محمود ، شاگرد بھی محمود اور عنوان بھی محمود- ۔ کسے معلوم تھا کہ یہ چھوٹا مدرسہ ایک دن دنیائے اسلام کی عظیم درسگاہ بنے گا۔ اسے ایک عظیم دارالعلوم بنانے کا سہرا مولانا قاسم ناناتوی اورمولانا رشید احمد گنگوہی کو جاتا ہے۔ جبکہ اسے معراج کمال پر پہنچانے والی  دو مقدس ہستیوں میں مولانا محمود الحسن(شیخ الہند) اور مولانا شبیر احمد عثمانی (شیخ الاسلام) کے اسمائے مبارک شامل ہیں۔
ثابت ہوا کہ 29 مئی سنہء 1866 تک دارلعلوم دیوبند کا  کوئی وجود تھا  نہ ہی دیوبندی فرقہ، مسلک یا مکتبہءِ فکر کا کوئی نام و نشان تھا لیکن  برِّ صغیر میں مسلمان کثیر تعداد میں موجود تھے جن میں سے تقریباً 98-99فی صد مسلمان خود کو صرف مسلمان(اہل السنّۃ والجماعۃ) سمجھتے،   بتاتے اور کہلواتے تھے  اکثر و بیشتر فقہِ حنفی کے پیروکار تھے۔ ان کے مابین کسی قسم کی کوئی تفریق تھی نہ ہی کوئی مذہبی منافرت۔
قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے بانیان، اور ابتدائی عرصہ کے منتظمین،  مدرّسین، علماءِ  واکابرین سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کی اس عظیم دینی و علمی درسگاہ کو کسی   کو اس  کو بنیاد پر اور اس کے نام سے منسوب کر کے مسلمانوں اور دینِ اسلام میں کسی نئے مخصوص فرقے، مسلک یا مکتبہءِ فکر  بنانے کی کوئی تعلیم و ترغیب دی ہو! انہوں نے  بہر طور  قرآن و سنّۃ   کی اصل تعلیمات و احکام کو باقی سب چیزوں پر ہمیشہ اوّلین ترجیح اور واضح فوقیت دی ، فقہِ حنفی  کی پیروی اور خدمت کی مگر ائمہءِ اربعہ میں سے کسی ایک یا اس کے پیروکاروں کو  محض فقہی اختلافِ رائے کی بناء پر کبھی گمراہ، بدعتی، فاسق و فاجر، کافر و مشرک یا مرتد قرار ہر گز نہیں دیا، بلا شبہ ان کی خدمات لائقِ صد ستائش اور قابلِ داد و تحسین ہیں ان کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے، یقیناً وہ  متّقی وصالح مسلمان  اور باعمل علماءِ حق کا کردار ادا کرتے اور  اللہ کے دین  (قرآن و سنّۃ) کی  گرانقدر خدمات انجام دیتے رہے ۔ مگر افسوس کہ آج ہم ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
بریلوی فرقہ: (مولانا احمد رضا خان 1272ھ -1856ء میں پیدا ہوئے)
 مولانا احمد رضا خان، جو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، حسان الہند جیسے القابات سے بھی جانے جاتے ہیں۔احمد رضا خان 1272ھ -1856ء میں پیدا ہوئے۔امام احمد رضا خان شمالی بھارت کے شہر بریلی  کے ایک مشہور عالمِ دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت میں سب سے اہم ، آپ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے والہانہ  محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزارہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ جو 30 جلدوں پر مشتمل فتاوٰی  رَضویہ  کے نام سے موسوم  ہے- برِّصغیر   پاک و ہند میں  مسلمانانِ اہل السّنّۃ والجماعۃ  کی ایک بڑی تعداد ، آپ ہی کی نسبت سے بریلوی کہلاتی ہے۔
دینی علوم کی تکمیل گھر پر اپنے والد مولوی نقی علی خان سے کی۔ دو مرتبہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ درس و تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون پر کئی کتابیں اور رسائل تصنیف و تالیف کیے۔ قرآن کا اردو ترجمہ بھی کیا جو "کنزالایمان" کے نام سے مشہور ہے۔ علوم ریاضی و جفر سمیت مختلف مروّجہ و عصری علوم و فنوںن میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شعر و شاعری سے بھی لگاؤ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بہت سی نعتیں اور سلام لکھے ہیں۔ انہوں نے عَرَبی، فارسی اور اردو زبانوں میں  کم و بیش یا پری ایک ہزار کتب تصنیف و تالیف کیں ، بعض جگہ  مختلف علوم و فنون اور موضوعات  پر ان کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد چودہ  سو بتائی گئی ہے-
ثابت ہوا کہ کم از کم سنہ1921ء تک بریلوی فرقہ، مسلک یا مکتبہءِ فکر کا کوئی وجود تھا  نہ ہی کوئی نام و نشان تھا لیکن  برِّ صغیر میں مسلمان کثیر تعداد میں موجود تھے جن میں سے تقریباً 98-99فی صد مسلمان خود کو صرف مسلمان(اہل السنّۃ والجماعۃ) سمجھتے،   بتاتے اور کہلواتے تھے  اکثر و بیشتر فقہِ حنفی کے پیروکار تھے۔ ان کے مابین کسی قسم کی کوئی تفریق تھی نہ ہی کوئی مذہبی منافرت۔
قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ  مولانا احمد رضا خان اور ان کے تلامذہ  علماءِ   و اکابرین  یا  خلفاء  سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے  مولانا احمد رضا خان  صاحب کی  فکر و فلسفے  یا تعلیمات  کو بنیاد بنا کر یا ان کے اس شہر  سے منسوب کر کے، مسلمانوں اور دینِ اسلام میں کسی نئے مخصوص فرقے، مسلک یا مکتبہءِ فکر  کو بنانے کی کوئی تعلیم و ترغیب دی ہو! انہوں نے  بہر طور  قرآن و سنّۃ   کی اصل تعلیمات و احکام کو باقی سب چیزوں پر ہمیشہ اوّلین ترجیح اور واضح فوقیت دی ، فقہِ حنفی  کی پیروی اور خدمت کی مگر ائمہءِ اربعہ میں سے کسی ایک یا اس کے پیروکاروں کو  محض فقہی اختلافِ رائے کی بناء پر کبھی گمراہ، بدعتی، فاسق و فاجر، کافر و مشرک یا مرتد قرار ہر گز نہیں دیا،  بلا شبہ ان کی خدمات لائقِ صد ستائش اور قابلِ داد و تحسین ہیں ان کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے، یقیناً وہ  متّقی وصالح مسلمان  اور باعمل علماءِ حق کا کردار ادا کرتے اور  اللہ کے دین  (قرآن و سنّۃ) کی  گرانقدر خدمات انجام دیتے رہے ۔ مگر افسوس کہ آج  ک مولانا احمد رضا خان  صاحب کے ساتھ  اپنی نسبت  جوڑنے کے دعویداران ان کی تعلیمات کے صریحاً برعکس عمل  پیرا ہیں  ایسی  متعدد بدعات کو اختیار کرنا جائز تصوّر کرنے لگے ہیں جن کو مولانا احمد رضا خاں صاحب نے اپنے فتاوٰی و دیگر تصنیفات میں حرام اور سراسر گمراہی لکھا ہے بلا شبہ ان کی علمی خدمات، فتاوٰی و تصنیفات  اہل السّنّۃ واجماعۃ اور فقہی طور پر فقہءِ حنفی کے پیروکاروں کے لیئے قابل ِ استفادہ قیمتی اثاثہ ہے مگر افسوس کہ  ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

No comments:

Post a Comment