Wednesday, 26 August 2015

اسلامی فکری روایت کے تناظر میں وحی کا مفہوم و مدلول

اسلامی فکری روایت کے تناظر میں وحی کا مفہوم و مدلول
تحریر: پرویز اقبال آرائیں
مقدمہ: لغت میں استعمال ہونے والا ہر لفظ ایک ایسا برزخ ہوتا ہے جو ایک جانب ذہن میں مقید معنی کی طرف دلالت کرتا ہے اور دوسری جانب خارج میں واقع اس معروض کی طرف دلالت کرتا ہے جو اس لفظ کا مسمیٰ کہلاتا ہے۔ لفظ کی مذکورہ حالت اس وقت باقی نہیں رہتی جب وہ کسی فن کی اصطلاح کے طور پر مستعمل ہونا شروع ہوجاتا ہے یا اسے کسی فن کی اصطلاح بنا دیا جائے۔ ہم اصطلاحی مراد کو روزمرہ کی محاورہ سے اخذ نہیں کر سکتے اورنہ لغوی استعمال کو اصطلاحی معنی کی تفہیم کا زینہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اصطلاحی مراد کو لغوی معنی سے اور لغوی معنی کو اصطلاحی مراد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک ہی لفظ کی اصطلاحی مراد ایک فن میں اور ہوتی ہے اور دوسرے فن میں بالکل مختلف ہو سکتی ہے۔ اصطلاحی مراد کا مرزبوم وہی فن ہوتا ہے جس میں وہ بطور اصطلاح مستعمل ہے۔
مذہب“فضیلت کی حیثیت سے انسان اورخدا تعالیٰ کے مابین ایک ربط و تعلق ہے، علمی اعتبار سے ایک مستقل موضوع ہے۔ مذہبی حقائق کی دلالت کے لیے جن الفاظ و کلمات کو بطور اصطلاح استعمال کیا جاتا ہے ان کی معنوی صحت کا انحصار مذہبی مفہوم میں مضمر رہتا ہے۔ ان کا ایسا استعمال جس میں لفظ کی لغوی دلالت اصطلاحی مراد پر غالب آجائے علمی اعتبار سے نہ صرف ناجائزہے بلکہ فکری التباس کو فروغ دینے کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
وحی“ ایک مذہبی اصطلاح ہے اور عربی لغت کا ایک لفظ بھی ہے۔ لغت کی رو سے لفظ وحی کی معنوی دلالت اس مراد کا احصا نہیں کرتی جو بطورمذہبی اصطلاح اسے حاصل ہے۔ مذہبی اصطلاح میں ”وحی“ خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے حکم سے آگاہ کرنا ہے۔ وحی مذہبی معنی میں بندے اور خداتعالیٰ کے مابین مکالمہ نہیں ہے اور نہ ہی انسان کا انسان سے کلام و بیان ہے۔بطور اصطلاح ”وحی“ کا لفظ جس معنی پر دلالت کرتا ہے اس میں لغوی مراد کا قیام ممکن نہیں ہے۔
خطبات میں علامہؒ نے بعض مذہبی اصطلاحات سے اس طرح استفادہ کیا ہے کہ ان کا لغوی مفہوم اصطلاحی مراد میں مدغم ہوگیا ہے۔ لغوی مفہوم اور اصطلاحی مراد کا ادغام جن علمی اور فکری مشکلات کا باعث بنتا ہے وہ خطبات میں بھی پائی جاتی ہیں۔ خطبات اقبال ؒ کے انہی اشکالات کو حل کرنے کے لیے زیر نظر مضمون تیار کیا گیا ہے۔ اس میں ہم نے پہلے مرحلے میں وحی کے لفظ کی لغوی تفہیم کو موضوع بنایا ہے اور پھر اس لفظ کے ان استعمالات کی نشاندہی کی ہے جو مذہبی طبقے میں مستعمل رہی ہیں اور آخر میں خالص مذہبی معنی کی وضاحت کی گئی ہے۔
علامہ ؒ نے ”علم بالوحی“ کی ترکیب استعمال فرمائی ہے، لفظ ”وحی“ کو ایک مخصوص نوع کے علم کے ایک واسطے یا وسیلے کے طور پر لیا ہے۔ خطبات اصلاً انگریزی زبان میں دیے گئے تھے اس لیے لفظ ”وحی“ کو لفظاً نہیں بلکہ معناً استعمال کیا گیا ہے۔ ہم یہاں اقبالؒ کے بیان کے بجائے مراد بیان سے استفادہ کرتے ہوئے اس موضوع پر اپنی تحقیق پیش کر رہے ہیں۔
لفظ ”وحی“ کی لغوی اور اصطلاحی تحقیق و تبیین:
عربی زبان و ادب میں لفظ ”وحی“اشارہ ،ایماء،کتابت،پیغام ،پوشیدہ کلام وغیرہ کے معنوں میں آتا ہے۔ گویا عربی زبان میں کلام کی ایک نوع وہ ہے جسے جلی کلام کہا جائے گا اور دوسری کلام وہ ہے جو اس کے مقابل خفی کلام کہلاتی ہے۔ ”وحی“ لفظ کلام خفی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔معنی کا ابلاغ جن علامات کے ذریعے سے ایک انسان سے دوسرے انسان کے شعور کو منتقل ہوتا ہے، اگر وہ الفاظ بین اور واضح ہوں تو یہ کلام جلی ہوگا اور اگر معنی کے ابلاغ کے لیے اشارہ و کنایہ کو استعمال کیا گیا ہے تو یہ خفی کلام ”وحی“ ہے۔ ابن منظور نے لسان العرب میں اس لفظ کے تحت لکھا ہے:
الوحی: الشارة و الکتابة والرسالة و الالہام و الکلام الخفی و کل ما القیتہ الی غیرک ۔ یقال: وحیت الیہ الکلام و اوحیت ۔ ووحی وحیاًو اوحی ایضاً ای کتب۔“(۱)
ترجمہ:۔اشارہ ،کتابت، پیغام، الہام، اور مخفی کلام کو کہا جاتا ہے۔نیز ہر وہ بات جو تم دوسرے تک پہنچا دیتے ہو وحی کہلاتی ہے۔
عرب کہتے ہیں، وحیت الیہ الکلام ، یاپھر کہتے ہیں، اوحیت ؛ ہمزہ کے ساتھ، یا بغیر ہمزہ کے جیسے ، وحیت،یعنی میں نے اسے بات پہنچا دی۔
 اسی طرح ’ وحی اور اوحی کے افعال کتب کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں
وحی کا لفظ مذکورہ بالا تمام معنوں میں استعمال ہو تا ہے۔یہ لفظ اپنے اسی لغوی عموم کے ساتھ قران مجید میں بھی استعمال ہوا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں اس لفظ استعمال ہوا ہے اس سے لغوی معنی مراد لینے ممکن نہیں ہیں۔ قرآن مجید میں ”وحی“ کا لفظ اپنے مادے کے ساتھ بہت استعمال ہوا ہے، مگر اصطلاحی معنی میں ”وحی“ کے وسیلے سے وجود میں آنے والی کلام کا متکلم انسان نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔قرآن مجید میں غیر اللہ کے کلام کو بھی ”وحی “سے تعبیر کیا گیا۔اصطلاح میں جس کلام کا متکلم اللہ تعالیٰ کی ذات ہو اور مخاطب چاہے انسان ہو یا غیر انسان وہ ”وحی“ کہلاتی ہے۔ عربی لغت میں ”وحی“ کے لغوی مفہوم میں یہ تخصیص نہیں پائی جاتی، ”وحی“ کا لغوی مفہوم انسان اور خدا تعالیٰ دونوں کے کلام کو شامل ہے۔ قرآن مجید میں بھی تخصیص نہیں پائی جاتی تاہم ”اسلام“ میں اس لفظ کو لغوی معنی میں استعمال کرنے کی گنجائش تقریباً معدوم ہو چکی ہے۔ مسلم معاشرے عرب ہوں غیر عرب ہر جگہ ”وحی“ کے لفظ کا مدلول فقط ایک ہے یعنی جس کلام کا متکلم اللہ تعالیٰ ہے وہ ”وحی“ ہے اور جس کلام کا متکلم اللہ تعالیٰ نہیں ہے وہ ”وحی“ نہیں ہے۔
 مسلم معاشروں میں مذہبی اورسماجی وجوہات کی بنا پریہ لفظ اپنی اصطلاحی مراد میں اور زیادہ مستحکم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وحی کا لفظ نہ فقط اصطلاحی مدلول میں مقید ہو گیا بلکہ اس لفظ کا لغوی مفہوم تقریباً معدوم ہوگیا ہے اور یوں یہ لفظ اپنے لغوی مفہوم سے نکل اصطلاحی مراد میں محدود ہو گیا۔یہ لفظ اپنے نئے مفہوم میں مذہبی تقدس رکھنے کی وجہ سے فقط الوہی رسالت و نبوت کے لیے خاص ہو گیا۔”وحی“ کے اس خاص مدلول میں زیادہ شدت کے ساتھ منحصر ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ پیغمبر علیہ السلام کی حیات طیبہ میں اور آپ ﷺ کے وصال کے فوراً بعد نبوت کے جھوٹے مدعیان نے اپنی طرف نزول وحی کا دعویٰ کر دیا تھا۔ ”وحی“ کے اس غلط اور ناروا استعمال نے مسلم علما کو اس لفظ کے استعمال کی نسبت بہت زیادہ محتاط کر دیا ہے۔ انسان کے ساتھ حق تعالیٰ کے تعلق ورابطہ کی نفی اگر چہ مسلم معاشروں میںکبھی نہیں کی گئی مگر اس تعلق کو ”وحی“ کے بجائے الہام، القا وغیرہ کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے اور ”وحی“ کا لفظ Singularity Term کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ علاوہ ازیںقران مجید میں بھی کچھ آیات ایسی ہیں جن کی وجہ سے اس لفظ کا عمومی استعمال ترک کرنا ضروری ہو گیا تھا:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْہِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ (6/93)  تر جمہ: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹی تہمت باندھے یا دعویٰ کرے کہ مجھ پروحی آئی ہے در آں حالیکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو، یاا جو کہے مجھ پر عن قریب اتارا جائے گا اسی کی مثل جیسا کہ اللہ نے اتارا ہے۔(۲)
ابن منظور نے لسان العرب میں قران مجید میں غیر نبی کے کلام کو وحی کے لفظ سے تعبیر کرنے کی مختلف مثالیں بیان کی ہیں۔ مثلاً قران مجید میں آیا ہے:
یوحی بعض ھم الی بعض زخرف القول غرورا(۶۲۱۱) اس کا مفہوم بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: معناہ یسر بعض ھم الی بعض فھذا اصل الحرف ثم قصر الوحی للالہام۔(۳)
ترجمہ:” مطلب یہ ہے وہ ایک دوسرے سے خفیہ پیغام رسانی کرتے ہیں، اس لفظ کا یہی اصل مفہوم ہے، بعد کو وحی کو الہام کے معنی میں مقصور کر دیا گیا
اس کا مطلب یہ ہے کہ” الہام“ یا ”القائ“ کے معنی میں منتقل ہونے کی وجہ ’عملی قرینہ‘ ہے ورنہ اصلاً وحی کا لفظ ”الہام و القائ“ کے لیے وضع نہیں کیا گیا ہے۔ ”الہام و القائ“ میں عملی قرینہ یہ ہے کہ ملہم یا ملقیٰ یعنی جس کی طرف الہام یا القاءکیا گیا ہے،اس تک اطلاع بغیر کسی ظاہری واسطے کے پہنچ جاتی ہے۔ خفیہ طریقے سے پیغام رسانی کا عمل ہی ”وحی“ کہلاتا ہے ۔قران مجید کی ایسی آیات جن میں ”وحی“ کا لفظ غیر نبی کے لیے استعمال ہوا ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے حواریوں یا امِ موسیٰ علیہ السلام کو وحی کیے جانے کا ذکر ہے ان کی تفسیر کے ضمن میں ابن منظور نے لکھا:
الزجاج کا قول ہے کہ ’واذا وحیت الی الحواریین ان امنوا بی و برسولی(۵۱۱۱)“ کچھ علما کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ہے’ الھمت ھم ‘ اسی طرح کچھ دیگر علما نے کہا کہ اس کا مطلب ہے’ امرت ھم‘ اس کی ایک اور مثال یہ مصرع ”وحی لھا القرار فاستقرت“ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم کیا کہ تو قرار پکڑ تو وہ سکون میں آ گئی۔ امام زہری کا قول ہے کہ ”و اوحینا الی ام موسیٰ ان ارضعیہ(۷۷۲)“ میں الوحی ھھنا القاءاللہ فی قلبھا یعنی اس ایت میں وحی کا مطلب ہے کہ ان کے قلب میں القاءکر دیا تھا۔ ابو اسحاق نے کہا کہ ” اصل الوحی فی اللغة کلھا اعلام فی خفاءو لذلک صار الالہام یسمیٰ وحیاً“ یعنی لغت میں وحی کی اصل ہر طرح کی پوشیدہ نشاندہی ہے یہی وجہ ہے کہ الہام کو وحی کا نام دے دیا گیا۔اسی امام زہری کا قول ہے کہ” الاشارة و الایماءیسمیٰ وحیاً ولکتابة تسمیٰ وحیاً“ یعنی اشارہ ہو یا ایماءاور کتابت کو وحی کہا جاتا ہے(۴)۔
کتب احادیث میں’ فترت وحی ‘ کی ترکیب اس دور کے لیے استعمال ہوئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزول وحی موقوف ہوتا ہے۔ اگر وحی سے مطلقاً ”الہام و القائے ربانی“ مراد ہو تو وہ کسی دور میں مکمل طور پر ختم نہیں ہوا(۵)۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ لفظ ”وحی“ کا اصطلاحی مدلول نہ تو مطلق ہے اور نہ ہی عام ہے۔ بالفرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر طرح کے القاءو الہام کو” وحی“ کے لغوی معنی کی رعایت کے پیش نظر ”وحی“ سے ہی تعبیر کیا جائے تب بھی اس لفظ کے اصطلاحی وضع کو نظر انداز کرنا خاصا مشکل افزا اور الجھا دینے والا کام ہوگا۔
احادیث کی کتب میں نزول وحی کی کیفیت کا ذکر آیا ہے، جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب پیغمبرﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی تو دوران نزول آ پﷺ کی جسمانی حالت سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ آپﷺ پر معمول کی حالت نہیں ہے۔آپﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہو جاتا تھااور آپ ﷺ پسینے سے شرابور ہوجاتے۔حدیث کے الفاظ ہیں : فاذا ھو محمر الوجہ، یغطّ (۶) یعنی آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوجاتا اور پسینے سے شرابور ہوتا۔ وحی کا لفظ بطور اصطلاح جس مدلول کی نشاندہی کرتی ہے وہ” پیغمبرانہ وحی “ ہے،جس کے نزول کی یہ کیفیت بیان ہوئی ہے(۷) اگر چہ اس کا امکان موجود ہے کہ لفظ کے لغوی معنی کو پیش نظر رکھ کر اس کو اصطلاح کے ماحول سے آزاد کر لیا جائے، تاہم یہ مشکل بہرحال برقرار رہتی ہے کہ اگر ایک لفظ اپنے وضعی معنی کے بجائے اصطلاحی مفہوم میں زیادہ مقبول ہوچکا ہو تو معنی موضوع لہ میں اس کا استعمال” تنافر“ کا باعث ہوتا ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ ” وحی“ کا لفظ لغوی اعتبار سے جس عموم کا حامل ہے، نزول قران کے بعد وہ باقی نہیں رہا۔ اس لیے پہلی صدی ہجری سے لیکر چھٹی صدی ہجری تک عربی زبان وادب میں الوہی خطاب میںیہ ایک اصطلاح کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے۔ اسلامی فکری کی تاریخ میں غالباً یہ شیخ اکبر محی الدین ابن العربی(متوفیٰ ۸۳۶ھ)وہ پہلے صوفی ہیں جنہوں نے وحی کے لفظ کو اصطلاحی معنوںکے بجائے اسی عموم میں دوبارہ استعمال کیا جس میں یہ لفظ قران مجید میں آیا ہے۔ان سے قبل اس لفظ کو صوفیا، حکمااور علما میں سے کسی نے لغوی معنی کے عموم میں استعمال نہیں کیا۔ذات حق کے ربط و تعلق کا دعویٰ صوفیاءمیں موجود رہا ہے مگر کسی نے اس ربط و تعلق کو یا اس کے حاصلات کو وحی سے تعبیر نہیں کیا۔الہام ،القا، وصل ،وصول اور سیروغیرہ ایسے الفاظ ہیں جن کے ذریعے تعلق مع اللہ کو ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔شیخ اکبرؒنے اپنے عرفانی ادب میں وحی لفظ کو خوب استعمال کیااور اپنے مخصوص انداز میں اس لفظ کے مدلول کی خوب صراحت کی ہے ۔

شیخ اکبر محی الدین ابن العربیؒ نے قران مجید کی ایک اٰیت " وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِيْحَہُمْ (17/44)" سے یہ استدلال کیا ہے کہ کائنات کی ہر شی حیوان ناطق ہے، بلکہ شیخؒ نے اس قول عرفا کی طرف منسوب کیا ہے۔اسی بیان میں وہ فرماتے ہیں: لما کان الامر ھکذا جاز بل وقع و صح ان یخاطب الحق جمیع الموجودات و یوحی الیھا ، من سماءو ارض و جبال و شجروغیر ذالک من الموجودات (۸) ترجمہ: ....جب حقیقت یہ ہے تو یہ جائزبلکہ واقعہ ہے اور درست ہے کہ حق تعالیٰ تمام مخلوقات سے مخاطب ہوتا ہے،اور ان کی طرف وحی فرماتا ہے، جس میں آسمان ،زمین، پہاڑاور درخت وغیرہ شامل ہیں۔
مذکورہ بالا حوالے سے یہ بالکل عیاں ہے کہ شیخ اکبرؒ نے وحی کے لفظ کو اسی عمومی مفہوم میں لیا ہے، جس میں یہ لفظ عربی زبان میں استعمال ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ شیخؒ نے وحی کے لفظ بالکل اسی معنی و مفہوم میں لیا ہے جس میں یہ قران مجید میں آیا ہے۔انہوں نے وحی کے لفظ کو لغوی عموم پر رکھتے ہوئے اصطلاحی مفہوم کو قائم کرنے کی سعی کی ہے۔اس لیے کہ لغوی عموم کا تقاضا ہے کہ ہر اس علم وادراک اور فطری تقاضے کو وحی کہا جائے جس کے ابلاغ میں رمزیت غالب ہو، رمز اور اشارہ مرکزی حیثیت رکھتا ہو(۹)۔جبکہ اصطلاحی مفہوم کا تقاضا ہے کہ اس کا مبداءماورائی ہو، مابعد الطبیعیاتی ہو۔اس لیے شیخ نے وحی کے لیے دو باتوں کی خاص طور پر نشاندہی کی ہے۔ایک یہ کہ وحی جب بھی کسی پر ہو گی تو بس عین فہم کی صورت میں ظاہر ہوگی اور تعقل و تدبر کا نتیجہ نہیں ہو گی۔وہ فرماتے ہیں کہ فہم کے متحقق ہونے میں جو سرعت وحی کو حاصل ہے کائنات میں کوئی شے اس کے مساوی نہیںہے۔وحی جب بھی ہوگی تو انسان کے قویٰ ادراکیہ کے تحرک یا کسب کا نتیجہ نہیں ہوگی اس کے بجائے وہ فی نفسہ ادراک بن کر رونما ہوتی ہے(10)۔ چنانچہ شیخ ؒ نے بچے کا ماں کے سینے کی طرف راغب ہونا ، شہد کی مکھی کا شہد تیار کرنا،وحی الہی کی مختلف صورتیں ہیں، ان تمام صورتوں کو وہ ’المفطور‘ کہتے ہیں یعنی فطری ہیں اور غیر مکتسب ہیں۔دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ وحی کا غلبہ شدید ترین ہوتا ہے اور انسان کا کوئی فطری داعیہ اس کے سامنے نہیں رک سکتا(۱۱)۔مثلاً حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ کی طرف وحی کی گئی کہ تم جب خوف محسوس کرو تو بچے کو تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈال دینا " وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْہِ۝۰ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْہِ فَاَلْقِيْہِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْـزَنِيْ۝۰ۚ "تو وہ ایسا کرنے پر مجبور تھی ، اگرچہ بچے کو دریا میں ڈال دینا بھی موت کے منہ میں پھیکنا ہی تھا مگر وحی کا غلبہ اور تسلط انسان کی ذات یا ہر وہ شے جس کی طرف وحی کی جائے پر اس قدر شدید ہوتا ہے کہ اس کے طبعی داعیات بھی موقوف ہو جاتے ہیں(12)  
شٰخ اکبر ابن العربی ؒ نے وحی کی انواع و اقسام کو مخلوقات یا موجودات کی انواع اقسام کے مساوی بتایا ہے۔گویا وحی کی فقط وہی ایک صورت نہیں ہے جسے بالعموم مذہبی طبقہ فرض کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ہر نوع کے لیے الگ الگ وحی کی نوع ہے۔
الوحی فی کل صنف صنف و شخص شخص فھو الالہام، فانہ لا یخلو عنہ موجود"(13) ………."
ترجمہ: موجودات کی ہر صنف میں وحی کی ایک صنف ہے اور ہر فرد میں وحی بھی فرد یا مشخص ہوتی ہے،یہ الہام کہلاتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ وحی سے کوئی موجود خالی نہیں ہے۔
شیخ ؒ کے بیان میں اس وقت وحی کا تصور اور زیادہ کھل جاتا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ انسان کے جسمانی اعضاءمیں سے ایک عضو بھی ایسا نہیں ہے جس کو اللہ کی طرف وحی نہ ہوتی ہو۔انسان کے جسم جوجو اعضاءجوجو وظیفہ انجام دے رہے ہیں وہ سب وحی الہی ہی ممکن ہو رہا ہے۔انسان کے بال، کھال ، گوشت ، اعصاب ، خون ، روح ، نفس، ناخن، اور سانس کی نالی وغیرہ سب اللہ کی ذات کا عرفان رکھتے ہیں اور ان سب کی طرف وحی اس تجلی میں ہوتی ہے جو ان کے ساتھ خاص ہے۔شیخ فرماتے ہیں:
فالانسان من حیث تفصیلہ صاحب الوحی و من حیث جملتہ لایکون فی کل وقت صاحب الوحی(14)
ترجمہ: پس انسان اپنی تفصیلی حیثیت سے صاحب وحی ہے اور اپنی مجموعی حیثیت سے ہمہ وقت صاحب وحی نہیں ہے۔
وحی کے اس حقیقی اور عمومی مفہوم کو طے کر لینے کے بعداس لفظ کے اس معنی کی طرف آنا قدرے آسان ہو جاتا ہے جسے مذہبی علما محفوظ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ
 شیخ اکبرؒبفس وحی کو مظاہر وحی سے ممتاز رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک نفس وحی علیٰ اطلاقہ تمام موجودات کی خاصیت ہے۔موجودات کا فرق و امتیاز اس کے مظاہر میں فرق کا سبب بنتا ہے۔موجودات میں انسان کی ہستی کو جو امتیاز حاصل ہے وہی امتیاز اس کی طرف کی جانے والی وحی کو بھی حاصل ہے۔شیخ ؒ کے نزدیک انسان جن اجزا کا مجموعہ ہے وہ تمام اجزا فرداً فرداًوحی الہی سے ہمہ وقت فیض یاب ہوتے ہیں جب کہ انسان اپنی مجموعی حیثیت میں وحی الہی سے وقتاً فوقتاً فیض یاب ہوتا ہے۔زیر نظر مقالے میں وحی کی مذکورہ اقسام میں موخر الذکر نوع موضوع بحث ہے جسے علامہ اقبال ؒ Religious Experienceسے تعبیر کر رہے ہیں۔
            شیخ اکبر ؒ نے انسان کی طرف کی جانے والی وحی خداوندی کے متعلق فتوحات کے ایک اور مقام پر لکھا:
کل من علم مالم یعلم فھو ملھم ، فالوحی شامل ، ینزل علیٰ کل الناقص و الکامل(15)
ترجمہ: ہر وہ شخص جو ایسا کچھ جان لیتا ہے،جس کا اسے پہلے علم نہیں تھاوہ ملہم ہے، پس وحی ہر ایک کو شامل ہے ،ہر ناقص اور کامل پر نازل ہوتی ہے۔
وحی ایک ایسا مظہر ہے جو ہر انسان پر نازل ہوتی ہے، نزول وحی میں روحانی نقص و کمال حائل نہیں ہوتا۔البتہ روحانی اعتبار سے ناقص انسان اس طرح کی وحی سے فیض یاب نہیں ہو سکتا جس طرح کی وحی سے روحانی اعتبار سے کامل انسان مستفید ہوتا ہے۔روحانی اعتبار سے جو انسان جس درجے کا ہے اسے وحی بھی اسی درجے یا مقام کی آتی ہے۔روحانی اعتباع سے کامل انسان کے لیے شیخ ؒ نے اہل اختصاص کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
و لاہل الاختصاص الوحی الالھی من الوجہ الخاص و ھو فی العموم لکن لا تبلغہ المفھوم ،فما من شخص الا و الحق یخاطبہ بہ منہ (16)
ترجمہ: اہل اختصاص کو وحی الہی بھی خاص نوعیت کی ہوتی ہے، یوں تو وحی عام ہے لیکن عقل کی یہاں
رسائی نہیں ہے،کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس حق تعالیٰ اس طرح کی وحی سے مخاطب نہ ہوتا ہو۔
حصول وحی کے متعلق شیخ ؒنے کوئی شرط بیان نہیں کی ، ان کے نزدیک وحی الہی تو ہوتی رہتی ہے۔انسان اس امر سے با خبر ہو یا نہ ہو ، وحی الہی کا وہ بہرحال مخاطب ہے اور رہتا ہے۔ایک فتوحات کے ایک مقام پر وہ ”مقام وحی“ کے متعلق بیان میں فرماتے ہیں:
فاذا عمد الانسان الیٰ مراّة قلبہ و جلا ھا بالذکر و تلاوة القران، فحصل لہ من ذلک نور۔ و للہ نور منبسط علی جمیع الموجودات ، یسمی نور الوجود ، فاذا اجتمع النوران فکشف المغیبات علی ما ھی علیہ۔۔۔۔۔۔۔ذلک مقام الوحی۔(17)
ترجمہ : پس انسان اپنے قلب کے آئینے کی جانب متوجہ ہوتا ہے،اور اسے ذکر اور تلاوت قران سے اجلا کر لیتا ہے تو اس کے ذریعے سے اسے ایک نور حاصل ہوتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا ایک نور ہے جو تمام موجودات پر پھیلا ہوا ہے،جسے نور الوجود کہا جاتا ہے ، تو جب دونو ں نور جمع ہو جاتے ہیں تو مغیبات سے پردے اٹھا لیے جاتے ہیں، یہ مقام وحی ہے۔
مقام وحی پر فائز ہونے کے لیے ذکر اور تلاوت کلام مجید سے انسان اپنے آئینہ دل کو روشن کرتا ہے ۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے مغیبات سے پردے اٹھا لیے جاتے ہیں ،یہ حصول وحی کی شرط نہیں ہے۔ وحی انسان کا حق نہیں ہے ،اور نہ یہ کوئی کسبی شے ہے۔وحی مفطور ہو یا خاص ہو ہر دو حق تعالیٰ کی طرف سے وہب محض ہے۔حصول وحی کی اہلیت کے لیے انسان کی حد تک ذکر اور تلاوت قران مجید سے قلب کے آئینے کو اجلا کرنا ہے۔ مگر جب شیخ اکبرؒ وحی کے نزول کی الوہی توجیہ بیان کرتے ہیں تو فرماتے ہیں
فاذا اراد الحق ان یوحی الی ولی من اولیائہ بامرما، تجلی الحق فی صورة ذلک الامر، لھذا العین، التی ھی حقیقة ذلک الولی الخاص،فیفہم من ذلک التجلی، مجرد المشاھدة،ما یرید الحق ان یعلمہ بہ ،فیجد الولی فی نفسہ علم مالم یکن یعلم۔(18)
ترجمہ : پس جب اللہ تعالیٰ اپنے اولیاءمیں سے کسی ولی کی جانب کسی معاملے میںوحی کرنے کا ارادہ فرماتا ہے ، تو اس معاملے کی صورت میں تجلی فرماتا ہے،جو اس العین کے لیے ہوتی ہے جو اس خاص ولی کی حقیقت ہے،تو اس تجلی کے ذریعے سے ’محض مشاہدے سے‘ وہ کچھ سمجھا جاتا ہے ، جو حق تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس ولی کو سیکھانا چاہتا ہے، چنانچہ وہ ولی اپنے نفس میں ایک ایسے علم کو موجود پاتا ہے، جس سے وہ آگاہ نہیں تھا۔
مذکورہ بالا صورت میں وحی انسان کے کسی ارادی فعل کا نتیجہ نہیں ہے، اور نہ ہی انسان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی طرف وحی ہو ئی ہے۔ اگر انسان اپنے اندر کسی معاملے میں ایسا کچھ سمجھ لیتا ہے جو اس کے علم میں پہلے سے نہیں تھا تو شیخ اکبرؒ کے مطابق یہ وحی ہوگا۔اب تک ہم نے شیخ ؒ کے موقف کو پیش کیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طبعی خواہشات ہوں یا جبلی داعیات، نفسانی تقاضے ہوں یا نفسی کیفیات ان کے نزدیک یہ تمام وحی کی مختلف صورتیں ہیں۔البتہ انسان کی سطح پر وحی کے بعض مظاہر میں غیر معمولی قوت اور شدت ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات تو جس کی طرف وحی کی جاتی ہے ، اس کی شخصیت پر وحی کا مکمل قبضہ اور تسلط قائم ہو جا تا ہے۔جیسا کہ اس سے قبل بیان کیا جا چکا ہے(19)۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شیخ ؒ جبلّی داعیہ کی شدید اور قوی صورت کووحی خیال کرتے ہیں۔مثلاً وہ فرماتے ہیں:
فدل علی ان الوحی اقویٰ سلطاناً فی نفس الموحی الیہ من طبعہ الذی ہو عین نفسہ(20)
ترجمہ : پس ثابت ہوا کہ وحی کا قبضہ اس شخص پر بہت قوی ہوتا جس کی طرف کی جارہی ہوتی ہے ، حتیٰ کہ اس کی طبعیت ،جو اس کا اپنا نفس ہے، سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
وحی کی مذکورہ صورتوں کے علاوہ شیخؒ نے دو اور صورتوں کو بھی بیان کیا ہے ۔ان دو صورتوں کا تعلق انسان اجتماعی حیات سے ہے۔ یعنی ان صورتوں میں انسان کی اجتماعی فلاح کا عنصر غالب ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں مابہ الامتیاز وصف وحی کے واجب التعمیل ہونے اور نہ ہونے کا ہے۔ یعنی ایک قسم وہ ہے جس پر عمل کرنا واجب ہے اور دوسری وہ کہ اس پر عمل واجب نہیں ہے۔ شیخ ؒ فرماتے ہیں ان اللہ فی وحیہ الی قلوب عبادہ بما یشرع فی کل امة ، طریقتین، طریقاً بارسال الروح الامین،المسمی جبریل، او من کان من الملائکة، الی عبد من عباد اللہ، فیسمی ذلک العبد، لھذا النزول علیہ رسولاً و نبیاً، یجب علی من بعث الیھم الایمان بہ و بما جاءمن عند ربہ و طریقاً آخر علی یدی عاقل زمانہ یلھمہ اللہ فی نفسہ و ینفث الروح الالہی القدسی فی روعہ (21)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعے سے اپنے بندوں کے قلوب میں وہ کچھ ڈالتا ہے جس سے ہر امت میں شریعت وضع کی جاتی ہے، اس کے دو طریقے ہیں، ایک روح الامین کو بھیجتا ہے جسے جبریل کہا جاتا ہے یا فرشتوں میں سے کسی کو، اپنے بندوں میں سے کسی نبدے کی طرف ارسال فرماتا ہے، اس نزول وحی کی وجہ سے وہ بندہ رسول یا نبی کہلاتا ہے، جن کی طرف ان کو مبعوث کیا گیا ہے ،اس نبی پر اور جو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے جو لے کر آیا ہے،ایمان لانا واجب ہے۔ دوسرا طریقہ : اپنے وقت کے صاحب عقل انسان کے نفس میں اللہ تعالیٰ الہام فرماتا ہے اور اس کے دل میں روح الہی قدسی پھونک دیتا ہے ۔
شیخ ؒ نے وحی کی موئخر الذکر صورت کے متعلق خاص طور پر لکھا کہ یہ اس وقت رونما ہوتی ہے، جب رسولوں کی آمد موقوف ہوتی ہے جسے” فترت وحی“ کا دور کہا جاتا ہے۔فتوحات کے مطالعہ یہ ظاہر ہوتاہے کہ وحی کی دوسری قسم سے ان کی مراد” فقہی اجتہاد“ ہے۔کیونکہ آگے چل کر انہوں نے مصالح شریعہ کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ دوسری قسم کی وحی سے انسانوں کی جان ، مال ، آبرو، عقل و نسل کی حفاظت کی جاتی ہے۔ پہلی صورت میں ایمان لانا واجب ہے جب کہ دوسری صورت میں عمل کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ اس سے عملی مصالح متحقق ہوتے ہیں۔ وحی کی پہلی صورت کو شیخؒ نے کچھ اور خصوصیات کے ساتھ بھی متمیز کیا ہے۔اگر شیخ ؒ کی بیان کردہ خصوصیات کو پیش نظر رکھا جائے تو عام اذہان میںاس بارے میں پیدا ہونے والا التباس رفع ہو سکتا ہے۔عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وحی کی اصطلاح کا شیخ ؒ نے غلط استعمال کیا ہے۔ مگر شیخ ؒ جب بھی انبیاءعلیہم الصّلٰوۃ السلام کی طرف کی جانے والی وحی کے متعلق بیان کرتے ہیں تو اس کے لیے ”وحی خاص“ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں۔وہ انبیاء اءعلیہم الصّلٰوۃ السلام کے مراتب کوائمہ مجتہدین کے مقام و مراتب سے متمیز ظاہر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں
مع علمنا ان مرتبتھم دون مرتبة الرسل الموحی الیہم من عنداللہ ،فالنبوة والرسالة من حیث عینھا و حکمہا ما نسخت وانما انقطع الوحی الخاص بالرسول (22)  ترجمہ: ۔ ہم جانتے ہیں ان (مجتہدین) کا مرتبہ ان رسولوں کا سا نہیں ہے جن کی طرف اللہ ک طرف وحی کی جاتی ہے، چنانچہ نبوت اور رسالت اپنے عین اور اپنے حکم کے مطابق منسوخ نہیں ہوئی ، بس فقط رسول ﷺ کی ذات کے ساتھ خاص وحی منقطع ہوئی ہے۔
شیخ ؒ کا یہ کہنا کہ نبوت اور رسالت اپنے عین اور اپنے حکم کے اعتبار سے منسوخ نہیں ہوئی تو اس سے ان کی واضح مراد ” اجتہاد “ کا جاری ساری ہو نا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف جو وحی خاص ہوئی تھی اس کا منقطع ہونا شیخ ؒ کے بیان سے بالکل عیاں ہے۔ افراد امت میں صاحب عقل کی طرف کی جانے والی وحی امت کے عملی مشکلات کو رفع کرنے والی قانونی تجاویز ہیں۔ دینی شعور رکھنے والا انسان یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس ذہن میں کسی اجتماعی یا انفردی مسئلے کا حل من جانب اللہ نہیں ہے۔بس اسی احساس کو شیخ ؒ وحی الہی سے تعبیر کیا ہے۔ شیخ ؒ نے انبیاءو رسل کی طرف کی جانے والی وحی کے لیے ” وحی تشریع“ اور” رسالت بشری “ کی ترکیب بھی استعمال کی ہے۔فتوحات کے مذکورہ بالا محولہ باب میں رسالت کے مفہوم کی مزید وضاحت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’ رسالت ایک ایسی شے ہے جسے رسول کی ذات ”روح قدسی امین“ کے واسطے کے بغیر قبول نہیں کر سکتا ہے۔یہ” روح قدسی امین“ رسول کے قلب پر اس پیغام کو نازل کرتا ہے اور بعض اوقات وہ ”روح قدسی امین“ مرد جوان کی صورت میں ان کے سامنے آجاتا ہے۔پھر شیخؒ کہتے ہیں ہر وہ وحی جو اس صفت کے ساتھ موصوف نہ ہو اسے ”رسالت بشریہ “ نہیں کہا جا سکتا، اسے وحی ، الہام ،نفث،القاءیا وجود کہا جائیگا(۲۲)۔
الفتوحات المکیہ کے تین سوپچاسویں (۰۵۳) باب میں شیخ اکبر ؒ نے پیغمبرﷺ کے مقام کی معرفت میں بعض اسرار سے پردہ کشائی کی ہے۔اس میں شیخ ؒ نے بلا ابہام یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد وحی کی کوئی سبیل باقی نہیں رہی۔ اب کوئی رہ باقی ہے تو وہ فقط الہام کی ہے۔ آپ ؒ فرماتے ہیں:
واعلم ان لنا من اللہ الالہام لا الوحی، فان سبیل الوحی قد انقطع بموت رسول اللہﷺ۔(23)
ترجمہ: ۔ وجان لو ہمارے لیے اللہ کی طرف سے ”الہام “ ہے اور وحی نہیں ہے، یقیناً وحی رسول اللہ ﷺ کے وصال کے ساتھ ہی منقطع ہو چکی۔
بایں ہمہ اس سے انکار ممکن نہیں کہ شیخ اکبر ؒ نے ”وحی“ کے لفظ کو اس کے لغوی عموم میں استعمال کرتے ہوئے اس احتیاط کی پروا نہیں کی جس کو علما نے روا رکھا ہے۔ ان کے نزدیک ’وحی‘ کے متحقق ہونے کی شرائط ایسی ہیں جن کا تعلق انسان کے اندرونی ادراک سے ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اے دوست اگر تو اپنے اندر کے القا کے بارے میں یہ محسوس کرے کہ اس میں تیرے تفکر وتدبر اور تفصیل کا دخل نہیں تو یہ وحی ہے لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر وہ وحی نہیں ہے: ایہا الولی اذا زعمت ان اللہ اوحی الیک فانظر فی نفسک فی التردد او المخالفة، فان وجدت لذلک اثرا بتدبیر او تفصیل او تفکر فلست صاحب الوحی، فان حکم علیک و اعماک و اصماک حال بین فکرک و تدبیرک و امضی حکمہ فیک فذلک ھو الوحی و انت عند ذلک صاحب الوحی۔ (24)
یعنی: اے دوست جب تمہیں یہ خیال ہو کہ اللہ تعالی نے تیری طرف وحی کی ہے، تو اپنے من میں جھانک کہ اس کے بارے میں کوئی تردد یا مخالفت تو نہیں، پس اگر تو اس میں اپنی تدبیر یا تفصیل یا تفکیر کا اثر موجود پائے تو صاحب وحی نہیں ہے، لیکن اگر وہ تجھ پر حاوی ہو، تجھے اندھا اور گونگا کر دے، تیرے فکر اور تدبیر میں حائل ہو جائے اور تجھ پر مسّلط ہو جائے تب وہ وحی ہے اور اس صورت میں تم صاحب وحی ہو۔
وحی کے بارے میں ہم نے شیخ اکبر محی الدین ابن العربیؒ کے موقف کو اپنی حد تک بالاستعاب پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ شیخؒ نے وحی کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے ، اگر ہماری یہ تحریر اس مکمل احصاءنہ بھی کرتی ہو تب بھی شیخ کا مجموعی موقف اس سے ہٹ نہیں ہو گا ۔
رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد ماورائی ربط و تعلق کے مکمل طور پر منقطع ہونے کے موقف کی صوفیاءنے کبھی تائید نہیں کی، البتہ اسے الہام ، القا، وغیرہ کے الفاظ سے تعبیر کیا، اور اس ربط و تعلق کو” وحی“ کے لفظ سے تعبیر کرنے سے اعراض کیا گیا۔ صوفیا کرام میں شیخ اکبر پہلے ؒ صوفی ہیں ،جنہوں نے اپنے عرفانی کشف و فتوح پر مبنی معارف میں ”وحی“ کے لفظ کے لغوی معنی کو پیش نظر رکھتے ہوئے غیر نبی کے لیے اس کے استعمال کو روا رکھا ہے ۔صوفیا کے بر عکس علما کا موقف بالکل دو ٹوک ہے کہ اللہ کی طرف سے” وحی“ مکمل طور پر منقطع ہوگئی ہے ۔ اب ایسی کوئی سبیل نہیں کہ کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اللہ کی طرف اس پر ایسا کچھ نازل ہوا ہے جو انسانیت کے لیے ہدایت ہے یا واجب التعمیل ہے(25)۔ شیخ اکبرؒ کو اس سے تو کوئی انکار نہیں کہ انسانیت کی ہدایت کے لیے واجب التعمیل” وحی“ کا سلسلہ باقی نہیں رہا، مگر علما کے اس دعویٰ کو قبول کرنے سے انہیں انکار ہے کہ” وحی “ کا حصول ابدالاباد تک موقوف ہو چکا ہے۔ علماءامت کے موقف کو بالصراحت امام فخر الدین الرازیؒ (۴۴۵ھ تا ۶۰۶ ھ) سے زیادہ بہتر شاید ہی کسی نے بیان کیا ہو۔امام رازی ؒ نے اپنی التفسیر الکبیر میں قران مجید کی سورہ الشوریٰ کی آیات نمبر 51"وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِـاِذْنِہٖ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ۝۵۱،
کے تحت” وحی“ کے امکانِ وقوع ، کیفیت نزول اور دیگر کلامی مسائل پر خوب بحث کی ہے۔امام صاحب ؒ فرماتے ہیں: المسئلة الاولیٰ: ”وماکان لبشر“ و ماصح لاحد من البشر” ان یکلمہ اللہ“ الا علیٰ احد ثلاثة اوجہ، اما علیٰ الوحی وھو الالہام و القذف فی القلب او المنام و اما علی ان یسمعہ کلامہ من غیر واسطة مبلغ و اما علی ان یرسل الیہ رسولاً من الملائکة فیبلغ ذلک الملک ذلک الوحی الی رسول البشری۔ (26)
مسئلہ اولیٰ: وماکان لبشر یعنی کسی انسان ،بشر کے لیے یہ درست نہیں کہ ان یکلمہ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے سوائے تین صورتوں کے۔ یا وہ وحی ہو گی ، جو دل میں وہ بات ڈال دیتا ہے یاخواب کی حالت میں وہ بتا دیا جاتا ہے،یا الہام کر دیا جاتا ہے،یا پھر کسی ظاہری واسطے کے بغیر اس شخص کو اللہ تعالیٰ اپنا کلام سنا دیتا ہے، یا اللہ تعالیٰ ملائکہ میں سے کسی کو بھیج دیتا ہے، تو فرشتہ اس وحی کو اس رسول بشری یا انسانی رسول کو پہنچا دیتا ہے۔
امام صاحب ؒ مزید فرماتے ہیں: اما الاول وھو انہ وصل الیہ الوحی لا بواسطة شخص آخر وما سمع عین کلام اللہ فھو المراد من بقولہ ” الا وحیاً“ و ام ثانی وھو انہ وصل الیہ الوحی لا بواسطة شخص اخر و لکنہ سمع عین کلام اللہ فھو المراد من قولہ ” او من وراءحجاب“ و اما ثالث وھو انہ وصل الیہ الوحی بواسطة شخص آخر فھو المراد بقولہ ”اویرسل رسولاً فیوحی باذنہ ما یشائ (27)
ترجمہ پہلی صورت یہ ہے کہ کسی انسان کے اللہ کی وحی بغیر کسی دوسرے کے واسطے پہنچے اور وہ عین کلام الہی کو نہ سنے تو ”الا وحیاً“ سے یہی مراد ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کو اللہ کی وحی اس طرح سے پہنچے کہ عین کلام الہی کو سنے تو” او من وراءحجاب“ سے یہی مراد ہے جب کہ تیسری صورت یہ ہے کہ کسی کے پاس اللہ کی وحی کسی دوسرے شخص کے واسطے سے پہنچے، تو” او یرسل رسولاً فیوحی باذنہ “سے یہی مراد ہے۔
امام صاحب ؒ نے ”وحی“ کی ان تینوں صورتوں کو انبیاءتک محدود رکھا ہے، اور غیر نبی کے لیے اس کے مکان وقوع کو بالکل ہی ختم کر دیا ہے۔ وہ ایک سوال سے اس نئی بحث کا آغاز کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
"ان الرسول اذا سمعہ من الملک کیف یعرف ان ذلک المبلغ ملک معصوم لا شیطان مضل" (28)
 یعنی جب رسو لﷺ اس وحی کو فرشتے سے سنتا ہے تو یہ کیسے جان لیتا ہے کہ وہ پیغام رساں معصوم فرشتہ ہے اور گمراہ کن شیطان نہیں ہے؟ امام ؒ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ وحی الہی کا ابلاغ اللہ کی طرف سے معجزے کا ظہور ہوتا ہے ،جس کی بنا پر وحی خداوندی شیطان خبیث کی مداخلت سے پاک رہتی ہے۔ وحی کا ابلاغ تین مراتب کے معجزات پر مشتمل ہوتا ہے۔
المرتبة الاولیٰ: ان الملک اذا سمع ذلک الکلام من اللہ تعالیٰ فلا بد لہ من معجزة تدل ان ذلک الکلام کلام اللہ۔
المرتبة الثانیة: ان ذلک الملک اذا وصل الی الرسول ، لا بد لہ ایضاً من معجزة۔
المرتبة الثالثة : ان ذلک الرسول اذا اوصلہ الی الامة ، فلا بد لہ ایضاً من معجزة فثبت ان التکلیف لا یتوجہ علی الخلق الا بعد وقوع ثلاث مراتب فی المعجزات(29)
ترجمہ : پہلا مرتبہ : جب فرشتہ وہ کلام سنتا ہے وہی پر ایک معجزہ ہوتا ہے کہ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ کلام واقعتاً اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے۔
دوسرا مرتبہ : جب فرشتہ رسول کی ذات پہنچتا ہے تو یہ بھی لازماً ایک معجزہ ہے۔
تیسرا مرتبہ: جب وہ رسول اس وحی الہی کو امت تک پہنچاتا ہے تو یہ بھی لازماً معجزہ ہے،۔ چنانچہ یہ امر ثابت ہو چکا ہے کہ مخلوق یعنی انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مکلف بنانے کا عمل تین مراتب کے معجزات کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے۔
یہ بات ایک طے شاید امر ہے کہ غیر نبی ؑکے الہام و القا میں شیطانی مداخلت سے بری ہونے کی ضمانت نہیں ہوتی۔جب کہ وہ وحی جو اللہ کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجی جاتی ہے ،اس کے پیغام کو شیطانی القاءسے محفوظ رکھنے کے لیے ، جیسا کہ امام رازیؒ نے لکھا ، تین مدارج کے معجزات سے گزارا جاتا ہے۔ بالفرض امام رازی ؒ کی بات نہ بھی مانا جائے تب بھی یہ شک و شبہ سے بہت بالا ہے کہ وحی الہی میں شیطان کوئی مداخلت کر سکے۔قران مجید اس کی نفی کی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ القاءشیطانی کو ختم کردیتا ہے اور اپنی آیات کو محکم فرمادیتا ہے۔ "وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ اِلَّآ اِذَا تَـمَنّٰٓي اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْٓ اُمْنِيَّتِہٖ۝۰ۚ فَيَنْسَخُ اللہُ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللہُ اٰيٰتِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۵۲ۙ "  ترجمہ: اور تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی ہم نے نہیں بھیجا مگر جب اس نے تلاوت کی ،شیطان نے ان کے پڑہنے میں کچھ ڈال دیا ، تو اللہ شیطان کے کیے ہوئے القاءکو منسوخ کردیا پھر اپنی آیات کو اللہ محکم فرمادیتا ہے،اور اللہ خوب جاننے والا ، حکمت والا ہے۔
 امام رازی ؒ نے اس ایت کے تحت لکھا کہ اس کا کوئی امکان نہیں کہ شیطان وحی الہی میں کسی طرح دست درازی کرسکتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں نبیﷺ کا فرمان ہے:
من رائنی فی المنام فقد رآنی فان الشیطان لا یتمثل بصورتی
ترجمہ: جس خواب میں مجھے دیکھا تو اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا ہے، اس لیے کہ شیطان میری میں ظاہر ہونے پر قادر نہیں ہے۔
 امام صاحب ؒ لکھتے ہیں جب شیطان آپﷺ کی صورت میں متمثل ہونے پر قادر نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وحی الہی کی تبلیغ میں جبریل ؑ بن کر آپﷺ کے سامنے آ جائے۔ایک اور حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں آپﷺ کا فرمان ہے کہ
ماسلک عمرؓ فجاً الا و سلک الشیطان فجاً آخر
 یعنی عمرؓ جس سمت کو جاتے ہیں شیطان ان کی مخالف سمت کو جاتا ہے۔(30)
 امام صاحب ؒ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں،
فاذا لم یقدر الشیطان ان یحضر مع عمرؓ فی فج واحد ، فکیف یقدر علی ان یحضر مع جبریلؑ فی موقف تبلیغ وحی اللہ تعالیٰ۔(31)
 ترجمہ: جب شیطان اس پر قادر نہیں کہ عمرؓ کے ساتھ ایک ہی سمت میں رہ ہو سکتا ہو تو وہ و حی ٰ الہی کی تبلیغ کے مقام پر جبریل ؑ کے ساتھ کیونکر رہ سکے گا۔
وحی کے متعلق علما اور عرفا کے مابین جو اختلاف اوپر ظاہر کیا گیا ہے ، اس میں تطبیق کی راہ اختیار کرنے کی سعی بھی کی جاتی رہی ہے۔علما کا مزاج فقہی حکم سے مناسبت رکھتا ہے اور عرفا کا مزاج حکم سے زیادہ اہمیت صاحب حکم کو دیتا ہے۔ ایسے علماجن کا طبعی رجحان تصوف کی جانب تھا انھوں نے کوشش کی کہ ایک ایسی راہ اختیار کی جائے جو ان دونوں ضروتوں پورا کر سکے۔ یعنی وحی کا مدلول غیر نبی کے لیے ممکن بھی رہے اور ختم نبوت کے عقیدے پر کوئی حرف بھی نہ آئے۔مسلمانوں میں” وحی“ کے نزول یا امکانِ وقوع کی نفی کا داعیہ انتہائی حسّاس رہا ہے۔ ختم نبوّت پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے ملت اسلامیہ میں کسی کے اعلان نبوت کی سزا قتل رکھی گئی ہے، جب کہ کسی کے اس دعوی پر کہ وہ خدا ہے کوئی سزا نہیں دی جاتی۔
            آخر میں ہم شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ (۴۱۱۱ھ تا ۶۷۱۱ھ ) کے موقف کوبیان کرنا چاہتے ہیں ۔شاہ صاحب ؒ نے اپنے ایک کتابچے ”سطعات“کے’ سطعہ ۷۱‘ میں کہتے ہیں کہ : یکے ازصفات الہیہ تعلیم عبد است، آن را انواع بسیار است ان انواع کو بیان کرتے ہوئے پہلی نوع ”الہامات جبلّیہ“ بتائی ہے،اس کی مثال میں قران مجید کی آیت ”و اوحی ربک الی النحل“ نقل کی؛دوسری نوع ”القا فی الروع“ اس کی مثال ”واوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ“ دی ہے؛ تیسری نوع ”مسامرات“ اس کی وضاحت یہ بتائی گئی ہے کہ ”خیالی کہ در قلب سالک در بعض مقام سلوک پیدا شود آن را مسامرہ می گونید“چوتھی نوع ” فراست “ہے ۔ اس کی وضاحت میں بتایا ”آن منقدح است بواسطہ وھم میان رویت شے و بعض جسمانیات ثابت در خارج برائے وے شبیہ بہ انقداح خوف در دل بز از میان دیدن سبع و ہیئت او“ پانچویں نوع ”رویا“ ہے۔کی تین صورتیں بتائی ہیں،یعنی الہام، نفث فی الروع اور اضغاث احلام۔آخر میں لکھتے ہیں کہ الہی تعلیم کی سب سے اعلیٰ قسم ”وحی“ ہے۔ یہاں پر وہ ”وحی انبیاؑ اور الہامات اولیا میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وحی ابعد است از اشتباہ باضغاث احلام و ابعد است از خطا در تعبیر و غلط در فہم مرادبایں جہت وحی انبیا سبب علم قطعی آمد، خواہ بطریق فرست باشد یا رویا یا القاءفی الروع، نہ الہام اولیا و رویا و ہاتف ایشان ، این جا غلط نہ کنی و مسامرات اولیا را بمنزلہ وحی ندانی، کہ اکثر ضلال اہل زمان ازین غلط ناشی شدہ“(32)
           :  ماحصل
فکر اسلامی کی تاریخ میں” وحی“کا مفہوم اور مدلول متعین ہو چکا ہے۔اس لفظ کی لغوی دلالت میں اور مذہبی اصطلاح میں بہت بڑا اور واضح فرق ہے، اس کا لحاظ رکھنا از بس ضروری ہے۔ یہ فقط” نبی “ کی ذات ہوتی ہے جس کے الوہی ذریعہ ادراک کو ”وحی“ کہا جائے گااور غیر نبی کے غیر معمولی ذرائع فہم وادراک کو ”وحی “ سے تعبیر کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ بات ہے ۔چاہے غیر نبی کا پختہ ایقان ہی کیوں نہ ہو کہ اس پر اللہ کی طرف سے ”علم“ عطا ہوا ہے۔

حوالہ جات و حواشی
۱۔         ابن منظور انصاری، لسان العرب، دارالکتاب العلمیة، بیروت، لبنان، مادہ ”وحی“۔
۲۔        القران المجید، اردو ترجمہ؛ امین احسن اصلاحی، فاران فاونڈیشن، لاہور،۵۰۰۲ئ،ص ۲۰۲۔
۳۔        ابن منظور انصاری، لسان العرب، دارالکتاب العلمیة، بیروت، لبنان، مادہ ”وحی“۔
۴۔        ایضاً۔
۵۔        شیخ اکبر محی الدین ابن العربی، الفتوحات المکیہ، دار صادر، بیروت، لبنان، ص۲۸۷۔
۶۔        الصحیح للبخاری، کتاب الحج ، باب،۷۱،۶۳۵۱۔
۷۔        کتب احادیث میں نزول وحی کی تین کیفیات مذکور ہیں۔
۸۔        شیخ اکبر محی الدین ابن العربی، الفتوحات المکیہ،ص ، ۳۳۹۳۔
۹۔        ابن منظور انصاری، لسان العرب، دارالکتاب العلمیة، بیروت، لبنان، مادہ ”وحی“۔
10-       شیخ اکبر محی الدین ابن العربی، الفتوحات المکیہ،ص ، ۲۸۷۔
۱۱۔        ایضاً، ص، ۲۸۷۔
12۔       ایضاً، ص، ۲۸۷۔
13       ایضاً، ص، ۲۸۵۔
14       ایضاً، ص، ۲۸۷۔
15       ایضاً، ص ،۴۹۸۳۔
16       ایضاً، ص،۴۸۸۳۔
17      ایضاً،ص، ۲۱۴۲۔
18       ایضا،ص،۳۷۴۔
19۔       حوالہ نمبر ۲۱ کی طرف رجوع کریں۔
20۔      ابن العربی ،الفتوحات المکیہ،ص ۲۸۷
21۔       ایضاً۔
22۔      ایضاً۔
23۔      ایضاً، ص ۳۸۳۔
24۔      ابن العربی ،الفتوحات المکیہ،ص ۲۸۷
25۔      علامہ اقبالؒ ، تشکیل جدید الہیات اسلامیہ، مترجم، نذیر نیازی،بزم اقبال،
             لاہور،۹۰۰۲ئ، ص۴۔۳۹۱
 26۔     امام فخر الدین الرازی، التفسیر الکبیر، دار احیاءالتراث العربی، بیروت،ج،۹ ،ص،۱۱۶۔
27۔      ایضاً۔
28۔      ایضاً، ص ،۳۱۶۔
29۔      ایضاً
30۔      ایضاً، ص،۴۱۶۔
31      ایضاً۔
32      شاہ ولی اللہ، سطعات، شاہ ولی اللہ اکیڈمی، حیدر آباد،سندھ،۴۶۹۱ئ،ص۹۲۔
                                   



No comments:

Post a Comment