بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ
اور اس کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم کی محبت سب سے مقدم اور سب پر فائق
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا وجود پوری انسانیت پر اللہ ربّ العٰلمین کا احسان
عظیم ہے
ازقلم:پرویز اقبال
آرائیں
اللہ ربّ العٰلمین کا
ارشاد ہے
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا
مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ
وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۰ۭ
اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۱۲۹ۧ
(سورۃ
البقرۃ اٰیۃ 129) ترجمہ: اے رب ہمارے اور
بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں
تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بیشک تو ہی ہے غالب
حکمت والا ۔
(اے
رب ہمارے اور بھیج ان میں) یعنی حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل کی ذریت میں یہ دعا
سید انبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے تھی یعنی کعبہ معظمہ کی تعمیر کی عظیم
خدمت بجالانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم و اسمٰعیل نے یہ دعا کی
کہ یارب اپنے محبوب نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہماری نسل میں ظاہر
فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت کر یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں صاحبوں کی نسل میں
حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سوا کوئی نبی نہیں ہوا اولاد حضرت ابراہیم میں باقی
انبیاء حضرت اسحاق کی نسل سے ہیں ۔
مسئلہ : سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے
اپنا میلاد شریف خود بیان فرمایا امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور نے
فرمایا میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا بحالیکہ حضرت آدم کے
پتلہ کا خمیر ہورہا تھا میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں میں دعائے ابراہیم
ہوں' بشارت عیسیٰ ہوں' اپنی والدہ کی اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت
کے وقت دیکھی اور ان کے لئے ایک نور ساطع ظاہر ہوا جس سے ملک شام کے ایوان و قصور
ان کے لئے روشن ہوگئے اس حدیث میں دعائے ابراہیم سے یہی دعا مراد ہے جو اس آیت میں
مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آخر زمانہ میں حضور سید انبیاء
محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وسلم) کو معبوث فرمایا الحمد اللہ علیٰ احسانہ (جمل و
خازن)
(ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری
آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب) اس کتاب سے قرآن پاک اور اس کی تعلیم سے
اس کے حقائق و معانی کا سکھانا مراد ہے۔
(اور پختہ علم سکھائے) حکمت کے معنی میں
بہت اقوال ہیں بعض کے نزدیک حکمت سے فقہ مراد ہے' قتادہ کا قول ہے کہ حکمت سنت کا
نام ہے بعض کہتے ہیں کہ حکمت علم احکام کو کہتے ہیں خلاصہ یہ کہ حکمت علم اسرار
ہے۔
(اور انہیں خوب ستھرا فرمادے) ستھرا کرنے
کے یہ معنی ہیں کہ لوح نفوس وارواح کو کدورات سے پاک کرکے حجاب اٹھاویں اور آئینہ
استعداد کی جلا فرما کر انہیں اس قابل کردیں کہ ان میں حقائق کی جلوہ گری ہوسکے ۔
خلاصہ تفسیر:
اے ہمارے پروردگار اور (یہ بھی دعا ہے کہ )
اس جماعت کے اندر (جس کے پیدا ہونے کی دعا اپنی اولاد میں سے کر رہے ہیں ) انہی
میں کا ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کیجئے جو ان لوگوں کو آپ کی آیات پڑھ کر سنایا
کریں اور ان کو (آسمانی ) کتاب (کے مضامین) کی اور (اس میں ) خوش فہمی (کا سلیقہ
حاصل کرنے ) کی تعلیم دیا کریں اور ان کو (اس تعلیم وتلاوت کے ذریعہ جہالت کے
خیالات اور اعمال سے) پاک کریں بلاشبہ آپ ہی ہیں غالب القدرت کامل الانتظام ،
تشریح لغات:
يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ
مصدر تلاوۃ سے مشتق ہے، تلاوت کے اصلی معنی اتباع اور پیروی کے ہیں اصطلاحِ قرآن
وحدیث میں یہ لفظ قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتابوں اور کلام الہی کے پڑھنے کے
لئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس کلام کے پڑھنے والے کو اس کا پورا اتباع کرنا
لازم ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ٹھیک اسی طرح پڑھنا ضروری ہے اپنی
طرف سے کسی لفظ یا اس کی حرکات میں کمی بیشی یا تبدیلی کی اجازت نہیں امام راغب
اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ کلام الہی کے سوا کسی دوسری کتاب یا
کلام کے پڑھنے کو عرفاً تلاوت نہیں کہا جاسکتا،
وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ
اس میں کتاب سے مراد کتاب اللہ ہے اور الحکمۃ کا لفظ عربی لغت میں کئی معنے کے لئے
آتا ہے حق بات پر پہونچنا، عدل وانصاف ، علم وحلم وغیرہ (قاموس ) امام راغب
اصفہانی لکھتے ہیں کہ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی
تمام اشیاء کی پوری معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں اور جب غیر اللہ کے لئے
بولا جائے تو موجودات کی صحیح معرفت اور نیک اعمال کے لئے جاتے ہیں ترجمہ شیخ
الہند میں اس کا ترجمہ تہہ کی باتیں اسی مفہوم کو ادا کرتا ہے اور لفظ حکمت عربی
زبان میں کئی معنی کے لئے بولا جاتا ہے علم صحیح ، نیک عمل عدل وانصاف قول صادق
وغیرہ (قاموس وراغب)
اس لئے دیکھنا ہے کہ اس آیت میں لفظ حکمت
سے کیا مراد ہے مفسریں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وتابعین جو معانی قرآنی کی
تشریح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سیکھ کر کرتے ہیں اس جگہ لفظ حکمت کے معنی
بیان کرنے میں اگرچہ ان کے الفاظ مختلف ہیں لیکن خلاصہ سب کا ایک ہی ہے یعنی سنت
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ، امام تفسیر ابن کثیر وابن جریر نے حضرت قتادہ سے
یہی تفسیر نقل کی ہے کسی نے تفسیر قرآن اور کسی نے تفقہ فی الدین فرمایا ہے اور
کسی نے علم احکام شرعیہ کہا اور کسی نے کہا کہ ایسے احکام الہہ کا علم جو رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہی بیان سے معلوم ہوسکتے ہیں ظاہر ہے کہ ان سب کا
حاصل وہی حدیث وسنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے،
لفظ وَيُزَكِّيْهِمْ زکوٰ ۃ سے مشتق ہے جس
کے معنی ہیں طہارت اور پاکی اور یہ لفظ ظاہری اور باطنی ہر طرح کی پاکی کے لئے
بولا جاتا ہے ،
معارف ومسائل:
تشریح مذکور سے آیت کا مفہوم واضح ہوگیا کہ
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی آئندہ نسل کی فلاح دنیا وآخرت کے واسطے حق
تعالیٰ سے یہ دعا کی میری اولاد میں ایک رسول بھیج دیجئے جو ان کو آپکی آیات تلاوت
کرکے سنائے اور قرآن وسنت کی تعلیم دے اور ان کو ظاہری وباطنی گندگیوں سے پاک کرے
اس میں حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اس رسول کے لئے اپنی اولاد میں ہونے کی اس
لئے دعا فرمائی کہ اول تو یہ اپنی اولاد کے لئے سعادت وشرف ہے دوسرے ان لوگوں کے
لئے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول جب انہی کی قوم اور برادری کے اندر ہوگا تو اس کے
چال چلن سیرت وحالات سے یہ لوگ بخوبی واقف ہوں گے کسی دھوکہ فریب میں مبتلا نہ ہوں
گے، حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس دعاء کا جواب حق تعالیٰ کی طرف
سے یہ ملا کہ آپ کی دعا قبول کرلی گئی اور یہ رسول آخری زمانہ میں بھیجے جائیں گے
(ابن جریر وابن کثیر)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت کی
خصوصیات:
مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت
(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین اس وقت
تھا جبکہ آدم علیہ السلام پیدا بھی نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کا خمیر ہی تیار ہو رہا
تھا اور میں آپ لوگوں کو اپنے معاملہ کی ابتداء بتلاتا ہوں کہ میں اپنے باپ حضرت
ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی
والدہ ماجدہ کے خواب کا مظہر ہوں عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت سے مراد ان کا یہ
قول ہے وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ
بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ (٦:٦۱)
اور والدہ ماجدہ نے حالت حمل میں یہ خواب دیکھا تھا کہ میرے بطن سے ایک نور نکلا
جس سے ملک شام کے محلات جگمگا اٹھے پھر قرآن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی
بعثت کا تذکرہ کرتے ہوئے دو جگہ سورہ آل عمران (آیت نمبر ۱٦٤) اور سورہ جمعہ آیت
نمبر ۲
میں انہی الفاظ کا اعادہ کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء میں
یہاں مذکور ہیں جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے
جس رسول کے بھیجنے کی دعا فرمائی تھی وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی ہیں آیت
کے الفاظ کی تشریح اور اس کا مفہوم واضح ہوجانے کے بعد اس پر غور کیجئے،
بعثت رسول کے تین مقاصد:
سورہ بقرہ کی اس آیت میں اور سورہ آل عمران
اور سورہ جمعہ کی آیات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق ایک ہی مضمون ایک
ہی طرح کے الفاظ میں آیا ہے جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اس دنیا میں
تشریف لانے کے مقاصد یا آپ کے عہدہ نبوت ورسالت کے فرائض منصبی تین بیان کئے گئے
ہیں ایک تلاوت آیات دوسرے تعلیم کتاب وحکمت تیسرے لوگوں کا تزکیہ اخلاق وغیرہ۔
پہلا مقصد تلاوت آیات :
یہاں پہلی بات قابل غور ہے کہ تلاوت کا
تعلق الفاظ سے ہے اور تعلیم کا معانی سے یہاں تلاوت وتعلیم کو الگ الگ بیان کرنے
سے یہ حاصل ہوا کہ قرآن کریم میں جس طرح معانی مقصود ہیں اس کے الفاظ بھی مستقل
مقصود ہیں ان کی تلاوت وحفاظت فرض اور اہم عبادت ہے یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے
کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بلا واسطہ شاگرد اور مخاطب خاص وہ حضرات تھے جو
عربی زبان کے نہ صرف جاننے والے بلکہ اس کے فصیح وبلیغ خطیب اور شاعر بھی تھے ان
کے سامنے قرآن عربی کا پڑھ دینا بھی بظاہر ان کی تعلیم کیلئے کافی تھا ان کو الگ
سے ترجمہ وتفسیر کی ضرورت نہ تھی تو پھر تلاوت آیات کو ایک علیحدہ مقصد اور تعلیم
کتاب کو جداگانہ دوسرا مقصد رسالت قرار دینے کی کیا ضرورت تھی جبکہ عمل کے اعتبار
سے یہ دونوں مقصد ایک ہی ہوجاتے ہیں اس میں غور کیا جائے تو دو اہم نتیجے آپ کے
سامنے آئیں گے اول یہ کہ قرآن کریم دوسری کتابوں کی طرح ایک کتاب نہیں جس میں صرف
معانی مقصود ہوتے ہیں الفاظ ایک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ان میں اگر معمولی تغیر
وتبدل بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ان کے الفاظ بغیر معنے سمجھے ہوئے
پڑہتے رہنا بالکل لغو وفضول ہے بلکہ قرآن کریم کے جس طرح معانی مقصود ہیں اسی طرح
الفاظ بھی مقصود ہیں اور الفاظ قرآن کے ساتھ خاص خاص احکام شرعیہ بھی متعلق ہیں
یہی وجہ ہے کہ اصول فقہ میں قرآن کریم کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ ھو النظم والمعنی
جمیعا یعنی قرآن نام ہے الفاظ یا دوسری زبان میں لکھا جائے تو وہ قرآن کہلانے کا
مستحق نہیں اگرچہ مضامین بالکل صحیح درست ہی ہوں ان مضامین قرآنیہ کو بدلے ہوئے
الفاظ میں اگر کوئی شخص نماز میں پڑھ لے تو نماز ادا نہ ہوگی اسی طرح وہ تمام
احکام جو قرآن سے متعلق ہیں اس پر عائد نہیں ہوں گے، قرآن کریم کی تلاوت کا جو
ثواب احادیث صحیہ میں وارد ہے وہ بدلی ہوئی زبان یا بدلے ہوئے الفاظ پر مرتب نہیں
ہوگا اور اسی لئے فقہائے امت نے قرآن کریم کا صرف ترجمہ بلا متن قرآن کے لکھنے اور
چھاپنے کو ممنوع فرمایا ہے جس کو عرف میں اردو کا قرآن یا انگریزی کا قرآن کہہ دیا
جاتا ہے کیونکہ درحقیقت جو قرآن اردو یا انگریزی میں نقل کیا گیا وہ قرآن کہلانے
کا مستحق نہیں ،
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تعلیم کتاب سے علیحٰدہ تلاوت آیات کو جداگانہ
فرض قرار دے کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ قرآن کریم میں جس طرح اس کے معانی مقصود
ہیں اسی طرح اس کے الفاظ بھی مقصود ہیں کیونکہ تلاوت الفاظ کی ہوتی ہے معانی کی
نہیں اسی لئے جس طرح رسول کے فرائض میں معانی کی تعلیم داخل ہے اسی طرح الفاظ کی
تلاوت اور حفاظت بھی ایک مستقل فرض ہے اس میں شبہ نہیں کہ قرآن کریم کے نزول کا
اصل مقصد اس کے بتائے ہوئے نظام زندگی پر عمل کرنا اور اس کی تعلیمات کو سمجھنا
اور سمجھانا ہے محض اس کے الفاظ رٹ لینے پر قناعت کرکے بیٹھ جانا قرآن کریم کی
حقیقت سے بےخبری اور اس کی بےقدری ہے،
قرآن کریم کے الفاظ اگر بےسمجھے بھی پڑھے
جائیں تو بیکار نہیں بلکہ ثواب عظیم ہیں:
لیکن اس کے ساتھ یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں
کہ جب تک قرآن کریم کے الفاظ کے معانی نہ سمجھے طوطے کی طرح اس کے الفاظ پڑھنا
فضول ہے یہ اس لئے واضح کر رہا ہوں کہ آج کل بہت سے حضرات قرآن کریم کو دوسری
کتابوں پر قیاس کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک کسی کتاب کے معنی نہ سمجھیں تو اس کے
الفاظ کا پڑھنا پڑھانا وقت ضائع کرنا ہے مگر قرآن کریم میں ان کا یہ خیال صحیح
نہیں ہے کیونکہ قرآن الفاظ معنی دونوں کا نام ہے جس طرح ان کے معانی کا سمجھنا اور
اس کے دیئے ہوئے ۔
احکام پر عمل کرنا فرض اور اعلیٰ عبادت ہے
اسی طرح اس کے الفاظ کی تلاوت بھی ایک مستقل عبادت اور ثواب عظیم ہے،
دوسرا مقصد تعلیم کتاب:
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وسلم) اور صحابہ کرام جو معانی قرآنی کو سب سب زیادہ جاننے والے اور سمجھنے والے
تھے انہوں نے محض معنی سمجھ لینے اور عمل کرلینے کو کافی نہ سمجھا سمجھنے اور عمل
کرنے کے لئے تو ایک مرتبہ پڑھ لینا کافی ہوتا انہوں نے ساری عمر تلاوت قرآن کو حرز
جان بنائے رکھا بعضے صحابہ روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے بعض دو دن میں اور
اکثر حضرات تین دن میں ختم قرآن کے عادی تھے اور ہر ہفتہ میں قرآن ختم کرنے کا تو
پوری امت کا معمول رہا ہے قرآن کریم کی سات منزلیں اسی ہفتہ واری معمول کی علامت
ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ کرام کا یہ عمل بتلا رہا ہے کہ جس
طرح قرآن کے معانی کا سمجھنا اور عمل کرنا اصلی عبادت ہے اسی طرح اس کے الفاظ کی
تلاوت بھی بجائے خود ایک اعلیٰ عبادت اور موجبِ انوار وبرکات اور سرمایہ سعادت
ونجات ہے اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تلاوت آیات کو
ایک مستقل حیثیت دی گئی مقصد یہ ہے کہ جو مسلمان فی الحال معانیِ قرآن کو نہیں
سمجھتے وہ اس بدنصیبی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ الفاظ کو فضول سمجھ کر اس سے بھی
محروم ہوجائیں کوشش کرتے رہنا ضروری ہے کہ وہ قرآن کے معانی کو سمجھیں تاکہ قرآن
کریم کے حقیقی انوار وبرکات کا مشاہدہ کریں اور نزول قرآن کا اصلی مقصد پورا ہو
قرآن کو معاذ اللہ جنتر منتر کی طرح صرف جھاڑ پھونک میں استعمال کی چیز نہ بنائیں
اور بقول اقبال مرحوم سورہ یٰسینٓ کو صرف اس کام کے لئے نہ سمجھیں کہ اس کے پڑھنے
سے مرنے والے کی جان سہولت سے نکل جاتی ہے،
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں فرائض رسول
بیان کرتے ہوئے تلاوت آیات کو مستقل فرض کی حیثیت دے کر اس پر تنبیہ کردی گئی ہے
کہ قرآن کریم کے الفاظ کی تلاوت اور ان کی حفاظت اور ان کو ٹھیک اس لب ولہجہ میں
پڑھنا جس پر وہ نازل ہوئے ہیں ایک مستقل فرض ہے اسی طرح تلاوت آیات کے فرض کے ساتھ
تعلیم کتاب کو جداگانہ فرض قرار دینے سے ایک دوسرا اہم نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن فہمی
کے لئے صرف عربی زبان کا جان لینا کافی نہیں بلکہ تعلیم رسول کی ضرورت ہے جیسے کہ
تمام علوم وفنون میں یہ بات معلوم ومشاہد ہے کہ کسی فن کی کتاب کے مفہوم کو سمجھنے
کے لئے محض اس کتاب کی زبان جاننا بلکہ زبان کا ماہر ہونا بھی کافی نہیں جب تک کہ
اس فن کو کسی ماہر استاذ سے حاصل نہ کیا جائے مثلاً آج کل ڈاکٹری ہومیوپیتھک اور
ایلوپیتھک کی کتابیں عموماً انگریزی زبان میں ہیں لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ محض
انگریزی زبان میں مہارت پیدا کرلینے اور ڈاکٹری کی کتابوں کا مطالعہ کرلینے سے
کوئی شخص ڈاکٹر نہیں بن سکتا انجینئرنگ کی کتابیں پڑھنے سے کوئی انجینئر نہیں بن
سکتا بڑے فنون تو اپنی جگہ پر ہیں معمولی روزمرہ کے کام محض کتاب کے مطالعہ سے
بغیر استاد سے سیکھے ہوئے حاصل نہیں ہوسکتے آج تو ہر صنعت وحرفت پر سینکڑوں کتابیں
لکھی ہوئی ہیں فوٹو دیکھ کر کام سکھانے کے طریقے بتائے ہیں لیکن ان کتابوں کو دیکھ
کر نہ کوئی درزی بنتا ہے نہ باورچی یا لوہار اگر محض زبان جان لینا کسی فن کے حاصل
کرنے اور اس کی کتاب سمجھنے کے لئے کافی ہوتا تو دنیا کے سب فنون اس شخص کو حاصل
ہوجاتے جو ان کتابوں کی زبان جانتا ہے اب ہر شخص غور کرسکتا ہے کہ معمولی فنون اور
ان کے سمجھنے کے لئے جب محض زبان دانی کافی نہیں تعلیم استاد کی ضرورت ہے تو
مضامینِ قرآن جو علوم الہیہ سے لے کر طبعیات وفلسفہ تک تمام گہرے دقیق علوم پر
مشتمل ہے وہ محض عربی زبان جان لینے سے کیسے حاصل ہوسکتے ہیں اور اگر یہی ہوتا تو
جو شخص عربی زبان سیکھ لے وہ معارف قرآن کا ماہر سمجھا جائے تو آج ہزاروں یہودی اور
نصرانی عرب ممالک میں عربی زبان کے بڑے ماہر ادیب ہیں وہ سب سے بڑے مفسر قرآن مانے
جاتے اور عہد رسالت میں ابوجہل ، ابولہب قرآن کے ماہر سمجھے جاتے،
غرض یہ ہے کہ قرآن کریم نے ایک طرف تو رسول
کے فرائض میں تلاوت آیات کو ایک مستقل فرض قرار دیا دوسری طرف تعلیم کتاب کو
جداگانہ فرض قرار دے کر بتلا دیا کہ محض تلاوت آیات کا سن لینا فہم قرآن کے لئے
عربی زبان جاننے والوں کے واسطے بھی کافی نہیں بلکہ تعلیم رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ وسلم) ہی کے ذریعہ قرآنی تعلیم کا صحیح علم حاصل ہوسکتا ہے قرآن کو تعلیمات
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے جدا کرکے خود سمجھنے کی فکر خود فریبی کے سوا
کچھ نہیں اگر مضامینِ قرآنی کو بتلانے سکھانے کی ضرورت نہ ہوتی تو رسول کو بھیجنے
ہی کی کوئی حاجت نہ تھی اللہ کی کتاب کسی دوسری طرح بھی انسانوں تک پہونچائی جا
سکتی تھی مگر اللہ تعالیٰ علیم وحکیم ہیں وہ جانتے ہیں کہ مضامینِ قرآنی کی تعلیم
وتفہیم کے لئے دنیا کے دوسرے علوم وفنون سے زیادہ تعلیم استاد کی ضرورت ہے اور
یہاں پر عام استاد بھی کافی نہیں بلکہ ان مضامین کا استاد صرف وہ شخص ہوسکتا ہے جس
کو اللہ تعالیٰ سے بذریعہ وحی شرف ہم کلامی حاصل ہو جس کو اسلام کی اصطلاح میں نبی
و رسول کہا جاتا ہے اس لئے قرآن کریم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو
دنیامیں بھیجنے کا مقصد یہ قرار دیا کہ وہ قرآن کریم کے معانی واحکام کی شرح کرکے
بیان فرمائیں ارشاد ہے لِتُبَيِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ (٤٤:۱٦) یعنی ہم نے آپ کو اس
لئے بھیجا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے اللہ کی نازل کردہ آیات کے مطالب بیان فرمائیں
تعلیم کتاب کے ساتھ آپ کے فرائض میں دوسری چیز تعلیم حکمت بھی رکھی گئی ہے اور میں
نے اوپر بتلایا ہے کہ حکمت کے عربی زبان کے اعتبار سے اگرچہ کئی معنی ہوسکتے ہیں
لیکن اس آیت میں اور اس کے ہم معنی دوسری آیات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
اجمعین وتابعین نے حکمت کی تفسیر سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کی ہے جس
سے واضح ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذمہ جس طرح معانی قرآنی کا
سمجھانا وبتلانا فرض ہے اسی طرح پیغمبرانہ تربیت کے اصول وآداب جن کا نام سنت ہے
ان کی تعلیم بھی آپ کے فرائض منصبی میں داخل ہے اور اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ
وسلم) نے فرمایا کہ انما بعثت معلماً میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور یہ
ظاہر ہے کہ جب آپ کا مقصد وجود معلم ہونا ہے تو آپ کی امت کا مقصد وجود متعلم اور
طالب علم ہونا لازم ہوگیا اس لئے ہر مسلمان مرد وعورت بحیثیت مسلمان ہونے کے ایک
طالب علم ہونا چاہئے جس کو تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی لگن ہو ،
اگر علوم قرآن وسنت کی مکمل تحصیل اور اس میں مہارت کے لئے ہمت وفرصت نہیں ہے تو کم
ازکم بقدر ضرورت علم حاصل کرنے کی فکر چاہئے،
تیسرا مقصد تزکیہ :
تیسرا فرض آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے
فرائض منصبی میں تزکیہ ہے جس کے معنی ہیں ظاہری وباطنی نجاسات سے پاک کرنا ظاہری
نجاسات سے تو عام مسلمان واقف ہیں باطنی نجاسات کفر اور شرک غیر اللہ پر اعتماد
کلی اور اعتقاد فاسد نیز تکبر وحسد بغض حب دنیا وغیرہ ہیں اگرچہ علمی طور پر قرآن
وسنت کی تعلیم میں ان سب چیزوں کا بیان آگیا ہے لیکن تزکیہ کو آپ کا جداگانہ فرض
قرار دے کر اس کی طرف اشارہ کردیا گیا کہ جس طرح محض الفاظ کے سمجھنے سے کوئی فن
حاصل نہیں ہوتا اسی طرح نظری وعلمی طور پر فن حاصل ہوجانے سے اس کا استعمال اور
کمال حاصل نہیں ہوتا جب تک کسی مربی کے زیر نظر اس کی مشق کرکے عادت نہ ڈالے سلوک
وتصوف میں کسی شیخ کامل کی تربیت کا یہی مقام ہے کہ قرآن وسنت میں جن احکام کو
علمی طور پر بتلایا گیا ہے انکی عملی طور پر عادت ڈالی جائے،
ہدایت واصلاح کے دو سلسلے کتاب اللہ اور
رجال اللہ:
اب اس سلسلے کی دو باتیں اور قابل نظر ہیں
اول یہ کہ اللہ جل شانہ نے ابتداء آفرانیش
سے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لئے ہمیشہ ہر زمانے میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ
علیہ وسلم) تک دو سلسلے جاری رکھے ہیں ایک آسمانی کتابوں کا دوسرے اس کی تعلیم
دینے والے رسولوں کا جس طرح محض کتاب نازل فرما دینے کو کافی نہیں سمجھا اسی طرح
محض رسولوں کے بھیجنے پر بھی اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ دونوں سلسلے برابر جاری رکھے
اللہ جل شانہ کی اس عادت اور قرآن کریم کی شہادت نے قوموں کی صلاح وفلاح کے لئے ان
دونوں سلسلوں کو یکساں طور پر جاری فرما کر ایک بڑے علم کا دروازہ کھول دیا کہ
انسان کی صحیح تعلیم وتریبت کے لئے نہ صرف کتاب کافی ہے نہ کوئی مربی انسان بلکہ
ایک طرف آسمانی ہدایات اور الہٰی قانون کی ضرورت ہے جس کا نام کتاب یا قرآن ہے
دوسری طرف ایک معلمّ اور مربی انسان کی ضرورت ہے جو اپنی تعلیم وتربیت سے عام
انسان کو آسمانی ہدایات سے روشناس کرکے ان کا خوگر بنائے کیونکہ انسان کا اصلی
معلم انسان ہی ہوسکتا ہے کتاب معلم یا مربی نہیں ہوسکتی ہاں تعلیم و تربیت میں
معین ومددگار ضرور ہے،
یہی وجہ ہے کہ جس طرح اسلام کی ابتداء ایک
کتاب اور ایک رسول سے ہوئی اور ان دونوں کے امتزاج نے ایک صحیح اور اعلیٰ مثالی
معاشرہ دنیا میں پیدا کردیا اسی طرح آگے آنیوالی نسلوں کے لئے بھی ایک طرف شریعت
مطہرہ اور دوسری طرف رجال اللہ کا سلسلہ رہا قرآن کریم نے جگہ جگہ اس کی ہدایتیں
دی ہیں ایک جگہ ارشاد ہوا؛
يٰٓاَيُّھَا
الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (۱۱۹:۹)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو،
دوسری جگہ صادقین کی تعرفین اور اوصاف بیان
کرکے فرمایا،
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْ آ
وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (۱۷۷:۲) اور
یہی لوگ سچے ہیں اور یہی ہیں پرہیزگار،
پورے قرآن کا خلاصہ سورہ فاتحہ ہے اور سورہ
فاتحہ کا خلاصہ صراط مستقیم ہدایت ہے، یہاں بھی صراط مستقیم کا پتہ دینے کے لئے
بجائے اس کے کہ صراط القرآن یاصراط الرسول یاصراط السنۃ فرمایا جاتاکچھ اللہ والے
لوگوں کا پتہ دیا گیا کہ ان سے صراطِ مستقیم حاصل کی جائے ارشاد ہوا،
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ یعنی صراط مستقیم ان
لوگوں کاراستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہواہے نہ کہ ان لوگوں کا جوگمراہ
ہوگئے،
دوسری جگہ ان کی مزید تعیین اور توضیح قرآن
میں وارد ہوئی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے فَاُولٰۗىِٕكَ
مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ
وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ (٦۹:٤) اسی
طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے بعد کے لئے کچھ حضرات کے نام متعین
کرکے دینی معاملات میں آپ کا اتباع کرنے کی ہدایت فرمائی ترمذی کی صحیح حدیث میں
ہے،
يا أيها الناس إني قد ترکت فيکم ما إن
أخذتم به لن تضلوا کتاب الله وعترتي أهل بيتي (ترمذی) اے لوگوں ! میں تمہارے لئے
اپنے بعد میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا تو تم گمراہ
نہ ہوگے ایک کتاب اللہ دوسری میری اولاد اور اہل بیت،
اور صحیح بخاری کی حدیث میں ہے:
اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر۔
یعنی میرے بعد ابوبکر اور عمر کا اتباع کرو،
اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا،
علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الرشدین، میرے
طریقہ کو اختیار کرو اور خلفائے راشدین کے طریقہ کو،
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کی ان
ہدایات اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعلیمات سے یہ بات روز روشن کی طرح
واضح ہوگئی کہ قوموں کی اصلاح وتربیت کے لئے ہر قرن ہر زمانے میں دو چیزیں ضروری
ہیں قرآنی ہدایات اور ان کے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کا سلیقہ حاصل کرنے کے لئے
ماہرین شریعت اور اللہ والوں کی تعلیم وتربیت اور اگر مختلف علوم وفنون اور ان کے
سیکھنے سکھانے کے طریقوں پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اصول تعلیم
وتربیت کچھ دین اور دینیات ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام علوم وفنون کی صحیح
تحصیل اسی پر دائر ہے کہ ایک طرف ہر فن کی بہترین کتابیں ہوں تو دوسری طرف ماہرین
کی تعلیم وتربیت ہر علم وفن کی ترقی وتکمیل کے یہی دو بازو ہیں لیکن دین اور
دینیات میں ان دونوں بازوؤں سے فائدہ اٹھانے میں بہت سے لوگ افراط وتفریط کی غلط
روش میں پڑجاتے ہیں جس کا نتیجہ بجائے فائدہ اٹھانے کے نقصان اور بجائے اصلاح کے
فساد ہوتا ہے ،
بعض لوگ کتاب اللہ کو نظر انداز کرکے صرف
علماء ومشائخ ہی کو قبلہ مقصود بنا لیتے ہیں اور ان کے متبع شریعت ہونے کی تحقیق
نہیں کرتے اور یہ اصلی مرض یہود ونصاریٰ کا ہے کہ
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ (۳۱:۹) یعنی
ان لوگوں نے اپنے علماء ومشائخ کو اللہ کے سوا اپنا معبود اور قبلہ مقصود بنالیا
ظاہر ہے کہ یہ راستہ شرک و کفر کا ہے اور لاکھوں انسان اس راستہ میں برباد ہوئے
اور ہو رہے ہیں اس کے مقابلہ میں بعض وہ لوگ بھی ہیں جو علوم قرآن وحدیث کے حاصل
کرنے میں کسی معلم ومربی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف اللہ کی
کتاب کافی ہے نہ ماہر علماء کی ضرورت ، نہ تربیت یافتہ مشائخ کی حاجت یہ دوسری
گمراہی ہے جس کا نتیجہ دین وملت سے نکل کر نفسانی اغراض کا شکار ہونا ہے کیوں کہ
ماہرین کی امداد واعانت کے بغیر کسی فن کا صحیح حاصل ہوجانا انسانی فطرت کے خلاف
ہے ایسا کرنے والا یقینا غلط فہمیوں کا شکار ہوتا ہے اور یہ غلط فہمی بعض اوقات اس
کو دین وملت سے بالکل نکال دیتی ہے،
اس لئے ضرورت اس کی ہے کہ ان دو چیزوں کو
اپنے اپنے مقامات اور حدود میں رکھ کر ان سے فائدہ اٹھایا جائے یہ سمجھا جائے کہ
حکم اصلی صرف ایک وحدہ لاشریک لہ کا ہے اور اطاعت اصل میں اسی کی ہے رسول بھی اس
پر عمل کرنے اور کرانے کا ایک ذریعہ ہے رسول کی اطاعت بھی محض اسی نظر سے کی جاتی
ہے کہ وہ بعینہ اللہ جل شانہ کی اطاعت ہے ہاں اس کے ساتھ قرآن وحدیث کے سمجھنے میں
اور ان کے احکام پر عمل کرنے میں جو علمی یا عملی مشکلات سامنے آئیں اس کے لئے
ماہرین کے قول وفعل سے امداد لینے کو سرمایہ سعادت ونجات سمجھنا ضروری ہے آیت
مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تعلیم کتاب کو داخل
فرمانے سے ایک دوسرا فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ جب قرآن فہمی کے لئے تعلیم رسول
ضروری ہے اور اس کے بغیر قرآن پر صحیح عمل ناممکن ہے تو جس طرح قرآن قیامت تک
محفوظ ہے اس کا ایک ایک زیر و زبر محفوظ ہے ضروری ہے کہ تعلیماتِ رسول بھی مجموعی
حیثیت سے قیامت تک بانی اور محفوظ رہیں ورنہ محض الفاظ قرآن کے محفوظ رہنے سے نزول
قرآن کا اصلی مقصد پورا نہ ہوگا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ تعلیمات رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وسلم) وہی ہیں جن کو سنت یا حدیثِ رسول کہا جاتا ہے اس کی حفاظت کا وعدہ
اللہ جل شانہ کی طرف سے اگرچہ اس درجہ میں نہیں ہے جس درجہ کی حفاظت قرآن کے لئے
موعود ہے،
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا
لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی
اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ،
جس کا یہ نتیجہ ہے کہ اس کے الفاظ اور زیر
زبر تک بالکل محفوظ چلے آئے ہیں اور قیامت تک اسی طرح محفوظ رہیں گے سنتِ رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے الفاظ اگرچہ اس طرح محفوظ نہیں لیکن محفوظ نہیں لیکن
مجموعی حیثیت سے آپ کی تعلیمات کا محفوظ رہنا آیت مذکورہ کی رو سے لازمی ہے اور
بحمد اللہ آج تک وہ محفوظ چلی آتی ہیں جب کسی طرف سے اس میں رخنہ اندازی یا غلط
روایات کی آمیزش کی گئی ماہرین سنت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نکھار کر
رکھ دیا اور قیامت تک یہ سلسلہ بھی اسی طرح رہے گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)
نے فرمایا کہ میری امت میں قیامت تک ایسی جماعت اہل حق اور اہل علم قائم رہے گی جو
قرآن وحدیث کو صحیح طور پر محفوظ رکھے گی ، اور ان میں ڈالے گئے ہر رخنہ کی اصلاح
کرتی رہے گی ،
خلاصہ یہ ہے کہ جب قرآن پر عمل کرنے کے لئے
تعلیم رسول ضروری ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن پر عمل قیامت تک فرض ہے تو لازم
ہے کہ قیامت تک تعلیماتِ رسول بھی باقی اور محفوظ رہیں اس لئے آیت میں تعلیمات
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قیامت تک باقی اور محفوظ رہنے کی بھی پیشینگوئی
موجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے لے کر آج تک علم حدیث کے ماہر علماء
اور مستند کتابوں کے ذریعہ محفوظ رکھا ہے اس سے اس دجل والحاد کی حقیقت کھل جاتی
ہے جو آجکل بعض لوگوں نے احکام اسلام سے جان بچانے کے لئے یہ بہانہ تراشا ہے کہ موجودہ
ذخیرۂ حدیث محفوظ اور قابل اطمینان نہیں ہے ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ذخیرۂ
حدیث سے اعتماد اٹھ جائے تو قرآن پر بھی اعتماد کا کوئی راستہ نہیں رہتا،
آیت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وسلم) کا تیسرا فرض منصبی تزکیہ قرار دیا ہے تزکیہ کے معنی باطنی نجاسات اور
گندگیوں سے پاک کرنا ہے یعنی شرک و کفر اور عقائد فاسدہ سے نیز بری اخلاق تکبر حرص
وطمع بغض وحسد ، حُب مال وجاہ وغیرہ سے پاک کرنا،
اصلاح انسان کیلئے صرف تعلیم صحیح بھی کافی
نہیں اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے:
تزکیہ کو تعلیم سے جدا کرکے مستقبل مقصد
رسالت اور رسول کا فرض منصبی قرار دینے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تعلیم کتنی ہی صحیح
ہو محض حاصل نہ کرے کیونکہ تعلیم کا کام درحقیقت سیدھا اور صحیح راستہ دکھلا دینا
ہے مگر ظاہر ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے محض راستہ جان لینا تو کافی نہیں
جب تک ہمت کر کے قدم نہ اٹھائے اور راستہ نہ چلے اور ہمت کا نسخہ بجز اہل ہمت کی
صحبت اور اطاعت کے اور کچھ نہیں ورنہ سب کچھ جاننے سمجھنے کے بعد بھی حالت یہ ہوتی
ہے کہ ،
جانتا ہوں ثوابِ اطاعت وزہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔
عمل کی ہمت وتوفیق کسی کتاب کے پڑھنے یا
سمجھنے سے پیدا نہیں ہوتی اس کی صرف ایک ہی تدبیر ہے کہ اللہ والوں کی صحبت اور ان
سے ہمت کی تربیت حاصل کرنا اسی کا نام تزکیہ ہے قرآن کریم نے تزکیہ کو مقاصد رسالت
میں ایک مستقل مقصد قرار دے کر تعلیمات اسلام کی نمایاں خصوصیت کو بتلایا ہے
کیونکہ محض تعلیم اور ظاہری تہذیب تو ہر قوم اور ہر ملت میں کسی نہ کسی صورت سے
کامل یا ناقص طریق پر ضروری سمجھی جاتی ہے ہر مذہب وملت اور ہر سوسائٹی میں اس کو
انسانی ضروریات میں داخل سمجھا جاتا ہے اس میں اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے
کہ اس نے صحیح اور مکمل تعلیم پیش کی جو انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر عائلی
پھر قبائلی زندگی اور اس سے آگے بڑھ کر سیاسی وملکی زندگی پر حاوی اور بہترین نظام
کی حامل ہے جس کی نظیر دوسری اقوام وملل میں نہیں پائی جاتی اس کے ساتھ تزکیہ
اخلاق اور باطنی طہارت ایک ایسا کام ہے جس کو عام اقوام اور سوسائیٹیوں نے سرے سے
نظر انداز کر رکھا ہے انسانی لیاقت واستعداد کا معیار اس کی تعلیمی ڈگریاں سمجھی
جاتی ہیں انہی ڈگریوں کے وزن کے ساتھ انسانوں کا وزن گھٹتا بڑہتا ہے اسلام نے
تعلیم کے ساتھ تزکیہ کا ضمیمہ لگا کر تعلیم کے اصل مقصد کو پورا کر دکھایا،
جو خوش نصیب حضرات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وسلم) کے سامنے زیر تعلیم رہے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کا باطنی تزکیہ بھی ہوتا گیا
اور جو جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کی زیر تربیت تیار ہوئی ایک طرف
ان کی عقل ودانش اور علم وحکمت کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ ساری دنیا کے فلسفے اس
کے سامنے گرد ہوگئے تو دوسری طرف ان کے تزکیہ باطنی اور تعلق مع اللہ اور اعتماد
علی اللہ کا یہ درجہ تھا جو خود قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا،
وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي
الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ
فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا (۲۹:٤۸)
اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں تم انہیں رکوع
سجدہ کرتے ہوئے دیکھو گے وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی تلاش کرتے ہیں ،
یہی وجہ تھی کہ وہ جس طرف چلتے تھے فتح
ونصرت ان کے قدم لیتی تھی تائید ربانی ان کے ساتھ ہوتی تھی ان کے محیر العقول
کارنامے جو آج بھی ہر قوم وملت کے ذہنوں کو مرعوب کئے ہوئے ہیں وہ اسی تعلیم
وتزکیہ کے اعلیٰ نتائج ہیں آج دنیا میں تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے نصابوں کی
تبدیل وترمیم پر تو سب لوگ غور کرتے ہیں لیکن تعلیم کی روح کو درست کرنے کی طرف
عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی کہ مدرس اور معلم کی اخلاقی حالت اور مصلحانہ تربیت
کو دیکھا جائے اس پر زور دیا جائے اس کا نتیجہ ہے کہ ہزار کوششوں کے بعد بھی ایسے
مکمل انسان پیدا نہیں ہوتے جن کے عمدہ اخلاق دوسروں پر اثر انداز ہوں اور دوسروں کی
تربیت کرسکیں ،
یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اساتذہ جس
علم وعمل اور اخلاق وکردار کے مالک ہوں گے ان سے پڑھنے والے طلبہ زیادہ سے زیادہ
انہی جیسے پیدا ہوسکیں گے اس لئے تعلیم کو مفید اور بہتر بنانے کے لئے نصابوں کی
تدوین ترمیم سے زیادہ اس نصاب کے پڑھانے والوں کی علمی وعملی واخلاقی حالات پر نظر
ڈالنا ضروری ہے،
یہاں تک رسالت ونبوت کے تین مقاصد کا بیان
تھا آخر میں مختصر طور پر یہ بھی سن لیجئے کہ سردار دو عالم رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ وسلم) کو جو تین فرائضِ منصبی سپرد کئے گئے تھے ان کو آپ نے کس حد تک پورا
فرمایا آپ کو ان کے پورا کرنے میں کہاں تک کامیابی ہوئی اس کے لئے اتناجان لینا
کافی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس دنیا سے تشریف لے جانے سے پہلے پہلے
تلاوت آیات کا یہ درجہ ہوگیا تھا کہ تقریباً پورے جزیرۃ العرب میں قرآن پڑھا جارہا
تھا ہزاروں اس کے حافظ تھے سینکڑوں ایسے حضرات تھے جو روزانہ یا تیسرے روز پورا
قرآن ختم کرتے تھے تعلیم کتاب وحکمت کا یہ مقام تھا۔
یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست
کتب خانہ چند ملت بشست
دنیا کے سارے فلسفے قرآن کے سامنے ماند
ہوچکے تھے توراۃ وانجیل کے تحریف شدہ صحائف افسانہ بن چکے تھے قرآنی اصول کو عزت
وشرف کا معیار مانا جاتا تھا تزکیہ کا یہ عالم تھا کہ ساری بد اخلاقیوں کے مرتکب
افراد تہذیب اخلاق کے معلم بن گئے بد اخلاقیوں کے مریض نہ صرف صحت یاب بلکہ کامیاب
معالج اور مسیحا بن گئے جو رہزن تھے رہبر بن گئے غرض بت پرست لوگ ایثار وہمدردی کے
مجسمے بن گئے تند خوئی اور جنگ جوئی کی جگہ نرمی اور صلح جوئی نظر آنے لگی چور اور
ڈاکو لوگوں کے اموال کے محافظ بن گئے،
الغرض حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے جن
مقاصد کے لئے دعا فرمائی اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کی تکمیل کے
لئے بھیجا گیا تھا وہ تینوں مقصد آپ کے عہد مبارک ہی میں نمایاں طور پر کامیاب
ہوئے پھر آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام نے تو ان کو مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال
تک ساری دنیا میں عام کردیا۔ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ واصحابہٖ اجمعین وسلم
تسلیماً کثیراً بعد ومن صلی وصام وقعد وقام،
ایک دوسرے مقام پر اللہ
تعالٰی نے فرمایا
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ
اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ
وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ
قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۱۶۴
(سورۃ آلِ عمران۔ آیۃ 164)
ترجمہ: بیشک
اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان
پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے
اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے.
(بیشک
اللہ کا بڑا احسان ہوا)، منّت نعمت عظیمہ کو کہتے ہیں اور بیشک سیّدِ عالم (صلی
اللہ علیہ وسلم) کی بعثت نعمت عظیمہ ہے کیونکہ خلق کی پیدائش جہل و عدم دَرَایَت و
قلت فہم و نقصانِ عقل پر ہے تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو
ان میں مبعوث فرما کر انہیں گمراہی سے رہائی دی اور حضور کی بدولت انہیں بینائی
عطا فرما کر جہل سے نکالا اور آپ کے صدقہ میں راہ راست کی ہدایت فرمائی اور آپ کے
طفیل میں بیشمار نعمتیں عطا کیں ۔
(مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے) یعنی
انکے حال پرشفقت و کرم فرمانے والا اور ان کے لئے باعث فخرو شرف جس کے احوال زُہد
وَرَع راست بازی دیانت داری خصائلِ جمیلہ اخلاقِ حمیدہ سے وہ واقف ہیں ۔
(ایک رسول) سیّد عالم خاتَم الانبیاء محمد
مصطفے (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔
(بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے) اور
اس کی کتاب مجید فرقان حمید انکو سُناتا ہے باوجود یہ کہ ان کے کان پہلے کبھی کلام
حق و وحیِ سماوی سے آشنا نہ ہوئے تھے۔
(اور انہیں پاک کرتا ہے) کُفرو ضلالت اور
ارتکاب محرمات و معاصی اور خصائلِ ناپسندیدوملکات رذیلہ و ظلمات نفسانیہ سے۔
(اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے) اور نفس
کی قوت عملیہ اور علمیہ دونوں کی تکمیل فرماتا ہے۔
(اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں
تھے) کہ حق و باطِل و نیک و بد میں امتیاز نہ رکھتے تھے اور جہل و نابینائی میں
مبتلا تھے۔
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا
وجود باجود پوری انسانیت پر سب سے بڑا احسان ہے:
آیت لقد من اللہ علی المومنین الآیتہ
، لقد من اللہ علی المومنین ، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دنیا میں
مبعوث فرما کر حق تعالیٰ نے مومنین پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ اس کے متعلق پہلی بات
تو یہ قابل غور ہے کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم)
رحمتہ للعالمین ہیں اور پورے عالم کے لئے آپ کا وجود نعمت کبری اور احسان عظیم ہے،
اس جگہ اس کو صرف مؤمنین کے لئے فرمانا ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم کو ھدی للمتقین
فرمانا کہ قرآن کا سارے عالم کے لئے ہدایت ہونا دوسری آیات سے ثابت ہے مگر بعض جگہ
اس کو متقین کے ساتھ مخصوص کر کے بیان فرمایا اس کی وجہ دونوں جگہ مشترک طور پر
ایک ہی ہے کہ اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا وجود باوجود سارے عالم اور
ہر مومن و کافر کے لئے نعمت کبریٰ اور احسان عظیم ہے اسی طرح قرآن کریم سارے عالم
انسانیت کے لئے صحیفہ ہدایت ہے، مگر چونکہ اس نعمت و ہدایت کا نفع صرف مؤمنین اور
متقین نے حاصل کیا اس لئے کسی جگہ اس کو ان کے ساتھ مخصوص کر کے بھی بیان کر دیا
گیا۔
دوسری بات رسول کریم (صلی اللہ علیہ
وسلم) کو مؤمنین کے لئے یا پورے عالم کے لئے نعمت کبری اور احسان عظیم ہونے کی
تشریح و توضیح ہے۔
یہ بات ایسی ہے کہ اگر آج کل کا انسان
روحانیت فراموش اور مادیت کا پرستار نہ ہوتا تو یہ مضمون کسی توضیح و تشریح کا
محتاج نہیں تھا، عقل سے کام لینے والا ہر انسان اس احسان عظیم کی حقیقت سے خود
واقف ہوتا، مگر ہو یہ رہا ہے کہ آج کا انسان دنیا کے جانوروں میں ہوشیا رترین
جانور سے زیادہ کچھ نہیں رہا اس کو احسان و انعام صرف وہ چیز نظر آتی ہے جو اس کے
پیٹ اور نفسانی خواہشات کا سامان مہیا کرے، اس کے وجود کی اصل حقیقت جو اس کی روح
ہے اس کی خوبی اور خرابی سے وہ یکسر غافل ہو گیا ہے، اس لئے اس تشریح کی ضرورت
ہوئی کہ انسان کو پہلے تو یہ بتلایا جائے کہ اس کی حقیت صرف چند ہڈیوں اور گوشت
پوست کا مجموعہ نہیں، بلکہ حقیقت انسان وہ روح ہے جو اس کے بدن کے ساتھ متعلق ہے،
جب تک یہ روح اس کے بدن میں ہے اس وقت تک انسان انسان ہے، اس کے حقوق انسانیت قائم
ہیں، خواہ وہ کتنا ہی ضعیف و کمزور، لب دم کیوں نہ ہو، کسی کی مجال نہیں کہ اس کی
جائیداد اور اموال پر قبضہ کر سکے، یا اس کے حقوق سلب کر سکے، لیکن جس وقت یہ روح
اس کے بدن سے الگ ہو گئی، تو خواہ وہ کتنا ہی قوی اور پہلوان ہو اور اس کے اعضاء
سب اپنی اصلی ہئیت میں ہوں وہ انسان نہیں رہا، اس کا کوئی حق خود اپنی جائیداد و
اموال میں باقی نہیں رہا۔
انبیاء علیہم السلام دنیا میں آتے ہیں
اس لئے کہ وہ انسانی روح کی صحیح تربیت کر کے انسان کو حقیقی انسان بنائیں، تاکہ
اس کے بدن سے جو اعمال و افعال صادر ہوں وہ انسانیت کے لئے مفید ثابت ہوں، وہ
درندے اور زہریلے جانوروں کی طرح دوسرے انسانوں کو ایذاء اور تکلیف دیتا نہ پھرے
اور خود اپنے بھی انجام کو سمجھ کر آخرت کی دائمی زندگی کا سامان مہیا کرے، ہمارے
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جیسے زمرہ انبیاء میں امامت و سیادت کا منصب
حاصل ہے، انسان کو صحیح انسان بنانے میں بھی آپ کی شان تمام انبیاء علیہم السلام
سے بہت ممتاز ہے، آپ نے اپنی مکی زندگی میں صرف یہی کام افراد سازی کا انجام دیا
اور انسانوں کا ایسا معاشرہ تیار کر دیا جس کا مقام فرشتوں کی صفوف سے آگے ہے اور
زمین و آسمان نے اس سے پہلے ایسے انسان نہیں دیکھے، ان میں سے ایک ایک رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وسلم) کا زندہ معجزہ نظر آتا ہے، ان کے بعد کے لئے بھی آپ نے جو تعلیمات
اور ان کے رواج دینے کے طریقے چھوڑے ہیں اس پر پورا عمل کرنے والے اسی مقام کو پا
سکتے ہیں جو صحابہ کرام نے پایا ہے، یہ تعلیمات سارے عالم کے لئے ہیں، اس لئے آپ
کا وجود باجود پورے عالم انسان کے لئے احسان عظیم ہے، گو اس سے پورا نفع مؤمنین ہی
نے اٹھایا ہے۔
دوسرے مقام پر قرآنِ مجید میں اللہ
تعالٰی نے مومنین کو تنبیہ فرمائی ہے :
"تم
فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور
تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور
تمہارے پسند کا مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑے سے زیادہ
پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے (ف ٤۸) اور اللہ فاسقوں کو راہ
نہیں دیتا" (سورۃ
التوبہ-آیۃ-24)
اللہ اور اس کے رسول کی محبت سب سے مقدم
اور سب پر فائق : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ اگر تم لوگوں کو یہ اور یہ
چیزیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیاری ہیں تو تم
لوگ انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم ۔ یعنی اپنا عذاب خواہ وہ فوری
طور پر اسی دنیا میں ہو خواہ آخرت میں ۔ سو اس ارشاد ربانی میں ان لوگوں کے لئے
بڑی تہدید اور تخویف ہے، جو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں ان مذکورہ چیزوں کو
ترجیح دیں ۔ پس مومن صادق کا کام اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول
کے مقابلے میں دنیا کی ہر چیز کو ٹھکرا دے ، جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے
کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا " قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ
قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں
اس کے یہاں اس کے والد، اس کی اولاد اور سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں
" ۔ اور مسندِ احمد کی روایت میں ہے " جب تک کہ میں اس کے یہاں اس کی
جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں " ۔ (ابنِ کثیر وغیرہ) ۔ سو رشتہ ایمانی
پر دوسرے کسی بھی رشتہ کے مقدم رکھنے کا نتیجہ و انجام بہت برا اور نہایت ہولناک
ہے - والعیاذ باللہ - یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ یہاں اللہ کے عذاب کو اللہ کے
حکم " امر اللہ " سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس سے اس حقیقت کو ظاہر فرما
دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو عذاب دینے کیلئے کسی طرح کی تیاری کرنے کی ضرورت نہیں
ہوتی، بلکہ وہاں صرف حکم دینے اور امر فرمانے کی دیر ہوتی ہے - سبحانہ و تعالیٰ -
جیسا بھی اور جب بھی کسی عذاب کا حکم دیا وہ فورا آ گیا۔ پس اس کے عذاب سے ہمیشہ
ڈرتے رہنا چاہئے اور کبھی بھی اس سے نڈر اور بےخوف نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے نڈر
اور بےخوف ہونا بڑے خسارے کا باعث ہے - والعیاذ باللہ - چنانچہ ارشاد فرمایا گیا {
فَلاَ یَاْمَنُ مَکْرَ اللَّہِ الاَّ الْقَوْمُ
الْخَاسِرُوْنَ} (الاعراف:99) - والعیاذ باللہ العظیم
- اللہ تعالیٰ فکر وعمل کی ہر غلط روی سے ہمیشہ محفوظ رکھے - آمین ثم آمین۔
فاسقوں کو ہدایت نہیں مل سکتی : سو ارشاد
فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ہدایت سے نہیں نوازتا فاسق اور بدکار لوگوں کو ۔ یعنی
اس کی ہدایت تو اگرچہ سارے عالم کے لئے عام اور بالکل مفت ہے مگر اس سے مستفید صرف
وہی ہو سکتا ہے جو اس کی طلب اور تڑپ رکھتا ہو ۔ اور جو لوگ اپنے فسق و فجور کی
وجہ سے اس کے حکم و اطاعت کے دائرے سے نکلے ہوئے ہوں اور وہ نور حق و ہدایت کے
طالب اور اسکے خواہش مند ہی نہ ہوں تو ان کو اس کا فیض کیونکر پہنچ سکتا ہے؟ -
والعیاذ باللہ العظیم - سو ایسے لوگ اپنی بدباطنی اور سوئِ اختیار کی بناء پر نور
حق و ہدایت سے سرفراز نہیں ہوسکتے ۔ اور ایسے لوگ اپنی محرومی کا باعث خود ہیں ۔
سو کامیابی اور اس کی خوش بختی و بدبختی وغیرہ سب کا اصل اور حقیقی تعلق انسان کے
اپنے قلب و باطن سے ہے ۔ اگر اس کے باطن کی دنیا درست ہوگی تو اس کے لیے اللہ
تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہی رحمت اور عنایت ہی عنایت ہے۔ اور اگر اس کے باطن کی دنیا
بگڑی ہوئی ہوگی تو اس کے لیے محرومی ہی محرومی ہے - والعیاذ باللہ - اور یہ ایک
طبعی اور معقول چیز ہے۔ کیونکہ برتن اگر سیدھا رکھا ہو گا اور اس کا منہ کھلا ہو
گا تو وہ آسمان سے نازل ہونے والے بارانِ رحمت کے قطروں سے بھر جائے گا ۔ اور اگر
وہ اوندھا اور الٹا رکھا ہو گا تو جتنی بھی بارش بر سے گی وہ خالی کا خالی ہی رہے
گا۔ سو یہی مثال ہے انسان کے قلب و باطن کی ۔ اسی کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان
فرمایا گیا {طَائِرُکُمْ مَّعَکُمْ } ( یس:19) ۔
یعنی اپنی بدبختی کے ذمہ دار تم لوگ خود ہو - والعیاذ باللہ –
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو
دھمکی دی ہے جو اللہ کے مقابلہ میں اہل و عیال اور رشتہ داروں کو ان کے کفر و شرک
کے باوجود ترجیح دیتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول سے حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ
اس کی محبت کو ہر شے کی محبت پر مقدم رکھا جائے۔ باپ ہو یا بیٹا، بھائی ہو یا بیوی،
یا خاندان کا کوئی فرد، یا مال و دولت جسے آدمی اپنی کدو کاوش سے حاصل کرتا ہے، یا
انواع و اقسام کے اموال تجارت، یا بلند و بالا محلات اور کوٹھیاں، ان سب کی اللہ
اور رسول کے مقابلہ میں مومن کے دل میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جس کے نزدیک یہ
چیزیں اللہ، اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہوں گی وہ فاسق اور
اپنے حق میں ظالم ہو گا۔
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ
وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ ۔۔۔ مِّنَ
اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ: سیدنا انس (رض) بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’تین چیزیں جس شخص میں
ہوں اس نے ایمان کی مٹھاس پا لی، وہ یہ کہ جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول ان کے
ماسوا سے زیادہ محبوب ہو اور جو کسی بندے سے محبت کرے تو صرف اور صرف اللہ کے لیے
کرے اور وہ کفر میں لوٹنے کو، جبکہ اللہ اسے کفر سے نجات دے چکا ہو، اتنا ہی برا
سمجھے جتنا برا وہ آگ میں ڈالے جانے کو جانتا ہے۔‘‘ [بخاری، کتاب الإیمان، باب من
کرہ أن یعود فی الکفر ۔۔ الخ : ۲۱۔
مسلم ، کتاب الإیمان، باب بیان خصال من اتصف بھن وجد حلاوۃ الإیمان : ٤۳ ]
سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان
ہے ! تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور بیٹے
سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ [ بخاری، کتاب الإیمان، باب حب الرسول (صلی اللہ
علیہ وسلم) من الإیمان : ۱٤
]
سیدنا انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ
(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو
سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ
ہو جاؤں۔‘‘ [ بخاری، کتاب الإیمان، باب حب الرسول (صلی اللہ
علیہ وسلم) من الإیمان : ۱۵۔
مسلم، کتاب الإیمان، باب وجوب محبۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) أکثر من الأھل
: ۷۰؍٤٤
]
سیدنا عبداللہ بن ہشام (رض) بیان کرتے ہیں
کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے اور سیدنا عمر (رض) کا
ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا، سیدنا عمر (رض) کہنے لگے، یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز
سے زیادہ عزیز ہیں، بجز میری اپنی جان کے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے
فرمایا: ’’نہیں، اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب تک کہ میں تجھے
تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ سیدنا عمر (رض) نے فی الفور عرض کی،
اللہ کی قسم! اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ اب اے
عمر! ( معاملہ درست ہوا)۔‘‘ [ بخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین
النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ؟ : ٦٦۳۲
]
وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ : ارشاد فرمایا :
(يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا
فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ۭ اَرَضِيْتُمْ بالْحَيٰوةِ
الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ
اِلَّا قَلِيْلٌ ۔ اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ڏ
وَّيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوْهُ شَـيْــــًٔـا ۭ وَاللّٰهُ
عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) [ التوبۃ : ۳۸،۳۹
] ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھیں کیا ہے کہ جب تم سے
کہا جاتا ہے اللہ کے راستے میں نکلو تو تم زمین کی طرف نہایت بوجھل ہوجاتے ہو؟ کیا
تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہو؟ تو دنیا کی زندگی کا سامان
آخرت کے مقابلے میں نہیں ہے مگر بہت تھوڑا۔ اگر تم نہ نکلو گے تو وہ تمھیں دردناک
عذاب دے گا اور بدل کر تمھارے علاوہ اور لوگ لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نقصان نہ
کرو گے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ اور فرمایا : (يٰٓاَيُّھَا
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي
اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهٗٓ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَي
الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ۡ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ
اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ
مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ) [ المائدۃ : ۵٤ ] ’’
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ عنقریب
ایسے لوگ لائے گا کہ وہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، مومنوں پر
بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت، اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت
کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اسے دیتا ہے جس کو
چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
سیدناابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی
(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ’’ جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس نے نہ جہاد
کیا اور نہ جہاد کا ارادہ کیا تو وہ نفاق کی ایک حالت پر مرا۔‘‘ [
مسلم، کتاب الإمارۃ، باب ذم من مات و لم یغز و لم یحدث نفسہ بالغزو : ۱۹۱۰ ]
سیدنا ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ’’عنقریب تم پر ہر طرف سے (کفار) قومیں اس
طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانا کھانے والے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا،
یا رسول اللہ! کیا ہماری یہ حالت قلت تعداد کی وجہ سے ہو گی؟ فرمایا : ’’تم تعداد
میں بہت زیادہ ہو گے لیکن تمھاری حیثیت سمندر کی جھاگ کی سی ہو گی۔ تمھارے دشمن کے
سینے سے تمھارا رعب نکل جائے گا اور تمھارے دلوں میں وہن پیدا ہو جائے گا۔‘‘ ہم نے
عرض کی، وہن کیا ہے؟ فرمایا: ’’زندگی سے محبت اور ( جہاد کی) موت سے نفرت۔‘‘ [
مسند أحمد : ۵؍۲۷۸، ح : ۲۲٤۵۹۔ أبو
داوٗد، کتاب الملاحم ، باب فی تداعی الأمم علی الإسلام : ٤۲۹۷ ]
سیدنا ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ’’ جس نے نہ جہاد کیا، نہ کسی مجاہد
کو کوئی سامان مہیا کیا اور نہ کسی مجاہد کے اہل و عیال کی نیک نیتی سے دیکھ بھال
کی، تو اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے اسے کسی شدید آفت سے دو چار کرے گا۔‘‘ [ أبو
داوٗد، کتاب الجہاد، باب کراہیۃ ترک الغزو : ۲۵۰۳۔ ابن ماجہ، کتاب الجہاد،
باب التغلیظ فی ترک الجہاد : ۲۷٦۲۔
’’ الأربعین فی الحث علی الجہاد ‘‘ لابن عساکر : ۲۰ ]
سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں
کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک مجھے
تلوار دے کر بھیجا ہے، حتیٰ کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت ہونے لگے اور میرا
رزق میرے نیزے کے سائے کے نیچے رکھا گیا ہے اور ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنا دی
گئی ہے جو میرے طریقہ کی مخالفت کرے اور جو کسی قوم کی مشابہت کرے گا وہ انھی میں
سے ہو جائے گا۔‘‘ [ مسند أحمد : ۲؍۵۰، ح : ۵۱۱۳ ]
حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ۭ
وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ: ارشاد فرمایا : (اِنَّهٗ قَدْ
جَاۗءَ اَمْرُ رَبِّكَ ۚ وَاِنَّهُمْ اٰتِيْهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُوْدٍ) [ ھود
: ۷٦
] ’’بے شک حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کا حکم آچکا اور یقیناً یہ لوگ! ان پر وہ عذاب
آنے والا ہے جو ہٹایا جانے والا نہیں۔‘‘ اور فرمایا :
(هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ
اَمْرُ رَبِّكَ ۭ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ وَمَا ظَلَمَهُمُ
اللّٰهُ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ۔ فَاَصَابَهُمْ سَـيِّاٰتُ
مَا عَمِلُوْا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ) [ النحل : ۳۳،۳٤ ] ’’وہ
اس کے سوا کس چیز کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں، یا تیرے رب کا
حکم آجائے۔ ایسے ہی ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں
کیا اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کیا کرتے تھے۔ پس ان کے پاس اس کے برے نتائج
آپہنچے جو انھوں نے کیا اور انھیں اس چیز نے گھیر لیا جسے وہ مذاق کیا کرتے تھے۔‘‘
No comments:
Post a Comment