بسم اللہ الرحمن الرحیم
علماءِ سوء کا بھیانک کردار اور علماءِاسلام (علماءِ حق) کے فرائضِ منصبی
ایک فکرانگیز مفروضہ۔ ایک قابلِ غور تمثیل
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
میں نے ایک شخص کو اپنا حاکم مانا ہے، اس کی اطاعت و اتباع ،تابعداری و فرمانبرداری اور کامل پیروی کا حلف اٹھایا ہے اور اس کے ساتھ میں نےعہد کیا ہے کہ اس کی نافرمانی نہیں کروں گا، میں مانتا ہوں اور جانتا ہوں وہی میرا سچا خیرخواہ، ہمدرد اور سب سے بڑھ کر محسن ہے، میرے پاس جو کچھ بھی ہے سب اسی کا عنایت کیا ہوا ہے، میں جو کچھ بھی ہوں اسی کی بدولت ہوں۔
میرے اس مہربان و عظیم محسن شخص نے اپنے سارے احکامات مجھے بتا، سکھا اور سمجھا دیئے ہیں اور تحریری طور پر یاداشت کے لئے کتابی صورت میں بھی مجھے دے رکھے ہیں، میرے اس عظیم ترین محسن شخص نے مجھے پچیس سال کے عرصے کےلئے اپنی ایک جماعت کا امیر و امین بھی مقرر کیا ہے جس میں شامل تمام تر افراد نے بھی میری طرح ہی میرے عظیم محسن و مہربان شخص کی کامل اطاعت و اتباع اور وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ مجھے امیر اور اپنا معتمد و امین مقرر کرنے والے میرے محسن و مربّی نے سختی کے ساتھ تاکید و تلقین اور تنبیہ کی ہے کہ اس جماعت کو بہرحال متحد رکھنا، کسی بھی قیمت پر اس میں کوئی پھوٹ نہ پڑنے دینا، اس جماعت کے اندر کسی بھی بنیاد پر کوئی تفریق پیدا ہونے دینا اور نہ کوئی گروہ بندی ہونے دینا اور نہ ہی تم خود اس جماعت کے اندر کوئی گروہ بنانا، سب کو فقط میرے احکامات پر ہی چلانا، اپنی طرف سے کچھ بھی کمی و بیشی یا ردّ و بدل ہر گز مت کرنا اور اپنی طرف سے اس میں کچھ بھی شامل مت کرنا۔ یہ سب آپس میں ایک جسم کے مختلف اعضاء کی طرح متحد و منظم ہیں، ایک دوسرے کے ہر دکھ درد کے ساجھی و ساتھی ہیں۔ آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا ان میں کسی بھی بنیاد پر باہمی منافرت پیدا نہ ہونے دینا۔ میرے محسن و مربّی نے کہا کہ جب تک تم ان سب کو میرے احکامات و تعلیمات اور ہدایات پر چلاؤ گے ان میں کسی بھی قسم کا تفرقہ نہیں ہو گا اور اگر تم نے میرے احکام و تعلیم اور ہدایات سے ہٹ کر ان کو اپنے ذاتی افکار و نظریات پر چلانے کی کوشش کی تو اس متحد و منظم جماعت میں پھوٹ پڑ جائے گی۔
مجھے یہ بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ اس نے مجھ کو کون کون سے کام بہرحال سر انجام دینے اور کس کن کاموں سے ہر حال میں باز رہنے کی تاکید کی ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتا دیا ہے کہ فلاں آدمی تمہارا دشمن ہے اس کو پتا ہے کہ تم نے اپنا عہد نبھایا، اپنے حلف کی پاسداری کی تو تمہیں بہت سارا انعام و اکرام ملے گا، وہ نہیں چاہتا کہ تم ان انعامات کو حاصل کر پاؤ، اسلئے وہ تمہیں میری باتیں ماننے سے روکے گا، تم اس کی باتوں میں مت آنا۔
میرے محسن و مہربان نے کہا کہ پچیس سال تک تمھاری اور اس جماعت میں شامل ہر ایک فرد کی تمام تر ضروریات کی کفالت ہوتی رہے گی، ہر سہولت اور تمام مراعات سب کو بدستور حاصل رہیں گی اور اس عرصہ میں کوئی مداخلت کی جائے گی اور نہ کوئی محاسبہ کیا جائے گا۔ البتہ ہر طرف سی ۔سی۔ ٹی ۔وی کیمرے نصب کر دیئے گئے ہیں جن میں آپ کا ہر قول و عمل ریکارڈ ہوتا رہے گا اور کسی لمحے بھی تم ان کیمروں کی آنکھ اور ریکارڈنگ سے بچ نہیں پاؤ گے۔ اس عرصے کے گزرنے کے بعد پھر تمہاری کارکردگی کاجائزہ لیا جائے گا کہ تم نے اپنے فرائضِ منصبی ہدایات کے عین مطابق سرانجام دیئے ہیں یا کہ نہیں۔ اگر پایا گیا کہ تم نے میرے بجائے اس شخص کی باتوں پر عمل کیا ہے جس کی بات ماننے سے تم کو روکا گیا تھا تو تمہیں تنگ و تاریک کنویں میں پھینکوا دیا جائے گا اور اگر پایا گیا کہ تم نے دی گئی ہدایات پر پوری طرح سے عمل در آمد کیا ہے تو تمہیں بے شمار انعامات و اعزازات سے نوازا جائے گا۔
اب مجھے کیا کرنا چاہئے؟؟؟
جس دشمن سے خبردار کیا گیا تھا، کیا مجھے اس کی باتوں میں آکر اپنے عظیم مشفق و مہربان ، محسن و مربّی شخص کے ساتھ بے وفائی و غدّاری اور اس کی نافرمانی کرنی چاہئے؟؟؟
کیا مجھے اپنے عظیم مشفق و مہربان ، محسن و مربّی شخص کی ہدایات و احکامات اور تعلیمات کو بالائےطاق رکھ کر ان کے صریحاً ًبرعکس اپنے ذاتی افکار و نظریات پر چلا کر، اس کی متحد و منظم جماعۃ میں تفرقہ ڈال کر، اسےمتعدد متحارب و متصادم گروہوں میں تقسیم کر کے ان گروہوں کو باہم دشمن بنا دینا چاہئے؟؟؟
یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہی ہو گا۔
تو پھر بھی اگر میں نے ایسا ہی کیا ہو جیسا کہ مجھے کسی بھی صورت میں ہر گز نہیں کرنا چاہئے تھا اور ساتھ ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کروں کہ میں نے اپنے فرائضِ منصبی اپنے عظیم مشفق و مہربان، محسن و مربّی شخص کی ہدایات و احکامات اور تعلیمات کے عین مطابق سر انجام دئے ہیں تو کیا آپ سارے اصل حقائق کو جانتے بوجھتے اور سمجھتے ہوئے، مشاہدہ کرنے کے باوجود بھی میرے اس مضحکہ خیز اور بالکل جھوٹے اور لغو دعویٰ کو درست، صحیح اور سچا مان لیں گے؟؟؟ یقیناً نہیں۔
اسی مفروضے کی روشنی میں (بلا تمثیل) ہمارے آج کل کے فرقہ پرست (ملا، مولویوں) علماءِ سوء کے گھناؤنے، مکروہ، قابلِ نفرت، بھیانک کردار کا جائزہ لیجیئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیئے کہ کیا اسلام میں فرقوں کے وجود کا کوئی جواز بنتا ہے؟؟؟
عاقبت نا اندیش، خود غرض، مفاد پرست، نام نہاد مذہبی عناصر، (رهبان و حوارى) الله تعالٰی کے نازل کردہ کامل و اکمل اور مکمل اور اصل دین ِ اسلام (الله تعالٰی کے کلام (قرآن مجید)، رسول الله صلّی الله علیه و اٰلہ و سلّم کی سنّۃ و اسوۃحسنة) کی تعلیمات و احکامات، هدايات و فرمودات کو لوگوں تک پہنچانے اور انہی کی تعمیل، اطاعت، اتباع اور پیروی کی دعوۃ دینے کا مقدس فریضہ دیانتداری سے سر انجام دے رہے ہیں یا اس کے بجائے، ان احکامات کے صریحاً برعکس، اپنے اپنے فرقوں کے برانڈیڈ، من پسند و من گھڑت، خود ساختہ، بناوٹی و بناسپتی، گمراہ کن انسانی و بشری افکار و نظریات کو عملاً قرآن و سنّۃ پر اوّلین ترجیح اور واضح فوقیت دے کر حکم الله سے انحراف و روگردانی کے سنگین ترین گناہ و سرکشی کے شرک ارتکاب کر رہے ہیں, وہ تو دانستہ و نادانستہ طور پر گمراہی کو فروغ دے رہے ہیں اور اپنے نام نہاد فرقہ پرست اکابرین کے نام پر محض اپنے اپنے فرقوں کے برانڈیڈ، من پسند و من گھڑت، خود ساختہ، بناوٹی و بناسپتی، گمراہ کن انسانی و بشری افکار و نظریات کو ہی لوگوں کے سامنے اسلام کے طور پر پیش کر کے الله کے نازل کردہ دین سے متنفر کرنے کا شیطاغ کام کرنے میں مصروف عمل ہیں اور الله تعالٰی و رسول الله صلى الله عليه و اله و سلم کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اپنے اپنے نام نہاد فرقہ پرست اکابرین ہی کی پیروی کی تلقین و تاکید اور تبلیغ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
انہوں نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کر پیش کرنے کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے جس کے نتیجے میں اسلام ناحق بدنام ہو رہا ہے اور امّۃِ رسول ﷺ کو فرقہ فرقہ کر کے ہر فرقے کو دوسرے کا جانی دشمن بنا دیا گیا ہے۔ اخوُۃ اسلامی اور وحدت امّۃِ مسلمہ کا مکمّل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ لله ذرا سوچیئے!
فرقوں سے اپنی وفاداریوں اور ہر طرح کی وابستگیوں کو ختم کر کے همیں چاہیے کہ حبیب رب العالمین رحمۃ للعالین ﷺ کے دامنِ رحمت سے لپٹ جائیں، قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنة پرمتفق و متحد ہو جائیں اور اسی جماعۃ میں واپس لوٹ آئیں جو رسول الله ﷺ کی جماعت ہے بلا شک و شبہ باقی تمام تر فرقوں کو رسول الله ﷺ نے جہنّمی بتایا ہے
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ كَذٰلِكَ۰ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ۲۸ (سورۃ فاطر، آیۃ-28) ترجمہ: اور انسانوں، جانورں اور چوپایوں کے بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں. الله سے تو اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں (حق اور حقیقت کا) بلاشبہ الله نہایت ہی زبردست بڑا ہی بخشنے والا ہے.
جمادات کی طرح حیوانات کی بھی مختلف قسمیں : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ *"انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے بھی مختلف رنگ ہیں"*۔ سو یہ بھی اس قادر مطلق کی بےپایاں قدرت و عظمت کی ایک بڑی نشانی ہے کہ اتنے لاتعداد اَفراد میں سے کوئی بھی دو فرد آپس میں ایک جیسے نہیں ہیں- فَسُبْحَانَہ مَا اَعْظَمَ شَانُہ وَمَا اَجَلَّ بُرْہَانُہ - بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ جمادات کی طرح انسانوں، جانداروں اور چوپایوں میں بھی قدرت کی ایسی ہی گوناگونی اور بوقلمونی پائی جاتی ہے۔ بلکہ ان کی یہ رنگا رنگی صرف ظاہر تک محدود نہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ بوقلمونی ان کی صورت سیرت، عادت و صفات، اَطوار و خصوصیات اور مزاج ۔۔ تک میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ فرق و اختلاف ان تمام اعتبارات سے ظاہر اور واضح ہے۔ سو جس طرح ہر جانور سے دودھ کی توقع نہیں کی جاسکتی اسی طرح ہر انسان سے خوف و خشیتِ خداوندی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ بہرکیف خالق کائنات جل جلالہ کی مخلوق کی یہ گوناگونی اور بوقلمونی اپنے اندر عظیم الشان درس ہائے عبرت وبصیرت رکھتی ہے ان لوگوں کے لیے جو صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لیتے ہیں - وبالله التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل - بہرکیف مخلوق کی یہ بوقلمونی خالق کی عظمت کی ایک کھلی دلیل ہے - سبحانه وتعالٰی-
علم حقیقی کا ثمرئہ و نتیجہ خوف وخشیتِ الٰہی سے سرفرازی: سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ علم حقیقی کا ثمرہ و نتیجہ خوف و خشیتِ الٰہی سے سرفرازی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ *"الله سے اس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں"*۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ الله تعالٰی سے ڈرتے نہیں وہ عالم نہیں اگرچہ وہ کتنی ہی کچھ ڈگریاں اور کیسی ہی کچھ سندیں اپنے پاس کیوں نہ رکھتے ہوں کیونکہ یہاں "اِنَّما" کا کلمہ حصر اختیار فرمایا گیا ہے۔ اور " العلماء " میں الف لام جو کہ مفیدِ عموم ہے۔ سو اس سے واضح ہو گیا کہ جو الله سے ڈرتا نہیں وہ عالم نہیں- "اَفَادَ انَّہ مَنْ لم یخش الله لم یکن عالما" - (جامع البیان : ج 2 ص 190) ۔ اسی لئے سلف سے منقول ہے کہ علم کثرت کلام کا نام نہیں بلکہ وہ حقیقت میں عبارت ہے کثرت خشیت سے۔ اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جبکہ انسان کے دل و دماغ کی دنیا اس وحدہ لاشریک کی عظمتِ شان اور جلالتِ قدر کے تصور و احساس سے معمور و منور ہوں۔ ہم نے اپنے ترجمہ میں اسی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے- والحمد للہ رب العالمین- سو علماء سے مراد وہی لوگ ہیں جو حق اور حقیقت کے علم سے آگہی رکھتے ہوں کیونکہ جو لوگ مادہ اور مادیت ہی کے غلام اور بطن و فرج کی خواہشات ہی کے پجاری بن جاتے ہیں ان کی نگاہیں مادیت اور مادی ظواہر و مظاہر ہی میں اٹک کر رہ جاتی ہیں اس سے آگے نہ ان کو کچھ نظر آتا ہے اور نہ ہی وہ اس کو دیکھنے کی کوشش ہی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا تو مسئلہ ہی الگ ہے۔ لیکن دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس سے آگے سوچتے ہیں۔ ان کا معاملہ بطن و فرج کے تقاضوں کے ان غلاموں سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ مادی ظواہرو مظاہر میں الجھنے اور اٹکنے کی بجائے ان اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں اور اس طرح ان کی حقیقت بیں اور حقیقت رسا نگاہیں انہی مادی ظواہر و مظاہر کے ذریعے عالم غیب تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ سو ایسے ہی لوگ اصل میں انسانیت کے گلِ سرِسبد ہوتے ہیں اور یہی علماء کے لقب کے اصل مستحق ہوتے ہیں ۔ انہی کو الله تعالیٰ کی معرفت اور اس کی خشیت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے اور انہی کو الله کے رسولوں کی دعوت اپیل کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز و غفور کا حوالہ: سو ارشاد فرمایا گیا اور ادواتِ تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ *"بلاشبہ اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی درگزر فرمانے والا ہے"*۔ سو عزیز و زبردست ہونے کے اعتبار سے وہ جس کو جب چاہے اور جیسے چاہے گرفتار کر سکتا ہے۔ مگر غفور ہونے کی بنا پر وہ بےمثال عفو و درگزر سے کام لیتا ہے- فَلَہُ الْحَمْدُ وَلَہ الشُّکْرُ- سو اس میں ایک طرف تو پیغمبر کیلئے تسلی کا سامان ہے کہ جو لوگ آپ (صلی الله علیه و اله و سلم) کی دعوت کو رد کر رہے ہیں وہ الله تعالٰی کی گرفت و پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ اور دوسری طرف اس میں ان منکرین و معاندین کیلئے بخشش کی نوید بھی ہے کہ اگر وہ اپنی روش تبدیل کر کے صدق دل سے حق کو اپنا لیں تو الله کی رحمت و عنایت انکو اب بھی اپنی آغوش میں لے سکتی ہے کہ اس کی رحمت و بخشش اور اس کے کرم و عنایت کی کوئی حد نہیں-
الله سبحانه و تعالٰی ہر کلمہ گو کو صراط مستقیم پر قائم رکھے- سو الله سبحانہ و تعالٰی کی صفات کریمہ بڑی انقلاب آفریں صفات ہیں۔
اللہ ربّ العالمین نے اپنا پیغام قرآن مجید، جو نورِ ہدایت ہے، کلام الله ہے، علم الله ہے، وحی کے ذریعے رسول الله حضرت محمّد مصطفٰی ﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا، جبرئیل علیہ السّلام کو بھیج بھیج کر وحی کے ذریعے ہی رسول الله ﷺ کو قرآن مجید کے وہ معارف و معانی بتائے، سمجھائے اور سکھائے جو اللہ تعالٰی کا مقصودِ اصلی ہیں، قرآن مجید پر عمل کیسے اور کس کس طور و طریقے سے کرنا ہے یہ بھی میرے ربّ نے رسول الله ﷺ کو ہی سکھایا اور مطلوب و مقصود طریقے بتائے، سمجھائے اور سکھائے، رسول الله ﷺ نے بعینہ قرآن مجید پر عمل کر کے دکھایا اور الله تعالٰی نے فرمایا کہہ دو کہ الله جل جلاله اور اس کے رسول صلى الله عليه و اله و سلم کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو الله تعالٰی بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا، اور فرمایا "اور الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے اور فرمایا "مومنو! الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر الله اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے" اور فرمایا "اور الله کی فرمانبرداری اور رسولِ (الله) کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے" اور فرمایا "اے محمد! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ (کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت الله اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو الله سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو الله اور اس کے رسول کے حکم پر چلو" اور فرمایا "اے ایمان والو! الله اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے روگردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو" اور فرمایا "اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو کہ الله صبر کرنے والوں کا مددگار ہے اور فرمایا "کہہ دو کہ الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول الله کے حکم پر چلو, اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرنا) جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا ادا کرنا) ہے جو تمہارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا رستہ پا لو گے اور رسول الله کے ذمے تو صاف صاف (احکام الله کا) پہنچا دینا ہے" اور فرمایا "اور صلوة قائم کرتے رہو اور زکوٰة دیتے رہو اور رسول الله کے فرمان پر چلتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے" اور فرمایا "مومنو! الله کا حكم مانو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ ہونے دو" اور فرمایا "صلوة قائم کرتے اور زکوٰة دیتے رہو اور الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو اور جو کچھ تم کرتے ہو الله اس سے خبردار ہے" اور فرمایا "اور الله کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم منہ پھیر لو گے تو ہمارے رسول کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کھول کر پہنچا دینا ہے"۔
ملتے جلتے مفہوم کی دیگر بھی متعدد آیات ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی ایسے شخص کو دینِ اسلام کا عالِم مانا جا سکے جو کہ قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنة کی تعلیمات اور احکام کو ثانوی جبکہ اپنے فرقہ پرستی کے جاہلانہ و گمراہ کن نظریات و تصورات اور افکار کو اوّلین ترجیح دیتا ہو، الله سے ذرا برابر بھی نہ ڈرتا ہو، لوگوں کو قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنة کی اطاعت و اتباع اور پیروی کرنے کی تلقین اور وعظ و نصیحت کے بجائے اپنے من گھڑت اور خود ساختہ فرقے کا پیروکار بناتا ہو۔
رسول الله ﷺ کی جماعت امّۃ مسلمہ کو پھوٹ اور تفرقہ ڈالتا ہو، قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنة کی تعلیمات و احکام کی صریحاً مخالفت کرتا اور لوگوں سے کرواتا ہو، مسلمانوں کی عظمت، اتحاد و یکجہتی کے مراکز مساجد کو مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کا مركز و مورچہ بنا کر مسلمانوں کو آپس میں لڑواتا ہو، الله تعالٰی اور رسول الله ﷺ نے امت مصطفوی (مسلمانوں) میں گروہ بندی، تفرقے سے منع فرمایا یعنی حرام اور گناہِ کبیرہ بتایا اور فرمایا کہ ایسے کسی بھی شخص یا گروہ اور فرقے کا دینِ اسلام اور امّۃِ مصطفوی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اتنی سخت وعید اور ممانعت کے باوجود جو شخص ،الله و نبی ﷺ کی مخالفت میں قرقه بندی کو جائز بتائے، اس كا دفاع کرے، ضلالت و گمراہی کو پھیلائے تو کیا اس کو یہ پر تقصیر و حقیر بندہ اپنا دینی قائد، مذہبی پیشواء اور اسلام کا عالِم کیسے تسلیم کر سکتا ہے؟ ایسا ہونا کیسے ممکن ہے؟؟؟
اس گنہگار کی زندگی میں الله ايسى منحوس گھڑی کبھی نہ لائے کہ جب الله و رسول ﷺ کی مخالفت میں سرگرم عمل کسی نام نہاد ملا، مولوی، اکابر کو صحیح تسلیم کرنے کے متعلق تصور بھی کیا جا جایے، ایسی گھڑی آنے سے پہلے الله تعالٰی اس حقیر والفقیر بندہ کو ایمان پر موت نصیب فرما دے۔ اس نا چیز کی زندگی میں میں ایسا کویئ لمحہ نہ آئے جس میں یہ عاصی بندہ ایسے کسی بھی اکابر کی بات، تعلیم اور احکام کو ذرا سی بھی کوئی وقعت و اہمیت دے جو امّۃ ِرسول الله ﷺ کی تقسیم در تقسیم، تفرقے، منافرت، انتشار و افتراق اور قرآن و سنّۃِ رسول الله ﷺ اور نبی ﷺ کے اسوۃحسنة سے بے اعتنائی، بے رغبتی، اور دوری پھیلا کر اپنے فرقے کے خود ساختہ، من گھڑت، گمراہ کن انسانی افکار و نظریات کو فروغ دینے میں مصروفِ عمل ہیں، والله ایسے عناصر رہبر کا بہروپ دھار کر رہزنی کا ارتکاب کرنے میں لگے ہوئے ہیں اس طرح کے بہروپیوں کو عالِم دین نہیں علماء سوء کہا جاتا ہے جو دینِ اسلام کے نام لے لے کر سادہ لوح اور مخلص مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اسلام کا نہیں اپنے اپنے فرقوں کا کام محض گمراہی پھیلانے کے سوا کچھ نہیں، ایسے کسی بھی شخص کو یہ ناچیز عالم دین یا اسلامی اسکالر یا مذہبی پیشوا نہیں مان سکتا، اور نہ ہی کسی کلمہ گو کو ایسا کرنا جائز ہے۔ ایسے عناصر کو علمائے سوء کہا جاتا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ میں نے رسول ﷺ کا نہیں کسی اور عالِم کا پوچھا تھا تو اجمالی و اصولی جواب تو دیا جا چکا ھے تفصیل اس کی بھی جان لیجیئے، حضرات خلفائے راشدین، دیگر صحابہء کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم ، تابعین و تبع تابعین، قرون اولٰی و قرونِ ثانی کے سلف صالحین، ائمہء اربعہ فقہائے عظام مجتہدین کرام رحمۃ اللہ علیہم سے بڑا بھی آج کے علماء میں کوئی نہیں دکھتا جنہوں نے کہ فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کو حرام بتایا امّۃ مصطفوٰ ی کو متحد و منظم رہنے کی تلقین و نصیحت فرمائی تھی اور بتایا تھا کہ دین اسلام فقط قرآن اور رسول الله ﷺ کی سنّۃ (قرآن کی عملی تعبیر و تشریح اور تفسیر) اسوۃ حسنة پر مبنی ہے اس کے علاوہ کچھ بھی اور دینِ اسلام کے اصول الدّین میں داخل نہیں ہے بلکہ باقی تفقہ فی الدّین اور فروعی مسائل ہیں اصول الدّین نہیں ہیں۔ امّۃ مصطفوی کو گروہ در گروہ تقسیم کرنے والے، مذہبی منافرت پھیلانے والے اور ایک دوسرے کو کافر و مشرک اور مرتد بتانے والے، مسلم معاشرے میں نفرتیں پھیلا کر بھائی کو بھائی سے لڑانے والے علمائے اسلام کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنة کی خود پیروی، اطاعت و اتباع کرتے ہیں نہ اوروں کو اس کی دعوۃ دیتے ہیں، بس اپنے اپنے فرقوں کے افکار و نظریات کی تبلیغ کو ہی دینِ اسلام کہہ کر پیش کرتے ہیں آؤ بھائیو! ان مفاد پرستوں اور خود غرضوں کا دامن چھوڑ دیں ، ان کو اپنا رہبر و رہنما اور مذہبی پیشوا بنانے کے بجائے اصل اکابرینِ امّت صحابہء کرام رضوان الله تعالٰی علیہم، تابعین و تبع تابعین، قرون اولٰی و قرونِ وسطیٰ کے سلف صالحین، ائمہء اربعہ فقہائے عظام مجتہدین کرام رحمۃ الله علیہم کو درست مان لیں جو یقیناً ہم سے بہتر، صالح، متّقی اور پرہیزگار اور حالیہ ڈیڑھ دو یا تین صدیوں کے علماء سے دین اسلام کا زیادہ علم رکھتے تھے اور باعمل عالِم تھے ان کو اپنا اکابر مانیں اور ان کی طرح سے اور ان کی تعلیمات کی روشنی قرآن و سنّۃ اور اسوۃحسنة کی اطاعت و اتباع پر متفق ہو جائیں۔ آپس میں بھائی بھائی اور اتحادِ امّت کے داعی بن جائیں، رحمۃ للعامین ﷺ کے دامن رحمت سے وابستہ ہو جائیں ۔اتحادِ امّۃ بس اسی طرح ممکن ہے ہے۔
ہم سب مسلمانوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ الله رب العالمین سبحانه وتعالی نے انسانوں کی ھدایت و راھنمائی کے لئے، اپنے آخری رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) پر نازل کردہ وحی متلوو (آخری الھامی کتاب ھدایت قرآن مجید) اور وحی غیرمتلوو (سنة رسول الله صلی اللہ علیہ و الہ و سلم) پر مبنی جو دین عطا فرمایا، اپنے اس پسندیدہ دین کا نام "الاسلام" رکھا جوکہ پورے کا پورا منزل من الله اور کامل و اکمل اور مكمل ھے۔ ربّ تعالٰی کا پیغام، رسول الله صلّی الله علیه واٰله و سلّم کا فرمان، دین کا نام فقط " الاسلام"، ایمان والے سب صرف "مسلمان" ایک نبی ﷺکی امّۃ ہیں، نورِ ہدایت بس اک قرآن! فرقوں کا باقی نہ رہے کوئی نام و نشان، اخوّۃِ اسلامی و امّۃِ واحدہ کے احیاء کا تاکہ بن سکے کچھ امکان!
ہم سب مسلمانوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ الله رب العالمین سبحانه و تعالٰی نے انسانوں کی ھدایت و راھنمائی کے لئے، اپنے آخری رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین (صلی الله علیہ و الہ و سلم) پر نازل کردہ وحی متلوو (آخری الھامی کتاب ھدایت قرآن مجید) اور وحی غیر متلوو (سنة رسول الله صلی الله علیه و اله و سلم) پر مبنی جو دین عطا فرمایا، اپنے اس پسندیدہ دین کا نام "الاسلام" رکھا جوکہ پورے کا پورا منزل من الله اور کامل و اکمل ھے۔
الله رب العالمین سبحانه و تعالٰی نے عالم انسانیت کے لئے اپنی اس عظیم نعمت، الوھی ھدایت یعنی دین "الاسلام" کی تکمیل کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان (خود اپنی آخری الھامی کتاب ھدایت، کلام الله یعنی) قرآن مجید میں فرما دیا جب کہ الله رب العالمین سبحانه و تعالٰی کے آخری رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی (صلی الله علیہ و الہ و سلم) نے بھی اپنے خطبہء حجة الوداع میں دین اسلام کے مکمل ھونے کا بالکل واضح، واشگاف اور غیر مبہم اعلان فرمایا دیا۔
الله رب العالمین سبحانه و تعالٰی نے اپنے آخری رسول رحمة للعالمین (صلی الله علیہ و الہ و سلم) کی نبوت و رسالت اور اپنی آخری کتابِ ہدایت قرآنِ مجید پر مبنی (دین "الاسلام") کو قبول کرنے، اس پرایمان لانے اور اسے اخلاص قلب و صدق نیت کے ساتھ تسلیم کرنے والوں کا نام خود ھی قرآن مجید میں "مسلم" مقرر کر دیا ہے اورعالم انسانیت بالخصوص اھل ایمان (مسلمانوں) کو اس کا مکلف قرار دے دیا گیا۔
قرآن و سنة پر مبنی الله رب العالمین سبحانه و تعالٰی کے پسندیدہ الوھی دین "الاسلام" میں حجیّت (اتھارٹی) صرف قرآن وسنة ہی ہیں، ان کے سوا (کسی بھی شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء ، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب سمیت) کسی بھی انسانی خیالات و بشری افکار کو دین اسلام میں حجیّت (اتھارٹی) کی حیثیت حاصل نہیں ہے لہذا الوھی ھدایت پر مشتمل، قرآن و سنة پر مبنی، الله رب العالمین سبحانه و تعالٰی کے پسندیدہ دین "الاسلام" میں کسی کمی و بیشی، ردوبدل، ترمیم و تحریف کا کوئی امکان یا جواز باقی نہیں رھا۔ الله سبحانه و تعالى انبياء ورسل عليهم الصلواة والسلام کے سوا کسی بھی انسان کو براه راست اوربلا واسطه هدايت عطا نہیں كرتا بلکہ باقی تمام انسانوں کو اپنے انبياء و رسل علیہم الصلوة والسلام کے توسل و توسط سے ھی ھدایت دیتا ھے- لہذا حیات رسول الله حضرت محمد مصطفی (صلی الله علیه و اله و سلم) میں مکمل ھو جانی والے دین "الاسلام" پرقائم وکاربند رھنے کی الله رب العالمین سبحانه و تعالٰی جسے چاھتا ھے توفیق عطا فرماتا ھے۔ اب جو کوئی بھی مسلمان ، فرد یا افراد، طبقہ یا گروہ، کتاب الله اورسنة رسول الله (صلی اللہ علیہ و الہ و سلم) کے سواء بھی کسی اور شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب یا کوئی سے بھی انسانی خیالات و بشری افکارکو منزل من الله الوھی دین "الاسلام" میں اتھارتی (حجیت) مانتا ھے یا قرآن وسنۃ پر اولیّت، ترجیح، فوقیّت یا برابر کی حیثیّت دیتا ھے تو اسے اپنے رویّے پر غور کرنا ضروری ھے۔ ھر ایک صاحبِ ایمان کے لئے لازم ھے کہ وہ اپنے آپ کو دینی اعتبار سے محض"مسلمان" سمجھے اور کہلوائے، مسلمان کے علاوہ اپنی کوئی بھی دیگر دینی ومذھبی شناخت، پہچان یا نام اپنانے، کہلوانے، اور اختیار کرنے سے گریز کرے۔
ہر فرقہ خود کو حق پر جبکہ باقی سب کو گمراہ، فاسق و فاجر، بدعتی، کافر، مشرک، مرتد بتاتا اور سمجھتا ہے، مسلمانوں کے مابین مذہبی منافرت پیدا کر کے امّۃ مصطفوی کے اتحاد کی راہیں مسدود کرتا ہے، اپنے نظریات کو قرآن کے مطابق ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید کے اصل معانی و مفہوم میں تحریف کرنے اور وضعِ حدیث (حدیثیں گھڑنے) یا موضوع احادیث کو بنیاد بنانے سے بھی گریز نہیں کرتا، قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنة کی تعلیمات و احکامات کی تبلیغ کرنے کے بجائے اپنے فرقے کے نظریات کا پرچار کرتا ہے۔ ہمارے پاس فرقہ پرست عناصر کے افکار و نظریات کو صحیح یا غلط کے معیار پر پرکھنے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ هم پرکھ لیں اور تصدیق و تحقیق کر لیں کہ ان کی بات مسلّمہ مقاصدِ دین اور قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنة سے عینیت و مطابقت رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر بات میں قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنة کے ساتھ عینیت و مطابقت پائی جاتی ہو تو اس وجہ سے قبول کریں کہ وہ بات مسلّمہ مقاصدِ دین، قرآن و سنّۃ اور اسوۃحسنة کی تعلیمات و احکامات کے عین مطابق اور اسلام کی تعلیم و حکم ہے، اس وجہ سے ہر گز قبول نہ کریں کہ کہنے والے کا تعلق آپ کے فیورٹ فرقے سے ہے یا کہنے والے کی اپنی ذات و شخصیت کی کوئی خاص اہمیت ہے۔ جہاں فرقہ ہے وہاں اسلام نہیں اور جہاں اسلام ہے وہاں کسی فرقے کے وجود کی ہر گز ھر گز کوئی گنجائش نہیں ہے۔
نه جانے امّۃِ مسلمہ کہاں کھو گئی جو جسدِ واحد کی طرح متحد تھی جو رسول الله ﷺ کی جماعت تھی؟؟؟
وہ اصل دینِ اسلام کہاں چلا گیا جس کو رسول الله ﷺ لائے تھے؟؟؟
دینِ مصطفوی اور امّۃِ مصطفوی کی جگہ ان باہم متحارب و متصادم باطل و گمراہ فرقوں نے کس طرح لے لی، حیران و پریشان ہو کر سوچوں میں کھویا ہوا ہوں، ہم مسلمان کیا تھے! اب کیا رہ گئے ! الله و رسول ﷺ کو بھول گئے! جن فرقوں سے قرآن و سنة میں سختی کے ساتھ منع فرما دیا گیا تھا، آج ہم نے ان باطل فرقوں کو ہی اپنا دین و ایمان کیونکر اور کس بناء پر بنا لیا اور عملاً قبول و تسلیم کر لیا ہوا ہے!؟ اپنے اوپر رحم کیجیئے، اپنی خاطر ہی کچھ سوچیئے اپنی جانوں کو جہنّم کا ایندھن مت بنایئے
آج ہم بریلوی، دیوبندی، وہابی، اہلحدیث، سلفی، جماعتی، اسراری، عثمانی، مسعودی، توحیدی، رضوی، تبلیغی، عطاری، حیاتی اور مماتی، طاہری وغیرہ پہلے ہیں اور مسلمان بعد میں ہیں۔ ترجیحات بدل گئی ہیں اب ہم اپنے خالقِ و حقیقی مالک الله سبحانه و تعالٰی، رسول الله صلَّی الله علیہ و اٰلہ و سلَّم (قرآن و سنّة اور اسوۃ حسنة) کی اطاعت و اتباع کو عملاً ثانوی اور اپنے اپنے من پسند و من گھڑت فرقوں، مسالک، مشارب، فقہی مذاہب وغیرہ کی پیروی کو اوّلین حیثیت دینے لگے ہیں۔ کیا یہ رویّے ایمان اور دینِ اسلام سے ہمارے تعلق و وابستگی کی نفی کرنے کےلیے کافی نہیں ہیں؟
اللہ کرے کہ وہ دن جلدی آئے جب ہمارے مدارس و مساجد، مسندیں اور خانقاہیں، منبر و محراب سمیت سارے دینی ادارے اور طبقات اپنے اوپر سے فرقه پرستی کا لیبل اتار پھینکیں اور مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی، اخوّۃِ اسلامی، مساواتِ انسانی اور امّۃ واحدہ کے داعی اور علمبردار بن کر ابھریں۔ اپنے اپنے فرقوں سے بالا تر ہو کر مسلمانوں کے وسیع تر او بہترین مفاد میں اصل دینِ اسلام (قرآن و سنّة، صحیح و متفق علیہ احادیث مبارکہ اور اسوۃ حسنة) کی اطاعت و اتباع اور پیروی پر متفق و متحد ہو جائیں تاکہ مقاصدِ دیں کی تکمیل اور منزل کے حصول و تحفظ کی مسدود راہیں کھل سکیں۔ِ آمین!
مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی رہنماؤں اورمسلم حکمرانوں کےکام (فرض منصبی) کا لازمی تقاضہ تو صرف یہ ہے کہ وہ اخلاص قلبی اور صدق نیت کے ساتھ، قرآن وسنة کے مقصودِ اصلی، حقیقی پیغام و تعلیمات اور احکامات، حقوق الله اور حقوق العباد، معارف و معانی، مطلوب و مقصود مقاصد دین، نظام سیاست و معیشت و معاشرت کو، اس کے مقصود اصلی ان کی حقیقی روح کے عین مطابق صحیح طور پر پہلے خود خوب اچھی طرح سمجھیں اور سیکھیں، کامل اطاعت و اتباع اور پیروی کا حق ادا کریں، تقویٰ اختیار کریں اور اس کے بعد پھر نبوی منہاج کے عین مطابق اور کسی بھی کمی و بیشی، تغیّر و تبدّل کے بغیر، خالصتاً قرآن، رسول الله صلَّی الله علیه و اٰله و سلّم کی سنّة و اسوۃحسنة کی اصل تعلیمات و احکامات کو دوسرے عام مسلمانوں تک پہنچائیں اور تعمیل کے ساتھ ساتھ اسی کی ترویج و تنفیذ اور اطاعت و اتباع کا درس دیں اور وعظ و نصیحت کریں اسی کی تبلیغ و اشاعت کریں اور اس میں کوئی کمی بیشی اور تبدیلی نہ کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ نہایت ایمانداری، دیانتداری اور فرض شناسی کے ساتھ سر انجام دینے لگیں ۔
مسلم علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راھنماؤں اورمسلم حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ذاتی اور ہر قسم کے بھی انسانی خیالات، بشری افکار و نظریات پر مبنی نظاموں کو بالائے طاق رکھ کر، فقط قرآن وسنۃ کی بالادستی اور غلبے کی سعیءِ جمیلہ کریں۔ خالصتاً قرآن و سنّۃ اور اسوۃحسنة کی تدریس وتعلیم، ترویج و تبلیغ، تنفیذ سمیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مقدس فریضہ دیانتداری و ایمانداری کے ساتھ سر انجام دیتے رھیں ۔
مسلم معاشرے کے افراد کو اجتماعی و انفرادی سطح پر قرآن و سنة، رسول الله صلَّی الله علیه و الله و سلّم کے اسوۃحسنة کی مکمّل اطاعت و اتباع اور پیروی کرنے پر مائل و آمادہ اور قائل و راغب کرنے، مسلم معاشرے کے افراد کی ہر سطح پر اصلاح کرنے، ان کو ہر قسم کی گمراہی، بے راہ روی اورقرآن وسنو کے احکامات کی نافرمانی اور انحراف سے روکنے، ممنوعات، فحشاء و منکرات میں مبتلا ھونے سے باز رکھنے، عام مسلمانوں کو باعمل، متقى و صالح مسلمان اورمعاشرے کا مفید فرد بنانے، قول و فعل کے تضادات، حرص وحوص، طمع و لالچ، بغض و عناد، کینہ پروری و عداوت، علاقائی، لسانی، گروھی، فرقہ وارانہ عصبیتوں اور تعصبات سمیت ھر قسم کے انتشار و افتراق، باہمی فسادات، سود خوری و حرام کاری، رشوت ستانی، فسق و فجور، بدعات، مذھبی منافرت، جھوٹ، بد عہدی، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی، نا جائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی، غیر اسلامی رسومات و روائج سمیت تمام رزائل اور صغیرہ و کبیرہ گناھوں سے بچتے رہنے کی وعظ و نصیحت، تلقین و تاکید کرتے رہنے اور امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی، امن و استحکام، خوشحالی اور فلاح و ترقی کے لئے مخلصانہ، با مقصد اور نتیجہ خیز جدّو جہد کرتے رہنا بھی مسلم علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راھنماؤں اورمسلم حکمرانوں کے فرائض منصبی میں سرفہرست ھے۔ انہی کی اھم ذمہ داری ہے کہ امت مسلمہ کے افراد کو دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز، نیچرل سائنسز، ہیلتھ سائنسز، ڈیفنس سائنسز، صنعت و حرفت، انجینئرنگ و جدید ٹیکنولوجیز سمیت عصری علوم و فنون کی معیاری و اعلیٰ تعلیم و عملی تربیت کے حصول، تحقیقات و ایجادات کیلئے ضروری سہولیات و وسائل اور ترغیبات فراھم کریں تاکہ دیگر اقوام عالم کے مقابلے میں ہر اعتبار سے، مسلم امّہ زیادہ مضبوط و مستحکم، متحد و منظم، خوشحال و ترقّی یافتہ ھو اور دنیا میں الله سبحانه و تعالٰی اور رسول الله صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے دین کو غالب و سربلند کر سکے۔
ہر ایک سطح پر قرآن و سنة کے علمی نفاذ اور دین اسلام کے غلبے و سربلندی کی ہر ممکن کوشش کرنا، امتِ مسلمہ کو (جو کہ جسد واحد کی طرح، امتِ واحدہ ہے) متحد، مربوط و منظم رکھنے اور ہر قسم کے تفرقے اور انتشار و افتراق، بد امنى، عدم استحکام سے بچانے کی حتی المقدور اور مخلصانہ جدوجہد کرتے رھنا اور غیر مسلموں پر اسلام کی حقانیت ثابت کر کے احسن طریقوں سے ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا بھی مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں، دینی قائدین و راہ نماؤں اور مسلم حکمرانوں کی اصل، اولین اور سب سے اھم ذمہ داری اور منصبی فریضہ ہے۔
مگر افسوس کہ مشاھداتی طور پر درپیش اصل صورتحال، زمینی حقائق کو دیکھیں تو برصغیر کے اکثر و بیشتر مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی قائدین و مسلمان سیاسی راھنماؤں اور حکمرانوں کا کردار مایوس کن، اصل ذمہ داریوں اور فرائض منصبی کے تقاضوں کے بالکل منافی و برعکس نظرآتا ہے اور ان سب کی مجرمانہ غفلت صاف عیاں ہے الله تعالٰی ہر کلمہ گو کو قرآن و سنة اور اسوة حسنة کو سمجھنے اور اس پر عمل کر کے متقی س صالح مسلم و مؤمن بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا ارحم الراحمین
No comments:
Post a Comment