Wednesday, 26 August 2015

اسوۃ حسنۃﷺ کی روشنی میں (عصرِ حاضر میں) تبلیغ ِدین

اسوۃ حسنۃﷺ کی روشنی میں (عصرِ حاضر میں) تبلیغ ِدین
تحریر:ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں

دراصل قرآن و سنّۃ ہی وہ بنیادی اصول ہے جو حیاتِ انسانی کے تمام پہلوؤں کو دائمی تابناکی عطا کرتا ہے ۔شادی ہو یا غمی ،لین دین ہو یا سماجی عہد وپیمان ،انفاق فی سبیل اللہ ہو یا حرمت سود وحلت بیع ،اصول جنگ ہو یا ترغیب امن ،طریقہ تبلیغ ہو یا تحریکوں کے طور طریقے ،بہترین اوصاف کی ترغیب ہو یا برے اخلاق سے پرہیز ۔الغرض حیات انسانی کے تمام شعبوں کی بہتر رہنمائی قرآن وسنت ہی کے ذریعے ممکن ہے ۔ایسے ہی دین اسلام کا ایک شعبہ تبلیغ دین کا ہے ۔اور یہ ایسا فریضہ ہے جو سب انبیاءورسل نے سرانجام دیاہے ۔کیونکہ معاشرے کو برائیوں سے پاک رکھنا، چاہے وہ انفرادی یااجتماعی برائی ہو، ضروری ہوتا ہے اس لیے دین اسلام اس کو آغاز ہی میں ختم کرنے کا طلب گار ہے ۔کیونکہ اسلامی معاشرہ خیر وفلاح کے بنیادی اصول پر قائم ہے لہذا جو عمل اسے نقصان پہنچائے اس کا مٹانا دینا ضروری ہوجاتا ہے ۔
اس امت کا ہر انسان چاہے وہ دینی علم رکھتا ہو یا دنیاوی ،وہ اس فریضے کی انجام دہی کا مکلف ہے ، اس فریضے میں کوتاہی مسلمانوں کو عملی طور پر کھوکھلا کر دیتی ہے اور غیر مسلموں کو نعمت اسلام سے محروم رکھنے کا سبب بنتی ہے ۔تبلیغ دین میں مخاظب دو قسم کے ہوتے ہیں مسلم اور غیر مسلم۔مسلمان کو صحیح مسلمان بنانے کے لیے کام کیا جاتا ہے جب کہ غیر مسلموں تک بھرپور انداز میں دین کی دعوت پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے ،اور تبلیغ میں یہ دونوں کام بیک وقت ساتھ ساتھ ہونے چاہیئے۔ قرآ ن حکیم واسوہ حسنہ ﷺ کی روشنی میں جائزہ پیش خدمت ہے ۔
تبلیغ کے لغوی واصطلاحی معنٰی:
تبلیغ کا لفظی معنٰی اور مفہوم پہچاننا ہے اور اصطلاحی معنٰی کتب لغت میں یہ ذکر کیا گیا ہے
شستہ بیان ہونا ،فصیح وبلیغ ہونا،اور اس کی جمع بلغاءہے (۱)
ایک اور ماہر قرآنیات نے تبلیغ کے معنی یہ بتائے ہیں کہ
کسی شئی کا اتنا کافی ہونا کہ انسان اس کے ذریعے اپنے مقصد کی انتہاءکو پہنچ جائے اور اسے کسی اور ذریعے اور سامان کی ضرورت نہ رہے (۲)
 تبلیغ ایک مقدس فریضہ
تبلیغ ایک مقدس فریضہ ہے جس کا مقصد صداقت وحقانیت کو پھیلانا ہے اسی طرح ایک سیرت نگارعمل تبلیغ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ”تبلیغ ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی نصب العین کی طرف اخلاص سے بلایا جاتا ہے ،اس نصب العین سے اختلاف وانحراف کے نقصانات وخطرات سے ڈرایا جاتا ہے اور غفلت ونسیان کے پردوں کو چاک کرکے اصلا نصب العین کو یاد دلانے کے لیے نصیحت کی جاتی ہے ۔اس سے بھی وسیع مفہوم میں تبلیغ کسی مذہب کا ایسا پرچار ہے ،جس کا مقصد لوگوں کو حلقہ مذہب میں شامل کرنا ہو ۔دنیا کے تمام بڑے مذاہب اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا پورا نظام رکھتے ہیں ۔اسی نظام کی بدولت علماءنے مذاہب کو تبلیغی وغیر تبلیغی میں تقسیم کیا ہے “(۳)
قرآن حکیم نے کسی بھی قوم یا فرد کو تبلیغ دین کرنے کے انداز کوانتہائی حسین اور دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے جو انتہائی اعلی درجے کا اعلی ظرفی اور کمال محبت کی دلیل ہے اور جو آپ کے طریقہ تبلیغ پر بہترین روشنی ڈالتی نظر آتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِہٖ وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۝۱۲۵ (125/16)
ترجمہ: بلاتے رہو آپ اپنے رب کی راہ کی طرف، دانش مندی اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور (بوقت ضرورت) ان سے بحث کرو اس طریقے کے ساتھ جو کہ سب سے اچھا ہو، ف ۲ بیشک آپ کا رب خوب جانتا ہے اس شخص کو بھی جو بھٹکا ہوا ہے اس (اللہ) کی راہ سے، اور وہی خوب جانتا ہے ان سب کو بھی جو سیدھی راہ پر ہیں۔ (4) پیر کرم شاہ الازہری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ”ایک نادان اور غیرتربیت یافتہ مبلغ اپنی دعوت کے لیے اس دعوت کے دشمنوں سے بھی زیادہ ضرر رساں ہو سکتا ہے ،اگر اس کے پیش کئے ہوئے دلائل بودے اور کمزور ہونگے ،اگر اس کا انداز خطابت درشت اور معاندانہ ہوگا ،اگر اس کی تبلغ اخلاص اور للہیت کے نور سے محروم ہوگی، تو وہ اپنے سامعین کو اپنی دعوت سے متنفر کرے گا۔ کیونکہ اسلام کی نشرواشاعت کا انحصار تبلیغ اور فقط تبلیغ پر ہے ،اس کو قبول کرنے کے لیے نہ کوئی رشوت پیش کی جاتی ہے اور نہ جبر واکراہ سے کام لیا جاتا ہے ،بلکہ اللہ تعالی کے نزدیک وہ ایمان،ایمان ہی نہیں جس کے پس پردہ کوئی دنیاوی لالچ یا خوف وہراس ہو ،اس لیے اللہ تعالی نے خود اپنے محبوب مکرم کو دعوت اسلامی کے آداب کی تعلیم دی اس آیت کا ایک ایک لفظ غور طلب ہے ،دین اسلام کو ”سبیل ربک “کے عنوان سے تعبیر کرکے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ یہ دعوت کسی سیاسی جتہہ بندی کے لیے ،کسی معاشی گروہ سازی کے لیے نہیں دی جارہی بلکہ اس راستے کی طرف بلایا جارہا ہے جو بندے کو اپنے مالک حقیقی کی طرف لے جاتا ہے ،جو دوری اور بیگانگی کی صحراؤں سے نکال کر قرب ولطف کی منزل کی طرف پہنچانے والاہے ،اس جادہ منزل حبیب سے دور بھاگنے والوں کو قریب لانے کے آداب بتائے جارہے ہیں ۔حکمت ،موعظت حسنہ اور پسندیدہ انداز سے مجادلہ ،ان تین چیزوں کے التزام کا حکم فرمایا گیا۔ حکمت سے مراد وہ پختہ دلائل ہیں جو حق کو روز روشن کی طرح عیاں کردیں، اور شک وشبہ کی تاریکیوں کو نور یقین سے بدل دینے کی قوت رکھتے ہوں ۔ھو الدلیل الموضح للحق المزیح للشبہات،موعظت حسنہ اس پند ونصیحت کو کہتے ہیں جو خیر وفلاح کی یاد دہانی اس اسلوب سے کرائے کہ پتھر دل بھی موم ہوجائیں (۵)
اسی طرح اس آیت مبارکہ پر علامہ سید سلیمان ندوی بھی بڑی دلنشین روشنی ڈالتے ہیں اور اس آیت قرآنی سے تبلیغ اور دعورت دین کے تین اصول واضح کرتے ہیں سید سلیمان ندوی کے بقول "تبلیغ ودعوت کے یہ تین اصول اللہ تعالی نے آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو سکھائے ہیں ،علم وحکمت،موعظ حسنہ اور مناظرہ بطریق احسن،سلمان متکلمین نے یہ بیان کیا ہے کہ تبلیغ ودعوت کے یہ تین اصول وہی ہیں جو منطقی استدلال میں عموما کام میں لائے جاتے ہیں۔ یعنی ایک تو برہانیات جن میں یقینی مقدمات کے ذریعے سے دعوی کے ثبوت پر دلیلیں لائی جاتی ہیں ۔دوسرے خطابیات جن میں مؤثر اور دل پذیر اقوال سے مقصود کو ثابت کیا جاتا ہے ۔اور تیسرے جدلیات جن میں مقبول عام اقوال اور فریقین کے مسلم مقدمات سے استدالال کیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک نے پہلے طریق کو حکمت ،دوسرے کو موعظة الحسنہ اور تیسرے کو جدال سے تعبیر کیا ۔اور استدلال کے یہی وہ تین طریقے ہیں جن سے ایک شخص دوسرے کے سامنے اپنے مدعا کو ثابت کرتا ہے دعوت وتبلیغ کے یہی تین طریقے ہیں" (۶)
اب مفسرین نے حکمت سے کیا مراد لیا تو اس میں رائے مختلف ہے۔ بعض نے حکمت سے مراد قرآن کریم ،بعض نے قرآن وسنت اور بعض نے حجت قطعیہ کو قرار دیا ہے۔ اور مشہور مفسر قرآن ابو حیان حکمت کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں:
انھا الکلام الصواب الواقع من النفس اجمل موقع (۷)
حکمت اس درست کلام کانام ہے جو انسان کے دل میں اتر جائے
تبلیغ دین اور انبیا ءعلیہم الصلاة والسلام کا کردار:
 تبلیغ دین کے تناظرمیں انبیاءکرام علہم الصلاة والسلام وہ بابرکت شخصیات گزری ہیںجو انسانی تاریخ میں تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز ومحور رہی ہیں ۔کرہ ارض پر جہاں کہیں بھی سچائی اور نیکی کی کوئی کرن نظر آتی ہے تواس کا باعث یہی نورانی شخصیات اور ہستیاں ہیں ۔ انبیاءکرام علیہم الصلاة والسلام کی اسی رتبے اور منصب سے متعلق علامہ سید سلیمان ندوی تحریر فرماتے ہیں:
دعوت وتبلیغ نبی کا سب سے پہلا اور اہم فرض ہے ،یعنی جو سچائی اسے خدا سے ملی اس کو دوسروں تک پہنچا دینا ،جو علم اس کو عطا ہوا ہے اس کو اوروں تک پہنچادینا ،خدا کا پیغام جو اس تک پہنچا ہے وہ لوگوں کو سنا دینا ،اس دعوت وتبلیغ میں جو تکلیف بھی پیش آئے اس کو راحت جاننا ،جو مصیبت بھی درپیش ہو اس کو آرام سمجھنا ،جو کانٹے بھی اس وادی میں اس تلوے میں چھبیں انہیں رگ گل سمجھتا (۸)
سیرت نگاروں میں سے ایک اور سیرت نگار انبیا کرام علیہ الصلاة والسلام کے تبلیغی انداز اور کردار کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ
کل انبیا علیہ الصلاة والسلام نے ہمیشہ تبلیغ دین میں انتہائی حکمت،تدبر اور غور وفکر سے کام لیا ہے تاکہ مخاطب کو بات سمجھنے میں کوئی تامل اور دشواری کا سامنا نہ ہو ۔اور اس ساری کوشش کا مقصد”خدا تعالی کی رضامندی ،مخلوق کی خیر خواہی اور اپنے فرائض رسالت کی آدائیگی کے سوا کچھ نہ ہو (۹)
 اس مختصر سی تمہید کے بعد اب کچھ انبیاءکے حالات اور تبلیغ دین سے متعلق حالات پر نظر کرتے ہیں ۔ ویسے انبیا ءکرام علیہ الصلاة والسلام کا سلسلہ تو انتہائی طویل ہیں لیکن یہاں خاص حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت موسی علیہ السلام ،اور سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبلیغی زندگی،مشکلات اور انداز تبلیغ اور حالات پر مختصر سی روشنی ڈالیں گے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تبلیغ دین:
 خالق کائنات نے جب اپنے خلیل اور اوالعزم پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو انسانی معاشرے کی رہنمائی کافریضہ سپرد کیا کہ وہ انسانی معاشرے کی تقسیم طبقات کو یکجا کریں اور انسانی معاشرے کے ارتقاءکو لاحق خطرات کا سد باب ممکن بنائیں، جو آپ نے احسن طریقے سے انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے آ پ علیہ الصلاة والسلام کوقیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ” اِمام النّاس “ کے خطاب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سر فراز کردیا ارشاد قرآنی ہے:
"اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۝۰ۭ" (2/124) ترجمہ: میں تجھے نوعِ انسانی کا امام بناؤں گا (10)
اور پھر حضرت سیدناابراہیم علیہ الصلاةوالسلام نے اپنی شب وروز کی منفرد جدوجہد اور محنت کی بنیاد پرایک ایسی عالمگیر تحریک کا آغاز کیا جوآہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے انسانی معاشرے میں فکری اور نظریاتی انقلاب پیدا کرنے کا سبب بنی ۔اور اسی انقلابی بنیادی سوچ وفکر نے معاشرے کے بکھرے ہوئے طبقات میں اتحاد واتفاق،الفت،اجتماعیت اور اپنائیت کے احساس کو بیدار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلاة والسلام کو مذاہب کی کتابوں میں کو انسانی تحریک یعنی اقوام کا رہنما اور سرخیل قرار دیاگیاہے ۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلاة و السلام سے متعلق بائبل کے عہد نامہ قدیم میں یہ تحریر ملتی ہے کہ:
 ” تب ابرام سرنگوں ہوگیا اور خدا نے اس سے ہم کلام ہوکر فرمایا کہ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہوگا اور تیرانام پھر ابرام نہیں کہلائے گا بلکہ تیرانام ابراھام ہوگا کیونکہ میں نے تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرادیا ہے “(۱۱)
سیدناحضرت ابراہیم علیہ الصلاة والتسلیم سلسلہ انبیاءکرام میں وہ اولوالعزم اور بلند پایہ نبی گزرے ہیں جنہوں نے انسانی معاشرے کو برائیوں اور خباثتوں سے پاک کرنے کے لیے ایسے فطری اصولِ وقوانین وضع کئے جو بعد میں آنے والے انبیاءکرام کی شریعتوں کے لئے اصل اور بنیاد کا کام دیتے رہے ۔ حضرت ابراہیم کے قائم کردہ اصول کی روشنی میں جو ملّت نمودار ہوئی اسے مذاہب عالم کی تاریخ میں ملّت ابراہیمیہ اور ان اصولوں کو دین حنیف کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
حضرت موسی علیہ السلام اور تبلیغ دین:
 اسی طرح سلسلہ انبیا ءعلیہ السلام میں ایک اور جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام سیٰ علیہ بھی گذرے ہیں جنہوں نے اپنے تبلیغ کے ذریعے سماجی طبقات کے حقوق کی آدائیگی کے لیے اور آمریت کے خلاف جدوجہد کرکے انسانی معاشرے کے مظلوم ومجبور افراد کے لئے آواز اٹھائی، اور انہیں ظالموں کے جبر وتشدد سے رہائی دلائی، افراد انسانی کو حریت کا احساس دلایا۔اور آپ کی وہ فکری تبلیغ رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے سیاسی واقتصادی جبروآمریت کے خلاف جدوجہد کی لازوال مثال بن گئی ۔
جب حضرت موسی علیہ السلام تبلیغ دین کے لیے فرعون کے پاس گئے جو کہ خدائی کا دعویدار تھا ،جو دشمن خدا تھا، تو حضرت موسی علیہ السلام کو ارشاد تھا جو قرآن حکیم میں اس انداز سے ذکر ہے
فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّہٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى۝۴۴  (20/44) ترجمہ: اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔(12)
اس ہدایت کے بعد کسی بھی مبلغ کے لیے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ تبلیغ دین کے سلسلے میں سختی ترش روئی سے کام لیں اس لیے کہ انکار اور رسرکشی وہ فرعون سے بڑھ کر کوئی نہیں تھا مگر پھر بھی بات کرنے کے لیے نرمی کا حکم دیا گیا ۔ انبیاءکی اس جدوجہد کا یہ سلسلہ چلتا رہا ،بالاخر اس دور کی تکمیل کی ذمہ داری محسن انسانیت محمد رسول اللہﷺ کے حصے میں آئی۔
تبلیغ دین اور اسوہ حسنہ ﷺ کی حکمت علمی:
حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت معاشرتی حالت زار یہ تھی کہ انسانی دنیاقیادت سے محروم ہوچکی تھی، جس کی بناءپر انسانی معاشرہ میںسماجی،علمی،تبلیغی ودعوتی سرگرمیاں ماند پڑچکی تھی،قومیں ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹ منتشر الخیال بن گئی تھی ،عالمی معاشرے کا تصور تک نہ تھا ،ہر قوم اپنے دائرے میں فرسودگی کی وجہ سے سسک رہی تھی۔علامہ سندھی اس وقت کی منظر کشی یوں کرتے ہیں:
مختلف قومیں اور تمدن آپس میں گھتم گتھا ہو رہے تھے ،اور ہر قوم اپنے آپ کو کافی با لذات اور مستغنی عن الغیر سمجھتی تھی۔ عیسائی کہتے تھے کہ جو عیسائی نہیں وہ انسان نہیں ہے،اسی طرح یہودیوں نے اپنے آپ کو سب سے جدا کر لیا تھا۔ ایرانی اپنی جگہ مگن تھے ۔اور ہندوستان والوں نے تو سمندر پار دیکھنا تک ادھرم بنا رکھا تھا ۔اس وقت دنیا کی یہ حالت تھی کہ جیسے چھوٹے چھوٹے گھڑوں میں پانی رک گیا ہو،ایک گڑھا دوسرے سے جدا ہو اور سب الگ الگ سڑ رہے ہوں “(13)
ان حالات میںقدرت خداوندی نے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمام انسانوں کو اُن ناپاک گھڑوں سے نکالنے کے لیے اور مل کر انسانیت کوہدایت سے روشناس کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ۔تاکہ جو انسانیت کے لیے اچھے کاموں پر شاباش اور برے کاموں پر انجام بد سے ڈرائیں ۔کیونکہ آپ کی بعثت کا اصل مقصد یہی تھا اسی مضمون سے متعلق قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے:
وما ارسلنٰک الا کافۃ للناس بشیراً و نذیراً (34/28)
اور (اے محمد) نہیں بھیجا ہم نے تم کو مگر تمام انسانوں کی طرف بشارت دینے والا متنبہ کرنے والا بنا کر۔
اورہم نے آپ کو جمیع انسانیت کے لیے مبعوث کیا کہ آپ ان کو خوشخبری دے اور ڈرائیں
اورآپ کے منصب کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے مزید تائید کے لیے ایک اور مقام پر کل انسانیت کی طرف آپ کی بعثت کے متعلق ارشاد قرآنی ہے:
قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً (7/58)
(اے محمدﷺ) کہہ دو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔
اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے عالمگیر بعثت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:
وکان نبی یبعث الیٰ قومہ خاصة وبعثت الی الناس عامة (16)
 مجھ سے پہلے ہر نبی اپنی ایک مخصوص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا لیکن میں تمام عالم انسانیت کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں
بعثت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل تبلیغ دین کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ،اور کوئی معاملہ آپ کو دوسرے معاملے سے غافل نہیں کر سکتا تھا۔ یہاں تک کہ تبلیغ دین اتنے بڑے پیمانے پر کامیاب ہوئی کہ عقلیں دنگ رہ گئی، اور سارے کا سارا جزیرة العرب آپ کا فرمانبردار اور تابعدار بن گیا۔ وہ قومیں جو ایک دوسرے کو زیر نہیں کر سکتی، جو اپنے اپنے سرداری پرڈٹی ہوئی تھی بالاخر آپ کے دعوت پر وہ آپس میں شیر وشکر ہوگئے اور ”بکھری ہوئی قومیں اور قبیلے ایک ہوگئے،انسان بندوں کی بندگی سے نکل کر اللہ کی بندگی میں داخل ہوگیا ،اب نہ کوئی قاہر ہے نہ کوئی مقہور ،نہ مالک ہے نہ مملوک ،نہ حاکم ہے نہ محکوم ،نہ ظالم ہے نہ مظلوم ،بلکہ سارے لوگ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی ہیں ،ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ کے احکام بجا لاتے ہیں “(17)
رحمت اللعالمین ﷺکا انداز تبلیغ اور مشکلات:
 یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ جس پر جتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اسی قدر وسعتوں کا مالک بھی ہوتا ہے،اور رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ساری انسانی دنیا کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے لہذا اسی قدر جذبہ رحمت کے آپ رودار تھے، آپ نے منصب سنبھالنے کے بعدپیغام خداوندی کی تبلیغ میں طرح طرح کی مشقتیں اور مصیبتیں برداشت کیں، مگر زبان مبارک سے کسی قسم کا شکوہ تک نہ کیا، نہ کسی سے انتقام لیا، نہ ہی کسی پر غصہ ہوئے اور نہ ان کو برابھلا کہا ۔حالانکہ رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اذیتوں سے دوچار کیا گیا، مگر آپ نے صبر وتحمل ،برداشت وبردباری،عزم واستقلال کو ہاتھ سے جانے نہ دیا، اور آپ ﷺ نے ہرلمحہ انسان اور انسانیت کو مدنظر رکھا۔ سفر طائف (جو تقریبا سیرت طیبہ کے تمام کتب میں موجود ہے) جو کہ خالص دعوت وتبلیغ کا سفر تھا جب آپ کو تبلیغ ودعوت دین دینے کی وجہ سے طائف کے اوباشوں اور لونڈوں نے پتھر مارمار کر لہولہان کردیا، اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخموں سے چور ان اوباشوں کے نظروں سے اوجھل ہوکرایک باغ پہنچے، تو آپ کی زبان مبارک پر ان اوباشوں کے خلاف بدعا کے لیے ایک لفظ تک نہیں آیا،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ خداوندی میں دعا کے لئے یوں ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔
اللہم الیک اشکوا ضعف قوتی وہوانی علی الناس یاارحم الراحمین انت رب المستضعفین وانت ربی الی من تکلنی الی بعید یتجھمنی اوالی عدو ملکتہ امری ان لم یکن بک غضب علی فلا ابالی ولکن عافیتک ہی اوسع لی اعوذ بنور وجھک الذی اشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ امرالدنیا والاخرة من ان تنزل بی غضبک اوتحل علی سختطک لک العتبی حتی ترضی ولاحول ولاقوة الابک (18)
یااﷲ میں تیری بارگاہ میں اپنی ناتوانی اور بے بضاعتی لوگوں کے ہاں بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں، اے سب رحم رنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے ،تو کمزوروں کا رب ہے، اور میرا بھی رب ہے، تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے ،تو مجھے کسی اجنبی غیر آشنا کے جو مجھ سے ترش روئی کرتا ہے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملہ کا مالک بنادیا ہے، اگر یہ مجھ پر ناراضی کی وجہ سے نہیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں، مگر تیری عافیت اور مہربانی میرے لئے زیادہ وسیع ہے۔ میں تیرے چہرے کے نور کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں جس سے تمام اندھیرے دور ہوگئے، اور دنیا اور آخرت کے سارے معاملے درست ہوگئے، اس بات سے کہ تو مجھ پر غضب نازل کرتا ہے یا اپنا غصہ اتارے، اورتجھے مجھ سے مواخذہ کرنے کا حق ہے یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے ۔ گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت صرف تیری رضا سے ہے
جب سرکار دوعالم ﷺ پر پتھروں کی بارش ہوئی اورآپ کے نعلین مبارک خون سے تر ہوگئے تو رحمت خداوندی جوش میں آئی اوراﷲ تعالیٰ نے جبرائیل امین کو بھیجاکہ اپنے محبوب کی دل جوئی کرے ،جبرائیل امین نے کہا :یا رسول اﷲ: آپ کے رب نے پہاڑوں کے فرشتے کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے جو آپ کے ہرحکم کی تعمیل کرینگے ۔اس طرح پہاڑوں کے فرشتے نے آپ سے عرض کرکے پوچھا کہ اگر آپ حکم دیں تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملادیں اور اس بستی کو ہلاک کردیں ۔ مگرآپ ﷺنے جواب میں کیا خوبصرت جملہ ارشاد فرمایا۔ ملاحظہ ہوں:
 بل ارجو ان یخرج اﷲ عزوجل من اصلابھم من یعبداﷲ عزوجل ولایشرک“(19)
مجھے امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اﷲ کی عبادت کرے گی اور شرک نہیں کرے گی
 اسی طرح غزوات میں سے ایک غزوہ، غزوہ احد میں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ شریک تھے،دوران جنگ ایک دشمن دین جب آپ پر حملہ آور ہوئے اور آپ کو زخمی کر دیا، اس دوران آپ کے دندان مبارک بھی شہید ہوگئے ۔تو اس شدید اذیت اور تکلیف کے وقت بھی رحمة اللعالمینﷺ اپنے دشمن کے حق میںاس طرح ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں :
اللھم اغفر لقومی فانہم لا یعلمون ( 20)
اللہ میری قوم کو معاف فرمادیں کہ یہ نہیں جانتے
رحمة اللعالمین ﷺکاانداز تبلیغ:
 رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاخاص کمال یہ تھا کہ آپ جب دعوت دیتے، چاہے وہ انفرادی سطح کا ہو یا مجمع کی شکل میں ، آپ کا انداز بیاں انتہائی سادہ، سلیس ، صاف اور دلکش ہوتا ہے، تاکہ سامنے والے کے دل میں آپ کی بات اتر جائے،اور مخاطب کو متکلم کا مافی الضمیر کو سمجھنے میں کوئی دشواری کا سامنا نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انتہائی شیریں کلام تھے آپ کی شیریں کلامی کے حوالے سے اُم معبدکا یہ قول کچھ اس طرح سے ملتا ہے ۔
حلوا المنطق،فصل،لا نزر و لاھذر،کان منطقہ خزرات نظمن،وکان جھیر الصوت احسن النغمة (21)
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم شیریں زبان تھے،آپ ﷺ ہر بات واضح بیان فرماتے،آپ ﷺ نہ قلیل الکلام تھے، نہ کثیر الکلام،آپ ﷺ کی گفتگو ایک لڑی میں پروئے گئے موتیوں کی مانند تھی،آپ ﷺ کی آواز بلند تھی اور اس میں خوبصورت نغمگی پائی جاتی تھی
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فصاحت و بلاغت شاہکار تھی،اور جب آپ بات کرتے ،تو گویا سامع کو وہ حفظ ہو رہی ہوتی۔ ام المومنین حضرت صدیقہ ؓ سے اس بارے میں روایت ہے :
ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یسرد سرد کم ھذا،ولکنہ کان یتکلم بکلام یبینہ فصل،یحفظہ من جلس الیہ (۲۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ با لکل صاف صاف کلام کرتے تھے ،جو واضح اور دوسرے سے ممتاز ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس بیٹھنے والا اچھی طرح اسے ذہن نشین کر لیتا تھا
رسول اکرم صلی ا للہ علےہ والہ وسلم تبلیغی سرگرمیوں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے کہ جب آپ ﷺ کے پاس عرب کے مختلف قبائل اور وفود ملاقات کے لئے آتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ” ہر قبیلے سے اُسی کی زبان اور محاروں میں گفتگو فرماتے تھے۔آپ میں بدویوں کا زور بیان اور قوتِ تخاطب اور شہریوں کی شستگی الفاظ اور شفتگی وشائستگی جمع تھیں اور وحی پر مبنی تائید ربانی الگ سےموجود تھی۔(23)
 تبلیغی ذمہ داری اورامت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالم کے کل انسانوں کے لئے قیامت تک ہدایت و رہنمائی کا سر چشمہ قرار دئیے گئے ہیں۔اور یہ نرالا فضیلت تمام انبیاءکرام علیہ الصلاة والسلام میں آپ ہی کو حاصل ہے ۔آپ کی اسی شعف وفضیلت کی بدولت آپ کی امت کو افضل الامم اور آخر الامم قرار دیا جس کی بناءآپ کی تمام ذمہ داریاں امت کو بطور میراث کے حاصل ہے۔ان ہی میں ایک ذمہ داری تبلیغ دین کی ہے ۔جس کے بارے میںقرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے: كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ (3/110)
ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہو تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔ (24)
 اس آیت کے ضمن میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک اثر ملاحظہ فرمائیں جو اس آیت کی دلنشین تشریح بھی ہے:
حدثنا ابو ھریرہ کنتم خیر امة اخرجت للناس قال خیر الناس للناس تاتون بھم فی السلا سل فی اعناقھم حتی ید خلوا فی الاسلام“(25)
ابوہریرہؓ نے آیت” تم لوگ بہترین جماعت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہو“کہ متعلق فرمایا: کہ کچھ لوگ دوسروں کے لئے نفع بخش ہیں کہ انہیں زنجیروں میں باندھ کر لاتے ہیں،اور بالاخر وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں
اسی طرح ایک روایت جس کے راوی بہزبن حکیم ہیں

"انّہ سمِع رسول اللہ ﷺ یقول فی قولہ تعالٰ کنتم خیر امة اخرجت للناس قال انتم تتمون سبعین امة انتم خیرھا واکرمہا علی اللہ تعالٰی"(26)
رسول اللہ ﷺکو خدا تعالیٰ کے ارشاد " کنتم خیر امة اخرجت للناس" یعنی تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے ظاہر کی گئی ہو، کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم ستر امتوں کو پورا کرتے ہو(یعنی تم نے امتوں کی تعداد کو پورا ستر کر دیا ہے) اللہ تعالی کے ہاں، تم ان سب امتوں سے بہتر و گرامی قدر ہو-
عصر حاضر اور تبلیغ دین:
انبیائے کرام علیہ الصلاة والسلام نے تبلیغ دین کے کام کو کسی ایک طریقے میں ضم نہیں کیا بلکہ جس کو جس طریقے سے اپنے مافی الضمیر کے اظہار کو آگے پہنچانے میں آسانی ہوئی اس کو اختیارکیا اور دوسروں کو اختیار کرنے کی دعوت دی ۔دنیا علم وفن میں ترقی کر گیا ہے اس اعتبار سے تبلیغ کے طور طریقے بھی بدل گئے ۔ابتدائے اسلام میں جب لکھنے پڑھنے کا فن وجود میں نہیں آیاتھا تو انبیاءکرام علیہ الصلاة والسلام کی تبلیغ زبانی ہوا کرتے تھی ۔نیکی ،سچائی ،امانت کے بارے میں لوگوں کو تلقین کیا کرتے اور وہ ان کو یاد کر لیا کرتے، جو نسل در نسل آگے منتقل ہوتا ۔لیکن جب کچھ تبدیلی آئی اور تحریر کا فن ایجاد ہوا اور آگے پہنچانے اور پیغام کو محفوظ کرنے کے طریقے وجود میں آئے تو انبیاءکرام نے اس طریقے کو اختیار کیا ۔
آج کے جدید دور میں الیکٹرانک ،پرنٹ میڈیااور انٹرنیٹ کی دنیا نے تبلیغ کے کام کو مزید سہل بنادیا ۔ایک تقریر دنیا کے ایک کونے سے نکل دوسرے کونے میں سیکنڈوں میںپہنچ جاتا ہے، مشکل سے مشکل باتیں عوام وخواص کے ذہنوں میں معمولی محنت سے ذہن نشین ہوجاتی ہے۔آج کی ان تمام ایجادات نے دنیا کے طویل در طویل فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔اور تبلیغ دین کے سلسلے میں ان ذرائع سے فائدہ اٹھانا آج وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
اس کے علاوہ بھی رسول ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم دیگر ذرائع کو بھی تبلیغ دین کے لیے استعمال لائے مثلا مکہ اور طائف کے سرداروں سے ملنا اور ان کو تبلیغ دین کی نصیحت کرنا ۔زمانہ حج میں قبائل کے سرداروں سے ملنا جو مکہ آکر ٹھر جایاکرتے تھے ،عرب کے میلوں میں جانا اور وہاں مختلف الخیال لوگوں کو تبلیغ کرنا ۔اس کے روساءعرب کو خطوط اور وفود بھیجنا بھی اس میں شامل ہے جیسے کہ حضرت محمد بن عمر الاسلمی کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کے پہلے تین سال خفیہ دعوت میں گزارے ،چوتھے بر سآپ نے اعلان نبوت فرمایا ،اس کے بعد آپ دس سلہ مکی دور نبوت میں ہر سال موسم حج میں حاجیوں کے خیمے میں تشریف لے جاتے اور جب عکاظ ،مجنہ اور ذوالمجاز کے میلے لگتے تو وہاں بھی پہنچ جاتے ۔آپ لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے اور اللہ کا دین پہنچانے کے لیے لوگوں سے نصرت طلب کرتے (27)
 الغرض رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانے میں رائج تمام طریقوں سے خوب خوب فائدہ اٹھا یا اور ہر زمانے کے لوگ انہیں طریقوں سے مانوس ہوتے ہیںجو اس عہد کی رواج بن چکی ہوتی ہے ۔
لہذا آج ضرورت اس بات ہے کہ آج کے ذرائع سے مثبت انداز میں بھرپور فائدہ اٹھایا جائے، اور اس کی(منفی) برائی سے خود بھی بچا جائے اور دورسروں کو بھی اس کی تلقین کی جائے ۔ہمارے آج کے زمانے میں تبلیغ دین اور نفاذ دین کے لیے جن وسائل اور ذرائع کی ضرورت ہے اور جو نہا یت اہم حیثیت رکھتے وہ ہیں تبلیغی جماعتوں کا قیام۔ جو انفرادی اور اجتماعی طور پر کام کریں ۔مساجد سے خوب فائدہ اٹھایاجائے ۔عصری اور مذہبی اداراوں کے طلباءوطالبات کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے ۔۔ہر قسم کے تشد د سے پاک لٹریچر کو فروغ دیا جائے ۔اور آخر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس دور میںاخبارات،رسائل ،ریڈیو،ٹیلی ویژن ،کمپیوٹر، انٹر نیٹ سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے ۔ 
حاصل کلام:
 حضورپرنور ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جمیع انسانیت کے ارتقاءاور سماجی طور پر ان میں یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے مبعوث فرمایا۔ آپ کی بعثت کل انسانیت کے لئے باعث رحمت قرار دی گئی ۔ آپ کی تبلیغ دین کا مقصد اشاعت دین تھا اور آپ ﷺ نے اپنے تبلیغی سرگرمیوں میں قرآن مجید کے بیان کردہ اصول کا پورا پورا لحاظ رکھا۔ اس کے علاوہ آپ کی دیگر انبیاءعلیہ سے الگ انفرادیت بھی ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے کل احکامات اپنے زمانے کے انسانوں تک پہنچائے جس پر آپ کی زندگی میں خود بھی عمل پیرا رہے اور پھر ان تعلیمات کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔قیامت تک آنے والے تمام انسان آپ ﷺ کی امت میں شامل ہیں، لیکن یہ دو طرح کے لوگ ہوں گے ایک ان میں سے امت اجابت ہے اور دوسری امت دعوت، گویا تمام انسان آپ کی امت میں شامل ہیں۔
حضور ختم المرسلین ﷺ نے دعوت دین کو عام کرنے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا ۔ لیکن اس کچھ کے باوجود آپ کی پیشانی پر بل نہیں آئیں، بلکہ نافرمانوں کے لیے ہمہ وقت ہدایت کی لئے دعا کرتے رہے ۔لہذا عصر حاضر میں رسول اکرم صلی ا للہ علےہ والہ وسلم کی اس تعلیم پہ عمل پیرا ہونے کی اشدضرورت ہے اور دعوتی عمل میں پیش آنے والے نا خوشگوار واقعات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اور اُن پہ آمادہ تشدد نہ ہوناایک داعی کے لئے ضروری حکمت عملی ہے۔
آج امت مسلمہ کو تبلیغ دین کے سلسلے میں جو رکاوٹیں پیش نظر ہے یعنی مادہ پرستی ،احساس کمتری ،حکمت کی کمی ،ایمان کی نا پختگی ،احساس ذمہ داری کا فقدان ،ذرائع ابلاغ کا مضر استعمال ،مغربی ناقص نظام تعلیم ،معاشرتی اختلافات وہ صرف ان اصولوں کی دوری کی وجہ سے ہے اگر آج بھی ہم قرآن حکیم کی ذکرکردہ ان اصولوں کو اپنا کر تبلیغ دین کا کام سرانجام دیں تو یقینا کامیابیاں ہماری قدم چومے گی ۔
﴿حوالہ جات﴾
(۱)وحید الزمان ،مولانا ،القاموس الوحید ،ص۹۷۱،لاہور ،ادارہ اسلامیات،۱۰۰۲ئ
(۲) غلام احمد ،تبویب القرآن ،ج،۱،ص،۰۹۳،لاہور،ادارہ طلوع اسلام ،۷۷۹۱ئ
(۳) خالد علوی ،ڈاکٹر ،رسول اکرم کا منہاج دعوت،ص، ۵،اسلام آباد ،دعوہ اکیڈمی ۱۰۰۲ئ
(۴) القرآن۶۱؛۵۲۱
(۵) الازہری ،پیر محمد کرم شاہ ،مولانا،ضیاءالقرآن ج،۲ص۷۱۶،ضیا القرآن پبلی کیشنزلاہور،۲۰۴۱ھ
(۶)ندوی،سید سلیمان ،سیرت النبی ﷺ،ج،۴،ص،۲۵۲،اعظم گڑھ،مطبع معارف،۲۳۳۱ھ
(۷) ابو حیان ،البحر المحیط ،ج،۲،ص ۲۳۱،دارالکتب العلمیہ،بیروت،۹۹۹۱ئ
(۸)شبلی نعمانی ،علامہ ،سید سلیمان ندوی ،سیرة النبی ﷺ،ج،۴،ص ۳۶۵،کراچی دارا لاشاعت ،۴۰۰۲ئ
(۹) عبد المجید ،علامہ ،آخری نبی اور ان کی تعلیمات ،ص۱۱۴،فجلی سنز لمیٹڈ ،کراچی،۸۹۹۱ئ
(۰۱) القرآن،۲:۴۲۱
(۱۱) کتاب مقدس (پرانا اور نیا عہد نامہ)،لاہور، پیدائش ۶۱،آیت۳،۴،بائبل سوسائٹی،۱۰۰۲ ئ
(12) القرآن: ۰۲:۴۴
(13) عبید اللہ سندھی،مولانا ،تعلیمات وسیاسی افکار،ص۲۹،لاہور،المحمود اکیڈمی،۷۶۹۱ئ
(14) القران: ۴۳:۸۲
(15) القرآن: ۷:۸۵۱
(16) البخاری،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری،کتاب التیمم ،حدیث۲، ص۰۵۱،ج ۱،مصر ،ا دارةالطباعة المنیریہ ،س،ن
(17) مبارک پوری،مولانا،صفی الرحمن،الرحیم المختوم،ص۱۲۷،لاہور ،المکتبہ السلفیہ،۸۸۹۱ئ
(18) الشامی،محمد بن یوسف الصالحی،سبیل الھدی والرشاد ،( سیرت شامی) ، باب۲، حدیث۷۷۵،بیروت،دارلکتب العلمیہ ،۳۹۹۱ئ
(19) امام،احمدبن حنبل،مسند احمدبن حنبل،باب۴، حدیث۵۳۳،بیروت، داراحیاءالتراث العربی،۳۹۹۱ئ
(20) امام،مسلم بن حجاج ،القشیری ،صحیح مسلم ،کتاب الجہاد ،باب غزوہ احد ،ص ۱۵۸،بیروت ،دار المعرفہ،۷۰۰۲ئ
(21) ابو جعفر،احمد بن عبد اللہ بن محمد طبری،الشفا ،دار الغرب الاسلامی،بیروت ،ص۷۱۴،جلد۱،۶۹۹۱ئ
(۲۲) الترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن السورہ،امام،جامع الترمذی، دہلی، مطبع العلمی ،باب صفة النبی ،ص۶۶۳،جلد۵،۵۶۲۱ہجری
(23) مبارک پوری،صفی الرحمن ،مولانا،الرحیق المختوم، ص۷۶۷،المکتبہ السلفیہ، لاہور، ۷۸۹۱ئ
(24) القرآن،۳:۰۱۱
(25) البخاری،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل،محولہ بالا،کتاب التفسیر،ص۵۵۸
(26) ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب ،شیخ ،مشکوٰةالمصابیح،ص۴۸۵،کراچی،سعید ایچ ایم کمپنی،۴۱۴۱ھ
(27) الشامی ،محمد بن یوسف ،محدث ،سبیل الھدی والرشاد فی سیرة خیر العباد،ج،۲ص ۱۵۴،بیروت ،دارلالکتب العلمیہ ،۳۹۹۱ئ

No comments:

Post a Comment