Wednesday, 19 August 2015

ہم اللہ کی بات مانتے ہیں یا پھر فرقوں کی بات

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم اللہ کی بات مانتے ہیں یا پھر فرقوں کی بات؟
تحریر: پرویز اقبال آرائیں
اللہ سبحانہ و تعالٰی کے کلام،  الوہی نورِ ہدات  قرآن مجید، رسول اللہ ﷺ کی سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی اطاعت و اتباع، ان سے حاصل ہونے والے احکامات و تعلیمات کی پیروی ہر صورت میں،  باقی سب انسانوں سے اوّل  اور  ان پر مقدم ہے، اسلئے کسی بھی عالم و اکابر کے اقوال، تعلیمات، افکار و نظریات وغیرہ کو صرف ایک ہی صورت میں قابلِ قبول سمجھا اور تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کے کلام قرآن مجید، رسول اللہ ﷺ کی سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ سے ملنے والے احکام و تعلیمات کے عین مطابق ہوں بصورتِ دیگر ان کو دیوار پر مار کر رسول اللہ ﷺ کے دامنِ رحمت کے ساتھ لپٹے رہنے ہی  میں عافیت اورخیر و فلاح  ہے بلا شک و شبہ  یہی اللہ ربّ العالمین سبحانہ و تعالٰی کا حکم  اور صراط، مستقیم ہے۔ دیں اِسلام فقط  اللہ سبحانہ و تعالٰی کے کلام،  الوہی نورِ ہدات  قرآن مجید، رسول اللہ ﷺ کی سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کے احکام و تعلیمات پر مبنی ہے اور اس میں مسلمانوں کو فرقوں کو حرام قرار دے کر ان سے باز رہنے کی تاکید و تلقین کی گئی ہے۔
ان  باطل اور حرام فرقوں کی وجہ سے  امّۃِ مسلمہ نہ جانے کہاں کھو گئی جو جسدِ واحد کی طرح متحدتھی جو رسول اللہ ﷺ کی جماعت تھی؟ جس میں اخوّۃ، اسلامی اور مساوات انسانی تھی۔ وہ اصل دینِ اسلام بھی نہ جانے چھپا دیا گیا جس کو رسول اللہ ﷺ لائے تھے؟ اپنے اپنے خود ساختہ، من پسند و من گھڑت،  کمراہ کن افکار و نظریات پر مشتمل نئے نئے برانڈز  مختلف مژہبی فرقوں کے نام پر متعارف کروا دیئے گئے ہیں اور ان کو اسلام کے نام پر پیش کر کے اللہ دین الاسلام کو بدنام و رسوا کیا جا رہا ہے۔
دینِ مصطفوی اور امّۃِ مصطفوی کی جگہ ان  باہم متحارب و متصادم باطل و گمراہ فرقوں نے کس طرح لے لی، حیران و پریشان ہو کر سوچوں میں کھویا رہتا ہوں، خیر القرون میں  ہم مسلمان کیا  تھے!  اب فی زمانہ  کیا بن  گئے ! اللہ و رسول ﷺ کو بھول گئے! ان کو بس برائے نام مانتے ہیں اصل میں ان کی ایک نہیں مانتے بلکہ ان کی تعلیمات و احکامات کتے صریحاً برعکس اپنے اپنے فرقوں کے اکابرین کی ہر  ایک غلط اور خلافِ اسلام بات کو بھی حق مانتے ہیں،  قرآن و سنّۃ کی بالکل واضح تعلیمات و احکامات پر فرقہ پرستی کو اوّلین ترجیح اور فوقیت دیتے ہیں ۔ جن فرقوں سے اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، آج ہم نے ان باطل فرقوں کو ہی اپنا دین و ایمان اور اصل اسلام سمجھ کر اپنی جانوں کو جہنّم کا ایندھن بنا  بنا رہے ہیں اورآج ہم بریلوی، دیوبندی، وہابی،  اہلحدیث، سلفی، جماعتی، اسراری، عثمانی، مسعودی ،  توحیدی،  رضوی، تبلیغی، عطاری، حیاتی اور مماتی، طاہری، لاہوتی ، مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی، جعفری، چشتی، قادری، نقشبندی، اور سہروردی و غیرہ  پہلے ہیں اور مسلمان بعد  میں ہیں۔ ترجیحات بدل گئی ہیں اب ہم  اپنے خالقِ و  حقیقی مالک اللہ سبحانہ و تعالٰی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلَّم  (قرآن مجید ، سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ )کی اطاعت و اتباع کو عملاً ثانوی اوراپنے اپنے فرقوں، مسالک،  مشارب، فقہی مذاہب وغیرہ  کی پیروی کو اوّلین حیثیت دینے لگے ہیں۔ کیا یہ رویّے ایمان اور دینِ اسلام سے ہمارے تعلق و وابستگی کی نفی کرنے کو کافی نہیں ہیں؟
ہر فرقہ خود کو حق پر جبکہ باقی سب کو گمراہ، فاسق و فاجر، بدعتی، کافر، مشرک، مرتد بتاتا اور سمجھتا ہے، مسلمانوں کے مابین مذہبی منافرت پیدا کر کے امّۃ، مصطفوی کے اتحاد کی راہیں مسدود کرتا ہے، اپنے نظریات کو قرآن کے مطابق ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید کے اصل معانی و مفہوم میں تحریف کرنے، وضعِ حدیث  (حدیثیں گھڑنے) یا موضوع احادیث کو بنیاد بنانے سے بھی گریز نہیں کرتا، قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی تعلیمات و احکامات کی تبلیغ کرنے کے بجائے اپنے فرقے کے نظریات کا پرچار کرتا ہے۔  اپنے فرقے کے من پسند و من گھڑت افکار و نظریات کو اور اپنے فرقے کے اکابرین کے اقوال کو عملاً قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ پر اوّلین ترجیح اور فوقیت دیتا ہے۔
 ہمارے پاس فرقہ پرست عناصر کے افکار و نظریات کو صحیح یا غلط کے معیار پر پرکھنے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان کی بات  مسلّمہ مقاصدِ دین اور قرآن و سنّۃ ، اسوۃ الحسنہ سے عینیت و مطابقت رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر  بات میں قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کے ساتھ عینیت و مطابقت پائی جاتی ہو تو اس وجہ سے قبول کریں کہ وہ بات  مسلّمہ مقاصدِ دین، قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی تعلیمات و احکامات  کے عین مطابق اور  اسلام کی تعلیم و حکم ہے، اس وجہ سے ہر گز  قبول نہ کریں کہ کہنے والے کا تعلق آپ کے فیورٹ فرقے سے ہے یا کہنے والے کی اپنی ذات و شخصیت کی کوئی خاص اہمیت ہے۔  جہاں فرقہ ہے وہاں اسلام نہیں اور جہاں اسلام ہے وہاں کسی فرقے کے وجود کی  ہر گز ھر گز کوئی 
-گنجائش نہیں ہے
ترجمہ: (اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے  کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے  ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ)  تمہیں زیادہ پیارا   ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ  میں  جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا  "۔ (9سورۃ التوبہ، اٰیۃ 24)
یہاں آٹھ چیزیں گنوا دی گئی  ہیں  کہ اگر ان آٹھ چیزوں کی محبتوں میں سے کسی ایک یا سب محبتوں کا مجموعہ اللہ تعالٰی، اس کے رسول ﷺ  اور اس کے رستے میں   جہاد کی محبتوں کے جذبے کے مقابلےمیں زیادہ ہے  تو پھر اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔ یہ بہت سخت اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا لہجہ اور انداز ہے۔ ہم میں سے ہر ایک شخص کو چاہئےکہ اپنے باطن میں   ایک ترازو نصب کرے۔ اس کے ایک پلڑےمیں  یہ آٹھ محبّتیں ڈالے  اور دوسرے پلڑے  میں ایک ایک کر کے باری باری اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور جہاد کی محبّتیں      ڈالے اور پھر اپنا جائزہ لے کہ کہاں کھڑا ہوں! چونکہ انسان خود اپنے نفس سے خوب واقف ہے (بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ) ( القیامۃ) اس لیئے اسے اپنے باطن کی صحیح صورت حال معلوم ہو جائے گی۔ بہر حال اس سلسلے میں  ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر تو اس کی ساری خواہشیں ، محبّتیں اور حقوق (بیوی، اولاد، نفس وغیرہ کے حقوق) ان تین محبتوں کے تابع   اور ان سے کمتر درجے میں ہیں تو اس کے معاملاتِ ایمان درست  ہیں اگر مذکورہ آٹھ چیزوں سے کسی ایک بھی چیز کی محبت یا سب محبتوں کو ملا کر اس مجموعے  کا گراف یا وزن ، اللہ تعالٰی، اس کے رسول ﷺ  اور اس کے رستے  میں جہاد کی محبتوں کے جذبے سے  اوپر چلا  گیا   تو یقین جان لیں کہ وہاں توحید و رسالت پر آپ کا ایمان ختم ہو چکا ہے  اور جو کچھ آپ نے باقی  بچا کے رکھا ہے وہ سوائے شرک کے کچھ نہیں ۔ 
ایمان کی اساس ہی اس جذبے پر قائم ہوتی ہے کہ بندہءِ مومن  ، اللہ سبحانہ و تعالٰی  اور رسول اللہ ﷺ کی محّبت ،  اطاعت و اتباع کو  باقی تمام انسانوں اور چیزوں کی  محبّت، اطاعت و اتباع پر ترجیح دے ۔ اسی  حقیقت کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا ہے
یہ مال و دولت ِدنیا ، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں، لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ!

آیت زیر نظر میں جو آتھ چیزیں اللہ ربّ العٰلمین نے گنوائی ہیں  ان میں سے پہلی پانچ  رشتہ وپیوند کے زُمرے میں آتی ہیں جب کہ آخری تیں ، مال و دولت ِ دنیاکی مختلف  شکلیں ہیں ۔ علامہ اقبال ؔ فرماتے  ہیں کہ ان چیزوں  کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، یہ ہمارے وہم اور توہم کے بنائے ہوئے بت  ہیں۔ جب تک لَا اِلَہ الاَّ اللّٰہ کی شمشیر  سے اِن بتوں کو توڑا  نہیں جائے گا ،  بندۂ مومن کے نہاں خانۂ دل  میں توحید کا  عَلَم  بلند نہیں ہو گا۔
اللہ کرے کہ وہ دن جلدی آئے جب ہمارے مدارس و مساجد، مسندیں اور خانقاہیں، منبر و محراب سمیت سارے دینی ادارے اور طبقات اپنے اوپر سے فرقہ پرستی کا لیبل اتار پھینکیں اور مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی، اخوّۃِ اسلامی، مساواتِ انسانی اور امّۃ واحدہ کے داعی اور علمبردار بن کر ابھریں ۔ اپنے اپنے فرقوں سے بالا تر ہو کر مسلمانوں کے وسیع تر او بہترین مفاد میں اصل دینِ اسلام (قرآن و سنّۃ، صحیح و متفق علیہ احادیث مبارکہ اور اسوۃ الحسنہ) کی اطاعت و اتباع اور پیروی پر متفق و متحد ہو جائیں تاکہ مقاصدِ دیں کی تکمیل اور منزل کے حصول و تحفظ کی مسدود راہیں کھل سکیں۔ِ آمین!
Always our top priority & 1st. preference should be Allah (SWT), Rasoolullah (Sallallaho alaihi wasallam), (Quran, Sunnah & Uswat-ul-Hasanah). We must love to follow & obey Allah (SWT), Rasoolullah (Sallallaho alaihi wasallam), (Quran, Sunnah & Uswat-ul-Hasanah) firstly, all others come after them.
We should never follow any one against the commands of Allah (SWT), Rasoolullah (Sallallaho alaihi wasallam), (Quran, Sunnah & Uswat-ul-Hasanah).


No comments:

Post a Comment