Tuesday, 18 August 2015

دینِ اسلام میں فرقوں کے وجود کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
دینِ اسلام میں فرقوں کے وجود کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں!
از قلم: پرویز اقبال آرائیں
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے،   (سورۃ آل عمران آیۃ31) ترجمہ: "اے محبوب (ﷺ)! آپ  فرما دیجئے  کہ  لوگو  اگر  تم  اللہ  کو  دوست  رکھتے  ہوتو  میرے  فرمانبردار  ہو جاؤ  اللہ تمہیں  دوست  رکھے  گا  اور  تمہارے  گناہ  بخش  دے  گا  اور  اللہ  بخشنے  والا  مہربان  ہے" (سورۃ آل عمران آیۃ 101) ترجمہ: "اور تم کیوں کر کفر کروگے تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول تشریف لایا اور جس نے اللہ کا سہارا لیا تو ضرور وہ سیدھی راہ دکھایا گیا"۔ (سورۃ آل عمران آیۃ 102) ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان" (سورۃ آل عمران آیۃ 103) ترجمہ : "اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو  اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑہے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ"
  تقوٰی کے بعد سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کا درس دے کر واضح کر دیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہیں پر قائم ہو سکتا اور رہ سکتا ہے۔ولا تفرقوا اور پھوٹ نہ ڈالو ' کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مزکورہ دو اصولوں سے انحراف کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیہ کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور نہایت مستحکم ہو گیا۔ اور مضبوطی سے تھام لو تم لوگ اللہ کہ رسی کو، سب مل کر، اور آپس میں مت بٹو ٹکڑیوں میں ف ۵ اور یاد کرو اللہ کے اس (عظیم الشان انعام و) احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے، تو اس نے باہم جوڑ دیا تمہارے (پھٹے ہوئے) دلوں کو، پھر تم اس کے فضل و کرم سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے ف ۱ اور تم لوگ کھڑے تھے دوزخ کے (ہولناک گڑھے کے) عین کنارے پر، تو اس نے بچا لیا تم کو اس سے (اپنی رحمت بیکراں اور عنایت بےنہایت سے) اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتیں، تاکہ تم لوگ سیدھی راہ پر رہو!
(سورۃ آلِ عمران آیۃ 105) ترجمہ: "اور (خبردار) کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہو جانا جو (مختلف فرقوں میں) بٹ گئے، اور وہ باہم اختلاف میں پڑ گئے، اس کے بعد کہ آچکیں تھیں ان کے پاس (ان کے رب کی جانب سے واضح اور) کھلی ہدایت، اور ایسے لوگوں کیلئے بہت بڑا عذاب ہے"
 تفرق و انتشار والے لوگوں سے بچ کر رہنے کی ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا اور کہیں تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جانا جو مختلف فرقوں میں بٹ گیے اور وہ باہم اختلاف میں پڑ گیے اس کے بعد کہ ان کے پاس آ چکی تھیں ان کے رب کی طرف سے کھلی ہدایات ۔ پس تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہو جانا جو باہم بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ محض اپنی نفسانی خواہشات کی بنا پر۔ اور دنیاۓ فانی کے حطام زائل کے پیچھے لگ کر۔ اور اس طرح ان لوگوں نے اپنے آپ کو شرف انسانیت سے محروم کرکے حیوانیت محضہ کے درجے میں لاکھڑا کیا، جو کہ خسارہ اور انتہائی ہولناک نقصان ہے - والعیاذ باللہ العظیم - پس تم لوگ ہمیشہ ایسے لوگوں کے طور طریقوں سے بچ کر رہنا - وباللہ التوفیق - سو اس سے مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کے انجام سے عبرت دلائی گئی ہے کہ وہ خدا کی واضح تنبیہات کے باوجود خدا کی رسی کو چھوڑ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ جس کے ہاتھ میں اس رسی کا جو ٹکڑا آ گیا وہ اسی کو لے کر بیٹھ گیا اور اسی کو حبل اللہ سمجھ کر اس پر قانع ہو گیا۔ پس تم لوگ اے مسلمانو، کہیں ان ہی یہود و نصاریٰ کی طرح نہیں ہو جانا کہ ان کی طرح تم بھی اپنی عاقبت برباد کر لو کہ یہ راہ فوز و فلاح کی نہیں عذاب الیم کی ہے - والعیاذ باللہ العظیم - اللہ تفرق و انتشار اور ہلاکت خیزیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے - آمین ثم آمین یا رب العالمین -
حق سے محروموں کے لیے بہت بڑا عذاب - والعذاب باللہ : حق کےواضح ہو جانے کے بعد اختلاف کرنے والوں اور نور حق سے محروم رہنے والوں کے لئے بہت بڑا عذاب- والعیاذ باللہ : سو واضح ہدایت کے آجانے کے بعد تفرق و اختلاف سے کام لینے کرنے والوں اور دولت حق سے محروم رہنے والوں کیلئے بہت بڑا عذاب ہے - والعیاذ باللہ - اور اتنا بڑا کہ اس کا یہاں پر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا - والعیاذ باللہ - جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا{فَیَوْْمَئِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہٗ اَحَدٌ وَّلا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗ اَحَدٌ }پس عقلمند کا کام یہ ہے کہ وہ حیات مستعار کی اس محدود و مختصر فرصت میں اس عذاب عظیم سے بچنے کی فکر کرے کہ اس کا موقع و محل یہی دنیا ہے اور بس۔ اور اگر حیات دنیا کی اس فرصت مستعار کو اخروی عذاب کے اس ہولناک انجام سے بچنے کی فکر و کوشش کی بجائے دنیا کے متاع فانی اور حطام زائل کے جوڑنے اور جمع کرنے میں ضائع کر دیا، تو یہ ایسا سنگین اور ہولناک ضیاع و نقصان ہو گا جس کے تدارک و تلافی کی پھر کوئی صوت ممکن نہ ہوگی - والعیاذ باللہ العظیم -
(سورۃ الاحزاب آیۃ36)  ترجمہ: "اور روا نہیں کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لئے جب کہ فیصلہ فرما دے اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں یہ بات کہ ان کو اس کے بعد بھی اختیار حاصل رہے اپنے اس معاملے میں اور جس نے نافرمانی کی اللہ اور اس کے رسول کی تو یقینا (اس نے اپنا ہی نقصان کیا کہ یقینی طور پر) وہ پڑ گیا کھلی گمراہی میں"۔
 مومن کے ایمان کا اصل اور اہم تقاضا : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن کے لیے کسی اختیار کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " کسی مسلمان مرد یا عورت کی یہ شان نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے فیصلے کے بعد اس کیلئے کوئی اختیار باقی رہ جائے " ۔ یہ آیت کریمہ حضرت زینب بنت حجش - (رض) - کے بارے میں نازل ہوئی جبکہ آنحصرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ کے لئے حضرت زینب کو منگنی کا پیغام بھیجا تو انہوں نے انکار کر دیا کہ ان کا تعلق قریش کے اونچے خاندان سے تھا۔ وہ رسول اللہ کی پھوپھی حضرت امیمہ بنت عبد المطلب کی بیٹی تھیں جبکہ حضرت زید (رض) کو غلامی کا داغ لگ چکا تھا۔ مگر آنحضرت - (صلی اللہ علیہ وسلم) - چاہتے تھے کہ یہ نکاح ہو جائے تاکہ اسطرح اسلامی عدل و مساوات کا عملی ثبوت مہیا ہو اور آزاد کردہ غلاموں کو حقیر سمجھنے کی رسم عملاً ٹوٹے اور مٹے۔ تو اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں یہ ایک اصولی اور بنیادی ہدایت فرمائی گی کہ کسی مومن مرد اور عورت کو اپنے اس معاملے کے بارے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا جبکہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان کے اس معاملے سے متعلق کوئی حکم وارشاد صادر ہو جائے۔ تو اس پر حضرت زینب (رض) اور آپ (رض) کے بھائی وغیرہ فوراً اس نکاح کے لئے تیار ہو گئے اور آنحضرت - (صلی اللہ علیہ وسلم) - نے حضرت زینب (رض) کا نکاح حضرت زید بن حارثہ (رض) سے کرا دیا۔ اور اس کے مہر کے لئے دس دینار اور ساٹھ درہم نقد کچھ کپڑے اور کھانے پینے کا کچھ سامان بھی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خود عطا فرمایا۔ یہاں پر یہ امر بھی واضح رہے کہ یہ آیت کریمہ نازل اگرچہ اس خاص واقعہ میں ہوئی مگر اس کا حکم عام ہے اور یہ اسلامی قانون اور اسلامی نظام حیات کے لئے ایک بہت بڑی اور اہم بنیاد ہے کہ کسی بھی مسلمان فرد یا جماعت یا حکومت یا پارلیمنٹ وغیرہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مقابلے میں اپنی آزادیِ ٔرائے برتے اور اپنی مرضی چلائے۔ مسلمان ہونے کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ انسان اپنی آزادی ٔرائے سے دستبردار ہو کہ من چاہی کی بجائے خدا چاہی ہی زندگی گزارے۔ اور ہر جگہ اور ہر موقع پر یہ دیکھے کہ میرے خالق ومالک کا حکم وارشاد کیا ہے؟ اور میرادین مجھ سے کیا چاہتا اور کیا کہتا ہے؟ مگر افسوس کہ اس سب کے باوجود آج مسلمان کا حال اس سے یکسر مختلف اور دگرگوں ہے - اِلاّ مَاشَآئَ اللّٰہُ والعیاذُ باللّٰہ العظیم - بہرکیف اس ارشاد ربانی سے بطور قاعدئہ کلیہ کے یہ بات واضح فرما دی گئی کہ کسی مومن اور عورت کیلئے یہ بات جائز نہیں اور نہ ہی یہ ان کی شان کے شایاں ہوسکتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کسی فیصلے اور حکم کی خلاف ورزی کریں ۔ یہ بات ایمان کے تقاضوں کیخلاف ہے اور جو اس کا ارتکاب کرے گا وہ سراسر ضلالت و گمراہی کا مرتکب قرار پائے گا - والعیاذ باللہ العظیم –
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی تمہاری تین باتوں سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں کو ناپسند کرتا ہے جن باتوں سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مل کر تھامے رہو اور متفرق نہ ہو اور تم سے جن باتوں کو ناپسند کرتا ہے وہ فضول اور بیہودہ گفتگو اور سوال کی کثرت(یہاں سوال سے مراد لوگوں سےمانگنا ہے ، پوچھنا مراد نہیں ہے) اور مال کو ضائع کرنا ہیں۔( صحیح مسلم جلد 2 ، حدیث نمبر 1987)
 آج ہم  بریلوی، دیوبندی، وہابی،  اہلحدیث، سلفی، جماعتی، اسراری، عثمانی، مسعودی ،  توحیدی،  رضوی، تبلیغی، عطاری، حیاتی اور مماتی، طاہری، لاہوتی ، مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی، جعفری، چشتی، قادری، نقشبندی، اور سہروردی و غیرہ  پہلے ہیں اور مسلمان بعد  میں ہیں۔ ترجیحات بدل گئی ہیں اب ہم  اپنے خالقِ و  حقیقی مالک اللہ سبحانہ و تعالٰی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلَّم  (قرآن مجید ، سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ )کی اطاعت و اتباع کو عملاً ثانوی اوراپنے اپنے فرقوں، مسالک،  مشارب، فقہی مذاہب وغیرہ  کی پیروی کو اوّلین حیثیت دینے لگے ہیں۔ کیا یہ رویّے ایمان اور دینِ اسلام سے ہمارے تعلق و وابستگی کی نفی کرنے کو کافی نہیں ہیں؟
آج کوئی بھی فرقہ پرست مسلمان، اللہ و نبیﷺ کی کوئی بات، تعلیم یا حکم سننے، ماننے اور تعمیل کرنے کو تیار نہیں ،  وہ  پہلی شرط یہ رکھتا ہے کہ اللہ و رسول ﷺ کی بات، تعلیم یا حکم اگر اس کے فرقہ وارانہ افکار و نظریات اور خیالات  و تعلیمات سے مطابقت رکھے تب تو قابلِ غور ہے ورنہ نہیں۔ متذکرہ بالا آیات   اور بہت ساری  دیگرآیات اور سنّۃِ رسول اللہ ﷺ (متفق علیہ صحیح احادیث مبارکہ ) اور رسول اللہ ﷺ کے اسوۃ الحسنہ سے فرقوں کا باطل، حرام و ممنوع ہونا بالکل واضح اور بخوبی ثابت ہے ، پھر بھی ہم اپنے فرقہ پرست اکابرین کی بات، ان کے خود ساختہ، من گھڑت، کمراہ کن اور مبنی بر ضلالت انسانی و بشری افکار و نظریات، خیالات  کو آیاتِ قرآنی پر اوّلین  ترجیح اور فوقیت دینے کی روش سے باز نہیں آتے، گویا کہ اپنے خالق و مالکِ حقیقی اللہ ربّ العالمین کے حکم کو ماننے سے صاف انکار کر کے اپنے فرقہ پرست ملّا و مولوی، عاقبت نا اندیش مذہبی پیشوا کی  بات اور حکم کو مان کر اپنے ایمان اور دینِ اسلام  سے اپنے ہر رشتے  ناطے، تعلق و وابستگی ختم کرلینا قبول کرتے ہیں ۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اللہ سب سے بڑا ہے جس نے ہم کو اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے ہمیں اللہ و رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برعکس کسی بھی دوسرے کا کوئی پیغام یا بات یا حکم یا تعلیم قبول نہیں کرنی چاہئے کیونکہ  باقی سارے اکابرین و علماء ان کے بعد  ہیں جن کام فقط  بغیر کسی کمی بیشی اور ردّوبدل کے، ہمیں اللہ و رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات و احکامات پہنچانا ، خود ان کی تعمیل کرنا اور ہمیں کامل اطاعت و اتباع کی تلقین و تاکید اور وعظ و نصیحت کرتے رہنا ہے ، نہ کہ ہمیں  اللہ و رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی پر لگا کر جہنّم کا ایندھن بنانا۔
ہر فرقہ خود کو حق پر جبکہ باقی سب کو گمراہ، فاسق و فاجر، بدعتی، کافر، مشرک، مرتد بتاتا اور سمجھتا ہے، مسلمانوں کے مابین مذہبی منافرت پیدا کر کے امّۃ، مصطفوی کے اتحاد کی راہیں مسدود کرتا ہے، اپنے نظریات کو قرآن کے مطابق ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید کے اصل معانی و مفہوم میں تحریف  کرنے اور وضعِ حدیث  (حدیثیں گھڑنے)  یا موضوع احادیث  کو بنیاد بنانے سے بھی گریز نہیں کرتا، قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی تعلیمات و احکامات کی تبلیغ کرنے کے بجائے اپنے فرقے کے نظریات کا پرچار کرتا ہے۔ ہمارے پاس فرقہ پرست عناصر کے افکار و نظریات کو صحیح یا غلط کے معیار پر پرکھنے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان کی بات  مسلّمہ مقاصدِ دین اور قرآن و سنّۃ ، اسوۃ الحسنہ سے عینیت و مطابقت رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر  بات میں قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کے ساتھ عینیت و مطابقت پائی جاتی ہو تو اس وجہ سے قبول کریں کہ وہ بات  مسلّمہ مقاصدِ دین، قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی تعلیمات و احکامات  کے عین مطابق اور  اسلام کی تعلیم و حکم ہے، اس وجہ سے ہر گز  قبول نہ کریں کہ کہنے والے کا تعلق آپ کے فیورٹ فرقے سے ہے یا کہنے والے کی اپنی ذات و شخصیت کی کوئی خاص اہمیت ہے۔  جہاں فرقہ ہے وہاں اسلام نہیں اور جہاں اسلام ہے وہاں کسی فرقے کے وجود کی  ہر گز ھر گز کوئی گنجائش نہیں ہے۔ امّۃِ مسلمہ کہاں کھو گئی جو جسدِ واحد کی طرح متحد تھی جو رسول اللہ ﷺ کی جماعت تھی؟؟؟
وہ اصل دینِ اسلام کہاں چلا گیا جس کو رسول اللہ ﷺ لائے تھے؟؟؟
دینِ مصطفوی اور امّۃِ مصطفوی کی جگہ ان  باہم متحارب و متصادم باطل و گمراہ فرقوں نے کس طرح لے لی، حیران و پریشان ہو کر سوچوں میں کھویا ہوں، ہم مسلمان کیا  تھے! اب کیا رہ گئے ! اللہ و رسول ﷺ کو بھول گئے! جن فرقوں سے انہوں نے منع فرمایا تھا، آج ہم نے ان باطل فرقوں کو ہی اپنا دین و ایمان کیوں بنا لیا!؟ اپنے اوپر رحم کیجیئے، اپنی خاطر ہی کچھ سوچیئے اپنی جانوں کو جہنّم کا ایندھن مت بنایئے
 آج ہم  بریلوی، دیوبندی، وہابی،  اہلحدیث، سلفی، جماعتی، اسراری، عثمانی، مسعودی ،  توحیدی،  رضوی، تبلیغی، عطاری، حیاتی اور مماتی، طاہری، لاہوتی ، مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی، جعفری، چشتی، قادری، نقشبندی، اور سہروردی و غیرہ  پہلے ہیں اور مسلمان بعد  میں ہیں۔ ترجیحات بدل گئی ہیں اب ہم  اپنے خالقِ و  حقیقی مالک اللہ سبحانہ و تعالٰی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلَّم  (قرآن مجید ، سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ )کی اطاعت و اتباع کو عملاً ثانوی اوراپنے اپنے فرقوں، مسالک،  مشارب، فقہی مذاہب وغیرہ  کی پیروی کو اوّلین حیثیت دینے لگے ہیں۔ کیا یہ رویّے ایمان اور دینِ اسلام سے ہمارے تعلق و وابستگی کی نفی کرنے کو کافی نہیں ہیں؟
اللہ کرے کہ وہ دن جلدی آئے جب ہمارے مدارس و مساجد، مسندیں اور خانقاہیں، منبر و محراب سمیت سارے دینی ادارے اور طبقات اپنے اوپر سے فرقہ پرستی کا لیبل اتار پھینکیں اور مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی، اخوّۃِ اسلامی، مساواتِ انسانی اور امّۃ واحدہ کے داعی اور علمبردار بن کر ابھریں ۔ اپنے اپنے فرقوں سے بالا تر ہو کر مسلمانوں کے وسیع تر او بہترین مفاد میں اصل دینِ اسلام (قرآن و سنّۃ، صحیح و متفق علیہ احادیث مبارکہ اور اسوۃ الحسنہ) کی اطاعت و اتباع اور پیروی پر متفق و متحد ہو جائیں تاکہ مقاصدِ دیں کی تکمیل اور منزل کے حصول و تحفظ کی مسدود راہیں کھل سکیں۔ِ آمین!
اللہ تعالٰی کا کلام قرآنِ مجید ہمیں باربار غوروفکرکرنے  اور سوچنے سمجھنے کی دعوۃ دیتا ہے ۔ آخر پھر ہم سوچتے کیوں نہیں؟؟؟

No comments:

Post a Comment