Monday, 17 August 2015

اللہ کا دین مکمّل ہے۔ اِسلام میں فرقے ہیں نہ فرقوں میں اِسلام۔ آخری حِصّہ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کا دین مکمّل ہے۔  اِسلام میں فرقے ہیں نہ فرقوں میں اِسلام۔ حِصّہ۔ 6
تحریر: پرویز اقبال آرائیں، (ریسرچ اسکالر پی ایچ۔ ڈی)، شعبۂ قرآن وسنۃ،
کلیۂ معارفِ اِسلامیہ، جامعہ کراچی۔
فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی، پیرپرستی وغیرہم، دین اسلام کے غلبے اوراتحاد امة اور عالم اسلام کی ترقی و استحکام اور امن و اآشتی کی راہ میں حائل واحدنہیں تو کم از کم سب سے بڑی رکاوٹ ضرورہے اوراس لعنت و ناسور سے نجات پائے بغیراصلاح احوال کی کوئی بھی دوسری صورت ممکن نظرنہیں آتیـ کیوں کہ یہی فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی، پیرپرستی، امة مسلمہ میں منافرت، انتشار و افتراق کا باعث بنی ہوئی ہے۔
جس طرح لوگوں کو گمراہ کر کے قرآن و سنۃکی پیروی سے ہٹادیا گیا اورفرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی، مفاد پرستی پر لگادیا گیا اسی کا لازمی و منطقی نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ حتی المقدور، اللہ رب العالمین کے نازل کردہ دین حق "الاسلام"کا حلیہ ہی بگاڑ  کر رکھ دیا گیا ہے، امة مسلمہ کو متعدد فرقوں، مذہبی گروہوں، سیاسی دینی جماعتوں، مسلکوں، ٹولیوں اور ٹکڑیوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا گیا ہے، مسلمانوں کو قرآن و سنۃ سے کی اطاعت و اتباع سے متنفر نہیں توکم از کم دورکرنے کی اس گھناؤنی سازش کے پیچھے کہیں نہ کہیں اسلام دشمنوں کا نادیدہ ہاتھ اور کوئی نہ کوئی عمل دخل تو ضرور ہو سکتاہے۔
چاروں فقہی مکاتب فکر کا معاملہ فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی، پیرپرستی وغیرہم سے بالکل مختلف ہے کیونکہ وہ تفقہ فی الدین کے زمرے میں آتے ہیں او ان چاروں کے پیروکارمحض باہمی فقہی آراء اوراجتہاد کے اختلاف کی بناء پر ایک دوسرے کو گمراہ نہیں سمجھتے۔ اوراصول الدین میں وہ چاروں متفق و متحد ہیں ان کے مابین صرف بعض اجتہادی مسائل (فروعات) میں اختلاف ہے جوایک فطری امرہے کیوں کہ اجتہاد انسانی غور و فکر، فہم و فراست، عقل و شعور کا اخذ کردہ نتیجہ ہوتا ہے۔
کس قدر بد قسمتی اور ستم ظریفی ہے امن و اتحاد،  صلاح و فلاح، اخوّۃِ اسلامی  او ر مساواتِ انسانی  کا داعی دین اسلام (جس میں کہ تقرقے کی کوئی گنجائش ہی نہیں بلکہ اس کی سخت ترین ممانعت ہے) آج قرقوں میں بٹ کر رہ گیا ہے، اصل دین اسلام کاآج کوئی پیروکار نظر نہیں آتا ہر طرف طوفان بد تمیزی برپا ہے فرقہ پرست، اکابرپرست، مقابر پرست، مسلک پرست، جماعت پرست، مفاد پرست، پیر پرست گروہوں کا راج اور ایک بے ہنگم ہجوم ہے جن میں سے ہرایک فرقہ اپنے علاوہ  باقی تمام تر فرقوں، مذہبی گروہوں اور مسالک وغیرہ کے پیروکاروں کو  گمراہ، بدعتی، جہنمی، کافر و مشرک اور مرتد سمجھتا اور بتاتا ہے اور واجب القتل گردانتا ہے۔  کوئی  بھی فرقہ ایسا نہیں جس نے محالف فرقوں کے خلاف مسلّح جتھے تیار نہ کر رکھے ہوں۔ مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ کیا جاتا ہے اور اس فتنہ انگیزی کو نہ صرف جائز بلکہ باعثِ اجر و ثواب اور سیدھا سیدھا جنّت الفردوس کا ٹکٹ  تصوّر کیا جاتا ہے۔
اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہےکوئی بھی فرقہ پرست سخص اپنے دین کا نام اسلام اور اس کو ماننے والوں کا نام مسلمان سننے بتانے اور اختیار کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا ہر کوئی شرم سے نہیں بلکہ فخراور ڈھٹائی کیساتھ بتاتا ہے کہ جی الحمد للہ میں بریلوی،  میں دیوبندی، مماتی، حیاتی، تبلیغی، سلفی، اہلحدیث ، طاہری، مسعودی، عطاری ہوں( وعلٰی ہذا القیاس دیگر بہت سارے اور بھی ہیں) جو سب کے سب   علی الاعلان اور فخریہ  طور پر یہی کہتے ہیں کہ میرا فرقہ ہی میرا  دین و مذہب ہے  اور بس وہی ایک حق پر ہے۔ باقی سارے کافر و مشرک اور مرتد ہیں  اور وہ  اپنے انہی افکار و نظریات کو  اسلام جانتا اور مانتا  ہے کیوں کہ فرقہ پرست دینی  قیادت اور  مذہبی پیشواؤں نے  عام مسلمانوں کو یہی تعلیم دی ہے۔  فرقہ پرستی کا یہ گندہ و غلیظ زہر افراد امت کی اکثریت کے رگ و پے میں اسقدرسرایت کر چکا ہے کہ اب لوگ دین اسلام کے ساتھ تعلق اورمسلمان ہونے کے لیئے، فرقوں کے ساتھ وابستگی کو اولین شرط اور دینی ضرورت اور دین و ایمان کا  ناگزیر تقاضہ اور جزوِ لا ینفک تصور کرنے لگے ہیں حالانکہ ایسے افکار و نظریات کو قرآن و سنّۃ میں واضح طور پر  ایسے من گھڑت، بے بنیاد اور خود ساختہ افکار و  اعمال او رنظریات  کو شرک و کفرکے مصداق حرام اور باطل  قراردیا گیا ہے ـ
اس بدترین صورتحال کی وجہ سے امت مسلمہ اور اصل دین اسلام کو توبلا شک و بلاشبہ نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے البتہ اورفرقہ پرست، اکابرپرست، مقابر پرست، مسلک پرست، جماعت پرست، پیر پرست وغیرہ  ملا مولویوں کی  لاٹری نکلی ہوئی ہے ان کی دوکان خوب چل نکلی ہے صدقات، خیرات، زکواة، عطیات اورفطرانہ و نذرانہ کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے فرقہ پرست، اکابرپرست، مقابر پرست، مسلک پرست، جماعت پرست، مفاد پرست پیروکاروں اور عقیدتمندوں کی فوج ظفر موج بھی ان کے لیئے ایک بڑا اثاثہ اورفائدہ مند چیز ہے،  اسی زینے پر چڑھ کر،  وہ دولت،  شہرت، عزّت کے ساتھ ساتھ سیاسی و حکومتی مناصب، دنیا بھر کی سیر و تفریح اور عیش و عشرت کی زندگی سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اللہ کے دینِ اسلام (قرآن اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی  سنّۃ  و اسوۃ الحسنہ  سے ملنے والے بالکل صریح اور واضح  احکام  و تعلیمات  سے انہوں نے خود کوئی سروکار برقرار رکھا ہے نہ ہی اپنے پیروکاروں کا باقی رہنے دیا ہے۔  روزِ جزاء و سزا یعنی آخرت کی  تو فرقہ پرست مذہبی عناصر کو جیسے (معاذ اللہ)  کوئی فکرہی نہیں ہے شاید وہ سمجھتے ہیں  عام لوگوں کا مسئلہ ہے ۔ واضح نظر آتا ہے کہ فرقہ پرست، اکابرپرست، مقابرپرست، مسلک پرست، جماعت پرست  مذہبی عناصر  کو اللہ کا کوئی ڈر ہے نہ آخرت کی کوئی فکر! شاید ان کا خیال  یہ ہوکہ (معاذ اللہ) آخرت میں بھی وہ کوئی نہ کوئی چکر چلانے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر ایسا ممکن نہیں۔ یا پھر شاید آخرت پر سے ان کا ایمان ہی اٹھ چکا ہے اور انہوں نے (معاذ اللہ) اسی دنیا کی زندگی کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا ہے۔
تمام فرقہ پرست عناصر اپنے مشترکہ سیاسی، معاشی و مالی اور فرقہ پرستانہ و خود غرضانہ مفادات کے حصول و تحفظ کی خاطر اکثر و بیشتر اکٹھے بھی  ہو جاتے ہیں ایک دوسرے کو برداشت بھی کرتے ہیں ، احترام بھی کرتے ہیں اور سب کی صلاۃ (نماز) بھی اک دوجے کی امامت میں قبول ہو جاتی ہے، ملّی یکجہّتی کونسل، متحدہ مجلس عمل ایم۔ایم۔اے (ملّا ملٹری الائنس)،  پی۔این۔اے، نو ستارے (تحریک نظام مصطفٰی) سمیت متعدد مواقع پر ان سب کے مابین مثالی اتفاق و اتحاد اور یکجہتی کے عملی مظاہر دیکھنے کو مل جاتے ہیں مگر افسوس کہ یہی عناصر اپنے اپنے فرقوں کر پیروکار لوگوں کو کہتے ہیں کہ دوسرے فرقے، مسلک یا مذہبی گروہ امام کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، سب ایک دوسرے کو گمراہ، کافر، مشرک اور مرتد تک کہتے ہیں اور مخالف فرقے، مسلک یا مذہبی گروہ کے مذہبی پیشوا عناصر اور ان کے پیروکاروں کے قتل کو باعث اجر و ثواب اور حج و عمرے کے برابر صالح عمل اور جہاد بتاتے ہیں کیا یہ منافقانہ روش اور قول و عمل میں کھلّے تضاد کی عکّاسی نہیں ہے؟؟؟ جب یہ سارے اپنے مشترکہ اور اجتمائی مفادات و اغراض کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمؑ، متحد اور متفق ھو جایا کرتے ھیں تو رحمۃ لِّلعالَمین صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے لائے ہوئے اصل دینِ اسلام قرآن و سنّۃ ِمصطفٰی علیہ التحیۃ والثناء، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے اسوۃ الحسنۃ  پر کیوں متحد و متفق نہیں ہو جاتے؟؟؟فرقہ پرستی چھوڑ کر الوھی ہدایت صراط مستقیم (القرآن والسنّہ) پر کیوں قبول نہیں کر لیتے، سب جانتے ہیں کہ فرقہ پرستی دین اسلام میں کفر و شرک کی طرح حرام ہے پھر بھی بد نیّتی کے ساتھ جان بوجھ کر اسی حرام عمل (فرقہ پرستی) کو دین اسلام بتا بتا کر لوگوں کو گمراہی و ضلالت میں کیوں دھکیلتے ہیں؟؟؟ کوئی اور نہیں بھی سوچتا تو کم از کم ہم خود تو سوچیں دین کے نام پر یہ کیا تماشہ لگا ھے، دین اسلام فقظ قرآن و سنۃ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر مبنی ہے۔ تفقہ فی الدّین فروعات میں ھوا کرتا ہے جیسا کہ ائمہء اربعہ کا باھم بعض فروعی مسائل میں اختلاف ہے جو امت کے لئے کسی بھی انتشار و افتراق یا مذہبی منافرت کا باعث نہیں بنا۔ اصول الدّین میں کسی کسی اختلاف کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں تو احناف (حنفیوں) میں بھی دو بڑے اور درجنوں ذیلی فرقے وجود میں لائے جا چکے ہیں اور امت مسلمہ کو تقسیم در تقسیم کر کے اسلام دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی جا رہی ہے۔ اللہ کے واسطے خود ذرا سوچئے ہر ایک نے اپنی قبر میں جانا ہے اور اپنا اپنا حساب دینا ہے، روز محشر کوئی فرقہ پرست ملّا مولوی کام نہیں آئے گا،خالق و مالک حقیقی اللہ ربّ العٰلمین اور امت کے غمگسار پیارے مصطفیٰ رحمۃ للعٰلمین صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو کیا منہ دکھائیں گے اور کیا جواب دیں گے جب پوچھا جائے گا میرے دین الاسلام کو چحوڑا تھا، فرقوں سے منع کرنے اور باز رہنے کی سخت تاکید کے باوجود فرقہ پرستی میں کیوں مبتلا ھوئے تھے، مولوی کی مان لی ھماری کیوں نہ مانی؟ سوچو تب ہم کیا جواب دیں گے۔ اللہ کی مانو، رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی مانو، قرآن کی مانو، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے اسوۃ الحسنہ پر چلو مولوی کی بھی ضرور مانو لیکن صرف اسی ایک صورت میں کہ جب وہ اللہ سبحانہ و تعالی، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم، قرآن، سنّۃ اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے اسوۃ الحسنہ پر چلنے کی تلقین و نصیحت اور تاکید کرے ورنہ مت مانو۔ خوب جان لو کہ محبوبِ ربّ العالمین، امام الانبیاء والمرسلین صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اور صحابہ ء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورائمہء مجتہدین و فقہاء سے بڑا اکابر کوئی اور نہیں ھو سکتا، کسی بھی اکابر کے پیچھے نبی صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم دامن رحمت مت چھوڑو۔ ورآن و سنّۃ کو لازم پکڑو باقی سب بعد میں آتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں فرقوں کے روپ میں سرگرمِ عمل فتنوں سے محفوظ اور اپنے حفظ و امن میں رکھے اور الوہی ہدایت یعنی قرآن و سنّۃ (صراط مستقیم) پر قائم رھنے کی توقیق عطا فرمائے۔
جناب شعیب کیانی نامی ایک ادیب نے مفروضے کے طور پر  ایک قیدی شیطان کا خط ایک مسجد کے پیش امام کے نام نقل کیا ہے جو کہ حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں ہم سب کے لئے لمحہء فکیہ ہے ملاحظہ کیجیئے
محترم جناب امام صاحب!
12 جون 2015 کو آپ نے جمعہ کے خطبہ میں بحکم الٰہی اعلان فرمایا تھا کہ اگلے جمعہ کو سبھی شیاطین قید کر لیئے جائیں گے.پھرمیں نے آپ کو اپنے ایک رفیق کے ذریعے سوال پیش کروایا کہ گراں فروشی ، شراب نوشی، رشوت، زنا، ڈکیتی، چوری غرض ہر گناہ بدستور جاری ہے.شیطان قید ہیں تو ایسا کیوں؟؟؟.. آپ نےسبھی ضعیف اور قوی اپنی اور دوسرے مسلک کی مصدقہ اور غیرمصدقہ احادیث میں سے جواب تلاش کیا ..جواب نہ ملنے پر کہہ دیا کہ صرف چھوٹے شیاطین قید ہیں.مگر آج میں آپ کو اپنے اس خط کے ذریعے کچھ باتیں بتلانا چاہتا ہوں ایک یہ کہ شیطان سب قید ہیں چھوٹے بڑے سب ...اور عید تک کسی کی رہائی ممکن نہیں...اور میں اس وقت اپنے آقا اور مرشد جناب ابلیس کی بارک کے ساتھ والے کمرے میں موجود ہوں. دوسری بات یہ کہ ہم قید ہیں تو ایسا کیوں ہے؟؟ کیوں مدینہ ٹیلر پر ہمارے قید ہوتے ہی سلائی دگنی ہو گئی؟ کیوں المکہ ملک شاپ پر دودھ میں یوریا اور ہیر ریموونگ پاؤڈر ملایا جا رہا ہے؟؟ کیوں مکی مسجد کی بیسمنٹ کے حجرے میں کسی ننھےفرشتے کی چیخیں گونجتی ہیں؟؟ کیوں الحرم سویٹس کی جلیبیاں مردہ جانوروں کی چربی اور آنتوں سے بنے تیل میں تلی جا رہی ہیں؟؟ شرابی نے شراب کیوں نہیں چھوڑی؟ سڑکوں پر جا بجا سکینہ ، زینب، فاطمہ ، مریم ، آسیہ اور عائشہ جیسے مقدس نام والی عورتیں گاہک کی تلاش میں کیوں کھڑی ہیں؟ کیوں محمد علی اور عبداللہ کے نام والے اہلکار رمضان میں رشوت لیتے ہیں؟؟ کیوں مارگلہ کی پہاڑیوں میں اور مساجد کے آس پاس کی بلڈنگوں میں زنا کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہو رہی؟؟؟ آپکی مسجد میں کتنے لوگ ہٹے کٹے روزے کے بغیر آئے ہیں؟؟ اگر ہم قید ہیں تو 70، 70 مردوں کو جہنم لے جانے والی نیم برہنہ عورتیں بازار میں کیوں نکل پڑی ہیں؟ اور انکے پیچھے 70،70 مرد کیوں چل پڑے ہیں؟؟؟ ان میں سے ایک بھی ایسا کیوں نہیں جو شیطانوں کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا ایمان بچا لے؟؟ آخر کیا مطلب ہم شیاطین کی گرفتاری کا اگر کہیں کوئی تبدیلی نہیں آئی ؟؟
جناب عالی مقام میں آپ کو کبھی تکلیف نہ دیتا . اگر پورا سال اپنے اور اپنے آقا پر لگنے والے الزامات سے تنگ نہ آجاتا. کچھ عرصہ قبل ایک مدرسے کے استاد نے اپنے معصوم شاگرد پر جنسی تشدد کر کہ اسے قتل کر دیا. کسی میڈیا رپورٹر نے وجہ پوچھی تو اس نے کہہ دیا "بس آنکھوں پہ پردہ پڑ گیا تھا جی! شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا" امام عالی مقام آپ نے اور میں نے اکٹھے واقعے کی مزمت کی فرق اتنا ہے کے اپ کو اس مولوی کی حرکت کی وجہ سے اپنی ساکھ خراب ہونے کا دکھ تھا جبکہ مجھے مرے آقا پر لگنے والی تہمت پر. جناب میں اور مرے آقا ابلیس کئی سالوں سے امریکہ اور اسرائیل میں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں کہ کس طرح یہود و نصار کے ساتھ ملکر ایمان والوں کا خاتمہ کیا جائے. ہم ایک مدرسے کے طالب علم پر کیوں ظلم کروائیؐں گے جو بڑا ہو کر ایمان والوں پر خود کش حملہ کر کے ہمارا منصوبہ کامیاب کرے گا.
میں اپنے مدعا کی جانب آتا ہوں. قبلہ یہاں ایک داروغےسے ملاقات ہوئی جو ہماری نگرانی پر معمور تھا . اسے فرشتہ نہیں لکھ سکتا کہ وحی کی بحث چھڑ جائے گی.اس سے میں نے سوال کیا کہ ہمیں کس جرم میں قید کیا گیا ہے؟؟ تو اس نے بتایا " اللہ نے تم شیاطین قید اس لیے کیا ہے کہ اپنے بندوں کو بتا سکے کہ شیطان کی عدم موجودگی میں بھی تم اتنے ہی سفاک، بے حیا، بے ایمان، جھوٹے، بے غیرت، زانی، اور وہ سب کچھ ہو جو خدا بھی کہتے ہوئے شرما جائے
اللہ سمجھانا چاہتا ہے کہ فاطمہ یا عائشہ نام رکھنے سے بیٹیاں پاک دامن نہیں ہوتی انہیں تعلیم ،شعور، تربیت، تحفظ اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی بھی ضرورت ہوتی ہے. اللہ ایمان والوں کو بتانا چاہتا ہے کہ کاروبار کا نام مدینہ ، مکہ، حرم، مدنی، محمدی رکھنے سے برکت نہیں آتی بلکہ ساتھ ساتھ سچ، ایمانداری، ملاوٹ سے پاک معیاری اشیا کی فراہمی بھی ضروری ہوتی ہے. سی ایس ایس میں اسلامیات کا ٹیسٹ لینے سے ایمانداری کا معیار پتہ نہیں چلتا بلکہ لوگ خاص کر ملازمین معاشی آزادی اور روشن مستقبل کی یقین دہانی سے ایماندار ہوتے ہیں. داروغے کا کہنا تھا کہ تم لوگوں کو قید کر کہ اللہ اپنے بندوں کو آئینہ دکھانا چاہتا ہے کہ اپنے گھریلو الجھنوں میں اولاد کو بھی وقت دو ان سے دوستی کرو تا کہ وہ ڈیٹ پر جا کر گناہ میں ملوث ہونے کے بجائے تمہارے ساتھ وقت گزاریں اور فحاشی میں کمی آئے. سبھی عورتوں کی فحاشی تمہاری پیدا کردہ ہے تم دیکھنا چھوڑ دو اپنی نگاہوں کی حفاظت کرو وہ کسے دکھائیں گی؟؟ جناب امام داروغے کا کہنا تھا کہ اللہ انسانوں کو بتانا چاہتا ہےکو شیطان کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے اگر اب اسے موت بھی آجائے تو بھی انسانوں کی برائی ختم نہیں ہو گی.اس نے مجھے طنزیہ نظروں سے دیکھا اور کہا تم شیطان تو اب بے روزگار ہونے والے ہو."
جناب میں آپ کو ہاتھ جوڑ کر منت کرتا ہوں آپ اپنے ہم پیشہ افراد جنہیں ؑعلما کہا جاتا ہے ان میں سے قدرے معقول آدمی ہیں. گو آپ بھی نماز کی اجرت لیتے ہیں مگر آپ باقی کئی معاملات میں تعاون نہیں کرتے. براہ کرم آپ اس خط میں سے ہمارے قید ہونے کا ماجرا عوام کو بتلا دیجئیے. انہیں اس حقیقت سے آگاہ فرمائیں کہ شیطان آج کے دور میں بہت معصوم ہو چکا ہے. بلکہ شرع سے معصوم ہےاسے تو عورت کو صرف اتنا بہکانا آتا ہے کہ وہ سدا سہاگن رہنے کے لیے سیب کا پھل خود بھی کھائے اور اپنے خاوند کو بھی کھلائے... شیطان کو تو ڈپلومیسی بھی نہیں آتی . اربوں انسان جھوٹی نیت سے سجدے کرتے ہیں کیا تھا اگر آدم کو سجدہ کر دیتا مگر شائد اسے منافقت نہیں آتی تھی. مرا آقا آج کے ساجدوں سے بہتر ہے جو سجدہ االہ کو کرتے ہیں اور اس کی اجرت کے پیسے اپنے پیچھے کھڑے نمازیوں سےلیتے ہیں اور نمازی ہونے کا ڈراما کر کہ لوگوں کو اور اللہ کو بیوقوف بناتے ہیں. کیونکہ آقا ابلیس کو معلوم تھا کہ خدا کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا.اس نے بجائے اللہ کو دھوکہ دینے کے مرتد ہونا پسند کیا.. امام صاحب ہم شیطانوں کو منافقت نہیں آتی فریب نہیں آتے.خدارا اپنے پیٹ کی بھوک اپنی جنسی حوس اور اپنی خالص انسانی حرکتوں کا ذمہ دار نسل شیطانی جیسی خدا شناس اور سٹریٹ فارورڈ مخلوق کو مت ٹھہرائیں. ہمارے ہاں انسان اشرف المخلوقات نہیں کیوںکہ ہمارے مرشد نے سجدے سے انکار کیا تھا اور اس انکار کا جواز بھی پیش کیا تھا انسان کے پاس خدا سے انکار کی کوئی دلیل ہے؟؟؟ کوئی جواز ہے؟؟؟ نہیں تو شیطان کو مت کوسیں اپنے اندر جھانکیں.
ؑفقط عبدالشیطان
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
راولپیڈی/ اسلام آباد سے ایک دوست ---نے بتایا کہ رمضان المبارک  کے آخری عشرے میں اعتکاف کے دوران مسجد کے اندر ایک صاحب سے ملاقات ھوئی جنہوں نے بتایا کہ ان کی عمر پچاسی سال سے زائد ہے اور بحمداللہ وہ 70 سالوں سے پانچوں وقت کی صلاۃ باقاعدہ طور پر پورے اہتمام کے ساتھ ادا کرنے کی سعادت سے بہرہ مند ہو رھے ھیں، سوال کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوف کو ثنا، تعوذ، تسمیہ، سورۃ الفاتحہ، کسی بھی سورۃ اور سورۃ الاخلاص، التحیات، درود شریف، کسی بھی دعائے ماثورہ و تسبیحات کے معانی کا کچھ بھی علم نہیں، وجہ پوچھی تو موصوف نے انتہائی سادگی اور معصومیت کے ساتھ بتایا کہ آج تک کسی بھی مولوی صاحب نے ترجمہ بتایا، سمجھایا  ،  سکھایا اور نہ ھی سیکھنے سمجھنے کو کہا پھر مجھے اس کی کوئی ضرورت کیونکر محسوس ہوتی۔چوہدری صاحب کے بقول انہوں نے ارادہ کر لیا کہ اب زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نماز کے معانی سے روشناس کروائینگے۔ عید کے بعد جب وہ اذان کے وقت مسجد پہنچ کر پیش امام و خطیب صاحب سے ملے اور ان سے اجازت طلب کی کہ فرض رکعتوں کے بعد وہ اعلان کرنا چاہتے ھیں کہ نمازی حضرات میں سے جو جو بھی نماز کے معانی سیکھنا سمجھنا چاہتے ہوں باقی نماز مکمل کر کے اس مقصد کے کئے وہ دس منٹ رک جائیں ،تو مولوی صاحب نے بگڑ کر چوہدریصاحب سے تاریخی جملہ ارچاد فرمایا "توں ماما لگدا ئیں کسے نوں نماز اوندی اے یا نئیں، چل نس جا۔ جدوں اسی انہان نوں ایہہ نیئوں دسدے تے ہور کسی نوں کی لوڑ   پیئی اے" مزید التجا کرنے پر مولوی صاحب نے فرمایا "ایہہ مسیت بریلویاں دی اے توں تے مینوں وھابی یا دیوبندی لگدا ایں۔ ایس مسیتے ایہہ نئیوں ھو سکدا چل جا میرا ٹیم ضائع نا کر" چوہدی صاحب کہتے ھیں کہ ان کو بہت دکھ پہنچا مگر ہمت کر کے اگلی نماز میں دیو بندیوں کی اور اس سے اگلی نماز میں اھلحدیث سلفیوں کی مساجد میں چلے گئے مگر وہاں سے ملنے والا ردعمل بھی پہلی مسجد مے امام و خطیب کے ردعمل سے کوئی زیادہ مختلف نہ تھا۔ وہ کہتے ھیں کہ اب ان کو ایسی مسجد کی تلاش ہے جو خالصتاً فقط اللہ سبحانہ و تعالی کا گھر ہو، کسی بھی مخصوص فرقے کا مذہبی مورچہ نہ ہو،  تاکہ وہ ایسے نمازیوں کو نماز کا ترجمہ اور معانی سکھا اور سمجھا سکیں جن کو پیشہ ور پیش اماموں اور خطیبوں نے اس سے اب تک محروم رکھا ہے کیوں کہ جب تک سمجھ نہ آئے نماز میں مطلوب و مقصود خشوع و خضوع پیدا نہیں ہو سکتا نہ ھی انہماک اور یکسوئی مل سکتی ہے جس سے نماز کو اس طرح پڑھا جا سکے جیسے اس کو پڑھنے کا حق ہے۔
مسلمانوں کے بیچ فرقہ پرستی کا گندہ زہراس قدر سرایت کر گیا ہے اب وہ ناسور بن چکا ہے۔ سرجیکل آپریشن کی فوری اور اشد ترین ضرورت ہے ۔  آجکل کے نام نہاد مذہبی و دینی عناصر دین اسلام (قرآن و سنت اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اسوۃ الحسنہ)کی دعوۃ نہیں دیتے، بلکہ ان کو پس پشت ڈال کر اور ان کے احکامات و تعلیمات کے برعکس فقط اپنے اپنے فرقے، مسلک و مشرب وغیرہم اور انکے خودساختہ نظریات و تعلیمات اور انسانی خیالات و بشری افکار کو فروغ دینے میں مصروف عمل نظر آتے ھیں جس کے منطقی و لازمی نتیجے کے طور پر مسلم معاشرے میں فرقہ واریت، مذہبی منافرت، انتشار و افتراق، دہشت گردی اخلاقی جرائم شدّت اور تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہےہیں، گمراہی و ضلالت پھیلتی چلی جا رہی ہے، مسلمانوں کے جسد ِ واحِد (ایک جسم) امت واحدہ ہونے کا تصور دم توڑ ہا ہے اور امت مسلمہ کے اتحاد و استحکام کی راہیں مسدود ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں ۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کو باہم لڑا کر ان کی اجتماعی طاقت اور وسائل کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ امت رسول صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو فرقوں میں بانٹ کر ، قرآن اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی سنّۃ (احادیث مبارکہ اور اسوۃ الحسنہ )، صحابہء کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین ، سلف صالحین ، ائمہء اربعہ، فقہاء عظام، مجتہدین کرام رحمت اللہ تعالٰی علیہم کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و محبت، جذبہء اطاعت و اتباع اور وابستگی کو کمزور سے کمزور تر کے غیر محسوس انداز میں بتدریج اور مرحلہ وار حکمت عملی کے تحت ہمیں اصل دین اسلام (قرآن و سنّۃ اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے اسوۃ الحسنۃ سے دور کیا جا رہا ہے اور فرقہ پرستی میں مبتلا کر دیا گیا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ قرآن و سنّۃ اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے اسوۃ الحسنہ کے احکامات و تعلیمات کے صریحاً برعکس من گھڑت، خود ساختہ، بالکل لغو، گمراہ کن، انسانی و بشری افکار و نظریات و تعلیمات کی پیروی پر لگا دیا گیا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ہم اصل حقائق کی جانب متوجّہ ہوں، قرآن و سنّۃ اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے اسوۃ الحسنہ کی تعلیمات و احکامات کے منافی اور ان سے متصادم کوئی بھی بات، حکم یا تعلیم قبول نہ کریں ، اپنے دین و ایمان کی خود حفاظت اور آخرت کی فکر کریں، بے شک موت برحق ہے اور اس دنیا کی بڑی حقیقت ہے۔ آیئے مرنے سے پہلے پہلے اوروں کے بجائے مصطفٰی صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے دامن رحمت کو تھام لیں اور رحمۃلّلعٰلمین صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے اسوۃ الحسنہ اور دیگر کے طور طریقوں پر ترجیح دیں کیونکہ ہمارے خالق و مالکِ حقیقی اللہ ربّ العٰلمین کا قرآن میں  یہی حکم ہے۔
کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ مدارس عربیہ، دینیہ و اسلامیہ کا انتظام و انصرام کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، ان مدارس عربیہ، دینیہ و اسلامیہ کا نصاب کیا ہے، وہاں کا ماحول کیسا ہے ،کس طرح کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔، قرآن مجید  ورسول اللہﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ )اور اسوۃ الحسنہ کی یا پھر اپنے اپنے ناطل فرقہ کے من  گھڑت، خود ساختہ، ضلالت و گمراہی پر مشتمل   انسانی و بشری قرقہ وارانہ و فرقہ پرستانہ افکار و نظریات کی، و ہاں پر داخلہ حاصل کرنے اور والے کون ہوتے ہیں، کہاں سے اور کیوں لائے جاتے ہیں یا پھر  آتے ہیں، اسکول کے بجائے ان مدارس عربیہ، دینیہ و اسلامیہ میں کس بناء پر، کونسی مجبوری کے باعث اور کیوں داخلہ لیتے ہیں، کیا یہ ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے یا پھر کوئی معاشی مجبوری ان کو یہاں پر کھینچ لاتی ہے، حصول علم دین اور خدمت دین کے جذبے سے سرشار ہو کر،  ذوق و شوق  اور اپنی مرضی  سے یا کسی اور وجہ یا مجبوری کے تحت وہ ان مفت تعلیم، خوراک، لباس، رہائش، علاج و معالجہ کی سہولیات دینے والے مدارس کا رخ کرتے ہیں یا لائے جاتے ہیں، ان کی سماجی، معاشی، معاشرتی، جسمانی، نفسیاتی و ذہنی صحت ،حالت و حیثیت و صلاحیت اور قابلیت کیا اورکیسی ہوتی ہے،  مدرسے میں ان کو کس صورتحال کا سامنا رہتا ہے، وہ معاشرے کے کس قدر پسماندہ  ترین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، کیسے ماحول میں رہ کر اور کیا سیکھتے ہیں، ان کا مقصد اور نصب العین اور مقصدِ حیات کیا ہوتا ہے، قرآن و  رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ اور اسوۃ الحسنہ کے احکامات و تعلیمات کے بجائے  اپنے اپنے فرقوں کے پرچار و فروغ میں کیوں مصروفِ عمل ہو جاتے ہیں، ان کی اوّلین ترجیح قرآن و  رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ اور اسوۃ الحسنہ  کے بجائے  اپنا فرقہ کیوں بن جاتی ہے، وہ قرآن و  رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ اور اسوۃ الحسنہ پر اپنے فرقہ کی خود ساختہ، من گھڑت، ضلالت و گمراہی پر مبنی  افکار و نظریات کو قرآن و  رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ اور اسوۃ الحسنہ پر اوّلیّت و فوقیت کیوں دینے لگ جاتے ہیں، فرقہ پرستی، مذہبی منافرت کو ہی اپنا محبوب موضوع و عنوان کیوں بنا لیتے ہیں قرآن و سنّۃ اور اسوۃ السنہ کے موضوعات اور عنوانات پر وعظ و نصیحت اور بیان کیوں نہیں کرتے؟
      ان جیسے متعدد اور متعلقہ سوالات کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ انہی کے نتائج سے ہی یہ معلوم ہو سکے گا کہ ان نام نہاد مذہبی عناصر سے حق گوئی و بے باکی، اعلائے ، کلمة الحق، اصول پرستی، تقویٰ و قول و عمل میں مطابقت، دین کی بے لوث اور سچی خدمت، قرآن و سنة کی تعلیمات، تقوی اور دینداری اور دیانت داری و فرض شناسی، اسلام کے غلبے اور سر بلندیاور اتحاد امت کے جذبے کی توقع عبث و بے کار اور بے سود کیوں ہے۔
قاری صاحب نے فخریہ طور پر بتایا کہ الحمد للہ! انہوں نے اپنی ساری عمر قرآن مجید کو پڑہنے اور پڑہانے میں صرف کی ہے سینکڑوں بار پورا قرآن مجید پڑہا اور پڑہایا ھے، کسی نے ان سے پوچھا کہ سود اور تجارت کے بارے میں قرآن مجید میں اللھ سبحانہ و تعالی نے قرآن میں کیا کیا حکم ارشاد فرمایائے ہیں؟ تو قاری صاحب خاموش ہو کرکسی گہری سوچ میں پڑ گئے، استفسار پر انہوں نے  کمال بے اعتنائی سے فرمایا کہ مجھے قرآن کی کسی ایک بھی آیت بلکہ لفظ تک کے معانی و مطالب کا کوئی علم ہی نہیں ہے، قاری صاحب نے مزید فرمایا کہ میں نے تو ثواب کے حصول کی نیّت سے ہمیشہ قرآن مجید کو بغیر سمجھے اور سمجھائے صرف روکھا پڑھا اور پڑھایا ہے۔ جب ان سے معلوم کیا کہ کیا  اللہ کا کلام کتاب ہدایت قرآن مجید کو فقط اسی ایک مقصد کیلئے اتارا گیا ہے یا اس کو سمجھ کر پڑھنے اور  پڑھ کر سمجھنے، اس میں  غور و فکر کرنے اور اس کی اصل روح کے مطابق اس کی تعلیمات  اور دیئے گئے پیغام کو  پوری اور اچھی طرح سمجھنے اور اس کی اطاعت و اتباع کرنے کی بھی کوئی ضرورت ہے؟ تو اس بات/ سؤال کا قاری صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ قاری صاحب کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ قرأۃ یا تلاوۃ کا معنٰی سمجھ کر پڑھنا ہوتا ہے۔
      معاشرے کے متوسط و معززطبقے سے تعلق رکھنے والے وضع دار اور صاحب حیثیت لوگوں اور حکمرانوں کو چاہئے کہ  فرقہ پرستی کا خاتمہ کےلئے انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادکی طرز پرہر ایک ضلع میں ایسی اسلامی جامعات  قاےم کریں جو وقت کی اہم ضرورت ہیں جن پرفرقہ واریت کی چھاپ کا نام و نشان اور شائبہ تک بھی نہ ہو۔ جن کا ماحول و سہو لیات اور معیار تعلیم کسی طرح بھی نیچرل سائنسز اورسوشل سائنسز کی نامور سرکاری و نجی جامعات سے کسی طور کم نہ ھواور جن میں تقوی اوراسوة الحسنہ کے مطابق بترویں دینی تربیت کا بھی بھرپور انتظام ھو، پڑھایا جانیوالا نصاب بھی عصری و ملی تقاضوں سے ھم آھنگ ھو، فرقہ پرستی کا نام و نشان بھی نہ ہو، جس سے عربی و اسلامی علوم و فنوں اور متعلقہ علوم و فنون میں کامل ماگرت کو یقینی بنایا جا سکے اور ان کے ساتھ ساتھ جدید و مروجہ عصری علوم سے بھی ضروری حد تک ھر طالبعلم کو روشناس کرایا جا سکے، تاکہ ان میں معاشرے کے وضع دار اور صاحب حیثیت خاندانوں، متوسط و معززطبقات سے تعلق رکھنے والے ذھین، قابل و لائق، جسمانی و ذھنی طور پر مکمل صحتمند، عمدہ، مثبت و تعمیری صلاحیت، اخلاقی جراء ت، خودی و خود داری،مضبوط قوت ارادی، مستقل مزاجی، استقامت اور حق بات کہنے کی ھمت و حوصلہ کے حامل، خوبصورت و خوب سیرت بچے ذوق و شوق کے ساتھ میرٹ پر داخلھ حاصل کرنے میں فخر محسوس کریں اوراس جانب متوجہ ھو سکیں جومسلم معاشرے کی اھم ضرورت ھے۔  صحیح اسلامی اسکالر(عالم دین) مبلغ اسلام، مصلح اورمعاشرے کا ایک ذمہ دارصالح فرد، مفید و فعال شرکی بننے کے ساتھ ساتھ ان طلبہ  کوڈاکٹر، انجینیئر، آفیسر، تاجر، سی۔ایس۔ایس اور آئی۔ایس۔ایس۔بی سمیت مقابلے کے تمام امتحانات  پاس  کر کے اعلی فوجی و سول آفیسربننے کے بھی مساوی مواقع حاصل ھو سکیں۔
جب معاشرے میں ایسے اسلامی اسکالرز (علماء دین) مناسب تعداد میں موجود او اخلاص قلبی و صدق نیت کے ساتھ محض اللہ سبحانہ و تعالی کی رضاء و خوشنودی اور معرفت کے حصول کی غرض سے بے لوث ھو کر اعلائے کلمة الحق کے لئے سر گرم عمل ھو جائیں گے تو پھر مسلم معاشرے میں اصلاح بھی ھو سکے گی، اسے امن و انصاف، مساوات اور فلاح حاصل ھو گی ، نااہل اور عاقبت نا اندیش مفادات کے اسیر نام نہاد مولویوں کی اجارہ داری اور فرقہ پرستی سے نجات حاصل ھو گی، اتحاد امت اور دین اسلام کے غلبے و سربلندی کی راہ ھموار ھو سکے گی
دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ عربی زبان لازمی کی جو تعلیم، 1982 سے، چھٹی تا آٹھویں جماعت تک کے تمام مسلمان پاکستانی طلبہ کو دی جا  رہی ہے اس کی با مقصد اور مؤثر تدریس و تعلیم کو بہ ہر حال یقینی بنایا جائے اور اس کو بتدریج و مرحلہ وارگریجوایشن کلاسز تک لازمی قرار دے دیا جائے تاکہ کم از کم تعلیمیافتہ  پاکستانی مسلمان تو کتابِ  ھدایت  قرآن مجید کو اور صلاۃ (نماز) کو سمجھ کر پڑہ ھ سکیں اور پڑھ کرسمجھ سکیں کیوں کہ نزول قرآن اور فرضیت صلاۃ (نماز) کے اصل مقاصد اس کے بغیر حاصل ہو نہیں سکتے  اور  اسی وجہ سےمسلم معاشرے میں ان  کی کوئی تاثیر بھی نمایاں  نظر نہیں آ رہی ھے۔ اسلامی جمہوریہء پاکستان میں آئینی و دستوری طور پر بھی قرآن و سنۃ پر مبنی دین اسلام اور نبی آخر الزّماں صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کی زبان عربی کا فروغ حکومت کی اہم ذِمّہ  داری بنتی ہے- عربی زبان سیکھ کر جب پاکستانی مسلمان قرآن مجید اور سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم (صحیح احادیث مبارکہ) کو سمجھ پڑھنے اور پڑھ کر سمجھنے کے قابل ہوں گے تو تب فرقہ وارانہ دہشت گردی، فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کا  خاتمہ  بھی ممکن ہو سکےگا۔
فرقہ پرستی کا جڑ سے خاتمہ کرنا ضروری ہے اس مقصد سے پاکستانی کی پارلیمنٹ، سول و ملٹری اسٹبلشمینٹ، الیکٹرونک و پرینٹ میڈیا سمیت معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق اور درد مند دل رکھنے والے انٹلیکچوئلز اور عام  شہریوں کو متحد و منظم ہو کر ضربِ عضب کی طرز پر مؤثر آپریشن کلین اپ کرنا ہو گا اور قومی ایکشن پلان کے ایجنڈے میں اسے سرفہرست اوّلین ترجیح بنانا پڑے گا کیوں کہ یہی فرقہ پرستی ہر قسم کی دہشت گردی، شدّت پسندی، انتہا پسندی، کی اصل جڑ اور نرسری ہے اس کا قلع قمع کئے بغیر باقی سارے اقدامات سے مطلونہ نتائج کا حصول ناممکن ہے۔ ضروری ہے کہ مساجد و مدارس دینیہ و عربیہ و اسلامیہ پرآویزاں فرقہ پرستی کے تمام تر کتبوں، علامات و نشانات کا خاتمہ کر دیا جائے، ان کو فقط اللہ سبحانہ و تعالٰی کے کلام قرآن مجید یعنی وحی متلوّ، سنۃ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ و سلّم (اسوۃ الحسنۃ) یعنی وحی غیر متلوّ کی تعلیم و تربیّت، اطاعت و اتباع اور تعلیم و تدریس تک محدود کر کے فرقہ وارانہ افکار و نظریات اور گمراہ کن  تعلیمات پھیلانے اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے سے بہ ہر صورت روکا جائے۔  کسی بھی مسجد یا دینی مدرسے پر کسی خاص فرقے، مسلک یا مکتبہء فکر کی چھاپ ہر گز نہیں ہونی چاہئے۔ اخوّۃ اسلامی کو فروغ دیا جائے، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سمیت ابلاغ عامہ کے تمام  تر ذرائع اور وسائل کو بروئے کار لا کر، ان کے  ذریعے  لوگوں کو فرقہ پرستی کے خلاف ، قرآن و سنۃ کے احکامات و تعلیمات سے بڑے پیمانے پر روشناس کروایا جائے، مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی بھیلانے کو قابل دست اندازی پولیس جرم  اور دہشت گردی قرار دیا جائے، دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کا لازمی حصہ بنایا جائے، جس کی سزا عمر قید ہو ، مقدمات کا فیصلہ سرسری سماعت کی فوجی یا سول کورٹس میں چلا کر ایک ہفتے کے اندر سزائیں سنائی جائیں  تو ان شاء اللہ المستعان فرقہ پرستی کا زہر (جو اس وقت مسلم معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے ہے)  اس کو بتدریج اور مرحلہ وار سرجیکل آپریشن کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ عام مسلمان فرقہ پرستی سے کافی حد تک اکتائے ہوئے ہیں وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کے کلام قرآن مجید یعنی وحی متلوّ، سنۃ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ و سلّم (اسوۃ الحسنۃ) یعنی وحی غیر متلوّ پر مبنی الوہی ہدایت یعنی اصل دین اسلام  کو قبول کر لیں گے جس کو حضرت محمد مصطفیٰ  صلّی اللہ علیہ واٰلہ و سلّم  لائے ، عام مسلمان بآسانی فرقہ پرستوں کے خود ساختہ مذہبی افکار و نظریات سے تائب ہو جائیں گے،  البتہ  دین اسلام، مسلم امۃ اور قومی مفاد میں مسلم معاشرے میں پھیلائے گئے فرقہ پرستی  کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئےبعض نام نہاد مذہبی عناصر کو ڈنڈے کے زور سے سیدھی راہ صراط مستقیم پر لانا پڑے گا اور ان کو ضلالت و گمراہی پر مشتمل انسانی افکار ونظریات کی بناء و اساس پر قائم فرقوں (جو دراصل اسلام کے خلاف جاری فتنوں سے کسی طور کم نہیں) سے لاتعلقی اختیار کرنے پر آمادہ کرنے میں تھوڑی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ دین اسلام میں فرقوں کے وجود کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے اور ان کو بنانا، تسلیم یا قبول کرنا، ان کے ساتھ وابستگی رکھنا، ان کو جائزسمجھنا دین اسلام میں حرام اور گناہ کبیرہ ہے، ان کی سرکوبی، سدّباب  اور تدارک ہر مسلمان اور مسلم ریاست کا اوّلین اور مقدّس فریضہ ہے۔
فرقہ پرست، اکابرپرست، مقابر پرست، مسلک پرست، جماعت پرست، مفاد پرست مولویوں کے سدھرنے کا تو بظاھر کوئی امکان نظر نہیں آتا البتہ عام مسلمانوں بالخصوص تعلیمیافتہ طبقے اور نوجوان نسل کو ضرور سوچنا چاھیئے اور ان فرقہ پرست، اکابرپرست، مقابر پرست، مسلک پرست، جماعت پرست ملاؤں مولویوں کے پیچھے لگنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر قرآن مجید اور سنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی تعلیمات کوسمجھنے کی کوشش اور اس کی اطاعت و اتباع کرنی چاھئے اور فرقہ پرست، اکابرپرست، مقابر پرست، مسلک پرست، جماعت پرست، پیر پرست مولویوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ھر سطح پر حوصلہ شکنی کرنی چاھئے اور اپنی تمام تر محبت و عقیدت اور وفاداری کا مرکز و محور، اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی، امام الانبیاء رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو بنانا چاھئے اوریھی ایمان کا اولین تقاضہ بھی ھے
خوب جان لو کہ قرآن و سنۃ سے سند، دلیل، ثبوت، تصدیق کے بغیر کسی کی بھی اپنی خودساختہ، خود غرضانہ، بناوٹی اورمفاد پرستانہ باتوں، خود ساختہ نظریات کا اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ دین، "الاسلام" یعنی قرآن و سنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر مبنی دین حق "الاسلام" سے کوئی تعلق یا واسطہ اور سروکار نہیں ھے۔
زندگی کی بس فقط ایک ہی تمنّا و آرزو ہے ۔۔۔۔۔ امّۃ مصطفوی فرقوں کی آفتوں اور تباہ کاریوں سے بچ جائے، یکجاں ہو کر جسدِ واحد کی طرح سے امّۃ واحدہ بن جائے اللہ کے بندوں اور اللہ کی زمین، پر اللہ کے دینِ حق الاسلام  کا غلبہ ہو جائے، یہی وہ مقصد ہے جس کو پیارے نبی ﷺ نے اور صحابہء کرام رضوان اللہ عنہم نے اپنا مقصدِ حیات بنائے رکھا مگر افسوس کہ ہم نے اپنی منزل ہی بدل لی اور دنیا میں ذلیل و خوار اور رسواء ہو گئے۔ اے کاش کہ ہم اب بھی سدھر جائیں اور اپنے مقاصدِ دین کا ادراک کرلیں، نبی ﷺ کے اسوۃ الحسنہ کو اپنا لیں۔ اب بھی منزل دور نہیں ہے۔ جسدِ واحد تحریک کا نصب العین بھی فقط یہی ایک ہے یعنی  کامل اخلاص قلب و صدق  نیت کے ساتھ  الله  رب العالمين كى  رضا،خوشنودى اور معرفت کے حصول کی  غرض سے،  قرآن مجید اور سنت  رسول الله(  صلى الله  عليہ و آلہ و اصحابہ و بارك  وسلم )کی تفہیم، تعمیل(  اطاعت  و اتباع)، تبليغ،  وترويج  و تنفیذ،  امربالمعروف و نہی عن المنکرے لئے، رحمت للعالمین  ﷺکے اسوہء حسنہ  و  سیرت  طیبہ   اور صحابہءکو اپنانا۔ ان شاءاللہ تعالی!  نبوی  منہاج کے مطابق ، الله  سبحانہ و تعالى کے  بندوں اور  اس کی  زمین  پر اسی کے  پسندیدہ   دین حق، "الاسلام" (نظام مصطفی (  صلى الله  عليہ و آلہ و اصحابہ و بارك  وسلم ) کو قائم وغالب کرنے کی مخلصانہ جد و جہد کے لئے ایک  ایسی  ہمہ جہت،  عالم گیر،    مربوط،منظم،  مؤثر،  با مقصد اور نتیجہ  خیز تحریک  برپا کرنا  جس کے نتیجے میں  دين  اسلام کےاحیاء و غلبے اور امة  مسلمہ کے اتحاد   و استحکام ،امن عالم اور فلاح انسایت کی راہ    ہموار ھو  سکے۔
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا۝۸۰ۭ   (النساء)
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا  اور جس نے منہ پھیرا تو ہم نے تمہیں ان کے بچانے کو نہ بھیجا۔  شان نزول: رسُولِ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبّت کی اس پر آج کل کے گستاخ بددینوں کی طرح اس زمانہ کے بعض منافقوں نے کہا کہ محمد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں رب مان لیں جیسا نصارٰی نے عیسیٰ بن مریم کو رب مانا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے رَدّ میں یہ آیت نازل فرما کر اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کلام کی تصدیق فرمادی کہ بیشک رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاؕ- سورۃ الاحزاب آیۃ-36
کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۰ۧ [٤٩:١٠]
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔
رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وبارک و سلّمنے فرمایا "لایؤمن احدکم حتیٰ اکونَ اَحَبّ اِلیہ من وّالدہ و ولدہ والناّس اجمعین" (متفق علیہ)تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک ایمان والا نہیں بن سکتا جب تک کہ میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم) اسے اپنے والد، بیٹے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر  محبوب نہ بن جاؤں، یعنی ایمان کا اولین تقاضہ ھے کہ انسان کو  والدین، اولاد اور سارے انسانوں سے زیادہ محبت (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم) کے ساتھ قائم و دائم رہے اور اس محبت کا اولین تقاضہ ھے کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم)کے دین الاسلام اور اسوۃ الحسنہ کی اطاعت و اتباع کی جائے اور کے مقابلے میں کسی بھی دوسرے انسان کی محبت، فرماں برداری، اطاعت و اتباع اور کسی بھی دوسرے جذبے اور چیز کو اس پرکو  اولیت، ترجیح اور فوقیت ھرگز نہ دی جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے واضح احکامات و تعلیمات ہیں کہ جن میں تفرقے (فرقہ پرستی) کی سخت ممانعت ہے لہذا   ایمان کا تقاضہ ھے کہ فرقوں کے بانیان و اکابرین اور فرقہ پرست علمائے کرام  کے اقوال و ارشادات اور تعلیمات  پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کی تعلیمات کو ترجیح، اولیت اور فوقیت دے کر فرقہ پرستی سے لاتعلق ہو جائیں، فقط مسلمان کہلائیں، قرآن و سنت پر مبنی دین اسلام کو ہی صرف اپنا دین و مذہب جانیں-
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۱ (آل عمران)اے محبوب (ﷺ)! آپ  فرما دیجئے  کہ  لوگو  اگر  تم  اللہ  کو  دوست  رکھتے  ہ و تو  میرے  فرمانبردار  ہو جاؤ  اللہ تمہیں  دوست  رکھے  گا  اور  تمہارے  گناہ  بخش  دے  گا  اور  اللہ  بخشنے  والا  مہربان  ہے، (آل عمران/31) حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’المومن اخو المومن کالجسد الواحد أذاشتکی شےئا منہ وجد ألم ذلک فی سائر جسدہ لان أرواحہم من روح اللہ تعالیٰ و ان روح المومن لاشد اتصالا بروح اللہ من اتصال شعاع الشمس بھا‘‘(المومن ص ۳۸) مومن مومن کا بھائی ہے یہ ایک جسم کی طرح ہیں کہ جب بدن میں سے کسی جز ء میں اذیت ہوتی ہے تواس کا درد پورے بدن میں پایا جاتا ہے کیونکہ ان کی روحیں اللہ کی روح سے متصل ہیں اور سورج کی شعاع کا جو اتصال سورج سے ہوتا ہے اس سے بڑھ کراتصال ایک مومن کی روح کا اللہ سے ہے۔أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم قال: "المؤمِن أخو المؤمن كالجسَدِ الواحد، إذا سقط منه شئٌ تَداعى سائرُ الجسد"۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "یہ امت جسدِ واحد کی طرح هے کہ ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم بے چین رہتا هے"
صحیح بخاری، كتاب الأدب، کتاب اخلاق کے بیان میں،  (حدیث نمبر: 6011) باب رحمة الناس والبهائم، باب: انسانوں اور جانوروں سب پر رحم کرنا۔
حدثنا ابو نعيم حدثنا زكرياء عن عامر قال:‏‏‏‏ سمعته يقول:‏‏‏‏ سمعت النعمان بن بشير يقول:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"ترى المؤمنين في تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم كمثل الجسد إذا اشتكى عضوا تداعى له سائر جسده بالسهر والحمى"۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏"تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عامر نے کہا کہ میں نے انہیں یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے نعمان بن بشیر سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ لطف و نرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے کہ جب اس کا کوئی ٹکڑا بھی تکلیف میں ہوتا ہے، تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ایسا کہ نیند اڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔"
صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب، کتاب ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه، باب: کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم نہ کرے اور نہ کسی ظالم کو اس پر ظلم کرنے دے۔ حدیث نمبر:2442
حدثنا يحيى بن بكير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب ان سالما اخبره ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما اخبره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ " المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه ومن كان في حاجة اخيه كان الله في حاجته ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة ".
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَالِمًا أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:‏‏‏‏"الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔
ویسے  تو خیر ہم  ہم سب مسلمان زبانی و کلامی  اور بعض مواقع پر عملاً بھی بلا شبہ ، اپنا تن، من، دھن یعنی جان و دل،  مال و دولت، آباء  و اجداد او ر اولاد سب کچھ  اپنے پیارے نبی حضرت محمّد مصطفٰی صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی عطمت کی خاطربلا دریغ قربان کرنے کو ہرلمحہ، ہرلحظہ، ہرساعت اور ہرآن تیّار نظر آتے ہیں، مگر۔۔۔ کیا ہم اپنے خالق و مالکِ حقیقی اللہ رحمٰن و رحیم سبحانہ و تعالٰی اور رحمۃ للعالمین صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی تعلیم اور واضح احکامات پرعمل کرکے،  اپنے پیارے نبی حضرت محمّد مصطفٰی صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی عظمت کی خاطر، فرقوں سے لا تعلّق اورعلیٰحدہ نہیں ہو سکتے؟
 اپنے پیارے نبی حضرت محمّد مصطفٰی صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہو کر صرف مسلمان نہیں کہلا سکتے؟
صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین کرام، سلف و صالحین، ائمہء فقہاء عظام و مجتہدین کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، خیرالقرون اور قرونِ وسطٰی کے اکابرین امّت، علماءِ کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر،قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی پیروی، اطاعت و اتباع کر کے ھوئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی جماعت یعنی ایک "امّۃِ مسلمہ" نہیں بن سکتے؟
کل کے علماء، جوہمیں قرآن و سنّۃ واسوۃ الحسنہ کی واضح تعلیم واحکام کے صریحاً برعکس، اپنے اپنے خود ساختہ، من گھڑت، بے بنیاد، گمراہ کن انسانی افکارونظریات کی تعلیم دے کر مسلمانوں میں تفرقہ اور مذہبی منافرت پیدا کر رہے ہیں کیا یہ نام نہاد مذہبی عناصر، صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین کرام، سلف و صالحین، ائمہء فقہاء عظام و مجتہدین کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، خیرالقرون اور قرونِ وسطٰی کے اکابرین امّت، علماءِ کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سے بڑے عالم، زیادہ دیندار و متّقی اور صالح ہیں؟
 خوب جان لیجیئے کہ اللہ، رسول اللہ ﷺ نے فرقوں کو حرام اور ممنوع قرار دیا ھے قرآن و سنّۃ کی اطاعت و اتباع باقی سب پر مقدّم ہے یہی بات سارے صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین کرام، سلف و صالحین، ائمہء فقہاء عظام و مجتہدین کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، خیرالقرون اور قرونِ وسطٰی کے اکابرین امّت، علماءِ کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نت بتایئ ہے پھر کیا وجہ ہے ھہ ہمارے رویّون سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے لئے آج کل کے مولوی کا بتا ہوا باقی سب پر مقدم ہے اور ہم اپنے مولوی کی بات کو ھر حال میں ترجیح، اوّلیّت و فوقیت دینے پر تلے ہیں جب کہ اس کی فرقہ پرستی کی تعلیم قرآن کی صریح آیات سے، رسول اللہ ﷺ کی متفق علیہ سنّۃ و حدیث سے حرام ثابت ھے اس پر سخت ترین وعید ہے سارے کے سارے صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین کرام، سلف و صالحین، ائمہء فقہاء عظام و مجتہدین کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، خیرالقرون اور قرونِ وسطٰی کے اکابرین امّت، علماءِ کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے فرقہ پرستی کو حرام قرار دیا اور اس سے ہر قیمت پر بچنے کی مسلمانوں کو تاکید و تلقین کی ہے تو پھر میرا مولوی ان سب سے بڑا کیسےہے ؟؟؟ کہ مجھے تو بس اک اسی ہی کی بات کو حرفِ آخر اور صحیح ماننا ہے۔ اس غیردانشمندانہ رویّے اور روش کا کیا کوئی بھی کوئی معقول جواز ، حیلہ یا تاویل ممکن ہو سکتی ہت؟ یقیناً نہیں!
مسلمانانِ عالَم صرف باہمی اتحاد و یکجہتی اور لگانگت کا مظاہرہ کر کے ہی اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکتے ہیں جس کے لئے سب سے پہلے فرقہ پرستی کو ترک کرنا، اس سے تائب ہونا لازمی تقاضہ ہے کیونکہ یہی حرام و ممنوعہ عمل مسلمانوں کے اُمتِ مسلمہ بننے کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے اگر ہم نے اس سے چھٹکارا پا لیا تو پھر مسلمان جسدِ واحد کی طرح امّۃ واحدہ بن جائیں گے۔ اور پھر انہیں اپنا کھویا ہوا باوقارعروج واپس مل سکتا ہے مگر۔۔۔  اس منزل کو حاصل کرنے کا واحد رستہ اللہ  تعالٰی کا دین (نورِ ہدایت قرآن مجید، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ) پر یعنی صراط، مستقیم  ہے۔ ہمیں اپنے اپنے من پسند و من گھڑت، بناوٹی مذہب چھوڑ کر اسی پر کامل اخلاص واستقامت کے ساتھ پر چلنا ہو گا، اور اپنے موجودہ رویّوں کے برعکس،  باقی سب کی پیروی، اطاعت و اتباع  پر اللہ کےدین   "الاسلام " کو اوّلین ترجیح، اور فوقیت دینا ھو گی جو کہ فقط   اللہ تعالٰی کے کلام، نورِ ہدایت قرآن مجید،  رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ  سے حاصل ہونے والی تعلیمات و احکامات پر مبنی و مشتمل ہے۔
"سب سے پہلے اللہ تعالٰی کا کلام قرآن مجید اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی سنّۃ و اسوۃ الحسنہ یعنی تعلیمات و احکامات"
 باقی سارے محترم اکابرین، مشائخ و علماء بھی بھی سر آنکھوں پر مگر ان کے بعد بشرطیکہ اکابرین، مشائخ و علماء کا کے کسی بھی بات،حکم یا تعلیم و طریقے کو ماننے   سے اللہ تعالٰی اور و رسول اللہ ﷺ کی کسی بات، حکم یا تعلیم کی نافرمانی لازم نہ آتی ہو!
یہی  نعرہء حق اور  اسلام کا بنیادی اصول  ہم سب مسلمانوں کا نصب العین، مقصدِ حیات، سوچ و فکر اور جدّو جہد کا مرکز و محور ہونا ضروری ہے۔ ورنہ  پھریہی خواری، ذلّت و رسوائی دنیا و آخرت میں مقدّر بنےی رہےگی، جس سے  کہ ہم اب دوچار ہیں۔
 اللہ تعالٰی ہم سب مسلمانوں پر اپنا خاص لطف و کرم اور رحم کرے، فرقےہ پرستی چھوڑ کر امّت مصطفوی  میں شامل فرمائے ، باقی سب سے جان چھڑائے، دوسری ساری پہنچانیں مٹائے،  اپنا اطاعت گذار  اور صالح بندہ بنائے،    اسوۃ الحسنۃ کو اپنانے ،صرف مسلمان اور مومن کہلانے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔آمین!
اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی رحمن و رحیم اپنے خاص فضل وکرم اور رحمت سے ہمیں، طاقت اور توفیق عطا فرمائے کہ ھم اخلاص قلبی اور صدق نیت کے ساتھ قرآن مجید اور سنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو صحیح طرح پڑھ و سمجھ سکیں، ھمیں قرآن و سنۃ کا صحیح اوردرست علم و فھم، ان کے حقیقی معارف ومعانی، احکام و پیغام، اوامر و نواہی،  حقوق اللہ اور حقوق العباد، مقاصد اصلی  کا صحیح شعور و ادراک اور معرفت حاصل ھو جائے، اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی ھمیں ھمت، طاقت اور توفیق عطا فرمائے کہ ھم ذوق و شوق کے ساتھ قرآن و سنۃ کی مکمل اور کماحقہ تفھیم ، اطاعت و اتباع، تعمیل و تبلیغ، ترویج و تنفیذ، غلبے اورسربلندی کے لئے ایسی بامقصد اورمخلصانہ جد و جہد کر سکیں کہ جواللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کومقصود و مطلوب ہے۔
 اللهم آمین و تقبل منا يا ارحم الراحمين بحرمة و ببرکة و بوسیلة رحمة للعالمين صلى الله عليه وعلى اله الطيبين وأهل بيته الطاهرين وأزواجه الطاهرات أمهات المؤمنين وأصحابه الابرارالكرام الطيبين أجمعين وملا ئكة المقربين وسائرعباد الله الصالحين وبارك وسلم۔
 تمّت بِالخیر!   وما علینا اِلّا البلاغ المبین! 


No comments:

Post a Comment