علماءِ سوء کا بھیانک کردار اور علماءِاسلام (علماءِ حق) کے فرائضِ منصبی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علماءِ سوء کا بھیانک کردار اور علماءِاسلام (علماءِ حق) کے فرائضِ منصبی
الله سبحانہ و تعالٰی کا ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ كَذٰلِكَ۰ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ
(سورۃ فاطر، آیۃ-28) مفہوم: "اور انسانوں جانورں اور چوپایوں کے بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں الله سے تو اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں (حق اور حقیقت کا) بلاشبہ اللہ نہایت ہی زبردست بڑا ہی بخشنے والا ہے"
جمادات کی طرح حیوانات کی بھی مختلف قسمیں : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ "انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے بھی مختلف رنگ ہیں" ۔ سو یہ بھی اس قادر مطلق کی بےپایاں قدرت و عظمت کی ایک بڑی نشانی ہے کہ اتنے لاتعداد اَفراد میں سے کوئی بھی دو فرد آپس میں ایک جیسے نہیں ہیں۔
بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ جمادات کی طرح انسانوں، جانداروں اور چوپایوں میں بھی قدرت کی ایسی ہی گوناگونی اور بوقلمونی پائی جاتی ہے۔ بلکہ ان کی یہ رنگا رنگی صرف ظاہر تک محدود نہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ بوقلمونی ان کی صورت سیرت، عادت و صفات، اَطوار و خصوصیات اور مزاج تک میں پائی جاتی ہے اور یہ فرق و اختلاف ان تمام اعتبارات سے ظاہر اور واضح ہے۔ سو جس طرح ہر جانور سے دودھ کی توقع نہیں کی جا سکتی اسی طرح ہر انسان سے خوف و خشیتِ الٰہی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ بہرکیف خالق کائنات جل جلالہ کی مخلوق کی یہ گوناگونی اور بوقلمونی اپنے اندر عظیم الشان درسہائے عبرت وبصیرت رکھتی ہے ان لوگوں کے لیے جو صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لیتے ہیں - وبالله التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل-
بہرکیف مخلوق کی یہ بوقلمونی خالق کی عظمت کی ایک کھلی دلیل ہے - سبحانہ وتعالیٰ
علم حقیقی کا ثمرئہ و نتیجہ خوف وخشیتِ خداوندی سے سرفرازی : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ علم حقیقی کا ثمرہ و نتیجہ خوف و خشیتِ خداوندی سے سرفرازی ہے ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں" ۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ الله تعالٰی سے ڈرتے نہیں وہ عالم نہیں اگرچہ وہ کتنی ہی کچھ ڈگریاں اور کیسی ہی کچھ سندیں اپنے پاس کیوں نہ رکھتے ہوں کیونکہ یہاں " اِنَّما " کا کلمہ ٔحصر اختیار فرمایا گیا ہے۔ اور "العلماء" میں الف لام جو کہ مفیدِ عموم ہے۔ سو اس سے واضح ہو گیا کہ جو الله سے ڈرتا نہیں وہ عالم نہیں "اَفَادَ انَّہ مَنْ لم یخش اللہ لم یکن عالما" (جامع البیان : ج 2 ص 190)۔
اسی لئے سلف سے منقول ہے کہ علم کثرت کلام کا نام نہیں بلکہ وہ حقیقت میں عبارت ہے کثرت خشیت سے۔ اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جبکہ انسان کے دل و دماغ کی دنیا اس وحدہ لاشریک کی عظمتِ شان اور جلالتِ قدرکے تصور و احساس سے معمور و منور ہوں ۔ ہم نے اپنے ترجمہ میں اسی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے- والحمد لله رب العالمین- سو علماء سے مراد وہی لوگ ہیں جو حق اور حقیقت کے علم سے آگہی رکھتے ہوں کیونکہ جو لوگ مادہ اور مادیت ہی کے غلام اور بطن وفرج کی خواہشات ہی کے پجاری بن جاتے ہیں ان کی نگاہیں مادیت اور مادی ظواہر و مظاہر ہی میں اٹک کر رہ جاتی ہیں اس سے آگے نہ ان کو کچھ نظر آتا ہے اور نہ ہی وہ اس کو دیکھنے کی کوشش ہی کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا تو مسئلہ ہی الگ ہے۔ لیکن دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس سے آگے سوچتے ہیں ۔ ان کا معاملہ بطن و فرج کے تقاضوں کے ان غلاموں سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ مادی ظواہرو مظاہر میں الجھنے اور اٹکنے کی بجائے ان اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں اور اس طرح ان کی حقیقت بیں اور حقیقت رسا نگاہیں انہی مادی ظواہر و مظاہر کے ذریعے عالم غیب تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ سو ایسے ہی لوگ اصل میں انسانیت کے گلِ سرِسبد ہوتے ہیں اور یہی علماء کے لقب کے اصل مستحق ہوتے ہیں ۔ انہی کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی خشیت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے اور انہی کو اللہ کے رسولوں کی دعوت اپیل کرتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز و غفور کا حوالہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور ادواتِ تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " بلاشبہ اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی درگزر فرمانے والا ہے " ۔ سو عزیز و زبردست ہونے کے اعتبار سے وہ جس کو جب چاہے اور جیسے چاہے گرفتار کر سکتا ہے۔ مگر غفور ہونے کی بنا پر وہ بےمثال عفو و درگزر سے کام لیتا ہے - فَلَہُ الْحَمْدُ وَلَہ الشُّکْرُ- سو اس میں ایک طرف تو پیغمبر کیلئے تسلی کا سامان ہے کہ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت کو رد کر رہے ہیں وہ الله تعالیٰ کی گرفت و پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ اور دوسری طرف اس میں ان منکرین و معاندین کیلئے بخشش کی نوید بھی ہے کہ اگر وہ اپنی روش تبدیل کرکے صدق دل سے حق کو اپنا لیں تو اللہ کی رحمت و عنایت انکو اب بھی اپنی آغوش میں لے سکتی ہے کہ اس کی رحمت و بخشش اور اس کے کرم و عنایت کی کوئی حد نہیں - سبحانہ و تعالیٰ - سو الله پسبحانہ و تعالیٰ کی صفات کریمہ بڑی انقلاب آفریں صفات ہیں ۔
اللہ ربّ العالمین نے اپنا پیغام قرآن مجید، جو نورِ ہدایت ہے، کلام اللہ ہے، علم اللہ ہے، وحی کے ذریعے رسول اللہ حضرت محمّد مصطفٰی ﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا، جبرئیل علیہ السّلام کو بھیج بھیج کر وحی کے ذریعے ہی رسول اللہ ﷺ کو قرآن مجید کے وہ معارف و معانی بتائے، سمجھائے اور سکھائے جو الله تعالٰی کا مقصودِ اصلی ہیں، قرآن مجید پر عمل کیسے اور کس کس طور و طریقے سے کرنا ہے یہ بھی میرے ربّ نے رسول الله ﷺ کو ہی سکھایا اور مطلوب و مقصود طریقے بتائے، سمجھائے اور سکھائے، رسول الله ﷺ نے بعینہ قرآن مجید پر عمل کر کے دکھایا اور الله نے فرمایا "کہہ دو کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو خدا بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا"، اور فرمایا "اور الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے' اور فرمایا "مومنو! الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر الله اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں الله اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے" اور فرمایا "اور الله کی فرمانبرداری اور رسولِ الله کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے" اور فرمایا "اے محمد! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ (کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت الله اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو الله سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو الله اور اس کے رسول کے حکم پر چلو" اور فرمایا "اے ایمان والو! الله اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے روگردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو" اور فرمایا "اور الله اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو۔ کہ الله صبر کرنے والوں کا مددگار ہے" اور فرمایا "کہہ دو کہ الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول الله کے حکم پر چلو۔ اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرنا) جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا ادا کرنا) ہے جو تمہارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا رستہ پا لو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف (احکام الله کا) پہنچا دینا ہے" اور فرمایا "اور صلوة قائم کرتے رہو اور زکوٰة دیتے رہو اور رسول الله کے فرمان پر چلتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے" اور فرمایا "مومنو! الله کا ارشاد مانو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ ہونے دو" اور فرمایا "صلوة قائم کرتے اور زکوٰة دیتے رہو اور الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو الله اس سے خبردار ہے" اور فرمایا "اور الله کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم منہ پھیر لو گے تو ہمارے رسول کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کھول کر پہنچا دینا ہے"
ملتے جلتے مفہوم کی دیگر بھی متعدد آیات ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی ایسے شخص کو دینِ اسلام کا عالِم مانا جا سکے جو کہ قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنة کی تعلیمات اور احکام کو ثانوی جبکہ اپنے فرقہ پرستی کے جاہلانہ و گمراہ کن نظریات و تصورات اور افکار کو اوّلین ترجیح دیتا ہو، اللہ سے ذرا برابر بھی نہ ڈرتا ہو، لوگوں کو قرآن و سنّۃ اور اسوۃحسنة کی اطاعت و اتباع اور پیروی کرنے کی تلقین اور وعظ و نصیحت کے بجائے اپنے من گھڑت اور خود ساختہ فرقے کا پیروکار بناتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ کی جماعت امّۃ مسلمہ کو پھوٹ اور تفرقہ ڈالتا ہو، قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنو کی تعلیمات و احکام کی صریحاً مخالفت کرتا اور لوگوں سے کرواتا ہو، مسلمانوں کی عظمت، اتحاد و یکجہتی کے مراکز مساجد کو مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کا مركز و محور اور مورچہ بنا کر مسلمانوں کو آپس میں لڑواتا ہو، الله تعالٰی اور رسول الله ﷺ نے امت مصطفوی (مسلمانوں) میں گروہ بندی، تفرقے سے منع فرمایا یعنی حرام اور گناہِ کبیرہ بتایا اور فرمایا کہ ایسے کسی بھی شخص یا گروہ اور فرقے کا دینِ اسلام اور امّۃِ مصطفوی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اتنی سخت وعید اور ممانعت کے باوجود جو شخص ،الله و نبی ﷺ کی مخالفت میں قرقہ بندی کو جائز بتائے، اس کے وجود کا دفاع کرے، ضلالت و گمراہی کو پھیلائے تو کیا اس کو یہ پر تقصیر و حقیر بندہ اپنا دینی قائد، مذہبی پیشواء اور اسلام کا عالِم تسلیم کر لے؟ ایسا کیسے ممکن ہے اس گنہ گار کی زندگی میں کوئی ایسی گھڑی آئے کہ جب یہ بندہناچیز، الله و رسول ﷺ کی عملاً و صریحاً مخالفت کرنے والوں کو اپنا رہبر س رہنما تسلیم کرے، ایسی گھڑی آنے سے پہلے الله اس حقیر والفقیر بندہ کو ایمان پر موت نصیب فرما دے۔ آمین
اس نا چیز کی زندگی میں میں ایسا کویئ لمحہ نہ آئے جس میں یہ عاصی بندہ ایسے کسی بھی اکابر کی بات، تعلیم اور احکام کو کوئی ذرا سی بھی کوئی وقعت و اہمیت دے سکے جو امّۃ ِرسول اللہ ﷺ کی تقسیم در تقسیم ، تفرقے ، منافرت، انتشار و افتراق اور قرآن و سنّۃِ رسول الله ﷺ اور نبی ﷺ کے اسوۃحسنة سے بے اعتنائی، بے رغبتی، اور دوری پھیلا کر اپنے فرقے کے خود ساختہ، من گھڑت، گمراہ کن انسانی افکار و نظریات کو فروغ دینے میں مصروفِ عمل ہیں، واللہ ایسے عناصر رہبر کا بہروپ دھار کر رہزنی کا ارتکاب کرنے میں لگے ہیں اس طرح کے بہروپیوں کو عالِم دین نہیں علماء سوء کہا جاتا ہے جو دینِ اسلام کے نام لے لے کر سادہ لوح اور مخلص مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اسلام کا نہیں اپنے اپنے فرقوں کا پیغام اور گمراہی پھیلا رہے ہیں۔نہیں ایسے کسی بھی شخص کو یہ ناچیز عالم دین یا اسلامی اسکالر یا مذہبی پیشوا نہیں مان سکتا ایسے عناصر کو علمائے سوء کہا جاتا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ میں نے رسول ﷺ کا نہیں کسی اور عالِم کا پوچھا تھا تو اجمالی و اصولی جواب تو دیا جا چکا ھے تفصیل اس کی بھی جان لیجیئے، حضرات خلفائے راشدین، دیگر صحابہء کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم ، تابعین و تبع تابعین، قرون اولٰی و قرونِ وسطى کے سلف صالحین، ائمہء اربعہ فقہائے عظام مجتہدین کرام رحمۃ اللہ علیہم سے بڑا بھی آج کے علماء میں کوئی نظر نہیں آتا، جنہوں نے کہ فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کو حرام بتایا امّۃ مصطفوٰ ی کو متحد و منظم رہنے کی تلقین و نصیحت فرمائی تھی اور بتایا تھا کہ دین اسلام فقط قرآن اور رسول الله ﷺ کی سنّۃ (قرآن کی عملی تعبیر و تشریح اور تفسیر) اسوۃ حسنة پر مبنی ہے اس کے علاوہ کچھ بھی اور دینِ اسلام کے اصول الدّین میں داخل نہیں ہے بلکہ باقی تقہ فی الدّین اور فروعی مسائل ہیں اصول الدّین نہیں ہیں۔ امّۃ مصطفوی کو گروہ در گروہ تقسیم کرنے والے، مذہبی منافرت پھیلانے والے اور ایک دوسرے کو کافر و مشرک اور مرتد بتانے والے، مسلم معاشرے میں نفرتیں پھیلا کر بھائی کو بھائی سے لڑانے والے علمائے اسلام کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنہ کی خود پیروی، اطاعت و اتباع کرتے ہیں نہ اوروں کو اس کی دعوۃ دیتے ہیں، بس اپنے اپنے فرقوں کے افکار و نظریات کی تبلیغ کو ہی دینِ اسلام کہہ کر پیش کرتے ہیں آؤ بھائی ان مفاد پرستوں اور خود غرضوں کا دامن چھوڑ دیں ان کو اپنا رہبر و رہنما اور مذہبی پیشوا بنانے کے بجائے اصل اکابرینِ امّت صحابہء کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم ، تابعین و تبع تابعین، قرون اولٰی و قرونِ ثانی کے سلف صالحین، ائمہء اربعہ فقہائے عظام مجتہدین کرام رحمۃ اللہ علیہم کو درست مان لیں جو یقیناً ہم سے اور همارے خود ساختہ و نام نہاد فرقہ پرست اکابرین سے بہت بہتر، صالح، متّقی اور پرہیزگار اور حالیہ ڈیڑھ دو یا تین صدیوں کے علماء سے دین اسلام کا زیادہ علم رکھتے تھے اور باعمل عالِم تھے ان کو اپنا اکابر مانیں اور ان کی طرح سے اور ان کی تعلیمات کی روشنی قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنة کی اطاعت و اتباع پر متفق ہو جائیں۔ آپس میں بھائی بھائی اور اتحادِ امّت کے داعی بن جائیں، رحمۃ للعامین ﷺ کے دامن رحمت سے وابستہ ہو جائیں ۔اتحادِ امّۃ بس اسی طرح ممکن ہے۔
ہم سب مسلمانوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چھاہیئے کہ اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے انسانوں کی ھدایت و راھنمائی کے لئے، اپنے آخری رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) پر نازل کردہ وحی متلوو (آخری الھامی کتاب ھدایت قرآن مجید) اور وحی غیرمتلوو (سنة رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر مبنی جو دین عطا فرمایا، اپنے اس پسندیدہ دین کا نام "الاسلام" رکھا جوکہ پورے کا پورا منزل من اللہ اور کامل و اکمل ھے۔ربّ تعالٰی کا پیغام، رسول الله صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلّم کا فرمان، دین کا نام فقط " الاسلام"، سب ایمان والے سب صرف "مسلم" ایک نبی ﷺکی امّۃ ہیں،
نورِ ہدایت بس اک قرآن! فرقوں کا باقی نہ رہے نام و نشان،
اخوّۃِ اسلامی و امّۃِ واحدہ کا تاکہ ہو سکے کچھ امکان!
ہم سب مسلمانوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ الله رب العالمین سبحانہ و تعالٰی نے انسانوں کی ھدایت و راھنمائی کے لئے، اپنے آخری رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) پر نازل کردہ وحی متلوو (آخری الھامی کتاب ھدایت قرآن مجید) اور وحی غیرمتلوو (سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر مبنی جو دین عطا فرمایا، اپنے اس پسندیدہ دین کا نام "الاسلام" رکھا جوکہ پورے کا پورا منزل من الله اور کامل و اکمل ھے۔
اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے عالم انسانیت کے لئے اپنی اس عظیم نعمت، الوھی ھدایت یعنی دین "الاسلام" کی تکمیل کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان (خود اپنی آخری الھامی کتاب ھدایت، کلام اللہ یعنی) قرآن مجید میں فرما دیا جب کہ اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے آخری رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) نے بھی اپنے خطبہء حجة الوداع میں دین اسلام کے مکمل ھونے کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان فرمایا دیا۔
اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے اپنے آخری رسول رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی نبوت و رسالت اوراپنی آخری کتابِ ہدایت قرآنِ مجید پر مبنی (دین "الاسلام") کو قبول کرنے، اس پرایمان لانے اور اسے اخلاص قلب و صدق نیت کے ساتھ تسلیم کرنے والوں کا نام خود ہی قرآن مجید میں "مسلم" رکھ دیا اورعالم انسانیت بالخصوص اھل ایمان (مسلمون) کو اس کا مکلف قرار دے دیا گیا۔
قرآن و سنة پر مبنی الله رب العالمین سبحانہ و تعالٰی کے پسندیدہ الوھی دین "الاسلام" میں حجیّت (اتھارٹی) صرف قرآن وسنة ہی ہیں، ان کے سوا (کسی بھی شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء ، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب سمیت) کسی بھی انسانی خیالات و بشری افکار کو دین اسلام میں حجیّت (اتھارٹی) کی حیثیت حاصل نہیں ہے لہذا الوھی ھدایت پر مشتمل، قرآن و سنة پر مبنی، اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ دین "الاسلام" میں کسی کمی و بیشی، ردوبدل، ترمیم و تحریف کا کوئی امکان یا جواز باقی نہیں رھا۔ الله سبحانه و تعالى انبياء ورسل عليهم الصلواة والسلام کے سوا کسی بھی انسان کو براه راست اوربلا واسطه هدايت عطا نہیں كرتا بلکہ باقی تمام انسانوں کو اپنے انبياء و رسل علیہم الصلوة والسلام کے توسل و توسط سے ھی ھدایت دیتا ھے- لہذا الله رب العالمین سبحانه و تعالٰی جسے چاھتا ھے، حیات رسول الله حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ و سلم) میں مکمل ھو جانے والے الوھی دین "الاسلام" پر قائم و کاربند رھنے کی توفیق عطا فرماتا ھے۔ اب جو کوئی بھی کلمه گو، فرد یا افراد، طبقہ یا گروہ، کتاب الله اورسنۃ رسول الله (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے سواء کسی بھی اور شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب یا کوئی سے بھی انسانی خیالات و بشری افکار کو منزل من الله الوھی دین "الاسلام" میں اتھارتی (حجیت) مانتا ھے، یا قرآن و سنة پر اولیّت، ترجیح، فوقیّت یا مساوى حیثیّت دیتا ھے تو اسے اپنے رویّے پر ضروري نظرثانی کرنی چاہیئے۔ ھر ایک صاحبِ ایمان کے لئے لازم ھے کہ وہ اپنے آپ کو دینی اعتبار سے محض"مسلم" سمجھے اور کہلوائے. مسلم کے علاوہ اپنی کوئی بھی دیگر دینی و مذھبی شناخت، پہچان یا نام اپنانے، کہلوانے اور اختیار کرنے سے مکمل اجتناب و گریز کرے۔
ہر فرقہ خود کو حق پر جبکہ باقی سب کو گمراہ، فاسق و فاجر، بدعتی، کافر، مشرک، مرتد بتاتا اور سمجھتا ہے، مسلمانوں کے مابین مذہبی منافرت پیدا کر کے امّۃ، مصطفوی کے اتحاد کی راہیں مسدود کرتا ہے، اپنے نظریات کو قرآن کے مطابق ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید کے اصل معانی و مفہوم میں تحریف کرنے اور وضعِ حدیث (حدیثیں گھڑنے) یا موضوع احادیث کو بنیاد بنانے سے بھی گریز نہیں کرتا، قرآن و سنّۃ اور اسوۃحسنة کی تعلیمات و احکامات کی تبلیغ کرنے کے بجائے اپنے فرقے کے نظریات کا پرچار کرتا ہے۔ ہمارے پاس فرقہ پرست عناصر کے افکار و نظریات کو صحیح یا غلط کے معیار پر پرکھنے کا فقط ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان کی بات مسلّمہ مقاصدِ دین اور قرآن و سنّۃ ، اسوۃ حسنة سے عینیت و مطابقت رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر بات میں قرآن و سنّۃ اور اسوۃحسنة کے ساتھ عینیت و مطابقت پائی جاتی ہو تو اس وجہ سے قبول کریں کہ وہ بات مسلّمہ مقاصدِ دین، قرآن و سنّۃ اور اسوۃحسنة کی تعلیمات و احکامات کے عین مطابق اور اسلام کی تعلیم و حکم ہے، اس وجہ سے ہر گز قبول نہ کریں کہ کہنے والے کا تعلق آپ کے فیورٹ فرقے سے ہے یا کہنے والے کی اپنی ذات و شخصیت کی تقوی کے سوا کوئی خاص اہمیت ہے۔
ىه سچ و حقیقت ہے کہ جہاں فرقہ ہے وہاں اسلام نہیں اور جہاں اسلام ہے وہاں کسی فرقے کے وجود کی ہرگز ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہے۔
امّۃِ مسلمہ کہاں کھو گئی جو جسدِ واحد کی طرح متحد تھی جو رسول الله ﷺ کی جماعت تھی؟؟؟ وہ اصل دینِ اسلام کہاں کھو گیا جس کو رسول الله ﷺ لائے تھے؟؟؟
دینِ مصطفوی اور امّۃِ مصطفوی کی جگہ ان باہم متحارب و متصادم باطل و گمراہ فرقوں نے کس طرح لے لی، حیران و پریشان ہو کر سوچوں میں کھویا ہوں، ہم مسلمان کیا تھے! اب کیا رہ گئے ! اللہ و رسول ﷺ کو بھول گئے! جن فرقوں سے انہوں نے منع فرمایا تھا، آج ہم نے ان باطل فرقوں کو ہی اپنا دین و ایمان کیوں بنا لیا!؟ لله اپنے اوپر رحم کیجیئے، اپنی خاطر ہی کچھ سوچیئے اپنی جانوں کو جہنّم کا ایندھن مت بنایئے.
آج ہم بریلوی، دیوبندی، وہابی، اہلحدیث، سلفی، جماعتی، اسراری، عثمانی، مسعودی، توحیدی، رضوی، تبلیغی، عطاری، حیاتی اور مماتی، طاہری، لاہوتی وغیرہ پہلے ہیں اور مسلمان بعد میں ہیں۔ ترجیحات بدل گئی ہیں اب ہم اپنے خالقِ و حقیقی مالک اللہ سبحانہ و تعالٰی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلَّم (قرآن مجید ، سنّۃ اور اسوۃحسنة) کی اطاعت و اتباع کو عملاً ثانوی اور اپنے اپنے فرقوں، مسالک، مشارب، فقہی مذاہب وغیرہ کی پیروی کو اوّلین حیثیت دینے لگے ہیں۔ کیا یہ رویّے ایمان اور دینِ اسلام سے ہمارے تعلق و وابستگی کی نفی کرنے کو کافی نہیں ہیں؟
اللہ کرے کہ وہ دن جلدی آئے جب ہمارے مدارس و مساجد، مسندیں اور خانقاہیں، منبر و محراب سمیت سارے دینی ادارے اور طبقات اپنے اوپر سے فرقہ پرستی کا لیبل اتار پھینکیں اور مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی، اخوّۃِ اسلامی، مساواتِ انسانی اور امّۃ واحدہ کے داعی اور علمبردار بن کر ابھریں ۔ اپنے اپنے فرقوں سے بالا تر ہو کر مسلمانوں کے وسیع تر او بہترین مفاد میں اصل دینِ اسلام (قرآن و سنّۃ، صحیح و متفق علیہ احادیث مبارکہ اور اسوۃحسنة) کی اطاعت و اتباع اور پیروی پر متفق و متحد ہو جائیں تاکہ مقاصدِ دیں کی تکمیل اور منزل کے حصول و تحفظ کی مسدود راہیں کھل سکیں۔ِ آمین!
مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راہنماؤں اورمسلم حکمرانوں کا کام (فرض منصبی) کا لازمی تقاضہ توصرف یہ ہے کہ وہ اخلاص قلب اور صدق نیت کے ساتھ، قرآن وسنۃ کے مقصود اصلی، حقیقی پیغام و تعلیمات، معارف و معانی، مطلوب و مقصود مقاصد دین، نظامہائے معیشت و معاشرت، عدل و انصاف، تعلیم و تربیت، سیاست و مشاورت، حقوق اللہ و حقوق العباد، مساوات انسانی سمیت اسوة حسنۃ کو اس کے مقصود اصلی اور حقیقی روح کے عین مطابق صحیح طور پر پہلے خود خوب اچھی طرح سمجھیں اور کامل اطاعت و اتباع کریں،تقویٰ اختیار کریں اور اس کے بعدپھرنبوی منہاج کے عین مطابق اور کسی بھی کمی و بیشی، تغیّر و تبدّل کے بغیر، خالصتاً قرآن و سنۃ کی انہی اصل تعلیمات کو دوسرے عام مسلمانوں تک پہنچائیں۔
مسلم علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راھنماؤں اور مسلم حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ذاتی یا کوئی سے بھی انسانی خیالات، بشری افکار و نظریات پر مبنی نظاموں کو بالائے طاق رکھ کر، فقط قرآن وسنۃ کی بالا دستی قائم کرنے، انہی کی تدریس و تعلیم، ترویج و تبلیغ، تنفیذ سمیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مقدس فریضہ دیانتداری و ایمانداری کے ساتھ سر انجام دیتے رھیں اور عام مسلمانوں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے متعلق شریعۃ اسلامیہ کے احکامات و تعلیمات سے پوری طرح آگاہ کریں اور ان کی اہمیت کو اپنے خطبات، وعظ و نصیحت، تقاریر و گفتگو میں پھلی ترجیح بنائیں خود بھی ان کا مکمل خیال رکھیں اور عام لوگوں کو بھی ان دونوں قسم کے احکام و تعلیمات کی کامل پاسداری و پابندی کی تاکید کرتے رہیں۔ ۔
مسلم معاشرے کے افراد کو اجتماعی و انفرادی سطح پر قرآن وسنۃ کی اطاعت و اتباع، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے اسوةحسنۃ کی مکمل پیروی کرنے پر مائل و آمادہ اور قائل و راغب کرنے، مسلم معاشرے کے افراد کی ہر سطح پر اصلاح کرنے، ان کو ہر قسم کی گمراہی، بے راہ روی اورقرآن و سنۃ کے احکامات کی نافرمانی اور انحراف سے روکنے، ممنوعات، فحشاء و منکرات میں مبتلا ھونے سے باز رکھنے، عام مسلمانوں کو باعمل و صالح مسلمان اورمعاشرے کا مفید فرد بنانے، قول و فعل کے تضادات، حرص وحوص، طمع و لالچ، بغض و عناد، کینہ پروری و عداوت، علاقائی، لسانی، گروہی، فرقہ وارانہ عصبیتوں اور تعصبات سمیت ہر قسم کے انتشار و افتراق، باہمی فسادات، سود خوری و حرام کاری، رشوت ستانی،فسق و فجور، بدعات، مذہبی منافرت، جھوٹ، بد عہدی، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی، نا جائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی، غیر اسلامی رسومات و روائج سمیت تمام رزائل اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچتے رہنے، حقوق اللہ و حقوق العباد کا پورا پورا خیال رکھنےکی وعظ و نصیحت،تلقین و تاکید کرتے رہنا اور امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی، امن و استحکام، خوشحالی اور فلاح و ترقی کے لئے مخلصانہ، با مقصد اور نتیجہ خیز جدّو جہد کرتے رہنا بھی مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راہنماؤں اورمسلم حکمرانوں کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
انہی کی یہ بھی ایک اہم ذمہ داری ہےکہ امّۃِمسلمہ کے افراد کو دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز، نیچرل سائنسز، ہیلتھ سائنسز، ڈیفنس سائنسز، صنعت و حرفت، انجینئرنگ و جدید ٹیکنولوجیز سمیت عصری علوم و فنون کی معیاری و اعلیٰ تعلیم و عملی تربیت کے حصول، تحقیقات و ایجادات کیلئے ضروری سہولیات و وسائل اور ترغیبات فراہم کریں تاکہ دیگر اقوام عالم کے مقابلے میں ہر اعتبار سے، مسلم امّہ زیادہ مضبوط و مستحکم، متحد و منظم ، خوشحال و ترقّی یافتہ ہو اور دنیا میں الله سبحانہ و رسول الله صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کے دین کو غالب و سربلند کر سکے۔
ہر ایک سطح پر قرآن وسنۃ کے علمی نفاذ اور دین اسلام کے غلبے و سربلندی کی ہر ممکن کوشش کرنا، امتِ مسلمہ کو (جو کہ جسد واحد کی طرح، امتِ واحدہ ہے) متحد، مربوط و منظم رکھنے اور ہر قسم کے تفرقے اور انتشار و افتراق، بد امنی، مذہبی منافرت، عدم استحکام سے بچانے کی حتی المقدور اور مخلصانہ جدّوجہد کرتے رہنا اور غیر مسلموں پر اسلام کی حقانیت ثابت کر کے احسن طریقوں سے، نبوی منہاج کے مطابق ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا بھی مسلم امراء و علماء کرام، مذہبی پیشواؤں، دینی قائدین و رہنماؤں اور مسلم حکمرانوں کی اصل، اولین اور سب سے اہم ذمہ داری اور منصبی فریضہ ہے۔
دین اسلام مسلمانوں کو باہم اخوتِ اسلامی اور امداد باہمی جبکہ غیر مسلموں کے ساتھ بقائے باہمی کے زرّین اصولوں پر قائم رہنے اورامن و سلامتی، عدل و انصاف، مساوات وغیرہم سمیت فلاح انسانی کی دیگر تعلیمات سے روشناس کرواتا ہے مگر حیرت و تعجب میں غرق ہو جاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ اکثر و بیشتر افراد امت میں فرقہ واریت کا گندہ و غلیظ زہر اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ اب مسلمان کو منزّل مِن اللہ دین اسلام یعنی قرآن مجید اور رسول اللہﷺ کی سنّۃ اور اسوۃحسنة (جو قرآن کی عملی تعبیر و تشریح اور مجسم تفسیر ہیں) کے ساتھ کوئی بھی تعلق، واسطہ، وابستگی اور رغبت ہی نہیں ہے اور وہ اپنے فرقہ پرست ملاؤں کی من گھڑت، خود ساختہ، گمراہ کن خلاف اسلام باتوں اور جاہلانہ تعلیمات کے دفاع میں قرآن مجید اور سنّة رسول الله ﷺ یعنی اسوۃحسنة کے بالکل واضح احکامات و تعلیمات کا صاف انکار کر دیتے ہیں معاذ الله ایسا محسوص کرتا ہوں جیسے ان لوگوں کو اس عقیدہ پر انتہائی پختہ اور راسخ کیا جا چکا ہے اور ان کو مکمل اطمینان و یقین دلا دیا گیا ہےکہ جو ہم بتائیں بس وہی حق اور سچ ہے اور اسی کو دین مانو تمہارا فرقہ ہی دین اسلام پر ہے قرآن و سنة اور اسوۃ حسنة کو پڑھنے، سمجھنے کی کوشش مت کرنا ورنہ گمراہ ہو کر جہنّمی ہو جاؤ گے کیوں کہ جنّت الفردوس ہمارے ہی نظریات و افکار پر منحصر ہے (اس میں قرآن مجید و سنۃِ رسول الله (احادیث مبارکہ اور رسول الله ﷺ کے اسوۃحسنة) کا کوئی عمل دخل نہیں ہے) جو ہم کہتے بس فقط اسی کو مانو باقی سب چھوڑو ورنہ ایمان ختم ہو جائے گا۔ لوگ اب برملا کہتے ہیں کہ مجھے قرآن و سنّة اور اسوۃ حسنة سے کوئی براہِ راست کوئی سروکار، تعلق واسطہ نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ جیسے معاذ اللہ ہر فرقے کے پیروکاروں نے اپنے اپنے فرقہ کے نام نہاد مذہبی پیشواؤں اور مسجد کے ملّا جی کو الله تعالٰی کے دین اسلام میں پہلی، آخری اور واحد اتھارٹی یعنی حجیت تسلیم کر لیا هوا ہے اور رسول الله ﷺ کو اور قرآن کو اس کو اس کے بیچ نکال کر فارغ کر دیا ہے۔ لوگوں کو سکھلا دیا گیا ہےکہ تم کہا کرو کہ میرے فرقے کا ملّا جی جو کہتا ہے بس وہی حق ہے باقی سب کفر و شرک اور ارتداد ہے میں قرآن و سنّۃ اور اسوۃحسنة کے بارے میں کچھ بھی سننا یا جاننا چاہتا ہی نہیں ہوں۔ یہ اسی برین واشنگ کا ہی نتیجہ ہے کہ فرقوں نے اپنے اپنے گمراہ کئے ہوئے لوگوں میں سے بعض نوجوانوں کو آتشین اسلحہ سے لیس کر کے مذہبی دہشت گردی اور خود کش حملے کرنے پر لگا دیا ہوا ہے۔ اصل دین اسلام جو کہ پورے کا پورا منزّل من الله ہے اور جس میں انسانی و بشری افکار و نظریات کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے اور جو فقط قرآن مجید، رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ و اسوۃحسنة پر مشتمل اور الوہی ہدایت پر مبنی ہے اور جو صراط مستقیم ہے اس میں فرقوں کی کوئی گنجائش ہے نہ ہی مذہبی منافرت کی، مسلمانوں کے درمیان کسی بھی قسم کے انتشار و افتراق کی کوئی اجازت ہے نہ ہی مذہبی دہشت گردی اور خود کش حملوں کی۔ اللہ ہم سب مسلمانوں کو صراطِ مستقیم اور رسول الله ﷺ کے اسوۃ حسنة پر چلنے اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
No comments:
Post a Comment