
تحریر:
ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
"مؤمنو!
اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صریح
دشمن ہے"
اللہ
رَبُّ العالَمین کا یہی فرمانِ عالیشان ہے جو دینداری کا لیبل حاصل کرنے کے رائج الوقت،
آسان ترین ، طریقے و نسخے پراس بندہءناچیز کےتحفّظات کی بنیاد ہے کیونکہ آج کل بعض
نام نہاد مذہبی عناصر کا بنایا اور بتایا اور دیا ہوا دیندار بننے کا آسان ترین
نسخہ جو آج کل بہت عام ہے، داڑھی، پگڑی، اونچی شلوار سمیت صرف چند ایک ظاہری اور
نمایاں نظر آنے والی سنّتوں کو اختیار کر کے آپ بآسانی مسلم معاشرے میں دین داری
کا لیبل لگا سکتے ہو اور اس کے ٹھیکے دار بن سکتے ہو، چاہے بیشتر فرائض اور
سینکڑوں، ظاہری طور پر نمایاں نظر نہ آنے والی یعنی باطنی سنتوں کے تارک بنے رہو،
بھلے سے باقی کے سارے ہی حقوق اللہ و حقوق العباد سے روگردانی کرتے رہو۔ اس کے
برعکس آپ بیشتر فرائض اور سیکڑوں ظاہری طور پر نمایاں نظر نہ آنے والی یعنی باطنی
سنتوں پر سختی کے ساتھ عمل پیرا راور کابند ہتے ہوئے اور اکثروبیشتر حقوق اللہ اور
حقوق العباد پورے کر کے بھی دیندار نہیں کہلاسکتے اگر آپ نے داڑھی، پگڑی، اونچی
شلوار سمیت صرف چند ایک ظاہری اور نمایاں نظر آنے والی سنّتوں کو اختیار نہ کیا۔
بعض
نام نہاد مذہبی عناصر کے جاری کردہ رائج الوقت اس طرح کے آسان ترین نسخے کے کارگر
اور مؤثر ثابت ہونے کا سارا انحصار اس شرط اوّل کی تکمیل پر ہے جو کہ آپ کو بہر حال
میں ضرور پوری کرنی ہی پڑتی ہے ورنہ باقی سب کچھ بے سود، دیندار تو کجا آپ ان فرقہ
پرست مذہبی عناصر کی نظر میں مسلمان بھی نہیں رہتے اور وہ لازمی شرط یہ ہوتی ہے کہ
آپ ان کے فرقے کے انتہائی متشدّد اور سخت پیروکار اور راسخ العقیدہ ہوں اپس مخصوص
فرقے کے علاوہ کسی دوسرے کومسلمان نہ سمجھتے ہوں، اپنے فرقے کے افکار و نظریات اور
تعلیمات کو، قرآن و سنۃ اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کےاسوۃ الحسنۃ پر بھی،
اوّلیّت و فوقیت اور ترجیح دیتے ہوں (معاذ اللہ) ۔ نہ جانے یہ عناصر اللہ سبحانہ و
تعالٰی، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کے اسوۃحسنہ، قرآن مجید کی تعلیمات
کو کیوں فراموش کر بیٹھے ہیں، سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ آخر اللہ تعالٰی سے کیوں
نہیں ڈرتے؟
بلا
شبہ داڑھی رکھنا شعائرِ اسلام میں سے اور ایک نہایت اہم ترین سنّۃ ہے جس کا حکم
وجوب کے قریب تر اور بعض کے نزدیک واجب ہے لیکن اس کا یہ مطلب نکالنا ( جو کہ رائج
الوقت ہے) کہ بس یہی ایک ایسی سنّت ہے جوس کو اپنا کرباقی کی ساری سنّتوں کی اتباع
سے بے نیازی بھی قابلِ قبول ہے کسی طور بھی درست نہیں، بجا ہے کہ داڑہی سمیت تمام
تر سنّتوں پر مومن و مسلمان کو ضرور عمل کرنا چاہئے مگر کسی ایک یا دو تین سنّوں
کو باقی کی سنّتوں پر مقدّم سمجھنا یا باقی سنّتوں کو کم تر اہمیّت دینے کا کوئی
جواز اس ناچیز کی سمجھ میں نہیں آتا۔ علماء اسلام، فقہاء عظام، مجتہدینِ کرام،
محدثین و اصولیّین رحمۃ اللہ علیہم نے جو بتایا ہے اس کے خلاصہ میں سب سے پہلے یہ
دیکھتے ہیں کہ حدیث اور سنّت میں کیا فرق ہے حدیث اور سنت دونوں ہی دو مشہور
اصطلاحات ہیں ۔ لہذا قرآن پاک میں لفظ سنت بھی استعمال ہوا ہے اور حدیث بھی اور
اسی طرح خود حدیث پاک میں ان دونوں الفاظ کا مستعمل ہونا ملتا ہے حدیث اور سنت کے
بارے میں علماء کے ایک گروہ کی رائے تو یہ ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے
مترادف ہیں سو اس لحاظ سے ایک ہی معنٰی اور مفہوم میں لیئے جاتے ہیں اور ایک دوسرا
گروہ یہ کہتا ہے کہ حدیث ایک عام چیز ہے جبکہ سنت اس سے خاص یعنی حدیث تو ہر وہ
چیز ہے کہ جسکی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جائے کہ جس میں صحیح
،حسن ،ضعیف ،منکر اور موضوع روایات بھی شامل ہیں اور سنت سے مراد وہ طریقہ ہے کہ
جو فقط احادیث صحیحہ کی بنیاد پر ثابت ہوتا ہو اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کا طے کیا ہوا طریقہ ہو جسکو کہ آپ ﷺنے اپنی امت کو سکھایا اور جو قرآن پاک کے
منشاء و معنٰی کی تفسیر و تشریح کرتا ہے اور جو اپنی عملی صورت میں اسی قرآنی
منشاء کی تکمیل کرتے ہوئے عملی تشکیل بھی کرتا ہے اسی خاص طریقہ کا نام سُنَّہ ہے ۔
دین کو
سمجھنے کےلئے ذہن میں پیدا ہونے والے سؤالات کے جوابات تلاش کرنا یا علم رکھنے اور
جاننے والوں سے پوچھنا مستحسن عمل ہے۔ فتنہء انکار حدیث و انکارِ حجیّتِ حدیث و
سنّۃ اور بعض معتزلہ کے سوا پوری امتِ مسلمہ اس حقیقت کی معترف ہے کہ سنّۃِ رسول
اللہﷺ کے بغیر قرآن مجید کو سمجھا جا سکتا ہے نہ الوہی ہدایت سے فیضیابی ممکن ہے۔
نبی علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے ہرطور طریقے، حکم، قول و عمل اور تقریر کو
"سُنَّۃ"کہا جاتا ہے ،تقریر کے معنٰی یہ ہوتے ہیں کہ کوئی بات یا عمل
نبی علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے سامنے آیا یا پیش خدمت کیا گیا یا کسی طرح بھی نبی
علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے علم میں آیا اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے اس سے منع
نہیں فرمایا اور نہ ہی ناپسندیدگی کا کوئی اظہار فرمایا۔ جبکہ حدیث اس سے قدرے
مختلف ہے، حدیث سے سنّۃ کا ثبوت حاصل کیا جاتا ہے۔ سنۃ دراصل قرآن کی وہ الوہی
تعبیر و تشریح اور عملی تفسیر ہے جو جبرئیل علیہ السّلام کےذریعے اللہ تعالٰی نے
خود اپنے رسول ﷺ کو وحی فرمائی یعنی بتائی، سکھائی اورسمجھائی کہ قرآن پر عمل کس
طرح کرنا ہے اور قرآنی آیات کے کونسے معارف و معانی ایسے ہیں جو اللہ ربّ العالمین
کا مقصودِ اصلی ہیں اور یہ کہ قرآن پر عمل کے کیا طریقے ہیں، نبی علیہ الصلوٰۃ
والسّلام نے ان قرآن پر اللہ تعالٰی کے بتائے، سمجھائے اور سکھائے ہوئے جن طریقوں
کے مطابق قرآن مجید پر بعینہ عمل کر کے جماعتِ صحابہءِکرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم
اجمعین کو اور ان کے ذریعےپوری اّمَّۃِ مسلمہ کو دکھایا، بتلایا، سکھایااور
سمجھایا ، قرآن کی اسی عملی تعبیر و تفسیر اور معانی و مقصود کو سنّۃ کہا جاتا ہے
اور وہ ہر ایک امَّتی مؤمن و مسلمان پر واجب التعمیل ہے۔
حدیث و
سُنّت یہ دونوں اصطلاحات الگ الگ معنٰی و مفہوم رکھتی ہیں علم حدیث کا ایک الگ
موضوع ہے اور علم سنت کا بالکل ایک الگ مفہوم کہ سنت فقط طریقہ متبعہ کو کہا جائے
گا یعنی وہ طریقہ کہ جسے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہو فقط وہی سنت کہلائے گا ۔
درج
ذیل میں ہم لفظ حدیث اور سنت دونوں کے لغوی معٰنی بھی قارئین کی سہولت کے لیے واضح
کردیتے ہیں ۔
لفظ
حدیث لغوی معنٰی :- لفظ حدیث کہ جسکو ایک خاص فن کی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا
گیا ہے عربی زبان میں اس کے متعدد معنٰی ہیں مثلا عربی زبان میں حدیث کے معنی
گفتگو کے بھی ہیں اور نئی چیز، نئی بات کو بھی عربی میں حدیث کہتے ہیـں اس کے علاوہ
کوئی قابل زکر واقعہ کوئی گفتگو یا کوئی کلام اسکو بھی عربی میں حدیث کہتے ہیں
جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور فرمان ہے کہ "خیر الحدیث کتاب
اللہ "یا ایک جگہ فرمایا کہ" احسن الحدیث کتاب اللہ " یعنی سب سے
بہتر بات یا سب سے اچھا کلام اللہ کا کلام ہے
لفظ
سنت کے لغوی معنٰی :- لفظ سنت کے لغوی معنٰی روش، دستور، رواج، طریقہ، عادت، راہ،
یا قانون کے ہیں جیسا کہ خود حدیث پاک میں یہی لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے
"من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا ولا
ینقص من اجورھم شئی"یہاں سنۃ حسنۃسے مراد طریقہ یا رواج کہ ہیں اور یہاں لفظ
سنت اپنے فقہی یا اصولی یا اصطلاحی معنوں میں نہیں بلکہ لغوی معنوں میں ہے ۔
اسلامی
شریعت کی رو سے سنت کے معروف معنٰی تو وہ طرز عمل ہے کہ جس کی دعوت رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے دی اور جسکو قائم کرنے کے لیے رسول دنیا میں بھیجے گئے اور جو
صحابہ کرام نے آپ سے سیکھ کر اختیار کیا اور پھر نسلا بعد نسلا آگے منتقل کیا اس
طریقہ کو عربی زبان میں سنت کہا جاتا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن و سنت
دونوں شریعت کے بنیادی ماخذ ہیں تو اس وقت ہماری مراد اسی مفھوم میں سنت ہوتی ہے ۔
سو اس
لحاظ سے لفظ سنت اصطلاحا متعدد معنٰی میں استعمال ہوتا ہے ۔
سب سے
پہلے لغوی معنی میں کہ جیسے ہم اوپر بیان کرچکے ۔
لفظ
سنت علماء اصول کی اصطلاح میں :- علماء اصول کی اصطلاح میں سنت سے مراد وہ معروف
طریقہ رسول ہے کہ جسکو نافذ کرنے کے لیے پیغمبر دنیا میں آئے اور جس پر مسلمان عمل
کرتے ہیں اور جو شریعت کے احکام کا ماخذ و مصدر ہے اور جو ہم تک تین طریقوں سے
پہنچا ہے کہ جن کی وضاحت ہم آگے چل کر کریں گے ۔
محدثین
کی اصطلاح میں لفظ سنت کا مفھوم :- محدثین کے ہاں لفظ سنت کی اصطلاح سنت کے معروف
معنٰی یعنی اس طرز عمل پر بولی جاتی ہے کہ جس کی دعوت رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے دی اور جسکو قائم کرنے کے لیے رسول دنیا میں آئے اور جو صحابہ کرام رضوان
اللہ تعالٰ عنہم اجمعین نے آپ ﷺسے سیکھ کر اختیار کیا اور پھر نسلاً بعد نسلًا آگے
منتقل کیا اسی طریقہ کو عربی زبان اسلامی شریعت کی رو سے "سُنَّۃ" کہا
جاتا ہے اور یہ ہم تک تین واسطوں یا طریقوں سے پہنچتا ہے اور انہی تین طریقوں کو
بنیاد بناتے ہوئے محدثین کرام سنت کو تین اقسام میں تقسیم فرماتے ہیں یعنی نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ،فعل یا تقریر کو محدثین کے ہاں سنت (حدیث) کہا
جاتا ہے
محدثین
کے ہاں سنت تک رسائی کے اعتبار سے فقط تین طریقے معروف ملتے ہیـں کہ جن کو بنیاد
بناتے ہوئے محدثین نے سنت کی تین اقسام بیان کی ہیں ۔
نمبر
ایک سنت قولی یا حدیث قولی
نمبر
دو سنت فعلی یا حدیث فعلی
نمبر
تین سنت تقریری یا حدیث تقریری
اس کے
علاوہ تمام اصولیین ، محدثین اور فقہاء کی کتابوں کو کھنگال لیا جائے آپ کو کہیں
بھی ان تین طریقوں کے سوا سنت تک رسائی کا کوئی چوتھا طریقہ نہیں ملے گا اور اگر
کہیں ملے گا بھی وہ شاذ کہلائے گا ۔
نوٹ :-
جیسا کہ یہاں سنت فعلیہ اور سنت ترکیہ کی ایک غیر معروف، شاذ تقسیم کو بیان کیا
گیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کے ترک کو سنت سے تعبیر کرنا
دین میں کئی مفاسد کا ملتزم ہے کہ جسکو ہم آخر میں بیان کریں گے ۔
خیر ہم
درج زیل میں محدثین کے ہاں جو سنت کی تین معروف اقسام بطور سنت تک رسائی کا طریقہ
ہیں انکو ترتیب وار وضاحت سے بیان کریں گے ۔
سنت
قولی :- سنت کی تین قسموں میں سے سب سے پہلی ہے سنت قولی، یعنی نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے اسیے ارشادات مبارکہ کہ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
مبارک قول سے کسی امر کی وضاحت کی ہو یا کسی امر کا حکم دیا ہو اور صحابہ کرام نے
اسے بعینہ سن کر ہم تک پہنچا دیا ہو جیسے مشہور حدیث " انما الاعمال بالنیات
" یہ سنت قولی کی ایک مثال ہے ۔
سنت
فعلی :- سنت کی ایک قسم سنت فعلی ہے اور اس سے مراد صحابہ کرام کا نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے کسی مبارک عمل کو روایت کرنا یا نقل کرنا ہے ۔ یعنی سنت قولی یہ
ہے کہ کسی صحابی نے نبی کریم کا کوئی مبارک فرمان سن کر اسے بعینہ ہم تک پہنچا دیا
اور سنت فعلی یہ ہے کہ کوئی صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مبارک عمل
دیکھے اور اسے اپنی زبان یا اپنے الفاظ میں اپنے بعد والوں کے لیے بیان کردے تو وہ
سنت فعلی کہلائے گا ۔
سنت
تقریری :- سنت کی تیسری قسم سنت تقریری ہے کہ جس میں نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کا کوئی فعل نقل کیا جائے اور نہ ہی عمل نقل کیا جائے بلکہ کسی اور کا کوئی عمل
اور فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا ہو اور آپ نے اس پر خاموشی
فرمائی ہو یعنی آپ نے اسکی ممانعت نہ فرمائی اور نہ ہی اسے ناجائز کہا ہو اسے سنت
تقریری کہتے ہیں ۔
یعنی
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو عربوں میں بہت سے طور و طریقے
مختلف امور میں رواج پاچکے تھے لہذا ان طور طریقوں میں سے جس چیز کو رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے خلاف شریعت پایا اسکی ممانعت فرمادی اور جس طریقے کو خلاف نہیں
پایا ہاں البتہ اسکے کسی جز میں کسی اصلاح کی گنجائش ہوئی تو نبی پاک صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس جز کی اصلاح فرمادی اور باقی طریقے کو جوں کا توں روا رکھا اور جن
امور میں کسی اصلاح کی گنجائش نہ تھی ان امور کو ویسے ہی چلتے رہنے دیا اور صحابہ
کرام ان امور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و اطلاع کے اندر اندر رہتے
ہوئے کرتے رہے ان سب امور کو بھی سنت تقریری کہتے ہیں ۔
فقہاء
کی نظر میں سنت کی اصطلاح کا مفہوم :- فقہاء کے نزدیک لفظ سنت کا مفہوم وہی ہے جو کہ
آپ نے عام بول چال میں بھی سنا ہوگا کہ دو رکعت سنت ہیں یا چار رکعت سنت ہیں اور
تین رکعت واجب ہیں اور دو رکعت فرض ہیں یہاں پر فرض اور واجب کے مقابل جو لفظ سنت
بولا جاتا ہے اسے فقہی اعتبار سے سنت کہا جاتا ہے اور اس کا مفھوم مندرجہ بالا
تمام مفھومات سے جدا ہے اور اسکی ضرورت کسی بھی شرعی امر کی حیثیت کا تعین ہے ۔
اور آگے پھر اسکی متعدد اقسام اور جہات ہیں یعنی سنت موکدہ اور سنت غیر موکدہ
وغیرہ ۔۔۔
اب آخر
میں ہم تھوڑی روشنی اس امر پر ڈالیں گے کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی
فعل کو ترک کرنا بھی شریعت کی کوئی دلیل بن سکتا ہے اور اگر بن سکتا ہے تو اس سے
کیا کیا مفاسد آسکتے ہیں ۔
سب سے
پہلے یہ جان لیں کہ اللہ کے دین کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی
ذات ِ با برکات ہے۔
لہذا
اوّلًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے جو احکام آپ ﷺ دیں انہیں قبول
کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے اور دوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جن
کاموں سے منع فرمایا، ان سے رکنا ضروری ہے۔ کہ سورۃ الحشر میں ارشاد باری تعالٰی
ہے ترجمہ :- "اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں
سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو"۔
پس
ثابت ہوا کہ شریعت کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی امر کا حکم کرنا اور کسی
امر سے منع فرمانا ہے نہ کہ آپ کا کسی امر کو ترک فرمانا کبھی بھی شریعت کی دلیل
بن سکتا ہے ۔ کیونکہ اوپر آیت میں صاف صاف وضاحت ہے کہ نبی جس چیز کا حکم دیں وہ
کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو یہ نہیں کہا گیا کہ نبی جو کام خود بھی نہ
کرئے وہ تم بھی نہ کرو یعنی ترک فعل ۔ ۔ اور اگر اس طرح ہو تو پھر کئی قرآنی آیات
اور احادیث کا آپس میں ٹکراؤ پیدا ہوجائے اور اسلام کے سب سے بڑے اصول اباحت کا
قلع قمع ہوجائے کہ مباح تو کہتے ہی اس امر کو ہیں کہ جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے نہ خود کیا ہو اور نہ کرنے کا حکم دیا ہو بلکہ جس پر سکوت فرمایا جیسا کہ
" وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ " کی حدیث سے بھی ظاہر ہے اور یہ حدیث
دلیل ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے ۔۔ علامہ ابن حجر اسی اصول کی مزید وضاحت کرتے
ہوئے فتح الباری میں رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ عدم النقل لا یدل علی عدم الوقوع ثم لو
سلم لایلزم منہ عدم الجواز ۔ ۔ یعنی عدم نقل عدم وقع پر دلالت نہیں کرتا اور اگر
یہ مان بھی لیا جائے تو تب بھی اس سے عدم جواز کو ثابت نہیں کیا جاسکتا اسی طرح
مواہب لدنیہ میں آیا ہے کہ الفعل یدل علی الجواز وعدم الفعل لا یدل علی المنع ۔
یعنی
کسی کام کا کرنا اسکے جواز کی دلیل ہے اور کسی کام کا نہ کرنا ہرگز اس کے منع کی
دلیل نہیں اور اسی طرح فتح القدیر جلد اول میں ہے کہ کسی شئے سے سکوت اس کے ترک کا
تقاضا نہیں کرتا ۔
نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کو ترک کرنے سے اس کا سنت نہ ہونے پر عقلی
دلائل:-
سب سے
پہلا قرینہ تو یہ ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک سے کوئی عمل ترک
کی سنت قرار پاتا ہے تو پھر قرآن پاک جو کہ ادلہ اربعہ کا اول ماخذ ہے اس کے ترک
سے بدرجہ اولٰی کسی فعل کا ترک کرنا ضروری ہوگا
حکمِ
رَبّی ہے کہ : ترجمہ: " ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور
شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے"۔
73 فرقوں
والی حدیثِ مبارک کو بعض عاقبت نا اندیش عناصر توڑ مروڑ کراور فرقوں کے وجود کے
ثبوت میں ادھورا پیش کر کے گمراہی پھیلاتے ہیں ان کا اپنا فہمِ حدیث درست نہیں یا
وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں۔ زیرِ بحث حدیث مبارک بھی قرآن کی آیات کے مفہوم و
معانی کی طرف ہی دلالت کرتی ہے، متعدد آیات میں عبارۃ النّص، اشارۃ النّص، دلالۃ
النّص اور اقتضاء النّص سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کی جماعت، نبی علیہ الصلوٰۃ
والسّلام کی اُمّۃ اور دینِ اسلام میں فرقہ بنانا، فرقے کو تسلیم کرنا یا جائز
سمجھنا، اس کے ساتھ وابستگی اختیار کرنا، مسلمانوں کے مابیں اتحاد میں دراڑیں
ڈالنا، مذہبی منافرت، انتشار و افتراق پیدا کرنا، مذہبی گروہ بندی کرنا کسی طور پر
بھی جائز نہیں بلکہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے اور اس پر جہنّم کی وعید بھی فرمائی
گئی ہے۔ زیرِ بحث حدیث مبارک بھی اسی مضمون کی ہے اس میں بھی سخت ترین وعید بیان
کی گئی ہے کہ سارے فرقے جہنّمی ہیں، صرف ایک جماعت جنتی ہے جو کہ صرف اور صرف میری
سُنَّۃ و اُسوۃ حسنۃ اور جماعۃِ صحابہء کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے
طریقے پر سختی کے ساتھ کاربند، قائم اورعمل پیرا ہو گی ۔ اِس کے علاوہ کوئی دوسرا
مفہوم اس حدیث مبارک سے مفہوم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اور سارے مسلمانوں
کو ان فتنوں سے محفوظ رکھے جو فرقہ پرستی کے نام پر مسلمانوں میں نفرتیں پیدا کر
کے ان کو باہم قتل و ٖغارت گری اور مذہنی منافرت، دہشت گردی، فسق و فجور پر اکسانے
میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں اور ارادی یا غیر ارادی طور پر، دانستہ یا نا دانستہ،
شعوری یا غیر شعوری طور پر، عملاً اسلام دشمن قوّتوں کے آلہء کار بن کر انہی کے
ایجنڈے کو تقویّت پہنچا رہے ہیں جبکہ فرقہ پرستی سے حضرت محمد مصطفی ﷺ لائے ہوئے
الوہی دینِ حق "الاسلام" کی تعلیمات و ہدایات اور اخکامات و مقاصد
(اتحادِ امت، فلاح انسانیٹ، امن و سلامتی، اسلامی اخوّۃ، رواداری، صالح و مستحکم
اور خوشحال مسلم معاشرے کی تشکیل،غلبہء اسلام، حقوق اللہ و حقوق العباد کی مکمل
پاسداری و پابندی کرنے کونقصان پہنچ رہا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے
کہ ہم کسی بھی غیر (اکابر) کومحبوبِ ربّ العالمیں، رحمۃ للعالمین ﷺ کے برابر یا ان
بڑا نہ مانیں کیونکہ یہ کفر و ارتداد اور شرک فی النبوّۃ ہے، فقط کلام اللہ قرآن
مجید اور نبی ﷺ کی ہدایات، تعلیمات، احکامات و پیغامات کی تعمیل، اطاعت و اتباع
اور کامل پیروی کو اپنی اوّلین ترجیح بنا لیں، کیونکہ رسول اللہﷺ کی اطاعت دراصل
اللہ سبحانہ و تعالٰی کی ہی اطاعت ہے اور ہمارے خالق و مالکِ حقیقی نے رسول اللہ ﷺ
کی اطاعت و اتباع کو ہم پر لازم اور فرض کر دیا ہوا ہے۔ باقی سارے محترم لوگوں کا
مقام و مرتبہ اور درجہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ہی کا ہے، پھردوسروں کی پیروی میں رسول
اللہ ﷺ کی مخالفت و نا فرمانی آخر کیوں کی جاتی ہے، دوسروں کی پیروی کو رسول اللہ
ﷺ کی اطاعت و اتباع پر فوقیت کیوں دی جاتی ہے؟ اپنے اپنے فرقوں کے اکابرین کے کہنے
پر فرقوں کو کیوں قبول کر لیا جاتا ہے جبکہ اللہ اور نبی ﷺ نے سختی کے ساتھ ان سے
منع فرمایا ہوا ہے اور جہنّم کی وعید فرمائی ہوئی ہے۔
"اسلام"
صرف ایک مذہب (یعنی محض چند عقائدو عبادات اور رسومات کا ہی نام) نہیں ہے بلکہ
عالمِ انسانیّت کی رہنمائی کے لئے اللہ کا نازل کیا ہوا "دین" (یعنی
مکمّل اور جامع ضابطہءِ حیات اور ایک سیاسی، سماجی و معاشرتی،فلاحی و معاشی اور
اجتمائی نظام) ہے جس کا مقصدِ وحید اللہ کی زمین اور اللہ کے بندوں پر اسی کے نازل
کردہ نظام دینِ حق "الاسلام" کوغالب و نافذکرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور
جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین نے اسی مقصد کے حصول و تحفظ کو
اپنا مقصود و مطلوب بنائے رکھا اور صرف اسی غرض و غایت سے ساری زندگی جِدّوجُہدکی
۔ قرآن و سنّۃ کی ہدایات و تعلیمات اور احکامات سے بخوبی ثابت ہے کہ ہر مؤمن و
مسلمان سے بھی خالق کائنات اللہ ربُّ العالَمین سبحانہ و تعالٰی کو یہی مقصود و
مطلوب ہے۔ الٰہی! اس مسلّمہ حقیقت کو ہمارے مذہبی پیشواؤں، دینی قائدین و علماء،
قومی رہنماؤں، مسلمان امراء وسلاطین ، حکمران طبقات اور عام مسلمانوں پر بھی آشکار
کر دے اور توفیق عطا فرما کہ ہم فرقہ پرستی کا خاتمہ کریں، اپنے فرقوں کے بجائے،
جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے طرزِ فکروعمل اور طور
طریقوں کے عین مطابق اور انہی کی پیروی کریں ۔ اللہ تعالٰی کے کلام قرآن مجید اور رسول
اللہ ﷺ کی سنّۃ و اسوۃ حسنۃ کے احکامات و تعلیمات اور ہدایات کی اطاعت و اتباع
کریں، انہی پر مبنی کامل و اکمل "دینِ اسلام" کے غلبے و نفاذ، بالادستی
و برتری، سربلندی، اطاعت و اتباع نیز امّۃِ مسلمہ کے اتحادویکجہتی اور اخوۃِ
اسلامی کے احیاء کی مخلصانہ جِدّوجُہدکی راہ اختیار کریں جو کہ بلا شبہ اللہ
سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہ ﷺکو مقصود و مطلوب ہے۔ آمین!
جنات
اور انسانوں کے مقصد تخلیق کا ذکر و بیان کرتے ہوئےاللہ ربّ العالَمین کا فرمانِ
عالیشان ہے: ترجمہ: "میں (اللہ)نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا
ہے کہ وہ صرف میری (اللہ کی) عبادت کریں "۔ (سورۃ الذّرّیّات، آیۃ-56)
عبد کا
معنٰی ہے بندہ ، غلام ، تابعدار، فرمانبردار ، اطاعت گذار، حکم ماننے والا۔ فقط
صوم و صلواۃ (نماز و روزے) اور تہجّد و نوافل، تسبیح و تہلیل اور تلاوۃِ قرآن میں
مشغولیت سے عبدیت کے تقاضوں کی تکمیل نہیں ہو جاتی! حقوق اللہ ہی کی طرح حقوق
العباد اور قرآن و سُنّۃ کے تمام احکامات و تعلیمات، پیغامات و ہدایات پر عمل
کرنےکی پابندی و پاسداری بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ زکٰوۃ و صوم و صلواۃ (نماز
، روزے) کی۔ معبود کا معنٰی ہے"وہ ہستی جس کے ہرحکم کی کی تعمیل ، غلامی ،
تابعداری، فرمانبردار ی، اطاعت گذاری کی جائے " فقط ماتھا ٹیکنےاورمحض زبانی
کلامی اللہ کا نام جپتے رہنےسے معبود ِ حقیقی، خالقِ کائنات اللہ ربُّ العالَمین
کے حقوق کی تکمیل نہیں ہو جاتی!
سو اس
ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جنوں اور انسانوں کی
تخلیق صرف رب کی معرفت اور اس کی عبادت و بندگی کیلئے ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا
اور اسلوب حصر و قصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ میں نے ان کو صرف اس لئے پیدا
کیا کہ یہ میری معرفت حاصل کرکے میری توحید کے قائل ہوں ، میری عبادت و بندگی
کریں، اور زندگی میرے اوامر و احکام کے مطابق گزاریں، تاکہ دنیا کی اس محدود مختصر
زندگی میں بھی وہ کامیاب و سرخرو ہوکر حقیقی فوزو فلاح سے ہمکنار و سرشار ہو سکیں،
وذالک ھو الفوذ العظیم۔ سو جنوں اور انسانوں کی تخلیق اور ان کے وجود کا اصل مقصد
یہ تھا کہ وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کریں، اور اس کی عبادت و بندگی سے سرشار ہوں
یہی راستہ ان کیلئے نجات و فلاح کا راستہ ہے، پس جو لوگ اپنے اس مقصد وجود سے غافل
اور اس راہ سے بٹے ہوئے ہیں انہوں نے دراصل اپنے حق وجود کو ختم کر دیا، اور اس
طرح ان کا جینا اور نہ جینا دونوں برابر ہو گئے بلکہ ان کا جینا ان کے مرنے سے بھی
مرتد ہے، کہ کفر و انکار اور بغاوت و سرکشی کے ایسے مجرم دوزخ کا ایندھن ہیں،
والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ و ضلال، وسوئٍ وانحراف، بکل حالٍ من الاحوال۔
عبادت
۔ سے یہاں مراد فقہ کی کتاب العبادات والی عبادت پنجگانہ مراد نہیں ۔ بلکہ اپنے
وسیع وعام مفہوم میں طلب رضاء الہی کے مرادف مراد ہے ۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ
نے کہا ہے کہ ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں ایک امر ِ اِلٰہی کی تعظیم ،
دوسرے خلق اللہ پر شفقت ، دوسرے لفظوں میں حقوق اللہ کی ادائی ، حقوق العباد کی
ادائی ۔ ماالعبادۃ التی خلق الجن والانس لھا قلنا التعظیم لامر اللہ والشفقۃ علی
خلق للہ فان ھذین النوعین لم بخل شرع منھما (کبیر) (آیت)’’ الجن والانس ‘‘۔
مخلوقات میں یہ دو قسمیں ایسی ہیں جن میں خالق نے پورا احساس ذمہ داری رکھ دیا ہے۔
اور ان کے اندر ابتلاء واختیار دونوں کی صلاحیتیں جمع کردی ہیں۔ بخلاف فرشتوں کے
جو ابتلاء سے خالی رکھے گئے ہیں ۔ اور بخلاف حیوانات کے جنہیں اختیار کی پوری قوت
نہیں دی گئی ہے ۔ پوری طرح پر ذمہ دارہستیاں بناکر یہی دو مخلوق دنیا میں بھیجی
گئی ہیں ۔ ان کی اپنی تکمیل ذات کے لئے یہ لازمی ہے کہ یہ جو کچھ بھی کریں عبادت
ہی کی راہ سے کریں ، کھائیں پئیں ، بولیں چالیں ، چلیں ، پھریں ، کمائیں، خرچ کریں
، ہر فعل ہر عمل سے مقصود اصلی رضاء الہی کا حصول ہی رکھیں ۔ اپنے وجود کی علت
غائی اسی کو سمجھیں ، یہی معنی ہیں ان کی عبادت کے ، عبدیت وعبادت سے خود انسانیت
ہی کو پورے نشوونما کا موقع ملتا ہے ۔ اور جتنی اس میں کمی رہ جائے گی ، اسی نسبت
سے انسان کامنشائے تکمیل ناتمام رہے گا ۔ (آیت)’’ لیعبدون ‘‘۔ ل تعلیل کا ہے ۔
لیکن مقصود تخلیق سے اشارہ غرض وغایت تشریعی کی جانب کرنا ہے ، نہ کہ مقصد تکوینی
کی جانب ۔
عبد(بندے)
کی عبدیت (بندگی) کا تقاضہ ہے کہ بندہءِ مؤمن و مسلمان صدقِ نِیَّت اور کامِل
اخلاصِ قلبی کے ساتھ تمام تر اوامر و احکامِ اِلٰہی اورحقوق اللہ و حقوق العباد کو
پورا کرنے کی حتّی المقدور مخلصانہ کوشش کا اہتمام کرے، اطاعت صرف اور صرف اللہ کی
، اتباع فقط رسو ل اللہ ﷺ کی اور پیروی ان ہی علماءِحق کی کرے جوجماعۃِ صحابہءِ
کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے طرزِ فکروعمل اور طور و طریقوں کے مطابق
قرآن و سُنّۃ اور اسوۃ حسنۃ کی کامل اطاعت و اتباع کرتے اور اسی کی دعوۃ و تلقین
اور تبلیغ کا فرضِ منصبی سرانجام دیتے ہوں اور فرقہ پرستی یعنی اللہ کے حکم کی
نافرمانی و کھلی بغاوت اور اللہ کے نازل کردہ اس دین ِ متین "الاسلام"
کے احکام و پیغام ، ہدایات و تعلیمات اور اصول و مقاصد میں (جو رسول اللہ ﷺ کی
حیاتِ طیبہ میں ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہو چکا تھا)کسی بھی قسم کے ردّو بدل،
اختراعات و تجاوزات اور کمی و بیشی کو مشرکانہ و حرام عمل سمجھتے ہوں۔
اللہ
ہم سب مسلمانوں کو قرآنی ہدایت نصیب فرمائے اور صراطِ مستقیم، اصل دین اسلام پر
موت مقدر کرے جودینِ اسلام تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و اتباع کا متقاضی ہے
اور فقط "قرآن و، سُنَّت و اُسوۃ حسنہ" پر مبنی ہے۔آمین یا ارحم
الرّاحمین۔
No comments:
Post a Comment