بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ
کا دین مکمّل ہے۔ اِسلام میں فرقے ہیں نہ
فرقوں میں اِسلام۔ حِصّہ۔ 5
تحریر: پرویز اقبال آرائیں، (ریسرچ اسکالر پی ایچ۔ ڈی)،
شعبۂ قرآن وسنۃ،
کلیۂ معارفِ اِسلامیہ، جامعہ کراچی۔
اللہ ربّ العالمین نے اپنا پیغام قرآن مجید، جو نورِ ہدایت ہے، کلام اللہ ہے،
علم اللہ ہے، وحی کے ذریعے رسول اللہ حضرت محمّد مصطفٰی ﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل
فرمایا، جبرئیل علیہ السّلام کو بھیج بھیج کر وحی کے ذریعے ہی رسول اللہ ﷺ کو قرآن
مجید کے وہ معارف و معانی بتائے، سمجھائے اور سکھائے جو اللہ تعالٰی کا مقصودِ اصلی ہیں، قرآن
مجید پر عمل کیسے اور کس کس طور و طریقے
سے کرنا ہے یہ بھی میرے ربّ نے رسول اللہ ﷺ کو ہی سکھایا اور مطلوب و مقصود طریقے بتائے، سمجھائے اور سکھائے، رسول اللہ ﷺ نے بعینہ قرآن مجید پر عمل کر کے
دکھایا اور اللہ نے فرمایا کہہ دو کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں
تو خدا بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا، اور فرمایا اور خدا اور اس کے رسول کی
اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے اور فرمایا مومنو! خدا اور اس کے رسول کی
فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں
تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا
اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی
اچھا ہے اور فرمایا اور خدا کی فرمانبرداری اور رسولِ (خدا) کی اطاعت کرتے رہو اور
ڈرتے رہو اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کا
کھول کر پہنچا دینا ہے اور فرمایا اے محمد! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے
میں دریافت کرتے ہیں کہ (کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال
ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے
رسول کے حکم پر چلو اور فرمایا اے ایمان والو! خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو
اور اس سے روگردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو اور فرمایا اور خدا اور اس کے رسول کے
حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور
تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو۔ کہ خدا صبر کرنے والوں کا مددگار ہے
اور فرمایا کہہ دو کہ خدا کی فرمانبرداری کرو اور رسول خدا کے حکم پر چلو۔ اگر منہ
موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرنا) جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا
ادا کرنا) ہے جو تمہارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا رستہ
پالو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف (احکام خدا کا) پہنچا دینا ہے اور فرمایا اور
نماز پڑھتے رہو اور زکوٰة دیتے رہو اور پیغمبر خدا کے فرمان پر چلتے رہو تاکہ تم
پر رحمت کی جائے اور فرمایا مومنو! خدا کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرمانبرداری
کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ ہونے دو اور فرمایا نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہو
اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے
خبردار ہے اور فرمایا اور خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اگر تم
منہ پھیر لو گے تو ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کھول کر پہنچا دینا
ہے اور فرمایا فَإِنْ
تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللہِ وَالرَّسُولِ اور فرمایا لَقَدْ
مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولا مِنْ
أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ
الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ اور فرمایا كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولا مِنْكُمْ
يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ
وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ اور فرمایا
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ
وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِم اور فرمایا هُوَ الَّذِي
بَعَثَ فِي الأمِّيِّينَ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ
وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ اور فرمایا وَمَا
يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى اور فرمایا فَلا وَرَبِّكَ
لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا
فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا اور فرمایا لَقَدْ كَانَ
لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ اور فرمایا قُلۡ ھٰذِہ سَبِیۡلی
اَدۡعُو اِلی اللہِ علی بَصِیرۃ انا و مَنِ اتبعنی اور فرمایا قُلْ إِنْ كُنْتُمْ
تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ اور فرمایا وَمَا
أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّه اور فرمایا فَاتَّقُوا
اللَّهَ وَأَطِيعُونِ اور فرمایا مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ
اور فرمایا وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا اور فرمایا اور فرمایا وَأَطِعْنَ
اللَّهَ وَرَسُولَهُ اور فرمایا و ان تطیعو اللہ و رسولہ لا یلتکم من اعمالکم شیئا
اور فرمایا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ اور فرمایا رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا
أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ اور فرمایا
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اور
فرمایا وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ اور فرمایا وَمَا
أَرْسَلْنَاكَ إِلا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ
النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ اور فرمایا يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ
شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا
مُنِيرًا اور فرمایا يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ
رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا اور فرمایا وَمَا كَانَ
لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ
لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ۔
متعدد دیگر آیات بھی ہیں پھر یہ کس
طرح ممکن ہے کہ یہ ناچیز کسی ایسے شخص کو دینِ اسلام کا عالِم مان لے جو کہ قرآن و
سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی تعلیمات اور احکام
کو ثانوی جبکہ اپنے فرقہ پرستی کے
جاہلانہ و گمراہ کن نظریات و تصورات اور
افکار کو اوّلین ترجیح دیتا ہو، لوگوں کو قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی اطاعت
و اتباع اور پیروی کرنے کی تلقین اور وعظ
و نصیحت کے بجائے اپنے من گھڑت اور خود ساختہ فرقے کا پیروکار بناتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ کی جماعت امّۃ
مسلمہ کو پھوٹ اور تفرقہ ڈالتا ہو، قرآن و
سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی تعلیمات و احکام کی صریحاً مخالفت کرتا اور لوگوں سے
کرواتا ہو ، مسلمانوں کی عظمت، اتحاد و یکجہتی کے مراکز مساجد کو مذہبی منافرت اور
فرقہ پرستی کا مورچہ بنا کر مسلمانوں کو آپس میں لڑواتا ہو، اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ نے امت مصطفوی
(مسلمانوں ) میں گروہ بندی، تفرقے
سے منع فرمایا یعنی حرام اور گناہِ کبیرہ بتایا
اور فرمایا کہ ایسے کسی بھی شخص یا گروہ اور فرقے کا دینِ اسلام اور امّۃِ
مصطفوی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، اتنی سخت وعید اور ممانعت کے باوجود جو شخص ،اللہ
و نبی ﷺ کی مخالفت میں قرقہ بندی کو جائز
بتائے ، ضلالت و گمراہی کو پھیلائے کیا اس کو یہ پر تقصیر و حقیر بندہ اپنا دینی
قائد، مذہبی پیشواء اور اسلام کا عالِم تسلیم کر لے؟ کیسے ممکن ہے اس گنہ گار میں
اللہ و رسول ﷺ کی مخالفت کی ایسی گھڑی آنے سے پہلے اللہ اس حقیر والفقیر بندہ کو ایمان پر موت نصیب فرمائے ۔ اس نا چیز کی زندگی
میں میں ایسا کویئ لمحہ نہ آئے جس میں یہ عاصی بندہ ایسے کسی بھی اکابر
کی بات، تعلیم اور احکام کو کوئی ذرا سی بھی کوئی وقعت و اہمیت
دے سکے جو امّۃ ِرسول اللہ ﷺ کی تقسیم در تقسیم ، تفرقے ، منافرت، انتشار و
افتراق اور قرآن و سنّۃِ رسول اللہ ﷺ اور نبی ﷺ کے اسوۃ الحسنہ سے بے اعتنائی، بے
رغبتی، اور دوری پھیلا کر اپنے فرقے کے خود ساختہ، من گھڑت، گمراہ کن انسانی افکار و نظریات کو فروغ دینے میں مصروفِ
عمل ہیں، واللہ ایسے عناصر رہبر کا بہروپ دھار کر رہزنی کا ارتکاب کرنے میں لگے
ہیں اس طرح کے بہروپیوں کو عالِم دین نہیں علماء سوء کہا جاتا ہے جو دینِ اسلام کے
نام لے لے کر سادہ لوح اور مخلص مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اسلام کا نہیں اپنے
اپنے فرقوں کا پیغام اور گمراہی پھیلا رہے ہیں۔نہیں ایسے کسی بھی شخص کو یہ ناچیز
عالم دین یا اسلامی اسکالر یا مذہبی پیشوا نہیں مان سکتا ایسے عناصر کو علمائے سوء
کہا جاتا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ میں نے رسول ﷺ کا نہیں کسی اور عالِم کا پوچھا تھا تو
اجمالی و اصولی جواب تو دیا جا چکا ھے تفصیل اس کی بھی جان لیجیئے، حضرات خلفائے راشدین، دیگر صحابہء کرام رضوان
اللہ تعالٰی علیہم ، تابعین و تبع تابعین، قرون اولٰی و قرونِ ثانی کے سلف صالحین،
ائمہء اربعہ فقہائے عظام مجتہدین کرام رحمۃ اللہ علیہم سے بڑا بھی آج کے علماء میں
کوئی نہیں دکھتا جنہوں نے کہ فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کو حرام بتایا امّۃ
مصطفوٰ ی کو متحد و منظم رہنے کی تلقین و نصیحت فرمائی تھی اور بتایا تھا کہ دین
اسلام فقط قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی سنّۃ (قرآن کی عملی تعبیر و تشریح اور تفسیر)
اسوۃ الحسنہ پر مبنی ہے اس کے علاوہ کچھ بھی اور دینِ اسلام کے اصول الدّین میں داخل نہیں ہے بلکہ باقی تقہ فی الدّین اور فروعی مسائل ہیں اصول الدّین نہیں ہیں۔
امّۃ مصطفوی کو گروہ در گروہ تقسیم کرنے والے، مذہبی منافرت پھیلانے والے اور ایک
دوسرے کو کافر و مشرک اور مرتد بتانے والے، مسلم معاشرے میں نفرتیں پھیلا کر بھائی
کو بھائی سے لڑانے والے علمائے اسلام کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی خود پیروی،
اطاعت و اتباع کرتے ہیں نہ اوروں کو اس کی دعوۃ دیتے ہیں، بس اپنے اپنے فرقوں کے
افکار و نظریات کی تبلیغ کو ہی دینِ اسلام کہہ کر پیش کرتے ہیں آؤ بھائی ان مفاد
پرستوں اور خود غرضوں کا دامن چھوڑ دین ان کو اپنا رہبر و رہنما اور مذہبی پیشوا
بنانے کے بجائے اصل اکابرینِ امّت صحابہء
کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم ، تابعین و تبع تابعین، قرون اولٰی و قرونِ ثانی کے
سلف صالحین، ائمہء اربعہ فقہائے عظام مجتہدین کرام رحمۃ اللہ علیہم کو درست مان لیں جو یقیناً ہم سے بہتر، صالح،
متّقی اور پرہیزگار اور حالیہ ڈیڑھ دو یا تین صدیوں کے علماء سے دین اسلام کا زیادہ علم رکھتے تھے اور باعمل عالِم تھے ان
کو اپنا اکابر مانیں اور ان کی طرح سے اور ان کی تعلیمات کی روشنی قرآن و سنّۃ اور
اسوۃ الحسنہ کی اطاعت و اتباع پر متفق ہو جائیں۔ آپس میں بھائی بھائی اور اتحادِ امّت کے داعی بن جائیں ، رحمۃ
للعامین ﷺ کے دامن رحمت سے وابستہ ہو جائیں ۔اتحادِ امّۃ بس اسی طرح ممکن ہے۔
ہم سب مسلمانوں کو
خوب اچھی طرح سمجھ لینا چھاہیئے کہ اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے
انسانوں کی ھدایت و راھنمائی کے لئے، اپنے آخری رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین
(صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) پر نازل کردہ وحی متلوو (آخری الھامی کتاب ھدایت قرآن
مجید) اور وحی غیرمتلوو (سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر مبنی جو دین
عطا فرمایا، اپنے اس پسندیدہ دین کا نام "الاسلام" رکھا جوکہ پورے کا پورا
منزل من اللہ اور کامل و اکمل ھے۔ربّ تعالٰی کا
پیغام، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ
وسلّم کا فرمان، دین کا نام فقط " الاسلام"، ایمان والے سب صرف
"مسلمان" ایک نبی ﷺکی امّۃ ہیں سب ، نورِ ہدایت بس اک قرآن ! فرقوں کا باقی نہ رہے نام و
نشان، اخوّۃِ اسلامی و امّۃِ واحدہ کاتاکہ ہوسکے کچھ امکان!ہم سب مسلمانوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اللہ رب
العالمین سبحانہ وتعالی نے انسانوں کی ھدایت و راھنمائی کے لئے، اپنے آخری رسول
امام الانبیاء رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) پر نازل کردہ وحی متلوو
(آخری الھامی کتاب ھدایت قرآن مجید) اور وحی غیرمتلوو (سنة رسول اللہ صلی اللہ
علیہ والہ وسلم) پر مبنی جو دین عطا فرمایا، اپنے اس پسندیدہ دین کا نام
"الاسلام" رکھا جوکہ پورے کا پورا منزل من اللہ اور کامل و اکمل ھے۔اللہ
رب العالمین سبحانہ وتعالی نے عالم انسانیت کے لئے اپنی اس عظیم نعمت، الوھی ھدایت
یعنی دین "الاسلام" کی تکمیل کا
بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان (خود اپنی آخری الھامی کتاب ھدایت، کلام
اللہ یعنی) قرآن مجید میں فرما دیا جب کہ اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے آخری
رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) نے
بھی اپنے خطبہء حجة الوداع میں دین اسلام کے مکمل ھونے کا بالکل واضح، واشگاف
اورغیر مبہم اعلان فرمایا دیا۔
ہر ایک سطح
پر قرآن وسنۃ کے علمی نفاذ اور دین اسلام کے غلبے و سربلندی کی ہر ممکن کوشش کرنا،
امتِ مسلمہ کو (جو کہ جسد واحد کی طرح، امتِ واحدہ ہے) متحد، مربوط و منظم رکھنے
اور ہر قسم کے تفرقے اور انتشار و افتراق، بد امنی، عدم استحکام سے بچانے کی حتی
المقدور اور مخلصانہ جدوجہد کرتے رھنا اور غیر مسلموں پر اسلام کی حقانیت ثابت کر
کے احسن طریقوں سے ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا ، مسلم معاشرے میں حقوق
اللہ و حقوق العباد کا شعور بیدار کرنا جس پر شریعۃِ اسلامیہ نے بہت زور دیا ھے ان
پر خود عمل کرنا اور عام مسلمانوں کو عمل کرنے کی تلقین و تاکید اور وعظ و نصیحت
بھی مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں، دینی
قائدین و راہ نماؤں اورمسلم حکمرانوں کی اصل، اولین اور سب سے اھم ذمہ داری اور
منصبی فریضہ ھے۔
مگر افسوس کہ
مشاھداتی طور پر درپیش اصل صورتحال، زمینی حقائق کو دیکھیں تو برصغیر کے اکثر و
بیشتر مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی قائدین و مسلمان سیاسی راھنماؤں اور
حکمرانوں کا کردار مایوس کن، اصل ذمہ داریوں اور فرائض منصبی کے تقاضوں کے بالکل
منافی و برعکس نظرآتا ہے اور ان سب کی مجرمانہ غفلت صاف عیاں ہے۔
امة مسلمہ کے
زوال وانحطاط، مسلم معاشرے میں پھیلی مذہبی منافرت، انتہا پسندی، فسق و فجور، فساد
وتفرقے،انتشاروافتراق، تباہی وبربادی وزبوں حالی، مسلم علماء، دینی قائدین، مذہبی
پیشواؤں، سیاسی رہنماؤں، وسلاطین وحکمران
طبقے کی نااھلی، فرض ناشناسی، ناقص ومایوس کن کارکردگی، لاپرواہی اورمجرمانہ غفلت
کا لازمی ومنطقی نتیجہ نظر آتا ھے۔
بدقسمتی سے بعض
بلکہ اکثر و بیشتر بے صلاحیت، نام نہاد اورخودساختہ، نااھل، حریص، عاقبت نا اندیش،
مفاد پرست، خودغرض، مسلم علماء، مذھبی پیشواؤں، و سیاسی قائدین، وسلاطین
(حکمرانوں) نے شعوری یا غیر شعوری، دانستہ یا نا دانستہ، ارادی یا غیرارادی طور
پر، اسلام کی اساس قرآن وسنۃ، ان کے دیئے ھوئے بنیادی اصول الدین اور اصل مقاصد
اسلام کو مسخ، نظرانداز، فراموش اور پس پردہ کردیا ھے، نااھل و نا لائق، ناقص
العقل، مفاد پرست و خود غرض اورمطلبی اکثر و بیشتر نام نہاد اورخودساختہ، نااھل،
حریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، مسلم علماء وسلاطین (حکمرانوں) نے اپنی
ضروریات کے مطابق لوگوں کو اپنے اپنے پسندیدہ و خودساختہ فرقوں، نام نہاد مذہبی
گروھوں، سیاسی ودینی جماعتوں، خانقاھوں اورآستانوں، من گھڑت مسالک اورگمراہ کن
نظریات کے پیچھے لگا لیا ھوا ھے۔
امة مسلمہ کو
زوال و انحطاط، مذھبی منافرت، تفرقے، انتشار وافتراق، تباہی وبربادی اور زبوں حالی
میں مبتلا کر دیا ھے۔ فقہاء ومجتہدین کے مابین (اجتہادی مسائل) یعنی فروعات میں
پائے جانے والے فطری اختلاف رائے کو بھی بد نیتی کے ساتھ، اصول الدین اوراساس
اسلام کے طور پرپیش کر کے محل نزاع بنا دیا گیا ھے۔
اکثر و بیشتر
نام نہاد اورخودساختہ، نااھل، حریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، مسلم
علماء وسلاطین (حکمرانوں) نے،
اتحاد امة کو بھی اپنے اپنے مخصوص نا جائز ذاتی، سیاسی، سماجی و معاشی اغراض و
مقاصد اورمفادات کی بھینٹ چڑھا کر پارہ پارہ کردیا ھے اور بھی اپنے اپنے مخصوص نا
جائز ذاتی، سیاسی، سماجی و معاشی اغراض و مقاصد اورمفادات کی تکمیل کے لئے اپنے
اپنے پسندیدہ و خودساختہ فرقوں، نام نہاد مذہبی گروھوں، سیاسی ودینی جماعتوں،
خانقاھوں اورآستانوں، من پسند مسالک اورگمراہ کن، خود ساختہ و باطل و ناقص، ضلالت
و گمراھی پر مشتمل من گھڑت نظریات و تعلیمات کو فروغ دینے کے لئے اپنی اپنی تمام
ترتوانائیوں اوروسائل کو بروئے کارلا رھےھیں۔
آج کل، نام نہاد
مولوی صاحبان ومذھبی پیشوا، خودساختہ سیاسی رھنما، دینی قائدین، مسلم علماء حضرات
وسلاطین (حکمرانوں) میں سے اکثر و بیشتر(الاما شاءاللہ) حریص، عاقبت نا اندیش،
مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص العقل، نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم و کم
عقل، اور مطلب پرست معلوم ہوتے ھیں۔
مسلم معاشرے کا
المیہ نہیں تو اور کیا ھے کہ مساجد، مدارس، دینی مسند و منبراورمحراب سمیت تمام تر
دینی مراکز، مذہبی اداروں اور معاملات پرآجکل، دین اسلام یعنی قرآن و سنۃ کی اصل
اور بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین اور
تفکروتدبرکی صلاحیت سےعاری ایسے عناصر (نام نہاد مولوی صاحبان ومذھبی پیشوا،
خودساختہ سیاسی رھنما، دینی قائدین، مسلم علماء حضرات، سلاطین و حکمرانوں نے نے
اپنا نا جائز تسلط وغاصبانہ قبضہ جمایا ھواھے جن میں سے اکثر و بیشتر(الاما
شاءاللہ) حریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص العقل، نامعقول،
عاقبت نا اندیش، کج فہم، کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض، مطلب پرست، بے
صلاحیت اور اپنے اپنے منصب کے لئے نا اھل ھیں۔
دین اسلام یعنی
قرآن و سنۃ کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی
الدین کی صلاحیت سےعاری اایسے ھی عناصرنے، مساجد، مدارس، منبر و محراب سمیت تمام
تر دینی مراکز، مذہبی اداروں اور معاملات پرآجکل اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ھے
جو خود فرقہ پرستی، جماعت پرستی، مسالک پرستی، اکابر پرستی، مقابر پرستی، شخصیت
پرستی، تعصب پرستی، منافرت پسندی جیسی متعدد مفاد پرستانہ و خود غرضانہ خرافات و
بدعات، اختراعات، فسق و فجور و تفریقات اور ضلالت و گمراھی میں مبتلا ھیں اور
انہوں نے قرآن و سنۃ کی اصل تعلیمات سے نا آشنا، کم تعلیم یافتہ، معصوم و سادہ لوح
مسلمانوں کی اکثریت کو بھی گمراھ کر کے اپنے پیچھے لگا رکھا ھے اوراب کافی
حد تک وہ دین حق الاسلام، صراط مستقیم (قرآن و سنۃ کے راستے) سے ھٹ چکے ھیں اور
گمراھی کی تاریک راھوں میں بھٹک رھے ھیں انہیں کوئی واضح راستہ دکھائی نہیں دیتا
وہ حیرت زدہ ھو کر سوچتے ھیں کہ مسلمانوں کے متعدد فرقوں، گروھوں، جماعتوں، طبقات،
مسالک وغیرہ میں سے کون حق پر اور صحیح ھے یا کون سا غلط ھے! سب کے سب فرقے، مذھبی
گروہ، دینی جماعتیں، مسالک وغیرھم، بذات خود ھدایت یافتہ ھونے کے دعویدار ھیں او
ایک دوسرے کو گمراہ، کافر، مشرک، بدعتی، جہنمی بتاتے ھیں۔ جب کہ قرآن و سنۃ کو سب
نے ھی چھوڑ رکھا ھے جو اصل دین اسلام اور صراط مستقیم ھے، ھر کوئی اپنے اپنے ایجاد
کردہ خود ساختہ، من پسند و من گھڑت، بے بنیاد فرقوں، جماعتوں، مسلکوں، نظریات
وغیرھم کوھی حق پر بتاتا ھے اور اسی کی طرف دعوت دیتاھے۔
انتہائی دکھ کی
بات ھے کہ دین اسلام یعنی قرآن و سنۃ کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے
نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین کی صلاحیت سےعاری ایسے عناصر، (نام نہاد مولوی
صاحبان ومذھبی پیشوا، خودساختہ سیاسی رھنما، دینی قائدین، مسلم علماء حضرات،
سلاطین و حکمرانوں) نے، جن میں
سے اکثر و بیشتر(الاما شاءاللہ) حریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا
لائق، ناقص العقل، نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم، کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و
خود غرض، بے صلاحیت، مطلب پرست اور اپنے اپنے منصب کے لئے نا اھل ھیں، اسلام کی
عظمت کے نشان، مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی اور وقار کی علامت، اھم ترین دینی
مراکز، مذھبی اداروں اوراسلامی شعائرومعاملات کو اپنی مالی و مادی منفعت کا ذریعہء
معاش، انڈسٹری، پیشہ وارانہ کاروبار، دوکانداری اور بنا رکھا ھے جس کے نتیجے میں، ان
اھم ترین دینی مراکز اور اسلامی اداروں ، مسند، منبر و محراب کے تقدیس کی بری طرح پامالی ھو رھی ھے۔
اب (الاما
شاءاللہ) اکثر و بیشترحریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص
العقل، نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم، کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض،
بے صلاحیت، مطلب پرست اور اپنے اپنے منصب کے لئے نا اھل او دین اسلام یعنی قرآن و
سنۃ کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین کی
صلاحیت سے یکسرعاری عناصر، (نام نہاد مولوی صاحبان ومذھبی پیشواؤں، خودساختہ سیاسی
رھنماؤں، دینی قائدین، مسلم علماء حضرات، سلاطین و حکمرانوں) کے تمام ترمعاشی،
سماجی، سیاسی، اغراض و مقاصد اور ناجائز مفادات، اسی فرقہ پرستی، جماعت پرستی،
مسالک پرستی، اکابر پرستی، مقابر پرستی، شخصیت پرستی، مطلب پرستی، تعصب پرستی جیسی
متعدد مفاد پرستانہ و خود غرضانہ خرافات و بدعات، اختراعات، فسق و فجور و تفریقات
اور قرآن و سنۃ کے منافی، نام نہاد اکابرین (بانیان فرقہ، مذھبی گروہ و دینی و
سیاسی جماعت) کی من گھڑت، خود ساختہ، باطل و ناقص، ضلالت و گمراھی پرمشتمل نظریات
و تعلیمات کی پیروی اور فروغ کے ساتھ وابستہ اورلازم و ملزوم ھو چکے ھیں۔
اسی لئے اب وہ
قرآن وسنۃ اور اسوة الحسنۃ کی پیروی اوراطاعت و اتباع کے بجائے اپنے اپنے فرقوں
اوراکابرین و قائدین وغیرھم کی من گھڑت، خود ساختہ، باطل و ناقص، ضلالت و گمراھی
پرمشتمل نظریات و تعلیمات کی پیروی، اطاعت و اتباع کوھی اصل دین اسلام کہہ کر پیش
کرتے ھیں، لوگوں سے کہتے ھیں کہ ھماری راھمائی کے بغیرقرآن وسنۃ کو سمجھنے کی کوشش
بھی مت کرنا، اگرایسا کرو گے تو گمراہ ھو جاؤ گے حالاں کہ ھم سب بخوبی جانتے
ھیں کہ اصل صورتحال اور حقیقت اس سے یکسر مختلف ھے۔ اکثر و بیشترحریص، عاقبت نا
اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص العقل، نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم،
کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض، بے صلاحیت، مطلب پرست اور اپنے اپنے منصب
کے لئے نا اھل او دین اسلام یعنی قرآن و سنۃ کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول
الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین کی صلاحیت سے یکسرعاری و محروم عناصر،
کتاب اللہ اورسنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پرمبنی اصل دین اسلام کی
الوھی ھدایت، سنہری تعلیمات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اسوة
الحسنۃ کو سمجھنے، سمجھانے اور اس کی طرف رجوع کرنے کی کبھی بات نہیں کرتے
جس سے ثابت ھوتا ھے کہ وہ تو خود بھی سب سے بڑھ کر ضلالت و گمراھی کی تاریک راھوں میں بھٹک
رھے ھیں، دوسروں کو صراط مستقیم پر چلنے کی کیا تلقین کریں گے۔ انہیں تو دراصل یہی
ڈر اور خوف لاحق رھتا ھے کہ لوگوں نے اگر ک کہییں خود قرآن مجید وسنۃ نبوی کو
سمجھنا شروع کر دیا تو ان کو اصل دین اسلام کی تعلیمات کا علم ھو جائے گا حقیقت
لوگوں پر عیاں ھو جائے گی جس سے ان کے ناجائز معاشی، سماجی و سیاسی مفادات (مذھبی
منافرت کے ایجنڈے) کو نقصان پہنچے گا اور کمائی کی انڈسٹری و دوکانداری بند ھونے
کا بھی خطرہ ھو گا۔
ھرایک مسلمان پر
لازم ھے کہ وہ سوچے، تفکرو تدبر اور غورکرے، ان اصل اسباب و عوامل اور محرکات کا
بغور جائزہ لینا ضروری ھے کقہ جن کے باعث امت مسلمہ کوتنزلی، انحطاط، باھمی
منافرت، بے عملی، تفرقے، بے راہ روی، تباہ حالی اور انتشار و افتراق اور زبوں حالی
کی موجودہ بد ترین و ابتر صورتحال کا سامنا ہے۔اس حقیقت سے کسی طور تجاھل و تغافل،
رو گردانی اور انحراف نہیں ھو سکتا کہ امة مسلمہ کے زوال و انحطاط، منافرت، تفرقے،
انتشار و افتراق وبربادی و تباہ حالی، مسلم علماء اور سلاطین (حکمرانوں) کی
نااھلی، فرض ناشناسی و مجرمانہ غفلت کا لازمی و منطقی نتیجہ ھے جنھوں نے کہ اپنے
اپنے اصل فرائض منصبی اور ذمہ داریوں کو نبھانے کے بجائے اپنے اپنے مخصوص ناجائز
مفادات کے حصول و تحفظ کو ترجیح دی ھے۔
اللہ رب
العالمین کے نازل کردہ کلام اللہ ( آخری کتابِ ہدایت) قرآن مجید، رحمة للعالمین
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنۃ پر مبنی دین حق ''الاسلام'' کی تفہیم، تعلیم،
تعمیل، تبلیغ اور تنفیذ (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کی مخلصانہ کوشش کرنے کے
بجائے، (الا ما شاء اللہ) اکثر وبیشترعلمائ، خطبائ، ائمہ، مبلغین، واعظین اور
مولوی حضرات، مسلم علماء اور سلاطین (حکمرانوں) نے شعوری یا غیر شعوری، دانستہ یا
نا دانستہ، ارادی یا غیر ارادی طور پراپنے اپنے ذاتی، ناجائز، سیاسی، سماجی،
معاشی، مفادات و اغراض و مقاصد کے حصول و تحفظ کی خاطر اپنے اصل فرائض منصبی کی
انجام دھی سے گریز، روگردانی، انتہائی غیرذمہ دارانہ طرزعمل، فرض ناشناسی
اورمجرمانہ غفلت، مطلب پرستی، مفاد پرستی اور خود غرضی کاشرمناک عملی مظاہرہ کیا
ہے۔
قرآن وسنۃ کی
تعلیمات اورمقاصدِ دین کے فروغ و غلبے (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کی مخلصانہ
جدو جہد کر نےاور لوگوں کو قرآن وسنۃ کی پیروی کی تلقین اور وعظ و نصیحت کرنے کے بجائے،
عاقبت نااندیش، نااھل اور گمراہ مولویوں نے کمال مکاری و عیاری کے ساتھ، اپنے اپنے
مذموم مقاصد، خودساختہ فرقوں، من پسند مذھبی گروھوں، سیاسی ودینی جماعتوں، مسالک
اور من گھڑت نظریات وخیالات اورذاتی اغراض وناجائز مفادات کو ترجیح دی ھے، حتی کہ
قرآن و سنت کو من پسند معانی پہنا کران میں تحریف معنوی کے ارتکاب سے بھی گریز
نہیں برتا ھے، حتی کہ قرآن و سنۃ کو من پسند معانی پہنا کران میں تحریف معنوی کے
ارتکاب سے بھی گریز نہیں برتا ھے۔
امت مسلمہ جسے
کہ امت واحدہ ھی رھنا ضروری تھا،ا ب بد قسمتی سے اس کوایسےمختلف خودساختہ فرقوں،
مسالک، مذھبی مکاتب فکر، دینی جماعتوں اور گروھوں میں بانٹ دیاگیا ھے جو باھم
متنفرھو کرایک دوسرے کے خلاف صف آراء و کمربستہ ھو کرآپس میں برسرپیکاراور نبرد
آزما ھیں، ھرفرقہ خود کو حق پرجب کہ دوسرے کو گمراہ کہتااور سمجھتا ھے۔ ان میں سے
کوئی بھی فرقہ اسلام دشمن باطل و طاغوتی قوتوں (کفار و مشرکین) کے بھی اتنا خلاف
نہیں جتنا کہ وہ اپنے مد مقابل دوسرے فرقے کا مخالف اور دشمن بنا ھوا ھے۔ حالانکہ
بعض مسائل فقہیہ میں، ائمہ اربعہ کے مابین جوفقہی اختلافات ھیں وہ تو سب کے سب
فروعات میں ھیں، دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں سبھی ائمہ متفق ومتحد ھیں۔ چاروں
ائمہ فقہاء اور انکی تقلید کرنے والے پیروکاروں (مقلدین) میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کوگمراہ، کافر، مشرک، فاسق و فاجر نہیں
کہتا اور نہ ھی سمجھتاھے۔ائمہ اربعہ کے ما بین فقہی اختلافات کی وجہ سے امة
میںکوئی بھی تفریق یا تقسیم اورٰ پھوٹ نہیں ھے۔ مگرموجودہ مفاد پرستانہ و خود
غرضانہ، بے بنیاد فرقہ پرستی نے امت کا تصور ھی ختم کر ڈالا ھے اور یہ اسلام
دشمنوں کی گھناونی سازش ھے۔
بے بنیاد فرقہ
پرستی کا تو اب یہ ھوعالم چکا ھے کہ (الاما شاءاللہ) اکثر و
بیشترحریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص العقل، نامعقول،
عاقبت نا اندیش، کج فہم، کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض، بے صلاحیت، مطلب
پرست اوراپنے اپنے منصب کے لئے نا اھل او دین اسلام یعنی قرآن و سنۃ کی اصل اور
بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین کی صلاحیت سے
یکسرعاری عناصر، (نام نہاد مولوی صاحبان ومذھبی پیشوا، خودساختہ سیاسی رھنما، دینی
قائدین، مسلم علماء حضرات، سلاطین و حکمران) اور ان کے پیروکار، اپنے فرقے کی تائید و حمایت کے لئے اوراسے حق پر ثابت
کرنے، دوسرے فرقے کو کافر و مشرک ثابت کرنے کی غرض سے، انتہائی بے باکی کے ساتھ،
قرآن مجید میں تحریف معنوی بھی کرلیتا ھے اور اللہ سے ذرا نہیں ڈرتا۔ کسی بھی آیت
کو جان بوجھ کر اس کے سیاق و سباق اوراصل البیان سے کاٹ کر بلا تردد من پسند اور
من گھڑت معانی و مطالب پہنا دیتا ھے جو کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا مقصود اصلی ھوتے
ھیں اور نہ ھی اس کا مطلوب یا مراد ھو سکتے ھیں بلکہ وہ من پسند معانی صرف اور صرف
اس ملا مولوی کا اپنا مقصود و مطلوب اور بد نیتی پر مبنی ذاتی ایجنڈا ھوتے ھیں۔غور
کریں تو قرآن مجید کے تراجم و تفاسیرمیں پائے جانے والے اکثر فرق واختلافات میں بھی
کسی نہ بہت حد تک اسی بے احتیاطی اور فرقہ پرستانہ سوچ و روش کا عمل دخل ضرور نظر
آتا ھے۔
قرون اولی اور
قرون وسطی کے مسلمان (صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم، تابعین و تبع تابعین
عظام، ائمہء اربعہ سمیت فقہاء و مجتہدین اورمحدثین کرام رحمة اللہ تعالی علیہم اجمعین
کیا تھے؟ سنی؟، وھابی؟، بریلوی؟، دیوبندی؟، مماتی؟ ، حیاتی؟، سلفی؟، اھل حدیث؟،
عطاری، جماعتی، طاھری، تبلیغی وغیرھم یا صرف مسلمان اورمؤمن؟، آج ھم کیا ھیں؟کیا
صرف مسلمان اور مؤمن یا پھراس کے سوا باقی سب کچھ؟ فرقہ واریت کی دین اسلام میں
کوئی گنجائش نہیں، سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ھیں، جسد واحد کی طرح، ایک
ملت، ایک قوم، ایک جماعت اور فقط ایک امة ھیں۔
تمام فرقے
اکثروبیشتر(الاما شاءاللہ)حریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص
العقل، نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم، کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض،
بے صلاحیت، مطلب پرست اوراپنے اپنے منصب کے لئے نا اھل او دین اسلام یعنی قرآن و
سنۃ کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین کی
صلاحیت سے یکسرعاری عناصر، (نام نہاد مولوی صاحبان ومذھبی پیشواؤں، خودساختہ سیاسی
رھنماؤں، دینی قائدین، مسلم علماء حضرات، سلاطین و حکمرانوں) نے اپنے سیاسی و
معاشی مفادات کے حصول و تحفظ کے لئے خود ایجاد کیے یا بنوائے ھوئے ھیں، جن کے
ذریعے ان عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، انا پرست، خود غرض، عاقبت نا اندیش ملاؤں نے
بد نیتی کے ساتھ امة مسلمہ کا شیرازھ بکھیردیاھے اور یہ عیار و مکار عناصراپنے
اپنے من گھڑت برانڈز(فرقے) متعارف کرواتے رھتے ھیں جو کہ بالکل بے بنیاد اور دراصل
ان مولویوںکی انڈسٹری، دوکانیں اورکاروباراور سیاسی ہتھکنڈے اور اسلام کے خلاف
گھنااؤنی سازش ھیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی کے دین (الاسلام) میں تو مسلمان ایک ملت
اورامت واحدھ ھیں ان میں اگر کوئی اختلاف ھو بھی جائے تو فیصلے کی غرض سے اللہ
سبحانہ و تعالی
کے کلام قرآن مجید اور (سنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی طرف رجوع کرنے
اور انہیں حکم بنانے کی ھدایت کی گئی ھے، اسلام میں تفرقے کی کسی طور پر بھی ھر گز
اجازت نہیں، فرقہ پرستی ،بت پرستی کی طرح حرام ھے اور یہ کھلی اسلام دشمنی اور
اسلام دشمن طاغوتی قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے مترادف عمل ھے۔ اس صورتحال کی
موجودگی میں اسلام دشمنوں کو کچھ بھی اور کرنے کی بھلا کیا ضرورت ھے؟
کوئی بھی شخص اس
وقت تک مؤمن اور مسلمان نہیں ھو سکتا جب تک کہ وہ اپنے والدین، اولاد اور تمام
انسانوں سے بڑھ کر محبت، محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ساتھ نہیں
رکھتا ھو۔ اب جوبھی کوئی مسلمان ملت اسلامیہ اورامة مسلمہ کی اس موجودہ زبوں حالی،
فرقہ پرستانہ روش پردل گرفتہ ، مضطرب اوربے چین ھو کر، اصلاح احوال کے لئے فکرمند
وکوشاں نہیں ھے بلکہ اس بد ترین صورت حال کے باوجود مطمئن اورخوش ھے،اسے اپنے
ایمان کی صحت پرضرورغورکرنا چاھئے! کیوں کہ قرآن وسنۃ کے مطابق، صرف اورصرف اللہ
سبحانہ وتعالی کی اطاعت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی اطاعت و اتباع،
اسوةالحسنہ، کی پیروی کاھرمسلمان پابند(مکلف) ھے۔
اخلاص قلب، صدق
نیت، جذبہ صادق کے ساتھ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے مقاصد حیات
کواپنی زندگی کے مقاصد، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی طرح رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ والہ وسلم) کی آرزوؤں کواپنی آرزوئیں بنا لینے، رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ والہ وسلم) کے اسوةالحسنہ اور اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کے نقش قدم
پرعمل پیرا ھوکر،دین حق"الاسلام"کودنیا بھرمیں غالب وسربلند کرنے
اورباطل کومغلوب وسرنگوں کرنے کی غرض سے، مخلصانہ جدوجہد کرنے کا نام
"ایمان" ھے جوکہ اللہ سبحانہ وتعالی کواھل ایمان (مسلمانوں) سے مطلوب
ومقصودھے۔ جبکہ فرقہ پرستی (جودراصل فتنہ انگیزی ھے) دین اسلام میں حرام ھے اوریہ فرقہ پرستی ھی ھے جوکہ مسلمانوں کے ایک امت
(امت واحدہ) بننے اور اسلام کے غلبے اور سربلندی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ھےـ
ذرا غور کریں کہ
آجکل فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی، پیرپرستی کے
اسیر لوگوں کا کیا عالم ھے! بدقسمتی سے لوگ اپنے اپنے فرقوں اور فرقوں کے بانیان و
اکابرین کے ساتھ اپنے تعلق کو اور ان کی رضائ و خوشنودی، محبت و تعظیم، اطاعت و
اتباع کو اللہ سبحانہ وتعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اور قرآن و
سنت پر اولیت و فوقیت اور ترجیح دینے لگے ھیں یہی عمل ایمان کی نفی کے لئے کافی ھے
اوراسی سے فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی وغیرھم
کو فروغ حاصل ھوتا اور تقویت ملتی ھے۔
ضرورت اس امر کی
ھے کہ ھم اپنے فرقوں کے بانیان واکابرین، مسالک، علمائ، جماعتوں اور ان کے قائدین،
پیروں، بزرگوں وغیرھم پر اللہ سبحانہ وتعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ
وسلم) کی رضائ و خوشنودی کے حصول اور ان کی محبت وعقیدت، تعظیم و تکریم، اورقرآن و
سنۃ کے ساتھ اپنے تعلق،اوران کی اطاعت واتباع کوفوقیت اوراولین ترجیح دیں اوراسے
ھی اپنا مطمح نظراور مقصود و مطلوب بنائے رکھیں۔ اسی طرز فکروعمل سے ان شاٰء اللہ
المستعان، امة مسلمہ کے اتحاد و استحکام اور ترقی و کامیابی اور فلاح دارین کی راہ
ھموارھو سکے گی، فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی،
پیرپرستی وغیرھم کے موجودہ منفی رجحان کا خاتمہ ھو گا، مسلمان ایک بار پھر سے، امة
واحدہ بن کر از سر نو اقوام عالم کی امامت، قیادت و سیادت اور راھنمائی کا مقدس
فریضہ سر انجام دینے کے قابل ھو سکیں گے۔
مسلمانوں
کے بیچ فرقہ پرستی و مذہبی منافرت کا
زہراس قدر سرایت کر گیا ہے اب وہ ناسور بن چکا ہے۔ سرجیکل آپریشن کی فوری اور اشد
ترین ضرورت ہے کیونکہ آجکل کے نام نہاد مذہبی و
دینی عناصر دین اسلام (قرآن و
سنۃ اور اسوۃالحسنہ)کی دعوۃ نہیں دیتے، بلکہ فقط اپنے اپنے فرقے، مسلک و
مشرب وغیرہم کی خودساختہ تعلیمات اور انسانی خیالات و بشری
افکار کو فروغ دینے میں مصروف عمل نظر آتے
ھیں۔ خدارا ذرا سوچئے؟ "وحدتِ
امّت" میں مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ
علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت مولانا انور
شاہ کاشمیری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک دن نمازِ فجر کے وقت اندھیرے میں
حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا مزاج کیسا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں! ٹھیک ہی ہے
میاں، مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کر دی۔ میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمر
علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے۔ ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں جو
آپ سے مستفید ہوئے اور خدمتِ دیں میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو
پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ تو حضرت نے فرمایا کہ میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی
عمر ضائع کر دی میں نے عرض کیا کہ حضرت اصل بات کیا ہے؟ فرمایا،ہماری عمر کا ہماری
تقریروں کا، ہماری ساری کوششوں کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفی مسلک کی
ترجیح قائم کر دیں، امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں،
یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔۔۔ اب غور کرتا ہوں
کس چیز میں عمر برباد کر دی۔ پھر فرمایا" ارے میاں! اس بات کا کہ کون سا مسلک
صحیح تھا اور کون سا خطا پر, اس کا راز کہیں حشر میں بھی نہیں کھلے گا اور نہ دنیا
میں اس کا فیصلہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی قبر میں منکر نکیر پوچھیں گے کہ رفع یدین حق
تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا؟ آمین زور سے کہنا حق تھا یا آہستہ کہنا حق تھا؟ برزخ
میں بھی اسکے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا۔۔۔
روزِ محشر اللہ تعالیٰ نہ امام شافعی کو رسوا کرے گا نہ ہی امام ابوحنیفہ کو نہ
امام مالک کو نہ امام احمد بن حنبل کو۔ اور نہ میدانِ حشر میں کھڑا کر کے یہ معلوم
کرے گا کہ امام ابو حنیفہ نے صحیح کہا تھا یا امام شافعی نے غلط کہا تھا، ایسا
نہیں ہوگا۔ تو جس چیز کا نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے نہ برزخ میں نہ محشر میں، اس
کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی اور جو "صحیح اسلام" کی دعوت
تھی جو سب کے نزدیک مجمع علیہ، اور وہ مسائل جو سب کے نزدیک متفقہ تھے اور دین کی
جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام لے کر آئے تھے، جن کی
دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا، وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر
فرض کی گئی تھی، آج اس کی دعوت تو نہیں دی جا رہی۔ یہ ضروریاتِ دین تو لوگوں کی
نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے و اغیار سبھی دین کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں
اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگنا چاہئے تھا وہ پھیل رہے ہیں۔ گمراہی پھیل
رہی ہے، الحاد آرہا ہے۔ شرک و بدعت پرستی چلی آ رہی ہے، حرام و حلال کا امتیاز اٹھ
رہا ہے۔ لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی وفروعی بحثوں میں، اس لئے غمگین بیٹھا ہوں
اور محسوس کر رہا ہوں کہ عمر ضائع کر دی۔سوچئے کہ ہماری دینی وفاداری کی ترجیحات
کیا ہیں؟ ایمان و ایقان تقاضہ کرتا ہے کہ
اطاعت و اتباع اور محبّت و وفادری کے حوالے سے ہماری اوّلین ترجیح
اپنا خالق و مالک اللہ ربّ العٰلمین سبحانہ و تعالٰی ہو، اس کے بعد رحمۃ للعٰلمین صلّی اللہ علیہ و
اٰلہ و سلم اور کلام اللہ قرآن مجید ہونا ضروری ہے، قرآن مجید کے بالکل واضح
احکامات و تعلیمات کی تعمیل میں اللہ جلّ
جلالہ اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و
اٰلہ و سلم کی سنۃ و اسوۃ الحسنہ کی کامل اطاعت و اتباع لازم ہے باقی سب ان کے
بعد کا
ہی درجہ و مقام رکھتے ہیں (مثلاً
صحابہء کرا م و والدین، خلفاء وسلاطین، فقہاء و مجتہدین، حکام
و علماء، شیوخ و اولیاء ، مصلحین ومبلّغین ، خطباء و صلحاء وغیرہم) ایک ایس۔ ایچ۔ او
اپنے ڈی۔ایس۔پی اور ایس ایس کی بات اور حکم پر آئی۔جی پولیس کی بات اور حکم کو
ترجیح دیتا ہے، دفتر میں ہم اعلٰی آفیسر
کی بات کت مقابل اس سے چھوٹے آفیسرز کی بات اور احکامات و ہدایات ماننے ست انکار
کر دیتے ھیں، فیکٹری میں چیف ایگزیکٹو
آفیسر کی بات، ہدایت اور حکم کے خلاف منیجر و سپروائزر کی بات کو اہمیت نہیں دیتے
اور صاف کہہ دیتے ہیں کہ بڑے صاحب کا جو حکم و ہدایت ہے آپ کے کہنے پر ہم اس کے
خلاف عمل نہیں کریں گے- لیکن افسوس کہ دین کے معاملے میں ہم اپنے خالق و مالکِ حقیقی اللہ ربّ العٰلمین سبحانہ و تعالٰی، اس کے رسول رحمۃ لّلعالمین صلّی اللہ علیہ و
اٰلہ و سلم اور کلام اللہ قرآن مجید کے
بالکل واضح پیغام و احکام اور تعلیمات کے صریحاً خلاف بھی اپنے اپنے فرقوں کے
اکابرین و علماء کی بات آنکھیں بند کرکے بلاجھجک فوراً مان لیتے ھیں اور اسی پر
عمل کرتے اور ہم اپنے خالق و مالکِ حقیقی اللہ ربّ العٰلمین سبحانہ و تعالٰی، اس کے رسول رحمۃ لّلعالمین صلّی اللہ علیہ و
اٰلہ و سلم اور کلام اللہ قرآن مجید کے
بالکل واضح پیغام و احکام اور تعلیمات کی نافرمانی کرتے ہیں ۔ کیا یہ کھلا تضاد
نہیں ہے؟؟؟ ہمارے خالق و مالکِ
حقیقی اللہ ربّ العٰلمین سبحانہ و
تعالٰی، اس کے رسول رحمۃ لّلعالمین صلّی
اللہ علیہ و اٰلہ و سلم اور کلام اللہ
قرآن مجید نے ہمیں (مسلمانوں کو) تفرقے، مذہبی منافرت، باہمی انتشار و افتراق سے
بچنے اور باز رہنے، اخوّت اسلامی قائم کرنے، باہم متحد و منظم اور
مربوط رہنے ، ایک دوسرے کی خیرخواہی کرتے
رہنے سمیت بہت سارے اعمال، صالحہ کا تاکیداً حکم دیا ہے پھر بھی
ہم نے اپنے خالق و مالکِ حقیقی اللہ ربّ العٰلمین سبحانہ و تعالٰی، اس کے رسول رحمۃ لّلعالمین صلّی اللہ علیہ و
اٰلہ و سلم اورکلام اللہ قرآن مجیدکی بات
مان کر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ
وسلّم کے الوہی ھدایت پر مبنی احکامات و تعلیمات اور پیغام کو پس پشت ڈال کر، اپنے اپنے فرقوں
کےاکابرین کی بات ، ان کے خود ساختہ انسای
افکار و نظریات اورنام نہادبشری خیالات
و تعلیمات کو تسلیم اور قبول کئے ہوئے ہیں جس کے لازمی و
منطقی نتیجے میں فرقہ فرقہ ہو چکے ہیں، مسلم معاشرے میں ہر طرف بے راہ روی، انحطاط و تنزّلی، گمراہی و ضلالت،
مذہبی منافرت، انتہا پسندی، مذہبی دہشت گردی، انتشار و افتراق ، فتنہ و فساد، ایک دوسرے کی
مخالفت بلکہ دشمنی عروج پر ہے۔ ائے تہیہ اور عزم صمیم کریں کہ آج سے ہم اپنے
اکابرین و علماء کی کوئی ایسی بات تسلیم اور قبول نہیں کریں گے جس کو ماننے سے
اللہ سبحانہ و تعالٰی، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ، قرآن و سنۃ یا اسوۃ
الحسنہ کی تعلیما ت و احکام سے انحراف
لازم آتا ہو مثلاً جیسے فرقہ پرستی، مذہبی منافرت، مسلمانوں کے مابین انتشار و
افتراق، مذہبی تعصبات، فرقہ پرستانہ دہشت گردی و انتہا پسندی وغیرہم ، آج سے فرقہ
پرستی پر اور فرقوں کے بانیان و اکابرین کی خودساختہ و نا م نہاد اور من گھڑت
تعلیمات پر ،قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنۃ
کی تعلیمات و احکامات کی اطاعت واتباع کو اوّلیت ، پہلی ترجیح اور فوقیت دیں گے۔اللہ و رسول اللہ ﷺ کے احکام
و تعلیمات کی جس بات سے مخالفت ہوتی ہو ایسی کوئی بھی بات کسی کی بھی ہر گز نہیں
مانیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی ہم سب کو فرقہ پرستی سےاپنے حفظ و امان اور پناہ میں رکھے۔ آمین
حدیث
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وبارک و
سلّم : "لایؤمن احدکم حتیٰ اکونَ اَحَبّ اِلیہ من وّالدہ و ولدہ والناّس
اجمعین" (متفق علیہ)تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک ایمان والا نہیں بن
سکتا جب تک کہ میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم) اسے اس کے والد، بیٹے اور
تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں،
یعنی ایمان کا اولین تقاضہ ہے کہ انسان کو
والدین، اولاد اور سارے انسانوں سے زیادہ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہ و سلم کے ساتھ قائم و دائم رہے اور اس محبت کا اولین تقاضہ ھے کہ سب سے
پہلے اور سب سے بڑھ کراللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے دین "الاسلام "اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کی سنّۃ واسوۃ الحسنہ کی اطاعت و اتباع کی جائے اور کے مقابلے میں کسی بھی دوسرے انسان کی
محبت، فرماں برداری، اطاعت و اتباع اور کسی بھی دوسرے جذبے اور چیز کو اس
پرکو اولیت، ترجیح اور فوقیت ھرگز نہ دی
جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے واضح احکامات و تعلیمات ہیں کہ جن میں تفرقے (فرقہ پرستی)
کی سخت ممانعت ہے لہذا ایمان کا تقاضہ ھے
کہ فرقوں کے بانیان و اکابرین اور فرقہ پرست علمائے کرام کے اقوال و ارشادات اور تعلیمات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کی
تعلیمات کو ترجیح، اولیت اور فوقیت دے کر فرقہ پرستی سے لاتعلق ہو جائیں، ہر قسم
کی فرقوں کے ساتھ اپنی ہر طرح کی وابستگی کو اللہ و نبی ﷺ کی محبّت پر قربان کر
دیں، اپنے آپ کو فقط مسلمان کہلائیں، قرآن
و سنت پر مبنی دین اسلام کو ہی صرف اپنا دین و مذہب جانیں۔ اللهم صل و
سلم وبارك على سيدنا و مولانا و حبيبنا و حبيب ربنا و طبيبنا و شفيعنا و قرة عيننا
محمد ن النبى الامي و على آله الطيبين و ازواجه الطاهرات امهاة المؤمنين و اصجابه
الابرار الكرام الطيبين و سائر ملائکة المقربين و عبادالله الصالحين اجمعين، اللهم
آمین برحمتک يا ارحم الراحمين و بحرمة و ببركة وبوسیلة رحمة للعالمين صلى الله
عليه و على آله و اصحابه و بارك و سلم، آمين برحمتک يا رحمن يا رحيم يا كريم
ياالله يا رب العالمين۔
(جاری
ہے۔۔۔)
No comments:
Post a Comment