بسم
اللہ الرحمن الرحیم
اللہ
کا دین مکمّل ہے۔ اِسلام میں فرقے ہیں نہ فرقوں میں اِسلام۔ حِصّہ۔ 4
تحریر:
پرویز اقبال آرائیں، (ریسرچ اسکالر پی ایچ۔ ڈی)، شعبۂ قرآن وسنۃ،
کلیۂ
معارفِ اِسلامیہ، جامعہ کراچی۔
كُنْتُمْ
خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ
عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ
لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۰ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ
الْفٰسِقُوْنَ۱۱۰- (سورۃ آل عمران –
110)
تم
بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور
بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو (١) اگر اہل کتاب بھی
ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر تھا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں (٢) لیکن اکثر
تو فاسق ہیں ۔
۔١
اس آیت میں امت مسلمہ کو ' خیر امت ' قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت بھی بیان کر
دی گئی ہے جو امر بالمعروف نہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔ گویا یہ امت اگر ان
امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو خیر امت ہے بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار
پا سکتی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت سے بھی اسی نکتے کی وضاحت مقصود و معلوم
ہوتی ہے کہ جو امر بالمعروف و نہی المنکر نہیں کرے گا، وہ بھی اہل کتاب کے مشابہ
قرار پائے گا۔ ان کی صفت بیان کی گئی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے اور
یہاں اسی آیت میں ان کی اکثریت کو فاسق کہا گیا ہے۔ امر بالمعروف یہ فرض عین ہے یا
فرض کفایہ؟ اکثر علماء کے خیال میں یہ فرض کفایہ ہے۔ یعنی علماء کی ذمہ داری ہے کہ
وہ اس فرض کو ادا کرتے رہیں کیونکہ معروف اور منکر شرعی کا صحیح علم وہی رکھتے ہیں
ان کے فریضہ تبلیغ و دعوت کی ادائیگی سے دیگر افراد کی طرف سے یہ فرض ساقط ہو جائے
گا۔ جیسے جہاد بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہے یعنی ایک گروہ کی طرف سے ادائیگی سے
اس فرض کی ادائیگی ہو جائے گی۔
١١٠۔٢
جیسے عبد اللہ بن سلام (رض) وغیرہ جو مسلمان ہوگئے تھے۔ تاہم ان کی تعداد نہایت
قلیل تھی۔ اس لئے مِنْہمْ میں مِنْ، تَبْعِیْضُ کے لئے ہے۔
چند
احادیث مبارکہ بھی ملاحظہ فرمائیں: سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 863 حدیث مرفوع
مکررات 2 متفق علیہ 0
عمرو بن عثمان، یزید بن قیس، حضرت ابوثعلبہ خشنی سے روایت ہے کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جب کسی منزل پر اترتے تو متفرق ہو کر پہاڑوں کے دروں اور نالوں میں اترتے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تمہارا یہ تفرقہ دروں اور نالوں میں صرف شیطان کی طرف سے ہے (جو تم کو ایک دوسرے سے جدا رکھنا چاہتا ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اس فرمان کے بعد پھر لوگ کبھی متفرق ہو کر نہ اترے بلکہ بعض تو یوں باہم مل کر اترتے کہ ان کو دیکھ کر کہا جا سکتا تھا کہ اگر ایک کپڑا ان پر ڈال دیا جائے تو سب کو ڈھانپ لے۔
عمرو بن عثمان، یزید بن قیس، حضرت ابوثعلبہ خشنی سے روایت ہے کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جب کسی منزل پر اترتے تو متفرق ہو کر پہاڑوں کے دروں اور نالوں میں اترتے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تمہارا یہ تفرقہ دروں اور نالوں میں صرف شیطان کی طرف سے ہے (جو تم کو ایک دوسرے سے جدا رکھنا چاہتا ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اس فرمان کے بعد پھر لوگ کبھی متفرق ہو کر نہ اترے بلکہ بعض تو یوں باہم مل کر اترتے کہ ان کو دیکھ کر کہا جا سکتا تھا کہ اگر ایک کپڑا ان پر ڈال دیا جائے تو سب کو ڈھانپ لے۔
سنن
ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1263 حدیث مرفوع مکررات 0 متفق علیہ 0
مسلم بن ابراہیم، قاسم بن فضل، ابونضرہ، حضرت ابوسعید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمانوں میں تفرقہ کے وقت ایک فتنہ پھوٹ پڑے گا اس سے قتال کرے گا جو دونوں گروہوں میں حق کے زیادہ قریب ہوگا۔
مسلم بن ابراہیم، قاسم بن فضل، ابونضرہ، حضرت ابوسعید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمانوں میں تفرقہ کے وقت ایک فتنہ پھوٹ پڑے گا اس سے قتال کرے گا جو دونوں گروہوں میں حق کے زیادہ قریب ہوگا۔
سنن
نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 329 حدیث مرفوع مکررات 13 متفق علیہ 4
احمد بن یحیی صوفی، ابونعیم، یزید بن مردانبہ، زیاد بن علاقہ، عرفجہ بن شریحاشجعی سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میرے بعد نئی نئی باتیں ہوں گی (یا فتنہ فساد کا زمانہ آئے گا) تو تم لوگ جس کو دیکھو کہ اس نے جماعت کو چھوڑ دیا یعنی مسلمانوں کے گروہ سے وہ شخص علیحدہ ہوگیا اس نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت میں پھوٹ ڈالی اور تفرقہ پیدا کیا تو تم اس کو قتل کر ڈالو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے (یعنی جو جماعت اتفاق و اتحاد پر قائم ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے) اور شیطان اس کے ساتھ ہے جو کہ جماعت سے علیحدہ ہو وہ اس کو لات مار کر ہنکاتا ہے۔
احمد بن یحیی صوفی، ابونعیم، یزید بن مردانبہ، زیاد بن علاقہ، عرفجہ بن شریحاشجعی سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میرے بعد نئی نئی باتیں ہوں گی (یا فتنہ فساد کا زمانہ آئے گا) تو تم لوگ جس کو دیکھو کہ اس نے جماعت کو چھوڑ دیا یعنی مسلمانوں کے گروہ سے وہ شخص علیحدہ ہوگیا اس نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت میں پھوٹ ڈالی اور تفرقہ پیدا کیا تو تم اس کو قتل کر ڈالو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے (یعنی جو جماعت اتفاق و اتحاد پر قائم ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے) اور شیطان اس کے ساتھ ہے جو کہ جماعت سے علیحدہ ہو وہ اس کو لات مار کر ہنکاتا ہے۔
صحیح
بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 47 حدیث مرفوع مکررات 28 متفق علیہ 3
محمد بن عرعرہ، شعبہ، زبید کہتے ہیں کہ میں نے ابووائل سے مرجیہ (فرقہ) کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ (بن مسعود) نے بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔
محمد بن عرعرہ، شعبہ، زبید کہتے ہیں کہ میں نے ابووائل سے مرجیہ (فرقہ) کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ (بن مسعود) نے بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔
مومن
کا اس بات سے ڈرنا کہ اس کا عمل اکارت کردیا جائے اور اسے خبر نہ ہو۔ ابراہیم تیمی
نے کہا کہ جب میں اپنے گفتار اور کردار کو ملاتا ہوں تو مجھے اس امر کا خوف ہوتا
ہے کہ (کہیں) میں جھٹلانے والوں میں نہ ہوجاؤں ، ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ نبی (صلی
اللہ علیہ وسلم) کے تیس صحابہ سے ملا ان میں سب اپنے منافق ہونے کا خوف کرتے تھے،
ان میں کوئی شخص یہ نہ کہتا تھا کہ میں جبرئیل اور میکائیل کے ایمان پر ہوں، حسن
بصری سے منقول ہے کہ نفاق کا خوف اسی کو ہوگاجو مومن ہو اور اس سے بے خوف وہ شخص
ہوگا جو منافق ہو، اور باہم قتال (وجدال) اور گناہ پر اصرار کرنے سے اور پھر توبہ
نہ کرنے سے لوگوں کو منع کرنا ضروری ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولم یصرواعلی
مافعلواوھم یعلمون۔سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1192 حدیث مرفوع مکررات 8 متفق
علیہ
وہب
بن بقیہ، خالد، محمد بن عمر، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا یہود تو اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور
انصار بھی اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی
کہ ان تہتر فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور یہ وہ فرقہ ہوگا جو
ہمیشہ حق پر اور میری سنت پر قائم رہے گا۔ سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1193 حدیث مرفوع
مکررات 8 متفق علیہ
احمد
بن حبنل، محمد بن یحیی، ابومغیرہ، صفوان (رض) سے اسی طرح مروی ہے کہ حضرت معاویہ
(رض) بن ابوسفیان فرماتے ہیں کہ وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ آگاہ رہو بیشک حضور اکرم
(صلی اللہ علیہ وسلم) ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم سے پہلے
جو لوگ تھے اہل کتاب میں سے وہ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور بیشک یہ امت
عنقریب 73 فرقوں میں منتشر ہوجائے گی ان میں سے 72 آگ میں داخل ہوں گے اور ایک جنت
میں جائے گا اور وہ فرقہ جماعت کا ہوگا۔ محمد بن یحیی اور عمرو بن عثمان نے اپنی
روایتوں میں یہ اضافہ کیا کہ آپ نے فرمایا کہ عنقریب میری امت میں ایسی قومیں ہوں
گی کہ گمراہیاں اور نفسانی خواہشات ان میں اس طرح دوڑیں گی جس طرح کتے کے کاٹنے سے
بیماری دوڑ جاتی ہے کہ کوئی رگ اور جوڑ باقی نہیں رہتا مگر وہ اس میں داخل ہوجاتی
ہے۔سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 872 حدیث مرفوع مکررات 8 متفق علیہ
عمرو
بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینارحمصی، عباد بن یوسف، صفوان بن عمرو، راشد بن
سعد، حضرت عوف بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے
فرمایا یہود کے اکہتر فرقے ہوئے ان میں ایک جنتی ہے اور ستر دوزخی ہیں اور نصاری
کے بہتر فرقے ہوئے ان میں اکہتر دوزخی ہیں اور ایک جنت میں جائے گا قسم ہے اس ذات
کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے میری امت کے تہتر فرقے ہوں
گے ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور بہتر دوزخی ہوں گے۔ کسی نے عرض کیا اے اللہ کے
رسول! جنتی کون ہوں گے؟ فرمایا الْجَمَاعَةُ۔جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 22 حدیث
مرفوع مکررات 3 متفق علیہ
واصل
بن عبدالاعلی، محمد بن فضیل بن قاسم بن حبیب وعلی بن نزار، نزار، عکرمہ حضرت ابن
عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے
فرمایا میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ایک فرقہ
مرجیہ اور دوسرا فرقہ قدریہ اس باب میں حضرت عمر، ابن عمر اور رافع بن خدیج سے بھی
احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے۔جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 68 حدیث
متواتر حدیث مرفوع مکررات 4 متفق علیہ
ابوکریب،
ابوبکر بن عیاش، عاصم، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وسلم) نے فرمایا آخری زمانے میں ایک قوم پیدا ہوگی جن کی عمریں کم ہوں گی بے عقل
ہوں گے قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یہ لوگ (رسول کریم (صلی
اللہ علیہ وسلم) ) والی بات (احادیث) کہیں گے لیکن دین سے اس طرح نکل جائیں گے
جیسے تیرکمان سے نکل جاتا ہے اس باب میں حضرت علی، ابوسعید اور ابوذر رضی اللہ
تعالیٰ عنہم سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اس حدیث کے علاوہ بھی
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان لوگوں کے اوصاف منقول ہیں وہ یہ کہ وہ لوگ
قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے
تیرکمان سے نکل جاتا ہے ان لوگوں سے مراد خوارج کا فرقہ حروریہ اور دوسرے خوراج
ہیں۔ جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 72 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 4 متفق علیہ
محمود بن غیلان، ابوداؤد، شعبہ، حضرت معاویہ بن قرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جب اہل شام میں خرابی پیدا ہوگئی تو تم میں کوئی خیر و بھلائی نہ ہوگی میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہے جس کی ہمیشہ مدد و نصرت ہوتی رہے گی اور کسی کا ان کی مدد نہ کرنا انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو امام بخاری علی بن مدینی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ فرقہ محدیثن کا ہے اس باب میں عبداللہ بن حوالہ، ابن عرم، زید بن ثابت اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
محمود بن غیلان، ابوداؤد، شعبہ، حضرت معاویہ بن قرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جب اہل شام میں خرابی پیدا ہوگئی تو تم میں کوئی خیر و بھلائی نہ ہوگی میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہے جس کی ہمیشہ مدد و نصرت ہوتی رہے گی اور کسی کا ان کی مدد نہ کرنا انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو امام بخاری علی بن مدینی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ فرقہ محدیثن کا ہے اس باب میں عبداللہ بن حوالہ، ابن عرم، زید بن ثابت اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
متذکرہ
بالا تمام تر قرآنی آیاۃِ مبارکہ اور احادیث سے ملنے والی تعلیمات و احکامات کے
صریحاً برعکس بعض فرقہ پرست ، نام نہاد
مذہبی عناصر کا بتایا اور دیا ہوا دیندار بننے کا آسان ترین نسخہ جو آج کل بہت عام
ہے، داڑھی، پگڑی، اونچی شلوار سمیت صرف
چند ایک ظاہری اور نمایاں نظر آنے والی سنّتوں کو اختیار کر کے آپ بآسانی مسلم
معاشرے میں دین داری کا لیبل لگا سکتے ہو اور اس کے ٹھیکے دار بن سکتے ہو، چاہے
بیشتر فرائض اور سینکڑوں، ظاہری طور پر نمایاں نظر نہ آنے والی یعنی باطنی سنتوں
کے تارک بنے رہو، بھلے سے باقی کے سارے ہی حقوق اللہ و حقوق العباد سے روگردانی
کرتے رہو۔ اس کے برعکس آپ بیشتر فرائض اور سیکڑوں ظاہری طور پر نمایاں نظر نہ آنے
والی یعنی باطنی سنتوں پر سختی کے ساتھ عمل پیرا راور کابند ہتے ہوئے اور اکثروبیشتر
حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کر کے بھی
دیندار نہیں کہلاسکتے اگر آپ نے
داڑھی، پگڑی، اونچی شلوار سمیت صرف چند ایک ظاہری اور نمایاں نظر آنے والی سنّتوں
کو اختیار نہ کیا۔
اس
طرح کے نام نہاد مذہبی عناصر کے اس آسان ترین
نسخے کے کارگر اور مؤثر ثابت ہونے کا
سارا انحصار اس شرط اوّل
کی تکمیل پر ہے جو کہ آپ کو بہر
حال میں ضرور پوری کرنی ہی پڑتی ہے ورنہ
باقی سب کچھ بے سود، دیندار تو کجا آپ ان
فرقہ پرست مذہبی عناصر کی نظر میں مسلمان بھی نہیں رہتے اور وہ لازمی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ ان کے فرقے کے انتہائی متشدّد اور سخت پیروکار اور راسخ العقیدہ ہوں اپس مخصوص فرقے کے علاوہ
کسی دوسرے کومسلمان نہ سمجھتے ہوں، اپنے فرقے کے افکار و نظریات اور تعلیمات کو،
قرآن و سنۃ اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کےاسوۃ الحسنۃ پر بھی، اوّلیّت و فوقیت اور ترجیح دیتے ہوں (معاذ
اللہ) ۔ نہ جانے یہ عناصر اللہ سبحانہ و تعالٰی، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہ
و سلم کے اسوۃ الحسنہ، قرآن مجید کی تعلیمات کو کیوں فراموش کر بیٹھے ہیں، سمجھ
نہیں آتی کہ یہ لوگ آخر اللہ تعالٰی سے کیوں نہیں ڈرتے؟
بلا
شبہ داڑھی رکھنا شعائرِ اسلام میں سے اور ایک نہایت اہم ترین سنّۃ ہے جس کا حکم وجوب کے قریب تر اور بعض کے نزدیک
واجب ہے لیکن اس کا یہ مطلب نکالنا ( جو کہ رائج
الوقت ہے) کہ بس یہی ایک ایسی سنّت ہے جس کو اپنا کرباقی کی ساری سنّتوں کی
اتباع سے بے نیازی بھی قابلِ قبول ہے کسی طور بھی درست نہیں، بجا ہے کہ داڑھی سمیت
تمام تر سنّتوں پر ہر ایک مومن و مسلمان
کو ضرور عمل کرنا چاہئے مگر کسی ایک یا دو تین سنّوں کو باقی کی سنّتوں پر مقدّم
سمجھنا یا باقی سنّتوں کو کم تر اہمیّت دینے کا کوئی جواز اس ناچیز کی سمجھ میں نہیں
آتا۔ علماء اسلام، فقہاء عظام، مجتہدینِ کرام، محدثین و اصولیّین رحمۃ اللہ علیہم
نے جو بتایا ہے اس کے خلاصہ میںسب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ
حدیث اور سنّت میں کیا فرق ہے حدیث اور سنت دونوں ہی دو مشھور اصطلاحات ہیں ۔ لہذا
قرآن پاک میں لفظ سنت بھی استعمال ہوا ہے اور حدیث بھی اور اسی طرح خود حدیث پاک
میں ان دونوں الفاظ کا مستعمل ہونا ملتا ہے حدیث اور سنت کے بارے میں علماء کے ایک
گروہ کی رائے تو یہ ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادف ہیں سو اس لحاظ سے
ایک ہی معنٰی اور مفہوم میں لیئے جاتے ہیں اور ایک دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ حدیث
ایک عام چیز ہے جبکہ سنت اس سے خاص یعنی حدیث تو ہر وہ چیز ہے کہ جسکی نسبت نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جائے کہ جس میں صحیح ،حسن ،ضعیف ،منکر اور
موضوع روایات بھی شامل ہیں اور سنت سے مراد وہ طریقہ ہے کہ جو فقط احادیث صحیحہ کی
بنیاد پر ثابت ہوتا ہو اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طے کیا ہوا طریقہ ہو
جسکو کہ آپ نے اپنی امت کو سکھایا اور جو قرآن پاک کے منشاء و معنٰی کی تفسیر و
تشریح کرتا ہے اور جو اپنی عملی صورت میں اسی قرآنی منشاء کی تکمیل کرتے ہوئے عملی
تشکیل بھی کرتا ہے اسی خاص طریقہ کا نام سنت ہے ۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ دونوں اصطلاحات یعنی حدیث اور سنت الگ الگ معنٰی و مفھوم رکھتی ہیں علم حدیث کا ایک الگ موضوع ہے اور علم سنت کا بالکل ایک الگ مفھوم اس لحاظ سے وہ سنت کی حدیث سے الگ تعریف بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ سنت فقط طریقہ متبعہ کو کہا جائے گا یعنی وہ طریقہ کہ جسے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہو فقط وہی سنت کہلائے گا ۔
درج زیل میں ہم لفظ حدیث اور سنت دونوں کے لغوی معٰنی قارئین کی سہولت کے لیے واضح کردیتے ہیں ۔۔
لفظ حدیث لغوی معنٰی :- لفظ حدیث کہ جسکو ایک خاص فن کی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے عربی زبان میں اس کے متعدد معنٰی ہیں مثلا عربی زبان میں حدیث کے معنی گفتگو کے بھی ہیں اور نئی چیز، نئی بات کو بھی عربی میں حدیث کہتے ہیـں اس کے علاوہ کوئی قابل زکر واقعہ کوئی گفتگو یا کوئی کلام اسکو بھی عربی میں حدیث کہتے ہیں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشھور فرمان ہے کہ : "خیر الحدیث کتاب اللہ یا ایک جگہ فرمایا کہ احسن الحدیث کتاب اللہ " یعنی سب سے بہتر بات یا سب سے اچھا کلام اللہ کا کلام ہے
لفظ سنت کے لغوی معنٰی :- لفظ سنت کے لغوی معنٰی روش، دستور، رواج، طریقہ، عادت، راہ، یا قانون کے ہیں جیسا کہ خود حدیث پاک میں یہی لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے : من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا ولا ینقص من اجورھم شئی ۔یہاں سنۃ حسنۃسے مراد طریقہ یا رواج کہ ہیں اور یہاں لفظ سنت اپنے فقہی یا اصولی یا اصطلاحی معنوں میں نہیں بلکہ لغوی معنوں میں ہے ۔
اسلامی شریعت کی رو سے سنت کے معروف معنٰی تو وہ طرز عمل ہے کہ جس کی دعوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور جسکو قائم کرنے کے لیے رسول دنیا میں بھیجے گئے اور جو صحابہ کرام نے آپ سے سیکھ کر اختیار کیا اور پھر نسلا بعد نسلا آگے منتقل کیا اس طریقہ کو عربی زبان میں سنت کہا جاتا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن و سنت دونوں شریعت کے بنیادی ماخذ ہیں تو اس وقت ہماری مراد اسی مفھوم میں سنت ہوتی ہے ۔
سو اس لحاظ سے لفظ سنت اصطلاحا متعدد معنٰی میں استعمالہوتا ہے ۔
سب سے پہلے لغوی معنی میں کہ جیسے ہم اوپر بیان کرچکے ۔ ۔
لفظ سنت علماء اصول کی اصطلاح میں :- علماء اصول کی اصطلاح میں سنت سے مراد وہ معروف طریقہ رسول ہے کہ جسکو نافذ کرنے کے لیے پیغمبر دنیا میں آئے اور جس پر مسلمان عمل کرتے ہیں اور جو شریعت کے احکام کا ماخذ و مصدر ہے اور جو ہم تک تین طریقوں سے پہنچا ہے کہ جن کی وضاحت ہم آگے چل کر کریں گے ۔
محدثین کی اصطلاح میں لفظ سنت کا مفہوم :- محدثین کے ہاں لفظ سنت کی اصطلاح سنت کے معروف معنٰی یعنی اس طرز عمل پر بولی جاتی ہے کہ جس کی دعوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور جسکو قائم کرنے کے لیے رسول دنیا میں آئے اور جو صحابہ کرام نے آپ سے سیکھ کر اختیار کیا اور پھر نسلا بعد نسلا آگے منتقل کیا اسی طریقہ کو عربی زبان اسلامی شریعت کی رو سے سنت کہا جاتا ہے اور یہ ہم تک تین واسطوں یا طریقوں سے پہنچتا ہے اور انھی تین طریقوں کو بنیاد بناتے ہوئے محدثین کرام سنت کو تین اقسام میں تقسیم فرماتے ہیں یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول فعل یا تقریر کو محدثین کے ہاں سنت (حدیث) کہا جاتا ہے
محدثین کے ہاں سنت تک رسائی کے اعتبار سے فقط تین طریقے معروف ملتے ہیـں کہ جن کو بنیاد بناتے ہوئے محدثین نے سنت کی تین اقسام بیان کی ہیں ۔
نمبر ایک سنت قولی یا حدیث قولی
نمبر دو سنت فعلی یا حدیث فعلی
نمبر تین سنت تقریری یا حدیث تقریری
اس کے علاوہ تمام اصولیین ، محدثین اور فقہاء کی کتابوں کو کھنگال لیا جائے آپ کو کہیں بھی ان تین طریقوں کے سوا سنت تک رسائی کا کوئی چوتھا طریقہ نہیں ملے گا اور اگر کہیں ملے گا بھی وہ شاذ کہلائے گا ۔
نوٹ :- جیسا کہ یہاں سنت فعلیہ اور سنت ترکیہ کی ایک غیر معروف، شاذ تقسیم کو بیان کیا گیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کے ترک کو سنت سے تعبیر کرنا دین میں کئی مفاسد کا ملتزم ہے کہ جسکو ہم آخر میں بیان کریں گے ۔
خیر ہم درج زیل میں محدثین کے ہاں جو سنت کی تین معروف اقسام بطور سنت تک رسائی کا طریقہ ہیں انکو ترتیب وار وضاحت سے بیان کریں گے ۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ دونوں اصطلاحات یعنی حدیث اور سنت الگ الگ معنٰی و مفھوم رکھتی ہیں علم حدیث کا ایک الگ موضوع ہے اور علم سنت کا بالکل ایک الگ مفھوم اس لحاظ سے وہ سنت کی حدیث سے الگ تعریف بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ سنت فقط طریقہ متبعہ کو کہا جائے گا یعنی وہ طریقہ کہ جسے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہو فقط وہی سنت کہلائے گا ۔
درج زیل میں ہم لفظ حدیث اور سنت دونوں کے لغوی معٰنی قارئین کی سہولت کے لیے واضح کردیتے ہیں ۔۔
لفظ حدیث لغوی معنٰی :- لفظ حدیث کہ جسکو ایک خاص فن کی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے عربی زبان میں اس کے متعدد معنٰی ہیں مثلا عربی زبان میں حدیث کے معنی گفتگو کے بھی ہیں اور نئی چیز، نئی بات کو بھی عربی میں حدیث کہتے ہیـں اس کے علاوہ کوئی قابل زکر واقعہ کوئی گفتگو یا کوئی کلام اسکو بھی عربی میں حدیث کہتے ہیں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشھور فرمان ہے کہ : "خیر الحدیث کتاب اللہ یا ایک جگہ فرمایا کہ احسن الحدیث کتاب اللہ " یعنی سب سے بہتر بات یا سب سے اچھا کلام اللہ کا کلام ہے
لفظ سنت کے لغوی معنٰی :- لفظ سنت کے لغوی معنٰی روش، دستور، رواج، طریقہ، عادت، راہ، یا قانون کے ہیں جیسا کہ خود حدیث پاک میں یہی لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے : من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا ولا ینقص من اجورھم شئی ۔یہاں سنۃ حسنۃسے مراد طریقہ یا رواج کہ ہیں اور یہاں لفظ سنت اپنے فقہی یا اصولی یا اصطلاحی معنوں میں نہیں بلکہ لغوی معنوں میں ہے ۔
اسلامی شریعت کی رو سے سنت کے معروف معنٰی تو وہ طرز عمل ہے کہ جس کی دعوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور جسکو قائم کرنے کے لیے رسول دنیا میں بھیجے گئے اور جو صحابہ کرام نے آپ سے سیکھ کر اختیار کیا اور پھر نسلا بعد نسلا آگے منتقل کیا اس طریقہ کو عربی زبان میں سنت کہا جاتا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن و سنت دونوں شریعت کے بنیادی ماخذ ہیں تو اس وقت ہماری مراد اسی مفھوم میں سنت ہوتی ہے ۔
سو اس لحاظ سے لفظ سنت اصطلاحا متعدد معنٰی میں استعمالہوتا ہے ۔
سب سے پہلے لغوی معنی میں کہ جیسے ہم اوپر بیان کرچکے ۔ ۔
لفظ سنت علماء اصول کی اصطلاح میں :- علماء اصول کی اصطلاح میں سنت سے مراد وہ معروف طریقہ رسول ہے کہ جسکو نافذ کرنے کے لیے پیغمبر دنیا میں آئے اور جس پر مسلمان عمل کرتے ہیں اور جو شریعت کے احکام کا ماخذ و مصدر ہے اور جو ہم تک تین طریقوں سے پہنچا ہے کہ جن کی وضاحت ہم آگے چل کر کریں گے ۔
محدثین کی اصطلاح میں لفظ سنت کا مفہوم :- محدثین کے ہاں لفظ سنت کی اصطلاح سنت کے معروف معنٰی یعنی اس طرز عمل پر بولی جاتی ہے کہ جس کی دعوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور جسکو قائم کرنے کے لیے رسول دنیا میں آئے اور جو صحابہ کرام نے آپ سے سیکھ کر اختیار کیا اور پھر نسلا بعد نسلا آگے منتقل کیا اسی طریقہ کو عربی زبان اسلامی شریعت کی رو سے سنت کہا جاتا ہے اور یہ ہم تک تین واسطوں یا طریقوں سے پہنچتا ہے اور انھی تین طریقوں کو بنیاد بناتے ہوئے محدثین کرام سنت کو تین اقسام میں تقسیم فرماتے ہیں یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول فعل یا تقریر کو محدثین کے ہاں سنت (حدیث) کہا جاتا ہے
محدثین کے ہاں سنت تک رسائی کے اعتبار سے فقط تین طریقے معروف ملتے ہیـں کہ جن کو بنیاد بناتے ہوئے محدثین نے سنت کی تین اقسام بیان کی ہیں ۔
نمبر ایک سنت قولی یا حدیث قولی
نمبر دو سنت فعلی یا حدیث فعلی
نمبر تین سنت تقریری یا حدیث تقریری
اس کے علاوہ تمام اصولیین ، محدثین اور فقہاء کی کتابوں کو کھنگال لیا جائے آپ کو کہیں بھی ان تین طریقوں کے سوا سنت تک رسائی کا کوئی چوتھا طریقہ نہیں ملے گا اور اگر کہیں ملے گا بھی وہ شاذ کہلائے گا ۔
نوٹ :- جیسا کہ یہاں سنت فعلیہ اور سنت ترکیہ کی ایک غیر معروف، شاذ تقسیم کو بیان کیا گیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کے ترک کو سنت سے تعبیر کرنا دین میں کئی مفاسد کا ملتزم ہے کہ جسکو ہم آخر میں بیان کریں گے ۔
خیر ہم درج زیل میں محدثین کے ہاں جو سنت کی تین معروف اقسام بطور سنت تک رسائی کا طریقہ ہیں انکو ترتیب وار وضاحت سے بیان کریں گے ۔
سنت
قولی :- سنت کی تین قسموں میں سے سب سے پہلی ہے سنت قولی، یعنی نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے اسیے ارشادات مبارکہ کہ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
مبارک قول سے کسی امر کی وضاحت کی ہو یا کسی امر کا حکم دیا ہو اور صحابہ کرام نے
اسے بعینہ سن کر ہم تک پہنچا دیا ہو جیسے مشھور حدیث " انما الاعمال بالنیات
" یہ سنت قولی کی ایک مثال ہے ۔
سنت فعلی :- سنت کی ایک قسم سنت فعلی ہے اور اس سے مراد صحابہ کرام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی مبارک عمل کو روایت کرنا یا نقل کرنا ہے ۔ یعنی سنت قولی یہ ہے کہ کسی صحابی نے نبی کریم کا کوئی مبارک فرمان سن کر اسے بعینہ ہم تک پہنچا دیا اور سنت فعلی یہ ہے کہ کوئی صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مبارک عمل دیکھے اور اسے اپنی زبان یا اپنے الفاظ میں اپنے بعد والوں کے لیے بیان کردے تو وہ سنت فعلی کہلائے گا ۔
سنت تقریری :- سنت کی تیسری قسم سنت تقریری ہے کہ جس میں نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل نقل کیا جائے اور نہ ہی عمل نقل کیا جائے بلکہ کسی اور کا کوئی عمل اور فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا ہو اور آپ نے اس پر خاموشی فرمائی ہو یعنی آپ نے اسکی ممانعت نہ فرمائی اور نہ ہی اسے ناجائز کہا ہو اسے سنت تقریری کہتے ہیں ۔
یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو عربوں میں بہت سے طور و طریقے مختلف امور میں رواج پاچکے تھے لہذا ان طور طریقوں میں سے جس چیز کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلاف شریعت پایا اسکی ممانعت فرمادی اور جس طریقے کو خلاف نہیں پایا ہاں البتہ اسکے کسی جز میں کسی اصلاح کی گنجائش ہوئی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جز کی اصلاح فرمادی اور باقی طریقے کو جوں کا توں روا رکھا اور جن امور میں کسی اصلاح کی گنجائش نہ تھی ان امور کو ویسے ہی چلتے رہنے دیا اور صحابہ کرام ان امور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و اطلاع کے اندر اندر رہتے ہوئے کرتے رہے ان سب امور کو بھی سنت تقریری کہتے ہیں ۔ ۔ ۔
فقہاء کی نظر میں سنت کی اصطلاح کا مفھوم :- فقہاء کے نزدیک لفظ سنت کا مفھوم وہی ہے جو کہ آپ نے عام بول چال میں بھی سنا ہوگا کہ دو رکعت سنت ہیں یا چار رکعت سنت ہیں اور تین رکعت واجب ہیں اور دو رکعت فرض ہیں یہاں پر فرض اور واجب کے مقابل جو لفظ سنت بولا جاتا ہے اسے فقہی اعتبار سے سنت کہا جاتا ہے اور اس کا مفھوم مندرجہ بالا تمام مفھومات سے جدا ہے اور اسکی ضرورت کسی بھی شرعی امر کی حیثیت کا تعین ہے ۔ اور آگے پھر اسکی متعدد اقسام اور جہات ہیں یعنی سنت موکدہ اور سنت غیر موکدہ وغیرہ ۔
اب آخر میں ہم تھوڑی روشنی اس امر پر ڈالیں گے کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی فعل کو ترک کرنا بھی شریعت کی کوئی دلیل بن سکتا ہے اور اگر بن سکتا ہے تو اس سے کیا کیا مفاسد آسکتے ہیں ۔ ۔ ۔
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اللہ کے دین کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذات ہے۔
لہذا اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے جو احکام آپ ﷺ دیں انہیں قبول کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے اور دوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جن کاموں سے منع فرمایا، ان سے رکنا ضروری ہے۔ کہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ "وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۷ۘ"۔ ترجمہ: "اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے"۔
پس ثابت ہوا کہ شریعت کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی امر کا حکم کرنا اور کسی امر سے منع فرمانا ہے نہ کہ آپ کا کسی امر کو ترک فرمانا کبھی بھی شریعت کی دلیل بن سکتا ہے ۔ کیونکہ اوپر آیت میں صاف صاف وضاحت ہے کہ نبی جس چیز کا حکم دیں وہ کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو یہ نہیں کہا گیا کہ نبی جو کام خود بھی نہ کرے وہ تم بھی نہ کرو یعنی ترک فعل ۔ اور اگر اس طرح ہو تو پھر کئی قرآنی آیات اور احادیث کا آپس میں ٹکراؤ پیدا ہوجائے اور اسلام کے سب سے بڑے اصول اباحت کا قلع قمع ہوجائے کہ مباح تو کہتے ہی اس امر کو ہیں کہ جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ خود کیا ہو اور نہ کرنے کا حکم دیا ہو بلکہ جس پر سکوت فرمایا جیسا کہ " وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ " کی حدیث سے بھی ظاہر ہے اور یہ حدیث دلیل ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے ۔۔ علامہ ابن حجر اسی اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فتح الباری میں رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ عدم النقل لا یدل علی عدم الوقوع ثم لو سلم لایلزم منہ عدم الجواز ۔ ۔ یعنی عدم نقل عدم وقع پر دلالت نہیں کرتا اور اگر یہ مان بھی لیا جائے تو تب بھی اس سے عدم جواز کو ثابت نہیں کیا جاسکتا اسی طرح مواہب لدنیہ میں آیا ہے کہ الفعل یدل علی الجواز وعدم الفعل لا یدل علی المنع ۔ یعنی کسی کام کا کرنا اسکے جواز کی دلیل ہے اور کسی کام کا نہ کرنا ہرگز اس کے منع کی دلیل نہیں اور اسی طرح فتح القدیر جلد اول میں ہے کہ کسی شئے سے سکوت اس کے ترک کا تقاضا نہیں کرتا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کو ترک کرنے سے اس کا سنت نہ ہونے پر عقلی دلائل
سب سے پہلا قرینہ تو یہ ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک سے کوئی عمل ترک کی سنت قرار پاتا ہے تو پھر قرآن پاک جو کہ ادلہ اربعہ کا اول ماخذ ہے اس کے ترک سے بدرجہ اولٰی کسی فعل کا ترک کرنا ضروری ہوگا
سنت فعلی :- سنت کی ایک قسم سنت فعلی ہے اور اس سے مراد صحابہ کرام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی مبارک عمل کو روایت کرنا یا نقل کرنا ہے ۔ یعنی سنت قولی یہ ہے کہ کسی صحابی نے نبی کریم کا کوئی مبارک فرمان سن کر اسے بعینہ ہم تک پہنچا دیا اور سنت فعلی یہ ہے کہ کوئی صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مبارک عمل دیکھے اور اسے اپنی زبان یا اپنے الفاظ میں اپنے بعد والوں کے لیے بیان کردے تو وہ سنت فعلی کہلائے گا ۔
سنت تقریری :- سنت کی تیسری قسم سنت تقریری ہے کہ جس میں نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل نقل کیا جائے اور نہ ہی عمل نقل کیا جائے بلکہ کسی اور کا کوئی عمل اور فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا ہو اور آپ نے اس پر خاموشی فرمائی ہو یعنی آپ نے اسکی ممانعت نہ فرمائی اور نہ ہی اسے ناجائز کہا ہو اسے سنت تقریری کہتے ہیں ۔
یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو عربوں میں بہت سے طور و طریقے مختلف امور میں رواج پاچکے تھے لہذا ان طور طریقوں میں سے جس چیز کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلاف شریعت پایا اسکی ممانعت فرمادی اور جس طریقے کو خلاف نہیں پایا ہاں البتہ اسکے کسی جز میں کسی اصلاح کی گنجائش ہوئی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جز کی اصلاح فرمادی اور باقی طریقے کو جوں کا توں روا رکھا اور جن امور میں کسی اصلاح کی گنجائش نہ تھی ان امور کو ویسے ہی چلتے رہنے دیا اور صحابہ کرام ان امور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و اطلاع کے اندر اندر رہتے ہوئے کرتے رہے ان سب امور کو بھی سنت تقریری کہتے ہیں ۔ ۔ ۔
فقہاء کی نظر میں سنت کی اصطلاح کا مفھوم :- فقہاء کے نزدیک لفظ سنت کا مفھوم وہی ہے جو کہ آپ نے عام بول چال میں بھی سنا ہوگا کہ دو رکعت سنت ہیں یا چار رکعت سنت ہیں اور تین رکعت واجب ہیں اور دو رکعت فرض ہیں یہاں پر فرض اور واجب کے مقابل جو لفظ سنت بولا جاتا ہے اسے فقہی اعتبار سے سنت کہا جاتا ہے اور اس کا مفھوم مندرجہ بالا تمام مفھومات سے جدا ہے اور اسکی ضرورت کسی بھی شرعی امر کی حیثیت کا تعین ہے ۔ اور آگے پھر اسکی متعدد اقسام اور جہات ہیں یعنی سنت موکدہ اور سنت غیر موکدہ وغیرہ ۔
اب آخر میں ہم تھوڑی روشنی اس امر پر ڈالیں گے کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی فعل کو ترک کرنا بھی شریعت کی کوئی دلیل بن سکتا ہے اور اگر بن سکتا ہے تو اس سے کیا کیا مفاسد آسکتے ہیں ۔ ۔ ۔
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اللہ کے دین کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذات ہے۔
لہذا اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے جو احکام آپ ﷺ دیں انہیں قبول کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے اور دوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جن کاموں سے منع فرمایا، ان سے رکنا ضروری ہے۔ کہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ "وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۷ۘ"۔ ترجمہ: "اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے"۔
پس ثابت ہوا کہ شریعت کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی امر کا حکم کرنا اور کسی امر سے منع فرمانا ہے نہ کہ آپ کا کسی امر کو ترک فرمانا کبھی بھی شریعت کی دلیل بن سکتا ہے ۔ کیونکہ اوپر آیت میں صاف صاف وضاحت ہے کہ نبی جس چیز کا حکم دیں وہ کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو یہ نہیں کہا گیا کہ نبی جو کام خود بھی نہ کرے وہ تم بھی نہ کرو یعنی ترک فعل ۔ اور اگر اس طرح ہو تو پھر کئی قرآنی آیات اور احادیث کا آپس میں ٹکراؤ پیدا ہوجائے اور اسلام کے سب سے بڑے اصول اباحت کا قلع قمع ہوجائے کہ مباح تو کہتے ہی اس امر کو ہیں کہ جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ خود کیا ہو اور نہ کرنے کا حکم دیا ہو بلکہ جس پر سکوت فرمایا جیسا کہ " وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ " کی حدیث سے بھی ظاہر ہے اور یہ حدیث دلیل ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے ۔۔ علامہ ابن حجر اسی اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فتح الباری میں رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ عدم النقل لا یدل علی عدم الوقوع ثم لو سلم لایلزم منہ عدم الجواز ۔ ۔ یعنی عدم نقل عدم وقع پر دلالت نہیں کرتا اور اگر یہ مان بھی لیا جائے تو تب بھی اس سے عدم جواز کو ثابت نہیں کیا جاسکتا اسی طرح مواہب لدنیہ میں آیا ہے کہ الفعل یدل علی الجواز وعدم الفعل لا یدل علی المنع ۔ یعنی کسی کام کا کرنا اسکے جواز کی دلیل ہے اور کسی کام کا نہ کرنا ہرگز اس کے منع کی دلیل نہیں اور اسی طرح فتح القدیر جلد اول میں ہے کہ کسی شئے سے سکوت اس کے ترک کا تقاضا نہیں کرتا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کو ترک کرنے سے اس کا سنت نہ ہونے پر عقلی دلائل
سب سے پہلا قرینہ تو یہ ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک سے کوئی عمل ترک کی سنت قرار پاتا ہے تو پھر قرآن پاک جو کہ ادلہ اربعہ کا اول ماخذ ہے اس کے ترک سے بدرجہ اولٰی کسی فعل کا ترک کرنا ضروری ہوگا
حکمِ
رَبّی ہے کہ : يٰٓاَيُّہَا
الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا
خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۲۰۸ (سورۃ البقرہ-208)
ترجمہ: ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی
تابعداری نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اس طرح نہ کرو جو
باتیں تمہاری مصلحتوں اور خواہشات کے مطابق ہوں ان پر تو عمل کر لو دوسرے حکموں کو
نظر انداز کر دو اس طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی
کوشش مت کرو بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپناؤ اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی
کر دی گئی اور آجکل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے
لئے تیار نہیں بلکہ دین کو عبادت یعنی مساجد تک محدود کرنا اور سیاست اور ایوان
حکومت سے دین کو نکال دینا چاہتے ہیں ۔ اس طرح عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے جو
رسوم و رواج اور علاقائی ثقافت و روایات کو پسند کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے کے لئے
آمادہ نہیں ہوتے جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر
رواج وغیرہ اور یہ کہا جارہا ہے کہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو جو تمہیں
مذکورہ خلاف اسلام باتوں کے لیے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا ہے برائیوں پر خوش
نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی نیکی باور کراتا ہے تاکہ اس کے دام ہم رنگ زمین
میں پھنسے رہو ۔
اسلام
ایک نظام عمل وعقائد ہے ۔ جب تک کسی نظام کو پوری طرح نہ مانا جائے متوقع فوائد کا
مرتب ہونا ناممکن ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو چند باتوں کو تو مان لیتے ہیں لیکن اکثر
کا عملاً انکار کردیتے ہیں وہ اسلام کو بحیثیت ایک نظام کے نہیں مانتے۔ یہودیوں
اور عیسائیوں میں آخرکار یہی مرض پیدا ہوگیا تھا۔ جس پر قرآن حکیم نے ڈانٹا۔
فرمایا افتؤمنون ببعض الکتٰب وتکفرون ببعض۔ یعنی کہ تم کتاب کے بعض مفید مطلب
حصوں پر توعمل پیرا ہو مگر اہم اور ایثار طلب حصے تمہارے دائرہ عمل سے خارج ہیں۔یہ
کیا تماشہ ہے ؟ مسلمانوں سے بھی قرآن حکیم کا مطالبہ یہی ہے کہ اگر اسلام ہمہ
صداقت ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ تمھارے لیے مشعل راہ نہ ہو۔ مانوتو پوراپورا
مانو ورنہ شیطان کی راہیں کشادہ کشادہ ہیں اور جان لو کہ اسلام کو چھوڑ کر مسلمان
کے لیے اس آسمان کے نیچے کہیں فلاح وبہبود کی امید نہیں کی جاسکتی۔ شیطان انسان
کا کھلا ہوا دشمن ہے ۔ اس کی پیروی خدا سے مخالفت کرنا ہے ۔ مسلمان کے سامنے صرف
دوراہیں ہیں۔ یا تواسلام کی راہ اور یا شیطان کی ۔ درمیان میں کوئی تیسری راہ
نہیں۔ وہ شخص جو زندگی کے کسی شعبہ میں مسلمان نہیں، وہ شیطان کی پیروی کررہا ہے
اور خدا کی اطاعت شیطان کی پیروی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ پس ضروری ہے کہ ہم اپنی
زندگیوں کو کاملاً اسلام کے گہرے رنگ میں ڈبودیں اور ہمار ے اعمال ہرطرح اسلامی
ہوں۔
اللہ
سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے، (سورۃ آل
عمران آیۃ31) ترجمہ: "اے محبوب (ﷺ)! آپ
فرما دیجئے کہ لوگو
اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہوتو
میرے فرمانبردار ہو جاؤ
اللہ تمہیں دوست رکھے
گا اور تمہارے
گناہ بخش دے
گا اور اللہ
بخشنے والا مہربان
ہے" (سورۃ آل عمران آیۃ 101) ترجمہ: "اور تم کیوں کر کفر کروگے
تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول تشریف لایا اور جس نے
اللہ کا سہارا لیا تو ضرور وہ سیدھی راہ دکھایا گیا"۔ (سورۃ آل عمران آیۃ
102) ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز
نہ مرنا مگر مسلمان" (سورۃ آل عمران آیۃ 103) ترجمہ : "اللہ تعالیٰ کی
رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ
ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے
تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے
اور تم آگ کے گڑہے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا اللہ تعالیٰ اسی
طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ"
تقوٰی کے بعد سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے
تھام لینے کا درس دے کر واضح کر دیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد
بھی انہیں پر قائم ہو سکتا اور رہ سکتا ہے۔ولا تفرقوا اور پھوٹ نہ ڈالو ' کے ذریعے
فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مزکورہ دو اصولوں سے انحراف
کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے۔ اور
یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیہ کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور
نہایت مستحکم ہو گیا۔ اور مضبوطی سے تھام لو تم لوگ اللہ کہ رسی کو، سب مل کر، اور
آپس میں مت بٹو ٹکڑیوں میں ف ۵ اور یاد کرو اللہ کے اس (عظیم الشان انعام و) احسان
کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے،
تو اس نے باہم جوڑ دیا تمہارے (پھٹے ہوئے) دلوں کو، پھر تم اس کے فضل و کرم سے آپس
میں بھائی بھائی بن گئے ف ۱ اور تم لوگ کھڑے تھے دوزخ کے (ہولناک گڑھے کے) عین
کنارے پر، تو اس نے بچا لیا تم کو اس سے (اپنی رحمت بیکراں اور عنایت بےنہایت سے)
اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتیں، تاکہ تم لوگ سیدھی راہ پر
رہو!
(سورۃ
آلِ عمران آیۃ 105) ترجمہ: "اور (خبردار) کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہو
جانا جو (مختلف فرقوں میں) بٹ گئے، اور وہ باہم اختلاف میں پڑ گئے، اس کے بعد کہ
آچکیں تھیں ان کے پاس (ان کے رب کی جانب سے واضح اور) کھلی ہدایت، اور ایسے لوگوں
کیلئے بہت بڑا عذاب ہے"
تفرق و انتشار والے لوگوں سے بچ کر رہنے کی
ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا اور کہیں تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جانا جو مختلف
فرقوں میں بٹ گیے اور وہ باہم اختلاف میں پڑ گیے اس کے بعد کہ ان کے پاس آ چکی
تھیں ان کے رب کی طرف سے کھلی ہدایات ۔ پس تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہو جانا جو
باہم بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ محض اپنی نفسانی خواہشات کی بنا پر۔ اور دنیاۓ
فانی کے حطام زائل کے پیچھے لگ کر۔ اور اس طرح ان لوگوں نے اپنے آپ کو شرف انسانیت
سے محروم کرکے حیوانیت محضہ کے درجے میں لاکھڑا کیا، جو کہ خسارہ اور انتہائی
ہولناک نقصان ہے - والعیاذ باللہ العظیم - پس تم لوگ ہمیشہ ایسے لوگوں کے طور
طریقوں سے بچ کر رہنا - وباللہ التوفیق - سو اس سے مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کے
انجام سے عبرت دلائی گئی ہے کہ وہ خدا کی واضح تنبیہات کے باوجود خدا کی رسی کو
چھوڑ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ جس کے ہاتھ میں اس رسی کا جو ٹکڑا آ گیا وہ اسی کو لے
کر بیٹھ گیا اور اسی کو حبل اللہ سمجھ کر اس پر قانع ہو گیا۔ پس تم لوگ اے
مسلمانو، کہیں ان ہی یہود و نصاریٰ کی طرح نہیں ہو جانا کہ ان کی طرح تم بھی اپنی
عاقبت برباد کر لو کہ یہ راہ فوز و فلاح کی نہیں عذاب الیم کی ہے - والعیاذ باللہ
العظیم - اللہ تفرق و انتشار اور ہلاکت خیزیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے - آمین ثم آمین
یا رب العالمین -
حق
سے محروموں کے لیے بہت بڑا عذاب - والعذاب باللہ : حق کےواضح ہو جانے کے بعد
اختلاف کرنے والوں اور نور حق سے محروم رہنے والوں کے لئے بہت بڑا عذاب- والعیاذ
باللہ : سو واضح ہدایت کے آجانے کے بعد تفرق و اختلاف سے کام لینے کرنے والوں اور
دولت حق سے محروم رہنے والوں کیلئے بہت بڑا عذاب ہے - والعیاذ باللہ - اور اتنا
بڑا کہ اس کا یہاں پر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا - والعیاذ باللہ - جیسا کہ دوسرے
مقام پر ارشاد فرمایا گیا{فَیَوْْمَئِذٍ لَّا
یُعَذِّبُ عَذَابَہٗ اَحَدٌ وَّلا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗ اَحَدٌ }پس
عقلمند کا کام یہ ہے کہ وہ حیات مستعار کی اس محدود و مختصر فرصت میں اس عذاب عظیم
سے بچنے کی فکر کرے کہ اس کا موقع و محل یہی دنیا ہے اور بس۔ اور اگر حیات دنیا کی
اس فرصت مستعار کو اخروی عذاب کے اس ہولناک انجام سے بچنے کی فکر و کوشش کی بجائے
دنیا کے متاع فانی اور حطام زائل کے جوڑنے اور جمع کرنے میں ضائع کر دیا، تو یہ
ایسا سنگین اور ہولناک ضیاع و نقصان ہو گا جس کے تدارک و تلافی کی پھر کوئی صوت
ممکن نہ ہوگی - والعیاذ باللہ العظیم -
(سورۃ
الاحزاب آیۃ36) ترجمہ: "اور روا نہیں
کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لئے جب کہ فیصلہ فرما دے اللہ اور اس کا رسول کسی
معاملے میں یہ بات کہ ان کو اس کے بعد بھی اختیار حاصل رہے اپنے اس معاملے میں اور
جس نے نافرمانی کی اللہ اور اس کے رسول کی تو یقینا (اس نے اپنا ہی نقصان کیا کہ
یقینی طور پر) وہ پڑ گیا کھلی گمراہی میں"۔
مومن کے ایمان کا اصل اور اہم تقاضا : سو اس سے
واضح فرما دیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن کے لیے کسی
اختیار کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " کسی مسلمان مرد
یا عورت کی یہ شان نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اس کیلئے کوئی
اختیار باقی رہ جائے " ۔ یہ آیت کریمہ حضرت زینب بنت حجش - (رض) - کے بارے
میں نازل ہوئی جبکہ آنحصرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید
بن حارثہ کے لئے حضرت زینب کو منگنی کا پیغام بھیجا تو انہوں نے انکار کر دیا کہ
ان کا تعلق قریش کے اونچے خاندان سے تھا۔ وہ رسول اللہ کی پھوپھی حضرت امیمہ بنت
عبد المطلب کی بیٹی تھیں جبکہ حضرت زید (رض) کو غلامی کا داغ لگ چکا تھا۔ مگر آنحضرت
- (صلی اللہ علیہ وسلم) - چاہتے تھے کہ یہ نکاح ہو جائے تاکہ اسطرح اسلامی عدل و
مساوات کا عملی ثبوت مہیا ہو اور آزاد کردہ غلاموں کو حقیر سمجھنے کی رسم عملاً
ٹوٹے اور مٹے۔ تو اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں یہ ایک اصولی اور
بنیادی ہدایت فرمائی گی کہ کسی مومن مرد اور عورت کو اپنے اس معاملے کے بارے میں
کوئی اختیار باقی نہیں رہتا جبکہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان کے اس معاملے
سے متعلق کوئی حکم وارشاد صادر ہو جائے۔ تو اس پر حضرت زینب (رض) اور آپ (رض) کے
بھائی وغیرہ فوراً اس نکاح کے لئے تیار ہو گئے اور آنحضرت - (صلی اللہ علیہ وسلم)
- نے حضرت زینب (رض) کا نکاح حضرت زید بن حارثہ (رض) سے کرا دیا۔ اور اس کے مہر کے
لئے دس دینار اور ساٹھ درہم نقد کچھ کپڑے اور کھانے پینے کا کچھ سامان بھی آپ (صلی
اللہ علیہ وسلم) نے خود عطا فرمایا۔ یہاں پر یہ امر بھی واضح رہے کہ یہ آیت کریمہ
نازل اگرچہ اس خاص واقعہ میں ہوئی مگر اس کا حکم عام ہے اور یہ اسلامی قانون اور
اسلامی نظام حیات کے لئے ایک بہت بڑی اور اہم بنیاد ہے کہ کسی بھی مسلمان فرد یا
جماعت یا حکومت یا پارلیمنٹ وغیرہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول
کے حکم کے مقابلے میں اپنی آزادیِ ٔرائے برتے اور اپنی مرضی چلائے۔ مسلمان ہونے کے
معنیٰ ہی یہ ہیں کہ انسان اپنی آزادی ٔرائے سے دستبردار ہو کہ من چاہی کی بجائے
خدا چاہی ہی زندگی گزارے۔ اور ہر جگہ اور ہر موقع پر یہ دیکھے کہ میرے خالق ومالک
کا حکم وارشاد کیا ہے؟ اور میرادین مجھ سے کیا چاہتا اور کیا کہتا ہے؟ مگر افسوس
کہ اس سب کے باوجود آج مسلمان کا حال اس سے یکسر مختلف اور دگرگوں ہے - اِلاّ
مَاشَآئَ اللّٰہُ والعیاذُ باللّٰہ العظیم -
بہرکیف اس ارشاد ربانی سے بطور قاعدئہ کلیہ کے یہ بات واضح فرما دی گئی کہ کسی
مومن اور عورت کیلئے یہ بات جائز نہیں اور نہ ہی یہ ان کی شان کے شایاں ہوسکتی ہے
کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کسی فیصلے اور حکم کی خلاف
ورزی کریں ۔ یہ بات ایمان کے تقاضوں کیخلاف ہے اور جو اس کا ارتکاب کرے گا وہ
سراسر ضلالت و گمراہی کا مرتکب قرار پائے گا - والعیاذ باللہ العظیم –
آج ہم
بریلوی، دیوبندی، وہابی، اہلحدیث،
سلفی، جماعتی، اسراری، عثمانی، مسعودی ،
توحیدی، رضوی، تبلیغی، عطاری،
حیاتی اور مماتی، طاہری، لاہوتی ، مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی، جعفری، چشتی، قادری،
نقشبندی، اور سہروردی و غیرہ پہلے ہیں اور
مسلمان بعد میں ہیں۔ ترجیحات بدل گئی ہیں
اب ہم اپنے خالقِ و حقیقی مالک اللہ سبحانہ و تعالٰی، رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلَّم (قرآن مجید
، سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ )کی اطاعت و اتباع کو عملاً ثانوی اوراپنے اپنے فرقوں،
مسالک، مشارب، فقہی مذاہب وغیرہ کی پیروی کو اوّلین حیثیت دینے لگے ہیں۔ کیا یہ
رویّے ایمان اور دینِ اسلام سے ہمارے تعلق و وابستگی کی نفی کرنے کو کافی نہیں
ہیں؟
آج
کوئی بھی فرقہ پرست مسلمان، اللہ و نبیﷺ کی کوئی بات، تعلیم یا حکم سننے، ماننے
اور تعمیل کرنے کو تیار نہیں ، وہ پہلی شرط یہ رکھتا ہے کہ اللہ و رسول ﷺ کی بات،
تعلیم یا حکم اگر اس کے فرقہ وارانہ افکار و نظریات اور خیالات و تعلیمات سے مطابقت رکھے تب تو قابلِ غور ہے
ورنہ نہیں۔ متذکرہ بالا آیات اور بہت
ساری دیگرآیات اور سنّۃِ رسول اللہ ﷺ
(متفق علیہ صحیح احادیث مبارکہ ) اور رسول اللہ ﷺ کے اسوۃ الحسنہ سے فرقوں کا
باطل، حرام و ممنوع ہونا بالکل واضح اور بخوبی ثابت ہے ، پھر بھی ہم اپنے فرقہ
پرست اکابرین کی بات، ان کے خود ساختہ، من گھڑت، کمراہ کن اور مبنی بر ضلالت
انسانی و بشری افکار و نظریات، خیالات کو
آیاتِ قرآنی پر اوّلین ترجیح اور فوقیت
دینے کی روش سے باز نہیں آتے، گویا کہ اپنے خالق و مالکِ حقیقی اللہ ربّ العالمین
کے حکم کو ماننے سے صاف انکار کر کے اپنے فرقہ پرست ملّا و مولوی، عاقبت نا اندیش
مذہبی پیشوا کی بات اور حکم کو مان کر
اپنے ایمان اور دینِ اسلام سے اپنے ہر رشتے ناطے، تعلق و وابستگی ختم کرلینا قبول کرتے ہیں
۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اللہ سب سے بڑا ہے جس نے ہم کو اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی
اطاعت و اتباع کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے ہمیں اللہ و رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برعکس
کسی بھی دوسرے کا کوئی پیغام یا بات یا حکم یا تعلیم قبول نہیں کرنی چاہئے
کیونکہ باقی سارے اکابرین و علماء ان کے
بعد ہیں جن کام فقط بغیر کسی کمی بیشی اور ردّوبدل کے، ہمیں اللہ و
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات و احکامات پہنچانا ، خود ان کی تعمیل کرنا اور ہمیں کامل
اطاعت و اتباع کی تلقین و تاکید اور وعظ و نصیحت کرتے رہنا ہے ، نہ کہ ہمیں اللہ و رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی پر لگا کر
جہنّم کا ایندھن بنانا۔
اللہ
تعالٰی کا کلام قرآنِ مجید ہمیں باربار غوروفکرکرنے اور سوچنے سمجھنے کی دعوۃ دیتا ہے ۔ آخر پھر ہم
سوچتے کیوں نہیں؟؟؟
یہ
بات پہلے ہی اظہر کالشمس بالکل واضح ہو ہی چکی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور
رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو تفرقے اور
نفاق سے صاف صاف منع فرمایا ہے، اس میں میں کسی بھی قسم کی ذرا برابر شک و شبہ کی
کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ دین اسلام میں فرقوں کے وجود کا قطعاً کوئی جواز
نہیں ہے مسلمانوں میں فرقہ بندی، فرقہ پرستی صد فیصد حرام و گناہِ کبیرا ہے، قرآن
و سنّۃ کی تعلیم و احکام سے کھلا انحراف اور
سرکشی و بغاوت کے مترادف عمل ہے جسے کہ فرقہ پرستوں نے اپنا دین و مذہب قرار دے
رکھا ہے۔ دین اسلام میں فرقہ پرستی کے وجود کا کوئی جواز ممکن نہیں۔ فرقہ پرستی کو
اپنا دین و مذہب سمجھنے اور بتانے والے مذہبی پیشواؤں سے ایک درد مند دل کی سادا
سی، معصومانہ التماس و استدعا اور دست بستہ التجا! اللہ سے ڈرو! مسلمانوں اور
امّۃِ رسول ﷺ پر رحم کرو، دینِ اسلام کو اپنی مرضی و منشاء اور نظریے و منفعت اور
اپنی خواہشِ نفس کے مطابق مت ڈھالو، بلکہ خود (دین کے تقاضوں کے عین مطابق ) اسلام
کے سانچے (اسوۃ الحسنہ) میں ڈھل جاؤ! قرآن و سنّۃ کی تعلیمات و احکامات بتاؤ، ان
سے صریحاً انحراف کر کے فرقہ واریت مت پھیلاؤ! اخوّۃِ اسلامی کا درس سناؤ! ،
دشمنانِ اسلام کے ایجنڈے کو تقویت مت پہنچاؤ! مذہبی منافرت پھیلانے سے خدارا! اب
تو باز آ جاؤ! دین کے بجائے خود کو بدلو، اپنے اپنے اکابر ین کے بجائے اللہ و نبیﷺ
کے فرمانبردار بن جاؤ، فرقے چھوڑ کر اصل دینِ اسلام سکھاؤ! سیدھے رستے پر واپس لوٹ
آؤ، اپنے پیروکاروں کو بھی صراطِ مستقیم دکھلاؤ، جہنّم میں دھکیلنے کے بجائے جنّت
الفردوس راہ پر چلاؤ! معصوم لوگوں کو فتنوں میں مت جکڑو، اللہ و رسول اللہ ﷺ کی
اطاعت و اتباع کو لازم پکڑو! کڑوے سچ کو ہضم کر جاؤ، الٹے سیدھے فتوے اب نہ لگاؤ!
انا نیت و ہٹ دھرمی چھوڑو ، حق کے رستے پر لوٹ آؤ۔ دین
ہمارا "الاسلام" سارے دینی بھائی فقط مسلمان۔ اس کے علاوہ باقی نہ رہے
کوئی دینی پہنچان!
(جاری
ہے۔۔۔)
No comments:
Post a Comment