بسم
اللہ الرحمن الرحیم
اللہ
کا دین مکمّل ہے۔ اِسلام میں فرقے ہیں نہ فرقوں میں اِسلام۔ حِصّہ۔ 1
تحریر:
ڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں،
اللہ ربّ
العالمین سبحانہ وتعالٰی نے انسانوں کی ہدایت و
راہنمائی کے لئے، اپنے آخری رسول امامُ الانبیاء رَحْمةُ
لِّلعالمین (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم) پر
نازل کردہ وحی متلوّ، آخری الہامی کتابِِ ہدایت یعنی قرآن مجید اور وحی غیرمتلوّ ،
سنۃ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم)، اُسوۃُالْحسنۃ پر مبنی جو دین عطا
فرمایا، اس کا نام "الاسلام"رکھا۔ اللہ ربُّ العالمین سبحانہ
وتعالٰی کاپسندیدہ یہ دین پورے کا پورا مُنزَّل مِنَ اللہ اور ہر لحاظ و اعتبار سے
مکمل ہے۔
اِنَّ
الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا
الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۰ۭ
وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاٰيٰتِ اللہِ فَاِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۱۹- (سورۃ آل عمران، آیۃ -19)
ترجمہ:
"بیشک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے، اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی
انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس (حق اور حقیقت کے بارے میں
صیحح) علم پہنچ گیا، محض آپس کی ضد (اور حسد) کی بنا پر، اور جو کوئی کفر کرے گا
اللہ کی آیتوں کے ساتھ تو (وہ یقینا اپنا ہی نقصان کرے گا کہ) بیشک اللہ بڑا ہی
جلد حساب لینے والا ہے"
ترجمہ:
"جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا
اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا"۔(سورۃ آلِ عمران، آیۃ-85)
سو
دین حق صرف اسلام ہے۔ اور نجات و سرخروئی اسی سے وابستہ ہے اس کے سوا اور کوئی بھی
دین اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں اور ایسے لوگ آخرت میں یقینا اور قطعی طور
پر محروم اور خسارے میں ہیں ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی
گئی ہے (وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ
دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ
الْخٰسِرِيْنَ) 003:085) ترجمہ: "جو شخص
اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت
میں نقصان پانے والوں میں ہوگا"۔(سورۃ آلِ عمران، آیۃ-85) پس جو لوگ لاپرواہی
اور غیر ذمہ داری سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ سب دین ٹھیک ہیں سب نیکی کی دعوت دیتے
ہیں وغیرہ وغیرہ وہ سراسر غلط، جھوٹ اور ناحق بات کہتے ہیں دین حق صرف اسلام ہے۔
اسکے بغیر نجات کی کوئی صورت ممکن نہیں، اسلام ہی دین فطرت اور اس پوری کائنات کا
دین ہے، والحمدللہ جل وعلا
عناد
و ہٹ دھرمی باعث محرومی : سو ضد اور حسد کی آفت اتنی بڑی اور اس قدر ہولناک آفت ہے
کہ انسان کو نورِحق وہدایت تک سے محروم کرکے اس کو اندھا بہرا بنا دیتی ہے۔
والعیاذ باللہ - اسی حسد و عناد کے جرم کا ارتکاب سب سے پہلے کیا گیا۔ اور اسی کی
بنا پر اولاد ِآدم میں سب سے پہلے جرم قتل کا ارتکاب کیا گیا۔ قابیل نے ہابیل کو
مارا۔ اور اسی کی بنا پر ابلیس لعین نے اولاد آدم سے دشمنی اور ان کو گمراہ کرنے
کی قسم کھائی تھی - والعیاذ باللہ - جسکے نتیجے میں وہ ہمیشہ کیلئے مردود اور
راندہ درگاہ ہوگیا۔ سو عناد و ہٹ دھرمی محرومی کا باعث ہے - وَالْعِیَاذُ باللّٰہ
لْعَظِیْم - بہرحال اللہ کا دین صرف دین اسلام ہے، اور یہ دین عدل و قسط کی میزان
ہے ۔ اور یہی دین آسمان و زمین کی اس پوری کائنات میں تکوینی نظام کے طور پر نافذ
ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا {
وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰت وَالْاَرضَ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّاِلَیْہ
یُرْجَعُوْنَ} (اٰل عمران : 83) اور اسی دین
حنیف کی دعوت تمام انبیائے کرام اپنے اپنے ادوار میں اپنی اپنی امتوں کو دی -
علیہم الصلاۃ والسلام -
شَرَعَ
لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ
اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ
اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ كَبُرَ عَلَي
الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ۰ۭ اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ
يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۱۳- (سورۃ الشوریٰ، آیۃ -13 )
اسی
نے مقرر فرمایا تمہارے لئے (سعادت دارین سے سرفرازی کے لئے) دین کا وہی طریقہ جس
کا حکم وہ (اس سے پہلے حضرت) نوح کو دے چکا ہے اور جس کی وحی اب ہم آپ کی طرف کر
رہے ہیں اور جس کا حکم ہم (اس سے پہلے) ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں (اس
تاکید کے ساتھ) کہ قائم کرو تم اس دین کو اور اس میں پھوٹ نہیں ڈالنا ، بڑی بھاری ہے مشرکوں پر وہ بات جس کی طرف آپ ان
کو بلا رہے ہیں اللہ چن لیتا اپنی طرف جس کو چاہتا ہے اور وہ راہ دیتا ہے اپنی طرف
اس کو جو رجوع کرتا ہے (اس وحدہ لاشریک کی طرف). سو اس سے اس دین کا بھی ذکر
و بیان فرما دیا گیا جس کی تعلیم وتلقین ان انبیاءِ کرام کو فرمائی گئی تھی اور اس
ہدایت کا بھی جو اس دین کے متعلق ان ابنیاءِ کرام کے پیروؤں کو فرمائی گئی، پس دین
سے مراد ہے اللہ کا دین اور اللہ تعالیٰ کا دین ہمیشہ سے اسلام ہی رہا، جو کہ دین
فطرت اور اس پوری کائنات کا دین ہے اور جو کہ شروع سے ایک ہی دین رہا ہے، اور جو
کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول و معتبر اور پسندیدہ دین ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر
ارشاد فرمایا گیا (اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ) 3۔ آل عمران:19) یعنی
دین تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اسلام ہی ہے۔ یہی وہ دین حنیف ہے جو اللہ تعالیٰ نے
حضرت نوح بلکہ اس سے بھی پہلے حضرت آدم کو دیا، اور یہی خاتم الانبیاء حضرت محمد
(صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیا گیا، اسکے مبادی اور اساسات شروع سے لے کر آخر تک سب
ہمیشہ ایک ہی رہی ہیں ۔ اور اس کی اصل الاصول اور اہم بنیاد توحید خداوندی ہے، فرق
اگر ہوا ہے تو جزئیات اور فروع میں ہوا ہے جس کو قرآن حکیم نے شرعۃ اور منہاج کے
الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، اور اس دین سے متعلق امتوں کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ
اس کو قائم رکھنا اور اس میں اختلاف اور تفرق نہ برپا کرنا، اسی اصولی اور بنیادی
ہدایت کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے (وَاعْتَصِمُوْا
بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا) 3۔ آل عمران:103) یعنی
تم لوگ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا، اور باہم متفرق نہ ہونا۔ اور
قائم رکھنے سے مراد ہے کہ اس کی تعلیمات کو سچائی سے مانا اور اپنایا جائے اور ان
پر دیانتداری اور راست بازی سے عمل کیا جائے۔ یہاں پر حضرات انبیاءِ کرام کا حوالہ
اس طرح دیا گیا کہ سب سے پہلے اس سلسلہ مطہرہ کی ابتدائی اور آخری کڑی کا ذکر
فرمایا گیا، یعنی حضرت نوح اور خاتم الانبیاء حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ،
اور پھر بیج کے انبیاءِ کرام میں سے تین جلیل القدر نبیوں کا ذکر فرمایا گیا، یعنی
حضرت ابراہیم، حضرت موسٰی، اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام، کیونکہ ان تینوں
کی پیروی کے دعویدار اس وقت بھی دنیا میں موجود تھے، اور آج بھی ہیں، اس طرح حضرات
انبیاءِ کرام کی پوری تاریخ کی طرف بھی ارشاد فرما دیا گیا اور ان کی امتوں کی طرف
بھی۔ والحمدللہ جل وعلا. اللہ ربّ العالمین سبحانہ وتعالٰی نے عالم انسانیت
کے لئے اپنی اس عظیم نعمت، الوھی ھدایت یعنی دین "الاسلام"
کی تکمیل کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان (خود اپنی آخری الہامی
کتاب ہدایت "قرآن مجید میں فرما دیا ہوا ہے
اَلْيَوْمَ
اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ
لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ
ترجمہ:
"آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور
تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"۔ (5سورۃ المائدہ، جزوِآخر۔ اٰیۃ
3)
اس
آیۃِ کریمہ (کے زیرِ نظرآخری جزو ) میں تکمیلِ دین کا مُژدئہ بےمثال و جانفزا سنایا گیا ہے: سو تکمیلِ دین کی بشارت ایک عظیم
الشان اور بےمثال بشارت ہے۔ اور اس جیسی دوسری کوئی بشارت ممکن ہی نہیں - فللّٰہِ
الحمْدُ وَلَہُ الشُّکْرُ- بہرکیف اس ارشاد ربانی
سے واضح فرما دیا گیا کہ اس دین کی تکمیل کردی گئی۔ احکام و مسائل ، اُصول و کلیات
، بنیادی قواعد و ضوابط اور فرائض و واجبات کے اعتبار سے۔ اور اس درجہ مکمل کہ اب
قیامت تک نہ تمہیں کسی اور وحی و کتاب کی کوئی ضرورت ہوگی نہ کسی نبی اور شریعت
کی۔ دین وہدایت سے متعلق تمہیں جو بھی ضرورت پیش آئے گی اس کا حل اور جواب و علاج
تم اس کتاب میں موجود پاؤ گے - سبحان اللہ!- کیسی عظیم اور کتنی بڑی اعجازی شان ہے
اس دین حنیف کی جس سے قدرت کی طرف سے ہمیں نوازا گیا ہے - فالحمدللہ رب العالمین -
سو اس دین حق اسلام کو اس کے اُصول و کلیات کے اعتبار سے ایسا اور اس حد تک مکمل
کردیا گیا کہ لاکھوں کروڑوں، بلکہ اربوں کھربوں انسانوں سے تعلق رکھنے والے
لاتعداد و بےشمار اور بےحد و حساب مسائل اور قیامت تک پھیلے جملہ زمانوں اور تمام
اَدوار کے تقاضوں کا کافی و شافی حل اور واضح جواب اس میں موجود ہے۔ اور عقائد و
عبادات ، مسائل و معاملات ، امن و جنگ، حرب و ضرب ، سیاست و سماج ، اَخلاق و عادات
، اِجتماع و انفراد ، تمدن و معاشرت ، مصالحت و مسالمت ، معیشت و اقتصاد ، نکاح و
طلاق ، تطہیر و تزکیہ ، حلال و حرام ، عدل و انصاف ، صحت و فساد، غرضیکہ دن و رات،
ماہ و سال اور دنیا و آخرت سے متعلق ہر گوشے کے بارے میں اس دین متین میں ایسی صاف
و صریح اور واضح و جلی اور اعلیٰ وارفع اور مجلیٰ و منقیٰ تعلیماتِ مقدسہ اور علم
و حکمت پر مبنی ارشاد اتِ عالیہ موجود ہیں جن کی کوئی نظیر و مثال تو کیا اس کا
عشر عشیر بھی کسی دوسرے دین و مذہب میں نہیں پایا جا سکتا ۔ روئے زمین پر پائے
جانے والے مختلف مذاہب و اَدیان کی اکثریت تو انسانی فکر و کاوش اور خیالات
وتصورات اور دوسرے مختلف عوامل اور احوال و ظروف کا ثمرہ و نتیجہ ہے سوائے یہودیت
و نصرانیت کے۔ جو کہ بنیادی طور پر اور اپنی اصل کے اعتبار سے آسمانی دین ہیں ۔ ان
کے بارے میں بھی ان کے حاملین اور پیروکاروں کا کہنا ہے کہ مذہب انسان کا پرائیویٹ
معاملہ ہے اور بس ۔ پس ان کے یہاں دین ومذہب کے نام سے کچھ رسم و رواج اور تقالید
و عادات ہیں جن کو ان لوگوں کے یہاں لگے بندھے طریقوں سے اپنے گھروں یا گرجاؤں میں
بجا لایا جاتا ہے اور بس۔ باقی سیاست و سماج ، معیشت و معاشرت اور نظام حکومت
وغیرہ وغیرہ سب اس سے آزاد اور اس کی گرفت و کنٹرول سے خارج اور باہر ہیں ۔ اور یہ
ان لوگوں کے یہاں گویا حکومت و عوام دونوں کے درمیان ایک طے شدہ پالیسی ہے۔ اور جب
ان آسمانی دینوں کا یہ حال ہے تو پھر باقیوں کا کہنا ہی کیا۔ ان کا معاملہ تو سرے
سے ہی خارج ازبحث ہے۔ سو اس پسِ منظر میں دیکھنے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ
دین حق اسلام کس قدر عظیم، کتنا جامع اور قدرت کا کتنا بڑا عدیم النظیر اور بےمثال
عطیہ و احسان ہے۔ اسی لئے ایک انگریز جب اسلام میں داخل ہوا تو اس سے پوچھا گیا کہ
تم کیوں مسلمان ہوئے ہو؟ تم نے اسلام میں ایسا کیا دیکھا جس نے تمہارے دامنِ دل کو
اپنی طرف کھینچا ؟ تو اس نے جواب میں اسی حقیقتِ عظمیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا
" اس لئے کہ اسلام میں ہر سوال کا جواب موجود ہے " -
فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ شَرَّفَنَا بِہٰذَا الدِّیْنِ الْعَظِیْمِ الْمُبَارِکِ،
بِمَحْضِ مَنِّہٖ وَکَرَمِہ جَلَّ وَعَلَاٗ - فَاِیَّاہُ نَسْاَلُ الثَّبَاتَ
عَلَیْہِ وَ الاِسْتَقَامَۃَ - نیز اس موقع پر
ذرا اس جانب بھی ایک نظر ڈال لیجئے اور ایک لمحے کے لئے سوچئے اور غور کیجئے کہ
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی حیاتِ نبوت کے صرف تئیس -23- سالوں کے مختصر و
محدود عرصے میں اپنی امت کو کیا کچھ دے گئے اور پوری نوع انسانیت کے لئے کتنے عظیم
الشان اور مقدس وبے مثل خزانے چھوڑ گئے جو قیامت تک دنیا جہاں کو فیضیاب کرتے رہیں
گے - صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلامُہُ عَلَیْہِ
وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَمَنِ اہْتَدٰی بِہَدْیِہ وَدَعَا
بِدَعْوَتِہ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ وَجَزَاہُ عَنَّا وَعَنْ سَائِرِ
الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ مَا جُوْزِیَ بِہٖ نَبِیٌّ عَنْ اُمَّتِہٖ وَاَنْزَلَہُ
الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَہ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ-
آمین ثم آمین۔ بہرکیف دین حنیف ایک ایسا کامل اور مکمل دین ہے جو ہر انسان کی تمام
ضروریات کی تکمیل کا کفیل و ضامن ہے کہ یہ دین دین فطرت ہے جو فطرت کے تمام تقاضوں
کی تکمیل کرتا ہے - فالحمد للہ رب العالمین۔
اِتمامِ
نعمت کا مژدۂ جانفزا : سو ارشاد فرمایا گیا اور میں نے پورا کر دیا تم لوگوں پر ـ
یعنی تم پر اپنے اس دین کو مکمل کردیا جو کہ حضرت آدم سے شرع ہوا تھا اور تمہاری
اس شریعت کی تکمیل کرکے جس کا آغاز غارِ حراء میں اترنے والی پہلی وحی سے ہوا تھا۔
نیز تم کو سیاسی غلبہ سے نوازا کہ مکہ مکرمہ فتح ہو گیا اور اس سے بتوں کی نجاست
کا ازالہ کردیا گیا۔ (معارف ، محاسن ، تدبر وغیرہ) ۔ اور تکمیلِ دین کی یہ نعمت سب
سے بڑی نعمت ہے کہ دین حق کی نعمت سے بڑھ کر کوئی نعمت ممکن ہی نہیں کہ نور حق و
ہدایت کی یہ نعمت ہی وہ نعمت ہے جو انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی راہیں
منور اور روشن کرتی ہے - فِللّـہ الحمدُ ربِّ
العالمین - سو دین حنیف جس کا آغاز ابو البشر
حضرت آدم پر وحی سے ہوا تھا جو ہر زمانے کی ضرورتوں اور مشیتِ الٰہی کے تقاضوں کے
مطابق نازل ہوتا رہا یہاں تک کہ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اس کی
تکمیل اور خاتمہ ہو گیا۔ اور قیامت تک کی دنیا کو دین کامل نصیب ہو گیا۔ جبکہ اس
سے پہلے آنے والے تمام دینوں کی حیثیت اسی دین کامل کے مختلف اَجزا کی سی ہے۔ اور
اتمامِ نعمت سے مراد اس وحی کی تکمیل ہے جس کا آغاز تئیس برس قبل غارِ حرا میں ہوا
تھا۔ سو اس موقع پر اس کی بھی تکمیل ہو گئی۔ اس طرح اس روز اہل ایمان کو دو انعام
یکجا مل گئے کہ حضرت آدم سے شروع ہونے والا سلسلہ وحی بھی مکمل ہو گیا اور اس
سلسلہ وحی کی بھی تکمیل ہو گئی جس کا آغاز اس سے تئیس سال قبل حضرت امام الانبیاء
(صلی اللہ علیہ وسلم) پر غار حرا میں ہوا تھا ۔
اللہ ربِّ قدوس کا پسندیدہ دین ، اسلام : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد
فرمایا گیا کہ میں نے پسند کر لیا تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر ۔ پس اسلام
کے سوا اور کوئی بھی دین اس کے یہاں قابلِ قبول نہیں ۔ لہذا جس نے اسلام کے سوا
کسی بھی دوسرے دین کو اپنایا وہ اس سے قبول نہیں ہو گا۔ اور ایسا شخص سراسر خسارے
میں ہو گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی تصریح فرمائی گئی - {
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الاِسْلامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی
الاٰخٰرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْن} - (آلِ عمران : 85)
۔ اور دین حنیف اسلام ہی وہ دین ہے جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اور
انسان کو حقیقی کامیابی اور ابدی سعادتوں سے بہرہ مند و سرفراز کرنے والا دین ہے۔
اور اسلام کا حاصل اور اس کا خلاصہ ہے اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک اللہ وحدہ
لاشریک کے حوالے کر دینا جیسا کہ حضرت ابراہیم نے کہا تھا -
{ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ } - (البقرۃ: 131) یعنی
" میں نے اپنے آپ کو حوالے کر دیا پروردگار عالم کے " ۔ اور یہی دین ہے
اس پوری کائنات کا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا - { وَلَہُ اَسْلَمَ
مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ }
- (آل عمران : 83) یعنی " اسی کے آگے سرنگوں ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں اور
زمیں میں ہیں خوشی سے یا مجبوری سے ۔ اور سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے "۔
الیوم
سے مراد یا تو 9 ذی الحجہ کا خاص دن ہے اور یا الیوم زمانہ پر دلالت کرنے کے لئے
ہے۔ یعنی اب کفار کی قوت ٹوٹ چکی ہے انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ وہ اب تم کو نہیں
مٹا سکتے۔ اب اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو اور اس کے کسی حکم کی تعمیل میں پس وپیش نہ
کیا کرو۔
(آج
میں نے مکمل کردیا ہے تمھارے لیے تمھارا دین ) جیسے پہلے عرض کیا جا چکا ہے یہ آیت
9 ذی الحجہ 10ھ بمقام عرفات بروز جمعہ سرور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل
ہوئی۔ اس میں بتایا گیا کہ جس دین کا داعی بنا کر آپ کو بھیجا گیا تھا آج وہ ظاہری
اور باطنی، صوری اور معنوی ہر لحاظ سے پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس دین کے غلبہ اور
فتح مندی کا جو وعدہ آپ سے کیا گیا تھا آج آپ نے اپنے غلاموں سمیت مشاہدہ کر لیا
کہ وہ پورا کر دیا گیا۔ نیز وہ عقائد جن پر تمہاری نجات کا انحصار ہے وہ مکمل طور
پر تمہیں سکھادئیے گئے۔ شریعت وقانون کے وہ بنیادی قواعد تفصیلا یا اصولا تم کو
بتا دئیے گئے جو ہر زمانہ اور تمام حالات میں تمہارے لئے روشنی کا مینار ثابت ہوں
گے۔ تمہیں ایسے اصولوں کی تعلیم بھی دے دی جن کی مدد سے تم ہر نئی مشکل کا حل اور
ہر جدید مسئلہ کا جواب معلوم کر سکو گے۔
(اور
پوری کردی ہے تم پر اپنی نعمت) یعنی قرآن جیسی کتاب ہدایت ، محمد مصطفی علیہ
التحیۃ والثناءجیسا رسول اور ہادی عطا فرمایا۔ ہدایت کی راہ تم پر روشن کر دی اور
اس پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائی۔ مکہ جہاں کفر و شرک کی حکومت تھی وہاں آج اسلام
کا پرچم لہرا رہا ہے۔ جہاں لات وہبل کی پوجا ہوا کرتی تھی وہاں اللہ وحدہ لا شریک
کے حضور میں پیشانیاں محو سجود ہیں۔
(اور
میں نے پسند کرلیا تمھارے لیے اسلام کو بطور دین) دین اسلام جو تمام سابقہ انبیا
اور رسل کا دین تھا وہی دین اپنی کامل صورت میں تمہارے لئے پسند کر لیا گیا ہے۔ اب
اس میں اضاضہ اور تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ یہ آیت حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ
وسلم) کے خاتم الانبیا ہونے کی واضح دلیل ہے۔ کیونکہ جب دین مکمل ہو چکا اس کے
احکام میں ردو بدل کی گنجائش نہ رہی تو پھر کسی دوسرے نبی کے آنے کی بھی ضرورت نہ
رہی۔
شان
نزول : بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک یہودی آیا اور اس
نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل
ہوئی ہوتی تو ہم روز نزول کو عید مناتے فرمایا کون سی آیت ؟ اس نے یہی (
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ
وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ) 5- المآئدہ:3) پڑھی
آپ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقام نزول
کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا ، آپ کی مراد اس سے یہ
تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے ۔ ترمذی شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے
مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی
اس دن ۲ دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔
(پس جو لاچار ہوجائے بھوک میں درآں حا لیکہ نہ
جھکنے والا گناہ کی طرف تو یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا
ہے۔) مندرجہ بالا آیۃ کریمہ کے ابتدائی جزو میں بعض چیزوں کو حرام کرنے کے بعد
فرمایا کہ اگر کوئی شخص ایسی حالت میں ہو کہ اسے کھانے کے لئے ان چیزوں کے علاوہ
اور کوئی چیز میسر نہ ہو تو اس نے اگر اپنی جان بچانے کے لئے بقدر ضرورت ان میں سے
کوئی چیز کھائی تو اس سے باز پرس نہ ہوگی۔
اللہ
ربّ العالمین سبحانہ وتعالٰی کےآخری رسول ، امام الانبیاء، رحمةّ لِّلعالمین حضرت
محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) نے بھی اپنے خطبہء حجة الوداع میں دین
اسلام کے مکمل ھونے کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان فرمادیا۔
خُطْبَۃ
اَلوَدَاع اصطلاحاً حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان ارشادات جو کہا جاتا ھے جو
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ۱۰ھ کے حج کے موقع پر فرمائے- واضح رھے کہ سن ۱۰ھ
میں جو حج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا، یہ ہجرت کے بعد آپ کا واحد اور آخری
حج تھا۔ کیونکہ ۱۱ھ میں حضور کا وصال ہوگیا تھا۔ چنانچہ اسی مناسبت سے حضور کا یہ
حج ’حجۃ الوداع کہلاتا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے جو ارشادات فرمائے انہیں ’خطبۃ الوداع یا پھر ’خطبۃ حجۃ الوداع‘ کہا جاتا
ہے۔
خطبہ
حجة الوداع حضور کی مختلف ہدایات کا مجموعہ ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے بہت سی ہدایات فرمائیں جن میں دو بڑے خطبے بھی شامل ہیں۔ ایک
خطبہ حضور نے عرفات میں ارشاد فرمایا۔ یہی خطبہ سنت رسول کے طور پر اب بھی ٩ ذی
الحجہ کی دوپہر کو عرفات کے میدان میں پڑھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا خطبہ وہ ہے جو
حضور نے منٰی میں ارشاد فرمایا۔ اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے
بہت سے سوالات پوچھے گئے، حضور نے ان کے جوابات دیے۔
حضور
نے حج کے مختلف مسائل کے بارے میں بھی ہدایات دیں۔ عرفات اور منٰی میں نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو جو
بات یاد رکھی اور وہ آگے منتقل کی، اس کو محدثین کرام رحمہم اللہ نے محفوظ کیا۔ ان
سب کا مجموعہ محدثین کی اصطلاح میں حجة الوداع کا خطبہ کہلاتا ہے۔
خطبۃ
حجۃالوداع کواسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔خطبۃ حجۃالوداع بلاشبہ انسانی حقوق
کااوّلین اورمثالی منشوراعظم ہے۔اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کاسب سے
پہلامنشورانسانی حقوق ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت
کوئی نسلی،قومی مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کاکوئی شائبہ نظرتک نہیں آیا۔یہ
ابلاغ اسلام کی بنیادپر’حجۃالاسلام‘،’حجۃ التمام‘اور’حجۃ البلاغ‘کے نام سے بھی
موسوم ہے اس حج کے موقع پرآقاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جوخطبہ
ارشادفرمایااسے’’ حجۃ الوداع‘‘ کہتے ہیں۔آپ ﷺ کے حکم سے قصوء اونٹنی
پرکجاواکساگیااورآپ ﷺ قصواء اونٹنی پرسوارہوکر بطن وادی میں تشریف لے گئے اسوقت
اآپ ﷺکے گردایک لاکھ چوبیس ہزاریاایک لاکھ چوالیس ہزارانسانوں (صحابہءکرام)
کاسمندرٹھاٹھیں ماررہاتھاآپ ﷺنے انکے سامنے ایک جامع خطبہ ارشادفرمایا۔اس خطبہ کی
اہمیت کے پیش نظر اس کا مکمل متن پیش خدمت ہے تاکہ ہم سب مصطفی کریمﷺکے ان
ارشادات کا بنظرغائر مطالعہ کریں جس میں نوع انسانی کے جملہ حقوق کی نشاندہی کی
گئی ہے اور نوع انسانی کے مختلف اصناف کے حقوق وفرائض کاجوتذکرہ کیاگیاہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اﷲ پاک کی حمدوثناء کرتے ہوئے خطبہ کی ابتداء یوں فرمائی۔ "اے لوگو!بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بیشک تمھارا باپ(آدم علیہ السلام)ایک ہے۔سن لو،کسی عربی کوکسی عجمی پر،کسی سْر خ کوکسی کالے پراور کسی کالے کوکسی سْرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔اس طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخراور رنگ ونسل کی برتری اور قومیت میں اونچ نیچ وغیرہ تصوراتِ جاہلیت کے بْتوں کوپاش پاش کرتے ہوئے مساواتِ اسلام کاعَلم بلند فرمایا۔فرمایا:اے لوگو!تمھاری جانیں اور تمھارے اموال تم پر عزت وحرمت والے ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو،یہ اس طرح ہے جس طرح تمھارا آج کا دن حرمت والاہے۔اور جس طرح تمھارا یہ شہر حرمت والاہے۔بے شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔سنو!اﷲ کاپیغام میں نے پہنچادیااورجس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہواس پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچادے۔ سارا سود معاف ہے لیکن تمھارے لئے اصل زر ہے،نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پرکوئی ظلم کرے۔
اﷲ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیاہے کہ کوئی سود نہیں۔سب سے پہلے جس ربا(سود،بیاج)کو میں کالعدم کرتاہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کاسود ہے۔یہ سب کاسب معاف ہے۔زمانہ جاہلیت کی ہر چیزکو میں کالعدم قرار دیتا ہوں اور تمام خونوں میں سے جوخون میں معاف کررہاہوں وہ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حارث کے بیٹے ربیعہ کاخون ہے جو اس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھااور ہذیل قبیلہ نے اس کوقتل کردیا۔اے لوگو!شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ اس زمین میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی،لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے ہوشیاررہنا۔پھرفرمایاکہ جس روز اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا،سال کوبارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی قعدہ،ذی الحجہ،محرم اور رجب)ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں۔
اے لوگو!اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو،میں تمھیں عورتوں (بیویوں)کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ وہ تمھارے زیرِ دست ہیں،وہ اپنے بارے میں کسی اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمھارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور اﷲ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمھارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اوران کے تم پر بھی حقوق ہیں۔تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر کی حرمت کو برقراررکھیں اور ان پریہ لازم ہے کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو،پھر اﷲ تعالیٰ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کردو اور انہیں بطور سزا تم مار پیٹ سکتے ہولیکن جو ضرب شدید نہ ہو اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔
اے لوگو!میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو،بے شک میں نے اﷲ کا پیغام تم کو پہنچا دیاہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کہ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اﷲ تعالیٰ کی کتاب(قرآن کریم)اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سنت۔
آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اﷲ پاک کی حمدوثناء کرتے ہوئے خطبہ کی ابتداء یوں فرمائی۔ "اے لوگو!بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بیشک تمھارا باپ(آدم علیہ السلام)ایک ہے۔سن لو،کسی عربی کوکسی عجمی پر،کسی سْر خ کوکسی کالے پراور کسی کالے کوکسی سْرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔اس طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخراور رنگ ونسل کی برتری اور قومیت میں اونچ نیچ وغیرہ تصوراتِ جاہلیت کے بْتوں کوپاش پاش کرتے ہوئے مساواتِ اسلام کاعَلم بلند فرمایا۔فرمایا:اے لوگو!تمھاری جانیں اور تمھارے اموال تم پر عزت وحرمت والے ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو،یہ اس طرح ہے جس طرح تمھارا آج کا دن حرمت والاہے۔اور جس طرح تمھارا یہ شہر حرمت والاہے۔بے شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔سنو!اﷲ کاپیغام میں نے پہنچادیااورجس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہواس پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچادے۔ سارا سود معاف ہے لیکن تمھارے لئے اصل زر ہے،نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پرکوئی ظلم کرے۔
اﷲ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیاہے کہ کوئی سود نہیں۔سب سے پہلے جس ربا(سود،بیاج)کو میں کالعدم کرتاہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کاسود ہے۔یہ سب کاسب معاف ہے۔زمانہ جاہلیت کی ہر چیزکو میں کالعدم قرار دیتا ہوں اور تمام خونوں میں سے جوخون میں معاف کررہاہوں وہ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حارث کے بیٹے ربیعہ کاخون ہے جو اس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھااور ہذیل قبیلہ نے اس کوقتل کردیا۔اے لوگو!شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ اس زمین میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی،لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے ہوشیاررہنا۔پھرفرمایاکہ جس روز اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا،سال کوبارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی قعدہ،ذی الحجہ،محرم اور رجب)ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں۔
اے لوگو!اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو،میں تمھیں عورتوں (بیویوں)کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ وہ تمھارے زیرِ دست ہیں،وہ اپنے بارے میں کسی اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمھارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور اﷲ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمھارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اوران کے تم پر بھی حقوق ہیں۔تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر کی حرمت کو برقراررکھیں اور ان پریہ لازم ہے کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو،پھر اﷲ تعالیٰ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کردو اور انہیں بطور سزا تم مار پیٹ سکتے ہولیکن جو ضرب شدید نہ ہو اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔
اے لوگو!میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو،بے شک میں نے اﷲ کا پیغام تم کو پہنچا دیاہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کہ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اﷲ تعالیٰ کی کتاب(قرآن کریم)اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سنت۔
اے
لوگو!میری بات غور سے سنواور اس کو سمجھو تمہیں یہ چیز معلوم ہونی چاہئے کہ ہر
مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔کسی
آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز
لے، پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔جان لو کہ دل ان تینوں باتوں پرحسد وعناد نہیں
کرتے۔ہرکسی عمل کوصرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا۔حاکم وقت کو ازراہ خیر خواہی
نصیحت کرنا۔مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ شامل رہنااور بے شک ان کی دعوت ان لوگوں
کوبھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے علاوہ ہیں۔جس کی نیت طلب دنیاہواﷲ تعالیٰ اس کے
فقروافلاس کو اس کی آنکھوں کے سامنے عیاں کردیتاہے اور اس کے پیشہ کی آمدنی منتشر
ہوجاتی ہے اور نہیں حاصل ہوتااس کواس سے مگر اتنا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا
گیاہے اور جس کی نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے دل کو غنی
کردیتا ہے اور اس کا پیشہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور دنیا اس کے پاس آتی ہے اس
حال میں کہ وہ اپنی ناک گھسیٹ کرآتی ہے۔اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری
بات کو سنااور دوسروں تک پہنچایا۔بسا اوقات وہ آدمی جو فقہ کے کسی مسئلے کا جاننے
والاہے وہ خود فقیہ نہیں ہوتااور بسا اوقات حامل فقہ کسی ایسے شخص کو بات
پہنچاتاہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔تمھارے غلام،جو تم کھاتے ہوان سے ان کو
کھلاؤ۔جو تم خود پہنتے ہو ان سے ان کو پہناؤ،اگر ان سے کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس
کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کردو۔اے اﷲ کے بندو!ان کو سزا نہ
دو۔میں پڑوسی کے بارے میں تمھیں نصیحت کرتاہوں(یہ جملہ سرکار دوعالمﷺنے اتنی بار
دہرایاکہ یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ حضورﷺپڑوسی کو وارث نہ بنادیں)۔ اے لوگو!اﷲ
تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے،اس لئے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ
اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کرے۔بیٹا،بستر والے کا ہوتاہے یعنی خاوند کا اور
بدکارکے لیے پتھر۔جو شخص اپنے آپ کواپنے باپ کے بغیرکسی طرف منسوب کرتا ہے اس پر
اﷲ تعالیٰ،فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔نہ قبول کرے گا اﷲ تعالیٰ اس سے کوئی
بدلہ اور کوئی مال۔جو چیز کسی سے مانگ کرلواسے واپس کرو،عطیہ ضرور واپس ہونا چاہئے
اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرناچاہئے اور جو ضامن ہو اس پر اس کی ضمانت ضروری
ہے۔(بخاری و مسلم وابوداؤد)۔
اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایاکہ تم سے میرے بارے میں دریافت کیاجائے گا،تم کیا جواب دوگے؟انہوں نے کہاں ہم گواہی دیں گے کہ آٓپ ﷺ نے اﷲ کا پیغام پہنچایا،اس کو ادا کیااور خلوص کی حد کر دی۔حضورﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا،پھر لوگوں کی طرف موڑااور فرمایا:"اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا"
اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایاکہ تم سے میرے بارے میں دریافت کیاجائے گا،تم کیا جواب دوگے؟انہوں نے کہاں ہم گواہی دیں گے کہ آٓپ ﷺ نے اﷲ کا پیغام پہنچایا،اس کو ادا کیااور خلوص کی حد کر دی۔حضورﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا،پھر لوگوں کی طرف موڑااور فرمایا:"اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا"
بخاری
شریف کی روایت ہےکہ امیرالمؤمنیں فاروقِ
اعظم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ان کے دورِ خلافت میں ایک یہودی
عالِم نے کہا کہ یا امیرالمؤمنین (رضی اللہ تعالٰی عنہ) آپ کے قرآن میں ایک آیۃ ایسی ہے کہ وہ آیۃ اگر
ہم پر نازل ہوئی ہوتی توہم اس آیۃ کے نازل ہونے کے دن کو عید بنا لیتے۔ ہم اسے
باقاعدہ ایک یادگار دن کے طور پر مناتے کہ اس
دن میں ہم پر فلاں سنہ میں یہ آیۃ
نازل ہوئی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی
عنہ نے پوچھا کہ کون سی آیۃ؟ اس یہودی
عالِم نے کہا " اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ
وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ"
(اللہ تعالٰی نے فرمایا ترجمہ: "آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور تم
پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"۔ (5سورۃ
المائدہ، جزوِآخر۔ اٰیۃ 3) تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ
الصلٰوۃ والسّلام) سے نزولِ وحی کے جس سلسلے کا آغاز ہوا تھا اور ان کے بعد
مختلف انبیاء و رسل (علیہم الصّلٰوۃ والسّلام ) کے ذریعے ہدایات و احکام نازل ہوتے
رہے ، نبی کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تک نزولِ وحی کا یہ سلسلہ چلتا رہا، احکام آتے
بھی رہے، منسوخ بھی ہوتے رہے ، ان میں ترامیم بھی ہوتی رہیں ، یہ ایک ارتقاء و
تدریج کا عمل تھا، نبی کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر اللہ تعالٰی نے نزولِ وحی کے اس سلسلے کا اختتام فرما دیا، اب
قیامت تک کوئی وحی نہیں ہو گی اور نہ احکام میں ردّو بدل ہو گااور نہ ہی کوئی نیا
حکم آئے گا۔ تو تکمیل کا معنٰی یہ ہے کہ
وہ وحی جو حضرت آدم (علیہ الصلٰوۃ والسّلام) پر نازل ہونا شروع ہوئی
تھی وہ ترتقاء و تدریج کے مراحل طے کرتے
ہوئے نبی کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر مکمّل ہوئی ہے۔ چنانچہ جب غلبہءِدین مکمّل
ہوا تو حجّۃالوداع اس کا سب سے بڑا
مظہرتھا کہ اتنی شان و شوکت اس سے پہلے مسلمانوں کو کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی ۔
اللہ تعالٰی نے اس موقع پر اعلان فرمایا"
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ" ترجمہ: آج کے
دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمّل کر
دیاہے۔" وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ"
ترجمہ:
اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی ہے۔ " وَرَضِيْتُ
لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ"
ترجمہ: اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے
پر راضی ہوں۔ آج کے بعد ہر ایک انسان سے صرف
اسلام ہی دین قبول کروں گا اور اس کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں کروں گا۔ تو اس
یہودی عالِم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ یا امیرالمؤمنین ! یہ آیۃ
اگر ہم پر توراۃ میں نازل ہوئی ہوتی تو اس آیۃ کے نزول والے دن کو اپنے لئے عید
بنا لیتے۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ "اللہ کی
قدرت ہے کہ ہم پر یہ آیۃ نازل ہی عید والے دن ہوئی ہے ، تم تو عید بنا لیتے ،
ہماری پہلے سے عید ہے۔ فرمایا یوم النّحر کو منٰی میں یہ آیۃ نازل ہوئی تھی اور
میں اس موقع پر موجود تھا۔ یوم النّحر یعنی عید الاضحٰی اور قربانی کادن۔
امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہماری تو دو عیدیں تھیں، سالانہ
عید بھی اور ہفتہ وار عید بھی تھی یعنی جمعۃ المبارکہ کا دن تھا۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر ثابت و مستقیم رکھے –
آمین۔
اللہ
رب العالمین سبحانہ وتعالی نے خود ہی اپنے آخری رسول رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ
والہ وسلم) کی نبوت و رسالت اوراپنی آخری کتابِ ہدایت قرآنِ مجید پر مبنی (دین
"الاسلام") کو قبول کرنے، اس پرایمان لانے اور اسے اخلاص قلب و صدق نیت
کے ساتھ تسلیم کرنے والوں کا نام قرآن مجید میں "مسلمان" رکھ دیا اورعالم
انسانیت با لخصوص اہل ایمان (مسلمانوں)کو اپنے اس دین اسلام کا مکلف قرار دے دیا ۔
قرآن
و سنۃ پر مبنی اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ الوہی دین
"الاسلام" میں حجیّت (اتھارٹی)صرف قرآن وسنۃ ہی ہیں، ان دو کے ما سوا
(کسی بھی شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء، مجتہد یا
مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب سمیت) کوئی سے بھی انسانی خیالات
و بشری افکار کو دین اسلام میں حجیّت (اتھارٹی) کی حیثیت حاصل نہیں ہے لہذا الوھی
ھدایت پر مشتمل، قرآن و سنۃ پر مبنی، اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ
دین "الاسلام" میں کسی کمی و بیشی، ردوبدل، ترمیم و تحریف کا کوئی امکان
یا جواز باقی نہیں رھا۔ الله سبحانه و تعالى ، انبياء و رسل عليہم الصلواة والسلام
کے سوا کسی بھی عام انسان کو براه راست اوربلا واسطه هدايت عطا نہیں كرتا بلکہ انبياء
و رسل عليہم الصلواة والسلام کے سوا باقی تمام انسانوں کو اپنے انبياء و رسل علیہم
الصلواة والسلام کے توسل و توسط سے ھی ھدایت دیتا ھے- لہذا اللہ رب العالمین
سبحانہ وتعالی جسے چاھتا ھے ، حیات رسول اللہ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و
الہ وسلم) میں مکمل ھو جانے والے اپنے دین "الاسلام" پرقائم رہنے کی
توفیق عطا فرماتا ھے۔
اب
جو کوئی بھی مسلمان ، فرد یاافراد، طبقہ
یا گروہ، کتاب اللہ اورسنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے سواء
بھی کسی اور شخص یا اشخاص، جماعت
یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء ، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا
تالیف شدہ کتاب یا کتب یا کوئی سےبھی انسانی خیالات و بشری افکارکو منزل من اللہ
الوہی دین "الاسلام" میں اتھارتی (حجیت) مانتا ہے، یا
قرآن وسنۃ پر اولیّت، ترجیح ، فوقیّت یا برابر کی
حیثیّت دیتا ہے تو اسے اپنے رویّے پر غور کرنا ضروری ہے۔ ہر
ایک صاحبِ ایمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو دینی اعتبار سے
محض"مسلمان" سمجھے اور کہلوائے
مسلمان کے علاوہ اپنی کوئی
بھی دیگر دینی ومذہبی شناخت، پہچان یا
نام (جیسے بریلوی، دیوبندی، مماتی، حیاتی
اہل حدیث، سلفی، جماعتی، تبلیغی، عطاری، طاہری وغیرہم) سمجھنے، اپنانے، کہلوانے، اور اختیار کرنے سے گریز کرے، کیوں کہ
یہ عمل قرآ ن و سنۃ کے صریحاً
خلاف ، ناجائز ، ناپسندیدہ
اور دین اسلام سے ہٹ کر گمراہی میں
مبتلا ہونے کی دلیل و علامت ہے۔
مسلم
علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راہنماؤں اورمسلم حکمرانوں
کا کام (فرض منصبی) کا لازمی تقاضہ توصرف
یہ ہے کہ وہ اخلاص قلب اور صدق نیت
کے ساتھ، قرآن وسنۃ کے مقصود اصلی، حقیقی پیغام
و تعلیمات، معارف و معانی، مطلوب مقاصد
دین ، نظامہائے معیشت و معاشرت، عدل و
انصاف، تعلیم و تربیت، سیاست و
مشاورت، حقوق اللہ و حقوق
العباد، مساوات انسانی سمیت اسوة
الحسنۃ کو اس کے مقصود اصلی اور حقیقی روح
کے عین مطابق صحیح طور پر پہلے خودخوب اچھی طرح
سمجھیں اور کامل اطاعت و اتباع کریں،تقویٰ اختیار کریں اور اس کے بعدپھرنبوی منہاج کے عین مطابق اور
کسی بھی کمی و بیشی، تغیّر و تبدّل کے بغیر،
خالصتاً قرآن و سنۃ کی انہی اصل تعلیمات کو دوسرے عام مسلمانوں تک
پہنچائیں۔
مسلم
علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راھنماؤں اورمسلم
حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ذاتی یا
کوئی سے بھی انسانی خیالات، بشری افکار و
نظریات پر مبنی نظاموں کو بالائے طاق رکھ کر، فقط قرآن وسنۃ کی بالا دستی قاےم کرنے، انہی کی تدریس وتعلیم، ترویج و تبلیغ ، تنفیذسمیت امر بالمعروف اور
نہی عن المنکر کا مقدس فریضہ دیانتداری و ایمان داری کے ساتھ سر انجام دیتے رھیں
اور عام مسلمانوں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے متعلق شریعۃ اسلامیہ کے احکامات
و تعلیمات سے پوری طرح آگاہ کریں اور ان کی اہمیت کو اپنے خطبات، وعظ و نصیحت،
تقاریر و گفتگو میں پھلی ترجیح بنائیں خود بھی ان کا مکمل خیال رکھیں اور عام
لوگوں کو بھی ان دونوں قسم کے احکام و تعلیمات کی کامل پاسداری و پابندی کی تاکید
کرتے رہیں۔ ۔
مسلم
معاشرے کے افراد کو اجتماعی و انفرادی سطح پر قرآن وسنۃ کی اطاعت و اتباع ، رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم)کے اسوة الحسنۃ کی مکمل پیروی کرنے پر مائل و
آمادہ اور قائل و راغب کرنے، مسلم معاشرے کے افراد کی ہر سطح پر اصلاح کرنے، ان کو
ہر قسم کی گمراہی، بے راہ روی اورقرآن
وسنۃ کے احکامات کی نافرمانی اور انحراف
سے روکنے، ممنوعات، فحشاء و منکرات میں مبتلا ھونے سے باز رکھنے، عام مسلمانوں کو
باعمل و صالح مسلمان اورمعاشرے کا مفید فرد بنانے، قول و فعل کے تضادات، حرص وحوص،
طمع و لالچ، بغض و عناد، کینہ پروری و
عداوت، علاقائی، لسانی، گروہی، فرقہ وارانہ عصبیتوں اور تعصبات سمیت
ہر قسم کے انتشار و افتراق، باہمی
فسادات، سود خوری و حرام کاری، رشوت
ستانی،فسق و فجور، بدعات، مذہبی منافرت،
جھوٹ، بد عہدی، دھوکہ دہی ،وعدہ خلافی، نا جائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی، غیر
اسلامی رسومات روائج سمیت تمام رزائل اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچتے رہنے ،
حقوق اللہ و حقوق العباد کا پورا پورا خیال رکھنےکی وعظ و نصیحت،تلقین و تاکید
کرتے رہنا اور امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی،
امن و استحکام ، خوش حالی اور فلاح و ترقی کے لئے مخلصانہ، با مقصد اور
نتیجہ خیز جدّو جہد کرتے رہنا بھی مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی و سیاسی
قائدین، قومی راہنماؤں اورمسلم حکمرانوں
کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
انہی کی یہ بھی ایک اہم ذمہ داری ہےکہ امّۃِمسلمہ کے افراد کو دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز،
نیچرل سائنسز ، ہیلتھ سائنسز، ڈیفنس
سائنسز، صنعت و حرفت، انجینئرنگ و جدیدٹیکنولوجیز
سمیت عصری علوم و فنون کی معیاری و اعلیٰ تعلیم و عملی تربیت کے حصول ،
تحقیقات و ایجادات کیلئے ضروری سہولیات و وسائل اور ترغیبات فراہم کریں تاکہ دیگر اقوام عالم کے مقابلے میں ہر اعتبار سے،مسلم امّہ
زیادہ مضبوط و مستحکم ، متحد و منظم ،
خوشحال و ترقّی یافتہ ہو اور دنیا میں اللہ سبحانہ و رسول اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہ وسلم کے دین کو غالب و سربلند
کر سکے۔
ہر
ایک سطح پر قرآن وسنۃ کے علمی نفاذ اور دین اسلام کے غلبے و سربلندی کی ہر ممکن
کوشش کرنا، امتِ مسلمہ کو (جو کہ جسد واحد کی طرح، امتِ واحدہ ہے) متحد، مربوط و
منظم رکھنے اور ہر قسم کے تفرقے اور انتشار و افتراق، بد امنی، مذہبی منافرت، عدم استحکام سے بچانے کی حتی
المقدور اور مخلصانہ جدّوجہد کرتے رہنا اور غیر مسلموں پر اسلام کی حقانیت ثابت کر
کے احسن طریقوں سے، نبوی منہاج کے مطابق ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا بھی
مسلم امراء و علماء کرام، مذہبی
پیشواؤں، دینی قائدین و رہنماؤں اورمسلم حکمرانوں کی اصل، اولین اور سب
سے اہم ذمہ داری اور منصبی فریضہ ہے۔
دین
اسلام مسلمانوں کو باہم اخوتِ اسلامی اور امداد باہمی جبکہ غیر مسلموں کے ساتھ
بقائے باہمی کے زرّین اصولوں پر قائم رہنے
اورامن و سلامتی ، عدل و انصاف، مساوات وغیرہم سمیت فلاح انسانی کی دیگر تعلیمات
سے روشناس کرواتا ہے مگر حیرت و تعجب میں غرق ہو جاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ اکثر و
بیشتر افراد امت میں فرقہ واریت کا گندہ و غلیظ زہر اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ اب
مسلمان کو منزّل مِن اللہ دین اسلام یعنی قرآن مجید اور رسول اللہﷺ کی سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ (جو قرآن کی عملی تعبیر و
تشریح اور مجسم تفسیر ہیں) کے ساتھ کوئی بھی تعلق، واسطہ، وابستگی اور رغبت ہی
نہیں ہے اور وہ اپنے فرقہ پرست ملاؤں کی من گھڑت، خود ساختہ، گمراہ کن خلاف اسلام
باتوں اور جاہلانہ تعلیمات کے دفاع میں قرآن مجید اور سنّۃ رسول اللہ ﷺ یعنی اسوۃ
الحسنہ کے بالکل واضح احکامات و تعلیمات کا صاف انکار کر دیتے ہیں معاذ اللہ ایسا
محسوص کرتا ہوں جیسے ان لوگوں کو اس
عقیدہ پرانتہائی پختہ اور راسخ کیا جا چکا ہے اور ان کو مکمل اطمینان و
یقین دلا دیا گیا ہےکہ جو ہم بتائیں بس وہی حق اور سچ ہے اور اسی کو دین مانو
تمہارا فرقہ ہی دین اسلام پر ہے قرآن و سنہ اور اسوۃ الحسنہ کو پڑہنے سمجھنے کی
کوشش مت کرنا ورنہ گمراہ ہو کر جہنّمی ہو جاؤ گے کیوں کہ جنّت الفردوس ہمارے ہی
نظریات و افکار پر منحصر ہے( اس میں قرآن مجید و سنۃِ رسول اللہ (احادیث مبارکہ
اور رسول اللہ ﷺ کے اسوۃ الحسنہ ) کوئی عمل دخل نہیں ہے) جو ہم کہتے بس فقط اسی کو مانو باقی سب چھوڑو
ورنہ ایمان ختم ہو جائے گا۔ اب لوگ اب
برملاکہتے ہیں کہ مجھے قرآن و سنّت اور اسوۃ الحسنہ سے کوئی براہِ راست کوئی
سروکار، تعلق واسطہ نہیں ہے ۔ لگتا ہے کہ جیسے معاذ اللہ ہر فرقے کے پیروکاروں نے
اپنے اپنے فرقہ کے نام نہاد مذہبی پیشواؤں
اور مسجد کے ملّا جی کو اللہ تعالٰی کے دین اسلام میں پہلی ، آخری اور واحد اتھارٹی یعنی حجیت تسلیم کرلیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اور قرآن کو اس کواس
کے بیچ
نکال کر فارغ کر دیا ہے۔ لوگوں کو سکھلا دیا گیا ہےکہ تم کہا کرو میرے فرقے کا ملّا جی جو کہتا ہے بس وہی حق ہے
باقی سب کفر و شرک اور ارتداد ہے میں قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کے بارے میں کچھ
بھی سننا یا جاننا چاہتا ہی نہیں ہوں۔ یہ اسی
برین واشنگ کا ہی نتیجہ ہے کہ فرقوں نے اپنے اپنے گمراہ کئے ہوئے لوگوں میں
سے بعض نوجوانوں کو آتشین اسلحہ سے لیس کر کے مذہبی دہشت گردی اور خود کش حملے
کرنے پر لگا دیا ہوا ہے ۔اصل دین اسلام جو کہ پورے کا پورا منزّل من اللہ ہے اور
جس میں انسانی و بشری افکار و نظریات کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہت اور جو فقط قرآن
مجید، رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ
و اسوۃ الحسنہ پر مشتمل اور الوہی ہدایت
پرمبنی ہے اور جو صراط مستقیم ہے اس میں فرقوں کی کوئی گنجائش ہے نہ ہی مذہبی
منافرت کی، مسلمانوں کت درمیان کسی بھی قسم کے انتشار و افتراق کی کوئی اجازت ہے
نہ ہی مذہبی دہشت گردی اور خود کش حملوں کی۔ اللہ ہم سب مسلمانوں کو صراطِ مستقیم
اور رسول اللہ ﷺ کے اسوۃ الحسنہ پر چلنے اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ترجمہ:
(اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے
بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما
رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند
پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ
سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی
راہ میں
جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ
نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا
"۔ (9سورۃ التوبہ، اٰیۃ 24)
یہاں
آٹھ چیزیں گنوا دی گئی ہیں کہ اگر ان آٹھ چیزوں کی محبتوں میں سے کسی ایک
یا سب محبتوں کا مجموعہ اللہ تعالٰی، اس کے رسول ﷺ اور اس کے رستے میں جہاد کی محبتوں کے جذبے کے مقابلےمیں زیادہ
ہے تو پھر اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔
یہ بہت سخت اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا لہجہ اور انداز ہے۔ ہم میں سے ہر ایک شخص
کو چاہئےکہ اپنے باطن میں ایک ترازو نصب
کرے۔ اس کے ایک پلڑےمیں یہ آٹھ محبّتیں
ڈالے اور دوسرے پلڑے میں ایک ایک کر کے باری باری اللہ، اس کے رسول
(صلی اللہ علیہ وسلم) اور جہاد کی محبّتیں
ڈالے اور پھر اپنا جائزہ لے کہ کہاں کھڑا ہوں! چونکہ انسان خود اپنے نفس سے
خوب واقف ہے (بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ
بَصِیْرَۃٌ ) ( القیامۃ) اس لیئے اسے اپنے باطن
کی صحیح صورت حال معلوم ہو جائے گی۔ بہر حال اس سلسلے میں ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر تو اس
کی ساری خواہشیں ، محبّتیں اور حقوق (بیوی، اولاد، نفس وغیرہ کے حقوق) ان تین
محبتوں کے تابع اور ان سے کمتر درجے میں
ہیں تو اس کے معاملاتِ ایمان درست ہیں اگر
مذکورہ آٹھ چیزوں سے کسی ایک بھی چیز کی محبت یا سب محبتوں کو ملا کر اس
مجموعے کا گراف یا وزن ، اللہ تعالٰی، اس
کے رسول ﷺ اور اس کے رستے میں جہاد کی محبتوں کے جذبے سے اوپر چلا
گیا تو یقین جان لیں کہ وہاں
توحید و رسالت پر آپ کا ایمان ختم ہو چکا ہے
اور جو کچھ آپ نے باقی بچا کے رکھا
ہے وہ سوائے شرک کے کچھ نہیں ۔
ایمان
کی اساس ہی اس جذبے پر قائم ہوتی ہے کہ بندہءِ مومن ، اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کی محّبت ، اطاعت و اتباع کو باقی تمام انسانوں اور چیزوں کی محبّت، اطاعت و اتباع پر ترجیح دے ۔ اسی حقیقت کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان
فرمایا ہے
یہ
مال و دولت ِدنیا ، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ
وہم و گماں، لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ
آیت
زیر نظر میں جو آتھ چیزیں اللہ ربّ العٰلمین نے گنوائی ہیں ان میں سے پہلی پانچ رشتہ وپیوند کے زُمرے میں آتی ہیں جب کہ آخری
تیں ، مال و دولت ِ دنیاکی مختلف شکلیں
ہیں ۔ علامہ اقبال ؔ فرماتے ہیں کہ ان
چیزوں کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، یہ
ہمارے وہم اور توہم کے بنائے ہوئے بت ہیں۔
جب تک لَا اِلَہ الاَّ اللّٰہ کی
شمشیر سے اِن بتوں کو توڑا نہیں جائے گا ، بندۂ مومن کے نہاں خانۂ دل میں توحید کا
عَلَم بلند نہیں ہو گا۔
ترجمہ:
"اور جو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)
کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس پر ہدایت
واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان کے راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیارکرے تو ہم
بھی اس کو اسی طرف پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کر رکھا ہو اور ہم
اسے پہنچا دیں گے جہنم میں اور وہ بہتُ بری جگہ ہے لوٹنے کی"۔ (4-سورۃ النّساء– اٰیۃ- 115)
ہدایت
کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت اور مومنین کا
راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی
وعید بیان فرمائی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام
(رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی
تعلیمات کا کامل نمونہ تھے، اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ
ِمومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو ۔ اس لئے صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی
علیہم )
کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا
نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رضوان اللہ
تعالٰی علیہم ) کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر و ضلال
ہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سے
انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی
علیہم ) کا اتفاق یا امت کے تمام علماء وفقہا کا اتفاق۔ یا یہ
دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار
کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کا
اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع
صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و
اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل
بہت ہی کم ہیں ۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما و فقہا کا اتفاق ہو ۔ تاہم
ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے اس لئے کہ
صحیح حدیث میں ہے "کہ اللہ تعالیٰ
میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے "۔
(صحیح ترمذی). سو راہ ِحق کے ترک و اختیار کے سلسلہ میں اللہ
تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کوئی جبر و اکراہ نہیں، بلکہ اس کا مدار و انحصار انسان
کے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا " لَا
اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ" پس جو کوئی
اپنے ارادہ و اختیار سے راہ حق و ہدایت کو اپناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اسی کی
توفیق دیتا ہے اور جو کوئی اسکے برعکس ضلالت و گمراہی کے راستے کو اپناتا ہے اس کو
ادھر ہی چلتا کر دیا جاتا ہے ، جس کفرو گمراہی کی طرف وہ دانستہ پھر گیا ہے اللہ
اس میں حائل نہیں ہوتا اور اسے ادھر ہی پھرنے دیتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد
فرمایا گیا
" انْصَرَفُوْا ۭ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ" ( 009:127) ترجمہ:
"جب یہ لوگ پھر گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا" یعنی اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا ضابطہ و دستور یہی ہے کہ جو لوگ اس کی راہ سے
منہ موڑ لیتے ہیں، ان کو ادھر ہی چلتا کر دیا جاتا ہے جدھر کو انہوں نے اپنا رخ
خود کیا ہوتا ہے، اور جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے "فَلَمَّا
زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ" ( 061:005) ترجمہ: " جب یہ لوگ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ
نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا"۔ یہاں پر المومنین سے مراد جیسا کہ ظاہر ہے
اور حضرات مفسرین کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ اس سے صحابہ کرام (رضوان اللہ
تعالٰی علیہم ) مراد ہیں، سو اس طرح اس
ارشاد ربانی سے راہ حق اور راہ باطل دونوں واضح ہو جاتی ہیں پس رسول (صلی اللہ
علیہ وسلم) اور صحابہ کرام (رضوان اللہ
تعالٰی علیہم ) کی راہ حق کی راہ ہے۔ اور
ان کے خلاف والی راہ باطل کی راہ ہے۔ اور رسول
ﷺکی راہ سے،سنّۃِرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مراد ہے، اس لئے حق والوں کو اہل السنّۃکہا جاتا ہے۔
یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی
سنّۃ کو ماننے والے نیز اہل حق چونکہ تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کو
حق مانتے ہیں اس لئے وہ اہل جماعت بھی کہلاتے ہیں ۔ یعنی حضرات صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کی
پوری جماعت کو بلا کسی تفریق و استثناء کے ماننے والے اس لئے حق والوں کا نام و
عنوان "اہل السنّۃ و الجماعۃ"
ہے یعنی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنّۃکو بھی مانتے اور
اس کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور ان کے سب صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کو بھی مانتے اور
انکو معیار حق جانتے ہیں ۔ پس جو لوگ سنت کو نہیں مانتے وہ اہل حق کے خلاف، اور
اہل باطل میں سے ہیں (جیسے پرویزی، جکڑالوی وغیرہ منکرین حدیث)، اور اسی طرح جو
لوگ سب صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم
) کو نہیں مانتے بلکہ وہ ان کے
درمیان تفریق سے کام لیتے ہیں یعنی کچھ کو مانتے ہیں، اور باقیوں کو نہیں مانتے وہ
بھی اہل حق میں سے نہیں، بلکہ اہل باطل میں سے ہیں جیسے وہ رافضی جو حضرات صحابہ
کرام علیہم الرحمۃ والرضوان سے بغض و عناد رکھتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم، ان
لوگوں کا شعار تبراء ہے ان کی کتابیں ایسی کفریہ مغلظات سے بھری پڑی ہیں، اور جو
صرف "پنجتن" کے پاک ہونے کا نظریہ رکھتے اور دعویٰ کرتے ہیں۔
پس اہل حق وہی ہیں جو اللہ کے
رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت کو بھی مانتے اور اس کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سب صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کو بھی بلا تفریق و استثناء حق جانتے اور
مانتے ہیں ۔ اسی لئے ان اہل حق کو "اہل السنۃ والجماعۃ" کہا جاتا ہے کہ
یہ خوش نصیب لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت اور ان ﷺ کے صحابہء کرام (رضوان اللہ تعالٰی
علیہم) کی سب جماعت کو مانتے ہیں اور یہی
وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں پیغمبر نے ارشاد فرمایا "مَااَنَا عَلَیْہِ
وَاَصْحَابِی" یعنی اہل حق اور نجات و فلاح پانے والے لوگ وہی ہیں جو میرے
اور میرے صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم
) کے طریقے پر ہیں ۔ پس اس سے حق و باطل کے درمیان فرق و تمیز واضح ہے۔ اور
اس پرکھ و معرفت کیلئے ایک ایسا معیار رکھ دیا گیا جو نہایت واضح اور آسان بھی ہے۔
اور قیامت تک صاف راہنمائی کرنے والا بھی۔ والحمد للہ جل علا.
اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت ہر اس شخص کے لیئے باعث ہلاکت و تباہی ہےجس نےکہ
اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام کو توڑا
اور جان بوجھ کرکر ان کی خلاف ورزی کی - والعیاذ باللہ - اور رسول اللہ ﷺکی مخالفت اور نافرمانی کی سب سے بڑی
صورت یہ ہے کہ انسان پیغمبر کے لائے ہوئے دین متین سے پھر جائے اور اس سے مرتد
ہوجائے اس میں اپنا الگ فرقہ بنائے -
والعیاذ باللہ ۔ سو اللہ جَلَّ جَلَاُلہٗ
اور اس کے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت والعیاذ باللہ ہلاکت و تباہی
کی راہ ہے اور اس کا نتیجہ و انجام بہت ہی برا اور نہایت ہی ہولناک ہے - والعیاذ
باللہ العظیم - بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اللہ کے رسول اور اس کی ہدایت
کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ اہل ایمان کے راستے سے ہٹ کر الگ اپنی پگڈنڈی
(فرقہ) اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو ان کی
اپنی چاہت اور انتخاب کے مطابق ان کی اپنی پگڈنڈی پر چلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیتا
ہے - والعیاذ باللہ - اور ان کی اپنی اختیار کردہ یہ راہ ان کو سیدھی لے جا کر جہنم
میں ڈالیگی جو کہ خساروں کا خسارہ اور سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اور یہ ایسا خسارہ ہے
جس کی پھر تلافی بھی ممکن ہی نہیں ہوگی -
والعیاذ باللہ العظیم - اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی عنایت و پناہ میں رکھے اور رسول
اللہ ﷺ کی جماعۃ کے ساتھ جڑا رہنے کی توفیق عطا فرمائے - آمین ثم آمین۔
اہل ایمان کے راستے کی خلاف ورزی
کا نتیجہ نہایت برا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس نے اہل ایمان کے طریقے کو چھوڑ کر
کسی اور طریقے کی پیروی کی ۔ یعنی اس نے اہل ایمان کی راہ کو چھوڑ کر کسی ایسے
راستے سے آپ ﷺکی پیروی کی جو کہ کتاب و سنت کی تعلیمات مقدسہ اور احکام کے مقتضیٰ کے خلاف ہو کہ اہل ایمان
کا راستہ وہی ہے جو ان تعلیمات کے مطابق ہو ۔ اور وہ بھی وہ تعلیمات جو کہ صحیح
فکر و فہم پر مبنی ہوں اور اسلاف امت یعنی صحابہ ٔکرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) اور
ان کے تابعین اور اَتباع تابعین (رضوان اللہ
تعالٰی علیہم ) کے توسط سے ہمارے پاس
پہنچی ہوں ۔ اور ان کو بھی انہی حضرات کی توضیح و تشریح کے مطابق مانا جائے۔
کیونکہ خیر القرون سے تعلق رکھنے والے یہ حضرات
(رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) قرآن و
سنت کے منشاء و مدعا اور اس کے صحیح مفہوم و مصداق کو بعد کے لوگوں سے بہرکیف
زیادہ بہتر طور پر سمجھتے تھے۔ اور اسی کی تائید و تصدیق اللہ آخری رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے اس
ارشاد عالی مقام سے ہوتی ہے "
خَیْرُ الْقُرُوْن قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذینَ
یَلُوْنَہُمْ " سو قرآن و سنّۃ، اور
سلفِ امت، حضرات صحابہ ٔکرام (رضوان اللہ
تعالٰی علیہم ) اور ان کے بعد آنے والے وہ تمام اَصحاب وہ تمام
اَصحاب صدق و صفا جو " وَالَّذِیْنَ
اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ " کے
زمرے میں آتے ہیں ، ان کی راہ ِحق و صدق کو چھوڑ کر کوئی اور
راہ (فرقہ )اپنانا قطعی طور پر گمراہی ہے
، جس کا انجام ہلاکت و تباہی ہے - والعیاذ باللہ العظیم - اسی لئے اہل حق کو اہل
السنّۃ والجماعۃ کہا جاتا ہے کہ وہ سنّۃِ
رسول اللہ ﷺ کو بھی مانتے ہیں اور ان صاحب
سنّۃ یعنی حضرت رسالت پناہ علیہ الصلوۃ والسلام کے جملہ صحابہء کرام
(رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) اور ان کے
سچے، صالح اور متّقی پیروکاروں کو
بھی۔ اس سے ہمارے یہاں کے بعض رؤسائے اہل بدعت نے جو مروجہ بدعات کے جواز و ثبوت
پر دلیل کشید کرنے کی سعی مذموم کی کہ چونکہ یہ بدعات عام اور جاہل مسلمانوں میں
رواج پذیر ہیں ۔ اس لئے یہ درست ہیں ۔ تو یہ استدلال سراسر باطل و مردود ہے۔
کیونکہ بات ان عامۃ المسلمین کی نہیں جو دینی تعلیمات سے نابلد و نا آشنا ہیں ۔
بلکہ قرآن و سنت کی تعلیمات اور سلف امت کے فہم و ادراک کی ہے۔ اور ان میں سے کسی
میں بھی ان بدعات میں سے کسی کا بھی نہ کوئی ثبوت ہے نہ وجود۔ نہ قرآن میں نہ حدیث
میں ۔ اور نہ ہی خیر القرون کے اصحاب خیرو برکت میں ۔ بلکہ یہ سارے فرقےتو صرف ہمارے برصغیر ہندو پاک کے اہل
ھویٰ اور شکم پرست اہل بدعت کی ایجادیں ہیں - والعیاذ باللہ العظیم - اور اسی طرح
ان لوگوں کا " مَا راہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُو عِنْدَ اللّٰہ حَسَنٌٌ
" کے مشہور اثر سے استدلال کرنا بھی سراسر باطل و مردود ہے۔ کیونکہ اس اثر کا
بشرط صحت سیدھا صاف اور صحیح مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو اہل علم و فضل ، اور ثقہ
مسلمان اچھا دیکھیں وہ اچھی ہے۔ نہ کہ وہ عامۃ المسلمین جن کو دین کی تعلیمات حقہ
کا پتہ ہی نہ ہو ۔ ورنہ آج کے دور میں تو سینما بینی، فلم بینی ، جوابازی اور
سودخوری، رشوت ستانی، زناکاری، وغیرہ کون
کونسی برائیاں ہیں جو مسلم معاشرے کے اندر موجود نہیں ، اوامر (یعنی جن اعمال کو اختیار کرنے کا قرآن و سنّۃُ میں حکم ہے) کوآج کے دور میں عملاً "نہی" سمجھ کر ان سے اجتباب برتا جانے لگا ہے اور جو
نواہی ہیں (یعنی جن اعمال کو اختیار کرنے سے
قرآن و سنّۃ میں سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے) ان سبآج کل اوامر سمجھ کر
اختیار کرنے کا رواج عام ہو چکا ہے ۔ تو کیا اپنی اس منطق سے تم لوگ ان سب کے جواز
کا فتوی دے دو گے؟ اور اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر تم لوگ یہاں پر یہ منطق کس
طرح بگھارتے ہو؟ اللہ سے ڈرو ! رسول اللہ ﷺ کی
جماعۃ (امّۃِ مسلمہ)میں تفرقہ ڈال
کر اور اللہ و رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں
اپنی اپنی بنائی ہوئی خود ساختہ راہوں (فرقوں) کو چھوڑ دو کیونکہ اللہ سبحانہ
و تعالٰی نے متنبہ کر دیا ہے (ترجمہ
4-سورۃ النّساء– اٰیۃ- 115) :
"اور جو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)
کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس پر ہدایت
واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان کے راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیارکرے تو ہم
بھی اس کو اسی طرف پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کر رکھا ہو اور ہم
اسے پہنچا دیں گے جہنم میں اور وہ بہتُ بری جگہ ہے لوٹنے کی"۔
انسان اپنے انجام کا ذمہ دار خود : سو اس سے
واضح فرما دیا گیا کہ بندہ جدھر کا رخ کرے گا اس کو ادھر ہی چلتا کردیا جائے گا :
کیونکہ دین و ہدایت کی عظیم الشان اور بےبدل نعمت زبردستی اور اعراض و انکار کے
رویے پر کبھی نہیں مل سکتی، بلکہ وہ سچی طلب اور حقیقی تڑپ پر ملتی ہے، جس کو دلوں
کے راز جاننے والا وہ علّام الغیوب پوری طرح جانتا ہے۔ پس دارومدار آدمی کے اپنے
ارادہ و اختیار پر ہے کہ وہ کدھر جانا چاہتا ہے۔ جدھر جائے گا اس کو ادھر ہی چھوڑ
دیا جائے گا کیونکہ یہاں سودا زور زبردستی کا ہے ہی نہیں، بلکہ { نُولِّہٖ مَا
تَوَلّٰی } کا اصول کارفرما ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے جدھر جانا چاہے گا
اور جو رخ اور راستہ اپنائے گا اس کو اسی کے حوالے کردیا جائے گا۔ کہ دنیا کے اس
دارالامتحان میں اصل مدار و انحصار انسان کے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے۔ سو یہ
ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا {
فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ
الْفَاسِقِیْنَ } (النصف: 5) یعنی جب ان لوگوں
نے زیغ اور ٹیڑھے پن کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے نتیجے میں ان کے دلوں
کو ٹیڑھا کر دیا اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت کی دولت سے نہیں نوازتا - والعیاذ
باللہ العظیم -
ربّ
تعالٰی کا پیغام، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا فرمان، دین کا
نام فقط " الاسلام"، ایمان والے سب صرف "مسلمان" ایک نبی ﷺکی
امّۃ ہیں سب ، نورِ ہدایت بس اک قرآن ! فرقوں کا باقی نہ رہے نام و
نشان، اخوّۃِ اسلامی و امّۃِ واحدہ کاتاکہ ہوسکے کچھ امکان! (جاری
ہے۔۔۔)
No comments:
Post a Comment