Saturday, 27 December 2025

نئے سال کا اسلامی تصور اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں

 نئے سال کا اسلامی تصور اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال ارائیں المعروف غلام مصطفٰی ارائیں، کراچی

سال کی یہ تبدیلی ہر انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ عمر کا ایک اور حصہ گزر گیا، اور زندگی کے محدود سفر میں ایک اور سنگ میل پیچھے رہ گیا۔ شمسی سال کے اختتام و آغاز کے اس موقع پر پوری دنیا میں مختلف تہذیبیں اپنے اپنے انداز میں اس "نئے آغاز" کو مناتی ہیں۔ لیکن ایک مسلمان کے لیے سوال یہ ہے کہ اس موقع پر اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا وہ عمومی تہواروں کی طرح اسے بھی خوشی کے اظہار کا موقع سمجھے، یا اس کے نزدیک اس کا کوئی اور مفہوم ہونا چاہیے؟

مبارکباد کا شرعی حکم: ایک متوازن نقطہ نظر

علمائے کرام کے فتاویٰ کے مطابق، نئے شمسی یا قمری سال کے آغاز پر محض خیر و برکت کی دعا دینا یا مبارکباد کا تبادلہ کرنا، اگر اسے کوئی شرعی فریضہ یا ضروری عمل نہ سمجھا جائے، تو جائز ہے . بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نئے مہینے یا سال کی آمد پر ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے:

"اَللّٰهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمٰنِ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ" .

اس دعا کا مفہوم یہ ہے کہ اے اللہ! اس (نئے زمانے) کو ہمارے لیے امن و ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ داخل فرما، ساتھ ہی اپنی رحمت کی رضا اور شیطان سے بچاؤ کے ساتھ۔ یہ دعا درحقیقت ہمارے رویے کی بنیاد ہونی چاہیے نہ کہ محض رسمی تہنیت۔

وقت کی قدر اور محاسبہ نفس کا موقع

اسلامی نقطہ نظر سے، وقت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر وقت کی قسمیں کھائی گئی ہیں . حدیث نبوی ہے کہ قیامت کے دن انسان سے اس کی عمر اور جوانی کے بارے میں سوال ہوگا کہ اس نے اسے کس طرح گزارا . ایک اور حدیث میں پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جاننے کی تلقین کی گئی ہے: جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے.

اس لیے سال کا اختتام و آغاز درحقیقت محاسبہ نفس کا بہترین موقع ہے۔ گزرے ہوئے سال میں ہم سے کیا کوتاہیاں ہوئیں؟ ہمارے اعمال میں کس طرح کی بہتری لائی جا سکتی ہے؟ آنے والے وقت کے لیے ہمیں کیا عہد کرنا چاہیے؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے کہ وہ کسی چیز پر اتنا نادم نہیں ہوئے جتنا اس دن کے گزرنے پر جس میں ان کے اعمال میں اضافہ نہ ہو سکا.

قمری تقویم سے تعلق اور اسلامی شناخت

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اسلام میں احکام و عبادات کا مدار قمری (ہجری) تقویم پر ہے۔ روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کا تعین اسی سے ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہجرتِ نبوی کو اسلامی سن کا نقطہ آغاز بنایا گیا، کیونکہ یہی وہ واقعہ تھا جس سے حق و باطل میں واضح فرق ہوا .

شمسی سال کا آغاز دراصل عیسائی تہذیب و مذہب سے وابستہ ہے . اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی اصل شناخت — اسلامی قمری کیلنڈر — سے وابستہ رہے اور اسے اپنی زندگی میں زندہ رکھے۔ ہجری مہینوں کے نام اور ان میں پیش آنے والے تاریخی واقعات (جیسے محرم میں واقعہ کربلا) سے آگاہی ہماری دینی و تہذیبی پہچان کا حصہ ہے۔

غیر شرعی اعمال سے اجتناب

افسوس کے ساتھ، آج کل نئے سال کے موقع پر کئی ایسے کام رائج ہو چکے ہیں جو صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ 31 دسمبر کی رات آتش بازی، نائٹ کلبوں میں شراب و شباب کی محفلیں، بے ہنگم شور شرابہ اور بے حیائی کے مظاہرے — یہ سب وہ امور ہیں جن سے ہر مسلمان کو سختی سے بچنا چاہیے . نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک و سلم کا ارشاد ہے: "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں سے ہے" . لہٰذا، ایسے تمام کام جو غیر مسلم اقوام کے مخصوص مذہبی یا اخلاقی طور پر قابل اعتراض طریقوں کی نقل ہوں، ان سے اجتناب فرض ہے۔

اجتماعی ذمہ داری: دعا، صلہ رحمی اور خیر کی تلقین

نئے سال کا یہ موقع درحقیقت ہمیں اپنے اردگرد پھیلی انسانیت کے لیے سوچنے کا موقع دیتا ہے۔ ہم اپنے خاندان، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور تمام مسلمان بھائیوں کے لیے دُعاگو ہوں۔ صلہ رحمی کریں، مفلس و محتاج لوگوں کی مدد کریں، اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں  جیسا کہ سورہ العصر میں ایمان والوں کی صفت بیان کی گئی ہے .

خلاصہ

مختصراً، نئے شمسی سال کے موقع پر مسلم کمیونٹی کا طرز عمل مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے:

· وقت کی قدر کے شعار کے ساتھ محاسبہ نفس کا اہتمام کریں۔ گزرا سال اللہ کی دی ہوئی مہلت تھی، آنے والا وقت اس کی نئی نعمت ہے۔

· دعا اور نیک تمناؤں کا تبادلہ کریں، مگر اسے غیر اسلامی رسومات سے پاک رکھیں۔

· اپنی اسلامی شناخت — ہجری تقویم — کو زندہ رکھیں اور اس کی اہمیت نئی نسل کو سمجھائیں۔

· ہر قسم کی غیر شرعی سرگرمیوں، بے حیائی اور فضول خرچی سے حتی الامکان بچیں۔

· اس موقع کو اجتماعی بہتری، باہمی محبت اور انسانیت کی خدمت کے جذبات کو ابھارنے کے لیے استعمال کریں۔

دیکھا گیا ہے نئے شمسی سال کے آغاز پر کروڑوں روپے فائرنگ پر فخریہ طور پر خرچ کیے جاتے ہیں، بیماروں کے آرام کا بھی ذرا بھر احساس نہیں کیا جاتا. اس کے علاوہ بھی دیگر خرافات کو لازم سمجھا جاتا ہے۔

آئیے، نئے سال کو نئے عزم کے ساتھ شروع کریں عزم اس بات کا کہ ہم بہتر صالح مسلمان، بہتر انسان اور معاشرے کے لیے زیادہ مفید فرد بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے آنے والے تمام لمحات کو ایمان، امن اور فلاح سے بھر دے۔ (آمین)

بدعت، نفل، واجب اور فرض میں واضح فرق

 بدعت، نفل، سنۃ، واجب اور فرض میں واضح فرق

تحریر و تحقیق: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں المعروف غلام مصطفٰی آرائیں، کراچی۔

قرآن و سنۃ سے ثابت صلوٰۃ قائم کرنے کے واضح حکم كو "نماز پڑھنے" میں بدلنے کا عمل بلاشبہ تمام دیگر بدعات سے بڑی اور بدترین بدعت ہے، جس پر کہ ہم سب بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث، سلفی، وہابی، سنی، تبلیغی، جماعتی، عطاری، منہاجی و طاہری وغیرہم مکمل طور پر متفق و متحد ہیں، آئیں تھوڑی دیر کےلیے ذرا اکابر پرستی و مقابر پرستی اور فرقہ پرستی کی خود غرضانہ و محدود سوچ و فکر سے آزاد ہو کر حقائق کی دنیا میں تحمل، خلوص اور سنجیدگی سے تلاش حق کی سچی لگن و جستجو کے ساتھ نظریں دوڑائیں اور غور و فکر کریں کہ کہیں ہم قرآن و سنۃ کے احکامات و ہدایات اور تعلیمات و فرمودات سے روگردانی و انحراف کر کے ملاؤں کے حکم و تعلیم کو دانستہ یا نا دانستہ، ارادی یا غیر ارادی طور پر "حکم اللہ" پر اولیت، فوقیت اور ترجیج دینے اور "حکم الله" کو ترک کر کے "حکم ملا" کی  تعمیل و اطاعت کرنے کے گناہ کبیرہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ 

بلا شبہ دین و ایمان ہی ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے جس کی بہرصورت ہمیں حفاظت کرنی چاہیئے اور ان کےلیے خطرہ بننے والی ہر چیز سے بچنا، پرہیز و اجتناب برتنا چاہیئے یہ ایک دعوت غور و فکر ہے، صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کےلیے۔

ہمیں خوب اچھی طرح جان لینا اور یقین کر لینا چاہیئے کہ دین اسلام فقط قرآن وسنۃ پر مبنی ہے اور وہ مکمل نظام زندگی (ضابطہء حیات) ہے، قرآن و سنۃ میں جس عبادت کو ہر دن رات میں پانچ وقت قائم کرنے کو ہر مؤمن و مسلم پر فرض عین قرار دیا گیا ہے اس کا اصطلاحی نام قرآن و سنۃ ميں صلاة و صلوٰۃ مقرر ہے اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک مالی عبادت کا نام زکوٰۃ اور ایک بدنی و جسمانی عبادت کا نام حج مقرر فرمایا گیا ہے، جس طرح زکوٰۃ کو اور حج کو کوئی بھی دوسرا نام دے کر انجام دینے سے ان فرائض کی ادائیگی نہیں ہوتی بعینہٖ اسی طرح صلاة و صلوٰۃ کو اسی نام سے قائم کرنا ضروری ہے۔ "نماز پڑھ" کر اس فرض عین کی ادائگی بھی نہیں ہوتی کیونکہ حکم صلوٰۃ قائم کرنے کا دیا گیا ہے، لفظ نماز، قرآن و سنت میں کہیں نہیں آیا ہے اور نہ ہی آئمہ محدثین، مجتہدین، ائمہ فقہاء نے کسی بھی مقام پر لفظ نماز پڑھنا ذکر و بیان یا اختیار کیا ہے۔

 اس کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ لفظ نماز مجوسیوں کی مشرکانہ پوجا پاٹ کا نام ہے اور جضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کے جنم سے بھی کئی سو سال پہلے سے لے کر آج آخر دسمبر 2025ء تک  رائج ہے، مجوسی کم و بیش تین ہزار سال سے پانچ تا آٹھ وقتی "نماز پڑھتے" ہیں، اسی لیے قرآن و سنۃ میں کہیں بھی "نماز پڑھنے" کا حکم یا ذکر و بیان نہیں ملتا، بلکہ قرآن و سنۃ میں متعدد مقامات پر یہود و نصارٰی اور صابئین کی موافقت، مشابہت اور مطابقت اختیار کرنے کی سخت ممانعت ثابت ہے۔                                          یاد رہے کہ صلاة الليل جسے صلاة التہجد بھی کہا جاتا ہے وہ فقط رسول الله صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم پر فرض تھی جبکہ امت کےلیے سنت ہے، باقی اس کے فضائل، فیوض و برکات بے انتہاء ہیں اگرچہ کہ فرض صلاة قائم کرنے کا اجر و ثواب بہرحال نفل صلاة قائم کرنے سے ستر گنا زیادہ ہے!

 مؤمنون و مؤمنات اور مسلمون و مسلمات پر پر جن صلوۃ خمسہ کو قائم کرنا فرض عین قرار دیا گیا ہے ان میں صلاة الفجر، صلاة الظہر، صلاة العصر، صلاة المغرب اور صلاة العشاء، صلاة الجمعۃ شامل ہیں جبکہ أن کے علاوہ جنازه، عيد الفطر و عيد الاضحٰی کی صلوة قائم کرنا واجب ہے، صلاة الحاجۃ و صلاة التوبہ اور صلاة الاستسقاء، صلاة الكسوف، صلوة الخسوف، صلاة الاستخارة، صلاة التسبيح وغیرہم سب سنۃ ہیں.ایک اور بات نہایت اہمیت کی حامل ہے اور وہ یہ کہ صلاۃ و صلوٰۃ ايسی عبادات ہیں جو پڑھنے کی چیز یا عمل ہر گز نہیں ہیں بلکہ قرآن مجید میں کم و بیش یا پورے سات سو مرتبہ صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہیں ایک جگہ بھی پڑھنے پڑھانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور اسی طرح سینکڑوں مقامات پر احادیث رسول صلی اللّٰہ عليہ و آلہ و سلم سے بھی صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم ہی بخوبی ثابت ہے، نماز پڑھنے کا نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، سلف صالحین، ائمہء فقہاء اربعہ اور اقوال محدثین و مجتہدین و محقیقین سے بھی صلاة قائم کرنا اور اسی کی تعلیم دینا ثابت ہے، ان تمام اسلاف میں سے کسی ایک نے بھی اور بھولے سے بھی کبھی نماز پڑھی نہ ہی لفظ نماز کبھی ان کی زبان سے ادا ہوا اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی شخص کو نماز پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی بلکہ وہ سب کے سب باقاعدگی سے، پابندی کے ساتھ صلوٰۃ خمسہ کی اقامت کو یقینی بناتے اور لازم پکڑتے تھے لہٰذا ہمیں بھی صلاة کو نماز نہیں کہنا چاہیئے اسی طرح قائم کرنے کو پڑھنا بھی نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ ایسا کرنے سے قرآن و سنۃ سے روگردانی و انحراف لازم آتا ہے اور دوسری وجہ یہ کہ صلاۃ و صلوٰۃ كو نماز پڑھنا کہنے، بولنے اور سمجھنے سے مجوسیوں کے ساتھ موافقت، مشابہت اور مطابقت بھی لازم آتی ہے جس سے گریز و اجتناب کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے اور یہ ممانعت قرآن و سنۃ سے بخوبی ثابت ہے۔

بلا شک و شبہ ہم سب قران و سنہ اور أسوة حسنۃ کی تعمیل و اطاعت اور اتباع و پیروی کے مکلف (پابند) بنائے گئے ہیں، سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم اللہ تعالٰی کے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و بارک و سلم پر نازل کردہ دین پر قائم ہیں یا اس سے انحراف و روگردانی کرتے ہوئے اسے پس پشت ڈال کر اکابر پرست و مقابر پرست اور فرقہ پرست بن گئے یا بن چکے ہیں؟ اللہ تعالٰی اپنے خاص لطف و کرم اور رحمۃ سے ہر کلمہ گو کو فرقہ پرستی، اکابر پرستی و مقابر پرستی کو ترک کر کے قرآن و سنۃ کے احکامات، تعلیمات، ہدایات اور فرمودات کی تکمیل و تعمیل، اطاعت و اتباع اور کامل پیروی کرنے والا بنائے، گمراہی سے بچائے، صراط مستقیم اور اسوۃ حسنہ پر قائم رکھے، اللہم آمین ثم آمین برحمتک یا ارحم الراحمین بحق رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و بارک و سلم

بعثت نبوی ﷺ اور نزول اسلام کے بنیادی مقاصد، ایک تحقیقی جائزہ

 بعثت نبوی ﷺ اور نزول اسلام کے بنیادی مقاصد: ایک تحقیقی جائزہ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں المعروف غلام مصطفٰی آرائیں، کراچی

انسانی تاریخ کا سب سے عظیم اور انقلاب آفرین واقعہ بعثت نبوی ﷺ ہے جس نے نہ صرف جزیرۃ العرب کی تقدیر بدلی بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا ابدی نظام فراہم کیا۔ نزول اسلام کا اصل مقصد محض ایک مذہبی عقیدے کا ظہور نہیں تھا، بلکہ یہ انسانیت کی تکمیل، اجتماعی اصلاح اور ربانی ہدایت کا جامع منصوبہ تھا۔ ذیل میں بعثت نبوی ﷺ کے پانچ اہم مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے:

1. توحید کی بالادستی اور شرک کے اندھیروں کا خاتمہ

نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت کا اولین اور بنیادی مقصد توحید کی دعوت تھی۔ آپ ﷺ ایک ایسے معاشرے میں مبعوث ہوئے جہاں بت پرستی، نجومیوں اور جھوٹے خداؤں کا دور دورہ تھا۔ انسانیت حقیقی خالق سے کٹ چکی تھی اور خود ساختہ معبودوں کے سامنے سجدہ ریز تھی۔ اسلام نے نہ صرف "لا الہ الا اللہ" کا اعلان کیا بلکہ عقل و فکر کو بت پرستی کی زنجیروں سے آزاد کیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: "ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو" (النحل: 36)۔ یہ توحید کا تصور محض نظریاتی نہ تھا بلکہ عملی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی حاکمیت کا قیام تھا۔

2. اخلاقی انقلاب اور انسانیت کی تعمیر

بعثت نبوی ﷺ کا دوسرا اہم مقصد اخلاقیات کی بلندی اور انسان کی باطنی اصلاح تھا۔ رسول اللہ ﷺ خود اخلاق عظمیٰ کا مجسم نمونہ تھے اور آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد اخلاقیات کی تکمیل قرار دیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں"۔ جاہلیت کے دور میں ظلم، لاقانونیت، عورت کی تحقیر، شراب نوشی اور قتل و غارت گری عام تھی۔ اسلام نے ان تمام برائیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع اخلاقی نظام دیا جس میں انصاف، رحم، صداقت، امانت اور اخوت کے اصول مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔

3. علم اور عقل کی آزادی

اسلام کی آمد تاریک جاہلیت کے خلاف علم کی تحریک تھی۔ پہلی وحی کا آغاز ہی "پڑھ" کے حکم سے ہوا، جو علم کے حصول کی اہمیت کی طرف واضح اشارہ تھا۔ اسلام نے تخیلاتی اور وہمی عقائد کے بجائے عقل و استدلال کو پروان چڑھایا۔ قرآن مجید بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور کائنات کی نشانیوں میں تدبر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ علمی انقلاب صرف مذہبی علوم تک محدود نہ تھا بلکہ اس نے سائنس، طب، فلکیات اور ریاضی جیسے شعبوں میں بھی حیرت انگیز ترقی کا راستہ ہموار کیا۔

4. اجتماعی انصاف اور معاشی توازن

بعثت نبوی ﷺ نے معاشرتی اور معاشی انصاف کے قیام کے لیے بنیادی اصلاحات متعارف کرائیں۔ اسلام نے غلامی کے خاتمے کے لیے مرحلہ وار اقدامات کیے، عورتوں کے حقوق متعین کیے، وراثت کے منصفانہ قوانین بنائے، اور زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے معاشرے سے غربت کے خاتمے کا نظام قائم کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے"۔ یہ اجتماعی انصاف کا تصور اسلام کے مرکزی مقاصد میں سے ہے جس کا تعلق فرد کی نجات کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود سے ہے۔

5. عالمگیر ہدایت اور رحمت للعالمین کا پیغام

نبی کریم ﷺ کو صرف عربوں یا کسی خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ قرآن میں ارشاد ہے: "اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے" (الانبیاء: 107)۔ یہ عالمگیریت اسلام کے مقاصد کی وسعت کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلام کا پیغام نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے بالاتر ہے اور پوری انسانیت کو ایک خدا کی عبادت اور بنی نوع انسان کے طور پر باہمی اخوت و مساوات کی دعوت دیتا ہے۔

نتیجہ

بعثت نبوی ﷺ کے مقاصد کثیر الجہت اور ہمہ گیر ہیں جن میں فرد کی اصلاح سے لے کر معاشرے کی تعمیر، اور عقیدے کی درستگی سے لے کر تہذیب کی تشکیل شامل ہے۔ یہ محض چند رسمی عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں ہدایت کا ایک مکمل نظام تھا۔ آج بھی جب انسانیت مادہ پرستی، اخلاقی بحران اور روحانی پستی کا شکار ہے، بعثت نبوی ﷺ کے انہی مقاصد کی طرف رجوع ہی اس کے مسائل کا حقیقی حل پیش کر سکتا ہے۔ اسلام کا پیغام زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے اور ہر دور کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ اسے اس کی صحیح روح میں سمجھا اور اپنایا جائے۔

Wednesday, 22 March 2023

مصارف زکوٰۃ

 مصارف زکوٰۃ

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO

 (التوبہ، 9 : 60)

’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے۔

فقراء

مساکین

عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)

مؤلفۃ القلوب

غلام کی آزادی

مقروض

فی سبیل اللہ

مسافر

قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہوجائے گا۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے۔

زکوٰۃ کا پہلا اور دوسرا مصرف، فقیرومسکین

’’فقیر اور مسکین دونوں ہی مالی ضروریات کے لئے دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں دونوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے فقیر سے بڑھ کر مسکین خستہ حال ہوتا ہے فقیر تنگدست ہوتا ہے تہی دست نہیں ہوتا مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر ضروریات زندگی اس سے پوری نہیں ہوتیں‘‘ بدائع الصنائع 2 : 43۔ ۔ ۔ فتاویٰ عالمگیری 188 تفسیر کبیر 107 طبع ایران۔ ۔ ۔ احکام القرآن للحبصاص 3 : 122۔ ۔ ۔ روح المعانی 15 : 120۔ ۔ ۔ ہدایہ : 163۔ ۔ ۔ الجامع الاحکام القرآن للقرطبی 7 : 157)

تیسرا مصرف والعاملین علیہا

وہ لوگ جو زکوٰۃ و عشر جمع کرنے پر مأمور ہوں، ان سب کو زکوٰۃ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی خواہ امیر ہوں خواہ غریب۔

ان مایستحقه العامل انما یستحقه بطریق العمالته لابطریق الزکاة بدلیل ان یعطی وان کان غنیا بالا جماع ولو کان ذلک صدقته لما حلت للغنی

’’عامل جو زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے وہ صرف اپنے کام کی بناء پر اس کا حقدار ہے نہ کہ زکوٰۃ کی حیثیت سے دلیل یہ ہے کہ اسے تنخواہ ملے گی گو غنی و امیر ہو اس پر امت کا اجماع ہے اگر یہ صدقہ ہوتا تو امیر کےلئے جائز نہ ہوتا۔ ‘‘

 (بدائع الصنائع 2 : 44 ۔ ۔ ۔ فتح القدیر 2 : 204 ۔ ۔ ۔ تفسیر کبیر 16 : 115)

امااخذ طلمه زماننا من الصدقات والعشور والخراج والجبایات و المصادرات فالا صح انه یسقط جمیع ذلک عن ارباب الاموال اذا نوواعند الدفع التصدق علیھم

’’رہا ہمارے دور کے ظالم حکمرانوں کو زکوٰۃ و عشر خراج جزیہ اور محصولات لینا تو صحیح تر یہ ہے کہ مالدار لوگ ان کو مال دیتے وقت ان پر صدقہ کی نیت کر لیں، تو ان سے شرعی مالی واجبات ساقط ہوجائیں گے‘‘۔

 (فتاویٰ عالمگیری، 1 : 190)

گویا ان کو دوبارہ ادا نہیں کرنا پڑے گا جیسے آج کل حکومت زبردستی زکوٰۃ بینکوں سے کاٹ لیتی ہے اور افسر شاہی شیر مادر سمجھ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہمراہ ڈکار لئے بغیر سب کچھ ہڑپ کرجاتی ہے۔ اسی لئے حقیقت شناس لوگ بینکوں پر بھروسہ نہیں کرتے اپنے طور پر زکوٰۃ کی رقم اس کے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ ہی احسن طریقہ ہے۔

اموال ظاہرہ واموال باطنہ

مال دو طرح کا ہے ایک ظاہری جیسے مویشی غلہ مال تجارت وغیرہ اس کی زکوٰۃ اسلامی حکومت وصول کرتی ہے۔ 

دوسرا باطنی یا پوشیدہ مال جیسے زیورات یا نقدی اس کی زکوٰۃ ہر شخص خود ادا کرتا ہے۔


فی زمانہ آج کل چونکہ زکوٰۃ وعشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصولوں کے مطابق نہیں اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں، محتاجوں، مسکینوں کی کفالت عامہ کی ذمہ داری بھی حکومت نہیں لیتی نہ اس کے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے۔ بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے۔ نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں اس لئے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مالوں کی زکوٰۃ مناسب مصارف میں خود صرف کرتے ہیں یہ بالکل جائز ہے۔ حالانکہ زکوٰۃ امراء سے لیکر فقراء پر صرف کرنے کےلئے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب و مسکین حاجت مندوں کی با عزت کفالت ہو سکے۔

بنی ہاشم پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں کہ یہ لوگوں کے مال کا میل کچیل ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ کبھی خود اپنی ذات پر مال زکوٰۃ صرف کیا نہ اپنے خاندان بنی ہاشم پر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان بنی ہاشم پر زکوٰۃ و عشر کا مال حرام فرما دیا۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم خود بھی زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کا کام بلا معاوضہ کرتے تھے اور اپنے خاندان کے لئے بھی یہ حکم تھا کہ ان میں سے جو کوئی بلا معاوضہ یہ خدمت کرنا چاہے کرے، لیکن زکوٰۃ میں سے معاوضہ لے کر یہ خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ ہاں زکوٰۃ کے محکمہ میں کام کرنے والا ہاشمی زکوٰۃ فنڈ کے علاوہ تنخواہ پائے تو یہ جائز ہے۔ البتہ زکوٰۃ کے علاوہ ان تحائف دیئے جا سکتے ہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری 1 : 188)

چوتھا مصرف، مؤلفۃ القلوب

زکوٰۃ و عشر کا چوتھا مصرف مؤلفۃ القلوب ہیں یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا۔ اس حکم خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جا سکتی ہے یا ایسے نادار کافر جن کی مالی امداد کر کے ان کو اسلام کی طرف مائل کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجہ میں پہلے ان کا جوش عداوت ٹھنڈا ہو گا اور بالاخر وہ اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو وقتی عطیات یا مستقل وظائف مال زکوٰۃ سے دے کر ان کو اسلام کا مطیع و فرماں بردار یا کم ازکم بے ضرر دشمن بنا لیا جائے ایسے لوگوں کو مال زکوٰۃ دینا جائز ہے خواہ وہ غریب ہوں خواہ مالدار اس بات میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ قرآن کریم میں زکوٰۃ و عشر کے جو آٹھ مصارف ذکر کئے گئے ہیں ان میں ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ کا حصہ بھی شامل ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مؤلفۃ القلوب کو اپنی حیات ظاہری میں مالی وظائف دیا کرتے تھے۔ مثلاً خاندان بنی امیہ میں سفیان بن حرب، نبی مخزوم میں حارث بن ہشام، عبدالرحمن بن یربوع، نبی جمح میں صفوان بن امیہ، بنی عامر بن لوئی میں سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزیٰ، بنی اسد بن عبدالعزیٰ میں حکیم بن حزام، بنی ہاشم میں ابو سفیان بن الحارث بن عبدالمطلب، فزارہ عینیہ بن حصن، بنی تمیم میں اقرع بن حابس، بنی نصر میں مالک بن عوف، بنی سلیم میں عباس بن مرد اس، ثقیف میں علاء بن حارثہ، بنی حارثہ، بنی سہم میں عدی بن قیس، ان میں سے بعض کو 100 اونٹ اور بعض کو 50 ملے۔

لیکن جب خلافت صدیقی میں عینیہ بن حصن اپنا حصہ لینے آئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی ’’الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ‘‘ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے سو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے‘‘ دوسری روایت میں ہے عینیہ اور اقراع، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس زمین مانگنے آئے۔ آپ نے ان کو تحریر لکھ دی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چاک کر دیا، اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہیں یہ کچھ اس لئے دیتے تھے کہ تم اسلام سے مانوس ہو جاؤ۔ اب اللہ نے اسلام کو غلبہ دے دیا ہے اور اسے تم لوگوں سے مستغنی کر دیا ہے، اسلام پر قائم رہوگے تو ٹھیک، ورنہ ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کریگی وہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر آئے اور کہنے لگے آپ خلیفہ ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی اور کسی صحابی نے انکار نہیں کیا۔‘‘

 (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 114 ۔ ۔ ۔ بدائع الصنائع 2 : 45 ۔ ۔ ۔ فتح القدیر 1۔ 200 ۔ ۔ ۔ تفسیر کبیر 16 : 111)

کیا مؤلّفۃ القلوب کا حصہ منسوخ ہوچکا ہے؟

امام رازی لکھتے ہیں۔

الصحیح ان هذا الحکم غیر منسوخ وان للامام ان یتألف قوما علی هذا الوصف ویدفع الیهم سهم المؤلّفة

’’صحیح یہ ہے کہ حکم منسوخ نہیں اور امام کا حق ہے کہ ایسے لوگوں کو اسی طرح مانوس کرتا رہے اور ان کو مؤلّفۃ القلوب کا حصہ دیتا رہے‘‘۔

 (کبیر 16 : 111)

جیسا کہ عرض کیا گیا ہے مصارف زکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مصرف مؤلّفۃ القلوب کا مقرر فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مد میں زکوٰۃ و عشر کی آمدنی خرچ فرمائی۔ اور کبھی اسے منسوخ نہ فرمایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان تمام حضرات کے وہ وظائف بند کر دیئے جو تالیف قلب کے طور پر وہ اس سے پہلے وصول کرتے تھے۔ بعض ائمہ کرام (جیسے احناف) کا مؤقف یہ ہے کہ مؤلّفۃ القلوب کا حصہ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم کے سامنے ایسا ہوا اور کسی نے اس پر اختلاف یا انکار نہ کیا پس معلوم ہوا کہ اس مصرف کے سقوط پر اجماع صحابہ ہے اور چونکہ اجماع دلیل قطعی ہے۔ لہٰذا قرآن کا نسخ اس سے جائز ہے بعض ائمہ نے فرمایا پہلے تالیف قلب کی ضرورت تھی لہٰذا یہ مصرف بحال رہا۔ جب اسلام کو قوت حاصل ہو گئی تو کسی کی تالیف قلب کی ضرورت نہ رہی پس حکم جاتا رہا۔ ہمارے نزدیک تالیف قلب کی آج بھی اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی ابتدائے اسلام میں تھی۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فنڈ میں سے غریبوں کی مدد کر کے ان کے عقیدہ کو بچایا جائے۔

مسلمانوں کو مال کی لالچ میں مرتد ہونے سے اور غیر مسلم غریبوں کی مالی اعانت کر کے انہیں مسلمان کیا جائے۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ غیر مسلم امیر ممالک اور ان کی ایجنسیاں غریبوں کو مرتد کرنے پر اربوں ڈالر اور بعض پیٹرول کی دولت سے مالا مال شرق اوسط کے ممالک لوگوں کو بدعقیدہ کرنے پر پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں۔ پختہ صحیح العقیدہ صاحبانِ ثروت مسلمانوں کو اپنی دولت اور عشر و زکوٰۃ غریب وفادار غیر مسلموں کی اصلاح پر خرچ کرنی چاہیے۔ بے روزگار و بیمار لوگوں کی مالی اعانت کرنی چاہیے۔ یونہی نادار و مفلس مسلمانوں و غیر مسلموں کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر زکوٰۃ و عشر کی رقوم خرچ کرناچاہیے نیز ذمی شہریوں سے جزیہ و خراج وصول کر کے ذمی طلباء و غربا کی ہر طرح کی مالی اعانت کی جائے اور ان کو ضروریات زندگی مہیا کی جائیں۔ یہ سب اسلامی فلاحی حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے۔

امیروں اور ڈانواں ڈول لوگوں پر خرچ کر کے ان کو مخالفین اسلام کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچایا جائے۔ نو مسلموں کی مالی اعانت کر کے ان کو اسلام کی طرف مائل و مانوس کیا جائے۔ مال کے خواہش مندوں کو مالی مدد دیکر اسلام پر کار بند کیا جائے۔ دشمن قوتوں کی مالی اعانت کر کے ان کے شر سے ملک و ملت کو بچایا جائے غیر مسلم قوتیں مال دے کر مسلمانوں کے عقیدے خراب کرتی اور ان کو مرتد کرتی ہیں۔ اسلام بھی ان پر مال خرچ کر کے ان کو مسلمان ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم کا اجماع اس بات پر ہوا تھا کہ اس دور میں مؤلّفۃ القلوب کو کچھ دینے کی ضرورت نہ رہی تھی۔

آج بھی ضرورت نہ ہو تو آپ کو کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ضرور مؤلّفۃ القلوب کا مصرف پیدا کریں۔ لیکن ضرورت ہو تو پھر آپ اس مد میں زکوٰۃ صرف کر سکتے ہیں۔ جیسے دوسری مدات ہوں تو زکوٰۃ صرف کریں کوئی مد نہ ہو تو چھوڑ دیں بیت المال میں مال جمع کرا دیں۔ یہ قرآنی حکم کا نسخ نہیں بلکہ علت نہ رہنے سے حکم ختم ہو گیا، جیسے تیمم اس وقت تک کر سکتے ہیں جب تک پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو۔ جونہی پانی پر قدرت حاصل ہوئی تیمم کا حکم ختم۔ حکم علت کے ساتھ رہا۔ ہمیشہ کیلئے منسوخ ہوا نہ ہر صورت میں نافذ، یہی معاملہ ہے مؤلّفۃ القلوب کا جہاں جب ضرورت ہو صرف کریں ضرورت نہ ہو تو مت کریں۔ جیسے آئمہ احناف نے فرمایا ان المقصود بالدفع الیهم کان اعزاز الاسلام لضنعفه فی ذلک الوقت لغلبه اهل الکفر فکان الاعزازیه فی الدفع فلما تبدل الحال بغلبته اهل الاسلام صار الااعزاز هو المقصود وهو باق علی جاله فلم یکن نسخا کالمتیم. . . الخ فتح القدیر شرح ہدایہ لابن الھمام ہے الکفایہ (للخوارزمی 2 : 201) 

اس وقت اسلام کمزور تھا لہٰذا مؤلّفۃ القلوب کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا۔ کیونکہ کافر غالب تھے پس اعزاز اسلام ان کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا۔ اہل اسلام کے غلبہ سے جب صورت حال بدل گئی اب غلبہ اہل اسلام کا ہو گیا تو ان کو زکوٰۃ دینے کی ضرورت نہیں رہی، پس اس (ابتدائی ) زمانہ میں ان (مؤلّفۃ القلوب) کو دینا اور اس پچھلے دور میں نہ دینا (جیسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کیا) غلبہ دین کے بمنزلہ ذریعہ و وسیلہ ہوا۔ اصل مقصود غلبہ دین ہے اور وہ اسی طرح اب بھی باقی ہے۔ پس نسخ نہ ہوا۔ جیسے تیمم (کہ مجبوری کے وقت جائز ہو گیا اور مجبوری نہ رہی تو ختم ہو گیا نہ ہمیشہ کے لئے جائز نہ منسوخ) 

(شرح ہدایہ، للخوارزمی 

فتح القدیر شرح ہدایہ لعلامہ ابن ہمام 2 : 201 طبع پاکستان)

پانچواں مصرف

 وفی الرقاب

گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا، کمزور، نادار، اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنا لیتے تھے۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم، مغلوب قوم کو اپنا غلام بنا کر ان کے گھر بار زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قرار دیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً و اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا۔ جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہو گئی جو مالک اپنے غلاموں لونڈیوں کو بلا معاوضہ آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ان کو مالی معاوضہ دے کر غلاموں کو آزادی دلائی گئی۔ مالک اپنے مملوک سے آزادی کے لئے جو مالی معاوضہ طلب کرے اسے بدل کتابت کہا جاتا ہے غلام مطلوبہ رقم ادا کر کے آزادی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور وہ رقم مال زکوٰۃ سے دی جا سکتی ہے۔ یونہی جو مسلمان آج کل ظالم وغاصب کافروں سے اپنی اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء و آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ محکوم و مظلوم مسلمان بھی مال زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔ اور اس قرآنی مصرف میں شامل ہیں۔

چھٹا مصرف

 الغارمین :

’’والغارمین‘‘ اور قرضداروں کو یعنی مال زکوٰۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کئے جا سکتے ہیں۔

ساتواں مصرف

 وفی سبیل اللہ:

’’اور اللہ کے راستے میں‘‘ 

امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین مراد لئے ہیں اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ عازمین حج جو راستے میں مالی مدد کے محتاج ہوں۔ کچھ علماء کے نزدیک طالب علم مراد ہیں۔ امام کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ وہ ’’فی سبیل اللّٰه‘‘ عبارة عن جمیع القرب فید خل فیه کل من سعی فی طاعة اللّٰه و سبیل الخیرات اذا کان محتاجا‘‘ فی سبیل اللہ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ و دو کرے۔ جب کہ (زکوٰۃ کا) حاجت مند ہو۔ (بدائع الصنائح، 2 : 45۔ ۔ ۔ تفسیر روح المعانی، 10 : 123۔ ۔ ۔ درمختار مع ردالمختاری للشامی، 2 : 343)

امام رازی فرماتے ہیں۔ ان ظاهر اللفظ لایو جب القصر علی کل الغزاة ظاہر لفظ مجاہدین پر حصرلازم نہیں کرتا‘‘ (تفسیر کبیر16 : 113 طبع بیروت)

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ساتواں مصرف قرآن کریم میں فی سبیل اللہ بیان فرمایا گیا ہے۔ بعض فقہاء کرام نے اس سے حج اور جہاد پر جانے والے وہ لوگ مراد لئے ہیں جو سفر اور متعلقہ ضروریات کے سلسلہ میں مالی تعاون کے طالب ہیں ان پر زکوٰۃ صرف کی جا سکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ کتاب و سنت میں براہ راست یہ وضاحت نہیں کی گئی۔ لہٰذا مجاہدین سے مراد اگر عام معنی مراد لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے یعنی وہ لوگ جو دین اسلام کی سربلندی کےلئے جدوجہد میں مصروف ہیں خواہ وہ جہد فوجی میدان میں ہو خواہ تعلیمی میدان میں، خواہ تبلیغی و تربیتی میدان میں جہاد کا مفہوم قتال و غزاء سے عام ہے۔ پس جو لوگ ان محاذوں پر مصروف کار ہیں اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں تو زکوٰۃ سے ان کے وقتی یا مستقل وظائف مقرر کئے جا سکتے ہیں۔

آٹھواں مصرف:

 ’’ابن سبیل‘‘ مسافر:

زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف مسافر ہے۔ خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہو جائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو، تو زکوٰۃ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی المراد الذی انقطعت به الاسباب فی سفره عن بلده ومستقره وماله فانه یعطی منها وان کان غنیا فی بلده 

اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل و اسباب گھر ٹھکانہ اور مال سے دور سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ اس کو مال زکوٰۃ سے دیا جائے گا اگرچہ اپنے شہر میں امیر ہو۔

 (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 119 بدائع الصنائع کاسانی 2 : 46)

ہدایہ مع فتح القدیر لعلامہ ابن الھمام 2 : 204 ردالمختار شامی ج 2 : 343)

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ فرد یا جماعت کو زکوٰۃ کا مالک بنادیا جائے تاکہ مالدار کا دینا اور حقدار کا لینا ثابت ہوجائے۔

اسے تملیک یعنی مالک بنانا کہتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کےلئے یہ شرط ہے۔ (عامہ کتب فقہ)

Friday, 10 March 2023

ہمارے جمیع مسائل و مصائب کا حل اسلامی آئین (قرآن و سنۃ) کے نفاذ میں ہے

 ہمارے جمیع مسائل و مصائب کا حل اسلامی آئین (قرآن و سنۃ) کے نفاذ میں ہے


تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں بانی صدر، تحریک نفاذ آئین، قرآن س سنۃ پاکستان


عنوان بالا پر چند قابل عمل و اہم تجاویز پیش خدمت ہیں:

1) پاکستان کے متفقہ اسلامی آئین کے تمام تر آرٹیکلز، سب آرٹیکلز پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے عملاً قرآن و سنت کے احکامات کے مؤثر نفاذ و غلبے اور بالادستی کو یقینی بنایا جائے. 2) قرآن و سنت کے احکامات کے منافی بعض آرٹیکلز کو ترامیم کے ذریعے ممتاز علماء کرام کی مشاورت سے قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے۔ 3) سرمایہ دارانہ، استیصالی، ظالمانہ و غیر منصفانہ سودی نظام معیشت و معاشرت و سیاست کو جڑ سے ختم کیا جائے۔ 4) کفایت شعاری کو ہر سطح پر اختیار کیا جائے۔ 5) تعلیم و صحت کے بجٹ کو دو گنا کیا جائے۔ 6) دفاعی بجت سے غیر جنگی اخراجات میں پچاس فیصد کٹوتی کی جائے. 7) ججز و جنرلز سمیت تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و الاؤنسز، مراعات و سہولیات میں یکسانیت پیدا کی جائے۔ 8)  ہر سرکاری ملازم کو اس کے گریڈ کے مطابق ریٹائرمنٹ پر گھر بنانے کےلیے مقررہ سائز کے پلاٹس دیئے جائیں یا ججز و جنرلز سمیت کسی کو بھی کوئی پلاٹ نہ دیا جائے۔  9) قابل کاشت زرعی و زرخیز زمینوں کو زیر تعمیر ڈی ایچ ایز سمیت تمام ہاؤسنگ پروجیکٹس سے واگزار کروا کے کاشتکاروں کو دے دی جائے۔ 10) سرکاری زمینیں جن کو قابل کاشت بنایا جا سکتا ہو، وہ سولہ ایکڑ فی خاندان بے زمین کسانوں، ہاریوں، مزارعوں کو مفت الاٹ کر دی جائیں۔ 11) انہیں قابل کاشت بنانے کےلیے سولہ تا بتیس لاکھ روپے، قرض حسنہ بیس سالہ کےلیے دیا جائے جو دس سال گزرنے کے بعد اگلے دس سالوں کے دوران مساوی ششماہی یا سالانہ اقساط میں واپس لیا جائے۔ 12) قابل کاشت و زیر کاشت زرعی اراضی پر ہاؤسنگ پروجیکٹس بنانے پر مستقل پابندی عائد کی جائے. 13) ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز، چیف منسٹر ہاؤسز، چیف سیکریٹری ہاؤسز، آئی جی ہاؤسز، کمشنر ہاؤسز، چیف آف آرمی سٹاف ہاؤس، کور کمانڈرز ہاؤسز کے بجٹ میں پچاس فیصد کٹوتی کی جائے۔ 14) تمام ہاؤسز کو فروخت کر دیا جائے، ان سب کےلیے، شہروں سے باہر اور چھاؤنیوں میں، ایک کینال دو کینال، تین اور چار کینال پر مناسب و موزوں نئے ہاؤسز ازسر نو تعمیر کر دییے جائیں۔ 15) 18تا 45 سال تک کی عمر کے غریب و مفلس اور نادار لوگوں کو مختلف فنون بالکل مفت سکھا کر اپنے اپنے فن کے مطابق ذاتی کام کاروبار شروع کرنے کےلیے پانچ تا دس سال کےلیے قرض حسنہ دیا جائے، جس کو وہ اپنے نئے شروع کیے ہوئے کام کاروبار کی بچت سے سہ ماہی یا ششماہی اقساط میں واپس کرنے کے پابند ہوں۔ 16) پانچ تا سولہ سال کی عمر کے تمام پاکستانی بچوں، طلباء و طالبات کی مفت،۔ معیاری، بامقصد تعلیم و تربیت کو بہر صورت یقینی بنایا جائے. 17) سرکاری سکولوں کو اپ گریڈ کر کے پہلی تا بارہویں جماعت، ہائر سیکنڈری سکول بنایا جائے ان میں معیار تعلیم و تربیت اور جمیع سہولیات کو بہترین پرائیویٹ سکول کے برابر بلکہ ان سے بہتر بنائے جانے کو یقینی بنایا جائے. 18) روز مرہ استعمال کی ضروری اشیاء و اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں عام آدمی کےلیے پچاس فیصد تک کمی کو بہر صورت یقینی بنائی جائے. 19) غیر ضروری یعنی اشیاء تعیش کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کےلیے ان پر کسٹم ڈیوٹی بڑھائی جائے اور پاکستانی اناج و غلے، تازہ پھلوں سمیت دیگر مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی کےلیے انہیں وسائل کے مطابق مناسب مراعات دی جائیں۔ 20) نظام عدل و انصاف میں با مقصد و نتیجہ خیز اصلاحات کی جائیں، غریب و امیر طاقتور و کمزور ہر فرد کو بلاتخصیص و امتیاز اور بغیر کسی تفریق کے فوری و مفت اور یکساں و مساوی انصاف کی آسان ترین فراہمی کو یقینی بنایا جائے، بغرض مذکور ہر شہر و قصبے، گاؤں و چک اور آبادی و علاقے میں قاضی عدالتیں قائم کی جائیں۔ 21) بلدیاتی حکومتوں کو باقاعدہ و منظم، مؤثر، فعال، بامقصد، نتیجہ خیز و فعال اور با اختیار بنایا جائے. 22) تمام تر قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق اور ان کے تابع بنایا جائے اور اسلامی حدود کو عملاً نافذ العمل بنایا جائے. 23) تمام مساجد و مدارس دینیہ عربیہ کو سرکاری تحویل میں لیا جائے اور ان میں قرآن و سنت و اسوۃ حسنۃ، تاریخ اسلام، فقہ سمیت تمام علوم دینیہ متداولہ کی یکساں تعلیم دی جائے فرقہ واریت کے مکمل خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔ 24) ائمہ مساجد، خطباء و مدرسین کو ان کی تعلیمی اہلیت و ذمہ داریوں کی مناسبت سے، قومی خزانے سے تنخواہیں ادا کی جائیں۔ 25) مساجد و مدارس سے فرقہ وارانہ چھاپ بالکل ختم کر دی جائے۔ فرقہ وارانہ مذہبی شناختی علامات کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے۔  26) سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی بہترین دیکھ بھال، نگہداشت، تیمار داری، مفت علاج و معالجے، ادویات کی مفت فراہمی سمیت دیگر ضروری سہولیات کی فراہمی کو بہتر و یقینی بنایا جائے۔ 27) ہر سطح پر اراکین پارلیمنٹ، وزراء، مشیران، معاونین خصوصی، ججز، جنرلز، سول و ملٹری بیوروکریٹس کےلیے مفت سفری سہولیات، مفت پیٹرول، مفت بجلی سمیت جمیع مراعات و اخراجات کو نصف کر دیا جائے۔

28) آئین کی تشریح اور سیاسی نوعیت کے تنازعات کے حل کا حق پارلیمنٹ کو یا سپریم کورٹ کے تمام تر ججز پر مشتمل فل بنچ کو تفویض کرنے کےلیے متعلقہ رولز، قوانین میں ضروری ترامیم کی جائیں۔ 29) ہر نوعیت کی کرپشن، جعل سازی، ناقص مصنوعات، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، رشوت ستانی، کمیشن، کک بیکس کو سنگین جرم قرار دیا جائے اور ان الزامات پر مبنی کیسز کا فیصلہ 90 روز میں سنانے کو لازم قرار دینے کےلیے ضروری و درکار قانون سازی کی جائے۔ 30) ہتک عزت defamation قوانین کو مغربی و یورپیئن ممالک کی طرز پر استوار کیا جائے تاکہ بد نیتی پر مبنی جھوٹے، من گھڑت، بے بنیاد الزام تراشی و بہتان طرازی کی روش کا معاشرے سے قلع قمع کیا جا سکے۔ قوی امید ہے کہ ان تیس تجاویز پر مخلصانہ و سنجیدہ عملدرآمد سے ملک و معاشرے میں اصلاحات کا اچھا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

معاشی استحکام، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں

معاشی استحکام، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ آئین، قرآن و سنت پاکستان


اس حقیقت سے کسی طور بھی انحراف نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت پاکستان بہت بدترین معاشی بحران کا شکار ہے، مفلس و نادار، غریب و محنت کش، عام پاکستانیوں کی بڑی اکثریت دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے سے بھی عاری ہے، مہنگائی جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے روز مرہ استعمال کی اشیاء خورد و نوش عام پاکستانیوں کی پہنچ سے باہر ہیں اس پر مستزاد یہ کہ منی بجٹ کے ذریعے مہنگائی میں مزید ہوشربا اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے، درپیش صورتحال کا ایمانداری و دیانتداری کے ساتھ جائزہ لینا ز بس ضروری ہے کہ اس غربت و افلاس، مہنگائی و روز گاری کے اصل اسباب و عوامل اور محرکات کیا ہیں؟

عوام کی بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ مشکل ترین معاشی صورتحال سیاست میں جنرلز و ججز کی غیر آئینی و غیر قانونی، مجرمانہ مداخلت کا فطری و لازمی نتیجہ ہے چنانچہ جن جنرلز نے دفاعی بجٹ اور ففتھ جنریشن وار کے نام پر قومی خزانے سے ہزارہا ارب روپے سالانہ لے کر پروجیکٹ عمران خائن پر خرچ کر دیئے، (PML (N اور PPP وغیرہما، قومی سیاسی و دینی جماعتوں اور قائدین کے خلاف بے بنیاد، من گھڑت و لغو، جھوٹے پروپگنڈے، کردار کشی کی مہمات پر خرچ کروائے اور عدلیہ کے بعض ججز کو استعمال کر کے ان کے خلاف بد نیتی پر مبنی جھوٹے، بے بنیاد الزامات لگوا کر انہیں نا اہل کروایا گیا، قید و جرمانے کی غلط و ناجائز سزائیں دلوائی گئیں، RTS بٹھا کر دھونس و دھمکی اور خوف کے ذریعے PTI مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بالجبر و بلیک میلنگ کے ذریعے PTI میں شامل کروایا گیا، بے انتہاء پری پول و پوسٹ پول رگنگ و دھاندلی کروائی گئی، تاکہ جنرلز و ججز کے مشترکہ پروجیکٹ عمران خائن کو قوم و ملک پر زبردستی مسلط کیا جا سکے، قومی خزانے سے کھربوں روپے خرچ کر کے قوم کے اکثر لوگوں کو بدتمیزی کرنے، مغلظات بکنے، بداخلاقی و بدتہذیبی، آئین شکنی، الزام تراشی و بہتان طرازی کے رویوں کا عادی بنایا گیا، ان سارے کرتوتوں کے ذمہ دار تمام عناصر بلا شبہ قومی مجرم ہیں، ان سب کے خلاف آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 اور دیگر متعلقہ قوانین کے تحت سنگین غداری و دیگر جرائم کے مقدمات درج کر کے ان سب کو بلاتاخیر گرفتار کر کے متعلقہ عدالتوں سے قرار واقعی و عبرتناک سزائیں دلوانا، ان سب کے اثاثوں کی چھان بین کرنا اور ناجائز و لوٹی ہوئی دولت سے بنائے گئے اثاثوں کو بحق سرکار ضبط کرنا، نیز آئین، قرآن و سنت کے مکمل و مؤثر نفاذ و بالادستی کو یقینی بنانا اور آئندہ جنرلز و ججز کو ایسے ناکام و تباہ کن تجربے و پروجیکٹس شروع کرنے سے روکنا نہایت ضروری ہے، بصورت دیگر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوئی بھی کوشش کامیاب ہونا بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔

Monday, 18 July 2022

قرآن و سنت کے احکامات کی اطاعت ہی اصل عبادت ہے

 *قرآن و سنت کے احکامات کی اطاعت ہی اصل عبادت ہے*


تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ آئین، قرآن و سنت پاکستان

دین اسلام میں (جو کہ قرآن و سنت پر مبنی ہے) اللہ تعالٰی و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات کی اطاعت و اتباع اور تعمیل و تکمیل کو عبادت، جبکہ اللہ تعالٰی کے نازل کردہ احکامات کی نافرمانی و سرکشی انحراف و روگردانی کو برائی، بدی اور معصیت و گناہ قرار دیا گیا ہے، ان حقائق کی جانب ہر کلمہ گو انسان کو پوری طرح متوجہ ہو کر سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک و معاشرے میں اعمال صالحہ یعنی قرآن و سنت کے منزل من اللہ احکامات و ہدایات، تعلیمات و فرمودات اور پیغامات سے انحراف و روگردانی، نافرمانی و حکم عدولی اور سرکشی کرنے، اللہ تعالٰی کے نازل کردہ احکامات پر انسانی و بشری افکار و نظریات کو ترجیح و فوقیت اور اولیت دینے، فرقہ پرستی و اکابر پرستی کو عملاً اختیار کرنے کے عمومی روش و رویے اور رجحانات آخر کیسے پروان چڑھے ہیں؟ اس کے اسباب و عوامل اور محرکات کیا ہیں؟ 

آلا ما شاء اللہ، ملک و معاشرے اور قوم کے اکثرو بیشتر افراد میں اس ناسور نے کب سے اور کس طرح جڑیں پکڑی ہیں؟  بالعموم یہ یہ روش و رویے اب سرطان کے مرض کی طرح ملک و معاشرے بلکہ پوری امت مسلمہ میں کورونا و طاعون کی وبا کی شکل اختیار کر کے پوری طرح پھیل چکے ہیں، اب بھی اگر ہم نے ان عمومی رویوں کے پھیلاؤ و فروغ کو روکنے کی غرض سے ان کے بنیادی و کلیدی اور اصل اسباب و عوامل، وجوہات و محرکات پر غور و فکر نہ کیا تو یہ خوفناک و خطرناک ترین رویے اور رجحانات ہمیں دنیا و آخرت میں مزید تباہ و برباد، ذلیل و رسوا کر کے معاذ اللہ جہنم کا ایندھن بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گےاور ان کے سدباب و ازالے اور مکمل تدارک و علاج کے لیے پہلے متعلقہ امراض کی تشخیص ضروری ہے اور اس کے بعد ہی اس کا مؤثر علاج و معالجہ ممکن ہے پھر اس سے بچنے کی تدابیر و احتیاط اور پرہیز اختیار کی جا سکتی ہے۔ ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ اصلاح احوال کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں؟

اس عاجز و ناقص بندہ ناچیز کی دانست میں ان روش و ریوں، رجحانات و برائیوں اور خرابیوں کو پروان چڑھانے میں  مندرجہ ذیل عناصر و شخصیات اور طبقات کا بڑا اہم کردار ہے: ہمارے مفاد پرست و خود غرض، قائدین، فرقہ ساز، فرقہ بند، فرقہ پرست نام نہاد و خود ساختہ مذہبی و دینی پیشوائی کے جھوٹے دعویدار مولوی حضرات، سیاسی و سماجی رہنما و زعماء، پیران کرام و شیخان عظام اور مغرب و یورپ سے مرعوب و متاثر، ذہنی غلامی کے مرض میں مبتلا حکمران و مقتدر اور با اثر طبقات کی عمومی غفلت و لاپرواہی، غیر سنجیدگی و غیر ذمہ داری، عاقبت نااندیشی، فرض ناشناسی، بد اعمالی و بد کرداری کیونکہ لوگ انہی کی رہنمائی میں چلنے کے عادی ہوتے ہیں اور وہ انہیں کو اپنے لیے نمونہء عمل تصور کرتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں اور انہی کے پیچھے چلتے ہیں۔

  ان سب ہی نے اپنے اپنے حلقہء اثر کے لوگوں کو دانستہ و نادانستہ طور پر قرآن و سنت کا صحیح فہم پہنچانے اور ان کی تعمیل و پیروی اور اطاعت و اتباع کی راہ سے ہٹانے، صراط مستقیم سے بھٹکانے اور قرآن و سنت کے منزل من الله احکامات و ہدایات، تعلیمات و فرمودات اور پیغامات کی صدق نیت اور اخلاص قلب سے اطاعت و اتباع اور تعمیل و پیروی کیی راہ سے ہٹا کر اپنے اپنے محدود و ناجائز، محدود و ذاتی مخصوص اغراض و مقاصد کے حصول و تحفظ کی غرض سے اپنے اپنے من پسند و من گھڑت، بے بنیاد و خود ساختہ، فرقہ وارانہ، سیاسی و گروہی اور لسانی عصبتوں، بے بنیاد اور قرآن و سنت کے احکامات کے منافی  افکار و نظریات کی پیروی کرنے پر مائل و آمادہ کرنے کےلیے سارے جتن اور حیلے و حربے استعمال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، حتیٰ کہ اختیارات، اثر و رسوخ، منبر و محراب، مساجد و مدارس اور اپنی اپنی سیاسی، سماجی، دینی و مذہبی تنظیمات کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے ان با اثر طبقات کے اسی طرز فکر و عمل کو اختیار کرنے کے نتیجے میں بتدریج معاشرے میں بے راہ روی، گمراہی، جرائم، انتشار و افتراق، طبقاتی تقسیم، تباہی و بربادی، تنزلی، انحطاط، پستی آتی رہی، نتیجتاً ہر سطح پر ذلت و رسوائی، تباہی و بربادی، انتشار و افتراق، ذلت و رسوائی مسلم معاشرے اور امت مسلمہ کا مقدر بنتی چلی گئی اور اب تو حالت وہ بن چکی ہے کہ علماء دین بھی دین کی سربلندی کے بجائے مصلحت اندیشی، مفاد پرستی اور خود غرضی کے باعث حق بات بیان نہیں کر پاتے امت کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے، امداد باہمی، اخوت اسلامی، باہمی خیرخواہی کا کہیں کوئی نشان تک نہیں ملتا۔ وہ دین حق "الاسلام" جو قرآن و سنت پر مبنی ہے، کامل و اکمل اور ہر لحاظ سے مکمل و جامع ضابطہ حیات، دستور زندگی ہے، رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم پر الله رب العالمين کا نازل کیا ہوا ہے اس کا عملی نفاذ ناپید ہو چکا ہے۔ آلا ماشاء الله لوگوں کی اکثریت مسلم (مسلمان) ہونے پر فخر کرنے کے بجائے، اپنے اپنے فرقوں پر نازاں ہیں اسی پر فخر کرنے لگے ہیں، اپنے فرقے کے پیرو کاروں کے سوا باقی سارے کلمہ گو لوگوں کو فاسق و فاجر، بدعتی، کافر، مشرک اور مرتد اور واجب القتل تک قرار دینے پر فخر کرتے نظر آتے ہیں، مقاصد دین اور اصول الدین کو پس پشت ڈال کر محض اپنے فرقے کے نام نہاد و خود ساختہ اکابرین کے فکر و فلسفے اور من گھڑت و بے بنیاد اور قرآن و سنت کے منافی افکار کو ارادی و غیر ارادی طور پر الله تعالٰی کے نازل کردہ دین (قرآن و سنت) پر اولیت، ترجیح و فوقیت دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے نہ ہی کوئی عار و جھجک محسوس کرتے ہیں، حالانکہ قرآن و سنت کی نصوص سے عبارة النص و اشارة النص کے ذریعے فرقہ بندی، فرقہ سازی، فرقہ پرستی، اکابر پرستی و شخصیت پرستی کی سخت ترین ممانعت ثابت ہے اور اس حرام عمل کا شرک کے مصداق گناہ کبیرہ ہونا اور اس پر جہنم وعید کا موجود ہونا سب پر واضح ہے اور کسی فرقے کو جائز و درست ماننے، قبول کرنے، تسلیم کرنے، جائز سمجھنے، اس کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے والے کو جہنمی قرار دیا گیا ہے اس حقیقت سے بھی سب لوگ آگاہ ہیں مگر اس سب کے باوجود فرقہ پرستی سے تائب ہو کر قرآن و سنت کی تعمیل و پیروی، اطاعت و اتباع پر اکتفاء کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے ہیں، جبکہ ہمارے جمیع مسائل و مصائب کا واحد حل و علاج ہی یہ ہے کہ منہاج نبوی اور منہاج خلفاء راشدین کے مطابق قرآن و سنت پر مبنی نظام مصطفوی کے مکمل نفاذ و غلبے اور بالادستی کو بہرحال یقینی بنانے کےلیے جہد مسلسل کی جائے۔

اللہ تعالٰی قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : مفہوم: "(اے محبوب صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم) آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(صلّی اللہ علیہ وسلّم) سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا "(سورۃ التوبہ، اٰیۃ 24)، مفہوم: "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ" (سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر103)، مفہوم: "اور جو رسول اللّٰہ (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان (مومنون و مسلمون یعنی جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین) کے راستے کے سوا کوئی بھی دوسرا راستہ اختیار کرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کر رکھا ہو اور ہم اسے جہنم میں پہنچا دیں گے اور وہ لوٹنے کی بہت بری جگہ ہے" (سورۃ النّساء اٰیۃ 115)،  مفہوم: "بیشک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے" (سورۃ آل عمران، آیۃ 19)

اللہ تعالٰی کے نازل کردہ دین اسلام کے احکامات کی تعمیل و اطاعت کا بالعموم ہر انسان جبکہ بالخصوص ہر کلمہ گو مکلف ہے، ہم ہزار احکامات کی نافرمانی کرتے ہیں اور پھر محض اقامت صلوة خمسہ، اہتمام صیام رمضان المبارک، زکوۃ اور حج کو ہی عبادت سمجھتے ہیں جو کہ درست بات نہیں ہے سچ بولنا، جھوٹ نہ بولنا، خرید و فروخت میں پورا ناپنا اور تولنا، ملاوٹ اور جعل سازی نہ کرنا، سچی گواہی دینا، صلہء رحمی، پڑوسیوں اور قرابت داروں کی خیر خبر لیتے رہنا، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی پورا خیال رکھنا، طمع، لالچ، بغض، عناد، حسد، کینہ پروری، عداوت، غیبت، بد عہدی سے بچنا اور اسی طرح بے شمار دیگر احکامات بھی واجب الاطاعت ہیں، دین اسلام میں (جو کہ قرآن و سنت پر مبنی ہے) اللہ تعالٰی و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات کی اطاعت و اتباع اور تعمیل و تکمیل کو عبادت، جبکہ اللہ تعالٰی کے نازل کردہ احکامات کی نافرمانی و سرکشی انحراف و روگردانی کو برائی، بدی اور معصیت و گناہ قرار دیا گیا ہے

 الله رب العالمين ہر کلمہ گو کو ہدایت کاملہ عطا و نصیب فرمائے اور صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین برحمتک یا ارحم الراحمین بحق رحمت للعالمین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم۔