Friday, 29 November 2019

صلوۃ و نماز میں فرق قرآن و سُنۃ سے واضح ہے

قرآن و سنة سے ثابت صلوة قائم کرنے کے واضح حکم كو "نماز پڑھنے" میں بدلنے کا عمل بلاشبہ تمام دیگر بدعات سے بڑی اور بدترین بدعت ہے، جس پر کہ ہم سب بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث، سلفی، وہابی، سنی، تبلیغی، جماعتی، عطاری، منہاجی و طاہری وغیرہم مکمل طور پر متفق و متحد ہو چکے ہیں، آئیں تھوڑی دیر کےلیے ذرا اکابر پرستی و مقابر پرستی اور فرقہ پرستی کی خود غرضانہ و محدود سوچ و فکر سے آزاد ہو کر حقائق کی دنیا میں تحمل، خلوص اور سنجیدگی سے تلاش حق کی سچی لگن کے ساتھ نظریں دوڑائیں اور غور و فکر کریں کہ کہیں ہم قرآن و سنۃ کے احکامات و ہدایات اور تعلیمات و فرمودات سے روگردانی و انحراف کر کے ملاؤں کے حکم و تعلیم کو دانستہ یا نا دانستہ، ارادی یا غیر ارادی طور پر "حکم اللہ" پر اولیت، فوقیت اور ترجیج دینے اور "حکم الله" کو ترک کر کے "حکم ملا" کی  تعمیل و اطاعت کرنے کے گناہ کبیرہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے، بلا شبہ دین و ایمان ہی ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے جس کی بہرصورت ہمیں حفاظت کرنی چاہیئے اور ان کےلیے خطرہ بننے والی ہر چیز سے بچنا چاہیئے یہ ایک دعوت غور و فکر ہے، صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کےلیے۔
ہمیں خوب اچھی طرح جان لینا اور یقین کر لینا چاہیئے کہ دین اسلام فقط قرآن وسنۃ پر مبنی ہے اور وہ مکمل نظام زندگی (ضابطہء حیات) ہے، قرآن و سنۃ میں جس عبادت کو ہر دن رات میں پانچ وقت قائم کرنے کو ہر مؤمن و مسلم پر فرض عین قرار دیا گیا ہے اس کا اصطلاحی نام قرآن و سنۃ ميں صلاة و صلوٰۃ مقرر فرمایا گیا ہے اور یہ بالکل ایسے ہی جیسے کہ ایک مالی عبادت کا نام زکوٰۃ اور ایک بدنی و جسمانی عبادت کا نام حج مقرر فرمایا گیا ہے، جس طرح زکوٰۃ کو اور حج کو کوئی بھی دوسرا نام دے کر انجام دینے سے ان فرائض کی ادائیگی نہیں ہوتی بعینہٖ اسی طرح صلاة و صلوٰۃ کو اسی نام سے قائم کرنا ضروری ہے۔ "نماز پڑھ" کر اس فرض عین کی ادائگی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ حکم صلوٰۃ قائم کا دیا گیا ہے، لفظ نماز، قرآن و سنت میں کہیں نہیں آیا ہے اور نہ ہی آئمہ محدثین، مجتہدین، ائمہ فقہاء نے کسی بھی مقام پر ذکر و بیان یا اختیار کیا ہے۔
 اس کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ لفظ نماز مجوسیوں کی مشرکانہ پوجا پاٹ کا نام ہے اور جضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جنم سے بھی کئی سو سال پہلے سے لے کر آج آخر دسمبر 2025ء تک  رائج ہے، مجوسی کم و بیش تین ہزار سال سے پانچ تا آٹھ وقت "نماز پڑھتے" ہیں، اسی لیے قرآن و سنۃ میں کہیں بھی "نماز پڑھنے" کا حکم یا ذکر و بیان نہیں ملتا، بلکہ قرآن و سنۃ میں متعدد مقامات پر یہود و نصارٰی اور صابئین کی موافقت، مشابہت اور مطابقت اختیار کرنے کی سخت ممانعت ثابت ہے۔                                          صلاة الليل جسے صلاة التہجد بھی کہا جاتا ہے وہ فقط رسول الله صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم پر فرض تھی جبکہ امت کےلیے سنت ہے، باقی اس کے فضائل و برکات بے انتہاء ہیں اگرچہ کہ فرض صلاة قائم کرنے کا اجر و ثواب بہرحال نفل صلاة قائم کرنے سے ستر گنا زیادہ ہے!
 مؤمنون و مؤمنات اور مسلمون و مسلمات پر پر جن صلوۃ خمسہ کو قائم کرنا فرض عین قرار دیا گیا ہےچان میں صلاة الفجر، صلاة الظہر، صلاة العصر، صلاة المغرب اور صلاة العشاء، صلاة الجمعۃ شامل ہیں جبکہ أن کے علاوہ جنازه، عيد الفطر و عيد الاضحٰی کی صلوة قائم کرنا واجب ہے، صلاة الحاجۃ و صلاة التوبہ اور صلاة الاستسقاء، صلاة الكسوف، صلوة الخسوف، صلاة الاستخارة، صلاة التسبيح وغیرہم سب سنۃ ہیں. ایک اور بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ اور وہ یہ کہ صلاۃ و صلوٰۃ ايسی عبادات ہیں جو پڑھنے کی چیز یا عمل ہر گز نہیں ہیں بلکہ قرآن مجید میں کم و بیش یا پورے سات سو مرتبہ صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہیں ایک جگہ بھی پڑھنے پڑھانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور اسی طرح سینکڑوں مقامات پر احادیث رسول صلی اللّٰہ عليہ و آلہ و سلم سے بھی صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم ہی بخوبی ثابت ہوتا ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، سلف صالحین، ائمہء فقہاء اربعہ اور اقوال محدثین و مجتہدین سے بھی صلاة قائم کرنا اور اسی کی تعلیم دینا ثابت ہے، ان تمام اسلاف میں سے کسی ایک نے بھی اور بھولے سے بھی کبھی نماز پڑھی نہ ہی لفظ نماز کبھی ان کی زبان سے ادا ہوا اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی شخص کو نماز پڑھنے کی تعلیم دی بلکہ وہ سب کے سب باقاعدگی سے پابندی کے ساتھ صلوٰۃ خمسہ کی اقامت کو یقینی بناتے اور لازم پکڑتے تھے لہٰذا ہمیں بھی صلاة کو نماز نہیں کہنا چاہیئے اسی طرح قائم کرنے کو پڑھنا بھی نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ ایسا کرنے سے قرآن و سنۃ سے روگردانی و انحراف لازم آتا ہے اور دوسری وجہ یہ کہ صلاۃ و صلوٰۃ كو نماز پڑھنا کہنے، بولنے اور سمجھنے سے مجوسیوں کے ساتھ موافقت، مشابہت اور مطابقت بھی لازم آتی ہے جس سے گریز و اجتناب کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے اور یہ ممانعت قرآن و سنۃ سے بخوبی ثابت ہے۔
بلا شک و شبہ ہم سب قران و سنہ اور أسوة حسنۃ کی تعمیل و اطاعت اور اتباع و پیروی کے مکلف (پابند) بنا دیئے گئے ہیں، سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم الله تعالٰی کے نازل کردہ دین پر قائم ہیں یا اس سے انحراف و روگردانی کرتے ہوئے اسے پس پشت ڈال کر اکابر پرست و مقابر پرست اور فرقہ پرست بن چکے ہیں۔ الله تعالٰی اپنے خاص لطف و کرم اور رحمۃ سے ہر کلمہ گو کو فرقہ پرستی، اکابر پرستی و مقابر پرستی کو ترک کر کے قرآن و سنۃ کے  احکامات، تعلیمات، ہدایات اور فرمودات کی تکمیل و تعمیل، اطاعت و اتباع اور کامل پیروی کرنے والا بنائے، گمراہی سے بچائے، صراط مستقیم اور اسوۃ حسنہ پر قائم رکھے، آمین ثم آمین برحمتک یا ارحم الراحمین بحق رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و بارک و سلم 

No comments:

Post a Comment