Tuesday, 9 February 2016

"النكاح من سنتي و قال فمن رغب من سنتي فليس مني" کا مطلب کیا ہے؟

"النکاح من سنتی"   
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
النکاح من سنتی کا مطلب کیا ہے؟
حدیث : "النكاح من سنتي و قال فمن رغب من سنتي فليس مني" (متفق الیہ)
ترجمہ : ’ نکاح میری سنت ہے اور فرمایا کہ جو میری سنت کو نہ اپنائے وہ مجھ سے نہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دو فرمان شادی کے ہر رقعے پر لکھے جاتے ہیں اور ہر تقریبِ نکاح پر قاضی صاحب بآواز بلند پڑھتے بھی ہیں۔ جن کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ نکاح میری سنت ہے اور جو یہ سنت پوری نہ کرے وہ مجھ سے نہیں یعنی وہ مجھ پر نہیں کسی اور پر ایمان لانے والا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل لوگ نکاح نہیں کرتے تھے یا بغیر کسی عقد کے لوگ حرام رشتے قائم کرتے تھے۔ نکاح یا عقد کا طریقہ نبوت سے پہلے بھی تھا اور زمانہ جاہلیت میں بھی۔ لوگ عقد کرتے تھے جس کا طریقہ وہی ہے جو اسلام نے دیا ہے یعنی دو گواہوں کی موجودگی میں مرد یہ کہے کہ میں نے تجھ سے نکاح کیا اور عورت یہ کہے کہ میں نے قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا بھی یہی واقعہ ہے جب کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نبی ہوئے تھے نہ شریعت کا وجود تھا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کیوں فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے سے یہ عمل جاری تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل یقیناً نکاح ہوتے تھے لیکن لفظ نکاح پر  اَل داخل ہونے کے ساتھ ہی نکاح ایک خصوصیت والا نکاح ہو گیا اور معنی یہ ہوئے کہ نکاح وہ جو میری سنت ہے۔ یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ نکاح وہی نکاح ہے جس طریقے پر میں نے کیا ہے اور دوسری حدیث حجت کی تکمیل کر دیتی ہے کہ جو میرے طریقے کے مطابق نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ ظاہر ہے آدمی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طریقے کے مطابق نہ کرے گا تو کسی نہ کسی کے طریقے کے مطابق تو کرے گا ہی۔ ہو سکتا ہے وہ ہندوانہ طریقہ ہو عیسائیوں، یہودیوں یا مجوسیوں کا طریقہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے ان تمام کا مجموعہ و ملغوبہ ہو۔
آج شادی جو مشکل ترین بن چکی ہے محض اس حدیث کا مفہوم صحیح نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہے۔ اگر واقعی اس کا مطلب یہ ہوتا کہ صرف شادی کی تقریب کا انعقاد کرنا ہی میری سنت ہے تو یہ دین اور شریعت کتنی ادھوری اور مبہم کہلاتی۔ دوسرے مذاہب کی طرح جن میں عبادتوں اور رسموں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زندگی کے ہر ہر عمل کا مکمل نمونہ اپنے عمل کے ذریعے قائم کر دیا ہے۔ شادی تو عورت اور مرد کی زندگی کا سب سے اہم اور یادگار عمل ہے چاہے جس مذہب ملک یا نسل  کا آدمی ہو، شادی تو لازمی ہے پھر کیسے ممکن تھا کہ آپ ﷺ اسلام کو دوسروں سے ممیّز  نہ کرتے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے نکاح کئے اور اپنی صاحبزادیوں کے نکاح کیے اور یکساں طریقہ مقرر کیا اور اسی طریقے کو امت کے لیے مقرر کرتے ہوئے فرمایا
النکاح من سنتی یہ ہے وہ نکاح کا طریقہ جو میری سنت ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی طریقہ ہو گا اُسے اپنانے والا میری امت سے نہیں یعنی میرا اُمَّتی نہیں رہے گا۔ آئیے دیکھتے ہیں اِس حدیث کا انطباق کن کن باتوں پر ہوتا ہے۔
لڑکا لڑکی کا انتخاب
Criteria for Selection
ایک مسلمان ہی کی نہیں بلکہ ہر انسان کی زندگی میں یہ سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے جس کے اثرات برسوں نہیں بلکہ صدیوں تک، اولاد تک ہی نہیں بلکہ نسلوں تلک جاتے ہیں۔ اس میں صرف دو انسانوں کا ملاپ نہیں ہوتا بلکہ دو خاندانوں اور دو کلچرز کا ملاپ ہوتا ہے جس میں بے شمار افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ دو انسانوں کا شادی کے ذریعے ملاپ تو ہو جاتا ہے لیکن اس کے بعد ان کے خوش رہنے نہ رہنے کا تعلق پورے معاشرے کے چلن سے ہے۔ اتنے اہم فیصلے کے لیے اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ:
کسی عورت سے نکاح کے لیے چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں ۔
 مال
 خاندان
حسن
 دینداری
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدایت یہ ہے کہ آپ دینداری کو پہلے دیکھیں۔ اگر حدیث کے الفاظ کا آج کی اصطلاح میں ترجمہ کیا جائے تو یہ معنی نکلتے ہیں کہ تم ذلیل ہو گے اگر تم نے ترجیح  پہلی تین چیزوں کو یعنی مال، خاندان اور حسن کو دی اور دینداری کو اہمیت نہ دی۔  ماخوذ بخاری و مسلم
اسی طرح لڑکے کے انتخاب میں اس حکم کو دیکھئے کہ جب تمہارے پاس ایسے شخص کی طرف سے نکاح کا پیغام آئے جس کی دینداری اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو تم اس کو قبول کر لو، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو زمین میں فساد و فتنہ برپا ہو گا۔ ماخوذ ترمذی۔
لڑکے میں بھی عام طور پر مال، ڈگری، خاندان، قابلیت اور اخلاق و دینداری دیکھے جاتے ہیں تم اس کے اخلاق و دینداری سے مطمئن ہو تو فوری نکاح کا پیغام قبول کرو ورنہ زمین میں فتنہ و فساد برپا ہو جائے گا۔ فساد کی تعریف یہ ہے کہ زمین پر اللہ کے قانون کے بجائے کسی اور کا قانون چلے۔ اسی سے سارے فتنے پھوٹتے ہیں۔
تو کیا امیر یا خوبصورت لڑکی یا لڑکے سے شادی ہی نہ کریں؟
ان احادیث کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی امیر یا خوبصورت یا بڑے خاندان کی لڑکی سے شادی ہی نہ کریں۔ بات ترجیحات کی ہے۔ ترجیحات کے تعیّن کا معاملہ راست نیت سے ہے۔ اور نیت کا معاملہ راست اللہ اور بندے کے دل کے درمیان ہے۔ دیندار لڑکے یا لڑکی کو تلاش کر کے لانا جو اتفاق سے امیر، خوبصورت اور صاحبِ خاندان بھی نکل آئے ایک الگ شئے ہے اور اسی طرح ایک امیر، خوبصورت اور بڑے گھر کی لڑکی یا لڑکا تلاش کر کے لانا جو اتفاق سے دیندار بھی نکل آئے بالکل الگ شئے ہے۔ لڑکا یا لڑکی ڈھونڈھنے والوں کی نیت پر منحصر ہے کہ دل میں ترجیحِ اوّل کیا ہے  یعنی وہ کس چیز کو  دوسری پر اوّلین ترجیح و فوقیت دیتے ہیں۔
ہر شخص اپنا احتساب کرے کہ اپنی بیوی کے انتخاب کے وقت اس کے دل میں کیا تھا۔ اس کو نیت کہتے ہیں۔ تمام دوسرے اعمال کی طرح نیت بھی نکاح کے شرائط میں سے اہم شرط ہے۔ سنت کی تکمیل سبھی کرتے ہیں لیکن انتخابِ شریکِ حیات کے لیے دل میں کونسا  امر و جزو اور عنصر زیادہ لازمی و اہم تھا۔
 یہ سوچنا اصل ہے ۔ زبان سے سب یہی کہیں گے کہ ہم نے دینداری دیکھی تھی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہیں کسی نے اپنے ماں باپ اور بہنوں کے انتخاب کو ہی دیکھا تھا جس میں پہلے مال یعنی جوڑا جہیز، ویزا، فلیٹ اور معیاری شادی وغیرہ اہم تھیں یاپھر شہرت یعنی وزیر، صنعت کار، لیڈر، مرشد، کرکٹر وغیرہ کی بیٹی ہونا اہم تھا یا خوبصورتی میں کسی فلمی ہیروئن جیسی ہونا اہم تھا ۔
اگر لڑکا اور لڑکی میں دینداری کسوٹی بنتی تو آج شاید کسی جھوٹے، رشوت خوروں اور غنڈوں کے گھر رشتہ والا کوئی نہ ہوتا۔ اور لوٹ کی کمائی کھانے والے دوکاندار، تاجر، بلڈر، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل حتی کہ چپراسی کی بھی شادی نہ ہوتی ۔پولیس والے سارے کنوارے رہ جاتے اور نہ ہی کسی رشوت خور سرکاری افسر کو کوئی لڑکی دیتا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ انتخاب کے معیارکو نظر انداز کرنے کے بعد آج جو فتنہ و فساد برپا ہو چکا ہے اور معاشرہ جس طرح اخلاقی تباہیوں کا شکار ہے وہ نظروں کے سامنے ہے۔ ہر شخص خود جانتا ہے کہ وہ کتنا شریف ہے؟ اس لیے وہ سامنے والوں کی نہ شرافت دیکھتا ہے نہ دینداری ۔ جو جھوٹے اور کمائی میں جتنے چالباز ہوں اتنی ہی آسانی سے بڑے سے بڑے گھر کی بیٹی ان کے حصے میں آ جاتی ہے۔ اسی طرح کیسی ہی بدچلن و بد اخلاق لڑکی ہی کیوں نہ ہو جوڑے جہیز کے زور پر قابل سے قابل لڑکا ان کے نصیب میں آ جاتا ہے۔ شریف زادیاں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ اس لیے نسلوں میں النکاح من سنتی سے غفلت کی وجہ سے کوئی علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا یا حسن رضی اللہ عنہ ،حسین رضی اللہ عنہ نہیں پیدا ہوتے اور نہ کسی کے دل میں یہ خواہش ہے۔
منگنی
النکاح من سنتی کی یہ دوسری خلاف ورزی کا نام ہے۔ علماء کا اتفاق ہے کہ یہ رسم ایک بدعت ہے، اس میں اسراف کا پہلو ہے اور اسراف مطلقاً حرام ہے۔
بظاہر منگنی میں کوئی برائی نہیں ہوتی۔ اگر شادی میں کسی وجہ سے تاخیر ہو تو منگنی کر دینے سے لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے منسوب ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کی نظریں بھٹکتی ہیں نہ کوئی ان پر نگاہِ غلط ڈالتا ہے۔ تصور میں ایک دوسرے کو ایک عرصے تک شریکِ حیات، باہم مانوس و بےتکلّف محسوس کرتے ہیں جس سے شادی کے بعد مانوسیت اور بڑھتی ہے ۔ دونوں طرف کے والدین بھی مطمئن رہتے ہیں۔
اگر یہ رسم اس حد تک ہو کہ دلہن والوں پر مہمان نوازی کا بوجھ ڈالے بغیر دونوں طرف کے گھر والوں کے درمیان محدود ہو تو یہ مباح ہے ، اس میں کوئی برائی نہیں ہے ۔ اُسے ’ منہ میٹھا کرانے کی رسم کہتے ہیں۔ لیکن فی زمانہ اس رسم نے جو شکل اختیار کر لی ہے اس کی وجہ سے امیروں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن معاشرے کی اکثریت جو کہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے پِس جاتی ہے ۔
جوڑے جہیز کے ناقابل برداشت خرچوں میں یہ ایک اور اسراف کا اضافہ ان کی کمر توڑ دیتا ہے۔ منگنی کے ذریعے دلہن والوں کو زبردستی مہمان نوازی، ضیافت اور طعام کی تکلیف دینا دلہے کی طرف سے زیادتی ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گیارہ نکاح کئے لیکن ایک بھی منگنی کی روایت نہیں ملتی۔
 آپ ﷺ کی چاروں صاحبزادیاں بیاہی گئیں لیکن کسی کی منگنی کے بارے میں ہمیں کسی محدث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
دارالافتاء جامعہ مظاہر العلوم ، سہارنپور بہ تصدیق مولانا مفتی علی حسن و مولانا مفتی عبدالحبیب کے ایک فتوے کے مطابق منگنی بشمول شادی کی دیگر کئی رسومات کے،  اکثر و بیشتر مشرکانہ ہیں اور بت پرست ہندوؤں سے برِّ صغیر کے مُسلمانوں میں در آئی ہیں، ان کا اختیار کرنا سخت حرام و  گناہِ کبیرہ ہے اور ان کا ترک کرنا واجب ہے۔
اگر یوں ہو کہ منگنی خود لڑکے والے اپنے گھر اپنے خرچ پر کریں لڑکی کو بھی وہیں آنے کی دعوت دیں تو پھر دیکھئے لڑکے والے خود ہی یہ کہہ اٹھیں گے کہ یہ رسم فضول ہے اسے سادہ ہونا چاہئے کیوں کہ جب جیب کا مال خرچ ہوتا ہے تو اسراف کی تعریف بھی سمجھ میں آ جاتی ہے ۔
عربوں میں یہ لعنت نہیں ہے۔ بالخصوص سعودیوں میں منگنی کے بجائے راست نکاح ہو جاتا ہے۔ لڑکی مع ولی اور دو گواہوں کے محکمہ شرعی یعنی قاضی کے پاس مقررہ تاریخ پر پہنچ جاتی ہے۔ قاضی حکومت کی طرف سے مقرر ہیں اور قاضی صاحب لڑکی سے راست پوچھ لیتے ہیں کہ :
’ کیا یہ شادی تمہاری خوشی سے ہو رہی ہے؟
’کیا اس مہر پر تم راضی ہو؟
’ مہر نقد حاصل کیا یا نہیں؟
اس کے بعد قاضی مختصر خطبہ پیش کرتے ہیں اس کو خطوبہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد رخصتی تک لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر رہتی ہے۔ بعض اوقات رخصتی سال اور دو سال میں بھی ہوتی ہے۔ البتہ اس دوران لڑکا لڑکی کو بات چیت کرنے اور ملنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ جب رخصتی ہو، اس دن لڑکے کی طرف سے ولیمہ بڑے پیمانے پر دیا جاتا ہے، کسی لڑکی والے پر ایک ریال کا بھی خرچ عائد نہیں ہوتا.
بارات اور نکاح کے دن کا کھانا
یہ گولی حلق سے نیچے اتار نا بہت مشکل ہے کہ شادی میں سارے رشتے دار دوست احباب وغیرہ جمع نہ ہوں، ایسا تو میت میں بھی نہیں ہوتا۔
اگر کسی کو دلہا یا دلہن کے سرپرست خود بہ نفس نفیس جا کر رقعہ نہ دیں تو لوگ برا امان جاتے ہیں۔ فہرست بار بار چیک کی جاتی ہے کہ کوئی قریبی یا دور کا رشتے دار یا جاننے والا چھوٹ تو نہیں گیا۔ جب سے ویڈیو کی ایجاد ہوئی ہے باراتیوں کے چلن میں تبدیلی آگئی ہے بناؤ سنگار، بیوٹی پارلر کے کاروبار میں لاکھوں بلکہ کروڑوں  کا منافع بڑھا ہے ۔ اگر باراتی اور بالخصوص خواتین زیادہ سے زیادہ نہ ہوں تو شادی کی ویڈیو کسی ویرانے کا عرس لگتی ہے ۔
یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ  قدیم ترین زبانوں میں آج سوائے عربی کے کوئی ایسی زبان نہیں جو کہ زندہ ہو، العربی کالبحر  یعنی یہ سمندر کی مانند ہے اس میں تلوار، اونٹ وغیرہ کےلئے دو دوچسو مماثل و مترادف الفاظ ملتے ہیں لیکن پوری عربی زبان میں بارات کا لفظ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے مشابہ و مماثل کوئی اور لفظ ہے، کیوں کہ عربی روایات میں بارات کا نہ وجود ہے نہ تصور۔ یہ خالصتاً عجمی لفظ ہے اس کا پورا کا پورا تصور بھی عجمی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ مدینہ کی آبادی زیادہ نہ ہوتے ہوئے بھی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس بستی میں موجود رہتے ہوئے بھی صحابہ رضی اللہ عنہم نے نکاح کئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بلانا ضروری نہ سمجھا۔ یہی اسلامی مزاج ہے اس میں اعلان یا تشہیر کا عنصر ہندوؤں اور مجوسیوں سے داخل ہوا۔ اسلامی طریقہٴ اعلان یا آپ جسے موقع خوشی یا تقریب کا درجہ دے سکتے ہیں وہ ہے ولیمہ۔ آدمی اپنی استطاعت کے مطابق ضرور کرے۔
لیکن فی زمانہ بارات اور دوسری فضولیات نے شادی کو اتنا مہنگا معاملہ بنا دیا ہے کہ اگر کسی باپ کے سر پر اس کی بیوہ یا مطلقہ بیٹی کے عقدِ ثانی کی ذمہ داری ہو تو وہ اس خرچ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک کنواری کی شادی پر جتنا خرچ آتا ہے اس سے کہیں زیادہ بیوہ یا مطلقہ کی شادی پر آتا ہے۔ نتیجتاً عورت ایک جہنم سے نکل کر دوسرے جہنم میں داخل ہوتی ہے کیوں کہ کم قیمت پر اُسے ایسے ہی مرد ملتے ہیں جو عمر میں بہت زیادہ ہوں، شادی شدہ اور کئی بڑے بڑے بچوں کے باپ ہوں یا پھر معذور ہوں۔
صرف بارات اور باراتیوں کی ضیافت کے بوجھ کو ختم کر دیا جائے تو شادی کا پچیس فیصد خرچ کم ہو سکتا ہے۔ اسی کی وجہ سے حلال کمائی کے ذریعے کنواریوں کا اٹھنا نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ آج مسلم معاشرے میں مطلقہ و بیوہ عورتوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے لیکن جہیز بارات وغیرہ کی رسموں نے ان کا عقدِ ثانی نا ممکن بنا دیا ہے اس کے جتنے غلط اثرات پائے جاتے ہیں ، اُن کا ہر شخص خود مشاہدہ کر سکتا ہے۔
حدیث مبارَک "اَلنِّکَاحُ مِن سُنَّتِی" کا اس سے بڑھ کر اور مذاق نہیں اڑایا جا سکتا کہ ہم اپنی بیٹیوں کی شادی پر نکاح کے دن کے کھانے کو لازم کر لیں۔ یہ سب سے بڑا اسراف ہے اور مکمل ہندووانہ رواج سے لیا گیا ایک عمل ہے۔ اگر اس میں کوئی مصلحت، نیکی یا امت کی فلاح ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی کسی شادی یا اپنی بیٹیوں کی شادی پر ضرور کھانے کا اہتمام کرتے۔
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مثالی شادی:
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی شادی کا واقعہ کئی راویوں نے نقل کیاہے۔ فقہی اصول مرتب کرنے والے فقہاء و علما کےلئے یہ شادی کئی دلائل فرام کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ گزر رہے تھے۔ کپڑوں پر زرد رنگ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیٹھ پر ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے پوچھا کیا بات ہے بہت خوش نظر آ رہے ہو، کیا نکاح کیا ہے؟۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جواب دیا  ہاں یا رسول اللہ، میں نے نکاح کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں برکت کےلئے دعا فرمائی اور فرمایا "ولیمہ ضرور کرو چاہے ایک بکری کا کیوں نہ ہو "۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی گفتگو سے ہمیں صحیح اسلامی رواجِ شادی کا ثبوت مل جاتا ہے۔ اگرچہ کہ صحابی رضی اللہ عنہ اُسی محلّے میں رہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ رضی اللہ عنہ کی دوستی بھی ایک مثالی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جتنا انفاق اسلام کی دعوت اور جنگوں پر کیا ہے بہت کم صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا ہے۔ اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دعوت نہ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں بارات، مہمانانِ خصوصی اور تقریب کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایک جواز جو پھر بھی نکل سکتا تھا کہ خطبہ نکاح اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پڑھتے تو موقع با برکت ہو جاتا اس لئے دوسرے کسی صحابی کو نہ سہی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تو دعوت دینی ہی چاہئے تھی لیکن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے یہ بھی نہیں کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نکاح کے موقع پر لوگوں کو جمع کرنا اور کھانے وغیرہ کا اہتمام کرنا اسلامی روایت میں شامل ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے پوچھنا کہ کیا نکاح کر لیا ہے؟ اور پھر ولیمے کی ترغیب دینا بھی قابلِ غور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ نہیں پوچھا کہ ارے؛ شادی کر لی اور ہمیں دعوت تک نہیں دی؛۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برا مانا نہ شکایت کی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی دعوت نہ دے تو شکایت یا تقاضے کا رواج بھی قطعی غیر اسلامی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمانا کہ ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا کیوں نہ ہو، یہ بھی قابلِ غور ہے۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک امیر صحابی ہیں۔ پیشے سے تاجر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اچھا شادی کی دعوت میں نہیں بلایا کوئی بات نہیں اب ولیمہ پر تو بلایئے؛ ولیمہ تو دھوم سے کیجیے اور دوسرے صحابہ کو بھی بلائیے؛  
جہاں کئی محدثین نے اِس واقعہ کو نوٹ کیا وہاں کسی محدّث نے یہ نہیں لکھا کہ پھر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ولیمہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی بلایا۔ اور نہ یہ لکھا کہ اسی گفتگو کے آخر میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے شادی پر نہ بلانے کی معذرت پیش کی، شرمندگی کا اظہار کیا یا ولیمہ کا گرم جوشی سے وعدہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایڈوانس میں دعوت دی۔ ان تمام باتوں سے پتہ یہ چلتا ہے کہ نہ نکاح پر ہر ایک کو جمع کرنا اسلامی مزاج ہے اور نہ ولیمہ پر۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ولیمہ تو ضرور کیا ہوچگا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہ بلانا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ترجیحات کی بنا پر لِسٹ بنا کر ایک ایک اہم شخص کو جمع کرنا بھی اسلامی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اس کے علاوہ بھی اور کئی صحابہ رضی اللہ عنہم کی شادیوں کے واقعات ہیں جیسے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بچپن کے دوست ہیں۔ ایک غزوہ کے موقع پر دونوں قریب کے خیموں میں مقیم ہیں۔ رات خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا نکاح ہوتا ہے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو اگلے دن خبر ہوتی ہے۔ نہ کوئی شکایت نہ برا ماننے کا انداز۔ دونوں ویسے ہی ساتھ رہتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ایسے کئی واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نکاح کے دن لوگوں کو جمع کرنا ایک ایک کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر دعوت دینا۔ برکت اور شہرت کیلئے بڑی بڑی شخصیتوں کو مدعو کرنا۔ بڑے بڑے شادی خانے لے کر لاکھوں کا خرچہ کرنا۔ نہ ہو تو قرض، چندہ یا گھر بار رہن کرنا اور اس طرح سے سماج کے غلط رسومات کا ساتھ دینا اور دوسروں کو بھی اس پر چلنے کی ہمت دلانا۔ یہ تمام چیزیں قطعی غیر اسلامی، ناجائز و گناہ ہیں۔
اللہ کیا صرف ایک کمزوری کو معاف نہیں کر سکتا؟
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
ایسا نہیں ہے کہ لوگ پوری شریعت کی بیک وقت خلاف ورزی کرتے ہیں۔ وہ حتی الامکان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں بس صرف ایک کمزوری ایسی ہوتی ہے جہاں ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اُسے ایک دو چیزوں میں چھوٹ کا حق دے دیا جائے باقی تمام احکام پر وہ عمل کرنے کو تیار رہتا ہے۔ جیسے ایک صاحب فجر کی نماز کیلئے نہیں اٹھ سکتے لیکن باقی باتوں میں بہترین مسلمان ہیں۔ ایک صاحب کیلئے رشوت لینا مجبوری ہے لیکن دوسری طرف وہ خیرات و صدقات خوب کرتے ہیں۔ کوئی صاحب صرف جوڑا یا جہیز کوعورتوں کی مجبوری کیوجہ سے روک نہیں سکتے لیکن دوسری طرف وہ جہاد کیلئے بھی نکل سکتے ہیں۔ ایک صاحب کی خواہش ہے کہ بیٹا یا بیٹی کی شادی پر نکاح کے دن کا کھانا معیاری طریقے سے ہو باقی شادی وہ بغیر جوڑا اور جہیز کے مکمل اسلامی طریقے پر کرنے تیار ہیں۔ اسطرح ہر شخص صرف ایک ایک خلاف ورزی کی اجازت کا جواز نکال لینا چاہتا ہے۔ اسی کی وجہ سے اسلام کا صحیح نظامِ زندگی کہیں بھی نافذ ہونا ناخممکن ہے۔ شادی کے دن کا کھانا یعنی ضیافت و استقبالیہ وغیرہ بظاہر مہمان نوازی یا میزبانی ہے لیکن حقیقتاً لڑکی کے باپ کو مزید لوٹنے کا ایک بہانہ ہے بغرضِ مذکورہ اکثر و بیشتر دُلہن کے والد کو سودی قرض لینا پڑتا ہے اور اپنا گھر بار، زمین، پلاٹ یا مکان وغیرہ گروی (رہن) رکھنا پڑتا ہے  یا قرضِ حسنہ کے حصول کےلئے ذلیل و خوار اور رسوا ہونا پڑتا ہے۔ دلہا بڑی بارات لاکر اپنی شان بڑھاتا ہے اور اِدھر لڑکی کا باپ بھی ساری دنیا کی دعوتیں کھانے کے بعد اپنی باری میں خود لٹنے کا سامان کرتا ہے۔
ہر مؤمن و مُسلمان کو یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے شادی کے موقع پر کھانا کھلانے کے تعلق سے جتنی احادیث اور صحابہ و ائمہ سلف کے واقعات ملتے ہیں وہ سارے کے سارے ولیمے سے تعلق رکھتے ہیں اگر نکاح والے دن کھانا کھلانا کوئی شرعی کام ہوتا تو کوئی تو راوی بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے نکاح کے دن کھانا کھلایا یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر کھانے کا انتظام فرمایا۔ پورا واقعہ آپ پڑھ چکے ہیں اگر اُمت کی بیٹیوں کے لیے نکاح کے دن کا کھانا بہتر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا آپ  ﷺکی طرف سے کوئی صحابی دعوت کا انتظام ضرور کرتے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ"سب سے بہتر نکاح وہ ہے جو سب سے آسان اور کم خرچ پر ہو " ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس قسم کی میزبانی نہ اپنے لیے جائز سمجھی نہ اُمت کے لیے۔ اب جو افراد اپنی حیثیت کے مطابق پھر بھی بضد ہیں کہ اس دن کھانا تو ہونا چاہئے وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ نعوذ بالله  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مالی حیثیت نہیں تھی ہماری حیثیت ہے، وہ مہمان نوازی کے آداب سے ناواقف تھے مگر ہم واقف ہیں۔ اور یہ لوگ امت کے ان لاکھوں افراد کیلئے ایک مصیبت کھڑی کر دیتے ہیں جو استطاعت نہیں رکھتے لیکن اپنی عزت رکھنے کی خاطر خوشی سے کھانا کھلانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ضیافتوں کا مقابلہ
حیثیتوں کا یہ مقابلہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ دلہن والوں اور دلہا والوں میں کون بہتر اور شاندار کھانا کھلاتا ہے۔ شادی کے دن دلہن والے اگر ایک ہزار افراد کو کھانا کھلاتے ہیں تو دلہے والے ولیمہ میں دیڑھ ہزار کو بلاتے ہیں۔ فائیو سٹار ہوٹل والے اور شادی خانوں کے مالک حتیٰ کہ باورچی تک ایک دو شادی میں لاکھوں کے مالک ہو جاتے ہیں لیکن سوسائٹی کی 90 فیصد سے زائد آبادی جو ایسے فضول و حرام، غیر شرعی و غیر اسلامی و ناجائز  فضول خرچی برداشت کرنے کے قابل نہیں اور اس گناہِ کبیرہ کے ارتکاب  سے بچ سکتی ہے معاشرتی جبر اس کو بھی اسلامی احکامات  و تعلیمات اور ہدایات سے بغاوت پر نہ صرف اکساتا ہے بلکہ مجبور کرتا ہے کہ وہ  لوگ بھی اللہ تعالٰی  و رسول اللہ ﷺ کے احکامات سے بغاوت کریں اور رسول  اللہ ﷺ کی اُمَّۃِ  یعنی دینِ اسلام سے خارج ہو جائیں۔ نتیجتاً وہ 90 فیصد سے زائد آبادی بھی دیکھا دیکھی معاشرے کے مشرکانہ و حرام تقاضوں کو پورا کرنے کی غرض سے ہر جتن کر گزرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے مگر کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا کے مصداق منہ کے بل گرتی پڑتی ہے، اور مجبوراً خون کے آنسو بہاتے ہوئے اس رسم کو پوری کرتی ہے کہ سوسائٹی کا چلن باقی رہے ورنہ سوسائٹی میں ان کی عزت باقی نہیں رہے گی ۔
 اگر یہ کھانا ختم ہو جائے تو بارات کا خلاف اسلام تصور خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اور اس طرح سے لاکھوں روپیئے کی محنت کی کمائی جو شادی خانے، اسٹیج، پھول، دلہا کی موٹر، مٹھائی م، شیروانیاں، نہ صرف دلہن بلکہ ہر بارات میں عورت کے ہر بار نئے کپڑے کیوں کہ وہ ہر دعوت اور ہر ویڈیو میں ایک دو جوڑوں میں ہی نظر آنے کو معیوب سمجھتی ہے اور عورتوں اور لڑکیوں کا بیوٹی پارلر کا خرچہ وغیرہ ان تمام فضول خرچیوں سے نجات مل جائے گی۔ اگر مسلمانوں کی کسی ایک شہر میں صرف ایک مہینہ میں ہونے والی شادیوں کے خرچ کا حساب لگایا جائے تو پتہ چلے گا کہ کتنے کروڑ اور کتنے لاکھ روپیے مسلمان صرف بارات میں شرکت اور کھانے پر خرچ کر دیتے ہیں یہ ایک اخبار، ایک مدرسہ یا کالج و یونیورسٹی یا ایک جماعت و ادارہ کا پورا ایک سال کا خرچ ہے۔    
کتنے افسوس کی بات ہے کہ قوم کی ترقی کے لیے لوگوں سے مالی مدد کیلئے کہا جائے تو چہرے سکڑ جاتے ہیں لیکن ایسی فضول رسموں کو پورا کرنے کیلئے قرض بھی مانگنا پڑے تو ضرور مانگ کر پورا کرتے ہیں۔ لوگ گجرات، لال مسجد اور بابری مسجد کا بدلہ لینے کی باتیں کرتے ہیں لیکن اصل دشمن ِاسلام اور مخالفِ رسول جو خود ان کے اپنے مزاج میں بیٹھا ہے اس پلید نفس امارہ و شیطان کو ختم کرنا نہیں چاہتے۔
منگنی، بارات جہیز، جوڑا، تلک شان والے ولیمے وغیرہ اس دور میں مسلمانوں کی منافقت کا کھلا ثبوت ہیں۔ اسے ختم کرنا پہلے لڑکے والوں کی ذمہ داری ہے اور پھر لڑکی والوں کی۔
حرام قرار دیئے جانے کی ایک اور بنیاد اسراف یعنی فضول خرچی بھی ہے۔
 جن علماء کے نزدیک جوڑا، جہیز، فرنیچر، منگنی، بارات، شادی کے دن کا کھانا، ولیمے میں ضیافتوں کا مقابلہ حرام ہیں ان کی  ایک بنیاد اسراف بھی ہے۔ اسراف کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اِسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔
، إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا"
(سورۃ الاِسراء (بنی اسرائیل) آیۃ نمبر26تا27) .. وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا
ترجمہ : فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا ہے۔
اسراف کی تعریف: آسان الفاظ میں اسراف کی تعریف یہ ہے کہ
Before you spend a single penny, think: is it necessary‪?
ایک بھی روپیہ خرچ کرنے سے پہلے اچھی طرح یہ سوچئے کہ کیا یہ ضروری ہے؟
ایک مسلمان کیلئے ضروری یا غیر ضروری کی کسوٹی شریعت ہوتی ہے۔ اگر اسکا دل گواہی دے کہ اس خرچ سے اللہ اور اسکے رسول کی رضا حاصل ہو گی تو وہ ضرور خرچ کرے۔ ورنہ یہی اسراف ہے۔
بوہرہ برادری کا بہترین طرز عمل
بوہرہ کمیونٹی میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی طرز معاشرت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ان کے ہاں غلط رسومات پر سخت پابندی ہے ۔ ڈاکٹر سیدنا محمد برہان الدین اور ان کے نائب مولانا حسام الدین بذات خود ہر شہر میں ایک ایک ہفتہ قیام کرتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں۔ غریب لڑکیوں کے لیے بیت المال سے اتنی مدد مل جاتی ہے کہ مزید جہیز وغیرہ کیلئے ماں باپ کو پریشانی نہیں ہوتی۔
اُن کے یہاں کھانا نکاح کے دن ہی لڑکے کی طرف سے کھلایا جاتا ہے جسے ولیمہ کہتے ہیں۔ علماء اہل سنت نے بھی اس کی اجازت دی ہے کہ اگر ایجاب و قبول کے بعد مرد ولیمہ دینا چاہے تو شرعاً جائز ہے۔ جو خوشحال لوگ ہیں وہ بھی جہیز وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں۔ نکاح عام طور پر دن میں ہوتا ہے ظہرانہ دیا جاتا ہے جو کہ ولیمہ ہوتا ہے اور بعد مغرب رخصتی ہو جاتی ہے۔ دلہا کو نقد رقم دینے کا ان کے ہاں رواج نہیں ہے۔ البتہ فی زمانہ کچھ مثالیں ایسی ضرور ہیں جہاں لڑکوں کو مال یا سامانِ جہیز دیا گیا ہے لیکن اکثریت آسان نکاح اور کم خرچ پر شادی کی پابند ہے۔
چوتھی کا کھانا
بعض مقامات پر ولیمہ میں اگر دلہن والوں کے رشتے دار بھی طعام، عشایئہ و ضیافت میں شریک ہوں تو دلہا والے اس کے پیسے وصول کرتے ہیں۔ دلہن والوں کے اس کھانے میں شرکت کو چوتھی کہا جاتا ہے۔
یہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے۔ خود دلہن کے رشتے داروں کا یہ فرض ہے کہ جب تک ولیمہ کی دعوت خود دلہا یا اس کے سرپرست نہ دیں وہ شریک ہی نہ ہوں۔ دلہن کے سرپرستوں کو چاہئے کہ اگر کھلانا اتنا ہی اہم ہے تو کسی اور موقع پر کھلا دیں۔ ظاہر ہے کہ اگر دلہا والوں کے پچاس یا سو آدمی ہوں تو وہ اپنے گھر پر بھی یہ انتظام کر سکتا ہے لیکن دلہن والے بھی شریک ہوں تو بڑی تعداد کے پیش نظر شادی خانہ یا ہال وغیرہ لینا لازمی ہو جاتا ہے جس سے خرچ دو گنا ہو جاتا ہے اور دونوں خاندان زیر بار ہوتے ہیں۔ لوگ کیوں غور نہیں کرتے کہ کیا بارات، کھانا، جہیز، چوتھی وغیرہ کی رسمیں کسی شیعہ، سنی، بریلوی یا دیوبندی یا اہل حدیث وغیرہ کے مسلک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا کسی صحابی کے حوالے سے جائز ہیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی اُم المومنین یا بیٹی کی چوتھی دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا کوئی صحابی کسی بارات کے کھانے یا چوتھی کے کھانے میں شریک ہوئے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں یقیناً نہیں تو پھر ہمیں چاہیئے کہ نکاح کو رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر اختیار کریں جس طرح تمام صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین اور تابعین و تبع تابعین، سلف صالحین رحمہم اللہ تعالٰی نے  خود اپنے اور اپنی بہنوں بیٹیوں، بھائیوں اور بیٹوں کے نکاح کئے اور جس پر برصغیر کے سوا باقی ساری دُنیا میں بالخصوص عالَمِ عرب میں  1500ھ سالوں سے تقریباً  اسی طریقے پر نکاح کا رواج عام ہے، پاکستان میں بھی بعض سندھی اور بلوچ قبائل میں  بھی آج تک  نکاح کا کم و بیش وہی اسلامی طریقہ رائج ہے۔

No comments:

Post a Comment