مصارف زکوٰۃ
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
(التوبہ، 9 : 60)
’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے۔
فقراء
مساکین
عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)
مؤلفۃ القلوب
غلام کی آزادی
مقروض
فی سبیل اللہ
مسافر
قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہوجائے گا۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے۔
زکوٰۃ کا پہلا اور دوسرا مصرف، فقیرومسکین
’’فقیر اور مسکین دونوں ہی مالی ضروریات کے لئے دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں دونوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے فقیر سے بڑھ کر مسکین خستہ حال ہوتا ہے فقیر تنگدست ہوتا ہے تہی دست نہیں ہوتا مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر ضروریات زندگی اس سے پوری نہیں ہوتیں‘‘ بدائع الصنائع 2 : 43۔ ۔ ۔ فتاویٰ عالمگیری 188 تفسیر کبیر 107 طبع ایران۔ ۔ ۔ احکام القرآن للحبصاص 3 : 122۔ ۔ ۔ روح المعانی 15 : 120۔ ۔ ۔ ہدایہ : 163۔ ۔ ۔ الجامع الاحکام القرآن للقرطبی 7 : 157)
تیسرا مصرف والعاملین علیہا
وہ لوگ جو زکوٰۃ و عشر جمع کرنے پر مأمور ہوں، ان سب کو زکوٰۃ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی خواہ امیر ہوں خواہ غریب۔
ان مایستحقه العامل انما یستحقه بطریق العمالته لابطریق الزکاة بدلیل ان یعطی وان کان غنیا بالا جماع ولو کان ذلک صدقته لما حلت للغنی
’’عامل جو زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے وہ صرف اپنے کام کی بناء پر اس کا حقدار ہے نہ کہ زکوٰۃ کی حیثیت سے دلیل یہ ہے کہ اسے تنخواہ ملے گی گو غنی و امیر ہو اس پر امت کا اجماع ہے اگر یہ صدقہ ہوتا تو امیر کےلئے جائز نہ ہوتا۔ ‘‘
(بدائع الصنائع 2 : 44 ۔ ۔ ۔ فتح القدیر 2 : 204 ۔ ۔ ۔ تفسیر کبیر 16 : 115)
امااخذ طلمه زماننا من الصدقات والعشور والخراج والجبایات و المصادرات فالا صح انه یسقط جمیع ذلک عن ارباب الاموال اذا نوواعند الدفع التصدق علیھم
’’رہا ہمارے دور کے ظالم حکمرانوں کو زکوٰۃ و عشر خراج جزیہ اور محصولات لینا تو صحیح تر یہ ہے کہ مالدار لوگ ان کو مال دیتے وقت ان پر صدقہ کی نیت کر لیں، تو ان سے شرعی مالی واجبات ساقط ہوجائیں گے‘‘۔
(فتاویٰ عالمگیری، 1 : 190)
گویا ان کو دوبارہ ادا نہیں کرنا پڑے گا جیسے آج کل حکومت زبردستی زکوٰۃ بینکوں سے کاٹ لیتی ہے اور افسر شاہی شیر مادر سمجھ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہمراہ ڈکار لئے بغیر سب کچھ ہڑپ کرجاتی ہے۔ اسی لئے حقیقت شناس لوگ بینکوں پر بھروسہ نہیں کرتے اپنے طور پر زکوٰۃ کی رقم اس کے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ ہی احسن طریقہ ہے۔
اموال ظاہرہ واموال باطنہ
مال دو طرح کا ہے ایک ظاہری جیسے مویشی غلہ مال تجارت وغیرہ اس کی زکوٰۃ اسلامی حکومت وصول کرتی ہے۔
دوسرا باطنی یا پوشیدہ مال جیسے زیورات یا نقدی اس کی زکوٰۃ ہر شخص خود ادا کرتا ہے۔
فی زمانہ آج کل چونکہ زکوٰۃ وعشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصولوں کے مطابق نہیں اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں، محتاجوں، مسکینوں کی کفالت عامہ کی ذمہ داری بھی حکومت نہیں لیتی نہ اس کے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے۔ بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے۔ نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں اس لئے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مالوں کی زکوٰۃ مناسب مصارف میں خود صرف کرتے ہیں یہ بالکل جائز ہے۔ حالانکہ زکوٰۃ امراء سے لیکر فقراء پر صرف کرنے کےلئے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب و مسکین حاجت مندوں کی با عزت کفالت ہو سکے۔
بنی ہاشم پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں کہ یہ لوگوں کے مال کا میل کچیل ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ کبھی خود اپنی ذات پر مال زکوٰۃ صرف کیا نہ اپنے خاندان بنی ہاشم پر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان بنی ہاشم پر زکوٰۃ و عشر کا مال حرام فرما دیا۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم خود بھی زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کا کام بلا معاوضہ کرتے تھے اور اپنے خاندان کے لئے بھی یہ حکم تھا کہ ان میں سے جو کوئی بلا معاوضہ یہ خدمت کرنا چاہے کرے، لیکن زکوٰۃ میں سے معاوضہ لے کر یہ خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ ہاں زکوٰۃ کے محکمہ میں کام کرنے والا ہاشمی زکوٰۃ فنڈ کے علاوہ تنخواہ پائے تو یہ جائز ہے۔ البتہ زکوٰۃ کے علاوہ ان تحائف دیئے جا سکتے ہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری 1 : 188)
چوتھا مصرف، مؤلفۃ القلوب
زکوٰۃ و عشر کا چوتھا مصرف مؤلفۃ القلوب ہیں یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا۔ اس حکم خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جا سکتی ہے یا ایسے نادار کافر جن کی مالی امداد کر کے ان کو اسلام کی طرف مائل کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجہ میں پہلے ان کا جوش عداوت ٹھنڈا ہو گا اور بالاخر وہ اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو وقتی عطیات یا مستقل وظائف مال زکوٰۃ سے دے کر ان کو اسلام کا مطیع و فرماں بردار یا کم ازکم بے ضرر دشمن بنا لیا جائے ایسے لوگوں کو مال زکوٰۃ دینا جائز ہے خواہ وہ غریب ہوں خواہ مالدار اس بات میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ قرآن کریم میں زکوٰۃ و عشر کے جو آٹھ مصارف ذکر کئے گئے ہیں ان میں ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ کا حصہ بھی شامل ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مؤلفۃ القلوب کو اپنی حیات ظاہری میں مالی وظائف دیا کرتے تھے۔ مثلاً خاندان بنی امیہ میں سفیان بن حرب، نبی مخزوم میں حارث بن ہشام، عبدالرحمن بن یربوع، نبی جمح میں صفوان بن امیہ، بنی عامر بن لوئی میں سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزیٰ، بنی اسد بن عبدالعزیٰ میں حکیم بن حزام، بنی ہاشم میں ابو سفیان بن الحارث بن عبدالمطلب، فزارہ عینیہ بن حصن، بنی تمیم میں اقرع بن حابس، بنی نصر میں مالک بن عوف، بنی سلیم میں عباس بن مرد اس، ثقیف میں علاء بن حارثہ، بنی حارثہ، بنی سہم میں عدی بن قیس، ان میں سے بعض کو 100 اونٹ اور بعض کو 50 ملے۔
لیکن جب خلافت صدیقی میں عینیہ بن حصن اپنا حصہ لینے آئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی ’’الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ‘‘ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے سو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے‘‘ دوسری روایت میں ہے عینیہ اور اقراع، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس زمین مانگنے آئے۔ آپ نے ان کو تحریر لکھ دی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چاک کر دیا، اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہیں یہ کچھ اس لئے دیتے تھے کہ تم اسلام سے مانوس ہو جاؤ۔ اب اللہ نے اسلام کو غلبہ دے دیا ہے اور اسے تم لوگوں سے مستغنی کر دیا ہے، اسلام پر قائم رہوگے تو ٹھیک، ورنہ ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کریگی وہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر آئے اور کہنے لگے آپ خلیفہ ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی اور کسی صحابی نے انکار نہیں کیا۔‘‘
(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 114 ۔ ۔ ۔ بدائع الصنائع 2 : 45 ۔ ۔ ۔ فتح القدیر 1۔ 200 ۔ ۔ ۔ تفسیر کبیر 16 : 111)
کیا مؤلّفۃ القلوب کا حصہ منسوخ ہوچکا ہے؟
امام رازی لکھتے ہیں۔
الصحیح ان هذا الحکم غیر منسوخ وان للامام ان یتألف قوما علی هذا الوصف ویدفع الیهم سهم المؤلّفة
’’صحیح یہ ہے کہ حکم منسوخ نہیں اور امام کا حق ہے کہ ایسے لوگوں کو اسی طرح مانوس کرتا رہے اور ان کو مؤلّفۃ القلوب کا حصہ دیتا رہے‘‘۔
(کبیر 16 : 111)
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے مصارف زکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مصرف مؤلّفۃ القلوب کا مقرر فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مد میں زکوٰۃ و عشر کی آمدنی خرچ فرمائی۔ اور کبھی اسے منسوخ نہ فرمایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان تمام حضرات کے وہ وظائف بند کر دیئے جو تالیف قلب کے طور پر وہ اس سے پہلے وصول کرتے تھے۔ بعض ائمہ کرام (جیسے احناف) کا مؤقف یہ ہے کہ مؤلّفۃ القلوب کا حصہ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم کے سامنے ایسا ہوا اور کسی نے اس پر اختلاف یا انکار نہ کیا پس معلوم ہوا کہ اس مصرف کے سقوط پر اجماع صحابہ ہے اور چونکہ اجماع دلیل قطعی ہے۔ لہٰذا قرآن کا نسخ اس سے جائز ہے بعض ائمہ نے فرمایا پہلے تالیف قلب کی ضرورت تھی لہٰذا یہ مصرف بحال رہا۔ جب اسلام کو قوت حاصل ہو گئی تو کسی کی تالیف قلب کی ضرورت نہ رہی پس حکم جاتا رہا۔ ہمارے نزدیک تالیف قلب کی آج بھی اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی ابتدائے اسلام میں تھی۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فنڈ میں سے غریبوں کی مدد کر کے ان کے عقیدہ کو بچایا جائے۔
مسلمانوں کو مال کی لالچ میں مرتد ہونے سے اور غیر مسلم غریبوں کی مالی اعانت کر کے انہیں مسلمان کیا جائے۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ غیر مسلم امیر ممالک اور ان کی ایجنسیاں غریبوں کو مرتد کرنے پر اربوں ڈالر اور بعض پیٹرول کی دولت سے مالا مال شرق اوسط کے ممالک لوگوں کو بدعقیدہ کرنے پر پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں۔ پختہ صحیح العقیدہ صاحبانِ ثروت مسلمانوں کو اپنی دولت اور عشر و زکوٰۃ غریب وفادار غیر مسلموں کی اصلاح پر خرچ کرنی چاہیے۔ بے روزگار و بیمار لوگوں کی مالی اعانت کرنی چاہیے۔ یونہی نادار و مفلس مسلمانوں و غیر مسلموں کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر زکوٰۃ و عشر کی رقوم خرچ کرناچاہیے نیز ذمی شہریوں سے جزیہ و خراج وصول کر کے ذمی طلباء و غربا کی ہر طرح کی مالی اعانت کی جائے اور ان کو ضروریات زندگی مہیا کی جائیں۔ یہ سب اسلامی فلاحی حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے۔
امیروں اور ڈانواں ڈول لوگوں پر خرچ کر کے ان کو مخالفین اسلام کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچایا جائے۔ نو مسلموں کی مالی اعانت کر کے ان کو اسلام کی طرف مائل و مانوس کیا جائے۔ مال کے خواہش مندوں کو مالی مدد دیکر اسلام پر کار بند کیا جائے۔ دشمن قوتوں کی مالی اعانت کر کے ان کے شر سے ملک و ملت کو بچایا جائے غیر مسلم قوتیں مال دے کر مسلمانوں کے عقیدے خراب کرتی اور ان کو مرتد کرتی ہیں۔ اسلام بھی ان پر مال خرچ کر کے ان کو مسلمان ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم کا اجماع اس بات پر ہوا تھا کہ اس دور میں مؤلّفۃ القلوب کو کچھ دینے کی ضرورت نہ رہی تھی۔
آج بھی ضرورت نہ ہو تو آپ کو کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ضرور مؤلّفۃ القلوب کا مصرف پیدا کریں۔ لیکن ضرورت ہو تو پھر آپ اس مد میں زکوٰۃ صرف کر سکتے ہیں۔ جیسے دوسری مدات ہوں تو زکوٰۃ صرف کریں کوئی مد نہ ہو تو چھوڑ دیں بیت المال میں مال جمع کرا دیں۔ یہ قرآنی حکم کا نسخ نہیں بلکہ علت نہ رہنے سے حکم ختم ہو گیا، جیسے تیمم اس وقت تک کر سکتے ہیں جب تک پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو۔ جونہی پانی پر قدرت حاصل ہوئی تیمم کا حکم ختم۔ حکم علت کے ساتھ رہا۔ ہمیشہ کیلئے منسوخ ہوا نہ ہر صورت میں نافذ، یہی معاملہ ہے مؤلّفۃ القلوب کا جہاں جب ضرورت ہو صرف کریں ضرورت نہ ہو تو مت کریں۔ جیسے آئمہ احناف نے فرمایا ان المقصود بالدفع الیهم کان اعزاز الاسلام لضنعفه فی ذلک الوقت لغلبه اهل الکفر فکان الاعزازیه فی الدفع فلما تبدل الحال بغلبته اهل الاسلام صار الااعزاز هو المقصود وهو باق علی جاله فلم یکن نسخا کالمتیم. . . الخ فتح القدیر شرح ہدایہ لابن الھمام ہے الکفایہ (للخوارزمی 2 : 201)
اس وقت اسلام کمزور تھا لہٰذا مؤلّفۃ القلوب کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا۔ کیونکہ کافر غالب تھے پس اعزاز اسلام ان کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا۔ اہل اسلام کے غلبہ سے جب صورت حال بدل گئی اب غلبہ اہل اسلام کا ہو گیا تو ان کو زکوٰۃ دینے کی ضرورت نہیں رہی، پس اس (ابتدائی ) زمانہ میں ان (مؤلّفۃ القلوب) کو دینا اور اس پچھلے دور میں نہ دینا (جیسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کیا) غلبہ دین کے بمنزلہ ذریعہ و وسیلہ ہوا۔ اصل مقصود غلبہ دین ہے اور وہ اسی طرح اب بھی باقی ہے۔ پس نسخ نہ ہوا۔ جیسے تیمم (کہ مجبوری کے وقت جائز ہو گیا اور مجبوری نہ رہی تو ختم ہو گیا نہ ہمیشہ کے لئے جائز نہ منسوخ)
(شرح ہدایہ، للخوارزمی
فتح القدیر شرح ہدایہ لعلامہ ابن ہمام 2 : 201 طبع پاکستان)
پانچواں مصرف
وفی الرقاب
گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا، کمزور، نادار، اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنا لیتے تھے۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم، مغلوب قوم کو اپنا غلام بنا کر ان کے گھر بار زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قرار دیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً و اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا۔ جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہو گئی جو مالک اپنے غلاموں لونڈیوں کو بلا معاوضہ آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ان کو مالی معاوضہ دے کر غلاموں کو آزادی دلائی گئی۔ مالک اپنے مملوک سے آزادی کے لئے جو مالی معاوضہ طلب کرے اسے بدل کتابت کہا جاتا ہے غلام مطلوبہ رقم ادا کر کے آزادی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور وہ رقم مال زکوٰۃ سے دی جا سکتی ہے۔ یونہی جو مسلمان آج کل ظالم وغاصب کافروں سے اپنی اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء و آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ محکوم و مظلوم مسلمان بھی مال زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔ اور اس قرآنی مصرف میں شامل ہیں۔
چھٹا مصرف
الغارمین :
’’والغارمین‘‘ اور قرضداروں کو یعنی مال زکوٰۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کئے جا سکتے ہیں۔
ساتواں مصرف
وفی سبیل اللہ:
’’اور اللہ کے راستے میں‘‘
امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین مراد لئے ہیں اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ عازمین حج جو راستے میں مالی مدد کے محتاج ہوں۔ کچھ علماء کے نزدیک طالب علم مراد ہیں۔ امام کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ وہ ’’فی سبیل اللّٰه‘‘ عبارة عن جمیع القرب فید خل فیه کل من سعی فی طاعة اللّٰه و سبیل الخیرات اذا کان محتاجا‘‘ فی سبیل اللہ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ و دو کرے۔ جب کہ (زکوٰۃ کا) حاجت مند ہو۔ (بدائع الصنائح، 2 : 45۔ ۔ ۔ تفسیر روح المعانی، 10 : 123۔ ۔ ۔ درمختار مع ردالمختاری للشامی، 2 : 343)
امام رازی فرماتے ہیں۔ ان ظاهر اللفظ لایو جب القصر علی کل الغزاة ظاہر لفظ مجاہدین پر حصرلازم نہیں کرتا‘‘ (تفسیر کبیر16 : 113 طبع بیروت)
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ساتواں مصرف قرآن کریم میں فی سبیل اللہ بیان فرمایا گیا ہے۔ بعض فقہاء کرام نے اس سے حج اور جہاد پر جانے والے وہ لوگ مراد لئے ہیں جو سفر اور متعلقہ ضروریات کے سلسلہ میں مالی تعاون کے طالب ہیں ان پر زکوٰۃ صرف کی جا سکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ کتاب و سنت میں براہ راست یہ وضاحت نہیں کی گئی۔ لہٰذا مجاہدین سے مراد اگر عام معنی مراد لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے یعنی وہ لوگ جو دین اسلام کی سربلندی کےلئے جدوجہد میں مصروف ہیں خواہ وہ جہد فوجی میدان میں ہو خواہ تعلیمی میدان میں، خواہ تبلیغی و تربیتی میدان میں جہاد کا مفہوم قتال و غزاء سے عام ہے۔ پس جو لوگ ان محاذوں پر مصروف کار ہیں اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں تو زکوٰۃ سے ان کے وقتی یا مستقل وظائف مقرر کئے جا سکتے ہیں۔
آٹھواں مصرف:
’’ابن سبیل‘‘ مسافر:
زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف مسافر ہے۔ خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہو جائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو، تو زکوٰۃ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی المراد الذی انقطعت به الاسباب فی سفره عن بلده ومستقره وماله فانه یعطی منها وان کان غنیا فی بلده
اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل و اسباب گھر ٹھکانہ اور مال سے دور سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ اس کو مال زکوٰۃ سے دیا جائے گا اگرچہ اپنے شہر میں امیر ہو۔
(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 119 بدائع الصنائع کاسانی 2 : 46)
ہدایہ مع فتح القدیر لعلامہ ابن الھمام 2 : 204 ردالمختار شامی ج 2 : 343)
زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ فرد یا جماعت کو زکوٰۃ کا مالک بنادیا جائے تاکہ مالدار کا دینا اور حقدار کا لینا ثابت ہوجائے۔
اسے تملیک یعنی مالک بنانا کہتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کےلئے یہ شرط ہے۔ (عامہ کتب فقہ)
No comments:
Post a Comment