Monday, 18 July 2022

قرآن و سنت کے احکامات کی اطاعت ہی اصل عبادت ہے

 *قرآن و سنت کے احکامات کی اطاعت ہی اصل عبادت ہے*


تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ آئین، قرآن و سنت پاکستان

دین اسلام میں (جو کہ قرآن و سنت پر مبنی ہے) اللہ تعالٰی و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات کی اطاعت و اتباع اور تعمیل و تکمیل کو عبادت، جبکہ اللہ تعالٰی کے نازل کردہ احکامات کی نافرمانی و سرکشی انحراف و روگردانی کو برائی، بدی اور معصیت و گناہ قرار دیا گیا ہے، ان حقائق کی جانب ہر کلمہ گو انسان کو پوری طرح متوجہ ہو کر سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک و معاشرے میں اعمال صالحہ یعنی قرآن و سنت کے منزل من اللہ احکامات و ہدایات، تعلیمات و فرمودات اور پیغامات سے انحراف و روگردانی، نافرمانی و حکم عدولی اور سرکشی کرنے، اللہ تعالٰی کے نازل کردہ احکامات پر انسانی و بشری افکار و نظریات کو ترجیح و فوقیت اور اولیت دینے، فرقہ پرستی و اکابر پرستی کو عملاً اختیار کرنے کے عمومی روش و رویے اور رجحانات آخر کیسے پروان چڑھے ہیں؟ اس کے اسباب و عوامل اور محرکات کیا ہیں؟ 

آلا ما شاء اللہ، ملک و معاشرے اور قوم کے اکثرو بیشتر افراد میں اس ناسور نے کب سے اور کس طرح جڑیں پکڑی ہیں؟  بالعموم یہ یہ روش و رویے اب سرطان کے مرض کی طرح ملک و معاشرے بلکہ پوری امت مسلمہ میں کورونا و طاعون کی وبا کی شکل اختیار کر کے پوری طرح پھیل چکے ہیں، اب بھی اگر ہم نے ان عمومی رویوں کے پھیلاؤ و فروغ کو روکنے کی غرض سے ان کے بنیادی و کلیدی اور اصل اسباب و عوامل، وجوہات و محرکات پر غور و فکر نہ کیا تو یہ خوفناک و خطرناک ترین رویے اور رجحانات ہمیں دنیا و آخرت میں مزید تباہ و برباد، ذلیل و رسوا کر کے معاذ اللہ جہنم کا ایندھن بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گےاور ان کے سدباب و ازالے اور مکمل تدارک و علاج کے لیے پہلے متعلقہ امراض کی تشخیص ضروری ہے اور اس کے بعد ہی اس کا مؤثر علاج و معالجہ ممکن ہے پھر اس سے بچنے کی تدابیر و احتیاط اور پرہیز اختیار کی جا سکتی ہے۔ ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ اصلاح احوال کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں؟

اس عاجز و ناقص بندہ ناچیز کی دانست میں ان روش و ریوں، رجحانات و برائیوں اور خرابیوں کو پروان چڑھانے میں  مندرجہ ذیل عناصر و شخصیات اور طبقات کا بڑا اہم کردار ہے: ہمارے مفاد پرست و خود غرض، قائدین، فرقہ ساز، فرقہ بند، فرقہ پرست نام نہاد و خود ساختہ مذہبی و دینی پیشوائی کے جھوٹے دعویدار مولوی حضرات، سیاسی و سماجی رہنما و زعماء، پیران کرام و شیخان عظام اور مغرب و یورپ سے مرعوب و متاثر، ذہنی غلامی کے مرض میں مبتلا حکمران و مقتدر اور با اثر طبقات کی عمومی غفلت و لاپرواہی، غیر سنجیدگی و غیر ذمہ داری، عاقبت نااندیشی، فرض ناشناسی، بد اعمالی و بد کرداری کیونکہ لوگ انہی کی رہنمائی میں چلنے کے عادی ہوتے ہیں اور وہ انہیں کو اپنے لیے نمونہء عمل تصور کرتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں اور انہی کے پیچھے چلتے ہیں۔

  ان سب ہی نے اپنے اپنے حلقہء اثر کے لوگوں کو دانستہ و نادانستہ طور پر قرآن و سنت کا صحیح فہم پہنچانے اور ان کی تعمیل و پیروی اور اطاعت و اتباع کی راہ سے ہٹانے، صراط مستقیم سے بھٹکانے اور قرآن و سنت کے منزل من الله احکامات و ہدایات، تعلیمات و فرمودات اور پیغامات کی صدق نیت اور اخلاص قلب سے اطاعت و اتباع اور تعمیل و پیروی کیی راہ سے ہٹا کر اپنے اپنے محدود و ناجائز، محدود و ذاتی مخصوص اغراض و مقاصد کے حصول و تحفظ کی غرض سے اپنے اپنے من پسند و من گھڑت، بے بنیاد و خود ساختہ، فرقہ وارانہ، سیاسی و گروہی اور لسانی عصبتوں، بے بنیاد اور قرآن و سنت کے احکامات کے منافی  افکار و نظریات کی پیروی کرنے پر مائل و آمادہ کرنے کےلیے سارے جتن اور حیلے و حربے استعمال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، حتیٰ کہ اختیارات، اثر و رسوخ، منبر و محراب، مساجد و مدارس اور اپنی اپنی سیاسی، سماجی، دینی و مذہبی تنظیمات کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے ان با اثر طبقات کے اسی طرز فکر و عمل کو اختیار کرنے کے نتیجے میں بتدریج معاشرے میں بے راہ روی، گمراہی، جرائم، انتشار و افتراق، طبقاتی تقسیم، تباہی و بربادی، تنزلی، انحطاط، پستی آتی رہی، نتیجتاً ہر سطح پر ذلت و رسوائی، تباہی و بربادی، انتشار و افتراق، ذلت و رسوائی مسلم معاشرے اور امت مسلمہ کا مقدر بنتی چلی گئی اور اب تو حالت وہ بن چکی ہے کہ علماء دین بھی دین کی سربلندی کے بجائے مصلحت اندیشی، مفاد پرستی اور خود غرضی کے باعث حق بات بیان نہیں کر پاتے امت کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے، امداد باہمی، اخوت اسلامی، باہمی خیرخواہی کا کہیں کوئی نشان تک نہیں ملتا۔ وہ دین حق "الاسلام" جو قرآن و سنت پر مبنی ہے، کامل و اکمل اور ہر لحاظ سے مکمل و جامع ضابطہ حیات، دستور زندگی ہے، رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم پر الله رب العالمين کا نازل کیا ہوا ہے اس کا عملی نفاذ ناپید ہو چکا ہے۔ آلا ماشاء الله لوگوں کی اکثریت مسلم (مسلمان) ہونے پر فخر کرنے کے بجائے، اپنے اپنے فرقوں پر نازاں ہیں اسی پر فخر کرنے لگے ہیں، اپنے فرقے کے پیرو کاروں کے سوا باقی سارے کلمہ گو لوگوں کو فاسق و فاجر، بدعتی، کافر، مشرک اور مرتد اور واجب القتل تک قرار دینے پر فخر کرتے نظر آتے ہیں، مقاصد دین اور اصول الدین کو پس پشت ڈال کر محض اپنے فرقے کے نام نہاد و خود ساختہ اکابرین کے فکر و فلسفے اور من گھڑت و بے بنیاد اور قرآن و سنت کے منافی افکار کو ارادی و غیر ارادی طور پر الله تعالٰی کے نازل کردہ دین (قرآن و سنت) پر اولیت، ترجیح و فوقیت دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے نہ ہی کوئی عار و جھجک محسوس کرتے ہیں، حالانکہ قرآن و سنت کی نصوص سے عبارة النص و اشارة النص کے ذریعے فرقہ بندی، فرقہ سازی، فرقہ پرستی، اکابر پرستی و شخصیت پرستی کی سخت ترین ممانعت ثابت ہے اور اس حرام عمل کا شرک کے مصداق گناہ کبیرہ ہونا اور اس پر جہنم وعید کا موجود ہونا سب پر واضح ہے اور کسی فرقے کو جائز و درست ماننے، قبول کرنے، تسلیم کرنے، جائز سمجھنے، اس کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے والے کو جہنمی قرار دیا گیا ہے اس حقیقت سے بھی سب لوگ آگاہ ہیں مگر اس سب کے باوجود فرقہ پرستی سے تائب ہو کر قرآن و سنت کی تعمیل و پیروی، اطاعت و اتباع پر اکتفاء کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے ہیں، جبکہ ہمارے جمیع مسائل و مصائب کا واحد حل و علاج ہی یہ ہے کہ منہاج نبوی اور منہاج خلفاء راشدین کے مطابق قرآن و سنت پر مبنی نظام مصطفوی کے مکمل نفاذ و غلبے اور بالادستی کو بہرحال یقینی بنانے کےلیے جہد مسلسل کی جائے۔

اللہ تعالٰی قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : مفہوم: "(اے محبوب صلّی اللہ علیہ و آلہٖ سلّم) آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(صلّی اللہ علیہ وسلّم) سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا "(سورۃ التوبہ، اٰیۃ 24)، مفہوم: "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ" (سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر103)، مفہوم: "اور جو رسول اللّٰہ (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان (مومنون و مسلمون یعنی جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین) کے راستے کے سوا کوئی بھی دوسرا راستہ اختیار کرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کر رکھا ہو اور ہم اسے جہنم میں پہنچا دیں گے اور وہ لوٹنے کی بہت بری جگہ ہے" (سورۃ النّساء اٰیۃ 115)،  مفہوم: "بیشک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے" (سورۃ آل عمران، آیۃ 19)

اللہ تعالٰی کے نازل کردہ دین اسلام کے احکامات کی تعمیل و اطاعت کا بالعموم ہر انسان جبکہ بالخصوص ہر کلمہ گو مکلف ہے، ہم ہزار احکامات کی نافرمانی کرتے ہیں اور پھر محض اقامت صلوة خمسہ، اہتمام صیام رمضان المبارک، زکوۃ اور حج کو ہی عبادت سمجھتے ہیں جو کہ درست بات نہیں ہے سچ بولنا، جھوٹ نہ بولنا، خرید و فروخت میں پورا ناپنا اور تولنا، ملاوٹ اور جعل سازی نہ کرنا، سچی گواہی دینا، صلہء رحمی، پڑوسیوں اور قرابت داروں کی خیر خبر لیتے رہنا، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی پورا خیال رکھنا، طمع، لالچ، بغض، عناد، حسد، کینہ پروری، عداوت، غیبت، بد عہدی سے بچنا اور اسی طرح بے شمار دیگر احکامات بھی واجب الاطاعت ہیں، دین اسلام میں (جو کہ قرآن و سنت پر مبنی ہے) اللہ تعالٰی و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات کی اطاعت و اتباع اور تعمیل و تکمیل کو عبادت، جبکہ اللہ تعالٰی کے نازل کردہ احکامات کی نافرمانی و سرکشی انحراف و روگردانی کو برائی، بدی اور معصیت و گناہ قرار دیا گیا ہے

 الله رب العالمين ہر کلمہ گو کو ہدایت کاملہ عطا و نصیب فرمائے اور صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین برحمتک یا ارحم الراحمین بحق رحمت للعالمین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم۔

No comments:

Post a Comment