Saturday, 26 December 2015

"محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں" کا مفہوم



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں
تحریر: پروفیسر ڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں
" اور تم تو اس کا سامنا کرنے سے پہلے (شہادت کی) موت کی تمنا کیا کرتے تھے، سو اب تم نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا ہے " مفہوم:  (سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر-143)
[١٣٠] اس آیت میں غزوہ احد کا ایک دوسرا منظر پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ مسلمان ابتداًء شکست سے دوچار ہوئے تھے جو صحابہ (رض) غزوہ بدر میں شرکت سے محروم رہ گئے تھے وہ شہدائے بدر کے فضائل سن سن کر تمنا کیا کرتے تھے کہ اگر پھر اللہ نے ایسا موقع فراہم کیا تو ہم اللہ کی راہ میں جان دے کر شہادت کے مراتب حاصل کریں گے۔ مشورہ کے وقت ایسے ہی صحابہ (رض) نے زور دیا تھا کہ جنگ مدینہ سے باہر کھلے میدان میں لڑنا چاہئے، لیکن جب شکست ہوئی تو ایسے صحابہ (رض) میں سے بھی کچھ لوگ بھاگ نکلے۔ اس آیت میں انہیں لوگوں سے خطاب ہے کہ جو چیز تم چاہتے تھے وہی تمہیں پیش آئی ہے۔ اب پیچھے ہٹنے کا کیا مطلب ہے؟ اسی سلسلہ میں ایک حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا مت کرو۔ اور جب ایسا موقع آجائے تو پھر ثابت قدمی دکھاؤ۔ (بخاری، کتاب التمنی، باب کراھیہ تمنی لقاء العدو نیز کتاب الجہاد، باب لاتمنوا لقاء العدو)
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اگر  وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا جائیں یا شہید ہو جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں  ١٣١پھر جاؤ گے (اسلام چھوڑ دوگے؟)  اور اگر کوئی الٹے پاؤں پھر بھی جائے تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور شکرگزاروں کو اللہ تعالیٰ جلد ہی اچھا بدلہ عطا کرے گا" (سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر-144)
جب حضرت عبداللہ بن جبیر کے ساتھی درہ چھوڑ کر لوٹ مار میں لگ گئے تو خالد بن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کے ایک دستہ کی کمان کر رہے تھے) پہاڑی کا چکر کاٹ کر اسی درہ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ سو سوار ان کے ہمراہ تھے۔ ادھر حضرت عبداللہ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے۔ دس بارہ تیر انداز بھلا سو سواروں کی یلغار کو کیسے روک سکتے تھے۔ انہوں نے مقابلہ تو بڑی بے جگری سے کیا مگر سب شہید ہوگئے۔ مسلمان مجاہدین اپنے عقب یعنی درہ کی طرف سے مطمئن تھے کہ اچانک مشرکین کا یہ رسالہ ان کے سروں پر جا پہنچا اور سامنے سے مشرکوں کی جو فوج بھاگ کھڑی ہوئی تھی وہ بھی پیچھے پلٹ آئی اور مسلمان دونوں طرف سے گھر گئے۔ بہت زور کا رن پڑا اور بہت سے مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ اسی دوران ابن قیہ نے ایک بھاری پتھر آپ پر پھینکا جس سے آپ کا سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا اور چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا۔ اس ضرب کی شدت سے آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور ابن قمیئہ یا کسی اور نے دور سے پکارا ' محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیئے گئے' یہ سنتے ہی مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے اور پاؤں اکھڑ گئے بعض مسلمان جنگ چھوڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔ اب لڑنے کا کیا فائدہ ہے اور بعض کمزور دل مسلمانوں کو یہ خیال آیا کہ جاکر مشرکوں کے سردار ابو سفیان سے امان حاصل کرلیں اور اس بدحواسی کے عالم میں بعض یہ بھی سوچنے لگے کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل ہوگئے تو ہمیں اپنے پہلے دین میں واپس چلے جانا چاہئے۔ یہی وہ وقت تھا جب منافقوں نے یوں زبان درازی شروع کردی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر اللہ کے رسول ہوتے تو مارے نہ جاتے۔ اس وقت حضرت انس بن مالک (رض) کے چچا انس بن نضر نے کہا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل ہوگئے تو رب محمد قتل نہیں ہوئے۔ آپ کے بعد تمہارا زندہ رہنا کس کام کا ؟ جس بات پر آپ نے جان دی ہے اسی پر تم بھی اپنی جان دے دو اور کٹ مرو۔ یہ کہہ کر آپ کافروں میں گھس گئے اور بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے آخر شہید ہوگئے۔ اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوش آگیا تو آپ نے آواز دی 'الی عباد اللہ انا رسول اللہ ' (اللہ کے بندو! ادھر آؤ میں اللہ کا رسول ہوں) اور کعب بن مالک آپ کو پہچان کر چلائے۔ مسلمانو! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں موجود ہیں۔ چنانچہ مسلمان آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ تیس کے قریب صحابہ (رض) نے آپ کے قریب ہو کر دفاع کیا اور مشرکوں کی فوج کو منتشر کردیا۔ اس موقع پر سعد بن ابی وقاص اور ابو طلحہ (رض) نے نہایت جانبازی اور جانثاری کا نمونہ پیش کیا۔ اس موقع سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی، محمد صلی اللہ علیہ وسلّم  آخر اللہ تو نہیں جو حی و قیوم ہوں، ایک رسول ہی ہیں۔ ان سے پہلے سب رسول دنیا سے رخصت ہوچکے پھر آگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اسلام چھوڑ دو گے؟۔ دین کی حفاظت اور جہاد فی سبیل اللہ ترک کردو گے؟ تمہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اللہ کاتو کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گا۔
 واضح رہے کہ اس آیت کے نزول کے ساڑھے سات سال بعد جب فی الواقعہ آپ کی وفات ہوگئی تو اس وقت مسلمانوں کو اتنا صدمہ ہوا کہ ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ دوسرے صحابہ (رض) کا کیا ذکر حضرت عمر (رض) جیسے فقیہ اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر تقریر کر رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) آئے اور حضرت عمر (رض) کو بیٹھ جانے کو کہا۔ لیکن جوش خطابت میں انہوں نے اس بات پر کان ہی نہ دھرا۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) الگ کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگے تو لوگ ادھر متوجہ ہوگئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : تم میں سے جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلاشبہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے اور جو شخص اللہ کو پوجتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی (وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ ١٤٤۔) 3- آل عمران :144) تک۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے۔ جب تک حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے یہ آیت نہ پڑھی پھر ابو بکر صدیق (رض) سے لوگوں نے یہ آیت سیکھی۔ پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود حضرت عمر (رض) کہتے ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں نے یہ آیت ابو بکر صدیق (رض) کی تلاوت کرنے سے پہلے سنی ہی نہ تھی اور جب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں اٹھ رہے تھے میں زمین پر گرگیا اور جب میں نے ابو بکر صدیق (رض) کو یہ آیت پڑھتے سنا تب معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔' (بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی)
 پھر اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ یہ آیت غزوہ احد کے موقعہ پر نازل ہوئی تھی اور حضرت عمر (رض) نے اور اسی طرح دوسرے صحابہ کرام (رض) نے اسے سینکڑوں بار پڑھا بھی ہوگا۔ لیکن اس آیت کی صحیح سمجھ انہیں اس وقت آئی جب فی الواقع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ اس سے پہلے نہیں آئی اور یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے قول (وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ 39؀) 10- یونس :39) کا۔ نیز اس سے لفظ تاویل کا صحیح مفہوم بھی سمجھا سکتا ہے۔
پھر جس وقت میدان احد میں بعض کمزور ایمان والوں نے سوچا کہ اسلام کو چھوڑ کر پہلے دین میں چلے جائیں، اسی طرح آپ کی وفات پر واقعی کئی عرب قبائل مرتد ہوگئے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ دین اسلام کی ساری سربلندیاں آپ کی ذات سے وابستہ ہیں۔ پھر جب آپ نہ رہے تو اسلام از خود مٹ جائے گا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے ایسے مرتدین سے جہاد کیا اور انہیں شکست فاش دی۔ ان میں سے کچھ مارے گئے اور باقی پھر سے دین اسلام پر قائم ہوگئے۔ گویا ان لوگوں نے اپنا ہی نقصان کیا۔ اسلام اللہ کے فضل سے سربلند رہا۔
ترجمہ: "کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر کبھی نہیں مرسکتا۔[١٣٢] موت کا وقت لکھا ہوا ہے۔ جو شخص دنیا میں ہی بدلہ کی نیت سے کام کرے گا تو اسے ہم دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور جو آخرت کا بدلہ چاہتا ہو اسے ہم آخرت میں بدلہ دیں گے اور شکرگزاروں [١٣٣] کو عنقریب ہم جزا دیں گے" (سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر-145)
[١٣٢] اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت جرات مندانہ سبق سکھلایا گیا ہے۔ جس سے میدان جنگ میں بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھانے میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ موت کا تعلق میدان جنگ سے قطعاً نہیں بلکہ وہ گھر پر بھی آسکتی ہے۔ اس کا تو ایک وقت مقرر ہے اب دیکھئے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین نے بے شمار غزوات میں شرکت فرمائی لیکن چونکہ ابھی موت کا وقت نہیں آیا تھا۔ اس لیے صحیح سلامت واپس آتے رہے اور جب موت کا وقت آجاتا ہے تو گھر پر بھی انسان اس سے بچ نہیں سکتا۔ اسی طرح سپہ سالار ہونے کی حیثیت سے حضرت خالد بن ولید کا جو مقام ہے اسے سب جانتے ہیں۔ آپ کی ساری زندگی جنگوں میں گزری۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں تلوار یا نیزہ کا نشان موجود نہ ہو۔ لیکن موت میدان جنگ میں نہیں بلکہ گھر پر بستر مرگ پر ہی آئی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ موت کا جنگ اور میدان جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا اپنا ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ آجاتا ہے تو کوئی انسانی تدبیر مرنے والے کو موت کے منہ سے بچا نہیں سکتی۔
[١٣٣] ایک متواتر حدیث ہے۔ (اِنَّمَا الاَعْمَال بالنِّیَاتِ) یعنی کوئی عمل کرتے وقت انسان کی جیسی نیت ہوگی ویسا ہی اسے بدلہ ملے گا۔ ایک ہی کام ہوتا ہے جو نیت کی تبدیلی سے کچھ کا کچھ بن جاتا ہے۔ مثلاً دور نبوی میں ایک صحابی نے مسجد نبوی کی طرف اپنے مکان کی کھڑکی رکھی۔ آپ نے پوچھا: یہ کھڑکی کیوں رکھی ہے؟ اس نے جواب دیا۔ ''اس لیے کہ ہوا آتی جاتی رہے۔'' آپ نے فرمایا : اگر تم یہ نیت رکھتے کہ ادھر سے آذان کی آواز آئے گی تو تمہیں ثواب بھی ملتا رہتا اور ہوا تو بہرحال آنا ہی تھی۔ اگر غور کیا جائے تو انسان کے بہت کاموں کا یہی حال ہے۔ مثال کے طور پر ہر انسان خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اپنے بال بچوں کی پرورش اور ان پر خرچ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اب اگر یہی کام ایک مسلمان اللہ کا حکم سمجھ کر کرے تو اسے اخروی زندگی میں صدقہ کا ثواب بھی مل جائے گا۔ یعنی جو لوگ صرف دنیوی مفاد چاہتے ہیں اللہ انہیں وہی دیتا ہے اور جو اخروی مفاد چاہتے ہیں اللہ انہیں اخروی تو ضرور دیتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیاوی مفاد بھی جتنا اس کے مقدر ہے اسے عطا کرتا ہے۔
ترجمہ: (اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ میں جہاد(کوشش) کرنے سے تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا " (سورۃ التوبہ، اٰیۃ نمبر:24)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب!
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں)

2 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. یاد رکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عناد، کینہ و عداوت رکھنا، نیز اہانت و تحقیرکرنا ایمان و اسلام کی نفی کرنے کے مترادف سنگین ترین جرم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی مُحبّت و عقیدت، تعظیم و توقیر، ادب و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھنا ایمان کی شرظ، اوّل اور اصل اساس ہے۔ یہ بھی اچھی طرح جان لیں کہ ترجمہ کا مطلب و معنٰی فقط متنِ کلام کے مقصدِ اصلی کے حقیقی مفہوم اورکی ترجمانی کرنا ہی ہوتا ہے، کسی بھی آیہ کے ترجمہ کے لئے سیاق و سباق کو سمجھنا بھی شرظ ہے اس کے بغیر من پسند و من مانا ترجمہ قرآنِ حکیم کی تحریفِ معنوی کے زمرے میں آتا ہے۔ کلام کے اصل مفہوم کا شعور و ادراک حاصل کرنے کےلئے عبارۃ النص، اشارۃ النص، دلالۃ النص اور اقتضاءُ النصّ کلیدی دلالات اور بنیادی اصول ہیں، جن کو ملحوظِ خاطر رکھنا بہرحال لازم ہے۔

    ReplyDelete