Friday, 27 November 2015

مذہبی فرقےہی غلبہءِ اِسلام کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ بن کر حائل ہیں، عالَمِ انسانیت کی خیروفلاح اور جملہ مسائل کاحل فقط نظامِ مُصْطَفْوی میں ہے


بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مذہبی فرقے ہی غلبہءِ اِسلام کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں، عالَمِ انسانیت کی خیر وفلاح اور جملہ مسائل کا واحدحل فقط نظامِ مُصْطَفْوی کا نفاذ و غلبہ ہے
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
اس مسلّمہ حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور اور معقولیت پسند و مُنصف مزاج انسان انکار نہیں کر سکتا کہ مذہبی فرقےہی پاکستان میں نظامِ مُصطفوی کے نفاذ   اور غلبہءِ اِسلام کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں۔
مساوات و فلاحِ انسانی فقط قرآن و سُنَّت پر مبنی اور مُنَزَّلْ مِنَ اللہ ضابطہءِ حیات "نظامِ مُصْطَفْوِیْ" کے نفاذ میں مضمر ہے۔ سود سے پاک اسلامی نظامِ اقتصادیات و معاشیات کے بغیرمحنت کش، کسان، مزدور اور غریب کے حقوق کا کہیں تحفظ ممکن نہیں دراصل باقی سارے نظام محض دھوکہ و فراڈ اور بدنیّتی پر مبنی اور صرف  پُرفریب و کھوکھلے، پُرکشش نعروں پر مشتمل ہیں۔
اسلام میں سؤر،  کُتے، مُردارکا گوشت حرام اس لیئے اُس سےتو اکتاہٹ، کراہت و نفرت اور اجتناب و پرہیز ، بت پرستی حرام اِس لیئے اُس سے بھی اکتاہٹ، کراہت و نفرت اور اجتناب و پرہیز مگر دین ِ اسلام میں اُسی طرح حرام قرار دی گئی دینی و مذہبی فرقہ بندی، فرقہ واریت، فرقہ پرستی،  خیانت و بددیانتی و کرپشن اور سُودی نظامِ معیشت سے پیار و معاشقہ و مقبولیتِ عامّہ!کیا یہ کُھلا تضاد و بدترین منافقت اور دین و ایمان کی نفی نہیں؟؟؟
اللہ کےواسطے ذرا سوچیئےاور قرآن مجیدکوسمجھ کرپڑھنےاور پڑھ کر سمجھنے اور اس میں غور و فکر کرنے کی کوشش کیجیئے۔
اخوَّۃِ اِسلامی، فلاحِ آدمیت، مساواتِ اِنْسَانِی، بقائے باہمی،اتحادِ اُمَّت، معاشرتی و عالمی امن و سلامتی، انفرادی و اجتمائی خیر و فلاح، عدل و انصاف، بشمول کرپشن ہر طرح کے جرائم و نا انصافی و حق تلفی و بے قاعدگی و بدعنوانی و ظلم و زیادتی سے پاک صالح معاشرت، اللہ کےبندوں اور اللہ کی زمین پر اللہ کے نازل کردہ دائمی انسانی فلاحی نصاب و آئین و دستورِ زندگی و ضابطہءِ حیات یعنی دینِ اسلام کی ترویج و تنفیذ اور سربلندی و غلبے کی راہ میں حائل سب سےبڑی رکاوٹ فرقے ہیں ان سےبڑھ کرکوئی اور  چیز نہیں!
اسلام میں سؤر،  کُتے، مُردارکا گوشت حرام اس لیئے اُس سےتو اکتاہٹ، کراہت و نفرت اور اجتناب و پرہیز ، بت پرستی حرام اِس لیئے اُس سے بھی اکتاہٹ، کراہت و نفرت اور اجتناب و پرہیز مگر دین ِ اسلام میں اُسی طرح حرام قرار دی گئی دینی و مذہبی فرقہ بندی، فرقہ واریت، فرقہ پرستی،  خیانت و بددیانتی و کرپشن اور سُودی نظامِ معیشت سے پیار و معاشقہ و مقبولیتِ عامّہ!کیا یہ کُھلا تضاد و بدترین منافقت اور دین و ایمان کی نفی نہیں؟؟؟
اللہ کےواسطے ذرا سوچیئےاور قرآن مجیدکوسمجھ کرپڑھنےاور پڑھ کر سمجھنے اور اس میں غور و فکر کرنے کی کوشش کیجیئے۔
ہرطرح کی دینی و مذہبی فرقہ بندی، فرقہ واریت، فرقہ پرستی اور گرہ بندی کو  قرآن و سُنَّت میں بالکل واضح طور پر اور صریحاً ممنوع و حرام قرار دیا ہے لیکن بدترین المیہ ہے کہ گذشتہ تقریباً ڈیڑھ دو سو سال سے بَرِّصَغِیٌر میں اِلَّا مَاشَاءَ اللہ اکثر و بیشترعاقبت نا اندیش مذہبی عناصر نے اسی دینی و مذہبی فرقہ بندی، فرقہ واریت، فرقہ پرستی اور گروہ بندی کو عملی طور پر اپنا  خودساختہ دین و مذہب بنا رکھا ہے اور فرقہ پرستی کو تو گویا واجب سمجھ کر اختیار کر رکھا ہے۔ یایہ مذہبی پیشواؤں نے اپنے اپنے معاشی و   سیاسی مفادات کے حصول و تحفظ کی غرض سے، اللہ کے نازل کردہ دینِ حق "اَلْاِسْلَام" (قرآن س سُنَّت) کو عملاً ترک و معطَل کر کے اس کی جگہ(اِسلام  کے نام پر) اپنے اپنے پسندیدہ مشاغل، خود ساختہ و من پسند انسانی افکار، بے بنیاد و من گھڑت بشری خیالات و نظریات پر مشتمل مختلف برانڈز کے گمراہ کن  و جعلی مذاہب (فرقوں ) کو متعارف کروا رکھاہے(جن سے کہ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ وَ سَلَّمْ نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے) اور قرآن و سُنَّت کے احکامات و پیغامات، تعلیمات و ہدایات اور اصل مقاصدِ دینِ اِسلام  و اُصولُ الدِّیْن     کو پسِ پُشت ڈال کر فرقوں کی تبلیغ و اشاعت کی جا رہی ہے جوکہ سراسر ضلالت و گمراہی پھیلانے کے سوا کچھ نہیں۔
دینِ اسلام بلا شبہ رسول اللہ صلَّی اللہُ عَلَیٌہِ وَ اٰلِہ وَ سَلَّمْ کی حیاتِ طیبہ میں ہی ہر طرح سے مکمل ہو چکا تھا لہٰذا اُس کے پیغامات و احکامات، ہدایات و تعلیمات اور بیان کردہ  اُصولُ الدِّیْن، مقاصدِ اصلی میں کسی بھی قسم کی تحریف و ترمیم، کمی و بیشی ، ردّ و بدل اور فرقہ وارانہ ایجادات و تجاوزات، بدعات و اختراعات، لغویات و خرافات کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے، ہاں البتہ فروعات  میں تفقہ فی الدین (اجتہاد) کی گنجائش ہے مگر وہ مشروط ہے کہ اس میں علمی و اجتہادی اختلافِ رائے کو کسی مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کی بنیاد ہر گز نہیں بنایا جاسکتا۔
ہر ایک مؤمن و مسلمان پر فرض ہے کہ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی جماعت، تابعین و تبع تابعین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے طرزِ فکر عمل اور طور و طریقوں کے عین مطابق، قرآن و سُنَّت کے پیغامات و احکامات، ہدایات و تعلیمات اور مقاصدِ اصلی پر ایمان رکھے ، ان سب کو مانے اور اُن کی تعمیل و اطاعت و اتباع اور پیروی کرے، حقوق اللہ و حقوق العباد   کو پورا کرے۔ ہر کلمہ گو مسلمان پر یہ بھی لازم ہے کہ اپنے دین و ایمان کی خود حفاظت کرے، فرقوں سے بیزاری و لاتعلقی کا اعلان و اظہار کرے، فقط قرآن وسُنَّت کے پیغامات و احکامات، ہدایات و تعلیمات اور بیان کردہ  اُصولُ الدِٗین و مقاصدِ اصلی کو ہی دین  سمجھے اور اُن کے علاوہ جتنے بھی فرقہ وارانہ تبلیغی و مذہبی نصاب، افکار و نظریات رائج ہیں ان کو دین میں شامل نہ سمجھے اور ان کے ساتھ کوئی بھی سروکار، تعلق یا واسطہ اور وابستگی ہر گز نہ رکھے اور نہ ہی ان کو اسلامی یا دینی  
تعلیم  کا حِصّہ سمجھے۔
 لازم ہے ہر ایک کلمہ گو اخوَّۃِ اِسلامی، فلاحِ آدمیت، مساواتِ اِنْسَانی بقائے باہمی، اتحادِ اُمَّت، معاشرتی و عالمی امن و سلامتی، انفرادی و اجتمائی خیر و فلاح، عدل و انصاف حق گوئی اور اعلائے کلمۃ الحق یعنی قرآن و سنۃ کے احکامات اوامر و نواہی حقوق اللہ و حقوق العباد کی اطاعت و اتباع اور مقاصد دین کی تعمیل و تکمیل کےلیے صدق نیت و خلوص قلب سے حتی المقدور کوشاں و سرگرداں رہے جس کام کا کہ خالق کائنات اللہ رب العالمین نے اسے پابند یعنی مکلف بنایا ہے۔ بشمول کرپشن ہر طرح کے جرائم و نا انصافی و حق تلفی و بے قاعدگی و بد عنوانی و ظلم و زیادتی سے پاک صالح معاشرت، اللہ کے بندوں اور اللہ کی زمین پر اللہ کے نازل کردہ دائمی انسانی فلاحی نصاب و آئین و دستورِ زندگی و ضابطہءِ حیات، آئین یعنی دینِ اسلام کی ترویج و تنفیذ اور سربلندی و غلبے کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ "فرقے" ہیں ان سےبڑھ کر کوئی اور نہیں! اللہ کے واسطے ذرا سوچیئے اور قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنےاور پڑھ کر سمجھنے اور اس میں غور و فکر کرنے کی کوشش کیجیئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۃ حسنۃ کی پیروی کو اپنا شعار بنا لیجئے۔
مذہبی فرقوں کے پیشواؤں، مبلّغوں، رہنماؤں، مولویوں اور اکابرین سے مؤدبانہ التماس و استدعا و التجا ہے کہ لِلّٰہ! فرقوں کے بجائے قرآن و سُنَّت کے منزل من اللہ احکامات یعنی اصول الدین پر کفایت کریں یہی اتحاد امت کی واحد صورت ہے۔ فرعی مسائل میں چونکہ انسانی عقل، فکر و فلسفے اور دانش کا دخل ہوتا ہے اور مسلمہ امر ہے کہ ان میں تمام انسان یکساں و مساوی نہیں ہو سکتے لہٰذا فروعی مسائل میں اختلاف ایک لازمی و فطری معاملہ/ امر/ تقاضہ ہے، فروعی اختلاف کی بناء پر ایک دوسرے پر کافر، فاسق، فاجر گمراہ، ہونے کے فتوے لگانا خلاف اسلام ہے اس لیے ایسی حرکات سے بہر صورت اجتناب و گریز ضروری ہے، منزل من اللہ احکامات، ہدایات، پیغامات و تعلیمات، اُصولُ الدِّین اور مقاصدِ دینِ اِسلام کی تبلیغ و اشاعت، ترویج و تنفیذ، برتری و بالادستی، حقانیت و غلبے کی جِدّوجُہد کو اپنا شعار بنا لیں، مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کے خاتمے، اتحادِ اُمَّت، اخوّۃِ اسلامی اور احیاءِ اؐسلام کو اپنی زندگی کا حقیقی نصب العین بنا لیں تاکہ اسلامی نظریاتی مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہءِ پاکِستان میں قرآن و سُنَت پر مبنی"نظامِ مُصْطَفْوِی" کے نفاذ کی راہ ہموار ہو سکے اور وطنِ عزیز کو صحیح معنٰی میں فلاحی اسلامی ریاست بنایا جا سکے جہاں ہر ایک شہری کو بنیادی انسانی و اسلامی حقوق، ترقی کے یکساں مواقع، تعلیم و صحت سمیت تمام تر سہولیات و مراعات بلا تفریق و امتیاز مساوی و یکساں طور پر حاصل ہو سکیں، حقوق اللہ و حقوق العباد کا پورا خیال رکھا جائے اور صالح و متقی حکمران ہوں جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بنیادی فریضہ سر انجام دیں،ہر طرح کی بے قاعدگی و بد عنوانی، خیانت و بددیانتی، عدمِ تحفّظ، ظلم و زیادتی، حق تلفی و نا انصافی اور جرائم و کرپشن سے پاک انفرادی و اجتمائی سطح پر صالح معاشرا وجود میں آ سکے، پورے ملک میں ہر طرف اتحاد و اخوّۃ، امن و سلامتی، عدل و انصاف، مساوات، میرٹ، خوشحالی و ترقی کا بول بالا ہو۔
یا اللہ مسلمانوں کو فرقہ پرستی کے گناہِ کبیرہ اور شرک سے نجات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما دے، صراطِ مستقیم (قرآن و سُنَّت) کی طرف لوٹا دے، اُمَّتِ مسلمہ کو واپس جسدِ واحد کی طرح "اُمَّتِ واحدہ" بنا دے، دنیا بھر کے سارے مسلمانوں کو مذہبی منافرت، انتشار و افتراق، ذِلّت و رُسوائی، تباہی و بربادی، بے راہ روی، ضلالت و گمراہی ، ذہنی پستی و تنزّلی اور انحطاط سے نجات حاصل کرنے اور فرقوں کے بجائے دینِ اِسلام کی بالادستی و برتری، سربلندی و غلبے اور نفاذ کی جِدّ وجُہْد کرنے کا شعور اور جذبہ  
صادق عطا فرما دے،  
اللہم آمین ثم آمین برحمتک یا ارحم الراحمین 

 

ترجمہ: (اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ میں جہاد(کوشش) کرنے سے تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا " (سورۃ التوبہ، اٰیۃ نمبر:24)
ھذا ما عندی واللہ  و رسولہٗ اعلم بالصواب!
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں)

No comments:

Post a Comment