نئے سال کا اسلامی تصور اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال ارائیں المعروف غلام مصطفٰی ارائیں، کراچی
سال کی یہ تبدیلی ہر انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ عمر کا ایک اور حصہ گزر گیا، اور زندگی کے محدود سفر میں ایک اور سنگ میل پیچھے رہ گیا۔ شمسی سال کے اختتام و آغاز کے اس موقع پر پوری دنیا میں مختلف تہذیبیں اپنے اپنے انداز میں اس "نئے آغاز" کو مناتی ہیں۔ لیکن ایک مسلمان کے لیے سوال یہ ہے کہ اس موقع پر اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا وہ عمومی تہواروں کی طرح اسے بھی خوشی کے اظہار کا موقع سمجھے، یا اس کے نزدیک اس کا کوئی اور مفہوم ہونا چاہیے؟
مبارکباد کا شرعی حکم: ایک متوازن نقطہ نظر
علمائے کرام کے فتاویٰ کے مطابق، نئے شمسی یا قمری سال کے آغاز پر محض خیر و برکت کی دعا دینا یا مبارکباد کا تبادلہ کرنا، اگر اسے کوئی شرعی فریضہ یا ضروری عمل نہ سمجھا جائے، تو جائز ہے . بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نئے مہینے یا سال کی آمد پر ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے:
"اَللّٰهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمٰنِ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ" .
اس دعا کا مفہوم یہ ہے کہ اے اللہ! اس (نئے زمانے) کو ہمارے لیے امن و ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ داخل فرما، ساتھ ہی اپنی رحمت کی رضا اور شیطان سے بچاؤ کے ساتھ۔ یہ دعا درحقیقت ہمارے رویے کی بنیاد ہونی چاہیے نہ کہ محض رسمی تہنیت۔
وقت کی قدر اور محاسبہ نفس کا موقع
اسلامی نقطہ نظر سے، وقت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر وقت کی قسمیں کھائی گئی ہیں . حدیث نبوی ہے کہ قیامت کے دن انسان سے اس کی عمر اور جوانی کے بارے میں سوال ہوگا کہ اس نے اسے کس طرح گزارا . ایک اور حدیث میں پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جاننے کی تلقین کی گئی ہے: جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے.
اس لیے سال کا اختتام و آغاز درحقیقت محاسبہ نفس کا بہترین موقع ہے۔ گزرے ہوئے سال میں ہم سے کیا کوتاہیاں ہوئیں؟ ہمارے اعمال میں کس طرح کی بہتری لائی جا سکتی ہے؟ آنے والے وقت کے لیے ہمیں کیا عہد کرنا چاہیے؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے کہ وہ کسی چیز پر اتنا نادم نہیں ہوئے جتنا اس دن کے گزرنے پر جس میں ان کے اعمال میں اضافہ نہ ہو سکا.
قمری تقویم سے تعلق اور اسلامی شناخت
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اسلام میں احکام و عبادات کا مدار قمری (ہجری) تقویم پر ہے۔ روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کا تعین اسی سے ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہجرتِ نبوی کو اسلامی سن کا نقطہ آغاز بنایا گیا، کیونکہ یہی وہ واقعہ تھا جس سے حق و باطل میں واضح فرق ہوا .
شمسی سال کا آغاز دراصل عیسائی تہذیب و مذہب سے وابستہ ہے . اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی اصل شناخت — اسلامی قمری کیلنڈر — سے وابستہ رہے اور اسے اپنی زندگی میں زندہ رکھے۔ ہجری مہینوں کے نام اور ان میں پیش آنے والے تاریخی واقعات (جیسے محرم میں واقعہ کربلا) سے آگاہی ہماری دینی و تہذیبی پہچان کا حصہ ہے۔
غیر شرعی اعمال سے اجتناب
افسوس کے ساتھ، آج کل نئے سال کے موقع پر کئی ایسے کام رائج ہو چکے ہیں جو صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ 31 دسمبر کی رات آتش بازی، نائٹ کلبوں میں شراب و شباب کی محفلیں، بے ہنگم شور شرابہ اور بے حیائی کے مظاہرے — یہ سب وہ امور ہیں جن سے ہر مسلمان کو سختی سے بچنا چاہیے . نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک و سلم کا ارشاد ہے: "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں سے ہے" . لہٰذا، ایسے تمام کام جو غیر مسلم اقوام کے مخصوص مذہبی یا اخلاقی طور پر قابل اعتراض طریقوں کی نقل ہوں، ان سے اجتناب فرض ہے۔
اجتماعی ذمہ داری: دعا، صلہ رحمی اور خیر کی تلقین
نئے سال کا یہ موقع درحقیقت ہمیں اپنے اردگرد پھیلی انسانیت کے لیے سوچنے کا موقع دیتا ہے۔ ہم اپنے خاندان، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور تمام مسلمان بھائیوں کے لیے دُعاگو ہوں۔ صلہ رحمی کریں، مفلس و محتاج لوگوں کی مدد کریں، اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں جیسا کہ سورہ العصر میں ایمان والوں کی صفت بیان کی گئی ہے .
خلاصہ
مختصراً، نئے شمسی سال کے موقع پر مسلم کمیونٹی کا طرز عمل مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے:
· وقت کی قدر کے شعار کے ساتھ محاسبہ نفس کا اہتمام کریں۔ گزرا سال اللہ کی دی ہوئی مہلت تھی، آنے والا وقت اس کی نئی نعمت ہے۔
· دعا اور نیک تمناؤں کا تبادلہ کریں، مگر اسے غیر اسلامی رسومات سے پاک رکھیں۔
· اپنی اسلامی شناخت — ہجری تقویم — کو زندہ رکھیں اور اس کی اہمیت نئی نسل کو سمجھائیں۔
· ہر قسم کی غیر شرعی سرگرمیوں، بے حیائی اور فضول خرچی سے حتی الامکان بچیں۔
· اس موقع کو اجتماعی بہتری، باہمی محبت اور انسانیت کی خدمت کے جذبات کو ابھارنے کے لیے استعمال کریں۔
دیکھا گیا ہے نئے شمسی سال کے آغاز پر کروڑوں روپے فائرنگ پر فخریہ طور پر خرچ کیے جاتے ہیں، بیماروں کے آرام کا بھی ذرا بھر احساس نہیں کیا جاتا. اس کے علاوہ بھی دیگر خرافات کو لازم سمجھا جاتا ہے۔
آئیے، نئے سال کو نئے عزم کے ساتھ شروع کریں عزم اس بات کا کہ ہم بہتر صالح مسلمان، بہتر انسان اور معاشرے کے لیے زیادہ مفید فرد بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے آنے والے تمام لمحات کو ایمان، امن اور فلاح سے بھر دے۔ (آمین)
No comments:
Post a Comment