Tuesday, 22 September 2015

حضرت محمّد مصطفٰی رسول اللہﷺ کی رسالت و ختمِ نبوّۃ سے اعلانیہ وعملی انحراف!

بِسمِ اللہِ الرّحمٰنِ الرّحِیم
حضرت محمّد مصطفٰی رسول اللہﷺ کی رسالت و ختمِ نبوّۃ  سے اعلانیہ وعملی انحراف
تحریر: پرفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ و رسول اللہ ﷺ نے فرقہ پرستی سے منع فرمایا ہے، ہر صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے حرام سمجھا ہے، کوئی صحابی دیوبندی  یا  حیاتی یا مماتی یا بریلوی ، عطاری، مسعودی، یا اہلحدیث وغیرہ نہیں تھا۔  رسول اللہ ؤ کی رسالت و بنوّۃ پر ایمان لانے والوں کا نام اللہ نے "مسلمان" اور ان کے دین کا نام "الاسلام" مقرر  فرمایا ہے، اس سے ہٹ کر کوئی بھی دوسری مذہبی شناخت و پہنچان رکھناگویا کہ حضرت محمّد مصطفٰی رسول اللہﷺ کی رسالت و نبوّۃ  سے عملی انحراف   کے مصداق ہے جو کہ اعلانیہ انحراف کے ہی مترادف  و مماثل   سنگین ترین معاملہ ہے۔
خبردار رہنا کہیں اللہ کے دین  الاسلام یعنی (قرآن و سنّۃ و اسوۃ حسنہ ) اور رسول اللہ ﷺ کی محبّت اور  آپ ﷺ کی اطاعت و  اتباع کا  جذبہ  تمہارے دلوں کے اندر ماند نہ پڑ جائے  اور فرقہ و اکابرین کی چاہت و  محبّت ، اطاعت واتباع اور پیروی   کا جذبہ اس کے برھ نہ جائےکیونکہ ارشادِ باری تعالٰی ہے: ترجمہ: (اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے  کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے  ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ)  تمہیں زیادہ پیارا   ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ  میں  جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا  "۔ (9سورۃ التوبہ، اٰیۃ 24)
یہاں آٹھ چیزیں گنوا دی گئی  ہیں  کہ اگر ان آٹھ چیزوں کی محبتوں میں سے کسی ایک یا سب محبتوں کا مجموعہ اللہ تعالٰی، اس کے رسول ﷺ  اور اس کے رستے میں   جہاد کی محبتوں کے جذبے کے مقابلےمیں زیادہ ہے  تو پھر اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔ یہ بہت سخت اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا لہجہ اور انداز ہے۔ ہم میں سے ہر ایک شخص کو چاہئےکہ اپنے باطن میں   ایک ترازو نصب کرے۔ اس کے ایک پلڑےمیں  یہ آٹھ محبّتیں ڈالے  اور دوسرے پلڑے  میں ایک ایک کر کے باری باری اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور جہاد کی محبّتیں      ڈالے اور پھر اپنا جائزہ لے کہ کہاں کھڑا ہوں! چونکہ انسان خود اپنے نفس سے خوب واقف ہے (بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ) ( القیامۃ) اس لیئے اسے اپنے باطن کی صحیح صورت حال معلوم ہو جائے گی۔ بہر حال اس سلسلے میں  ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر تو اس کی ساری خواہشیں ، محبّتیں اور حقوق (بیوی، اولاد، نفس وغیرہ کے حقوق) ان تین محبتوں کے تابع   اور ان سے کمتر درجے میں ہیں تو اس کے معاملاتِ ایمان درست  ہیں اگر مذکورہ آٹھ چیزوں سے کسی ایک بھی چیز کی محبت یا سب محبتوں کو ملا کر اس مجموعے  کا گراف یا وزن ، اللہ تعالٰی، اس کے رسول ﷺ  اور اس کے رستے  میں جہاد کی محبتوں کے جذبے سے  اوپر چلا  گیا   تو یقین جان لیں کہ وہاں توحید و رسالت پر آپ کا ایمان ختم ہو چکا ہے  اور جو کچھ آپ نے باقی  بچا کے رکھا ہے وہ سوائے شرک کے کچھ نہیں ۔ 
ایمان کی اساس ہی اس جذبے پر قائم ہوتی ہے کہ بندہءِ مومن  ، اللہ سبحانہ و تعالٰی  اور رسول اللہ ﷺ کی محّبت ،  اطاعت و اتباع کو  باقی تمام انسانوں اور چیزوں کی  محبّت، اطاعت و اتباع پر ترجیح دے ۔ اسی  حقیقت کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا ہے۔ یہ مال و دولت ِدنیا ، یہ رشتہ و پیوند----بتانِ وہم و گماں، لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ!
زیر نظر آیت میں جو آٹھ چیزیں اللہ ربّ العٰلمین نے گنوائی ہیں  ان میں سے پہلی پانچ  رشتہ وپیوند کے زُمرے میں آتی ہیں جب کہ آخری تیں ، مال و دولت ِ دنیاکی مختلف  شکلیں ہیں ۔ علامہ اقبال ؔ فرماتے  ہیں کہ ان چیزوں  کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، یہ ہمارے وہم اور توہم کے بنائے ہوئے بت  ہیں۔ جب تک لَا اِلَہ الاَّ اللّٰہ کی شمشیر  سے اِن بتوں کو توڑا  نہیں جائے گا ،  بندۂ مومن کے نہاں خانۂ دل  میں توحید کا  عَلَم  بلند نہیں ہو گا۔
اقرآن مجید میں  دوسرے مقام پر خالقِ کائنات اللہ ربّ العالمین سبحانہ و تعالٰی نے فرمایا " ترجمہ: "اور جو رسول  (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرے،  اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہو چکی اور وہ اہل ایمان (جماعۃِصحابہءِ کرام) کے راستے کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیارکرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف پھرا دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کر رکھا ہو اور ہم اسے پہنچا دیں گے  جہنم  میں اور وہ بہتُ بری جگہ ہے لوٹنے کی"۔ (4-سورۃ النّساء– اٰیۃ- 115) 
ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام  (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے، اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ ِمومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو ۔ اس لئے صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں  کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کا اتفاق  یا امت کے تمام علماء وفقہا کا اتفاق۔ یا یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم  )  کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں ۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما و فقہا کا اتفاق ہو ۔ تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم)  کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے (صحیحل).  سو  راہ ِحق کے ترک و اختیار کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کوئی جبر و اکراہ نہیں، بلکہ اس کا مدار و انحصار انسان کے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا " لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ"  پس جو کوئی اپنے ارادہ و اختیار سے راہ حق و ہدایت کو اپناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اسی کی توفیق دیتا ہے اور جو کوئی اسکے برعکس ضلالت و گمراہی کے راستے کو اپناتا ہے اس کو ادھر ہی چلتا کر دیا جاتا ہے ، جس کفرو گمراہی کی طرف وہ دانستہ پھر گیا ہے اللہ اس میں حائل نہیں ہوتا اور اسے ادھر ہی پھرنے دیتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا   " انْصَرَفُوْا ۭ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ" (  009:127)   ترجمہ:   "جب یہ لوگ پھر گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا"  یعنی اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا  ضابطہ و دستور یہی ہے کہ جو لوگ اس کی راہ سے منہ موڑ لیتے ہیں، ان کو ادھر ہی چلتا کر دیا جاتا ہے جدھر کو انہوں نے اپنا رخ خود کیا ہوتا ہے، اور جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے  "فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ" ( 061:005)  ترجمہ: " جب یہ لوگ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا"۔ یہاں پر المومنین سے مراد جیسا کہ ظاہر ہے اور حضرات مفسرین کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ اس سے صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم  ) مراد ہیں، سو اس طرح اس ارشاد ربانی سے راہ حق اور راہ باطل دونوں واضح ہو جاتی ہیں پس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ کرام  (رضوان اللہ تعالٰی علیہم  ) کی راہ حق کی راہ ہے۔ اور ان کے خلاف والی راہ باطل کی راہ ہے۔ اور رسول  ﷺکی راہ سے،سنّۃِرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مراد ہے،  اس لئے حق والوں کو اہل السنّۃکہا جاتا ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی  سنّۃ کو ماننے والے نیز اہل حق چونکہ تمام صحابہ کرام  (رضوان اللہ تعالٰی علیہم ) کو حق مانتے ہیں اس لئے وہ اہل جماعت بھی کہلاتے ہیں ۔ یعنی حضرات صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم )  کی پوری جماعت کو بلا کسی تفریق و استثناء کے ماننے والے اس لئے حق والوں کا نام و عنوان  "اہل السنّۃ و الجماعۃ" ہے  یعنی جو رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنّۃ کو بھی مانتے اور اس کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور ان کے سب صحابہ کرام  (رضوان اللہ تعالٰی علیہم) کو بھی مانتے اور انکو معیار حق جانتے ہیں ۔ پس جو لوگ سنت کو نہیں مانتے وہ اہل حق کے خلاف، اور اہل باطل میں سے ہیں (جیسے پرویزی، جکڑالوی وغیرہ منکرین حدیث)، اور اسی طرح جو لوگ سب صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم  )  کو نہیں مانتے بلکہ وہ ان کے درمیان تفریق سے کام لیتے ہیں یعنی کچھ کو مانتے ہیں، اور باقیوں کو نہیں مانتے وہ بھی اہل حق میں سے نہیں، بلکہ اہل باطل میں سے ہیں جیسے وہ رافضی جو حضرات صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان سے بغض و عناد رکھتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم، ان لوگوں کا شعار تبراء ہے ان کی کتابیں ایسی کفریہ مغلظات سے بھری پڑی ہیں، اور جو صرف "پنجتن" کے پاک ہونے کا نظریہ رکھتے اور دعویٰ کرتے ہیں۔
 پس اہل حق وہی ہیں جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت کو بھی مانتے اور اس کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سب صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم  ) کو بھی بلا تفریق و استثناء حق جانتے اور مانتے ہیں ۔ اسی لئے ان اہل حق کو "اہل السنۃ والجماعۃ" کہا جاتا ہے کہ یہ خوش نصیب لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت اور  ان ﷺ کے صحابہء کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم)  کی سب جماعت کو مانتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں پیغمبر نے ارشاد فرمایا "مَااَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی" یعنی اہل حق اور نجات و فلاح پانے والے لوگ وہی ہیں جو میرے اور میرے صحابہ (رضوان اللہ تعالٰی علیہم  ) کے طریقے پر ہیں ۔ پس اس سے حق و باطل کے درمیان فرق و تمیز واضح ہے۔ اور اس پرکھ و معرفت کیلئے ایک ایسا معیار رکھ دیا گیا جو نہایت واضح اور آسان بھی ہے۔ اور قیامت تک صاف راہنمائی کرنے والا بھی۔ والحمد للہ جل 
اسی طرح قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنہ پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے طریقہءِ عمل کا بھی آپ سمیت ہر ایک کو علم ہے، مزید ائمۃءِ اربعہ نے فقہ کی تدوین کر کے احکامِ اسلام کو آسان تر طریقے سے بیان کر دیا ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج کے عاقبت نادیش نام نہاد فرقہ پرست مذہبی عناصر اور دینی پیشواؤں نے اپنے معاشی و سیاسی اغراض و مقاصد کے حصول و تحفّظ کی خاطر، خود کو اور اپنے ڈیڑھ دو سو سالوں میں پائے جانیوالے "اکابر" کو قرآن و سنّۃ، اسوۃحسنہ کی تعلیمات و ہدایات اور احکام و مقاصد اور جماعہِ صحابہءِکرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین، تابعین و تبع تبعین ائمہءِ اربعہ، سلف صالحین اور ابتدائی بارہ سو سالہ علماءِ امّۃ کے طریقہءِ عمل سے بالا تر و برتر  اور بڑاسمجھ لیا ہے اور قرآن و سنّۃ، اسوۃ حسنہ کی تعلیمات و ہدایات اور احکام و مقاصد اور جماعہِ صحابہءِکرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین، تابعین و تبع تبعین ائمہءِ اربعہ، سلف صالحین اور ابتدائی بارہ سو سالہ علماءِ امّۃ کی پیروی کو ترک کر کے فرقہ پرستی کو اپنا دین و مذہب اور ایمان بنا لیا ہے تاکہ ان کے ذاتی  ، سیاسی و مالی اور معاشی مفادات  محفوظ کریں اور انہوں نے عام اور گلی محلے کے چھوٹے مولیوں کو اپنا آلہءِ کار، محتاج  بنا رکھا ہے، تمام مدارس اور بڑی مساجد پر ایسے ہی مفاد پرسے اور خود غرض مذہبی عناصر کا قبضہ ہے اور ان کے فرقے پرستی کے یہ کارخانے انہیں کوب کما کر دے رہے ہیں، مالی و معاشی منفعتوں کے علاوہ سیاسی و معاشرتی اثر و رسوخ، طاقت و قؤّۃ، بے ماہ وسائل، اور سرکاری  و سیاسی مناصب بھی اس پر مستزاد ہیں۔
 ہم سب جانتے ہیں کہ آیاۃِ قرآنی اور صحیح و متفق علیہ احادیث مبارکہ کی نصوصِ قطعیّہ سے عبارۃ النّص( دلالۃ القطعیہ ) کے ذریعے یہ حکم ثابت ہے کہ مسلمانوں کی جماعۃ "امّۃِ مسلمہ "کے اندر کوئی الگ مذہبی و دینی گروہ، یا فرقہ بنانا حرامِ قطعی ہے۔ فرقہ پرستی کو جو کہ قرآن و سنّۃ کی رو سے حرامِ قطعی ہے، حلال و جائز سمجھ کر اختیار کرنا بلاشبہ اللہ و رسول اللہ ﷺ سے کھلا اعلانِ بغاوت، دینِ اسلام سے انحراف اور صریحاً ناجائز،حرام اور کفر و ارتداد کے مترادف و مصداق اور مماثل عمل ہے
مگر پھر بھی  یہ عاقبت نا اندیش مفاد پرست و خود ضرض نام نہاد مذہبی عناصر،اللہ و رسول اللہ ﷺ کے احکامات و ہدایات اور تعلیمات کو چھوڑ کر  اور صحابہءِ کرام  رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے طریقہء، عمل کے برعکس فرقہ پرستی اور گمراہ کن انسانی افکار و نظریات کی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں  اور عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں لگے رہتے ہیں،  قرآن و سنّۃ اور اسوۃحسنہ  کی تعلیمات و ہدایات، احکامات و مقاصد و حقانیت کی تبلیغ و ترویج اور تنفیذ ، غلبے ، بالادستی و برتری ، سربلندی و غلبے کی جِدّوجُہد کے بجائے اپنے اپنے فرقوں   کے گمراہ کن افکار و نظریات کی تبلیغ و ترویج ، غلبے، برتری و بالادستی  کی کوششوں میں ہی مصروفِ عمل رہتے ہیں، جس صاف اور سیدھا مطلب اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہم جنّت الفردوس میں جانے سے انکار کر کے جہنّم کو کو اپنے اوپر واجب و لازم کرنے کیلئے سرگرمِ عمل ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں اللہ و رسول اللہ ﷺ کو عملی طور پر بھی  اپنے اپنے اکابر سے بڑا مانیں اور جانیں اور اپنے اکابر کی ایسی کسی بھی بات، تعلیم فکر، سوچ اور نظریے کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیں جو قرآن و سنّۃ اور اسوۃحسنہ کی تعلیمات و ہدایات، احکامات و مقاصد کے عین مطابق نہ ہو ں مثلاً فرقہ پرستی اور دیگر خرافات، اختراعات، و فروعات و بدعات وغیرہم۔ چاہئے کہ  ہم سم مسلمان فرقہ وارانہ مذہبی منافرت اور اپنے اپنے فرقوں ہے لا تعلقی اختیار کر لیں، جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے طرزِ فکروعمل اور طوروطریقوں کے عین مطابق، فقط قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنہ کو دینِ اسلام سمجھیں اور اسی کی  تفہیم و تعلیم، تعمیل واطاعت و اتباع اور پیروی ، تبلیغ و ترویج، احیاءِ اتحادِ امّۃِ مصطفوی، اخوّۃِ اسلامی، قرآن و سنّۃ کی بالادستی و برتری، سربلندی و نفاذ ،  غلبہ ءِ اسلام کی راہ ہموار کرنے کی جِدّوجُہد کو اپنا شعار بنالیں۔ فقط فرقہ پرستی ہی احیاءِ اتحاڈِ اُمّۃِ مصطفوی، اخوّۃِ اسلامی اورغلبہءِ دینِ حق "الاسلام" کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔



No comments:

Post a Comment