Monday, 21 September 2015

میرِ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

میرِ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
تحریر : پرویزاقبال آرائیں
وحدتِ امّت میں مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک دن نمازِ فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا مزاج کیسا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں! ٹھیک ہی ہے میاں، مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کر دی۔ میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے۔ ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمتِ دیں میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ تو حضرت نے فرمایا کہ میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر ضائع کر دی میں نے عرض کیا کہ حضرت اصل بات کیا ہے؟ فرمایا،ہماری عمر کا ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کوششوں کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفی مسلک کی ترجیح قائم کر دیں، امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں، یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔۔۔ اب غور کرتا ہوں کس چیز میں عمر برباد کر دی۔ پھر فرمایا" ارے میاں! اس بات کا کہ کون سا مسلک صحیح تھا اور کون سا خطا پر, اس کا راز کہیں حشر میں بھی نہیں کھلے گا اور نہ دنیا میں اس کا فیصلہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی قبر میں منکر نکیر پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا؟ آمین زور سے کہنا حق تھا یا آہستہ کہنا حق تھا؟ برزخ میں بھی اسکے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا۔۔۔ روزِ محشر اللہ تعالیٰ نہ امام شافعی کو رسوا کرے گا نہ ہی امام ابوحنیفہ کو نہ امام مالک کو نہ امام احمد بن حنبل کو۔ اور نہ میدانِ حشر میں کھڑا کر کے یہ معلوم کرے گا کہ امام ابو حنیفہ نے صحیح کہا تھا یا امام شافعی نے غلط کہا تھا، ایسا نہیں ہوگا۔ تو جس چیز کا نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے نہ برزخ میں نہ محشر میں، اس کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی اور جو "صحیح اسلام" کی دعوت تھی جو سب کے نزدیک مجمع علیہ، اور وہ مسائل جو سب کے نزدیک متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام لے کر آئے تھے، جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا، وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی، آج اس کی دعوت تو نہیں دی جا رہی۔ یہ ضروریاتِ دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے و اغیار سبھی دین کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگنا چاہئے تھا وہ پھیل رہے ہیں۔ گمراہی پھیل رہی ہے، الحاد آرہا ہے۔ شرک و بدعت پرستی چلی آ رہی ہے، حرام و حلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے۔ لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی وفروعی بحثوں میں، اس لئے غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں کہ عمر ضائع کر دی۔
ذرا غور فرمائیں کہ جب  درست و بجا طور پر اپنے فقہی امام (جس کے آپ مقلّدہوں) ان کے فقہی مسلک و مذہب اور بیان کردہ فقہی مسائل کودیگر ائمہ پر ترجیح دینے اور ان کی حقانیّت کو ثابت کرنے اور ترویج و تبلیغ اور ترجیح دینے کےعمل کواپنی عمررائیگاں کردینے  کے مماثل، مترادف و مصداق  ناپسندیدہ و ناجائز عمل ہے  تو پھر اپنے فرقہ کےبے بنیاد و من پسند، من گھڑت، خود ساختہ،  افکار و نظریات ، اختراعات و خرافات، لغویات و بدعات  کو،قرآن و سنّۃ اور اسوۃ حسنہ نیز جماعۃِ صحابہءِ کرام (رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین )کے طرزِ فکروعمل اور طور و طریقوں پر ترجیح و فوقیت دینے اوراپنے فرقہ کی برتری و بالادستی ثابت کرنے کی جدّوجُہدکے عمل کی کیا حیثیت و حالت ہو گی؟
کیا فرقہ پرستی  و اکابر پرستی حرام نہیں ؟ کیا  اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ نے سختی کے ساتھ اس سے منع نہیں فرمایا ہے؟ کیا  فرقہ پرستی پر جہنّم کو واجب قرار دینے کی سخت ترین وعید نہیں  فرمائی ہے؟
جو لوگ قرآن و سنّۃ کے احکامات، تعلیمات، ہدایات کی اطاعت و اتباع اور جماعۃِ صحابہءِ کرام (رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ) کے طریقے کی پیروی، اتحادِ امّۃ اور اخوّۃِ اسلامی کی دعوت کو عملاً ناپسند کرتے اور داعی کو لعن طعن کرتے ہیں اور اپنے فرقہ اکابرین کو قرآن و سُنَّۃ کے احکامات پر عملاً ترجیح دیتے ہیں کیا انہیں  اپنی ایمانی صحت اور حالت پر غور کرنے کی ضرورت  نہیں ہے؟
سورۃ السّجدہ، آیۃنمبر20 میں ارشادِ ربُّ العا لَمین ہےکہ  اور جن لوگوں نے فسق قرآن و سنّۃ کی نافرمانی و حکم عدولی کا راستہ  اختیار کیاہے ان کا ٹھکاناجہّنم ہے کہ جب اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ پلٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس جہنمّ کی آگ کا مزہ چکھو جس کا تم انکار کیا کرتے تھے
اللہ تعالٰی ہمیں سمجھنے سوچنے، غور و فکر کرنے، اپنے فرقہ کے بے بنیاد، من گھڑت و من پسند اور خود ساختہ انسانی و بشری افکار و نظریات  کے مقابلے میں قرآن و سُنَّۃ کے احکامات  کی تعمیل و اطاعت کو ترجیح و فوقیت دینے کی توفیق عطا فرمائے، صراطِ مستقیم  پر چلنے،  پانچوں وقت باقاعدگی اور خشوع و خضوع کے ساتھ کما حقہٗ صلاۃ قائم کرنےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اسوہءِ حسنہ  کی  کامل اتباع و پیروی کو اوَّلیت دینے  اور اختیار کرنے کی کی  توفیق عطا فرمائے ، آمین
واللہ و رسولہٗ اعلم بالصّواب
(تحریر: ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)
 


No comments:

Post a Comment