قرآن و سُنَّۃ پرمبنی دینِ اسلام میں فرقہ پرستی کی گنجائش نہیں
فرقہ پرستی، الله تعالٰی اور رسول الله ﷺ کے حکم کا کفر ہے
الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے:
"يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ"
مفہوم: ''اے ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو کہ جس طرح اُس سے ڈرنے کا حق ہےاورتمہاری موت صرف اسی حال میں آئے کہ تم( فقط )مسلمان ہو، (یعنی تمہیں ہرگزموت نہ آئے مگر صرف اس حال میں کہ مسلمون (مسلمان) ہونا ہی فقط تمہاری دینی و مذھبی پہچان و شناخت ہو) اور تم سب اللہ کی رسی (کتاب اللہ ) کو مضبوطی سے تھا م کر رکھو اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم سب (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی اور تم اُس (اللہ) کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے اور تم دوزخ کی آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھےپھر اُس (اللہ) نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا ، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ" (3سورة آلِ عمران، آیۃ نمبر102 تا 103)
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے :"وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ۭ مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ هُوَ مَوْلٰىكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ"
مفہوم: "اور الله (کی محبّت و اطاعت اور اُس کے دین کی اشاعت و اقامت) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کرنے کا حق ہے ۔ اُس (اللہ) نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اُس نے تم پر دین کی کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی ) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السّلام) کا دین ہے۔ اُس (الله) نے تمہارا نام "مسلمین "(مُسلم یعنی مسلمان) رکھا ہے، اِس سے پہلے کی کتابوں میں بھی اور اِس ( قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسول (آخرُالزّماں ﷺ) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ، پس (اس مرتبے پر فائز رہنے کےلئے) تم صلٰوۃ قائم کیا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اللہ (کی راہ قرآن و سُنَّۃ یعنی صراطِ مستقیم ) کو مضبوطی سے تھامے رکھو ، وہی تمہارا مددگار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مددگار ہے" (22سورة الحج،، آیۃ نمبر78)
الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے :
"وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ ۣاَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ وَاَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِيْ رَحْمَةِ اللّٰهِ ۭ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ"
مفہوم: "اور تم (لوگ) اُن لوگوں کی طرح مت ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب اُن کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے اور اُنہی لوگوں کےلئے (اس روز) سخت عذاب ہے جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے ، تو جن کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے (اُن سے کہا جائے گا) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ؟ تو جو کفر تم کرتے رہے تھے سو اُس کے عذاب کا مزہ چکھ لو، اور جن کے چہرے سفید (روشن) ہوں گے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے، اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے" (3سورة آلِ عمران، آیۃ نمبر105 تا 107)
الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے :
"اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ"
مفہوم: " بےشک جن لوگوں نے (فرقے بنا کر) اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ فرقوں (مُختلف مذہبی گروہوں) میں تقسیم ہو گئے، آپ (ﷺ) کسی چیز (معاملے) میں اُن کے (تعلق دار اور ذمّہ دار) نہیں ہیں، بس اُن کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے ، پھر وہ اُنہیں ان کاموں سے آگاہ فرما دے گا جو وہ کیا کرتے تھے"(6سورة الانعام، آیۃ نمبر159)
الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے:
"مُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ وَاتَّقُوْهُ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ"
مفہوم: "اُسی کی طرف رجوع و انابت کا حال رکھو اور اُس کا تقوٰی اختیار کرو اور صلٰوۃ قائم کرو اور اُن مشرکوں (یہود و نصارٰی و غیرھما) کی طرح بھی مت ہو جانا جنہوں نے اپنے دین (کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُس ) میں فرقے بنالئے اور وہ مذھبی گروہوں میں بٹ گئے ، ہر مذھبی گروہ (یعنی فرقہ) اسی (ٹکڑے) میں مگن ہے جو اُس کے پاس ہے" (30سورة الانعام، آیۃ نمبر31 تا 32)
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:
"وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّي لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ"
(42سورة الشورٰی، آیۃ نمبر14)
مفہوم: "اور لوگ جو تفرقہ (فرقوں) میں پڑے تو اُس کے بعد پڑے کہ اُن کے پاس علم آ چکا تھا، محض آپس کی ضد (اور ہٹ دھرمی) کی وجہ سے (ہی وہ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوئے)، اور اگر آپ کے رب کی جانب سے مقررہ مدت تک (کی مہلت) کا فرمان پہلے صادر نہ ہوا ہوتا تو اُن کے درمیان فیصلہ کیا جا چکا ہوتا اور بے شک جو لوگ اُن کے بعد کتاب کے وارث بنائے گئے تھے وہ خود اس کی نسبت فریب دینے والے شک میں (مبتلا) ہیں" (42سورة الشورٰی، آیۃ نمبر14)
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:
"قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ۭ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُوْنَ"
مفہوم: "فرما دیجیئے وہ (الله) اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیجے (خواہ) تمہارے اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں فرقہ فرقہ کر کے آپس میں بھڑائے اور تم میں سے بعض کو بعض کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھیئے! ہم کس کس طرح آیتیں (نشانیاں) بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھ سکیں" (6سورةالانعام، آیۃ نمبر65)
رسول اللهﷺ نے فرمایا:
حذيفة بن اليمان يقول کان الناس يسألون رسول الله صلی الله عليه وسلم عن الخير وکنت أسأله عن الشر مخافة أن يدرکني فقلت يا رسول الله إنا کنا في جاهلية وشر فجائنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير من شر قال نعم قلت وهل بعد ذلک الشر من خير قال نعم وفيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنکر قلت فهل بعد ذلک الخير من شر قال نعم دعاة علی أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها قلت يا رسول الله صفهم لنا قال هم من جلدتنا ويتکلمون بألسنتنا قلت فما تأمرني إن أدرکني ذلک قال تلزم جماعة المسلمين وإمامهم قلت فإن لم يکن لهم جماعة ولا إمام قال فاعتزل تلک الفرق کلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتی يدرکک الموت وأنت علی ذلک
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے (نبی ﷺسے) پوچھا کیا اس کے بعد بھی شر آئے گا؟ فرمایا :" ہاں، جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گےشةونث، جو ان کی بات مان لے گا وہ انہیں اس میں داخل کر دیں گے" ۔ میں نے عرض کیا: رسول الله ﷺ ان کی کچھ نشانیاں بیان فرمائیں ۔ فرمایا : "وہ ہمارے ہی جیسے ( یعنی اسلام کے دعویدار) ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے"۔ میں نے پوچھا: پھر اگر میں نے وہ زمانہ پا لیا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں: فرمایا: "مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ وا بستہ رہنا" ۔ میں نے پوچھا: اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ کوئی امام ، فرمایا: "پھر ان فرقوں سے علیحدہ رہناخواہ تم کو درخت کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ اسی حالت میں تم کوموت آجائے۔'' ( بخاری ۔ کتاب الفتن، باب الامر اذالم تکن جماعۃ)
حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں ۔
افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وستفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة، قيل: من هي يا رسول الله؟ قال: من كان على مثل ما أنا عليه وأصحابي.
73فرقوں والی حدیث سےدراصل فرقوں کی ممانعت اور ان پر جہنّم کی وعید ثابت ہے، اس سے فرقوں کے وجود کا کوئی اثبات و جواز ثابت ہر گز نہیں ہوتا ہے.
فرقوں کے حوالے سے ایک حدیث مبارکہ کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
یعنی یہود 71 اور نصاریٰ 72 فرقوں میں بٹ گئے اور یہ امت مسلمہ عنقریب 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ایک کو چھوڑ کر سارے فرقے جہنم رسید ہوں گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ وہ جہنم سے بچنے والا فرقہ کون سا ہو گا ؟آپ ﷺ نے فرمایا جو اس طور طریقہ پر ہو گا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں ۔
عام طور پرعام لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے یا پیدا کر دی جاتی ہے کہ جس حدیث میں 73 فرقوں کی بات بیان ہوئی ہے اُس حدیث سے یہ ثابت ہوتا کہ کسی نہ کسی فرقے میں رہنا ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے لوگ بہتر(72) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور امت مسلمہ تہتر (73) فرقوں میں تقسیم ہو گی اِن میں سے بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنّت میں، اور وہ ہے جماعت۔
اب جہنم کی آگے سے بچنے کا ہمارے پاس فقط بس ایک ہی طریقہ ہے کہ ان فرقوں اور گروہوں سے فوری طور پر تعلق و وابستگی ختم کرکے یکسوئی کے ساتھ صرف "مسلم" بن جائیں اور اسی پر اکتفاء کریں ہماری وابستگی مسلمانوں ہی کی جماعت "اُمَّۃِ مسلمۃ"سے ہو اور کسی بھی فرقہ سے قطعاً کوئی تعلق نہ ہو.
قرآن و سُنَّۃ کے متعدد واضح احکامات کا نکار کرتے ہوئے آج فرقہ پرستی و اکابر پرستی کی راہ اختیارکی جا رہی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ خود نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ میر ی امت میں 73 فرقے ہوں گے۔
حالانکہ نبی ﷺ کا یہ فرمان امت کی گمراہی اور تباہی کی نشاندہی کے طور پر تھا، نہ کہ فرقہ بنانے کی تائید میں۔
یہ جو حدیث ہےوہ مکمل مشکوٰۃ شریف میں اس طرح آئی ہے کہ:
"حضور صلی اللہ علیہ و آلِہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر (۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئی تھی اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔ صحابہ کرام رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول الله صلی الله علیه و آلِہٖ وسلم وہ کون ساہے؟ آپ صلی الله علیه و آلہٖ و سلم نے فرمایا وہ جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔"
سب سے پہلے سمجھنے والی بات تو یہ ہے کہ یہ حدیث جید محدثین نے قبول نہیں کی ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے بالخصوص حدیث کا آخری حصہ کہ ایک میں اور باقی جہنم میں جائیں گے، اس پر محدثین نے خاصا کلام کیا ہے۔ یہ حدیث دراصل دوسرے تیسرے درجے کی کتابوں میں آئی ہے، یہ حدیث دوسرے انداز سے اور بھی کئی مجموعوں میں آئی ہے، لیکن سب کا حال یہی ہے۔ تاہم اس مضمون پر احادیث کی کثرت کی اور دوسرے طرق کی بناء پر یہ حسن کے درجے پر پہنچ جاتی ہے یعنی آپ اسے قابل قبول کہہ سکتے ہیں اور اس کے مضمون پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے جید محدثین نے کیا ہے ۔
لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو عام طور پر اخذ یا بیان کیا جاتاہے بلکہ اس حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروہ بندی کی جو پیشن گوئی بیان ہوئی ہے وہ محض بطور تنبیہ و نصیحت اور سخت وعید کےلئے ہے نہ کہ فرقوں کے اثبات و جواز کےلئے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ اس حدیث سے فرقہ واریت کی تائید ہوتی ہے ، تو اس ضمن میں سب سے پہلے یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیئے کہ قرآن حکیم اور کئی احادیث میں واضح طور پر فرقوں کی ممانعت آئی ہے اور اس بدعملی کو اختیار کرنے پر انتہائی سخت وعید ثابت ہوتی ہے۔
فرقہ ایسے لوگوں کے مذھبی گروہ کو کہتے ہیں جو قولاً یا عملاً اصولُ الدین یعنی اصل بنیاد قرآن و سُنَّۃ اور اسوۃ حسنۃ کی پیروی سے منحرف ہو جائیں اور اسلام سے جداگانہ نام سے کوئی مذھب گھڑ کر اس کو اپنی مذھبی پہچان و شناخت کے طور پر اختیار کر لیں اور مسلم (مسلمان) کے بجائے اپنے فرقہ کی نسبت سے کسی بھی دوسرے فرقہ وارانہ نام سے پہچانے جانے لگیں اور وہ اس کو ناپسند نہ کرتے ہوں، اپنی مذھبی شناخت کو الگ رکھنے کے لئے صحابہءِ کرام رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین اور تابعین و تبع تابعین کے ادوار میں مسلمانوں کے اختیار کردہ شعائرِ اسلام، طور و طریقوں اور طرزِ فکر و عمل اور قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کے خلاف عمل کرتے ہوئے اپنی مساجد و مدارس کی علیٰحدہ پہچان و شناخت اختیار کریں۔
جیسے کہ مسجد بلا تخصیص و تفریق اور بلا امتیاز تمام مسلمانوں کی عبادتگاہ یعنی الله کی عبادت کا گھر ہے اگر کوئی گروہ اپنی الگ بناتا ہے اور کوئی بھی ایسی مذھبی پہچان و شناخت کرواتا ہے کہ جس سے پتا چلے کہ یہ مسجد فلاں مذھبی گروہ کی ہے تو وہ مذھبی گروہ فرقہ کے زمرے میں آتا ہے، جو بھی کوئی شخص کسی مسجد یا مدرسہ کو اپنے فرقے کا اور دوسری کسی مسجد و مدرسہ کو غیر یعنی کسی دوسرے فرقہ کی مسجد و مدرسہ سمجھتا ہے ایسا سخص ہی فرقہ پرست ہے، اور جو شخص کسی خاص عالِمِ دین کو اپنے فرقے کا عالِم اور کسی دوسرے عالمِ دین کو اپنے فرقہ کا عالمِ دین نہیں سمجھتا ایسا شخص فرقہ پرست کہلاتا ہے۔
فروعی معاملات و مسائل میں علمی اور مدلل اختلافِ رائے ایک لازمی و منطقی بات ہے بشرطیکہ اس سے اصولُ الدّین اور مقاصدِ اسلام کی مخالفت لازم نہ آتی ہو۔ فروعات میں ایسے فقہی و اجتہادی اختلافِ رائے فرقہ بندی، فرقہ واریت یا فرقہ پرستی یا اکابر پرستی کے زمرے میں نہیں آتے۔ جیسے کہ فروعات میں ائمہءِ فقہاء و مجتہدین کے اقوال۔
نبی ﷺ نے امت کی گمراہی اور تباہی کا ذکر اس طرح فرمایا:
حدثنا سعيد بن أبي مريم حدثنا أبو غسان قال حدثني زيد بن أسلم عن عطائ بن يسار عن أبي سعيد رضي الله عنه أن النبي صلی الله عليه وسلم قال لتتبعن سنن من قبلکم شبرا بشبر وذراعا بذراع حتی لو سلکوا جحر ضب لسلکتموه قلنا يا رسول الله اليهود والنصاری قال فمن
''تم پہلی امتوں کی ضرور بالضرور پیروی کرو گے ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز۔ یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔ ہم (صحابہ رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین) نے عرض کیا: یا رسول الله ﷺ کیا یہود و نصاریٰ ( مراد ہیں)، فرمایا:اور کون؟ (بخاری ۔ کتاب الانبیا: باب : نبی اسرائیل کے واقعات)
معاوية بن أبي سفيان أنه قام فينا فقال ألا إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قام فينا فقال ألا إن من قبلکم من أهل الکتاب افترقوا علی ثنتين وسبعين ملة وإن هذه الملة ستفترق علی ثلاث وسبعين ثنتان وسبعون في النار وواحدة في الجنة وهي الجماعة زاد ابن يحيی وعمرو في حديثيهما وإنه سيخرج من أمتي أقوام تجاری بهم تلک الأهوا کما يتجاری الکلب لصاحبه وقال عمرو الکلب بصاحبه لا يبقی منه عرق ولا مفصل إلا دخله
صفوان رضی الله تعالیٰ عنہ سے اسی طرح مروی ہے کہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوسفیان فرماتے ہیں کہ وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ آگاہ رہو بیشک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم سے پہلے جو لوگ تھے اہل کتاب میں سے وہ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور بیشک یہ امت عنقریب 73 فرقوں میں منتشر ہوجائے گی ان میں سے 72 آگ میں داخل ہوں گے اور ایک جنت میں جائے گا اور وہ فرقہ جماعت کا ہوگا۔ محمد بن یحیی اور عمرو بن عثمان نے اپنی روایتوں میں یہ اضافہ کیا کہ آپ نے فرمایا کہ عنقریب میری امت میں ایسی قومیں ہوں گی کہ گمراہیاں اور نفسانی خواہشات ان میں اس طرح دوڑیں گی جس طرح کتے کے کاٹنے سے بیماری دوڑ جاتی ہے کہ کوئی رگ اور جوڑ باقی نہیں رہتا مگر وہ اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ (ابو داؤد ، سنت کا بیان ، باب:سنت کی تشریح)
حدثنا محمود بن غيلان حدثنا أبو داود الحفري عن سفيان الثوري عن عبد الرحمن بن زياد الأفريقي عن عبد الله بن يزيد عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم ليأتين علی أمتي ما أتی علی بني إسرايل حذو النعل بالنعل حتی إن کان منهم من أتی أمه علانية لکان في أمتي من يصنع ذلک وإن بني إسرايل تفرقت علی ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعين ملة کلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي قال أبو عيسی هذا حديث حسن غريب مفسر لا نعرفه مثل هذا إلا من هذا الوجه
''میری امت پر ایک زمانہ ضرور آئے گا جیسا کہ نبی اسرائیل پر آیا تھا، جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے ، یہاں تک کہ اگر نبی اسرائیل میں سے کسنی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا تھا تو میری امت میں بھی کوئی ہو گا، اور بے شک بنی اسرائیل 72 فرقوں میں تقسیم ہوئے تو میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی وہ سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک جماعت کے۔ (صحابہ کرام رضی الله تعالٰی عنہم ) نے عرض كيا: اے الله کے رسول ﷺ وہ جماعت کون سے ہوگی؟ فرمایا: جو میرے ﷺ اور میرے اصحابه رضوان الله تعالٰی عليہم کے طریقے کی پیروی کرتی ہو گی" (ترمذی : باب الاعتصام بالکتاب و سنۃ)
( یہ روایت سندا غریب ہے لیکن صحیح روایات میں یہی بات کی گئی ہے لہذا اسے صرف تائید میں قبول کیا جا سکتا ہے)
رسول الله ﷺ کے فرمان نے واضح کر دیا کہ دین ِ اسلام کے نام پر بنائے گئے فرقوں سے تعلق رکھنے والے سب کے سب جہنم میں جانے والے ہیں صرف ایک جماعت ہے جو جنت میں جائے گی اور یہ لوگ وہ ہیں ''جو میرے طریقے پر اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوں گے۔'' یعنی وہ جماعت جس کے عقائد و اعمال الله کے نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کے عقائد و اعمال کے مطابق ہوں گے۔
ہر شخص و گروہ اپنے عقائد و اعمال کا جائز ہ لے کہ وہ الله کے نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم اجمعین کے طریقے پر عمل پیرا ہے یا خو د ساختہ فرقوں میں پھنسا ہوا ہے، اور یہ اس کا یہ عقیدہ و عمل قیامت کے دن اسے واصل جہنم کرائے گا یا اسے جنت کی نعمتیں دلوائے گا۔
سب سے پہلا موازنہ یہ ہے کہ نبی ﷺ اور صحابه ؓ فقط "مسلم" تھے یا دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، سلفی وغیرہم؟
الله تعالٰی نے اپنے نازل کردہ اور اپنے پسندیدہ دین "اسلام " کے پیروکاروں کی صرف ایک "دینی" پہچان بیان فرمائی ہے اور ان کا نام " مسلم" رکھا، اس کے علاوہ اسلام کے پیروکاروں کا کوئی اور نام یا صفاتی نام بیان نہیں کیا گیا۔
آئیے، اسلام کے نام پر رائج عقائد و اعمال کا موازنہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین کے عقائد و اعمال، طرزِ فکر و طور و طریقوں کے ساتھ کریں۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے:
'' الله روحوں کو قبض کر لیتا ہے انکی موت کےوقت اور جن کی موت نہیں آئی ان کی سوتے وقت، پھر جس پر موت کا فیصلہ کرتا ہے اس کی روح روک لیتا ہےاوردوسری ارواح کو چھوڑ دیتا ہے ایک مقررہ وقت تک کے لئے۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غورو فکر کرتے ہیں۔'' (39سورۃ الزمر،آیۃ نمبر43)
ارشادِ باری تعالٰی ہے کہ ''میرا بندہ جب بھی مجھے پکارتا ہے تو میں قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب پکارتا ہے تو جواب دیتا ہوں، تو چاہیےکہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ہی ایمان لائیں ۔'' (2سورۃالبقرہ،آیۃ نمبر186)
اور ہم نےانسان کو بنایا ہےاور ہم اس کے دل میں اٹھنے والے وسوسوں سے بھی واقف ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔'' (50سورۃ ق، آیۃ نمبر16)
الله تعالٰی فرماتا ہے: ''کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہ اٹھا ئے گا، اور انسان کے لئے وہی ہےجس کی اس نے کوشش کی ۔''
(53سورۃالنجم ، آیۃ نمبر38 تا 39)
''جس نے نیک عمل کیا اسی کے لئے ہے اور جس نے برائی کمائی اس کا وبال اسی پر ہے'' (45 سورۃالجاثیہ، آیۃ نمبر 15)
قرآن وسُنَّت سے دراصل یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ دینِ سلام میں فرقہ اور گروہ بنانا، اس میں شامل ہونا، الله تعالٰی کے حکم کا انکار اور مشرکانہ انداز ہے، ایسا کرنے والے کا الله کے نبی ﷺ سے کوئی تعلق نہیں ۔ فرقہ و گروہ بندی دراصل الله تعالٰی کی طرف سے عذاب کی ایک صورت ہے۔نبی ﷺ نےاس بات کا حکم فرمایا کہ کوئی شخص کسی فرقہ یا گروہ سے کوئی تعلق نہ رکھے خواہ اس کو پوری دنیا سے کٹ جانا پڑے، اسے کھانے تک کے لئے کچھ نہ ملے اوراسے درخت کی جڑیں چبانی پڑیں اور اسی حالت میں اسے موت آجائے۔ مزید یہ بھی حکم دیا گیا کہ اگر مسلمانوں کی جماعت مل جائے تو لازم ہے کہ اس سے وابستگی اختیار کی جائے اور اس کے امیر کی اطاعت کی جائے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے برخلاف آج کل کے اِلَّا مَاشِاءَاللہ! اکثروبیشترکلمہ گُو لوگوں کے مذھبی پیشواؤں نے ان کو بے شمار فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے اور ان کی دینی شناخت و پہچان، سلفی، اہلحدیث، وہابی، دیوبندی، بریلوی، عطاری، پرویزی، تبلیغی، جماعتی اور نہ جانے کیا متعارف کروا رکھی ہے، حالیہ ڈیڑھ دو صدیوں کے دوران جنوبی و جنوب مغربی ایشیا، بالخصوص برِّصغیر میں بعض عاقبت نااندیش مذھبی پیشواؤں نے نادانستہ و نادانستہ قرآن و سُنَّۃ اور اُسوۃ حسنہ سے صریحاً انحراف و روگردانی کرتے ہوئے اپنے اپنے من گھڑت و من پسند ، خوس ساختہ و بے بنیاد ، گمراہ کُن و تباہ کُن انسانی و بشری افکار و نظریات، اختراعات و خرافات، بدعات و لغویات اور تجاوزات پر مشتمل اپنا اپنا علیٰحدہ فرقہ وارانہ مذھب بنالیا ہوا ہے۔ اپنی اپنی فرقہ وارانہ مذھبی و سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں بنا لی ہیں، اپنے اپنے من پسند و من گھڑت تبلیغی و مذھبی نصاب ترتیب دے لئے ہیں، اپنے اپنے فرقے کی الگ الگ مساجد بنا لی ہیں جو اُنہی فرقوں کے نام سے ہی جانی و پہچانی جاتی ہیں، دارُالعلوم و مدرسہ اور جامعہ وغیرہ کے مقدس ناموں سے اپنے اپنے فرقے کی تربیت گاہیں بنا لی ہیں جہاں سے نہ صرف ایک دوسرے فرقے کے خلاف تکفیری فتاوٰی کی بوچھاڑ ہوتی ہے بلکہ یہود و نصارٰی اور دیکر کُفّار و مشرکین کے خلاف کلمہ گو لوگوں کے خلاف تصنیفات و تالیفات اور مذھبی منافرت پھیلانے والا لٹریچر شائع کیا جاتا ہے، ہر کوئی اپنے فرقے کو برتر و بالادست اور غالب کرنے کی فکر و منصوبہ بندی میں لگا رہتا ہے، قرآن و سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات، مقاصدِ دین کو سب ہی فرقوں ًنے پسِ پُشت ڈال رکھا ہے، دین اسلام کی برتری و بالا دستی اور غلبہ کسی کے پیشِ نظر نہیں ، تبلیغی نصاب بھی ہر ایک کے اپنے اپنے اور فرقہ وارانہ نظریات کے پرچار کےلئے گھڑے ہوئے ہیں حالانکہ دینِ اسلام کا نصاب تو فقط قرآن و سُنَّۃ اور اُسوۃ حسنۃ پر مبنی ہے۔
فرقہ پرستی کے شرک کو گلے لگا کر امت مسلمۃ کے اتحاد بلکہ وجود کو ہی پارہ پارہ کر کے رکھ دیا گیا ہے، اخوۃِ اسلامی کی جگہ مذھبی منافرت نے لے رکھی ہے، مسلم معاشرہ تباہ و برباد ہو کر تنزّلی و انحطاط اور پستی کی گہرائیوں میں کہیں غرق ہو چکا ہے، انتشار و افتراق، تباہی و بربادہ، ذلّت و رُسوائی ہر طرف مسلمانوں کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ ہر قسم کی برائیوں، بے حیائی، سنگین جرائم، حرام خوری و سود خوری، عریانی و فحاشی، بد دیانتی و فرض نا شناسی، حقوق العباد کے اتلاف، قطع رحمی، طمع، لالچ، بغض و عناد، کینہ پروری، چغل خوری و غیبت، لوٹ مار، چوری ڈکیٹی، اغوا، قتل و غارتگری، زناکاری و بدکاری، دہشت گردی، بدعملی و بے غیرتی ، جعل سازی، مکر و فریب، جھوٹ، دھوکہ، وعدہ خلافی، ہر سطح پر ہر قسم کی بدعنوانی و کرپشن، نا انصافی، معاشی ناہمواری، عدمِ مساوات، حق تلفی، بے رحمی، بے راہ روی، دین سے بیزاری و دوری اور فرقوں سے قربت، ہر طرح کے مظالم معاشرے میں اپنی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں، اللہ، موت، قبر، حشر، آخرت، جہنّم کا خوف صرف زبانی کلامی عقیدے کے دعوے کی حد تک ہی باقی بچا ہے اس عقیدے کے انسانی زندگی پر اثرات مرتب ہونا بالکل ختم ہو چکے ہیں۔
میری نظر میں ان ساری برائیوں کی اصل جڑ یہ ہے کہ نام نہاد مذہبی طبقہ نے مسلم معاشرت سے اپنا تعلق عملا صرف اپنے مالی و معاشی مفادات (مسجد و مدرسہ کے نام پر چندے، زکوٰۃ، خیرات، عطیات، صدقات، صدقۃءِ فطر، قربانی کی کھالوں، نذر و نیاز، قرآن خوانی وغیرہ تک ہی محدود کرلیا ہے اور معاشرتی اصلاح کی ذمہ داری سے وہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں ڈر ہے کہ قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کی تعمیل و اطاعت اور ترویج و تبلیغ نیز اسوۃ حسنۃ کی پیروی کو اختیار کیا تو ہمارے چندے، عطیے وغیرہ کم ہو جائیں گے، قرآن و سُنَّۃ سے عملا روگردانی و عملی انحرف کر کے فرقہ پرستی کو فروغ دینے میں ان کے ایک طرف تو یہ مالی و معاشی مفادات ہیں تو دوسری طرف سماجی و سیاسی مقاصد بھی کارفرما ہیں۔
فرقہ پرستی و اکابر پرستی کے ذریعے نام نہاد مذہبی عناصر کو جو سیاسی و معاشی مفادات حاصل ہوتے ہیں وہ بھی اُن کےلئے نہایت اہم ہیں کہ اسی بناء پر تو خود کو منتخب کروانے کےلئے اپنے فرقے کے فرقہ پرست کارکنوں و اکابر پرست جانثاروں کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ کی بنیاد پر اپنے فرقہ کے افراد سے ووٹ اور نوٹ دونوں حاصل کرتے ہیں اس لئے اپنے فرقہ کے افراد میں اضافے کی ہر طرح سے سرتوڑ کوششیں وہ جاری رکھتے ہیں۔ فرقہ پرستی و اکابر پرستی کو فروغ دینا اور قرآن و سُنَّۃ نیز اُسوۃ حسنۃ کو پسِ پشت ڈال کر اُن سے عملاً انحراف و روگردانی آج کل کے مفاد پرست و خود غرض مذھبی عناصر کی اوّلین ضرورت بن چکی ہے ۔ لوگوں کے ذہنوں کو بھی کافی حد تک خراب کر دیا گیا ہے اور اُن کو سبق پڑھایا گیا ہے کہ قرآن و سُنَّۃ اور اسوۃُ حسنۃ کی اطاعت و اتباع اور پیروی فقط یہی ہے کہ اپنے فرقہ کے مولوی کے علاوہ کسی کی بات مت سنو، کتابیں بھی فقط اپنے ہی فرقے کے مولویوں کی پڑھو، ترجمہءِ قرآن و تفسیر بھی کسی بھی دوسرے عالم دین کی تفسیر مت پڑھنا پہلے ہم سے پوچھنا کہ کس کا ترجمہ اور کس کی تفسیر پڑھیں ورنہ تم گمراہ ہو جاؤ گے، وعظ و نصیحت، تقاریر و خطبات وغیرہ، حتی کہ تلاوۃ قرآن بھی اپنے ہی فرقہ کے حافظ، قاری، مولوی، عالم سے ہی سننا، سی۔ ڈیز اور کتابیں بھی فقب اپنے ہی فرقہ کے مولیوں کی خریدنا اور سُننا پڑھنا، اپنے فرقہ کے کسی بھی مولوی صاحب کو کبھی برا مت کہنا (چاہے وہ جو کچھ بھی کرے، اُس کا سیرت و کردار اور قول و عمل چاہے جتنا بھی بُرا، خلافِ قرآن و سُنَّۃ ہی کیوں نہ ہو) دوسرے فرقہ کے کسی بھی عالِم ، حافظ، قاری، مولوی وغیرہ سے کبھی متاثر مت ہونا اور نہ ہی کبھی اُن کی مجلس میں بیٹھنا، ان کی کبھی کوئی بات مت سُننا وہ سب کافر و مشرک ہیں قابلِ نفرت اور زمین پر بوجھ ہیں) اُن کے کسی بھی قول و عمل کی کبھی بھی تعریف و تائید ہر گز مت کرنا چاہے وہ قرآن و سُنَّۃ کے عین مطابق ہو اور بات کرنے والا چاہے کتنا بھی مُتَّقِی و پرہیزگار ہو، صالح و باعمل عالِمِ دین ہو اس سے ہمیشہ دوری اختیار کرنا اں کی کسی بھی بات کا کبھی اعتبار نہ کرنا ہی ہی کبھی اُن کے ساتھ کسی بھی معاملے میں کوئی مالی تعاون کرنا چاہے وہ مسجد کی تعمیر ہی کیوں نہ ہو، اُن کی مسجد میں تعاون بھی گناہ ہے حالانکہ یہ ساری باتیں بالکل غلط و بے بنیاد ہیں اورغلط فہمی یا بدنیّتی پر مبنی ہیں۔
دراصل اُنہیں یہ دھڑکا لاحق رہتا ہے کہ کہ ان لوگوں کو اگر قرآن و سُنَّۃ کی صحیح سمجھ آ گئی اور اُن میں قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کی تعمیل و اطاعت اور اُسوۃ حسنۃ کی اتباع و پیروی کا جذبہ اُبھر آیا تو پھر فرقہ پرست پروہت طبقات, نام نہاد مذھبی پیشواؤں کے ٹھاٹھ باٹھ جاتے رہیں گے، سارے مسلمان تو آپس میں قرآن کا حکم مان کر بھائی بھائی بن گئے تو فرقہ کی بنیاد پر چندے، عطیے اور ووٹ ان فرقہ پرست نام نہاد مذھبی پیشواؤں کو پھر کون دے گا۔
عام مُلّا مولوی تو بیچارہ انجانے میں اُس نامعلوم ٹرک کی بتی کے یچھے پیچھے بھاگتا چلا جا رہا ہے کہ جس کے پیچھے اُس فرقہ کے بڑوں(اکابر) نے اُسے لگا دیا ہے، اُسے تو ظاہر ہے وہی کچھ کرنا ہے جس کی اُس کو تعلیم و تربیت دی گئی ہے، جو پڑھایا سکھایا اور بتایا گیا ہے۔ قرآن فہمی کا تو اسے بھی کوئی ذوق ہے نہ شوق کہ اُس کا کام تو قرآن و سُنَّۃ کو سمجھنے کی کوشش اور اُن کے احکامات کی تعمیل کے بغیر بھی بہترین چل رہا ہے۔ فرقہ وارانہ مذہب سے ہی تو اُس کا معاش وابستہ ہے وہ حق بات سمجھ بھی جائے تو زبان پر کیسے لا سکتا ہے؟
فرقوں کے بڑے مولوی ہی فرقہ پرستی کے سارے ثمرات (معاشی و سیاسی مفادات) و منفعتیں سمیٹتے ہیں یا پھر تھوڑے سے وہ ایسے مولوی صاحبان جو خود کسی مسجد و مدرسہ کے متولی یا مہتمم بن گئے ہیں باقی سارے عام چھوٹے موٹے مولوی صاحبان تو صرف نا سمجھی و نادانی اور بھیڑچال میں فرقہ پرستی کی پیروی اور اندھا دھند اندھی تقلید کر رہے ہیں کہ اُن کو مولوی بنانے والے فرقہ پرست مدرسہ سے بڑے مولویوں (اکابر) نے یہی کچھ بتایا سکھایا ہے کہ فرقہ ہی ہمارا اصل دین و مذہب ہے، ان بیچارے عام مولوی حضرات کو تو فقط اُن کے بڑے فرقہ پرست (اکابر) نے یہی کچھ کرنے کو کہا ہے اور فرقہ واریت کی تعلیم و تربیت دے کراپنے فرقہ کا سرگرم کارکن بنایا ہے، اپنی عقل و سمجھ، فہم و فراست اور شعور کو بروئےکار لانے غور و فکر کرنے، سوچنے سمجھنے اور قرآن و سُنَّۃ کو فرقہ سے باہر نکل کر سمجھنے کی کوشش کرنے سے منع کر رکھا ہے کہ ایسا کرنے سے تم گمراہ ہو سکتے ہو حلانکہ قرآن کو سمجھنے کی شرطِ اوّل ہی یہ ہے کہ انسان پہلے قائم اپنے تمام افکار و نظریات کو بھلا کرقرآنی ہدایت حاصل کرنے کےلئے قرآن کو پڑھ کر سمجھے اور سمجھ کر پڑھے کہ اس سے جو بھی حکم و ہدایت حاصل ہوا اسی کو صدقِ نیَّت و اخلاصِ قلبی کے ساتھ تسلیم و اختیار کروں گا اور قرآن سے جو بھی حکم و ہدایت حاصل ہوئے اُن سب کی کامل تعمیل و اطاعت اور اتباع کروں گا۔ چاہے مجھے اپنے پہلے سے اختیار و قبول کردہ افکار و نظریات سے رجوع و تائب ہونا پڑے بہرصورت قرآن کے حکم کو کی تعمیل کروں گا۔
فرقوں کے یہ "بڑے" جو "اکابر" کہلاتے ہیں وہ فرقہ کی تعلیم و تربیت دینے کے بعد ان بیچارے چھوٹے موٹے مُلا و مولویوں کو عام طور پر "نماز پڑھانے" کا "مقدس روزگار" مہیا کرنے میں مدد کرتے ہیں تاکہ وہ چھوٹا مولوی آزاد ہو کر دین کی خدمت کرنے کے بجائے انہی کے فرقے کا کارکن بنا رہے۔ اِلَّا مَاشَاءَالله! 99 فیصد سے زائد مساجد میں کیا امام مسجد و خطیب کے تقرر کی شرطِ اول یہی نہیں ہوتی ہے کہ امیدوار اسی فرقہ کا ہو جس فرقہ کے نام سے وہ مسجد منسوب ہے؟ کیا اُسی فرقہ کے کسی "بڑے مولوی" (اکابر) کی یہ تصدیق لازمی نہیں ہوتی کہ یہ امیدوار اسی فرقہ کا تعلیم و تربیت یافتہ ہے یا کسی اور ذریعے سے اس بات کی تصدیق کرکے اطمینان حاصل نہیں کرلیا جاتا؟ کیا یہی صورتحال نہیں ہے؟
اپنے سارے معاشی و سیاسی مفادات کے حصول و تحفظ کی خاطر عام لوگوں کو فرقہ پرستی میں لگائے رکھنا ہر فرقہ کے بڑے فرقہ پرست (اکابر) کی ضرورت ہے کہ ان کی اب ساری کی ساری حیثیت اسی فرقہ واریت سے وابستہ ہو کر رہ گئی ہے ۔ مختلف فرقوں کے بڑے (اکابرین) جب آپس میں کسی مشترکہ مفاد کےلئے کسی اجلاس میں ملتے ہیں تو سب ایکدوسرے کی اقتداء میں صلاۃ قائم کرتے رہتے ہیں مگر سب نے اپنے اپنے فرقہ کے پیروکاروں کو اچھی طرح باور کروایا ہوا ہے کہ دوسرے فرقہ کے امام کی اقتداء میں تمہاری صلاۃ ادا نہیں ہوتی۔
لوگو! لِلّٰه ذرا سوچو سمجھو، غور و فکر کرو! اللہ تعالٰی کے عطا کردہ عقلِ سلیم اور شعور کے نعمت و شرف کو کو بروئے کار کیوں نہیں لاتے؟! قرآن و سُنَّۃ کے بالکل واضح اور صریح احکامات، نصوص قطعیہ سے فرقہ ساری، فرقہ بندی، فرقہ واریت، فرقہ پرستی، فرقہ سے وابستگی اختیار کرنا ممنوع و حرام ہے اور قرآن و سُنَّۃ کے ان احکامات سے انحراف کرنے پر جہنّم کی وعید ثابت ہے۔
الله تعالٰی ہر کلمہ گو کو قرآن و سُنَّۃ کا صحیح فہم حاصل کرنے، اور قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کی تعمیل و اطاعت کرنے فرقہ پرستی و اکابر پرستی کے بدترین شرک سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسوۃ حسنۃ کی پیروی اختیار کرنے، صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
والله و رسولہٗ ﷺاعلم بالصواب۔
(تحرير: پروفیسر ڈاکٹر علّامہ پرویزاقبال آرائیں)
فرقہ پرستی، الله تعالٰی اور رسول الله ﷺ کے حکم کا کفر ہے
الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے:
"يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ"
مفہوم: ''اے ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو کہ جس طرح اُس سے ڈرنے کا حق ہےاورتمہاری موت صرف اسی حال میں آئے کہ تم( فقط )مسلمان ہو، (یعنی تمہیں ہرگزموت نہ آئے مگر صرف اس حال میں کہ مسلمون (مسلمان) ہونا ہی فقط تمہاری دینی و مذھبی پہچان و شناخت ہو) اور تم سب اللہ کی رسی (کتاب اللہ ) کو مضبوطی سے تھا م کر رکھو اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم سب (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی اور تم اُس (اللہ) کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے اور تم دوزخ کی آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھےپھر اُس (اللہ) نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا ، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ" (3سورة آلِ عمران، آیۃ نمبر102 تا 103)
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے :"وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ۭ مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ هُوَ مَوْلٰىكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ"
مفہوم: "اور الله (کی محبّت و اطاعت اور اُس کے دین کی اشاعت و اقامت) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کرنے کا حق ہے ۔ اُس (اللہ) نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اُس نے تم پر دین کی کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی ) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السّلام) کا دین ہے۔ اُس (الله) نے تمہارا نام "مسلمین "(مُسلم یعنی مسلمان) رکھا ہے، اِس سے پہلے کی کتابوں میں بھی اور اِس ( قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسول (آخرُالزّماں ﷺ) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ، پس (اس مرتبے پر فائز رہنے کےلئے) تم صلٰوۃ قائم کیا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اللہ (کی راہ قرآن و سُنَّۃ یعنی صراطِ مستقیم ) کو مضبوطی سے تھامے رکھو ، وہی تمہارا مددگار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مددگار ہے" (22سورة الحج،، آیۃ نمبر78)
الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے :
"وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ ۣاَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ وَاَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِيْ رَحْمَةِ اللّٰهِ ۭ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ"
مفہوم: "اور تم (لوگ) اُن لوگوں کی طرح مت ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب اُن کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے اور اُنہی لوگوں کےلئے (اس روز) سخت عذاب ہے جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے ، تو جن کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے (اُن سے کہا جائے گا) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ؟ تو جو کفر تم کرتے رہے تھے سو اُس کے عذاب کا مزہ چکھ لو، اور جن کے چہرے سفید (روشن) ہوں گے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے، اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے" (3سورة آلِ عمران، آیۃ نمبر105 تا 107)
الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے :
"اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ"
مفہوم: " بےشک جن لوگوں نے (فرقے بنا کر) اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ فرقوں (مُختلف مذہبی گروہوں) میں تقسیم ہو گئے، آپ (ﷺ) کسی چیز (معاملے) میں اُن کے (تعلق دار اور ذمّہ دار) نہیں ہیں، بس اُن کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے ، پھر وہ اُنہیں ان کاموں سے آگاہ فرما دے گا جو وہ کیا کرتے تھے"(6سورة الانعام، آیۃ نمبر159)
الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے:
"مُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ وَاتَّقُوْهُ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ"
مفہوم: "اُسی کی طرف رجوع و انابت کا حال رکھو اور اُس کا تقوٰی اختیار کرو اور صلٰوۃ قائم کرو اور اُن مشرکوں (یہود و نصارٰی و غیرھما) کی طرح بھی مت ہو جانا جنہوں نے اپنے دین (کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُس ) میں فرقے بنالئے اور وہ مذھبی گروہوں میں بٹ گئے ، ہر مذھبی گروہ (یعنی فرقہ) اسی (ٹکڑے) میں مگن ہے جو اُس کے پاس ہے" (30سورة الانعام، آیۃ نمبر31 تا 32)
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:
"وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّي لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ"
(42سورة الشورٰی، آیۃ نمبر14)
مفہوم: "اور لوگ جو تفرقہ (فرقوں) میں پڑے تو اُس کے بعد پڑے کہ اُن کے پاس علم آ چکا تھا، محض آپس کی ضد (اور ہٹ دھرمی) کی وجہ سے (ہی وہ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوئے)، اور اگر آپ کے رب کی جانب سے مقررہ مدت تک (کی مہلت) کا فرمان پہلے صادر نہ ہوا ہوتا تو اُن کے درمیان فیصلہ کیا جا چکا ہوتا اور بے شک جو لوگ اُن کے بعد کتاب کے وارث بنائے گئے تھے وہ خود اس کی نسبت فریب دینے والے شک میں (مبتلا) ہیں" (42سورة الشورٰی، آیۃ نمبر14)
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:
"قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ۭ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُوْنَ"
مفہوم: "فرما دیجیئے وہ (الله) اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیجے (خواہ) تمہارے اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں فرقہ فرقہ کر کے آپس میں بھڑائے اور تم میں سے بعض کو بعض کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھیئے! ہم کس کس طرح آیتیں (نشانیاں) بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھ سکیں" (6سورةالانعام، آیۃ نمبر65)
رسول اللهﷺ نے فرمایا:
حذيفة بن اليمان يقول کان الناس يسألون رسول الله صلی الله عليه وسلم عن الخير وکنت أسأله عن الشر مخافة أن يدرکني فقلت يا رسول الله إنا کنا في جاهلية وشر فجائنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير من شر قال نعم قلت وهل بعد ذلک الشر من خير قال نعم وفيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنکر قلت فهل بعد ذلک الخير من شر قال نعم دعاة علی أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها قلت يا رسول الله صفهم لنا قال هم من جلدتنا ويتکلمون بألسنتنا قلت فما تأمرني إن أدرکني ذلک قال تلزم جماعة المسلمين وإمامهم قلت فإن لم يکن لهم جماعة ولا إمام قال فاعتزل تلک الفرق کلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتی يدرکک الموت وأنت علی ذلک
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے (نبی ﷺسے) پوچھا کیا اس کے بعد بھی شر آئے گا؟ فرمایا :" ہاں، جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گےشةونث، جو ان کی بات مان لے گا وہ انہیں اس میں داخل کر دیں گے" ۔ میں نے عرض کیا: رسول الله ﷺ ان کی کچھ نشانیاں بیان فرمائیں ۔ فرمایا : "وہ ہمارے ہی جیسے ( یعنی اسلام کے دعویدار) ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے"۔ میں نے پوچھا: پھر اگر میں نے وہ زمانہ پا لیا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں: فرمایا: "مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ وا بستہ رہنا" ۔ میں نے پوچھا: اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ کوئی امام ، فرمایا: "پھر ان فرقوں سے علیحدہ رہناخواہ تم کو درخت کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ اسی حالت میں تم کوموت آجائے۔'' ( بخاری ۔ کتاب الفتن، باب الامر اذالم تکن جماعۃ)
حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں ۔
افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وستفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة، قيل: من هي يا رسول الله؟ قال: من كان على مثل ما أنا عليه وأصحابي.
73فرقوں والی حدیث سےدراصل فرقوں کی ممانعت اور ان پر جہنّم کی وعید ثابت ہے، اس سے فرقوں کے وجود کا کوئی اثبات و جواز ثابت ہر گز نہیں ہوتا ہے.
فرقوں کے حوالے سے ایک حدیث مبارکہ کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
یعنی یہود 71 اور نصاریٰ 72 فرقوں میں بٹ گئے اور یہ امت مسلمہ عنقریب 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ایک کو چھوڑ کر سارے فرقے جہنم رسید ہوں گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ وہ جہنم سے بچنے والا فرقہ کون سا ہو گا ؟آپ ﷺ نے فرمایا جو اس طور طریقہ پر ہو گا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں ۔
عام طور پرعام لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے یا پیدا کر دی جاتی ہے کہ جس حدیث میں 73 فرقوں کی بات بیان ہوئی ہے اُس حدیث سے یہ ثابت ہوتا کہ کسی نہ کسی فرقے میں رہنا ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے لوگ بہتر(72) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور امت مسلمہ تہتر (73) فرقوں میں تقسیم ہو گی اِن میں سے بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنّت میں، اور وہ ہے جماعت۔
اب جہنم کی آگے سے بچنے کا ہمارے پاس فقط بس ایک ہی طریقہ ہے کہ ان فرقوں اور گروہوں سے فوری طور پر تعلق و وابستگی ختم کرکے یکسوئی کے ساتھ صرف "مسلم" بن جائیں اور اسی پر اکتفاء کریں ہماری وابستگی مسلمانوں ہی کی جماعت "اُمَّۃِ مسلمۃ"سے ہو اور کسی بھی فرقہ سے قطعاً کوئی تعلق نہ ہو.
قرآن و سُنَّۃ کے متعدد واضح احکامات کا نکار کرتے ہوئے آج فرقہ پرستی و اکابر پرستی کی راہ اختیارکی جا رہی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ خود نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ میر ی امت میں 73 فرقے ہوں گے۔
حالانکہ نبی ﷺ کا یہ فرمان امت کی گمراہی اور تباہی کی نشاندہی کے طور پر تھا، نہ کہ فرقہ بنانے کی تائید میں۔
یہ جو حدیث ہےوہ مکمل مشکوٰۃ شریف میں اس طرح آئی ہے کہ:
"حضور صلی اللہ علیہ و آلِہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر (۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئی تھی اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔ صحابہ کرام رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول الله صلی الله علیه و آلِہٖ وسلم وہ کون ساہے؟ آپ صلی الله علیه و آلہٖ و سلم نے فرمایا وہ جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔"
سب سے پہلے سمجھنے والی بات تو یہ ہے کہ یہ حدیث جید محدثین نے قبول نہیں کی ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے بالخصوص حدیث کا آخری حصہ کہ ایک میں اور باقی جہنم میں جائیں گے، اس پر محدثین نے خاصا کلام کیا ہے۔ یہ حدیث دراصل دوسرے تیسرے درجے کی کتابوں میں آئی ہے، یہ حدیث دوسرے انداز سے اور بھی کئی مجموعوں میں آئی ہے، لیکن سب کا حال یہی ہے۔ تاہم اس مضمون پر احادیث کی کثرت کی اور دوسرے طرق کی بناء پر یہ حسن کے درجے پر پہنچ جاتی ہے یعنی آپ اسے قابل قبول کہہ سکتے ہیں اور اس کے مضمون پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے جید محدثین نے کیا ہے ۔
لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو عام طور پر اخذ یا بیان کیا جاتاہے بلکہ اس حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروہ بندی کی جو پیشن گوئی بیان ہوئی ہے وہ محض بطور تنبیہ و نصیحت اور سخت وعید کےلئے ہے نہ کہ فرقوں کے اثبات و جواز کےلئے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ اس حدیث سے فرقہ واریت کی تائید ہوتی ہے ، تو اس ضمن میں سب سے پہلے یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیئے کہ قرآن حکیم اور کئی احادیث میں واضح طور پر فرقوں کی ممانعت آئی ہے اور اس بدعملی کو اختیار کرنے پر انتہائی سخت وعید ثابت ہوتی ہے۔
فرقہ ایسے لوگوں کے مذھبی گروہ کو کہتے ہیں جو قولاً یا عملاً اصولُ الدین یعنی اصل بنیاد قرآن و سُنَّۃ اور اسوۃ حسنۃ کی پیروی سے منحرف ہو جائیں اور اسلام سے جداگانہ نام سے کوئی مذھب گھڑ کر اس کو اپنی مذھبی پہچان و شناخت کے طور پر اختیار کر لیں اور مسلم (مسلمان) کے بجائے اپنے فرقہ کی نسبت سے کسی بھی دوسرے فرقہ وارانہ نام سے پہچانے جانے لگیں اور وہ اس کو ناپسند نہ کرتے ہوں، اپنی مذھبی شناخت کو الگ رکھنے کے لئے صحابہءِ کرام رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین اور تابعین و تبع تابعین کے ادوار میں مسلمانوں کے اختیار کردہ شعائرِ اسلام، طور و طریقوں اور طرزِ فکر و عمل اور قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کے خلاف عمل کرتے ہوئے اپنی مساجد و مدارس کی علیٰحدہ پہچان و شناخت اختیار کریں۔
جیسے کہ مسجد بلا تخصیص و تفریق اور بلا امتیاز تمام مسلمانوں کی عبادتگاہ یعنی الله کی عبادت کا گھر ہے اگر کوئی گروہ اپنی الگ بناتا ہے اور کوئی بھی ایسی مذھبی پہچان و شناخت کرواتا ہے کہ جس سے پتا چلے کہ یہ مسجد فلاں مذھبی گروہ کی ہے تو وہ مذھبی گروہ فرقہ کے زمرے میں آتا ہے، جو بھی کوئی شخص کسی مسجد یا مدرسہ کو اپنے فرقے کا اور دوسری کسی مسجد و مدرسہ کو غیر یعنی کسی دوسرے فرقہ کی مسجد و مدرسہ سمجھتا ہے ایسا سخص ہی فرقہ پرست ہے، اور جو شخص کسی خاص عالِمِ دین کو اپنے فرقے کا عالِم اور کسی دوسرے عالمِ دین کو اپنے فرقہ کا عالمِ دین نہیں سمجھتا ایسا شخص فرقہ پرست کہلاتا ہے۔
فروعی معاملات و مسائل میں علمی اور مدلل اختلافِ رائے ایک لازمی و منطقی بات ہے بشرطیکہ اس سے اصولُ الدّین اور مقاصدِ اسلام کی مخالفت لازم نہ آتی ہو۔ فروعات میں ایسے فقہی و اجتہادی اختلافِ رائے فرقہ بندی، فرقہ واریت یا فرقہ پرستی یا اکابر پرستی کے زمرے میں نہیں آتے۔ جیسے کہ فروعات میں ائمہءِ فقہاء و مجتہدین کے اقوال۔
نبی ﷺ نے امت کی گمراہی اور تباہی کا ذکر اس طرح فرمایا:
حدثنا سعيد بن أبي مريم حدثنا أبو غسان قال حدثني زيد بن أسلم عن عطائ بن يسار عن أبي سعيد رضي الله عنه أن النبي صلی الله عليه وسلم قال لتتبعن سنن من قبلکم شبرا بشبر وذراعا بذراع حتی لو سلکوا جحر ضب لسلکتموه قلنا يا رسول الله اليهود والنصاری قال فمن
''تم پہلی امتوں کی ضرور بالضرور پیروی کرو گے ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز۔ یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔ ہم (صحابہ رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین) نے عرض کیا: یا رسول الله ﷺ کیا یہود و نصاریٰ ( مراد ہیں)، فرمایا:اور کون؟ (بخاری ۔ کتاب الانبیا: باب : نبی اسرائیل کے واقعات)
معاوية بن أبي سفيان أنه قام فينا فقال ألا إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قام فينا فقال ألا إن من قبلکم من أهل الکتاب افترقوا علی ثنتين وسبعين ملة وإن هذه الملة ستفترق علی ثلاث وسبعين ثنتان وسبعون في النار وواحدة في الجنة وهي الجماعة زاد ابن يحيی وعمرو في حديثيهما وإنه سيخرج من أمتي أقوام تجاری بهم تلک الأهوا کما يتجاری الکلب لصاحبه وقال عمرو الکلب بصاحبه لا يبقی منه عرق ولا مفصل إلا دخله
صفوان رضی الله تعالیٰ عنہ سے اسی طرح مروی ہے کہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوسفیان فرماتے ہیں کہ وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ آگاہ رہو بیشک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم سے پہلے جو لوگ تھے اہل کتاب میں سے وہ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور بیشک یہ امت عنقریب 73 فرقوں میں منتشر ہوجائے گی ان میں سے 72 آگ میں داخل ہوں گے اور ایک جنت میں جائے گا اور وہ فرقہ جماعت کا ہوگا۔ محمد بن یحیی اور عمرو بن عثمان نے اپنی روایتوں میں یہ اضافہ کیا کہ آپ نے فرمایا کہ عنقریب میری امت میں ایسی قومیں ہوں گی کہ گمراہیاں اور نفسانی خواہشات ان میں اس طرح دوڑیں گی جس طرح کتے کے کاٹنے سے بیماری دوڑ جاتی ہے کہ کوئی رگ اور جوڑ باقی نہیں رہتا مگر وہ اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ (ابو داؤد ، سنت کا بیان ، باب:سنت کی تشریح)
حدثنا محمود بن غيلان حدثنا أبو داود الحفري عن سفيان الثوري عن عبد الرحمن بن زياد الأفريقي عن عبد الله بن يزيد عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم ليأتين علی أمتي ما أتی علی بني إسرايل حذو النعل بالنعل حتی إن کان منهم من أتی أمه علانية لکان في أمتي من يصنع ذلک وإن بني إسرايل تفرقت علی ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعين ملة کلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي قال أبو عيسی هذا حديث حسن غريب مفسر لا نعرفه مثل هذا إلا من هذا الوجه
''میری امت پر ایک زمانہ ضرور آئے گا جیسا کہ نبی اسرائیل پر آیا تھا، جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے ، یہاں تک کہ اگر نبی اسرائیل میں سے کسنی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا تھا تو میری امت میں بھی کوئی ہو گا، اور بے شک بنی اسرائیل 72 فرقوں میں تقسیم ہوئے تو میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی وہ سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک جماعت کے۔ (صحابہ کرام رضی الله تعالٰی عنہم ) نے عرض كيا: اے الله کے رسول ﷺ وہ جماعت کون سے ہوگی؟ فرمایا: جو میرے ﷺ اور میرے اصحابه رضوان الله تعالٰی عليہم کے طریقے کی پیروی کرتی ہو گی" (ترمذی : باب الاعتصام بالکتاب و سنۃ)
( یہ روایت سندا غریب ہے لیکن صحیح روایات میں یہی بات کی گئی ہے لہذا اسے صرف تائید میں قبول کیا جا سکتا ہے)
رسول الله ﷺ کے فرمان نے واضح کر دیا کہ دین ِ اسلام کے نام پر بنائے گئے فرقوں سے تعلق رکھنے والے سب کے سب جہنم میں جانے والے ہیں صرف ایک جماعت ہے جو جنت میں جائے گی اور یہ لوگ وہ ہیں ''جو میرے طریقے پر اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوں گے۔'' یعنی وہ جماعت جس کے عقائد و اعمال الله کے نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کے عقائد و اعمال کے مطابق ہوں گے۔
ہر شخص و گروہ اپنے عقائد و اعمال کا جائز ہ لے کہ وہ الله کے نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم اجمعین کے طریقے پر عمل پیرا ہے یا خو د ساختہ فرقوں میں پھنسا ہوا ہے، اور یہ اس کا یہ عقیدہ و عمل قیامت کے دن اسے واصل جہنم کرائے گا یا اسے جنت کی نعمتیں دلوائے گا۔
سب سے پہلا موازنہ یہ ہے کہ نبی ﷺ اور صحابه ؓ فقط "مسلم" تھے یا دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، سلفی وغیرہم؟
الله تعالٰی نے اپنے نازل کردہ اور اپنے پسندیدہ دین "اسلام " کے پیروکاروں کی صرف ایک "دینی" پہچان بیان فرمائی ہے اور ان کا نام " مسلم" رکھا، اس کے علاوہ اسلام کے پیروکاروں کا کوئی اور نام یا صفاتی نام بیان نہیں کیا گیا۔
آئیے، اسلام کے نام پر رائج عقائد و اعمال کا موازنہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین کے عقائد و اعمال، طرزِ فکر و طور و طریقوں کے ساتھ کریں۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے:
'' الله روحوں کو قبض کر لیتا ہے انکی موت کےوقت اور جن کی موت نہیں آئی ان کی سوتے وقت، پھر جس پر موت کا فیصلہ کرتا ہے اس کی روح روک لیتا ہےاوردوسری ارواح کو چھوڑ دیتا ہے ایک مقررہ وقت تک کے لئے۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غورو فکر کرتے ہیں۔'' (39سورۃ الزمر،آیۃ نمبر43)
ارشادِ باری تعالٰی ہے کہ ''میرا بندہ جب بھی مجھے پکارتا ہے تو میں قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب پکارتا ہے تو جواب دیتا ہوں، تو چاہیےکہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ہی ایمان لائیں ۔'' (2سورۃالبقرہ،آیۃ نمبر186)
اور ہم نےانسان کو بنایا ہےاور ہم اس کے دل میں اٹھنے والے وسوسوں سے بھی واقف ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔'' (50سورۃ ق، آیۃ نمبر16)
الله تعالٰی فرماتا ہے: ''کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہ اٹھا ئے گا، اور انسان کے لئے وہی ہےجس کی اس نے کوشش کی ۔''
(53سورۃالنجم ، آیۃ نمبر38 تا 39)
''جس نے نیک عمل کیا اسی کے لئے ہے اور جس نے برائی کمائی اس کا وبال اسی پر ہے'' (45 سورۃالجاثیہ، آیۃ نمبر 15)
قرآن وسُنَّت سے دراصل یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ دینِ سلام میں فرقہ اور گروہ بنانا، اس میں شامل ہونا، الله تعالٰی کے حکم کا انکار اور مشرکانہ انداز ہے، ایسا کرنے والے کا الله کے نبی ﷺ سے کوئی تعلق نہیں ۔ فرقہ و گروہ بندی دراصل الله تعالٰی کی طرف سے عذاب کی ایک صورت ہے۔نبی ﷺ نےاس بات کا حکم فرمایا کہ کوئی شخص کسی فرقہ یا گروہ سے کوئی تعلق نہ رکھے خواہ اس کو پوری دنیا سے کٹ جانا پڑے، اسے کھانے تک کے لئے کچھ نہ ملے اوراسے درخت کی جڑیں چبانی پڑیں اور اسی حالت میں اسے موت آجائے۔ مزید یہ بھی حکم دیا گیا کہ اگر مسلمانوں کی جماعت مل جائے تو لازم ہے کہ اس سے وابستگی اختیار کی جائے اور اس کے امیر کی اطاعت کی جائے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے برخلاف آج کل کے اِلَّا مَاشِاءَاللہ! اکثروبیشترکلمہ گُو لوگوں کے مذھبی پیشواؤں نے ان کو بے شمار فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے اور ان کی دینی شناخت و پہچان، سلفی، اہلحدیث، وہابی، دیوبندی، بریلوی، عطاری، پرویزی، تبلیغی، جماعتی اور نہ جانے کیا متعارف کروا رکھی ہے، حالیہ ڈیڑھ دو صدیوں کے دوران جنوبی و جنوب مغربی ایشیا، بالخصوص برِّصغیر میں بعض عاقبت نااندیش مذھبی پیشواؤں نے نادانستہ و نادانستہ قرآن و سُنَّۃ اور اُسوۃ حسنہ سے صریحاً انحراف و روگردانی کرتے ہوئے اپنے اپنے من گھڑت و من پسند ، خوس ساختہ و بے بنیاد ، گمراہ کُن و تباہ کُن انسانی و بشری افکار و نظریات، اختراعات و خرافات، بدعات و لغویات اور تجاوزات پر مشتمل اپنا اپنا علیٰحدہ فرقہ وارانہ مذھب بنالیا ہوا ہے۔ اپنی اپنی فرقہ وارانہ مذھبی و سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں بنا لی ہیں، اپنے اپنے من پسند و من گھڑت تبلیغی و مذھبی نصاب ترتیب دے لئے ہیں، اپنے اپنے فرقے کی الگ الگ مساجد بنا لی ہیں جو اُنہی فرقوں کے نام سے ہی جانی و پہچانی جاتی ہیں، دارُالعلوم و مدرسہ اور جامعہ وغیرہ کے مقدس ناموں سے اپنے اپنے فرقے کی تربیت گاہیں بنا لی ہیں جہاں سے نہ صرف ایک دوسرے فرقے کے خلاف تکفیری فتاوٰی کی بوچھاڑ ہوتی ہے بلکہ یہود و نصارٰی اور دیکر کُفّار و مشرکین کے خلاف کلمہ گو لوگوں کے خلاف تصنیفات و تالیفات اور مذھبی منافرت پھیلانے والا لٹریچر شائع کیا جاتا ہے، ہر کوئی اپنے فرقے کو برتر و بالادست اور غالب کرنے کی فکر و منصوبہ بندی میں لگا رہتا ہے، قرآن و سُنَّۃ کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ہدایات، مقاصدِ دین کو سب ہی فرقوں ًنے پسِ پُشت ڈال رکھا ہے، دین اسلام کی برتری و بالا دستی اور غلبہ کسی کے پیشِ نظر نہیں ، تبلیغی نصاب بھی ہر ایک کے اپنے اپنے اور فرقہ وارانہ نظریات کے پرچار کےلئے گھڑے ہوئے ہیں حالانکہ دینِ اسلام کا نصاب تو فقط قرآن و سُنَّۃ اور اُسوۃ حسنۃ پر مبنی ہے۔
فرقہ پرستی کے شرک کو گلے لگا کر امت مسلمۃ کے اتحاد بلکہ وجود کو ہی پارہ پارہ کر کے رکھ دیا گیا ہے، اخوۃِ اسلامی کی جگہ مذھبی منافرت نے لے رکھی ہے، مسلم معاشرہ تباہ و برباد ہو کر تنزّلی و انحطاط اور پستی کی گہرائیوں میں کہیں غرق ہو چکا ہے، انتشار و افتراق، تباہی و بربادہ، ذلّت و رُسوائی ہر طرف مسلمانوں کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ ہر قسم کی برائیوں، بے حیائی، سنگین جرائم، حرام خوری و سود خوری، عریانی و فحاشی، بد دیانتی و فرض نا شناسی، حقوق العباد کے اتلاف، قطع رحمی، طمع، لالچ، بغض و عناد، کینہ پروری، چغل خوری و غیبت، لوٹ مار، چوری ڈکیٹی، اغوا، قتل و غارتگری، زناکاری و بدکاری، دہشت گردی، بدعملی و بے غیرتی ، جعل سازی، مکر و فریب، جھوٹ، دھوکہ، وعدہ خلافی، ہر سطح پر ہر قسم کی بدعنوانی و کرپشن، نا انصافی، معاشی ناہمواری، عدمِ مساوات، حق تلفی، بے رحمی، بے راہ روی، دین سے بیزاری و دوری اور فرقوں سے قربت، ہر طرح کے مظالم معاشرے میں اپنی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں، اللہ، موت، قبر، حشر، آخرت، جہنّم کا خوف صرف زبانی کلامی عقیدے کے دعوے کی حد تک ہی باقی بچا ہے اس عقیدے کے انسانی زندگی پر اثرات مرتب ہونا بالکل ختم ہو چکے ہیں۔
میری نظر میں ان ساری برائیوں کی اصل جڑ یہ ہے کہ نام نہاد مذہبی طبقہ نے مسلم معاشرت سے اپنا تعلق عملا صرف اپنے مالی و معاشی مفادات (مسجد و مدرسہ کے نام پر چندے، زکوٰۃ، خیرات، عطیات، صدقات، صدقۃءِ فطر، قربانی کی کھالوں، نذر و نیاز، قرآن خوانی وغیرہ تک ہی محدود کرلیا ہے اور معاشرتی اصلاح کی ذمہ داری سے وہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں ڈر ہے کہ قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کی تعمیل و اطاعت اور ترویج و تبلیغ نیز اسوۃ حسنۃ کی پیروی کو اختیار کیا تو ہمارے چندے، عطیے وغیرہ کم ہو جائیں گے، قرآن و سُنَّۃ سے عملا روگردانی و عملی انحرف کر کے فرقہ پرستی کو فروغ دینے میں ان کے ایک طرف تو یہ مالی و معاشی مفادات ہیں تو دوسری طرف سماجی و سیاسی مقاصد بھی کارفرما ہیں۔
فرقہ پرستی و اکابر پرستی کے ذریعے نام نہاد مذہبی عناصر کو جو سیاسی و معاشی مفادات حاصل ہوتے ہیں وہ بھی اُن کےلئے نہایت اہم ہیں کہ اسی بناء پر تو خود کو منتخب کروانے کےلئے اپنے فرقے کے فرقہ پرست کارکنوں و اکابر پرست جانثاروں کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ کی بنیاد پر اپنے فرقہ کے افراد سے ووٹ اور نوٹ دونوں حاصل کرتے ہیں اس لئے اپنے فرقہ کے افراد میں اضافے کی ہر طرح سے سرتوڑ کوششیں وہ جاری رکھتے ہیں۔ فرقہ پرستی و اکابر پرستی کو فروغ دینا اور قرآن و سُنَّۃ نیز اُسوۃ حسنۃ کو پسِ پشت ڈال کر اُن سے عملاً انحراف و روگردانی آج کل کے مفاد پرست و خود غرض مذھبی عناصر کی اوّلین ضرورت بن چکی ہے ۔ لوگوں کے ذہنوں کو بھی کافی حد تک خراب کر دیا گیا ہے اور اُن کو سبق پڑھایا گیا ہے کہ قرآن و سُنَّۃ اور اسوۃُ حسنۃ کی اطاعت و اتباع اور پیروی فقط یہی ہے کہ اپنے فرقہ کے مولوی کے علاوہ کسی کی بات مت سنو، کتابیں بھی فقط اپنے ہی فرقے کے مولویوں کی پڑھو، ترجمہءِ قرآن و تفسیر بھی کسی بھی دوسرے عالم دین کی تفسیر مت پڑھنا پہلے ہم سے پوچھنا کہ کس کا ترجمہ اور کس کی تفسیر پڑھیں ورنہ تم گمراہ ہو جاؤ گے، وعظ و نصیحت، تقاریر و خطبات وغیرہ، حتی کہ تلاوۃ قرآن بھی اپنے ہی فرقہ کے حافظ، قاری، مولوی، عالم سے ہی سننا، سی۔ ڈیز اور کتابیں بھی فقب اپنے ہی فرقہ کے مولیوں کی خریدنا اور سُننا پڑھنا، اپنے فرقہ کے کسی بھی مولوی صاحب کو کبھی برا مت کہنا (چاہے وہ جو کچھ بھی کرے، اُس کا سیرت و کردار اور قول و عمل چاہے جتنا بھی بُرا، خلافِ قرآن و سُنَّۃ ہی کیوں نہ ہو) دوسرے فرقہ کے کسی بھی عالِم ، حافظ، قاری، مولوی وغیرہ سے کبھی متاثر مت ہونا اور نہ ہی کبھی اُن کی مجلس میں بیٹھنا، ان کی کبھی کوئی بات مت سُننا وہ سب کافر و مشرک ہیں قابلِ نفرت اور زمین پر بوجھ ہیں) اُن کے کسی بھی قول و عمل کی کبھی بھی تعریف و تائید ہر گز مت کرنا چاہے وہ قرآن و سُنَّۃ کے عین مطابق ہو اور بات کرنے والا چاہے کتنا بھی مُتَّقِی و پرہیزگار ہو، صالح و باعمل عالِمِ دین ہو اس سے ہمیشہ دوری اختیار کرنا اں کی کسی بھی بات کا کبھی اعتبار نہ کرنا ہی ہی کبھی اُن کے ساتھ کسی بھی معاملے میں کوئی مالی تعاون کرنا چاہے وہ مسجد کی تعمیر ہی کیوں نہ ہو، اُن کی مسجد میں تعاون بھی گناہ ہے حالانکہ یہ ساری باتیں بالکل غلط و بے بنیاد ہیں اورغلط فہمی یا بدنیّتی پر مبنی ہیں۔
دراصل اُنہیں یہ دھڑکا لاحق رہتا ہے کہ کہ ان لوگوں کو اگر قرآن و سُنَّۃ کی صحیح سمجھ آ گئی اور اُن میں قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کی تعمیل و اطاعت اور اُسوۃ حسنۃ کی اتباع و پیروی کا جذبہ اُبھر آیا تو پھر فرقہ پرست پروہت طبقات, نام نہاد مذھبی پیشواؤں کے ٹھاٹھ باٹھ جاتے رہیں گے، سارے مسلمان تو آپس میں قرآن کا حکم مان کر بھائی بھائی بن گئے تو فرقہ کی بنیاد پر چندے، عطیے اور ووٹ ان فرقہ پرست نام نہاد مذھبی پیشواؤں کو پھر کون دے گا۔
عام مُلّا مولوی تو بیچارہ انجانے میں اُس نامعلوم ٹرک کی بتی کے یچھے پیچھے بھاگتا چلا جا رہا ہے کہ جس کے پیچھے اُس فرقہ کے بڑوں(اکابر) نے اُسے لگا دیا ہے، اُسے تو ظاہر ہے وہی کچھ کرنا ہے جس کی اُس کو تعلیم و تربیت دی گئی ہے، جو پڑھایا سکھایا اور بتایا گیا ہے۔ قرآن فہمی کا تو اسے بھی کوئی ذوق ہے نہ شوق کہ اُس کا کام تو قرآن و سُنَّۃ کو سمجھنے کی کوشش اور اُن کے احکامات کی تعمیل کے بغیر بھی بہترین چل رہا ہے۔ فرقہ وارانہ مذہب سے ہی تو اُس کا معاش وابستہ ہے وہ حق بات سمجھ بھی جائے تو زبان پر کیسے لا سکتا ہے؟
فرقوں کے بڑے مولوی ہی فرقہ پرستی کے سارے ثمرات (معاشی و سیاسی مفادات) و منفعتیں سمیٹتے ہیں یا پھر تھوڑے سے وہ ایسے مولوی صاحبان جو خود کسی مسجد و مدرسہ کے متولی یا مہتمم بن گئے ہیں باقی سارے عام چھوٹے موٹے مولوی صاحبان تو صرف نا سمجھی و نادانی اور بھیڑچال میں فرقہ پرستی کی پیروی اور اندھا دھند اندھی تقلید کر رہے ہیں کہ اُن کو مولوی بنانے والے فرقہ پرست مدرسہ سے بڑے مولویوں (اکابر) نے یہی کچھ بتایا سکھایا ہے کہ فرقہ ہی ہمارا اصل دین و مذہب ہے، ان بیچارے عام مولوی حضرات کو تو فقط اُن کے بڑے فرقہ پرست (اکابر) نے یہی کچھ کرنے کو کہا ہے اور فرقہ واریت کی تعلیم و تربیت دے کراپنے فرقہ کا سرگرم کارکن بنایا ہے، اپنی عقل و سمجھ، فہم و فراست اور شعور کو بروئےکار لانے غور و فکر کرنے، سوچنے سمجھنے اور قرآن و سُنَّۃ کو فرقہ سے باہر نکل کر سمجھنے کی کوشش کرنے سے منع کر رکھا ہے کہ ایسا کرنے سے تم گمراہ ہو سکتے ہو حلانکہ قرآن کو سمجھنے کی شرطِ اوّل ہی یہ ہے کہ انسان پہلے قائم اپنے تمام افکار و نظریات کو بھلا کرقرآنی ہدایت حاصل کرنے کےلئے قرآن کو پڑھ کر سمجھے اور سمجھ کر پڑھے کہ اس سے جو بھی حکم و ہدایت حاصل ہوا اسی کو صدقِ نیَّت و اخلاصِ قلبی کے ساتھ تسلیم و اختیار کروں گا اور قرآن سے جو بھی حکم و ہدایت حاصل ہوئے اُن سب کی کامل تعمیل و اطاعت اور اتباع کروں گا۔ چاہے مجھے اپنے پہلے سے اختیار و قبول کردہ افکار و نظریات سے رجوع و تائب ہونا پڑے بہرصورت قرآن کے حکم کو کی تعمیل کروں گا۔
فرقوں کے یہ "بڑے" جو "اکابر" کہلاتے ہیں وہ فرقہ کی تعلیم و تربیت دینے کے بعد ان بیچارے چھوٹے موٹے مُلا و مولویوں کو عام طور پر "نماز پڑھانے" کا "مقدس روزگار" مہیا کرنے میں مدد کرتے ہیں تاکہ وہ چھوٹا مولوی آزاد ہو کر دین کی خدمت کرنے کے بجائے انہی کے فرقے کا کارکن بنا رہے۔ اِلَّا مَاشَاءَالله! 99 فیصد سے زائد مساجد میں کیا امام مسجد و خطیب کے تقرر کی شرطِ اول یہی نہیں ہوتی ہے کہ امیدوار اسی فرقہ کا ہو جس فرقہ کے نام سے وہ مسجد منسوب ہے؟ کیا اُسی فرقہ کے کسی "بڑے مولوی" (اکابر) کی یہ تصدیق لازمی نہیں ہوتی کہ یہ امیدوار اسی فرقہ کا تعلیم و تربیت یافتہ ہے یا کسی اور ذریعے سے اس بات کی تصدیق کرکے اطمینان حاصل نہیں کرلیا جاتا؟ کیا یہی صورتحال نہیں ہے؟
اپنے سارے معاشی و سیاسی مفادات کے حصول و تحفظ کی خاطر عام لوگوں کو فرقہ پرستی میں لگائے رکھنا ہر فرقہ کے بڑے فرقہ پرست (اکابر) کی ضرورت ہے کہ ان کی اب ساری کی ساری حیثیت اسی فرقہ واریت سے وابستہ ہو کر رہ گئی ہے ۔ مختلف فرقوں کے بڑے (اکابرین) جب آپس میں کسی مشترکہ مفاد کےلئے کسی اجلاس میں ملتے ہیں تو سب ایکدوسرے کی اقتداء میں صلاۃ قائم کرتے رہتے ہیں مگر سب نے اپنے اپنے فرقہ کے پیروکاروں کو اچھی طرح باور کروایا ہوا ہے کہ دوسرے فرقہ کے امام کی اقتداء میں تمہاری صلاۃ ادا نہیں ہوتی۔
لوگو! لِلّٰه ذرا سوچو سمجھو، غور و فکر کرو! اللہ تعالٰی کے عطا کردہ عقلِ سلیم اور شعور کے نعمت و شرف کو کو بروئے کار کیوں نہیں لاتے؟! قرآن و سُنَّۃ کے بالکل واضح اور صریح احکامات، نصوص قطعیہ سے فرقہ ساری، فرقہ بندی، فرقہ واریت، فرقہ پرستی، فرقہ سے وابستگی اختیار کرنا ممنوع و حرام ہے اور قرآن و سُنَّۃ کے ان احکامات سے انحراف کرنے پر جہنّم کی وعید ثابت ہے۔
الله تعالٰی ہر کلمہ گو کو قرآن و سُنَّۃ کا صحیح فہم حاصل کرنے، اور قرآن و سُنَّۃ کے احکامات کی تعمیل و اطاعت کرنے فرقہ پرستی و اکابر پرستی کے بدترین شرک سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسوۃ حسنۃ کی پیروی اختیار کرنے، صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
والله و رسولہٗ ﷺاعلم بالصواب۔
(تحرير: پروفیسر ڈاکٹر علّامہ پرویزاقبال آرائیں)