Monday, 11 July 2016

نمازپڑھنے اور صلاۃ قائم کرنے میں کیا فرق ہے، نام نہاد اہلِ قرآن "منکرین حدیث و سُنَّت" کے اعتراضات و شبہات کا جائزہ

نمازپڑھنے اور صلاۃ قائم کرنے میں کیا فرق ہے؟
نام نہاد اہلِ قرآن منکرین حدیث و سُنَّت کے پھیلائے ہوئے بعض شبہات و اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
تحقیق و تحریر: پروفیسر ڈاکٹرپرویزاقبال آرائیں
 بعض نام نہاد اہلِ قرآن، منکرین حدیث و سُنَّت نے اُمّۃِ مُسلمہ کے 1400 سالہ صلاۃ کے مفہوم پر مٹی ڈالتے ہوئے صلاۃ و صلٰوۃ کے مسلمانوں کے طریقہ عبادت کو مسلمانوں کی بربادی اور تباہی کا ذریعہ ثابت کرنے کی اور اسکے لئے صلاۃ کا معنٰی فلاحی نظام حکومت کاقیام، یا درس و اجتماع یا دعا ء وغیرہ  قرار دےکرکے موجودہ نظامِ صلاۃ و اقامتِ صلٰوۃ پر ہی مٹی ڈالنے کی بھونڈی سی کوشش کی ہے اور گمراہی پھیلائی ہے
قرآن مجید میں لفظ صلا ۃ کا معنٰی اور مفہوم:
صلا ۃ عربی زبان کے اندر کئی ایک معنٰی کے لیے استعمال ہوا ہے
فى الحال کچھ مختلف معانی کا ذکر پیش خدمت ہے
- دعا کے معنی میں
دلیل: وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ سورة التوبہ، آیۃ نمبر 103
وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ سورة التوبة99
داخل ہونا
وَيَصْلَىٰ سَعِيرًا سورة الانشقاق 12
سَيَصْلىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ - سورة لھب
گھوڑے کا دوسرا مقابل گھوڑا کو بھی عربی زبان کے اندر مصلی کہا جاتا ہے
کیونکہ وہ گھڑسواركا اپنے سے آگے جا رہے گھوڑے کا تعاقب کرتا ہے
انسان کے مقعد کی ہڈی کو بھی ''صلا '' کہا گیا ھے کیونکہ مسبوق مصلی سابق مصلی کے پشت کا تعاقب کرتا ہے- اور قصد کرتا ہے
لسان العرب نامی مشہور عربی لغت کی کتاب ہے کے اندر جلد 14 صفحہ -467-466 پر ہے کے قال ابو عبید ''واصل ھذا فی الخیل فا لسابق الاول والمصلی الثانی قیل لا مصل لا نهُ یکون عند صلا الاول و صلا ۃ جانبا ذنبه عن یمنبه وشماله ثم یتلوہ الثالث
لفظ صلا ۃ کے اندر اسلامی تصرف
دیگر متعدد الفاظ کو جس طرح قرآن کریم نے اصطلاح بنا کر ایک خاص معنی کی شکل دی بلکہ اسی طرح ذکر الٰہی, رکوع و سجود جیسی ساری، اللہ کے لیے کی جانے والی عبادات کا نام صلا ۃ مقرر کر دیا گیاہے
یہی وجہ ہے تاریخ اسلامی کے اندر سلف سے متواتر اور منقول ثابت شدہ بیانات کی روشنی میں ہم پاتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کے اندر جب کبھی لفظ صلا ۃ کہا گیا اس سے صرف قیام رکوع و سجود ثابت شدہ اذکار کے سے ادا کی جانے والی بدنی عبادت ہی سمجھا گیا
خلاصہ تعریف صلا ۃ -شروع شروع میں لفظ صلا ۃ فقط دعا کو بولاجاتا تھا -پھر وہ ايك خاص دعا کے لیے استعمال ہوا -پھر اسلا م کے اندر ترقی کرکے شرعی اصطلا ح کی شکل میں اذکار مشروعہ کے ساتھ قیام رکوع و سجود جيسى خاموش عبادت کا ہم نشین بن گیا کیونکہ صلا ۃ کو دعا کے ساتھ خاص مناسبت ہے
موجودہ دور میں جب اسلامی قرآنی اصطلاحات پر طرح طرح کے حملے کیے جا رہے ہیں اور ان سے ایسی خود ساختہ مراد لی جا رہی ہیں جس كو عہد نبوی میں عہد صحابہ و خیرالقرون و عهدمتقدمین کے اندر مراد نہیں لیا جاتا تھا
جو کے عہد جا ہلیت کے عربی اشعار و تاریخ عرب میں کبھی مراد نہیں لیا گیا تھا جس کا عربی زبان کی کسی بھی ڈ کشنری میں وہ معنی و تشریح نہیں ملتی جو ہمارے نام نہاد عجمى اھل قرآن برادران مراد لیا کرتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ آقا ﷺ کےعجمی اُمّتیوں بالخصوص برّصغیر کےمسلمانوں کے خلاف ایک گھا-ؤنی سازش کے تحت صلاۃ کا ترجمہ نماز کر کے اس کی اصل روح ختم کر دی گئی یعنی اللہ کے حکم اقامتِ صلٰوۃکی تعمیل، اطاعت و اتباع سے ہٹا کر مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی طرف لگا دیا گیا جبکہ نماز گذشتہ تقریباً اڑھائی ہزار سال یعنی قبل از زمانہءِمسیح علیہ الصلٰوۃ والسّلام سے لے کر اب تک مجوسیوں کی  مشرکانہ پوجا پاٹ، مشق و وظیفے کا نام چلا آ رہا تھا
نماز کے نام سے عبادت کرنے میں غیروں سے مشابہت پائی جاتی ہے،مساجد کے اندر کرسی پر بیٹھ کر صلٰوۃ قائم کرنا اسی وجہ سے جائز نہیں چونکہ عیسائیوں میں رواج ہے کہ وہ اپنے چرچوں میں کرسیوں پر عبادت کرتے ہیں، اور یہ بات اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے کہ غیروں کی مشابہت اختیار نہ کی جائے چنانچہ مساجد میں کرسیوں کا استعمال جائز نہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہوگا ابوداود
۴۰۳۳
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا، لاَ تَشَبَّہُوْا بِالْیَہُوْدِ وَلاَ بِالنَّصَارٰی؛ فَاِنَّ تَسْلِیْمَ الْیہُوْدِ الْاِشَارَةُ بِالأَصَابِعِ، وَتَسْلِیْمُ النَّصَارٰی الْاِشَارَةُ بِالأَکُفِّ

وہ ہم میں سے نہیں جو غیروں سے مشابہت اختیار کرے، تم یہود سے مشابہت نہ کرو اور نہ نصارٰی سے، یہود کا سلام انگلیوں کے اشارے سے اورنصاری کا سلام ہتھیلیوں کے اشارے سے ہوتا ہے ترمذی
۲۲۹۵
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: جُزُّوْا الشَوَارِبَ وَأَرْخُوا اللُّحٰی، خَالِفُوْا الْمَجُوْسَ مونچھوں کو کٹاؤ اور داڑھی کو بڑھاؤ،اور مجوسیوں کی مخالفت کرو مسلم معرفة السنن
۶۲۶،   بیہقی:۱/۴۴۰، مسند ابو عوانة:۱/۱۶۱
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اسلام غیروں سے مشابہت اختیار کرنے کے سلسلے میں کس قدر حساس واقع ہوا ہے۔ جب اسلامی شریعت لباس وپوشاک،اور بال وکھال تک میں غیروں کی مشابہت کو پسند نہیں کرتا تو فرض عبادات میں سب سے افضل صلاۃ جیسی اہم ترین بدنی عبادت عبادت اور موٴمن کی زندگی کے بنیادی مقصد کے بارے میں یہ کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ اس کو غیروں کے طور وطریقے کے مطابق انجام دیا جائے یا قرآن و سُنَّۃ میں اللہ تعالٰی کے نازل و مقرر کردہ الوہی نام صلٰاۃ کو ترک کر کے اسلام دشمن مجوسیوں کی عبادت کا نامنماز اختیار کرلیا جائے؟
لہٰذا جس طرح بلا عذرِ شرعی کرسی پر بیٹھ کر صلاۃ قائم کرنا جائز نیںا ہے، اور اس طرح صلاۃ قائم کرنے والوں کا اقامتِ صلاۃ کا فرض بالکل بھی ادانہیں ہوتا، اور اس طرح قائم کی گئی صلاۃ ان کے ذِمّہ بدستور اور علی حالہٖ باقی رہتی ہیں بعینہٖ اسی طرح صلٰاۃ کو نماز کہہ کریاسمجھ کر، قائم کرنے یا ادا کرنے یا پڑھنے پڑھانے سے فرض ادا نہیں ہوتا بلکہ نماز کے طور پر، صلاۃ قائم کرنے والوں کا اقامتِ صلاۃ کا فرض بالکل بھی ادانہیں ہوتا، اور اس طرح قائم کی گئی صلاۃ ان کے ذِمّہ بدستور اور علی حالہٖ باقی رہتاہے کیونکہ اسلام میں نماز کا کوئی وجود ہے نہ گنجائش، کوئی ذکر ہے نہ جواز ۔
مسئلے کی نزاکت:-
غور طلب بات ہی ہے اسلام کے 1400 سالوں میں جو اسلام اسلاف اساتذہ کتابوں میں اور علماء کے ذریعے بالواسطہ ہم تک متواتر سند کے ساتھ کے ساتھ پہنچا کیا وہ درست تھا؟؟؟؟
یا آج کے نام نہاد اہل قرآن كى تعبیرات جدیدہ درست ہیں کیونکہ اسلام تو ہمیں براہ راست ملنے کی بجائے سلف سے ملا ہے تو اس طرح کے نازک مسئلے میں فہم سلف کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے
صلا ۃ کے معنٰی کی نئی تعبیرات
وقت کی بدلتی ھوئی کروٹ کے ساتھ نام نا داھل قرآن المشہور منکرين حدیث صلا ۃ مروجہ کو عجمی شازش اور فارسى اضافه قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس کی الگ الگ خانہ ساز تشریح پیش کرتے رہتے ہیں
کوئی کہتا ہے صلا ۃ قائم کرنے کا مطلب نظام ربوبيت ،اسلامی حکومت، درس و اجتماع قائم کرنا ہے جس سے انسانیت پروری کو فروغ ممکن ھو سکے
کوئی کہتا ھے صلا ۃ صرف دو وقت کی صلا ۃ ہے
کوئی کہتا ہے صلا ۃ صرف تین وقت کی صلا ۃ ہے
منکرین حدیث کے شبہات
یہ موجوہ نمازجو مسلمان پڑھنے لگ گئےہیں  یہ ایک اسلام دُشمن  ايرانى مجوسی سازش  کا نتیجہ ہے۔
عجمیوں کا اضافہ ہے قرآن کے اندر لفظ صلا ۃ قیام رکوع وسجود کے ذریعے مختلف اذکار کے ساتھ کے ساتھ ادا کی جانے والی پنج وقتہ عبادت صلوٰۃ خمسہکے لیے استعمال نہیں ہوابلکہ کسی اور معنٰی کے لیے استعمال ہوا ہے
اس شبہے کا رد
کیا کسی کے پاس اس دعوی کا کوئی مستند جوازو ثبوت ہے کہ 1400 سال اُمَّۃِ مسلمہ، ازسلف تاخلف صلا ۃ کا مروجہ مفہوم سمجھنے میں قاصر رہی
مجوسیوں کی سازش سے پہلے اور بعد میں ان منکرین سُنَّت کےکن کن اسلاف نے براہ راست یا بالواسطہ اپنی مخصوص صلا ۃ قائم کی
کچھ آیتیں ان گمراہ نام نہاد اہلِ قرآن و منکرینِ سُنَّت کے بےبنیادفرضی اقامت صلا ۃ کے مفہوم کو رد کرتی ہیں
کیا منکرین حدیث و سُنَّت کے پاس اس کا کوئی معقول و مدلّل جواب ہے؟
حَٰفِظُوا عَلَى
ٱلصَّلَوَ‌ٰتِ وَٱلصَّلَوٰةِ ٱلْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَٰنِتِينَ
فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا
سورة البقرة328/ 329
نوٹ :-اس آیت میں صلاۃ کا لفظ نہیں بلکہ صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو جمع کا صیغہ ہے یعنی صلٰوۃ کی حفاظت کرو بات تو عام تھی لیکن اس كے فورا بعد صلوۃِالوسطٰیکو بطور خاص الگ کرکے مستقل ذکر کیا جو کہ بیان اہمیت کے لئے ہے  توکیا یہاں وہ پرویزی معنٰی ثابت ہوتا ہے جو پرویزی فرقہ والے ثابت کرنا چاہتے ہیں
وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ
ٱلصَّلَوٰةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوٓا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَآئِكُمْ وَلْتَأْتِ سورة النساء
پھر (اے مسلمانوں!) جب تم صلاۃ ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالت خوف سے نکل کر) اطمینان پالو تو صلوۃ کو (حسب دستور) قائم کرو۔ بیشک صلاۃ مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ 
ۭ مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِيْرَةِ وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۗءِ  ڜ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ ۭ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ ۭ طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭكَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 58؀
سورة النور58 -
اے ایمان والو!چاہیے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں (ایک) صلاۃ فجر سے پہلے اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نماز عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو) ، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے
کوئی شک نہیں کہ مجوسیوں اور رافضیوں  نے دینِ اسلام کو ،منافقت سے اور کھلے عام کفر و شرک پر رہتے ہوئے  کمال مہارت و منافقت سے بہت زیادہ اور ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچائے ہیں جن کی فہرست طویل اور داستان المناک ہے اور اسی میں مسلمانوں کی افضل ترین فرض عبادات میں سرِ فہرست، دوسرے رکنِ اسلام اہم و افضل ترین عبادت اقامتِ صلاۃ و صلٰوۃ کو مجوسیوں کی مشرکانہ پوجا پاٹ کانام نمازپڑھنے کا نام دے دیا گیا    بھی شامل ہے،
قرآن و سُنَّۃ میں  صلاۃ و صلٰوۃ قائم کرنے کا حکم  دیا گیاہے مجوسیوں نے سازش کے تحت اس کو نماز پڑھنے سے بدل کر اسلام کی عمارت کو مسمار و منہدم کرنے کی ناپاک و مذموم سازش کی جو کہ کامیاب ہو گئی  
قرآن حکیم میں کم و بیش سات سو مقامات پر اقامتِ  صلاۃ کا ذکر آیا ہے جن میں سے 80 مقامات پر صریحاً صلاۃ قائم کرنے کا واضح طور پر حکم صادر کیا گیا ہے۔ درج ذیل آیات مبارکہ کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن سے صلاۃ قائم کرنےکے حکم کا ثبوت ملتا ہے مگر اختصار کے پیش نظر انہی پر اکتفا کیا جا رہا ہے، اللہ ربُّ العالَمین نے حکم دیا ہے: وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَ مفہوم: اور صلاۃ قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ مل کر رکوع کیا کرو
دوسرے مقام پر حکمِ ربِّی ہے: فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاَةَ فَاذْكُرُواْ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا سورۃُالنساء،  آیۃ نمبر103
مفہوم: پھر اے مسلمانوں! جب تم صلاۃ ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے ہر حال میں یاد کرتے رہو، پھر جب تم حالت خوف سے نکل کر اطمینان پالو تو صلاۃ کو حسب دستور قائم کرو۔ بیشک صلاۃمومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے
ایک جگہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي سورۃ طٰہٰ، آیۃ نمبر14
مفہوم: بےشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر صلاۃ قائم کیا کرو
فرمان الٰہی ہے: وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى سورۃ طٰہٰ، آیۃ نمبر132 مفہوم: اور آپ اپنے گھر والوں کو صلاۃ کا حکم فرمائیں اور اس پر ثابت قدم رہیں، ہم آپ سے رزق طلب نہیں کرتے بلکہ ہم آپ کو رزق دیتے ہیں، اور بہتر انجام پرہیزگاری کا ہی ہے
اللہ تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے: الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ  سورۃ الحج، آیۃ نمبر41
 مفہوم: یہ اہلِ حق وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں تو وہ صلاۃ کا نظام قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا انتظام کریں اور پورے معاشرے میں نیکی اور بھلائی کا حکم کریں اور لوگوں کو برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے
ایک مقام پر ارشاد ِ باری تعالٰی ہے: مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ سورۃالروم، آیۃ نمبر31 مفہوم: اسی کی طرف رجوع و اِنابت کا حال رکھو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور صلاۃ قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ
قرآن و سُنَّۃ میں مقرر کردہ شرعی اصطلاح الصلاۃ کےلیے نماز کا لفظ متبادل ہے نہ ہی  قرآنی اصطلاح "الصلاۃ" کاترجمہ ہے دین میں صلاۃ فرض ہے نماز نہیں! قرآن و سُنَّۃ میں نماز پڑھنے کا کہیں ذکرنہیں ، ہرجگہ صلاۃ قائم کرنے کا حکم
آیا ہے، لِہٰذا اس افضل ترین عبادت کو نماز پڑھنا نہیں کہا جا سکتا لازم ہے کہ  اللہ کے حکم کی تعمیل و اطاعت کی جائے اور اللہ کی فرض کردہ عبادت کے اللہ کے مقرر کردہ اصلاحی لفظِ صلاۃ کو اقامتِ صلاۃ ہی کہا جائے
 اس عبادت کےلئےنمازِ پنجگانہ کے الفاظ غلط ہیں، اُسے صلٰوۃُ الخمسہ کہیئے،   نماز ِجمعہ نہیں صلاۃُ الجمعہ، نمازِ عید نہیں صلاۃُ العید، نمازِ جنازہ نہیں صلاۃُ الجنازہ، نمازِ تسبیح نہیں صلاۃُ التسبیح،  نمازِ فجر نہیں  صلاۃُ الفجر ، نمازِ ظہر نہیں  صلاۃُ الظہر ، نمازِ عصرنہیں  صلاۃُ العصر، نمازِ مغرب نہیں  صلاۃُ المغرب ، نمازِعشاء نہیں  صلاۃُ العشاءکہیئے۔ جس طرح لفظِ  عبادت، تعوّذ، تسمیہ، تسمیہ،  ثناء، سحر، افطار،  عبادت،  مسجد، امام، خطیب، جماعت،  فجر،  ظہر،  عصر،  مغرب،  عشاء،  خطبہ، دعاء،  وضوء، مؤذِن،  اَذان،  فرض،   واجب، سُنّت،  نفل،  تکبیرتحریمہ، اقامت،   نیّت،  رکعت،  قیام،  قعود، قرأت،  رکوع،  سجدہ،  تسبیح،  قعدہ، سجدہءِ سہو،  سلام،  جنازہ،  میّت، قبر،  تکفین،  تدفین، لحد، تکبیر،  ذبیحہ،  حلال،  حرام،  مکروہ، منبر،   خطبہءِ جمعہ،  خطبہءِ عید،  قرآن، زکٰوۃ ،  حج،  جہاد،  عمرہ، اعتکاف،  استخارہ،  صلاۃُ التسبیح،  کفارہ،  صدقہءِ فطر،  عیدُالفطر،  عیدُالاضحٰی، عمرہ،  قضاء،   طواف،   عدالت، حکم، شریعت،  خلافت،  حقوق اللہ، حدود اللہ،   حدِّقذف،  قتلِ عمد، قتلِ خطأ،  تصوّف، طریقت،  صفت ایمانِ مفصَّل، صفت ایمانِ مجمل،   مُتّقی،  شہید،  تفسیر،  ترجمہ،  حدیث،   تقوٰی،   شریعت،  بدعت، فقہ، اجتہاد، استنباط،  غزوہ،   مذہب،   رفعُ الیّدَین، صحیح مسلم، صحیح بخاری، التحیات، تکبیرات، دین، تشریق، مستحب، جہری قراءت، تشہد، امامِ اعظم،  تراویح،  کلمہءِ طیب،  کلمہءِ شہادت،  کلمہءِ تمجید،  کلمہءِ توحید،  کلمہءِ استغفار،  ، صفت ایمانِ مفصل، صفت ایمانِ مُجمل،کلمہءِ ردِّ کفر، نفل تحیّۃُ المسجد، نفل تحیّۃ الوضوء،  تہجّد،اُسوۃحسنہ،  حجۃُ الوداع،  دارُالعلوم، سورۃ فاتحہ، 114 سورتوں کے نام جیسے کہ سورۃ بقرہ، سورۃ الماعون، سورۃُ الکوثر ، دارُالافتاء،  جامعہ عربیہ،مدارس،  کعبۃُ اللہ، حجرِ اسود، سورۃ،  آیۃ، وغیرہ متعدد   وتر،  دعاءِقنوت،  مدرسہ،  وغیرہ متعدد الفاظ عجمی معاشروں میں مستعملاسلامی و قرآنی اصطلاحات کے قرآن و سُنَّۃ میں مقرر کردہ  الفاظ و کلمات  ہیں کہ جو عجمی معاشروں میں رائج ہیں اور شریعۃِ اسلامیہ کے احکامات کو تبدیل کرنا کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا تو ایسے میں فقط صلاۃ و صوم کو ترجمے کی آڑ میں بدل ڈالناکیسے جائز تصور کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی  کفار و مشرکین کی مشرکانہ پوجا پاٹ و مشق و وظیفے کےلئے صدیوں سے رائج الفاظ نماز و روزہ کے ساتھ ،بلا شبہ یہ سنگین ترین جرم و گناہ ہے کیونکہ ان الفاظ کے استعمال  میں کُفّار و مشرکین کے ساتھ سو فیصد موافقت و مطابقت اور مکمّل مشابہت پائی جاتی ہے جو کہ ممنوعہ عمل ہے اور حرام و ناجائز ہے
  اللہ کے مقرر کردہ قرآنی اصطلاحی الفاظ کو بلاوجہ وبلاجوازو دلیل غیر منطقی طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا
بعینہٖ  کیونکہ لفظِ صلاۃ قرآن و سُنَّۃ کی مقرر کردہ اصطلاح ہے اسی طرح صوم  ایک مخصوص عبادت کا نام ہے لہٰذا اس  کا کوئی ترجمہ جائز ہے اور نہ  ہی ممکن ہے  لہٰذا کسی بھی صورت میں  اس کا  اصل نام  صلاۃ و صوم وغیرہ کو تبدیل  نہیں کیا جا سکتا۔ نماز پڑھنے  کا  کہیں ذکر نہیں، قرآن و سُنَّۃ میں ہرجگہ اقامتِ صلاۃ یعنی صلاۃ قائم کرنے  کا حکم ہے جوکہ فرض عبادات میں سب سےاہم و مقدم و افضل ترین فرض عبادت ہے۔ عاقبت  نااندیش علمائے سوء اور فرقہ پرست و نام نہاد مذہبی عناصر کے مکروفریب اور من گھڑت و من پسند،خود  بے بنیاد و من گھڑت  فضول  باتوں اور بدعات کے پیچھے لگ کر، بلا جوازقرآن و سُنَّۃ  کے احکامات و فرمودات، تعلیمات و ھدایات اور اسوۃ الحسنہ کی اطاعت و اتباع اور پیروی سے انحراف و روگردانی مت کیجیئے۔ اہم ترین حکمِ ربّی کی مخالفت سے باز آ جائیے۔اپنی عبادات کو اللہ کےلئے خالص رکھیئے اور اُن کو برباد وضائع ہونے سےبچائیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
تحقیق و تحریر: پروفیسر ڈاکٹرپرویزاقبال آرائیں


2 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. جناب میں پرویزی نہیں ہوں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے

    ۔"اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلٰمَ دِیۡنًا"
    اسلام نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل ہو گیا تھا۔ چارون خلفائے راشیدین اور اہل بیت رضوان اللہ علیہ نے نہ کوئی حدیث لکھی نہ لکھنے دی۔ احادیث لکھنے کا سلسلہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے وصال کے 150 سال بعد شروع ہوا اور 400 سال تک رہا
    بہت سی احادیث نہ صرف اسلام کی روح کے منافی ہیں بلکہ توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں۔ علمائے کرام نے اسکا حل یہ نکالا کسی حدیث کو مردود قراردے دیا، کسی کو معطل اور کسی کو کچھ اور۔ بھائی اسلام میں ایسا نہیں ہوتا۔ اسلام میں یا تو ایک چیز صحیح ہوتی ہے یا غلط۔ درمیان والی چیز کوئی چیز نہیں ہوتی۔
    آپ بتائیں کیا کتب احادیث سے پہلے اسلام اپنی اصل شکل میں برقرار تھا کہ نہیں- اسلام میں دو ہی چیزیں ضروری ہیں ایک اللہ کی اطاعت دوسرے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی اتباع یعنی سنت۔ باقی بدعات ہیں۔
    حضرت امیر معاویہ کو اہل بیت سے بلند درجہ دینے کیلئے بنو امیہ نے اپنے دور حکومت میں حضرت ابو ہریرہ سے ہزاروں احادیث مروی کرلیں اور بنو عباس نے اہل بیت کا درجہ کم کرنے کیلئے حضرت ابن عباس سے احادیث مروی کیں۔ اب اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے اس قدر گڑبڑ کے بعد کون سی حدیث صحیح ہے اور کون سی حدیث بعد میں گھڑی گئی۔ ہوسکتا ہے کچھ احادیث واقعی سچی ہوں لیکن اس کی تصدیق نہین ہوسکتی۔
    جواب ضرور دیجئے گا تاکہ شک دور ہو سکے

    ReplyDelete