بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآنِ
مجید کے تراجم وتفاسیر کی شرعی حیثیت ،ان میں پائے جانے والے فقہی وتفسیری
اختلافات کے اسباب وعوامل،محرکات واثرات اورنتائج کا تحقیقی جائزہ۔ (حِصّہ-2)
مقالہ
نگار: پروفیسرڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں
(گذشتہ
سے پیوستہ)
تراجم
قرآن کے مختلف اسباب
قرآن
حکیم کے تراجم کے اہل علم کی نظر میں مختلف اسباب رہےہیں ،جس کی وجہ سے یہ بات اب
مستقل طور موضوع بحث بنی اور اُس نےاہمیت
اختیار کر لی۔اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحبہ نےبھی اس بات کو اپنی متذکرہ بالاکتاب میں موضوع بحث
بنایا ہے ۔چنانچہ رقم طراز ہیں ۔
"ترجم قرآن کے مختلف اسباب کا مختصرا درج ذیل ہے ۔
۱۔قرآنی تراجم کے وجود میں آنے کا اساسی اور اولین سبب اسلام کا
غیر عربی ممالک میں انتشار (پھیلاؤ)ہے ۔جس نے وہاں کے عربی داں علماءکو قرآن کے
ترجمے پر مجبور کیا تاکہ ہر خاص وعام قرآن کا پیغام ذہن نشین کر لیں ۔
۲۔اگر صرف سبب پر اکتفاءکیا جائے تو اس کے لئے ہر زبان میں ایک ہی
ترجمہ ہونا کافی تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی زبان کے متعدد تراجم موجود ہیں
۔خود اردو میں سو سے زیادہ مکمل اور نامکمل قرآنی تراجم موجود ہیں ۔اس کے کئی
اسباب ہیں ۔ ایک معینہ مدت میں کئے ہوئے ترجمے لسانی اعتبار چالیس پچاس سال بعد
ترجمہ کے زبان کی چاشنی سے کسی حد تک محروم ہوجاتے ہیں چند الفاظ اور اصطلاحوں کی
تخلیق ہوتی ہے۔لہذا کئی ترجمے اس لئے بھی لکھے گئے کہ وہ اس لسانی ارتقاءکا ساتھ
دے سکیں ۔
۳۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر عصر میں انسانی معاشرہ چند خصوصیات کا حامل ہوتا
ہے ،ان کی کچھ اپنی قدریں ،خیالات،فلسفہ،فکر اور رجحان ہوتا ہے۔ لہذا ہر عصر میں
علماءنے اس چیز کو ضروری سمجھا کہ اپنے ہم عصر زمانے کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے
ہوئے ترجمہ کریں۔
۴۔پتہ نہیں یہ انسان ک اغرور وتکبر اور خود پرستی ہے یا معصومیت
اور سماج دوستی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار اپنے مخصوص انداز میں کرنا چاہتا ہے
۔یہ ثابت ہے کہ دنیا کے کوئی دوفرد اپنے افکار وخیالات میں بالکل تماثل اور منطبق
نہیں سکتے ۔ہر ایک اپنے خیالات کی ترویج اور بعض مرتبہ بڑی شدت اور زبردستی سے
دوسروں کے خیالات کی تردید کے لئے بھی ترجمے کرتے ہیں ۔ اس طرح سے نئے نئے ترجموں
کا ظہور ہوتا ہے۔
۵۔قرآن ایک مسلمان کی زندگی کا مرکز اور مقصد ہے ،اس کا سننا
،پڑھنا، پڑھانا اور ترویج کرنا مسلمان کے لئے سب سے زیادہ شرف اور ثواب کی بات ہے
۔مثال کے طور پر شاہ عبد القادر جب کہ قرآن کا ترجمہ مکمل کر چکے ،تو فرماتے تھے ۔
"روز قیامت ہر کسے باخویش دارد نامہ من نیز ما فسر میشوم
تفسیر قرآن دربف"
کسی
بھی صورت میں قرآن کی خدمات مسلمان کے لئے باعث ثواب ورحمت ہے لہذا علماءکبار نے
خود کے ثواب کے لئے اور دوسروں کی رہنمائی کے لئے ترجمے کئے
۶۔شاعر کہتا ہے
ہرچند ہو مشاہدحق کی گفتگو
بنتی نہیں بادہ وساغر کہے بغیر
یہ
شعر وشاعری کی حد تک تو صحیح ہے لیکن جب قرآن کا ذکر آئے تو حقیقت اور صرف حقیقت
ہی واجب ہے ،بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض ترجموں کا مطمح نظر تجارتی بھی ہوتا
ہے ۔یہاں تک کہ غیر مسلم افراد اور ادارے لاکھوں کی تعداد میں ترجمے چھاپ کر ترویج
کرتے ہیں اور بے شمار مالی منافع کماتے ہیں بلکہ مرحوم مولانا اشرف علی تھانوی نے
بھی بعض مسلمانوں پر یہ الزام لگایا ہے :
"بعض لوگوں نے محض تجارت کی غرض سے نہایت بے احتیاطی سے قرآن
کے ترجمے شائع کرنا شروع کئے ۔جن میں بکثرت مضامین خلاف قواعد شرعیہ بھر دئیے،جن
سے عام مسلمانوں کو بہت مضرت پہنچی "(35)
۷۔بعض دشمنان اسلام نے قرآن کو دانستہ مسخ کرنے کی خاطر اس کے غلط
ترجمے کر کے چھاپا ہے ۔
"ان کے انتقامی جذبات اور فاسدانہ خیالات نے قرآن پر اتہامات
عائد کرنے کے لئے عجیب وغریب انداز میں ترجمے کئے ہیں ۔ان کا مقصد ہی تخریبی
کاروائی ہے ان حاسدان اسلام میں بہت سے غیر مسلم ہیں ۔
عموما
عیسائی پادری اور یہودی احبار شامل ہیں غالبا یہ لوگ ہٹلر کی اس بات کے ہمنوا ہیں
کہ جھوٹ کو اتنے بار بولوکہ سچ لگنے لگے۔لیکن الحمد اللہ قرآن کی حفاظت اور ترویج
کا وعدہ اللہ سبحانہ وتعالی نے خود کیا ہے (36)
اس طویل اقتباس میں
تراجم قرآن کے مچبت اور منفی اسباب وعوامل پر سیر حاصل گفتگو کی گئی اور تقریبا
تمام اسباب ومحرکات ترجمہ کا اس میں احاطہ کیا گیا ہے۔
بہر
حال ان تمام اسباب کا جائزہ لینے کے بعد یہی سمجھ آتا ہے کہ مفاد پرست اہل علم
وفضل ،اسلام اور مسلمانوں کے مخلص اور خیر خواہ رجال دین کا فرض بنتا ہے کہ قرآنی
تعلیمات شیوع وفروغ ،اسلام کی تبلیغ اور بد عقیدہ عناصر کے عزائم کو خاک میں ملانے
کے لئے تمام قابل ذکر زبانوں میں ترجمہ کریں اور ان تراجم کی اشاعت کے لئے تمام
وسائل بروئے کا ر لائیں۔
نفس
ترجمہ کے ان اسباب کے ذکر کے بعد اب ہم تراجم قرآن میں فقہی مسلکی اور تفسیری
اختلاف کے اسباب کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
ترجمہ
قرآن میں اختلاف کے اسباب
قرآن
کریم اللہ تعالی کا کلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے
۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کے اولین مخاطب تھے اور بعد کے لوگوں نے
قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لیا ہے۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود صاحب وحی ہیں اور وحی کے ذریعے اللہ تعالی نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطالب قرآن سکھائے اور آپ علیہ السلام سے صحابہ نے وہ
سن کر محفوظ کیا ۔اسے حدیث واثر بھی کہا جاتا ہے تفسیر ماثور(منقول)بھی کہا جاتا
ہے۔
صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عرب تھے اور محققین کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ
ان کی عربی دانی ہی فہم قرآن کے لئے کافی تھی۔جب کہ دوسرے گروہ کا خیال یہ ہے کہ
نہیں محض عربی دانی کافی نہیں ہوتی ، اور صحابہ کرام عرب تھے مگر معانی قرآن سے
آگہی کے لئے وہ صاحب وحی کی طرف رجوع کرتے تھے۔
صاحب
”التفسیر والمفسرون“نے اس پر تفصیلی نگاہ ڈالی ہے۔وہ فرماتے ہیں :
...."انا فھمہ
تفصیلہ ،ومعرفة دقائق باطنہ بحیث لا یغیب عنہم شاردہ ولا واردة ،فہذا غیر میسور
لہم بمجرد معرفتہم للغہ القرآن بل لا بد لھم من البحث وانتظر والرجوع الی النبی
صلی اللہ علیہ وسلم فیما یشکل علیہم فہمہ"(37)
"(قرآن کا اجمالی معنی تو طبعی طور صحابہ کرام عربی دانی کی
وجہ سے جانتے تھے )مگر اس کا تفصیلی فہم اور اس کے باطنی دقائق اس طرح جاننا کہ
کوئی نامانوس اور نیا پیش آنے والا کلمہ دسترس سے باہر نہ رہے ۔یہ صرف قرآن کی
زبان جاننے کی بدولت آسان نہ تھا ۔بلکہ ضروری تھا کہ (صحابہ کرام)اس سے بحث کریں
،اس میں غور وفکر کریں اور اس میں جو مشکل پیش آئے اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی طرف رجوع کریں"۔
مزید
فرماتے ہیں۔
"ولا اظن الحق مع ابن خلدون حیث یقول فی مقدمة "ان
القرآن نزل بلغہ العرب ،وعلی اسالیب بلاغتہم فکانوا کلہم یفھمونہ ویعلمون معانیہ
فی مفرداتہ وتراکیبہ وأقرب دلیل علی ھذا
ما نشا ھذہ الیوم من الکتب المؤلفة علی اختلاف لغاتھا ۔ویعجز کثیر من ابناءھذة
اللغات عن فہم کثیر مماجاءفیہا بلغتہم ،اذاالفھم لا یتوقف علی معرفة اللغہ وحدہا
،بل لابد لمن یفتش عن المعانی ویبحث عنہا من ان تکون لہ موھبة عقیلة خاصة تناسب مع
درجة الکتاب وقوة تالیفہ"۔(38))
"اور میرے خیال میں حق ابن خلدون کے ساتھ نہیں ہے جنہوں نے
اپنے تاریخ کے مقدمہ میں کہا ہے: کہ قرآن کریم عربوں کی زبان اور ان کے بلاغت کے
اسالیب میں نازل ہوا ہے ۔لہذا تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) اس کو
سمجھتے تھے اور اس کے مفردات اور مرکبات کے معانی کو جانتے تھے"....
جی
ہاں! میرا خیال نہیں ہے کہ حق ان کے پاس ہے یہ اس لئے کہ قرآن کا عربوں کی زبان
میں نازل ہونا اس کا تقاضا نہیں کرتا کہ سارے عرب قرآن کے مفردات اور مرکبات کو
جانتے تھے ۔اور اس کی قریب ترین دلیل یہ ہے کہ آج ہم مختلف زبانوں میں لکھی گئی
بہت سی کتابوں کو دیکھ رہے ہیں کہ ان زبانوں والے بہت سارے لوگ اپنی زبانوں میں
لکھی گئی ان کتابوں میں سے بہت کچھ سمجھنے سے عاجز ہیں اور یہ اس لئے کہ فہم صرف
زبان دانی پر موقوف نہیں ہے۔
بلکہ
جو کوئی کسی معانی کی تلاش کرتا ہے اور ان کی جانچ پڑتال میں لگا ہوتا ہے ضروری ہے
کہ اس کو ایک خاص عقلی صلاحیت ملی ہو جو اس کتاب کے لیول کی ہو اور اس کی تالیف کی
قوت سے مناسبت رکھتی ہو"۔
ترجمہ
قرآن میں صحابہ کرام کے درمیان تفاوت
اب
جب صرف عربی دانی فہم قرآن کے لئے کافی نہیں ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی طرف رجوع ضروری ہوئی اور فطری عقل مندی اور دانشمندی بھی اس کے لئے شرط
ٹھری۔ تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں صحبت وقربت رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے اعتبار سے بھی اختلاف تھا ۔فہم،اخذ،حفظ،نتائج اخذ کرنے،عقل ورائے
وغیرہ میں بھی تفاوت تھا اس لئے لا محالہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
زیادہ سیکھا کسی نے کم ،کسی کو زیادہ گہرا سمجھ میں آیا کسی کو اس سے کم ،اپنی قوت
عقلیہ اور اجتہاد واستنباط کی صلاحیت سے کوئی زیادہ قدرت رکھتا تھا کوئی کم۔لہذا
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول تفاسیر میں اختلاف پایاجانا ناگزیر
تھا۔
علامہ
امام حسین الذھبی رحمہ اللہ ”تفاوت الصحابہ فی فہم القرآن“کے عنوان کے تحت کہتے
ہیں۔
"ولو اننا رجعنا الی عہد الصحابة لوجدنا انہم لم یکونوا فی
درجة واحدة بالنسبة لفھم معانی القرآن ،بل تفاوتت مراتبہم واشکل علی بعضہم ما ظہر
لبعض آخر منھم،وھذا یرجع الی تفاوتہم فی القوة العقلیہ وتفاوتھم فی معرفة ما احاط
بالقرآن من ظروف ومالبسات۔واکثر من ھذا انھم کانوا لا یتساوون فی معرفة المعانی
التی وضعت لھا المفردات فمن مفردات القرآن ما خفی معناہ علی بعض الصحابة ولا خیر
ھی ھذا فان اللغة لا یحبط بھا الا معصوم ،ولم یدع احد ان کل فرد من امة یعرف جمیع
الفاظ لغتہا "۔(39)
اگر
ہم عہد صحابہ کرام کی طرف لوٹیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ بھی معانی قرآن کے فہم کے
حوالے سے ایک ہی درجے میں نہیں ہیں بلکہ ان کے مراتب مختلف ہیں اور بعض کے لئے ایک
چیز مشکل تھی تو دوسروں کے لئے واضح تھی۔
اور
اس کی اصل وجہ بھی قوت عقلیہ میں ان کے درمیان تفاوت ہے۔اسی طرح جو حالات اور امور
قرآن کے ساتھ متعلق اور وابستہ رہے ان کی معرفت میں تفاوت تھا۔
اور
اس سے بھی زیادہ جس بات کا اس میں دخل رہا ہے وہ یہ ےہ کہ الفاظ موصوفہ کے معانی
(موضوع لھا)کے معرفت میں وہ سب برابر نہ تھے ۔چناں چہ کئی مفرد الفاط کے معانی کئی
صحابہ کرام سے مخفی تھے ۔اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے ۔اس لئے کہ کس زبان
کا احاطہ تو کوئی معصوم ہی کر سکتا ہے اور کسی نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ کسی قوم
کا ہر فرد اس کی زبان کا تمام الفاط کے معانی جانتا ہے"۔
اس
کے بعد امام حسین الذہبی نے اس کی مختلف مثالیں دی ہیں مثلا فرمایا ۔
"حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے منبر پر"فاکھة وابا"پڑھا
تو فرمایا:یہ "فاکھة "تو ہم جانتے ہیں مگر "اب" کیا ہے ؟پھر
خود ہی کہا:
"ان ھذا لھوا التکلف یا عمر"
”عمر یہی تو تکلف ہے کہ ہر لفظ کے لغوی معنی کے پیچھے پڑ جائے “
بس
نعمتوں کو ذکر مقصود ہے جو واضح ہے ۔
اسی
طرح منبر پر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ”او یا خذہم علی تخوف“پڑھاتو”تخوف“کا معنی
پوچھا:جس پر ہذیل قبیلے کے ایک آدمی نے کہا:
"التخوف عندنا التنقص"
اور
فرمایا ۔
ترجمان
القرآن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں مجھے”فاطر السموت“
کا معنی نہیں آتا تھا۔ تو دو اعرابی میرے پاس آئے جو کنویں کے متعلق جھگڑ رہے تھے
۔ایک نے کہا:”انا فطرتھا“مجھ کو سمجھ آگئی "انا ابتدأتھا“مراد ہے ۔
اب
جب ایسے جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ بعض مفردات کے معانی نہیں جانتے تو پھر کون
ہے جو ہمہ دانی کا دعوی ٰ کرے"۔(40)
اس
سلسلے میں آگے امام ذہبی فرماتے ہیں:
”کانوا یتفاوتون فی العلم بلغتہم فمنہم من کان واسع الاطلاع
فیہا علما بغریبھا ،ومنھم دون ذؒک ،ومنھم من کان یلازم النبی صلی اللہ علیہ وسلم
فیعرف من اسباب نزول والا یعرفہ غیرہ أصف الی ھذا وذاک ان الصحابة لم یکونوا فی
درجتہم العلمیہ ومواہبھم العقلیہ سواءبل کانوا مختلفین فی ذلک اختلافا عطیما،قال مسروق:
جالست
اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوجدتھم کالاخاذ ۔یعنی الغدیر فالاخاذ یروی الرجل
،ولاکاذ یروی الرجلین ولاخاذ یروی العشرة ،ولاکاذ یروی الماة ولاکاذ لونزل بہ اہل
الارض لاصدرہم“۔(41)
"صحابہ کرام میں علم لغت میں تفاوت تھا ،کوئی تو زیادہ علم
اور ادراک رکھتا تھا اور غریب واجنبی الفاظ کو زیادہ جانتا تھا کوئی کم ،رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادہ ساتھ رہنا تھا اور نزول کے اسباب کو دوسروںسے
زیادہ جانتاتھا۔
اس
کے ساتھ یہ بھی تھا کہ صحابہ کرام میں علمی مقام ومرتبے میں اور عقل ودانش میں
برابر نہ تھے بلکہ ان میں بہت زیادہ فرق تھا ۔
حضرت
مسروق(تابعی)رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
بیٹھا ،تو میں نے ان کو تالاب کی طرح پایاکہ کوئی تالاب ایک آدمی کو سیراب کر رہا
ہے تو کوئی دو کو،کوئی دس کو ،کوئی سو کو اور کوئی ایسا ہے کہ سارے زمین والے
آجائیں تو سب کو سیراب کردے "۔
صحابہ
کرام میں علم، فہم،ادراک ،رائے وغیرہ کے اس اختلاف اور تفاوت کا قرآن کی تفسیر اور
اسلام کے اصول وفروع اور شرائع واحکام کی تشریح وتوضیح پر بھی گہرااثر پڑا۔چنانچہ
عہد صحابہ کرام میں چار مآخذ قرآن تھے اور انہی مآخذ ومصادر پر تفسیر قرآن کے
حوالے سے اعتماد ہوتا تھا ۔
(۱)
قرآن کریم۔
(۲)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات۔
(۳)
اجتہاد وقت استنباط۔
(۴)
اہل کتاب (یہود ونصاری) ۔
قرآن
کریم خود قرآن کی تفسیر بھی کرتا ہے (یفسر بعضہ بعضا)پھر اس میں قراءت کا اختلاف
اور دیگر کئی امور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں مختلف فیہا
رہے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تفسیر کے حوالے سے فرامین میں صحابہ میں
واقفیت اور عدم واقفیت ،استناد،اتصال وغیرہ میں اختلاف رہا ہے ۔
وضع
علی الر سول کا "عنصر"
اس میں بھی تفسیر ہیں
کئی چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب اور موضوع (گھڑی ہوئی)
ہیں اور صحیح اور ثقہ سند سے ثابت نہیں ہیں۔اس طرح کے اقوال لینے اور نہ لینے میں
بھی عہد اول میں اختلاف ِ ذوق وطبائع رہا ہے ۔
مثلا
لفظ ”قناطیر“ اور” قنطار“ میں ایک قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ
منسوب ہے کہ یہ ایک ہزار اوقیہ کا ہوتا ہے اور دوسرا یہ منقول ہے کہ بارہ ہزار
اوقیہ کا ہوتا ہے۔
ظاہر
ہے اس طرح کے متعارض اور متناقض اقوال کیسے درست ہوسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امام
احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ثلاثة لیس لہا اصل ۔التفسیروالملاحم،والمغازی“
امام
احمد بن حنبل کے پیروکار کہتے ہیں :
ان
الغالب انہ لیس لہا کااسانید صحاح متصلہ
یعنی
تفسیر ،جنگوں اور غزوات کے متعلق روایات اکثر صحیح اور متصل سند سے ثابت نہیں ہیں
۔
بیان
رسول اور اس کی مقدار میں اختلاف
پھر
یہاں یہ بھی اختلاف رہا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کریم
کی مکمل تفسیر بیان کی ہے۔علماءکی ایک جماعت کی یہی رائے ہے جب کہ دوسرے گروہ کی
رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت کم تفسیر بیان کی ہے۔سارے
قرآن کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔دونوں فریق اپنی
رائے کے حق میں مختلف دلائل دیتے ہیں اور دونوں نے غلو اور تشدد سے بھی کام لیا
ہے۔
علامہ
حسین ذہبی نے دونوں گروہوں کے افرط وتفریط کو ذکر کرنے کے بعد اپنی معتدلانہ رائے
کااظہار کیا ہے۔
فرماتے
ہیں:
"والرای الذی تمیل الیہ النفس ۔بعد ان اتضح لنا فعالات کل
فریق فی دعواہ،وعدم صلاحیة الادلٰة لاثبات المدعی۔ھو انا نتوسط بین الرأیین
فنقول:ان الرسول صلی اللہ علیہ وسلم بین الکثیر من معانی القرآن لا صحابہ کما نشہد
بذلک کتب الصحاح،ولم یبی کل معنی القرآن ،لان من القرآن ما استاثر اللہ تعالی
بعلمہ،امنہ ما یعلمہ العلماء،ومنہ ما تعلمہ العرب من لغاتھا ،ومنہ ما لایقدر احد
فی جھالتہ کما صرح بذلک ،ابن عباس فیمارواہ عنہ ابن جریر،قال(التفسیر علی اربعة
اوجہ ،وجہ تعرفہ العرب من کلامھا،وتفسیر لا یعذر احد بجھالتہ ،وتفسیر تعرفہ
العلماء،وتفسیر لا یعلمہ الا اللہ "(42)
”اور وہ رائے جو دل کو لگتی ہے ۔یہ واضح ہونے کے بعد کہ ہر فریق
اپنے دعوی میں غلو کررہا ہے اور اس کے دلائل میں اس کے دعوی کے اثبات کی صلاحیت
نہیں ہے۔ وہ(رائے)یہ ہے کہ ہم نے دونوں آراءکا درمیانی راستہ اختیار کریں اور یہ
کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت کچھ معانی قرآن کو بیان کیا اپنے
صحابہ کے لئے ، جیسے کہ کتب صحاح اس کی گواہ ہیں ،ہاں سارے معنی بیان نہیں کئے اس
لئے کہ بعض قرآن (کے معانی کا علم)اللہ تعالی نے اپنے پاس رکھا ہے ،بعض کو
علماءجانتے ہیں ،بعض کو عرب اپنی زبان سے جانتے ہیں اور کچھ وہ بھی ہے جس کو نہ
جاننے کا عذر کوئی پیش نہیں کرسکتا (کہ یہ ایک کو معلوم ہونا چاہئے )جیسے ابن جریر
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں تفسیر کی چار
قسمیں ہیں ۔
(۱)
جس کو عرب اپنی بولی سے جانتے تھے۔
(۲)
وہ تفسیر جس کو نہ جاننے کا بہانہ کسی کا قبول نہیں۔
(۳)
وہ تفسیر جسے علماءجانتے ہو۔
(۴)
وہ تفسیر جسے صرف اللہ تعالی جانتا ہے“۔
قرآن
کریم کی کسی آیت ،جملے یا لفظ کا کیا معنی ہے اس میں اس لحاظ سے اختلاف رہا ہے کہ
وہ کس قبیل سے ہے ۔چنانچہ علامہ اما م ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"ان الصحابة رضوان اللہ علیہم اجمعین اوقع بینھم االاختلاف فی
تاویل بعض الایات ولو کان عندہم فیہ نص عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما وقع
ھذا الاختلاف او لا وقع بعد الوقوف علی النص"(43)
"صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بعض آیتوں کی
تفسیر سے متعلق اختلاف واقع ہوا ہے ،اور اگر ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کا کوئی نص ہوتا تو وہ اختلاف نہ ہوتا یا اختلاف نص سے واقفیت کے بعد ختم
ہوجاتا" ۔
بہر
حال تفسیر کے مصدر ثانی یعنی حدیث اور تفسیر رسول میں اختلاف بھی تفسیر قرآن میں
اختلاف کا ایک سبب ہے۔
ملکہ
اجتہاد واستنباط میں اختلاف
علامہ
سید محمد حسین الذہبی کہتے ہیں کہ تفسیر کا تیسرا مصدر اجتہادا ور قوت استنباط
ہے۔صحابہ کرام کو جب اخذعن الرسول میسر نہ تھا تو پھر وہ اجتہاد کرتے تھے اور نظر
وفکر سے کام لیتے تھے ۔صحابہ کرام ان میں مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھ کر
اجتہاد کرتے تھے۔
(۱)
معرفة اوضاع اللغة واسرارہا
(۲)
معرفة عادات العرب
(۳)
معرفة احوال الیہود والنصاری فی جزیرة العرب وقت نزول القرآن
(۴)
قوة الفہم وسعة الادراک۔
صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اس حوالے سے بھی تفاوت تھا ۔چنانچہ حضرت قدامہ
ابن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ عامل بحرین پر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی
خلافت میں شراب نوشی کا لزام لگا توحضرت قدامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ : انہیں
سزا نہیں ہوسکتی کیوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا
"لیس علی الذین آمنوا وعملو الصالحات جناح فیما طعموا اذا ما
اتقوا واٰمنوا وعملواالصالحات ثم اتقوا واٰمنوا ثم اتقوا واحسنوا"(44)
کہا
میں اس آیت کا مصداق ہوں کیوں کہ ایمان ،تقوی اور احسان کے ساتھ میں بدر،احد،خندق
اور دوسرے غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ۔
حضرت
عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
"الاتردون علیہ قولہ"
ان
کی اس بات کا آپ جواب نہیں دیں گے؟
تو
حضرت ابن عباس رضی ا للہ عنہ نے کہا:
یہ
سابقہ لوگوں کے اعتذار اور آئندہ آنے والوں کے لئے حجت اور دلیل ممانعت ہے اس لئے
کہ اللہ نے واضح فرمایا:
"انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان "(45)
حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"صَدَقْتَ"(آپ نے درست کہا)(46)
اسی
طرح جب مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی:
"الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام
دینا"(47)
تو سب صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین تکمیل دین کے اعلان پر خوش تھے جب کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی
عنہ رو رہے تھے ۔کیوں کہ اپنے بصیرت سے جانتے تھے کہ مقصد بعثت پورا ہوا ۔تو اب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھالیا جائے گا ۔
اسی
طرح ارشاد باری تعالی ہے :
"اذاجاءنصر اللہ والفتح"(48)
نازل
ہوا تو حضرت عمر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو بلا کر سب سے پوچھا ؟اس
آیت کے بارے میں کیاکہتے ہو ؟ لوگوں نے کہا تسبیح اور استغفار کا حکم ہے ۔
حضرت
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی
نے اجل (موت کا وقت)بتایا۔
حضرت
عمر رضی ا للہ تعالی عنہ نے کہا:
"لا اعلم منہا الا تقول"
"میرا بھی یہی خیال ہے جو آپ نے اندازہ لگایا"۔(49)
اہل
کتاب سے اخذ میں اختلاف
تفسیر
کا چوتھا مصدر اہل کتاب ہیں ۔قرآن حکیم کے بہت سارے مضامین ،قصص اور احکام وغیرہ
امم سابقہ خصوصا یہود ونصاری سے متعلق اور ان کی کتب تورات انجیل میں مذکور ہیں
۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذوق اس حوالے سے بھی مختلف تھا۔بعض حضرات
کا ذوق تھا کہ قرآن کریم کی اجمالی قصص کی تفصیل معلوم کریں ۔
اس
لئے اہل کتاب کی طرف رجوع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصریحات اور
ارشادات بھی مختلف ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل بھی ۔جس کی
وجہ سے تفسیر میں اختلاف نظر آیا۔
اسرائلیات
کے اعتبار اور عدم اعتبار میں اختلاف
تفسیر
میں اسرائیلی روایات در آنے کا معاملہ بھی اسی سے جڑا ہوا ہے
اسرائیلیات
سے کیا مراد ہے ؟
اسرائیلیات
سے مراد یہود (بنی اسرائیل)اور نصاری سے منقول اور ان کی طرف منسوب روایات ہیں۔اہل
کتاب کی طرف رجوع اور تورات وانجیل کا مطالعہ تو عہد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین میں ہی تفسیر کا مآخذ تھا ۔مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کی
حدود کو جانتے تھے اور اس میں ضروری احتیاط بھی کرتے تھے ۔مسلمانوں کے ساتھ اہل
کتاب کا شدید اختلاط بھی تھا اس لئے بعض مرتبہ اسرائیلی روایات پر اعتماد بڑھا اور
کثرت سے اسرائیلی روایات کیا جانا شروع ہوا ۔
اسرائیلیات
کا معاملہ بھی بڑا معرکة الآراءہے ۔
حضرت
عبد اللہ بن سلام،کعب احباراور وھب بن منبہ جیسے اہل کتاب میں سے مسلمان ہونے والے
اہل علم کا معاملہ تو اپنی جگہ ہے۔عہد صحابہ کا معروف اور ممتاز مفسرین میں سے
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماجیسے جلیل القدر صحابی پر یہ الزام ہے
کہ انہوں نے اسرائیلی روایات کو لیا ہے ،ان پر اعتماد کیا اور ان کو فروغ دیا ہے ۔
حضرت
عمرو بن العاص اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عمرو پر بھی یہ الزام ہے ۔
بہر
کیف تفسیر قرآن کریم پر اسرائلیات نے نہایت خطرناک اثرات ڈالے اور تفسیر میں ایک
بڑا سبب اختلاف "اسرائیلیات" کاہے۔
اس
بارے میں علامہ امام حسین الذہبی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں ۔
"ولقد کان لہذہ الاسرائلیات التی اخذھا المفسرون من اہل
الکتاب وشرحوا بھا کتاب اللہ تعالی اثر بسئی فی التفسیر ،ذلک لان الامر لم یقف علی
ماکان علیہ فی عہد الصحابة ،بل زادو علی ذلک فروو اکل ما قیل لہم ان صدقا وان کذبا
بل داخل ھذا النوع من التفسیر کثیر من القصص الخیالی المخترع مماجعل الناظر فی کتب
التفسیر التی ھذا شانھا یکاد لایقبل شئیا مماجاءفیہا الاعتقادہ ان الکل من واد
واحد"(50))
"اور ان اسرائیلیات کا جو مفسرین نے اہل کتاب سے لیا اور ان
کے ذریعے کتاب اللہ کی شرح کی۔ان کا تفسیر پر بہت برا اثر پڑا اور یہ اس لئے کہ
معاملہ اس پر نہیں رکا جب اصحاب رسول کے عہد میں تھا بلکہ اس پر لوگوں نے اضافہ
کیا اور جھوٹ سچ کی تمیز کے بغیر جو کچھ ان سے کہا گیا اسے روایت کیا بلکہ اس میں
بہت سارے خیالی اور بناوٹی قصے بھی ملائے گئے جنہوں نے اس طرح کی تفسیر کی کتابوں
کا مطالعہ کرنے والے کو ایسا کردیا کہ اس نے کسی بھی اسرائیلی روایت کو قبول کرنے
سے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ یہ سب ایک ہی وادی کی چیزیں ہیں جب کہ اسرائیلیات کی
تین قسمیں ہیں اور ان تین میں سے صرف ایک قسم ناقابل قبول ہے"(51))
شعر
جاہلی کی طرف رجوع کا اختلاف
شعر
جاہلی کی طرف رجوع اشعار عرب سے استدلال واستفادہ کا معاملہ بھی ایسا رہا ہے کہ جس
سے بعض حضرات سلف کا تعلق زیادہ تھا اور بعض کا کم ۔
حضرت
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس معاملے میں شعر عربی پر اعتماد کرنے والے
مفسر کی شہرت رکھتے تھے ۔ان کے اسباب تنوع اور شہرت میں سبب رابع کے بارے علامہ
امام حسین الذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رابعا: حفظہ اللغہ العربیہ ومعرفتہ لغریبہا وآدابھا وخصائصھا
واسالیبھا وکثیر اماکن یستشہد للمعنی الذی یفہمہ من لفظ القرآن بالبیت والاکثر من
الشعر العربی"(52)
"چوتھا سبب یا عنصر یہ ہے کہ آپ (حضرت ابن عباس)عربی زبان کو
یاد کرتے تھے ،غریب اور اجنبی الفاظ جانتے تھے اور عربی زبان کے ادب اور اس کی
خصوصیات اور اسالیب پر دسترس رکھتے تھے اور اکثر جو معنی وہ کسی لفظ سے سمجھتے اس
کے لئے کسی شعر کے مصرع یا زیادہ تعداد سے استشہاد کرتے تھے"
لغت
پر انحصار یا اسالیب عرب کا زیادہ اہتمام بعد کے بعض مفسرین میں بھی امتیازی شان
کے ساتھ پایا گیا ۔
عہد
صحابہ وتابعین میں مدارس فکر کی بنیاد پڑی
صحابہ
کرام (رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین) کے
عہد میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ،حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی
اللہ تعالی عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالی
عنہ تفسیر قرآن کے وہ اساطین تھے جن صحابہ کرام اور تابعین عظام نے قرآن کریم
سیکھا۔ پھر عہد تابعین میں ان کے تلامذہ ومسترشدین نے اس کار خیر کا بیڑا
اٹھایا۔ان چاروں صحابہ کرام کا اپنا ایک طبعی مزاج ،خاص ذوق اور اپنی اپنی خصوصیات
وامتیازات تھیں اور ان کی تفسیروں میں ان کی اس شخصیت کا گہرا اثر اور ان کے
میلانات ورجحانات کی واضح چھاپ موجود تھی ۔یہی رنگ پھر ان کی تلامذہ یعنی تابعین
میں بھی رہا اور یوں ہر مفسر کا اپنا ایک حلقہ اثر تھا جو آہستہ آہستہ ایک مکتبہ
فکر کی شکل اختیار کرتا گیا۔
”اتفسیر والمفسرون “کے مصنف نے اسی لئے ”مدارس التفسیر فی
عہدالتابعین“کا عنوان قائم کیا اور پھر تین مدارس کا ذکرکیا ۔
(1) مدرسة التفسیر بمکہ
(2)مدرسة التفسیر بالمدینة
(3)مدرسة التفسیر بالعراق
تینوں
کے موسسین اور فیض یافتگاں کو ذکر کیا اور ان کے اسالیب اور طرز وطریق تفسیر اور
اثرات کا جائزہ پیش کیا۔
عہد
تابعین میں مذہبی اختلافات کی بنیاد پڑی
علامہ
ذہبی نے عہد صحابہ میں تفسیر کے تقریبا سات امتیازات بیان کئے ہیں۔اس طرح انہوں نے
”ممیزات التفسیر فی ھذہ المرحلة“کے عنوان کے تحت عہد تابعین میں تفسیر کے امتیازات
کا ذکر کیا۔جو چار ہیں ۔
(1) پہلا امتیاز یہ ہے کہ اس عہد میں اسرائیلیات اور نصرانیات
بکثرت تفسیر میں داخل ہوئیں ۔خصوصا اہل کتاب کے بکثرت اسلام میں داخل ہونے کے سبب۔
(2) دوسرا امتیاز یہ ذکر کیا کہ اس عہد میں تفسیر پر تلقی اور
روایت کی چھاپ لگ گئی ۔
"فاھل کل مصر یعنون بوجہ خاص بالتلقی والروایة عن امام مصرہم"(53)
"ہر شہر والے بطور خاص اپنے ہی شہر کے امام سے روایت لیتے تھے"
"فالمکیون عن ابن عباس والمدنیون عن ابی والعراقیون عن ابن
مسعود....وھکذا"(54)
"جیسے مکہ والے ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مدینہ والے ابی ابن
کعب رضی اللہ عنہ سے اور عراق والے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے"۔
(3) تیسرا امتیاز یہ ذکر کیا ہے:
"ظہرت فی ھذا العصر نواة الخلاف المذہبی"(54)
"اسی زمانے میں مذہبی اختلاف بھی تفسیر میں در آیا"۔
مثلا
قضاءوقدر میں اختلاف کا عقیدہ اور پھر اس کا تفسیر پر اثر پڑنا لازمی امر تھا
۔حضرت قتادہ بن دعامہ ،حضرت حسن بصری رحمہ اللہ وغیرہ کی تفسیروں میں یہ چیز پائی
جاتی تھی ۔
اختلافات
میں وسعت اور شدت
صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو قرآن کی تفسیر میں عربی زبان کے تقاضوں اور اسباب
نزول کے مطابق کرتے تھے اور ان حالات اور معاملات کو پیش نظر رکھتے تھے جن کا قرآن
کے نزول سے تعلق ہوتا تھا ۔
تابعین
نے بھی ان سے تفسیر لی اور اس کے قریب قریب رہی ۔مگر بعد میں مختلف علوم وفنون اور
مذاہب اور فرق وجو د میں آئے اور وہ معمولی اختلافات بڑھنے لگے ۔یہاں تک کہ تناور
اور ثمر آور درخت کی شکل اختیار کی ۔
علامہ
حسین الذہبی کہتے ہیں
"ونزد علیہ ان مادون من العلوم الادبیة والعلوم العقلیہ
،والعلوم الکونیہ ،ومذہب الخلاف الفقہیہ والکلامیہ لم یکن قد ظہر شئی منہا فی عصر
الصحابة والتابعین،وان کان قد وجدت النواة التی نمت فیما بعد وتفرعت عنھا کل ھذہ
الفروع المختلفة،کان ھذا ھو الشان علی عہد الصحابة والتابعین فکان طبیعا ان تضیق
دائرة الخلاف فی التفسیر فی ھاتین المرحلتین من مراحلہ ولا تتسع ھذا الاتساع
العظیم الذی وصلت الیہ فیما بعد"(55)
"ہم مزید کہیں گے کہ جو ادبی علوم ،عقلی علوم اور کائناتی
علوم اور فقہی وکالمی مذاہب مدون ہوئے ،عہد صحابہ اورتابعین میں اس میں سے کچھ بھی
نہیں تھا۔اگر چہ اس کی بنیاد وجود میں آتی تھی جو بعد میں بڑھی اور اس کی مختلف
شاخیں نکل آئیں ،عہد صحابہ وتابعین میں یہی معاملہ تھا تو طبعی طور پر تفسیر کے
تمام مراحل میں سے ان دو مرحلوں میں دائرہ اختلاف تنگ ہی نہیں چاہئے تھا اور اس
میں یہ بڑی وسعت نہیں ہونی چاہئے تھی جو بعد میں اس میں آئی"۔
عبارت
اور تعبیر کا فرق بھی سبب اختلاف بنا
علامہ
حسین الذہبی ”الخلاف بین السلف فی التفسیر“کے تحت لکھتے ہیں:
"وتستطیع بعد البحث النظر فی ھذہ الاقوال التی اختلفت ولم
تتابین ان نرجع ھذا الخلاف الی عدة امور نذکرہا غیر عبارة لیتبین لنا انہ لاتنافئی
ولا تباین بین ھذہ الاقوال التی تبدو متعارضة عن السلف وھی مایاتی ۔
اولا
ان یعبر کل واحد من المفسرین عن المراد بعبارة غیر عبارة صاحبہ تدل علی معنی فی
المسی غیر المعنی الاخر مع اتحاد المسمی وذلک مثل اسماءالحسنی ،واسماءرسولہ صلی
اللہ علیہ وسلم وااسماءالقرآن...."(56)
"اور ان اقوال مختلفہ غیر تباینہ میں بحث ونظر کے بعد ہم اسی
اختلاف کو چند امور کی طرف لوٹا سکتے ہیں ۔ہم ان کو ذکر کرتے ہیں تا کہ یہ معلوم
ہو کہ ان اقوال میں منافات اوت تباین نہیں ہے جن میں سلف کا تعارض معلوم ہوتا ہے ۔
پہلا
امر یہ ہے کہ ہر مفسر مراد کو دوسرے مفسر کی عبارت سے ہٹ کر اپنی عبارت میں ذکر
کرے جو اتحاد مسمی کے باوجود معنی اول کے علاوہ دوسرے معنی پر دلالت کرے اور اس کی
مثال اسماءحسنی ،اسماءالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور اسماءالقرآن ہے جن کا
مصداق ایک اور الفاظ مختلف ہیں"۔
اس
کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ "صراط مستقیم "کی تفسیر میں بعض حضرات کہتے
ہیں کہ اس سے مراد اتباع القرآن ہے ،بعض کے ہاں اتباع" السنة والجماعة "مراد
ہے ۔تاہم یہ کوئی تعارض نہیں ہے۔
اسی
طرح الفاظ مترادفہ نہیں ،بلکہ الفاظ متقاربہ کے ساتھ مختلف مفسرین کا بعض الفاظ کی
تفسیر بیان کرنا اختلاف کا سبب بنتا ہے " (57)
تفسیر
عقلی ....بھی ایک سبب اختلاف ہے
علامہ حسین الذہبی نے
”تدوین تفسیر “کے مختلف مراحل کا ذکر کیا ہے ۔جن میں خطوطات خمسہ (پانچ مرحلوں )کو
انہوں نے ذکر کیا جو کچھ یوں ہیں ۔
(1) تفسیر روایت کے طرق سے نقل ہوتی تھی جیسے صحابہ کرام اور
تابعین عظام کے زمانوں میں ہوتا تھا ۔
(2) حدیث کی تدوین ہوئی اور تفسیر اس کا ایک باب ٹھہرا۔
(3) تفسیر کی مستقل علوم کی حیثیت سے تدوین ہوئی ۔
(4) اس مرحلے میں تفسیر نے ترقی کی لیکن تفسیر ماثور کی حدود سے
تجاوز نہیں کی ،ہاں اسناد کا التزام واہتمام ختم ہوا۔
"ونقلوا الاقوال الماثورة عن المفسرین من اسلافہم او ان
ینسبوہا لقائلیھا ،فدخل الوضع فی التفسیر...." (58)
"مفسرین نے سلف کی باتیں ان کی طرف نسبت کے بغیر نقل کرنا
شروع کیا اس موقع پر تفسیرمیں وضع (من گھڑت اقوال )بھی آیا"۔
(5) پانچواں مرحلہ: جس میں ان تمام کے مقابلے میں زیادہ وسعت آئی
اور اس کا سلسلہ عصر عباسی سے لے کر آج تک چل رہا ہے وہ ہے فہم عقلی کا تفسیر نقلی
کے ساتھ اختلاط (گھل ملنا) ۔
تفسیر
عقلی کا رواج بڑا خطرناک مقابل تھا اور اس کے بعد قرآن کی من مانی تفسیروں کے لئے
عقل کے گھوڑے دوڑانے کا کھیل شروع ہوا اور امت میں قرآن وحدیث کی مستند تشریعات کی
بجائے فلسفیانہ بحثیں ،عقلی موشگافیاں اور شرعی تاویلات وتحریفات شروع ہوگئیں ۔
علامہ
ذہبی رقم طراز ہیں:
"دونت علوم اللغة ،دون النحو والصرف،وتشعبت مذاہب الخلاف
الفقہی ،واثیرت سائل الکلام وظہر التعصب المذہبی ،قائما علی قدمہ وساقہ فی العصر
العباسی ،وقامت الفرق الاسلامیہ بنشر مذاہبھا والدعوة الیہا ،وترجمت کتب کثیرة من
کتب الفلاسفة ،فامتزجت کل ھذہ العلوم ومایتعلق بھا من ابحاث باالتفسیر عن طغت علیہ
،وغلب الجانب العقلی علی الجانب النقلی وصارأظہر الشئی فی ھذة الکتب ھو الناحیة
العقلیہ وان کانت لا تخلوا مع ذلک منقول یتصل باسباب النزول او تعبیر ذلک من
الماثور"(59))
"عہد عباسی میں علوم لغت کی تدوین ہوئی ،نحو وصرف کی تدوین
ہوئی ،اور فقہی مذاہب پھیل گئے اور علم کلام کے مسائل اٹھائے گئے اور مذہبی تعصب
کا ظہور ہوا اور اپنے پورے جوبن پررہا،اور اسلامی فرقے اپنے اپنے مذہب پھیلانے لگے
اور ان کی طرف لوگوں کو دعوت دینے میں مصروف ہے،اور فلاسفہ کی کتابوں کے بکثرت
ترجمے ہوئے،چنانچہ یہ سارے علوم اور ان سے متعلق ابحاث تفسیر کے ساتھ گھل مل گئے
،تفسیروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور عقلی تفسیر کو نقلی تفسیر پر غلبہ حاصل
ہوگیا ،ان کتب تفسیر میں عقلی پہلو ہی سب سے نمایاں رہا اگر چہ نقل بھی ان اسباب
نزول وغیرہ کی حد تک رہا"۔
مختلف
علوم وفنون نے تفسیر پر اپنا اثر ڈالا
بلکہ فہم عقلی ہی کیا
دوسرے سارے علوم وفنون بھی تفسیر پر اثر انداز ہوگئے۔علامہ ذہبی رحمہ اللہ کہتے
ہیں:
"وانا لنلحظ فی وصوح وجلاءان کل من برع فی فن من فنون العلم
یکاد یقتصر تفسیرہ علی الفن الذی برع فیہ فاستحوی تراہ لا ہم لہ الاعراب وذکر ما
یحتمل فی ذلک من اوجہ وتراہ ینقل سائل النحو وفروعہ وخلافیاتہ وذلک کالزجاج
والواحدی فی البسیط وابی حیان فی البحر المحیط ۔
وصاحبا
لعلوم العقلیہ تراہ یعنی فی تفسیرہ باقوال الحکماءوالفلاسفة کماتراہ یعنی بذکر
شبہم والرد علیہا وذلک کالفخرالدین الرازی فی کتابہ مفاتیح الغیب۔
وصاحب
الفقہ تراہ قد عنی بتقریرہ الادلة للفروع الفقہیہ والر د علی من یخالف مذہبہ وذلک
کالجصاص والقرطبی۔
وصاحب التاریخ لیس لہ
شغل الا القصص وذکر اخبار من سلف ،ماصح منہا ومالایصح وذلک کا لثعلبی والخازن۔
وصاحب
البدع لیس لہ قصد الا ان یؤل کلام اللہ وینزلہ علی مذہبہ الفاسد وذلک کالرمانی
والجبائی والقاضی عبدالجبار والزمخشری من المعتزلہ والطبرس وملا حسن الکاشی من الا
ما میہ الاثنی عشریہ۔
واصحاب
التصوف قصدوا ابی ناحیہ الترغیب والترہیب واستخراج المعانی الاشاریة من الایات
القرآنیہ بما یتفق مع مشاربہم ویتناسب مع ریاضاتہم ومواجیدھم ومن ھولاءابن عربی
وابوعبدالرحمن السلمی
....
وھکذا
افسر کل صاحب فن او مذہب بما یتناسب مع فنہ او یشہد لمذہبہ ۔وقد استمرت ھذہ النزعة
العلمیہ العقلیہ وراجت فی بعض العصور وواجا عظیما کما راجت فی عصرنا الحاضر تفسیرات
اھلہا من ورائھا ان یحملوا آیات القرآن کل العلوم ما ظہر منہا ومالم یظہر کان ھذا
فیما یبدو وجہ من وجوہ اعجاز القرآن وصلاحیتہ لا ن یتمشی مع الزمن وفی الحق ان ھذا
غلومنہم واسراف یخرج القرآن عن مقصدہ الذی نزل من اجلہ ویحید بہ عن ھدفہ الذی یرمی
الیہ"۔(60)
"اور ہم بالکل واضح دیکھ رہے ہیں کہ جو کوئی کسی فن اور علم
میں مقام رکھتا ہے اس کی تفسیر اس فن پر مشتمل ہوتی ہے جس میں وہ ماہر ہوتا ہے
۔مثلا نحوی مفسر کو آپ دیکھوگے کہ وہ بس اعراب اور اس سے متعلق چیزوں کو ہی اہمیت
دیتا ہے،اور مسائل وفروعات اور اختلافات نحویہ کو ذکر کرتا ہے۔مثلا زجاج ،واحدی
اور ابو حیان وغیرہ کا یہی طرز ہے۔
اسی
طرح علوم عقلیہ والا اپنی تفسیر میں حکماءاور فلاسفہ کے اقوال ذکر کرتا ہے ۔آپ
دیکھوگے کہ وہ ان کے شبہات واعتراضات اور ان کی تردید سے ہی دل چسپی رکھتا ہے
۔جیسے فخر الدین رازی کا ان کی کتاب مفاتیح الغیب میں انداز ہے۔
صاحب
فقہ فروعات فقہیہ کی دلیلیں ذکر کرے گا اور مذہب مخالف پر تنقید کرے گا جیسے جصاص
،رازی اور قرطبی وغیرہ۔
تاریخ
کا ذوق رکھنے والا قصص اور اخبار سلف پر تفصیل سے روشنی ڈالے گا چاہے وہ صحیح ہو
یا غلط،جیسے ثعلبی اور خازن جیسے تفسیریں ۔
اور
بدعتی مفسر کلام اللہ کی تاویلیں کرے گا اور اس کو اپنے فاسد مذہب کی طر ف کھینچے
گا جیسے رمانی ،جبائی،قاضی عبدالجباراور زمخشری، معتزلہ میں سے ،طبرسی اور ملاحسن
کاشی ،امامیہ اثنا عشریہ(شیعہ)میں سے۔
اسی
طرح تصوف والوں نے ترغیب وترہیب کو مقصود بنایا۔اور آیات قرآنیہ سے مختلف اشارات
کا استخراج اپنے اپنے مشرب تصوف کے مطابق مقصود بنایا اس طرح کہ ان کی ریاضتوں اور
ادراکات ووجدانات کی تائید ہو ۔جیسے ابن عربی اور ابو عبد الرحمان سلمی وغیرہ۔
اسی
طرح ہر صاحب فن ومذہب نے اپنے فن اور اپنے مذہب سے مناسبت اور اس کی تائید پر
مستمل تفسیر کی ۔یہ علمی اور عقلی رجحان برابر جاری وساری رہا اور بعض زمانوں میں
اس کا بہت زیادہ رواج رہا۔جیسے ہمارے اس موجودہ دور میں بہت ساری تفسیروں والے
قرآن کی آیات میں سارے علوم (سائنس)ڈالنے کا ارداہ رکھتے ہیں۔جو ظاہر ہے اور جو
غیر ظاہر ہے (سب آیات قرآنی پر تھوپتے ہیں)
اس کا وہ ایسا اہتمام
کرتے ہیں جیسے یہ اعجاز قرآن کا وجوہ واقسام میں سے ایک اہم قسم ہو۔اور اس سے قرآن
کے زمانے کے ساتھ چلنے کا پتہ چلتا ہو۔
جب
کہ در حقیقت یہ نرا غلو اور اسراف ہے جو قرآن کو اس کے مقصد نزول سے ہٹاتا ہے اور
قرآن کو اس کے ہدف سے پھیرتا ہے"۔
معاشرتی
ادبی رنگ بھی تفسیر میں آگئی
علامہ
سید حسین الذہبی صاحب مزید لکھتے ہیں:
"اما فی عصرنا الحاضر فقد غلب اللون الادبی الاجتماعی علی
التفسیر ووجدت بعض مھاولات علمیہ فی کثیر منھا تکلف ظاہرا وغلو کبیر اما اللون
المذہبی فقد بقی منہ الی یومنا ھذا بمقدار ما بقی من المذہب الاسلامیہ "(61)
”ہمارے اس زمانے میں اجتماعی ادبی رنگ تفسیر پر گالب آگئی
ہے۔اور میں مصنف نے بہت سی ایسی علمی علمی کوشش دیکھی ہیں جن میں سے اکثر میں واضح
تکلف اور بہت غلو ہے جہاں تک مذہبی (اور مسلکی) رنگ ہے تو وہ مذہب کی بقاءکے بقدر
باقی ہے“
تفسیر
ماثور میں شخصیت کی چھاپ
جن
مفسرین نے ماثور اور منقول تفسیر کا اہتمام کیا ان کی تفسیروں میں ان کی شخصیت کی
جھلک اور خاص چھاپ دیکھنے اور محسوس کرنے کو ملتی ہے ۔تفسیر میں اختلاف کا یک اہم
عنصر یہ بھی ہے ۔
علامہ
حسین الذہبی نے اس کو ان الفاظ میں ذکر کیا ہے :
"من المعلوم ان الشخص الذی یفسر نصا من النصوص ،یلون ھذا النص
بتفسیرہ ایاہ لان المتفہم لعبارة من العبارات ھو الذی یحدد معناہا ومر ماھا وفق
ستواہ الفکری وعلی سعة افقہ العقلی ولیس فی استطاعتہ ان یفہم من النص الا ما یرمی
الیہ فکرہ وبمنہ الیہ عقلہ وبمقدار ھذا یتحکم فی النص ویحدد بیانہ وھذا اصل ملحوظ
نجد آثارہ واضحة فی کتب التفسیر علی اختلافہا فما من کتاب منہا الا وقد وجدنا آثار
شخصیة صاحبہ وقد طبعت تفسیرہ بطابع خاص لا یعسر علینا ادراکہ "(62))
"یہ بات معلوم ہے کہ جوشخص کسی نص کی تفسیر کرتا ہے تو وہ نص
اس کی تفسیر کا ایک خاص رنگ لیتا یہے ۔اس لئے کہ عبارات میں سے کسی عبارت کو
سمجھنے والا اپنی فکری سطح اور عقلی افق کا مطابق ہی اس کا کوئی معنی اور
مرادمتعین کرتا ہے ۔
اور
اس کے بس میں اتنا ہی ہوتا ہے کہ کسی نص سے بس اتنا ہی سمجھ لے جتنا اس کی فکر
ساتھ دے اور جہاں تک اس کی عقل کی رسائی ہو اور اس کی مقدار میں کوئی شخص کسی نص
کے متعلق حکم لگا سکتا ہے اور اس کا بیان متعین کر سکتا ہے ۔
یہ
نوٹ کیا جانے والاایک ایسا قانون ہے جس کے آثار واضح طور پر ہم تفسیر کی مختلف کتب
میں دیکھ رہے ہیں۔چنانثہ ان میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں ہم اس کے لکھنے
والے کی شخصیت کے آثار نہیں دیکھ رہے ہوں....ضرور اس کی تفسیر پر اس کی خاص چھاپ
ہوتی ہے جس کا ادراک کوئی مشکل نہیں ہوتا "۔
تفسیر
ماثور کا ضعف اور اس کے اسباب
سلف
یعنی رسول اللہ صلی علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین
رحمہم اللہ سے منقول تفسیر ہی قرآن کی اصل اور راجح تفسیر ہے مگر اس میں ”وضع“آنے
اسرائیلیات ملنے اور حذف اسانید وغیرہ کی وجہ سے یہ تفسیر کمزور ہونا شروع ہوئی ۔
وضع
فی التفسیر کا آغاز اور اس کے اسباب
روایات
وضع کرنے کاخطرناک اور مہلک مرض بھی عہد اول ہی میں شروع ہوا اور اس کے تباہ کن
اثرات آج تک محسوس کئے جارہے ہیں ۔مختلف فرقوں ،مسلکوں ،گروہوں اور طبقوں نے اپنے
اپنے مسلک ومشرب ،مسلمات اور خیالات کی تائید میں احادیث اور اقوال گھڑنے کا مذموم
اور مسموم سلسلہ شروع کیا اور یوں قرآن وحدیث جیسے حق اور خیر کے سرچشموں کو گدلا
کرنے اور ان پر سے اعتماد اٹھانے کی ناپاک کوشش کی ۔
علماءجرح
وتعدیل نے ”وضاعین“کی خوب خبر لی ہے اور صحیح وسقیم اور صدق وکذب کے درمیان کافی
حد تک واضح خط کھینچا دیا اور موضوعات کی بساط بھر نشاندہی کردی ہے۔
مذہبی
تعصب
بہر
حال وضع اقوال ایک المناک رجحان ہے جس سے تفسیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی، اس
کی بڑی وجہ مذہبی تعصب رہی ہے ۔
علامہ
حسین ذہبی کہتے ہیں:
"وکان مبداءظہور الوضع فی سنة احدی واربعین من الھجرة ،حین
اختلف المسلمون سیاسیا ،وتفرقوا الی شیعة وخوارج وجمہور ،ووجد من اہل البدع
والاھواءلکن روجوا لبدعہم وتعصبوا لاھوائہم ودخل فی الاسلام من تبطن الکفر والتحف
الاسلام بقصد الکید لہ ،وتضلیل اہلہ فوضعوا ما وضعوا من روایات باطلة لیصلوا بھا
الی اغراضھم السیئہ ورغباتہم الخبیثة"(63)
"وضع کے ظہور کا آغاز اکتالیس ہجری کو ہوا جب مسلمان سیاسی
طور باہم مختلف ہوگئے اور خوارج ،شیعہ اور جمہور (تین دھڑوں) میں تقسیم ہوگئے ۔اور
اہل بدعت میں سے اور خواہش پرستوں میں سے اپنی بدعتوں کے لئے موضوعات کو رواج دینے
والے پیدا ہوئے ۔اپنی کواہشات کے لئے تعصب کے مرتب بھی اس کی ترویج کرتے رہے ۔
اور
اسلام میں ایسے لوگ داخل ہوگئے جو باطن میں کفر رکھتے تھے اور اسلام قبول کیا محض
چال کے طور اور اہل اسلام کو گمراہ کرنے کے لئے ۔
چنانچہ(ان
بد باطنوں نے )اپنے برے مقاصد اور خبیث شوق کی تکمیل کے لئے جو جھوٹی روایات گھڑ
سکتے تھے گھڑ لیں "۔
سیاسی
مفادات
ایک
بڑا عامل اور محرک وضع (روایات گھڑنے)کا یہ تھا کہ اس سے واضعین اپنی سیاسی نقطہ
نظر کی تائید حاصل کرنا، حزبی رجحانات کو رواج دینا اور مفادات کا حصول چاہتے تھے۔
علامہ
حسین ذہبی کہتے ہیں:
"کذلک نجد اللون السیاسی ھی ھذا العصر یترک لہ اثرا بینا فی
وضع التفسیر ویلاحظ ان المروی من علی وابن عباس رضی اللہ عنہما قد جاوز حد الکثرة
،ہما یجعلنا نمیل الی القول بانہ قد وضع علیہا فی التفسیر اکثر مما وضع علی غیرہما
والسبب فی ذلک ان علیہا وابن عباس رضی اللہ عنہما من بیت النبوة فالوضع علیہا یکسب
الموضوع ثقة وقبولا وتقدیسا ورواجا مما الا یکون الشئی مما ینسب الی غیرہما ۔وفوق
ھذا فقد کان لعلی من الشیعة ما لیس لغیرہ فنسبوا الیہ من القول فی التفسیر ما
یظنون انہ یعلی من قدرہ،ویرفع من شانیہ وابن عباس کان من نسلہ الخلفاءالعباسون
فوجد من الناس من تزلف الیہم وقد تقرب الیہم بکثرة مایرویہ لہم عن جدہم ابن عباس
مما یدل علی ان اللون السیاسی کان لہ اثر ظاہر فی وضع التفسیر"۔(64)
"اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں سیاسی وابستگی نے بھی
تفسیر گھڑنے کے عمل پر گہرا اثر ڈالا ،اور دیکھا جاسکتا ہے کہ حضرت علی اور ابن
عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے جو کچھ مروی ہے اس نے کثرت کے حدود سے بھی تجاوز کیا
اور یہی چیز ہمیں یہ کہنے پر مائل بلکہ مجبور کرتی ہے کہ ان دونوں حضرات کی طرف سے
جو جھوٹی روایتیں منسوب کی گئی ہیں وہ دوسرے سب لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔اور
اس کی وجہ یہ ہے کہ (ان دونوں)علی وابن عباس کا تعلق خانوادہ نبوت سے تھا تو ان کے
متعلق روایات گھڑنے سے موضوع کی ثقاہت اور قبولیت میں اضافہ ہوسکتا تھا اور اس کی
تقدیس وترویج کا فائدہ حاصل کا جا سکتا تھا ۔اور ان کے علاوہ کسی اورکی طرف نسبت
سے یہ فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا"۔
اس
کے علاوہ حضرت علی کے شیعہ اتنے اور ایسے تھے کہ اس قدر کسی اور کے نہ تھے ۔چنانچہ
انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تاعلی عنہ کی طرف تفسیر میں وہ کچھ منسوب کیا جو ان کے
خیال میں ان کی قدر بلند اور شان اونچی کر سکتا تھا۔
اور
ابن عباس کی نسل خلفاءبنی عباس تھے تو بہت سارے لوگ ایسے پیدا ہوئے جو ان کے جد
امجد (ابن عباس)کی طرف کثرت سے روایتیں منسوب کرکے ان (خلفاء)کا تقرب اور ان کے
ہاں مقام حاصل کرنا چاہتے تھے ۔یہ چیزیں اس پر دال ہیں کہ سیاسی رنگ نے بھی "وضع
تفسیر"پر بڑا گہرا اثر ڈالا"۔
دشمان
اسلام کی دسیسہ کاری
اس
کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی دشمن اور دین اسلام سے برگشتہ عناصر جب
میدان مبارزت میں اسلام کا مقابلہ نہ کر سکے تو سازشوں اور دسیسہ کاریوں کا سہار
لینے لگے۔
اور
دیگر کے علاوہ ان کا ایک حربی یہ بھی تھا کہ کچھ لوگوں کو تیاری کریں جو مسلمانوں
میں من گھڑت روایات گھڑنے اور پھیلانے کے لئے اپنی توانائیاں برائے کار لائیں
۔اسلام کے ان دانستہ اور علانیہ دشمنوں کے بھی وضع روایات میں بڑا دخل رہا ہے ۔
علامہ
حسین الذہبی رقم طرا زہیں:
"کذلک نجد من اسباب الوضع فی التفسیر ما قصدہ اعداءالاسلام
الذین اندسوا بین وبنائہ متظاہرین بالاسلام من الکید لہ والاھلہ فعمروا الی الدس
والوضع فی التفسیر بعد ان عجزوا عن ان ینالوا من ھذا الدین عن طریق الحرب والقوة
وعن طریق البرہان والحجة"(65)
"اسی طرح وضع فی التفسیر کے اسباب میں سے ایک سبب ہمیں یہ بھی
ملتا ہے کہ اعداءاسلام نے فرزندان اسلام مین گھل مل کر اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر
اسلام اور اہل اسلام کے خلاف چال چلتے ہوئے وضع فی التفسیر کا عمل شروع کیا ۔جب وہ
جنگ اور قوت سے اس دین کا کوئی نقصان نہ کر سکے اور حجت وبرہان سے بھی عاجز آگئے
(تو یہ سازشی طریقہ اختیار کیا )"۔
تفسیر
بالرائے کا اختلاف
تفسیر
بالرائے ،تفسیر باالاجتہاد کی طرف پہلے ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ یہ بھی تفسیر کا
ایک درجہ اور ایک قسم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کلام عرب اور اس کے طر ق جاننے اور
لفاظ عربی اور اس کے وجوہ دلالت ،شعر جاہلی سے مدد لینے اور اسباب نزول اور ناسخ
ومنسوخ سے واقفیت اور مفسر کے لئے ضروری دیگر امور جاننے کے بعد مفسر تفسیر
بالرائے اور تفسیر بالاجتہاد کرتا ہے۔
تفسیر
بالرائے کے جواز وعدم جواز کے حوالے سے ہمیں علماءکا اختلاف ہے دونوں فریقوں کے
اپنے اپنے موقف کی تائید میں دلائل ہیں ۔
علامہ
ذہبی نے تفصیل سے دونوں کے آراءکو ذکر کیا ما تعین اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ
لیا اور مناقشہ پیش کیا ۔آخر میں امام غزالی رحمہ اللہ اورامام راغب اصفہانی رحمہ
اللہ کے اقوال کو ذکر کیا جو تقریبا اس حوالے سے فیصلہ کن اقوال کی حیثیت رکھتے
ہیں۔
فرماتے
ہیں:
"ھذہ ھی ادلة الفریقین وکل یجادل بما ذکر من الادلة ان یثبت
قولہ ویذکر مدعاہ والغزالی فی الاحیائ....بعد الاحتجاج ولاستدلال علی بطلان القول
بان لا یتکلم احد فی القرآن الا بما یسمعہ ۔بقول فبطل ان یشترط السماع فی التاویل
،وجاز لکل واحد ان یستنبط من القرآن بقدر فہمہ وحد عقلہ ۔کما قال قبل ذلک بقلیل۔
”ان فی فہم معانی القرآن مجالا رحبا،ومتسعا بالغا،وان المنقول
من طاہر التفسیر لیس منتہی الاداک فیہ“
والراغب
االصفہانی ۔بعد ان ذکر المذہبین وادلتہا فی مقدمة التفسیر یقول:
”وذکر بعض المحققین: ان المذہبین ھما الغلو والتقصیر ،فمن اقتصر
علی المنقول الیہ فقد ترک کثیرا مما یحتاج الیہ ومن اجاز لکل اھد الخوض فیہ فقد
عرضہ للتخلیط ولم یعتبر حقیقة قولہ تعالی:
لیدبروا
آیاتہ ولیتذکر اولوالالباب"۔ (66)
"یہ ہیں فریقین کے دلائل ہر ایک نے ان دلائل سے اپنی بات ثابت
کرنے اور اپنا مدعا واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
امام
غزالی رحمہ اللہ ”احیاءعلوم الدین“میں دلائل اور حجج سے اس قول کے بطلان واضح کرنے
کے بعد کہ قرآن کریم (کی تفسیر) میں کوئی سنی ہوئی بات کے علاوہ کچھ نہیں کہہ
سکتا۔فرمایا:
تو
تاویل (قرآن) کے لئے سنی ہوئی بات کی شرط لگانا باطل ہوا ،اور ہر کسی کے لئے جائز
ہوا کہ قرآن کریم سے اپنے فہم کے مطابق اور اپنی عقل کے حد تک اتنباط کرے ۔جیسے کہ
اس سے تھوڑا پہلے (امام غزالی نے )کہا ہے:
کہ
معانی قران کے فہم کا بڑ اکھلا میدان ہے اور بڑی گنجائش ہے اور قرآن کی جو ظاہری
تفسیر منقول ہے وہی قرآن کے ادراک کی انتہاءنہیں ہے ۔
اور
امام راغب اصفہانی مقدمہ تفسیر میں دونوں مذہبوں کو ذکر کرنے کے بعد اور دونوں کی
دلائل ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں۔
بعض
محققین نے ذکر کیا ہے کہ (ماتعین اور مجوزین کے) یہ دونوں مذہب غلو اور تقصیر پر
مبنی ہیں ۔جس نے تفسیر منقول پر اکتفاءکیا اس نے بہت ساری محتاج الیہ (ضروری)چیزیں
چھوڑدی ہیں۔اور جس نے ہر کسی کو اس (تفسیر بالرائے)میں پڑنے کی اجازت دی ہے اس نے
بھی اس کو خلظ ملط کرنے کی کوشش کی اور اللہ تعالی ارشاد "لیدبروا آیاتہ
ولیتذکر اولوالالباب"۔(67)
کی
حقیقت سمجھنے کی کوشش نہیں کی "۔
بہر
حال تفسیر بالرائے میں سلف وخلف امت کا علمی اختلاف رہا ہے اور اس اختلاف کو چاہے
حقیقی کہا جائے یا صوری اور لفظی ،یہ بہر حال طے ہے کہ تفسیر بالرائے محمود بھی
اور مذموم بھی ۔یعنی اس میں تفصیلات ہیں ۔قرآن کریم کی متداوال اور مطبوعہ تفاسیر
میں جہاں منقول اور ماثور تفاسیر بڑی تعداد میں موجود ہیں تفسیر بالرائے پر مشتمل
کتب تفسیر کی بھی کمی نہیں ہے اور ان ثانی الذکر تفاسیر میں مفسر نے خود سے کئی
آیات کے تراجم اور تفاسیر بیان کئے ہیں جن کو رد اور قبول کے مراحل سے بھی گذرنا
پڑا ہے اور ظاہر ہے اس سے تفسیر میں اختلاف بھی آیا ہے ۔التفسیر والمفسرون کے مصنف
نے اس پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ملاحظہ کی جائے "۔(68)
اعتزال
کی نمائندہ تفاسیر
یہ
ایک واضح حقیقت ہے اسلام کی طرف منسوب ہر بات اور اسلام کا دعویدار ہر شخص برحق
اور حقیقی مسلمان نہیں ہوتا۔اس لئے اسلامی فرقوں کی اصطلاح عموما استعمال ہے۔
اسلام
کے قرون اولی میں امت کے سواد اعظم مین سٹریم،اور مرکزی دھارے سے ادھر ادھر
اںانحراف کرنے والے لوگوں اور گروہوں کی کمی نہیں تھی ان گروہوں میں سے معتزلہ
،خوارج ،روافض اور نواصب بطور خاص قابل ذکر فرقے ہیں ۔ان میں سے ہر فرقے کے اسلام
کے بارے میں متعدد،واضح ،ثابت اور اجماعی عقائد وافکار کے علاوہ کچھ دوسرے خیالات
واوھام تھے۔
عام
مسلمانوں کو ان گروہوں کی بد عقیدگی اور زیغ وضلال سے بچانے کے لئے صحیح العقیدہ
اور سلیم الفکر مسلمانوں کو اہل السنة والجماعہ کے نام سے موسوم کیا گیا جب کہ
دیگر فرق کو ان کی مرکزی ”بے اعتدالی “کی طرف منسوب کیا گیا۔
پھر
وہ سب فرق باطلہ (یازیادہ موزوں الفاظ میں فرق مبتدعہ )اپنے اپنے عقائد ونظریات کو
برحق سمجھتے تھے اور دوسروں کو غلط ،اس لئے انہوں نے قرآن کو اپنے خیالات پر منطبق
کرنا اور اپنی فکر کے مطابق اس کی تفسیر شروع کردی،اور احادیث میں اگر کہیں کوئی
روایت ان کے خیالات کے خلاف آئی تو اس کو مسترد کردیا ۔
معتزلہ
فرقے کے عہد بنی امیہ میں جنم ہوئی اور عہد عباسی میں اسلامی فکر پر اعتزال اس بری
طرح حملہ آوار ہوا کہ ہر پست وبالا کو ہلا کر رکھ دیا ۔معتزلہ کے چند نمایاں عقائد
یہ ہیں کہ
(1) رویت باری تعالی کو نہیں مانتے ۔
(2)مرتکب کبیرہ کو مسلمان بھی نہیں مانتے اورکافر بھی نہیں ،یعنی "منزلة
بین المنزلتین"کے قائل ہیں ۔
(3)اصلح العباد ،اللہ پر واجب ہے چنانچہ وہ قرآن کریم کی تفسیر
کرتے ہوئے ان عقائد کو ثابت کرتے ہیں اور جس جگہ قرآن سے ان کے کسی عقیدے کی نفی
ہوتی ہے اس کی وہ طرح طرح کی تاوویلیں کرتے ہیں ۔
معتزلہ
اپنے اصول خمسہ کا باربار ذکرکرتے ہیں ۔
(1)توحید
(2)عدل
(3)وعد وعید
(4)منزلہ بین المنزلتین
(5)امر بالمعروف ونہی عن المنکر
ان
کی تفسیر انہیں اصولوں کے ارد گرد گھومتی ہے اور ان کی اصول کی وہ اپنی من مانی
تشریح کرتے ہیں۔قرآن کی تاویل وتفسیر میں ان کی خانہ ساز فرسائیوں سے دفتر کے دفتر
بھرے پڑے ہیں نمونے کے طور پر چند مثالیں ملاحظہ کی جائیں ۔
آیات
قرآنیہ کی خانہ ساز تاویلیں
معتزلہ
عقیدتا رؤیت باری تعالی کے منکر ہیں اس لئے قرآن کریم میں جہاں مؤمنوں کا اللہ کا
دیکھنا وارد ہے۔مثلا سورة القیامہ ہیں :
"وجوہ یومئذ ناضرة الی ربھا ناظرة"(69)
اورسورة
المطففین میں۔
"علی الارائک ینظرون "(70)
وہ
اس نظر کی تاویل کرتے ہیں اس سے امیداور توقع مراد ہے ۔اور استدلال عربی لغت سے
کرتے ہیں کہ لغت میں نظر صرف باری رؤیت کو نہیں کہتے "(71)
اصلح
العباد (جس میں بندے کا زیادہ فائدہ اور صلاح ہو) ان کے نزدیک اللہ تعالی پر واجب
ہے تو سورة الفرقان کی آیت
"وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین"(72)
کی
تاویل کرتے ہیں کہ "جعل " کامعنی ہے بیان اور استدلال کرتے ہیں لغت سے (73)
اللہ
تعالی کے کلام مع العباد کے منکر ہیں تو سورة النساءکی آیت
"وکلم اللہ موسی تکلیما "(74)میں دوغلط تاویلیں کرتے
ہیں۔
(1) یہ کہ"اللہ "فاعل ہے اس کو منصوب (مفعول)پڑھتے ہیں
کہ کلام موسی نے کیا۔
(2) "کلم "کا
معنی جرّح کے ساتھ کرتے ہیں ۔یعنی اللہ نے مصیبتوں اور سدائد سے موسی کو زخمی کیا
۔
"جرّح موسی باظفاط المحن ومخاطب الفتن "(75)
"وسع کرسیہ السموٰت والارض"(76)
میں
کہتے ہیں ”کرسی “سے مراد ہے اللہ کا علم ۔
ان
کاعقیدہ ہے کہ اللہ کسی کو گمراہ نہیں
کرتا ،کسی کو جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا،کسی سے ہدایت سلب نہیں کرتا....اس لئے
سورة الاعراف کی آیت "ولقد ذرأنا
لجہنم کثیرا من الجن والانس"(۷۷)
میں
کہتے ہیں "ذرأنا" کا معنی ہے "القینا"(ہم نے ڈالا)اور یہ "ذرتہ
الریح"سے ہے ۔حالانکہ "ذرتہ الریح "معتل ہے اور "ذرأ"مہموز
ہے اور دونوں کا مادہ الگ ہے ۔
"اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا"(79) میں کہتے ہیں
ای
فقیر الی رحمتہ....اس لئے کہ ان کا عقیدہ ہے اللہ مخلوق میں سے کسی کا خلیل نہیں
ہوسکتا۔
"یداللہ مغلولة"(79) میں کہتے ہیں "ید"سے نعمت
مراد ہے۔
"واذاخذ ربک من بنی آدم من ظہورہم ذریتہم"(80) اور
"انا عرضنا الامانة علی السموٰت والارض والجبال ...."(81)
کو
حقیقت نہیں بلکہ تمثیل اور تخییل پر محمول کرتے ہیں ۔
اور
سحر جنات کا انکار کرتے ہیں اس لئے ان تمام آیات کی غلط تاویلیں کرتے ہیں جن میں
ان دونوں کا واضح ذکر اور ثبوت ملتا ہے (82)
بہر
حال قرآن کریم کو اپنے خود ساختہ عقائد وافکار کے خلاف دیکھ کر انہوں نے بے شمار
آیات قرآنیہ کی معنوی تحریف کی ہے اور سینی زوری کو اپنے من پسند افکار کے تابع
بنانے کی ناپاک کوشش کی ہے ۔علامہ حسین الذہبی کے الفاظ میں ان کی حقیقت کا کافی
واضح اظہار ہے۔
"أقام المعتزلة مذہبہم علی الاصول الخمسة التی ذکرنا ھا
اٰنفا،ومن المعلوم ان ھذہ الاصول لا تتفق ومذہب اہل السنة والجماعة الذین یعتبرون
اھم خصوصہم ،لہذا کان من الضروری لہذة الفرقة۔فرقة المعتزلہ ۔فی سبیل مکافحہ
خصومہا،ان تقیم مذہبھاوتدعم تعالیمھا علی أسس دینیة من القرآن وکان لابد لہا ایضا
ان ترد الحجج القرآنیة لھولاءالخصوم وتضعف من قوتھا وسبیل ذلک کلہ ھو النظر الی
القرآن اولا من خلال عقیدتہم ثم اخضاعہم عبارات القرآن لارائہم التی یقولون بھاو
تفسیرہم لہا تفسیرا یتفق مع نحلتہم وعقیدتہم۔
ولا
شک ان مثل ھذا التفسیر الذی یخضع للعقیدة یحتاج الی مھارة کبیرة ،اعتماد علی العقل
اکثر من الاعتماد علی النقل حتی یستطیع المفسر الذی ھذا حالہ ان یلوی العبارة الی
جانبہ ویعرف ما یعارضہ عن معارجٹہ لہ وتصادمہ معہ "۔(83))
"معتزلہ نے اپنا مذہب ان صول خمسہ پر قائم کیا ہے جن کا ہم نے
ابھی ذکر کیا ۔اور ظاہر ہے ان کے یہ اصول اہل سنت والجماعة کے مذہب سے میل نہیں
کھاتے جو ان کے سب سے بڑے مخالف سمجھے جاتے ہیں ۔اس لئے اس فرقے کے لئے ضروری تھا
کہ اپنے مخالفین سے مقابلے کے لئے وہ اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات کو قرآن سے
ماخوذ بنیادوں پر قائم کریں اور ان کو مضبوط کریں ۔
جیسے
کہ یہ ان کے لئے ضروری تھا کہ مخالفین(اہل سنت)کی قرآنی دلائل کو وہ رد کریں اور
ان کا زور توڑدیں۔اور اس کا طریقہ یہی تھا کہ وہ پہلے اپنے عقیدے کے تناظر میں
قرآن میں غور کریں ۔پھر اس کی عبارتیں اپنی آراءاور خیالات کے تابع بنادیں اور ان
جیسی تفسیریں کریں جو ان کے مخصوص فرقے اور عقیدے کے مطابق ہو۔
اور بلاشبہ اس طرح کی
تفسیر جو کسی عقیدے کے تابع ہووہ بڑی مہارت کا محتاج ہوتی ہے اور اس میں نقل سے
زیادہ عقل پر اعتماد کرنا ہوتا ہے ۔یہاں تک کہ وہ مفسد جو اس طرح کسی عقیدے کی
ترجمان تفسیر چاہتا ہے ۔وہ عبارت کو اپنی جانب موڑ سکے اور اپنے مخالف اور خیالات
سے متسادم معانی کو اپنی مخالفت سے پھیر سکے"۔
معتزلہ
کی مشہور تفاسیر میں زمخشری کی "کشاف عن حقائق التنزیل "، "تنزیہ
القرآن عن المطاعن"قاضی عبد الجبار کی ۔ شریف مرتضی کی"غرر الفوائد ودرر
العقائد"اسی طرح "اصم"ابو علی الجبائی ،کعبی ،محمد بن بحر اصفہانی
وغیرہ کی تفاسیر معروف ہیں۔
قرآنِ عظیم میں اللہ ربُّ العالَمین کا فرمانِ عالی شان ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ "اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے کہ اگر
تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ،
اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے
کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب
کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ میں
جہاد(کوشش) کرنے سے تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ
نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا " (سورۃ التوبہ، اٰیۃ نمبر:24)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب!
(تحریر:پروفیسرڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں)