بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
اصل دین "الاِسلام" اور مسلم معاشرے کا تجاہلِ
عارفانہ، بے حِسی یا خود فریبی۔
تحریر: پروفیسر ڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں
کیا
آپ یقین یا تصوّر کر سکتے ہیں کہ دنیا کے اندرایک ملک ایسا بھی ہے کہ جو اسلامی
نظریاتی مملکت ہے، قرآن و سُنَّۃ اُس ملک کا سپریم لاء ہے، جس کے آئین کے مطابق
قرآن و سُنِّۃ کے منافی کوئی قانون بن سکتا ہے اور نہ ہی قابلِ عمل ہو سکتا ہے۔ اُس
ملک میں مساجد و مدارس اور دینی و مذہبی تنظیمات، تحریکات کی تعداد دینا بھر کے
اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ ہے، سفید
اور سبز دستار والی تبلیغی جماعتوں کے
مراکز بھی اسی اسلامی ملک میں ہیں۔ دینی مدارس اور اُن میں میں علومِ دینیہ حاصل کرنے والے
طلباء کی تعداد بھی اسی ملک میں دنیا میں
سب سے زیادہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال کم و بیش تقریباً 20 -25 لاکھ طلبہ مدارسِ دینیہ سے فارغ التحصیل
ہوتے اور دستارِ فضیلت و سندِ فراغت لے کر حافظ و قاری، عالمِ دین و مفتی، مبلِّغ
اور خطیب بنتے ہیں مگر 97٪ مسلمان آبادی کے اُس ملک میں اور مسلم معاشرے میں کسی
بھی سطح پر اور اور کسی بھی طبقے میں قرآن و سُنِّۃ کے پیغام و احکام، تعلیمات و
ہدایات اور مقاصدِ دین کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ اِلَّا مَا شَاءَ اللہ اکثر و بیشتر مذہبی عناصر
سمیت اُس ملک کی 97٪ مسلم آبادی میں ہر شخص ہوش سنبھالنے سے آخری سانس تک قرآن و
سُنَّۃ اور اُسوۃ الحسنہ کی تعلیمات و ہدایات،
پیغامات و احکامات اور مقاصدِ دین کی تمام تر امور و معاملات زندگی میں
کھلی مخالفت کرتا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پھر بھی پورے کا پورا معاشرہ "اسلامی" ہونے کا دعویدار ہے حالانکہ اُس ملک و معاشرے میں کوئی
بھی معاملہ دینِ اسلام "قرآن و سُنَّۃ اور اسوۃ الحسنہ" کی تعلیمات و
ہدایات، احکامات و پیغامات اور مقاصدِ دینِ اسلام کے ساتھ کوئی ذرا سی بھی مطابقت
نہیں رکھتا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین کے نام پر درحقیقت اصل دینِ اسلام قرآن
و سُنَّۃ کے بجائے بد نیّتی کے ساتھ یا نادانستہ طور پر اُن باطل فرقوں کے گمراہ کن انسانی افکارو نظریات کی تبلیغ و اشاعت ہو رہی
ہے جو کہ برِّ صغیر کےبعض نام نہاد مذہبی
عناصر نے حالیہ دو صدیوں میں اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور سیاسی و مالی (معاشی) مفادات کےلئے ایجاد کرلئے گئےہیں۔ یاد رکھیں اللہ تعالٰی اور رسول اللہ
صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اسلام اور مسلمانوں میں ان فرقوں سے سختی کے ساتھ
منع فرمایا ہے اور جہنمی قرار دیا ہے۔
کیا
دنیا میں اِس سے بڑھ کر بھی کوئی خود فریبی اور تجاہلِ عارفانہ ممکن ہے؟؟؟
نہیں!
بالکل نہیں! ہرگز نہیں! اس ناقابلِ یقین
حد تک بدترین صورتحال کے اسباب و عوامل اور اصل محرکات پر غور کریں تو یہ حقیقت
کھل کر سامنے آتی ہے کہ فرقہ پرستی نے اس ملک کی 97٪ مسلمان آبادی کو اصل دینِ اِسلام (قرآن و سُنَّۃ اور اُسوۃ الحسنہ) سے دور کر دیا ہے باقی جتنے بھی بگاڑ
اور فساد ہیں وہ دین سے دوری کا ہی لازمی
و منطقی نتیجہ ہیں ۔ جب تک فرقہ پرستی کا خاتمہ کر کے جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان
اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے طرزِ فکر و عمل اور طور طریقوں کے مطابق اصل دینِ
اِسلام (قرآن و سُنَّۃ) کی تعلیمات و ہدایات، احکامات و پیغامات اور مقاصدِ دین کی
اطاعت و اتباع اور کامل پیروی کی طرف نہیں آئیں گے اُس وقت تک اِصلاھِ احوال کی
کوئی بھی کوشش کارگر اور مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی، کنویں سے پانی کےجتنے مشکیزے چاہیں نکال نکال کر بہاتے جائیں پانی اُس وقت تک
کبھی پاک نہیں ہو سکتا جبتک "کُتّے"کو کنویں سے باہر نکال کر نہیں پھیکا
جائے گا۔
فی
زمانہ مدارسِ دینیہ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اُن کے اندر رائج نصاب کو پڑھانے کے
طریقے انتہائی ناقص و فرسودہ اور مقصدیت سے خالی ہیں مروجہ طریقہ ہائے تدریس میں طلبہ پر غیرانسانی
و بہیمانہ و ظالمانہ اور بے رحمانہ تشدد کر کے ان کی عزتِ نفس اور انسانی وقار کو تباہ
و برباد اور ختم کرنا جزوِ لازم تصور کیا جاتا ہے اس پر مستزاد یہ کہ قرآن و سُنّۃ سے زیادہ فرقہ بندی و فرقہ پرستی
کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے، کوئی مدرسہ اسلامی نہیں ہے سب ہی مدارس پر
فرقہ پرستی کا غلبہ نظر آتا ہے۔ جبکہ دین فقط قرآن و سُنّہ اور اور اُسوۃ الحسنہ پر
مبنی ہے اور اسّ پر عمل کا صرف اور سرف جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم
اجمعین کے طرزِ فکر و عمل اور طور و طریقوں سے کرنا ضروری ہے۔ اس حقیقت سے بھی بھی کسی کو انکار نہیں کہ دینِ اِسلام میں فرقوں کے وجود کی کوئی گنجائش ہے
اور نہ ہی فرقوں میں دینِ اسلام کے وجود کا کوئی امکان۔ پھر بھی بد قسمتی سے سب کے
سب مدارسِ دینیہ فرقہ واریت (فرقہ پرستی) کو
فروغ دے رہے ہیں، قرآن و سُنَّہ کی تعلیمات و ہدایات، احکامات و پیغامات اور مقاصدِ
دین سے روشناس کروانے، اتحادِ اُمَّۃ، اخوّۃِ اِسلامی اور غلبہءِ اِسلام کی راہ ہموار
کرنے کے بجائے، مذہبی منافرت، انتشار و افتراق پھیلانے اور عام مسلمانوں کو قرآن و
سُنّۃ کے احکامات و تعلیمات سےبیگانہ کرنے میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔
مقامِ
رسالت و بنوّۃ، سیرتِ نبوی اور معجزاتِ رسول ﷺ بیان کروں تو "بریلوی" کا لیبل لگا دیا جاتا
ہے، توحید بیان کرتا ہوں تو "دیوبندی"
ہو جانے کا طعنہ دیا جانے لگتا ہے، عورتوں کے بن سنور کر غیر شرعی لباس میں بغیر محرم
کےمزارات پر جانے اور حرام ، جاہلانہ و شرکیہ حرکات کرنے کی مخالفت کروں تو وہابی، اہلحدیث کہا جانے لگتا ہے، حالیہ دو تین صدیوں میں جنم لینے والے فرقوں کی
باطل تعلیمات و گمراہ کن نظریات کی اندھی تقلید
سے انکار کروں تو غیر مقلّد قرار دے دیا جاتا ہوں، رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات، اُمَّہَاتُ المؤمنین رضوان اللہ تعالیٰ عنہنَّ
، خلفاءِ راشدین و جماعہِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے مناقب کا
ذکر کرتا ہوں تو "سپاہِ صحابہ نامی ایک کالعدم تنظیم "کے ساتھ تعلق جوڑ دیا
جاتا ہے، کسی کو صالح امیدوار
کو ووٹ ڈالنے کا کہہ دوں تو "جماعتی"
کسی برئی سے روکنے کی کوشش کروں تو "تبلیغی" سر پر دستار سجا لوں تو" عطاری" ننگے سر گھوموں تو فاسق و فاجر قرار دے دیا جاتا
ہوں، احیاءِ اتحادِ اُمَّۃ و اخوّۃِ اسلامی
کیلئے جماعۃِ صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے طرزِ فکروعمل اور طور
و طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے قرآن و سُنَّۃ اور اسوۃ الحسنہ کی اطاعت و اتباع اور
کامل پیروی کی بات کرتا ہوں تو نئے فرقے کا موجد
سمجھا جانے لگتا ہے، اللہ کی زمین اور اللہ کے بندوں پر اسی اللہ ربُّ العالَمین
کے نازل کردہ دین "الاِسلام" کے غلبے کی جِدّوجہد کی ضرورت و اہمیت اور افادیت
و ناگزیریت پر روشنی ڈالتا ہوں تو بنیاد پرست، انتہا پسند کہہ دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ آخر
میں ایسا کیا کروں کہ فقط "مسلمان"
کہلاؤں؟ ----- اے فرقہ پرست مذہبی پیشواؤ یہ تو بتاؤ کہ تمہاری یہ فرقہ پرستی آخراور ابھی کیا کیا گُل کھلانے والی ہے؟؟؟
لِلّٰہ ذرا سوچیئے!
اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے کہ اگر
تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ،
اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے
کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب
کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ میں
جہاد(کوشش) کرنے سے تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ
نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا " (سورۃ التوبہ، اٰیۃ نمبر:24)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب!
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں)
No comments:
Post a Comment