Thursday, 10 September 2020

الله تعالٰی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے کرنا فرض عین جبکہ اس خلاف عمل کفر و شرک اور اتداد کے مترادف ہے۔

 الله تعالٰی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے کرنا فرض عین جبکہ اس خلاف عمل کفر و شرک اور اتداد کے مترادف ہے۔

 تقیق و تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ آئین، قرآن و سنت پاکستان

اس اہم نکتہ پر دلائل کو سمجھنا بےحد ضروری ہے کہ "غیر ما انزل اللہ" سے کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنا محض گمراہی اور اللہ تعالٰی کے دین سے بدظنی ہے۔ "نعوذ باللہ منہ" کفر کی عظیم تر اور واضح اقسام میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ منزل من الله احكامات کے بجائے انسانی و بشری فکر و فلسفے پر مشتمل، خود ساختہ قوانین کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بذریعہ جبریل علیہ السلام منزل الٰہی اوامر (کرنے کا حکم) و نواہی (اور نہ کرنے، رک جانے کا حکم) کے ہم پلہ قرار دے دیا جائے جن قوانین کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد سے نازل کیا تھا تاکہ انسانوں کو ان کی زبان میں ہدایت دی جائے۔ ان قوانین کی بنیاد پر دو جھگڑا کرنے والوں میں فیصلہ کیا جائے اور باطل کی تردید کے ساتھ ساتھ میزان حق کا کام دے سکیں۔ آیت کریمہ ہے: "فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا " مفہوم: "کہ اگر تمہارا کسی معاملے میں جھگڑا ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔ اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو کیونکہ یہ بہتر اور انجام کار کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے" (سورہ نساء:59)۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ایمان سے خارج قرار دیاہے جو کسی باہمی تنازعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو "حکم" (فیصلہ کرنے کا حق رکھنے والا) تسلیم نہیں کرتے اور قرآن مجید میں ایمان سے یہ خروج،حروف نفی کی تکرار اور قسم اٹھانے کی بناء پر انتہائی موکد ہے کہ: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورہ نساء:65) مفہوم: "اے نبی! تیرے رب کی قسم یہ لوگ کبھی ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے جھگڑوں میں حکم تسلیم نہ کرلیں بایں طور کہ آپ کے فیصلے پر دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اور آپ کے فیصلے کو دل وجان سے تسلیم کرلیں" اس آیت میں اللہ عزوجل نے مجرد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم تسلیم کرنا کافی نہیں جانا بلکہ ان الفاظ کے ساتھ کھلے دل سے تسلیم کرنے یعنی خوش دلی کو بھی مشروط کیا ہے کہ: "ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ".

 "حرج" کے معنی تنگی کے ہیں۔لہذا اس آیت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فیصلے کو بلا کسی دلی قلق و اضطراب کے قبول کرنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ مذکورہ بالا آیات میں مزید غور و فکر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس قدر تاکید بھی مفہوم الٰہی کی کما حقہ وضاحت نہیں کر رہی، بلکہ مقصد کی تکمیل کے لیے آخر میں لفظ تسلیماً کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اور تسلیم کے معنی ہیں" نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طرح بحد کمال مطاع سمجھنا کہ نفس میں اس کے متعلق کوئی کھٹکا باقی نہ رہے اور انسان دل وجان سے اسکی حقانیت تسلیم کرے" لہذا معلوم ہوا کہ (وَسَلِّمُوا) کے ساتھ( تَسْلِيمًا) کی قید بھی اس لئے لائی گئی ہے کہ فقط تسلیم کرنا کافی نہیں بلکہ"تسلیم مطلق" لازمی ہے۔ یہاں تک تو دوسری آیت کی مختصراً وضاحت تھی۔ 

اگر پہلی آیت کے مفہوم کا بھی جائز لیا جائے تو اس میں اللہ تعالٰی کا فرمان عالی شان ہے کہ "فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِمیں نکرہ۔ شَيْءٍ" شرط فَإِن تَنَازَعْتُمْ کے سیاق میں ہے جو کہ عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔حاصل یہ ہوا کہ تنازع کی کیسی ہی جنس کیوں نہ ہو اس کو اللہ تعالٰی اور رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف لوٹانا لازمی اور حتمی ہے۔ مزید برآں ان الفاظ میں دیکھئے کہ اللہ جل شانہ نے کس انداز میں اس کو ایمان باللہ والیوم الاآخرہ کے لیے لازمہ قرار دیا ہے کہ: "إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ" پھر ارشاد ہوتا ہے کہ "ذَٰلِكَ خَيْرٌ!"! یہی بہتر ہے۔ وہ چیز جس پر الله تعالٰی عزوجل خیر کا اطلاق فرما دیں اس کا شر ہونا محال ہے اور وہ لازماً خیر ہی ہو سکتا ہے۔ "وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا" کی تاکید بھی یہ بتاتی ہے کہ دنیا اور آخرت میں انجام کے لحاظ سے یہی سب سے بہتر ہے پس(بمطابق وحی الٰہی) "عندالنزاع" غیر رسول کی طرف جانا محض شر اورایسا کرنے والے کے لیے دنیا و آخرت میں فقط بُرا انجام ہے۔ جب کہ منافقین اس کے برعکس یہ کہہ کر اپنی ذہنی کجی اور خواہشات نفسانی کی ترجمانی کر رہے ہیں کہ "إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا" مفہوم: "کہ ہمارا تو اس فعل سے نیکی اور حالات کے مطابق چلنے کا ارادہ ہوتا ہے"

"إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ" مفہوم: بلاشبہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں"

مذکورہ بالا آیات ان تمام لوگوں کے خلاف حجت ہیں جو اسلام میں انسانی قانون سازی کی یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ یہ دور حاضر کی ضرورت ہے۔ بخدا یہ فقط شیطان کا ان کی عقلوں کو دھوکا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لائے ہوئے(کتاب وسنت) پر صرف بدظنی، ان کے بیان کے ناقص سمجھنے اور عند التنازع عوام الناس کے لیے ناکافی سمجھنے کے مترادف ہے۔ ان کے لیے آخرت میں اللہ تعالٰی کی طرف سے صرف اور صرف بُرا انجام ہو گا۔ آیت ثانیہ میں اللہ کے فرمان فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ میں بھی عموم ہے کیونکہ عربی گرامر میں اسم موصول کا بمعہ صلہ آنا عموم کے صیغوں سے ہے اور اس کی عمومیت اجناس و انواع کو شامل ہے۔ جہاں اس میں دنیا کے معاملات (بشمول قانون سازی) آ جاتے ہیں وہاں کتاب اللہ کی اتباع (کی ہر معاملہ میں لازمی ہونے) کی صراحت بھی ہے۔

مختصراً یہ کہ اللہ تعالٰی کی کتاب"قرآن مجید" ان تمام لوگوں کو ایمان سے خارج بتاتی ہے جو فیصلہ کے لیے کسی دوسری طرف نظر بھی کرتے ہیں۔ سورہ نساء میں ارشاد ہے:

"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا" (سورہ نساء:60)

مفہوم: "ان لوگوں میں آپ کی کیا رائے ہے جو اپنے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اور گذشتہ انبیاء و رسل علیہم الصلوٰت و السلام پر نازل شدہ وحی پر ایمان کا تو دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ باہمی تنازعات "طاغوت" سے حل کروائیں جبکہ (اللہ عز و جل کی طرف سے) "انہیں طاغوت سے دوری کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان تو انہیں دور کی گمراہی اور ضلالت میں مبتلا کرنا چاہتا ہے" فرمان الٰہی "يَزْعُمُونَمین" ان کے دعوائے ایمانی کی تکذیب موجود ہے۔ بلاشبہ"غیر الوحی" سے فیصلہ کی خواہش اور ایمان ایک نفس میں کبھی جمع نہیں ہو سکتے اور یہ دونوں باہم نقیض ہوتے ہوئے ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔

لفظ"طاغوت" طغیان بمعنی "حد سے متجاوز ہونا"سے ماخوذ ہے۔سو ہر وہ شخص جو وحی کے علاوہ کسی اور سے فیصلہ کروائے یا کرے تو درحقیقت وہ طاغوت سے فیصلہ کروانے کا مرتکب ہوا ہے بایں وجہ کہ ہر فرد پر صرف اور صرف"بما جاء به النبي" سے فیصلہ کروانا لازمی ہے نہ کہ اس کے برعکس!جو شخص بھی اس کے بر خلاف کرے گا تو اس کا طغیان شک و شبہ سے بالاتر ہے اور وہ حدود اللہ سے متجاوز ہو گا۔ ان آیات کا ایک ایک لفظ قانون سازوں کے دعوؤں کو باطل ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ آیت کریمہ  کہ: "وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ" سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مقصد اللہ کی مراد کے عین برعکس ہے ۔شرعاً ان آیات سے جو مقصود ہےاور جس بات کا ہمیں پابند بنایا گیا ہے، وہ تو ہے طاغوت سے انکار، نہ کہ طاغوت(غیر الوحی) کو حاکم تسلیم کر لینا! آیت کریمہ: "فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ" مفہوم: "ان ظالم لوگوں نے(اپنے مقصد کےلیے) اللہ تعالٰی کے فرمان کو ہی بدل ڈالا جو کہ انہیں کہا نہ گیا تھا کہ "وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا" کے الفاظ بھی ان کی گمراہی پر کیسی بین دلالت کر رہے ہیں۔ غور فرمائیے کہ آیت کے اس واضح مفہوم کے باوجود کہ "شیطانی ارادہ بھی یہی ہے، یہ قانون ساز اپنے طرز عمل کو موجب ہدایت سمجھتے ہیں اور اس زعم کے ساتھ اپنے آپ کو شیطانی راستوں سے دور سمجھتے ہیں کہ اس میں ہی انسان کی فلاح ہے افسوس کہ شیطانی مقصد کی تکمیل کو یہ لوگ انسانی فلاح اور رحمانی مراد سمجھ رہے ہیں"۔ بخدا آل عدنان کے سردار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سید المرسلین اس لیے مبعوث نہیں کیے گئے تھے کہ ان کے پیروکار ان کے بعد ان کی دی ہوئی ہدایت و رہنمائی کو پس پشت ڈال دیں لہذا اللہ تعالٰی بھی اس قبیل کے نظریات کا انکار کرتے ہوئے ان کو امور جاہلیت پر استمرار قرار دیتا ہے اور یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ "اللہ کے سوا کوئی بہترین حکم دینے والا نہیں" فرماتا کہ: "أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ " مفہوم: "کیا یہ دور جاہلیت کا حکم تلاش کرتے ہیں اور یقین رکھنے والی قوم کے لیے اللہ کے سوا کوئی بلحاظ حکم بہترین نہیں ہے" اس آیت کے معانی میں غور فرمایئے کہ اس بات پر کیسی صاف اور واضح دلالت کررہی ہے کہ حکم کی یہ تقسیم فقط تثویب اور اللہ کے احکام کے بعد بھی امور جاہلیت پر استمرار ہے۔یہ آیت واضح کر رہی ہے کہ یہ لوگ اہل جاہلیت کے زمرے میں ہیں چاہے تو انکار کر دیں اور چاہیں تو جاہلیت پر رہیں ۔بلکہ اگر یہ اسی طرز عمل پر مصر رہتے ہیں تو یہ اپنی دلیل کے لحاظ سے زیادہ جھوٹے اور اپنے طور و طریقے کے اعتبار سے ان (اہل جاہلیت) سے بھی بدتر ہیں کیونکہ ان کے لیے تو دور جاہلیت میں ان کے جاہلی احکام کے متبادل کوئی بہتر شے بھی سامنے نہ تھی جس کو وہ اختیار کرکے فلاح کا دامن تھامتے جبکہ یہ تو فقط قانون سازوں کی بدقسمتی ہے کہ خدائی پیغام اور منزلہ احکام کی موجودگی میں خود بھی اس سے محروم ہوتے ہوئے عوام کو بھی ناکام و نامراد کرنا چاہتے ہیں۔ بلا شبہ الٰہی قوانین کی موجودگی میں انکو ناکافی سمجھتے ہوئے قانون سازی کا یہ طرز فکر و عمل اپنانا تناقض کا آئینہ دار ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ نبی اکرم اور کتاب الٰہی پر ایمان کے دعوے دار ہیں دوسری طرف ان میں موجود احکام سے پہلو تہی برتتے ہوئے کوئی درمیان کا راستہ نکالنے میں کوشاں ہیں اور ایسا طرز فکر اور رویہ رکھنے والوں کے بارے میں ہی اللہ کا یہ فرمان ہے: "أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا"

 مفہوم: "یہی لوگ پکے اور سچے کافر ہیں اور کفار کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔"

توجہ فرمائیے کہ آیت ان کے ذہنی فریب اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے کا ان الفاظ کے ساتھ کس طرح پردہ چاک کرتی ہے:

"وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ" مفہوم: "کہ یقین رکھنے والی قوم کے لیے اللہ تعالٰی کے علاوہ کوئی بہترین حکم دینے والا نہیں" یہاں یقین رکھنے والوں کی شرط خصوصی طور پر ذکر اس لئے کی گئی ہے کہ اللہ کے حکم پر مطمئن ہو جانا اور اسے کافی سمجھنا صاحب ایمان لوگوں کی ہی علامت ہے جو لوگ پختہ ارادہ اور ذات باری تعالٰی پر مکمل یقین سے متصف نہیں، وہی وحی الٰہی کو واجب التعمیل حکم نہیں سمجھتے، ان کے کفر و شرک اور ارتداد میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاتاریوں پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہوں نے سیاسی امور میں ان قوانین پر عمل کرنا شروع کر دیا جن کو ان کے سردار چنگیز خان نے یہودی، عیسائی، اور اسلامی شریعتوں سے اخذ کر کے ایک کتاب کی صورت میں مدون کر دیا تھا۔ اس خود ساختہ قانون میں بے شمار احکام ایسے تھے جن کی بنیاد خواہشات اور انسانی غور و فکر پر تھی۔ بعد ازاں یہ قوانین اس کے متبعین کے لیے شرعی کے درجہ پر فائز ہو گئے جن کو وہ کتاب اللہ اور سنت مقدسہ علی صاحبا الصلواۃ والسلام پر مقدم رکھتے تھے۔ جو کہ عین غیر اسلامی رویہ تھا لہذا جو بھی اس رویے اور طرز عمل کو اپنائے گا توایسا شخص بلاشبہ کافر اور واجب القتل ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ" مفہوم: "کیا یہ جاہلیت کے احکام چاہتے ہوئے اللہ تعالٰی کے احکام سے منہ پھیرتے ہیں جب کہ اس شخص کے لئے اللہ سے بہتر کوئی حکم دینے والا نہیں جس نے اللہ کی شریعت کو تھاما اور ایمان و یقین سے متصف ہوا،اور اس نے جان لیا کہ اللہ ہی احکام الحاکمین اور والدہ سے زیادہ اپنی مخلوق پر شفقت کرنے والا ہے اللہ ہر شے پر قادر، علم رکھنے والا اور تمام مخلوق میں انصاف کرنے والا ہے" قبل ازیں اللہ جل و علا نے نبی اکرم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ"آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مابین اللہ کی طرف سے نازل شدہ(شریعت)کے ذریعے فیصلہ کریں اور حق کے آ چکنے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ (سورہ مائدہ:48) مزید خطاب ہوا کہ "آپ ان کے مابین اس سے فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور ان کی خواہشات کی تابعداری نہ کریں اور اس بات سے بچے رہیں کہ یہ منزل من اللہ میں فتنہ بپا کردیں گے۔ (سورہ مائدہ:49) اللہ تعالیٰ نے یہود کے مابین فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا آپ کو اختیار دیتے ہوئے فرمایا کہ:

"اگر یہود آ پ کے پاس فیصلہ کروانے کی نیت سے آئیں تو آپ کو فیصلہ کر دینے یا نہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگر آپ اعراض کریں گے تو وہ ہرگز آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اگر فیصلہ فرمائیں گے تو عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔"

قسط عدل کے معنی دیتا ہے اور حقیقی عدل یہی ہے کہ حکم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہو۔ ان کے علاوہ کسی بھی غیر کا حکم ظلم و زیادتی کفر و گمراہی اور فسق و فجور کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسی لیے بعد میں یہ بھی کہا گیا:

"وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ"

"وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ"

"وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ" کہ جو (بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ) سے فیصلہ نہ کرے تو یہی لوگ تو کافر ہیں، یہی لوگ تو ظالم ہیں اور یہی لوگ تو فاسق ہیں" ملاحظہ فرمائیں کہ کس طور اللہ جل شانہ نے غیر اللہ کے ساتھ فیصلہ کرنے والوں کو کافر،ظالم اور فاسق ہونے سے تعبیر کیا ہے اور یہ محال ہے کہ خدائے باری تعالیٰ کسی کو کافر کہیں اور وہ کافر نہ ہو۔بلاشبہ مطلقاً کافر ہے اور کفر عملی و اعتقادی دونوں اس میں پائے جاتے ہیں۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں(بروایت طاؤس وغیرہ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ "حاکم بغیر اللہ" پر کفر کی ہر دو قسم کا اطلاق ہے یا تو کفر اعتقادی ہے، جو ملت سے خروج کا موجب ہے وگرنہ کفر عملی کا مرتکب ہے جو اسلام سے خروج کو لازمی نہیں کرتا۔ کفر اعتقادی کی متعدد اقسام ہیں جن میں پہلی صورت یہ ہے کہ "غیر ما انزل اللہ" سے فیصلہ کرنے والا اللہ اور رسول کے حکم کے حق ہونے کا ہی انکار کردے۔ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جو روایت ہے اس کا بھی یہ مفہوم ہے اور اسی کو ہی ابن جریر نے اختیار کیا ہے کہ یہ اللہ کی شریعت کے انکار کو مستلزم ہے۔ اہل علم کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں اور متفق علیہ اصولوں کی روشنی میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جو شخص دین کی کسی اصل یا متفق علیہ فرع کا انکار کرے یا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لائے ہیں اسکے کسی ایک حرف کا بھی انکار کرے تو وہ ایسا کافر ہے جو خارج عن الملہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ "غیر ما انزل اللہ" سے فیصلہ کرنے والا حکم الٰہی کے حق ہونے کا تو منکر نہ ہو لیکن وہ غیر اللہ کے حکم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مطلقاً احسن، اکمل اور تنازعات میں زیادہ جامع فیصلہ کرنے والا گردانتا ہو یا پھر جدید پیش آمدہ مسائل کی نسبت سے زیادہ بہتر سمجھتا ہو جو کہ حوادث زمانہ اور تغیر احوال کے باعث وقوع پزیر ہوئے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھی کفر ہے۔کیونکہ اس صورت میں مخلوق کے فیصلوں کو(جو ذہانت کی) وسعت اور عقلوں کی کاوش سے وجود میں آئے ہیں) عظیم صاحب حکمت اور بزرگ و برتر ہستی کے فیصلوں پر فوقیت دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ اللہ عزوجل کا فیصلہ اور حکم ۔۔۔اختلاف زمان،تبدیلی حالات اور جدید پیش آمدہ مسائل کی وجہ سے کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتا۔اور اسلام کے بنیادی عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایسا معاملہ نہیں جو وقوع پزیر ہو یا ہونے والا ہو لیکن کتاب و سنت میں واضح یا اشاراتی الفاظ میں اس کا فیصلہ نہ مل سکے۔ جس آدمی نے اس نکتے کا ادراک کرلیا تو یہ اس کی خوش قسمتی اور جو اپنی بدنصیبی کے باعث اس کو سمجھ نہ سکے تو اس کی جہالت کا وبال اسی پر ہے۔ جہاں تک تبدیلی حالات وواقعات میں فتویٰ کی تبدیلی کا تعلق ہے۔تو اس سے علماء کی مراد وہ نہیں جو کم عقل،احکام اور ان کی وجوہات سے نا واقف لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ نفسانی خواہشات،غلط دنیاوی اغراض و تصورات کے جو فیصلہ قریب تر ہو تو اس کا فیصلہ دے دیاجائے اور آئندہ اگر کوئی دلی میلان یاخواہش دوسرے فیصلہ سے پوری ہورہی تب اس کو اختیار کر لیا جائے تو اسی غلط مراد کو اخذ کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ صورتحال اب عام ہو چکی ہے کہ پہلے خواہشات اور مقاصد متعین کرلیے جاتے ہیں بعد ازاں نصوص کو من مانی تاویلات کے ساتھ موڑ توڑ کر اپنے مقاصد کی تائید میں پیش کر دیا جاتا ہے اور اس میں جہاں تک ممکن ہو نصوص میں تحریف و تاویل سے بھی کام نکالا جاتا ہے۔ تغیر زمان و  احکامات اور حوادث زمانہ کے باعث فتویٰ میں جو تغیر ہوتا ہے علماء کی اس سے مراد در حقیقت یہ ہے کہ ہر واقعے میں اس شے کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ کونسا فتویٰ ایسا ہے جو اصول شرعیہ، وجوہات، معتبرہ، اور مصالح دینیہ کے زیادہ قرس قیاس ہے اور دینی مقاصد کی زیادہ پاسداری کرتا ہے، جبکہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ارباب قوانین صیغہ اس راہ اور منہج سے ہٹ کر فقط وہی فیصلہ دیتے ہیں۔ جو ان کے ارادے اور خواہش کے قریب تر ہو۔عدالتوں میں بھی عملاً ایسے ہی ہوتا ہے اور متعدد وواقعات اس پر شاہد عدل ہیں۔ اعتقادی کفر کی تیسری قسم یہ ہے کہ خود ساختہ قوانین کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین کے احسن سمجھنے کا اعتقاد تو نہ رکھا جائے۔لیکن دونوں کو یکساں باور کیاجائے۔تو یہ صورت بھی ایسے کفر کے مرتکب ہونے میں پہلی دو کے مساوی ہے جو کہ اس کے ملت سے خروج کا سبب ہے کیونکہ ایسا عقیدہ خالق و مخلوق کے مابین مساوات کا متقاضی کرتاہے اور یہ برابری واضح اور صریح طور پر اس قول ربانی(اور دیگر اس کی ہم معنی آیات)کے خلاف ہے کہ:

"لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ" یعنی"اسکے مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔یہ آیت اور اس جیسی دیگر بےشمار  آیات فقط رب تعالٰی کے اکمل ہونے نقائص سے منزہ ہونے اور ذاتی، صفاتی و فعلی لحاظ سے اس کو مخلوق کی مشابہت سے ماروا سمجھنے پر دلالت کرتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مخلوق کے مابین فیصلہ کرنے میں بھی صرف رب کو ہی حکم بتاتی ہیں۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے احکامات کو "غیر ما انزل اللہ" کے مساوی بھی نہ سمجھے۔چہ جائیکہ وہ ان خود ساختہ قوانین کی افضلیت کا عقیدہ رکھنے والا ہو۔لیکن وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واضح احکامات کے باوجود مخلوق سے فیصلہ لینے کو جائز گردانتا ہو تو ایسا شخص بھی ان ہی وعیدوں کا حق دار ہے۔ جس پر اس کے پیش رو صادق آئے جس کی وجہ سے یہ ہے کہ نصوص صحیحہ بصراحت اس امر کو ثابت کرتی ہیں کہ"غیر ما انزل اللہ" سے فیصلہ کرنا حرام ہے جب کہ یہ شخص اس کے جواز کا اعتقاد رکھتاہے۔ کفر اعتقادی کی پانچویں قسم ایسی ہے جو کہ سب سے زیادہ منشائے شریعت کے خلاف اور دین سے کھلم کھلا بغاوت کا اظہار ہے اور احکام الٰہی سے خود سری اس کی بنیاد ہے اور وہ یہ ہے کہ عین شرعی عدالتوں کے مساوی ایسی عدالتیں قائم کی جائیں جن کا قانون مختلف شریعتوں سے اخذ شدہ اور مختلف یورپی۔ و مغربی ممالک مثلا فرانس، برطانیہ، امریکہ وغیرہ کے قوانین سے ماخوذ ہو اور اس قانون میں ایسے گروہوں اور جماعتوں کے قوانین سے بھی مدد لی گئی ہو،جو اپنے آپ کو شریعت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں باقاعدہ نظام کے تحت ایسی عدالتوں کو وجود میں لانا جو ہر اعتبار سے شرعی عدالتوں کے ہم پلہ ہوں۔جس طرح عدالت شرعی کی تشکیل،نوع بندی اور قوت نافذہ ہوتی ہے بعینہ اسی طرز پر انسانی خود ساختہ قوانین کی عدالتیں قائم کردی جائیں اور جس طرح شرعی عدالتوں کے مراجع ومصادر احکام(جو کہ فقط کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوتے ہیں۔اسی طرح ان کے بھی باقاعدہ مصادر ہوں جن میں سے چند ایک اوپر ذکر کیے گئے ہیں۔

دور حاضر میں عالم اسلام کے اندر اس طرح کی مکمل ہیت وصورت پانے والی مستقل عدالتیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔جن میں عوامی فیصلے ہوتے ہیں اور لوگ غیر مسلموں کی دیکھا دیکھی ان کے تحت اپنے فیصلے کرواتے ہیں،ان عدالتوں میں جج حضرات اپنے قانون کے مطابق خلاف شریعت فیصلے صادر کرتے ہیں۔اور ان فیصلوں کی پیروی کی جاتی ہے ان کو مانا اور اپنی زندگیوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کفر کیا ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رسول ماننے اور واحد مُطاع ہونے کی گواہی کے ساتھ ساتھ  زندگی کے سارے امور و معاملات اور تمام کام برضا و رغبت من مانے طور پر انجام دیئے جائیں، اس سے بڑا نفاق اور قول و عمل کے تضادات اور کیا ہوں  گے؟ ایسے تمام اصحاب اس کے باوجود بڑے فخر سے اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں جب کہ قرآن وسنت میں اس طرز عمل کی حرمت سے متعلق ان مذکورہ بالا دلائل کے علاوہ بھی بے شمار اور ان گنت دلائل دیگر بھی موجود ہیں جو اصحاب علم میں معروف اور لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔جن کے تفصیلی ذکر کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہوسکتا۔ اے صاحبو! بصیرت اور عقل و فہم سے آراستہ مسلمانو! تمہارا ضمیر تمہیں اس بات کی کیسے اجازت دیتا ہے کہ تم پر تم سے بھی کم تر انسانوں کے احکام و افکار مسلط کردیے جائیں جن کے فیصلوں میں غلطی کا امکان موجود ہے۔بلکہ صحیح کے مقابلوں میں غلطیوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔بلاشبہ اسلامی عقیدہ تو یہ ہے کہ کوئی قانون بھی اس وقت تک کامل اور صحیح نہیں ہوسکتا جب تک اللہ کی شریعت اور احکام سے اس میں مدد نہ لی جائے۔تم کیسے گوارا کرتے ہو کہ تمہارے اموال جانوں اور اولاد میں فیصلوں کا حق غیر کے پاس ہو۔تمہاری عزتیں اور تمہاری بہن، بیٹیوں اور بیویوں کے فیصلے غیر کے قانون کے زیر سایہ ہوں۔ کیا تم نے انہیں کھلا حق دے رکھا ہے کہ تمہارے تمام حقوق، رہن سہن اور تمہارے طور طریقوں میں تم جیسے انسان ہی من مانے فیصلے کرتے پھریں، اللہ کے قوانین کے برعکس! اور تم اس اللہ بزرگ و برتر کے قوانین کو پس پشت ڈال دو جس نے تمہیں پیدا کیا اور وہی تمہاری بہتری کو سب سے زیادہ سمجھنے والا ہے ۔جس کے احکامات میں غلطی کا کوئی امکان نہیں اور جس میں باطل کا شائبہ تک نہیں (باطل کو تو ان میں پر مارنے کی بھی مجال نہیں) وہ احکام تو اس مقدس ہستی کے نازل کیے ہوئے ہیں جو تعریف کی ہوئی اور حکمت و دانائی سےبھر پور ہے۔

انسانوں کا اللہ کے سامنے اس کے قوانین کے آگے سر تسلیم خم کرنا تو عین عبادت بر حق ہے۔کیونکہ ان کی تخلیق کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے مطیع ہوں اور اس کی عبادت کرتے ہوئے مخلوق کی فرمانبرداری کے مرتکب نہ ہوں۔

اسی لیے لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ پیروی، تابعداری اور اطاعت فقط اس رب کے احکامات کی کریں جو کہ علم و حکمت والا اور شفقت ورحم سے متصف ہے۔نہ کہ اس کی مخلوق کی جو کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والی اور ایسی جہالت کی حامل ہے۔جس میں اس کے شکوک وشبہات اور خواہشات اس کو ہلاک کرسکتے ہیں اور یہ کم علمی ان پر غفلت کے پردے ظلمات کی اندھیر تاریکیاں اور دلوں کی شقاوت مسلط کرسکتی ہے، پس سمجھ دار صاحب فہم و فراست اصحاب کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اپنے جیسوں کی اطاعت وبندگی سے بچائیں اور اس حکم کو قبول کرنے سے پرہیز کریں جو خواہشات اور اغراض نفسانی کا حاصل ہے۔غلطیوں اور خطاؤں کا مجموعہ ہے اور فقط انسانی مشاہدہ و تجربہ کی پیداوار ہے اور ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ قانون خود ساختہ قرآن کے ان واضح الفاظ کی صراحت سے "کفر" کے ہم پلہ ہے کہ: "وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ" جو لوگ ما انزل اللہ کے ساتھ فیصلے نہیں کرتے تو بلاشبہ ہو کافر ہیں۔ہمیں چاہیے کہ مروجہ عدالتی نظام سے چھٹکارا پاتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حق ادا کریں۔ غیر مسلموں کی غلامی سے جہاں اپنے آپ کو نکالیں وہاں ان کے فکری تسلط اور غلبہ سے بھی مسلمانوں کو نجات دلوائیں۔

اعتقادی کفر کی چھٹی اور آخری قسم یہ ہے کہ ان روایات اور لگے بندھے اصولوں سے فیصلے کئے جائیں جو کسی قبیلہ کی روایات کے طور پر یا امراء و رؤساء کے طرز عمل اور عادات کے طور پر معروف ہوں۔یعنی اپنے آباء و اجداد اور ان کی عادات و اطوار، رسم و رواج وغیرہ جو ان تک موروثی طور تک پہنچے ہوں) کو فیصلے میں اثر انداز کیا جائے اور نزاعات میں ان کو حاکم مانا جائے۔ تو یہ انداز بھی جاہلیت کے اطوار پر بقاء و استمرار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے اعراض اور بے رغبتی کے مترادف ہے بایں ہمہ وجہ یہ بھی حرام ہے۔

مختصراً مذکورہ بالا اقسام اور ان کی وضاحت سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ ہماری بہتری فلاح اور خیر، فقط ہمارے خالق کے نازل کردہ قانون میں ہے۔جو جہاں نقائص و عیوب سے (اللہ وحدہ لاشریک سے منسوب ہونے کی وجہ سے) منزہ ہے۔وہاں فطرت سے قریب تر اور فیصلوں میں معتدل طرز عمل کا حامل ہے۔مسلمانوں اور تمام دنیا کی بھلائی کا دارومدار صرف اور صرف قانون الٰہی پر عمل کرنے سے ہی ہے۔قرآن کی شہادت کافی ہے کہ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا اور ان تمام سے بڑھ کر کہ غیر اللہ سے فیصلہ کروانا دین سے اخراج اور اللہ تعالٰی کی نافرمانی پر منتج ہوتا ہے۔شیطان کے مکر و فریب اور گناہ سے بچنے کی قوت فقط اللہ تعالٰی کی نصرت سے ہی ممکن ہے اور نصرت کی ہی ایک صورت یہ ہے کہ جرائم و مسائل پر قابو پانے کےلیے اللہ نے خود قانون نازل کر دیا، تاکہ لوگ شیطان کی پیدا کردہ گمراہی سے دور رہ سکیں۔

غیر ما انزل الله سے فیصلہ کرنے والوں کے کفر کی دوسری قسم ہے کفر عملی اس کفر کا مرتکب دین وملت سے خارج نہیں ہوتا۔جہاں تک اس آیت کاتعلق ہے۔ "وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ"

تو اس کفر کی وضاحت حضرت ابن عباس رضی الله تعالٰی عنہ کے قول میں یوں گزر چکی ہے کہ ایسا شخص یا تو کفر اعتقادی کا مرتکب ہے، وگرنہ کفر عملی کا حامل ہے۔ یہاں ہم اس آیت کی دلالت کو دوسری قسم پر محمول کریں گے کہ یہ اس کفر عملی کا مرتکب ہے جو کفر صغیر (کفر دون کفر) کے معنی میں ہے۔

حضرت ابن عباس رضی الله تعالٰی عنہ کے ہی ایک د وسرے قول میں ہے کہ یہ وہ کفر نہیں جس کی طرف مسلمان قتال کے لیے جاتے ہیں اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی خواہشات اور آرزوں کے زیر اثر غیر ماانزل الله سے فیصلہ کروائے باوجود اس کے کہ اس کا اعتقاد یہی ہوکہ حکم اور فیصلہ تو الله اور اس کے رسول صلی الله علیه و آلہ و سلم کا ہی زیادہ بہتر ہے۔اور وہ شخص حق کے ترک پر اپنے آپ کو ملامت کرنے والا ہو، اور اپنے نفس کی خطاء کا بھی اعتراف کرتا ہو۔

کفر کی یہ صورت اگرچہ اس کو ملت سے تو خارج نہیں کرتی لیکن یہ بڑے بڑے گناہوں(جیسے زناء،شراب، چوری اور جھوٹی قسم) میں سے سب سے بڑے گناہ اور معصیت کا ارتکاب ہے اور یہ ایسی معصیت ہے جس کو الله جل شانہ نے اپنی کتاب میں "کفر" سے موسوم کیا ہے اور کسی گناہ کو کفر سے تعبیر کرنا اس کو ان تمام گناہوں سے بڑھا دیتی ہے۔جن کو کفر سے تعبیر نہیں کیا گیا۔

آخر میں ہم الله تعالٰی سے یہ دعا کرتے ہیں کہ یا الله رب العالمین تو اپنے بندوں پر اپنا خاص لطف و رحم اور فضل و کرم فرما تمام انسانوں بالخصوص اپنے کلمہ گو بندوں کو، قرآن و سنت کی کامل تفہیم و تعمیل، اطاعت و اتباع اور پیروی کرنے، اپنے نازل کردہ احکامات (قرآن و سنت) کے مطابق تمام امور و معاملات، تنازعات و مقدمات کے فیصلے برضا ورغبت کرنے اور جماعت صحابہ کرام رضوان الله تعالٰی علیہم اجمعین کے طرز فکر و عمل کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرما، اور تا دم آخر انہیں صراط مستقیم کی کامل پیروی پر استقامت عطا فرما، بلاشبہ تو ہی قادر و قدیر، کار ساز اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تو ہی مقلب القلوب اور مسبب الاسباب ہے، یاالٰہی امت مسلمہ کو جسد واحد کی طرح امت  واحدہ بننے، فرقہ سازی، فرقہ واریت، فرقہ بندی، فرقہ پرستی کی گمراہی سے توبہ و استغفار کرنے اور اکابرین و مشاہیر کے من پسند و من گھڑت، انسانی و بشری افکار و نظریات پر، قرآن و سنت کے احکامات و ہداہات، تعلیمات و پیغامات کو اولیت ترجیح و فوقیت اور اولین اہمیت دینے، قرآن و سنت کی تعمیل، اطاعت و اتباع کرنے اور الله کے بندوں اور اس کی زمین پر الله تعالٰی کی حاکمیت اعلٰی قائم کرنے کو اپنا نصب العین اور مقصد زندگی بنانے کا جذبہء صادق اور عزم صمیم عطا فرما دے، آمین ثم آمین یا ارحم الراحمین، بجاہ رحمة للعالمين صلى الله عليه و آله و سلم.