Tuesday, 29 December 2015

بیشک صلٰوۃ بےحیائی اور برائی ( اللہ تعالٰی و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم کی حکم عدولی ونافرمانی)سے روکتی ہے


بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بےشک صلٰوۃبےحیائی اور برائی ( اللہ تعالٰی  و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و  کی نافرمانی و  حکم عدولی) سے روک دیتی ہے ("نماز نہیں صلٰوۃ)
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)
سورۃ العنکبوت، آیۃ  ۴۵میں ارشاد باری تعالٰی ہے: ترجمہ: "بے شک صلٰوۃبےحیائی اور برائی ( اللہ تعالٰی و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلّم (یعنی قرآن و سُنَّۃ کے  پیغامات و احکامات، ہدایات و تعلیمات کی مخالفت، حکم عدولی، نافرمانی)   سےروک دیتی ہے،" بےشک صلٰوۃ بےحیائی اور برائی ( اللہ تعالٰی و  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم  کی حکم عدولی ونافرمانی)سے روک دیتی ہے اس تاثیر کی ضمانت کسی انسان نے نہیں بلکہ خود خالقِ کائنات اللہ ربُّ العٰلمین سُبْحَانَہ وَ تَعَالٰی نے اپنے کلام قرآنِ مجید میں عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہم پر صلٰوۃ فرض کی ہے  نماز نہیں اور صلٰوۃ کو ہی قائم کرنے کا تاکیداً حکم دیا ہے! ، غور طلب بات ہے پوری توجہ سے پڑھیں اور اور صدقِ نیت و اخلاصِ قلبی کے ساتھ سنجیدگی سے غور و فکر کریںپڑھیں 
اللہ سُبحانہ و تعالی نے قرآنِ مجید میں مُسلمانوں پرہر دن و رات میں  صلٰوۃِ خمسہ فرض کی ہیں اور صلٰوۃ قائم کرنے کا حکم دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک و سلّم نے اور جمیع صحابہءِکرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے صلٰوۃ قائم کی ہے نماز نہیں پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"صلو کما رایتمونی اصلی" ترجمہ: "تم صلٰوۃ قائم کرو جس طرح تم مجھے صلٰوۃ قائم کرتا ہوا دیکھتے ہو" صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی جماعۃ، تابعین و تبع تابعین، ائمہءِ اربعہ سمیت تمام فقہاء و مجتہدین اورسلف صالحین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے اُسی طرح صلٰوۃ خمسہ قائم کی جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے بنفسِ نفیس (بذاتِ خود) صلٰوۃ قائم کی اور صحابہءِ کرام کو سکھائی مگر حالیہ دوتین سو سال میں اللہ کی فرض کردہ "صلٰوۃ" کو بلاجواز "نماز"کا نام دے دیا گیا، حالانکہ زکٰوۃ، سجدہ، رکوع، قرآن، مسجد، حج، اذان وغیرہ کی ہی طرح "الصلٰوۃ" بھی شعائرِ اسلام میں سے ہے ہی ہے اور باقی اکثروبیشتر شعائرِ اِسلام کی طرح اُس کا نام بدلنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔ آئیے ہم بھی لفظِ نماز کو آج سے ہی ترک کرکے اللہ کی فرض کردہ اصل عبادت (کامل اطاعت و فرمانبرداری) "صلٰوۃ" کو قائم کریں، ہر جگہ جہاں جہاں بھی آج سے پہلے ہم لفظِ نماز استعمال کرتے تھے آج سے اسکی جگہ اس اہم ترین فرض عبادت (کامل اطاعت و فرمانبرداری) کا اصلی نام صلٰوۃ اختیار کرنا شروع کردیں۔
اصل دینِ اسلام فقط قرآن و سُنَّۃ پر مبنی ہے اور صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی جماعت کے طرزِ فکروعمل، طورطریقوں اورنقشِ قدم پرقرآن و سُنَّت کے احکامات و پیغامات، تعلیمات و ہدایات کی تفہیم وتعمیل، اطاعت و اتباع اور پیروی کرتے رہنا ہم سب مسلمانوں کےلئے ضروری ہے۔ اللہ کے نازل کردہ دین "الاِسلام" یعنی قرآن و سُنَّت میں کوئی کمی و بیشی، ردّوبدل، ترمیم و تحریف کرنا اور اس میں اپنےمن پسند و من گھڑت انسانی و بشری افکار و نظریات، اختراعات و بدعات کو داخل و شامل کرنا کسی طور درست نہیں دین میں تجاوزات قائم کرنے اور اس میں ترمیم و تحریف صریحاً حرام و ناجائز ہے اور اس سے گریز لازم ہے۔ فرقہ پرستی نے اصل دینِ اسلام کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے، اُمَّۃِ مسلمہ کا شیرازہ بکھیر دیا ہے، اخوَّۃِ اسلامی کا گلا گھونٹ دیا ہے اور اسلام کے غلبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ ہم سب مسلمانوں پر لازم ہے کہ اصل دینِ اسلام قرآن و سُنَّۃ کے بجائے فرقہ پرستی سے کنارہکشی و لاتعلقی اختیار کریں اور قرآن و سُنّۃ کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس پر کسی بھی غیر کو ہرگز ترجیح و اوّلیت اورفوقیت نہ دیں، مذہبی منافرت کو ترک کردیں ،فقط مُسلمان کہلائیں اور دیوبندیت، بریلویت، سلفیت، اہلِ حدیثییت وغیرہ کو اپنا دین و مذہب بنانے کے بجائے اللہ کے نازل کردہ دین "اِسلام" کو قبول و تسلیم کرنے پر ہی اکتفا کریں تاکہ اتحادِ اُمَّۃ اور اخؤّۃِاِسلامی کی راہ ہموار ہو سکے جو کہ اللہ کے دین کی عظمت اور غلبے کےلئے بہت ضروری ہے۔
سورۃ العنکبوت، آیۃ  ۴۵میں ارشاد باری تعالٰی ہے: بیشک صلٰوۃبےحیائی اور برائی ( اللہ تعالٰی و  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلی و سلّم یعنی قرآن و سُنَّۃ کے  پیغامات و احکامات، ہدایات و تعلیمات کی مخالفت، حکم عدولی، نافرمانی) سے روکتی ہے"
بشرطیکہ صلٰوۃصحیح معنوں میں صلٰوۃ ہو ۔ سو جو صلٰوۃصحیح اور حقیقی معنوں میں  صلٰوۃ  ہوگی وہ یقینا بےحیائی اور برائی سے روکے گی، اور بالفعل روکتی ہے کہ یہ  صلٰوۃ  کی خاصیت اور اس کا طبعی تقاضا ہے۔ اور جہاں ایسا نہیں ہوگا وہاں اس کی وجہ یہی ہوگی کہ وہ صلٰوۃ  حقیقی معنوں میں صلٰوۃ  نہیں ۔ کیونکہ  صلٰوۃ  صرف ظاہری شکل کا نام نہیں   بلکہ یہ عبادت (کامل اطاعت و فرمانبرداری)  (کامل اطاعت و فرمانبرداری)ہے اس حقیقت اور روح سے جو اس صلٰوۃ  کے اندر موجود ہوتی ہے۔ سو صلٰوۃ  ایک ایسی عظیم الشان اور بےمثال عبادت (کامل اطاعت و فرمانبرداری) (کامل اطاعت و فرمانبرداری) ہے جو ایک طرف تو بندے کا تعلق اس کے خالق و ومالک سے صحیح بنیادوں پر قائم کرتی ہے، اور دوسری طرف اسکی خیرات و برکات سے افراد اور معاشرے میں وہ نورانیت اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے جو معاشرے کو ایک مبارک و مسعود معاشرہ بنا دیتی ہے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید۔
٢ ف کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یاد دلشاد ہی وہ مقصد عظیم اور مطلب جلیل ہے جو دارین کی سعادت و سرخروئی اور حقیقی فوز و فلاح سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اور واحد اور بنیادی ذریعہ وسیلہ۔ اور صلٰوۃ ذکر و یاد خداوندی کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ کہ اس میں انسان اپنے جسم و جان، قلب و قالب، ظاہر و باطن، اور قول و عمل ہر اعتبار سے محو عبادت (کامل اطاعت و فرمانبرداری) ہوتا ہے اور خاص کر اس میں سجدے کی حالت تو وہ خاص حالت ہوتی ہے جسکے بارے میں حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا۔ اور صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جبکہ وہ سجدے میں ہوتا ہے، اور اس کی یہ حالت اس لائق ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے۔ اس لئے دین حنیف میں اس کی بڑی زبردست تاکید فرمائی گئی ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔
خلاصہ تفسیر:
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) چونکہ آپ رسول ہیں، اس لئے) جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے آپ (تبلیغ کے واسطے) اس کو (لوگوں کے سامنے) پڑھا کیجئے (اور تبلیغ قولی کے ساتھ تبلیغ عملی بھی کیجئے کہ دین کے کام ان کو عمل کر کے بھی بتلائیے، خصوصاً ) صلٰوۃکی پابندی رکھئے (کیونکہ تمام اعمال میں صلٰوۃ سب سےاعظم عبادت (کامل اطاعت و فرمانبرداری) بھی ہے اور اس کے اثرات بھی دور رس ہیں کہ) بیشک صلٰوۃ (اپنی وضع کے اعتبار سے) بےحیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی رہتی ہے (یعنی بزبان حال کہتی ہے کہ تو جس معبود کی انتہائی تعظیم کر رہا ہے اور اس کی اطاعت کا اقرار کر رہا ہے فحشا اور منکر میں مبتلا ہونا اس کی شان میں بےادبی ہے) اور (اسی طرح صلٰوۃ کے سوا جتنے نیک کام ہیں سب پابندی کے لائق ہیں، کیونکہ وہ سب قولاً یا فعلاً اللہ کی یاد ہی ہیں) اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے اور (اگر تم اللہ کی یاد میں غفلت کرو تو یہ بھی سن لو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کو جانتا ہے (جیسا کرو گے ویسا بدلہ ملے گا۔)
معارف و مسائل: اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ، سابقہ آیات میں چند انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کا ذکر تھا، جن میں چند بڑے بڑے سرکش کفار اور ان پر طرح طرح کے عذابوں کا بیان تھا جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مومنین امت کے لئے تسلی بھی ہے کہ انبیاء سابقین نے مخالفین کی کیسی کیسی ایذاؤں پر صبر کیا اور اس کی تلقین بھی کہ تبلیغ و دعوت کے کام میں کسی حال میں ہمت نہیں ہارنا چاہئے۔
اصلاح خلق کا مختصر جامع نسخہ:
اقامت صلوة  جس کو تمام دوسرے فرائض اور اعمال سے ممتاز کر کے بیان کرنے کی یہ حکمت بھی بیان فرما دی کہ صلٰوۃ خود اپنی ذات میں بھی بہت بڑی اہم عبادت (کامل اطاعت و فرمانبرداری) اور دین کا عمود ہے اس کے ساتھ اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ جو شخص صلٰوۃ کی اقامت کر لے تو صلٰوۃ اس کو فحشاء اور منکر سے روک دیتی ہے۔ فحشاء ہر ایسے برے فعل یا قول کو کہا جاتا ہے جس کی برائی کھلی ہوئی اور ایسی واضح ہو کہ ہر عقل والا مومن ہو یا کافر اس کو برا سمجھے، جیسے زنا، قتل ناحق ، چوری ڈاکہ وغیرہ اور منکر وہ قول و فعل ہے جس کے حرام و ناجائز ہونے پر اہل شرع کا اتفاق ہو، اس لئے ائمہ فقہاء کے اجتہادی اختلافات میں کسی جانب کو منکر نہیں کہا جا سکتا۔
فحشاء اور منکر کے دو لفظوں میں تمام جرائم اور ظاہر و باطنی گناہ آگئے، جو خود بھی فساد ہی فساد ہیں اور اعمال صالحہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہیں ۔
متعدد مستند احادیث کی رو سے یہ مطلب ہے کہ اقامت صلوة میں بالخاصہ تاثیر ہے کہ جو اس کو ادا کرتا ہے اس سے گناہ چھوٹ جاتے ہیں بشرطیکہ صرف صلٰوۃ پڑھنا نہ ہو، بلکہ الفاظ قرآن کے مطابق اقامت صلوة ہو ۔ اقامت کے لفظی معنی سیدھا کھڑا کرنے کے ہیں، جس میں کسی طرف جھکاؤ نہ ہو ۔ اس لئے اقامت صلوة کا مفہوم یہ ہوا کہ صلٰوۃ کے تمام ظاہری اور باطنی آداب اس طرح ادا کرے جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عملی طور پر ادا کر کے بتلایا اور عمر بھر ان کی زبانی تلقین بھی فرماتے رہے کہ بدن اور کپڑے اور جائے صلٰوۃ کی مکمل طہارت بھی ہو، پھر صلٰوۃ جماعت کا پورا اہتمام بھی اور صلٰوۃ کے تمام اعمال کو سنت کے مطابق بنانا بھی، یہ تو ظاہری آداب ہوئے۔ باطنی یہ کہ مکمل خشوع خضوع سے اس طرح اللہ کے سامنے کھڑا ہو کہ گویا وہ حق تعالیٰ سے عرض و معروض کر رہا ہے۔ اس طرح اقامت صلوة کرنے والے کو منجانب اللہ خود بخود توفیق اعمال صالحہ کی بھی ہوتی ہے اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی بھی اور جو شخص صلٰوۃ پڑھنے کے باوجود گناہوں سے نہ بچا تو سمجھ لے کہ اس کی صلٰوۃ ہی میں قصور ہے۔ جیسا کہ حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ  اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ کا کیا مطلب ہے۔ آپ نے فرمایا من لم تنھہ صلوتہ عن الفحشآء والمنکر فلا صلوة لہ (رواہ ابن ابی حاتم بسندہ عن عمران بن حصین والطبرانی من حدیث ابی معاویة) یعنی جس شخص کو اس کی صلٰوۃ نے فحشاء اور منکر سے نہ روکا اس کی صلٰوۃ کچھ نہیں ۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا لا صلوة لمن لم یطع الصلوة (رواہ ابن جریر بسندہ) یعنی اس شخص کی صلٰوۃ ہی نہیں جس نے اپنی صلٰوۃ کی اطاعت نہ کی اور صلٰوۃ کی اطاعت یہی ہے کہ فحشاء اور منکر سے باز آ جائے۔
اور حضرت ابن عباس نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا کہ جس شخص کی صلٰوۃ نے اس کو اعمال صالحہ پر عمل اور منکرات سے پرہیز پر آمادہ نہیں کیا تو ایسی صلٰوۃ اس کو اللہ سے اور زیادہ دور کر دیتی ہے۔
ابن کثیر نے ان تینوں روایتوں کو نقل کر کے ترجیح اس کو دی ہے کہ یہ احادیث مرفوعہ نہیں، بلکہ عمران بن حصین اور عبداللہ بن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کے اقوال ہیں جو ان حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمائے ہیں ۔
اور حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں آدمی رات کو تہجد پڑھتا ہے اور جب صبح ہو جاتی ہے تو چوری کرتا ہے، آپ نے فرمایا کہ عنقریب صلٰوۃ اس کو چوری سے روک دے گی۔ (ابن کثیر)
بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اس ارشاد کے بعد وہ اپنے گناہ سے تائب ہوگیا۔
اکثر حضرات مفسرین نے فرمایا کہ صلٰوۃ کے منع کرنے کا مفہوم صرف حکم دینا نہیں بلکہ صلٰوۃ میں بالخاصہ یہ اثر بھی ہے کہ اس کے پڑھنے والے کو گناہوں سے بچنے کی توفیق ہو جاتی ہے، اور جس کو توفیق نہ ہو تو غور کرنے سے ثابت ہو جائے گا کہ اس کی صلٰوۃ میں کوئی خلل تھا اور اقامت صلوة کا حق اس نے ادا نہیں کیا، احادیث مذکورہ سے اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے۔
صلٰوۃ بےحیائی اور برے کاموں روک دیتی ہےیعنی ممنوعاتِ شرعیہ سے لہذا جو شخص صلٰوۃ کا پابند ہوتا ہے اور اس کو اچھی طرح ادا کرتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ ان برائیوں کو ترک کر دیتا ہے جن میں مبتلا تھا ۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ ایک انصاری جوان سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ صلٰوۃ پڑھا کرتا تھا اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا تھا حضور سے اس کی شکایت کی گئی فرمایا اس کی صلٰوۃ کسی روز اس کو ان باتوں سے روک دے گی چنانچہ بہت ہی قریب زمانہ میں اس نے توبہ کی اور اس کا حال بہتر ہو گیا ۔ حضرت حسن  رض نے فرمایا کہ جس کی صلٰوۃ اس کو بےحیائی اور ممنوعات سے نہ روکے وہ صلٰوۃ ہی نہیں ۔
ترمذی کی حدیث میں ہے سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں وہ عمل جو تمہارے اعمال میں بہتر اور رب کے نزدیک پاکیزہ تر ، نہایت بلند رتبہ اور تمہارے لئے سونے چاندی دینے سے بہتر اور جہاد میں لڑنے اور مارے جانے سے بہتر ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا بیشک یارسولَ اللہ ، فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ۔ ترمذی ہی کی دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ نے حضور سے دریافت کیا تھا کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے نزدیک کن بندوں کا درجہ افضل ہے ؟ فرمایا بکثرت ذکر کرنے والوں کا صحابہ  ءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے عرض کیا اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے والا ؟ فرمایا اگر وہ اپنی تلوار سے کفار و مشرکین کو یہاں تک مارے کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے جب بھی ذاکرین ہی کا درجہ اس سے بلند ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یاد کرنا بہت بڑا ہے اور ایک قول اس کی تفسیر میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بڑا ہے بےحیائی اور بری باتوں سے روکنے اور منع کرنے میں ۔
ترجمہ: (اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ میں جہاد(کوشش) کرنے سے تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا " (سورۃ التوبہ، اٰیۃ نمبر:24)
ھذا ما عندی واللہ ورسولہٗ ﷺاعلم بالصواب!
(تحریر:پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)





Saturday, 26 December 2015

"محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں" کا مفہوم



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں
تحریر: پروفیسر ڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں
" اور تم تو اس کا سامنا کرنے سے پہلے (شہادت کی) موت کی تمنا کیا کرتے تھے، سو اب تم نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا ہے " مفہوم:  (سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر-143)
[١٣٠] اس آیت میں غزوہ احد کا ایک دوسرا منظر پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ مسلمان ابتداًء شکست سے دوچار ہوئے تھے جو صحابہ (رض) غزوہ بدر میں شرکت سے محروم رہ گئے تھے وہ شہدائے بدر کے فضائل سن سن کر تمنا کیا کرتے تھے کہ اگر پھر اللہ نے ایسا موقع فراہم کیا تو ہم اللہ کی راہ میں جان دے کر شہادت کے مراتب حاصل کریں گے۔ مشورہ کے وقت ایسے ہی صحابہ (رض) نے زور دیا تھا کہ جنگ مدینہ سے باہر کھلے میدان میں لڑنا چاہئے، لیکن جب شکست ہوئی تو ایسے صحابہ (رض) میں سے بھی کچھ لوگ بھاگ نکلے۔ اس آیت میں انہیں لوگوں سے خطاب ہے کہ جو چیز تم چاہتے تھے وہی تمہیں پیش آئی ہے۔ اب پیچھے ہٹنے کا کیا مطلب ہے؟ اسی سلسلہ میں ایک حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا مت کرو۔ اور جب ایسا موقع آجائے تو پھر ثابت قدمی دکھاؤ۔ (بخاری، کتاب التمنی، باب کراھیہ تمنی لقاء العدو نیز کتاب الجہاد، باب لاتمنوا لقاء العدو)
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اگر  وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا جائیں یا شہید ہو جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں  ١٣١پھر جاؤ گے (اسلام چھوڑ دوگے؟)  اور اگر کوئی الٹے پاؤں پھر بھی جائے تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور شکرگزاروں کو اللہ تعالیٰ جلد ہی اچھا بدلہ عطا کرے گا" (سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر-144)
جب حضرت عبداللہ بن جبیر کے ساتھی درہ چھوڑ کر لوٹ مار میں لگ گئے تو خالد بن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کے ایک دستہ کی کمان کر رہے تھے) پہاڑی کا چکر کاٹ کر اسی درہ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ سو سوار ان کے ہمراہ تھے۔ ادھر حضرت عبداللہ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے۔ دس بارہ تیر انداز بھلا سو سواروں کی یلغار کو کیسے روک سکتے تھے۔ انہوں نے مقابلہ تو بڑی بے جگری سے کیا مگر سب شہید ہوگئے۔ مسلمان مجاہدین اپنے عقب یعنی درہ کی طرف سے مطمئن تھے کہ اچانک مشرکین کا یہ رسالہ ان کے سروں پر جا پہنچا اور سامنے سے مشرکوں کی جو فوج بھاگ کھڑی ہوئی تھی وہ بھی پیچھے پلٹ آئی اور مسلمان دونوں طرف سے گھر گئے۔ بہت زور کا رن پڑا اور بہت سے مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ اسی دوران ابن قیہ نے ایک بھاری پتھر آپ پر پھینکا جس سے آپ کا سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا اور چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا۔ اس ضرب کی شدت سے آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور ابن قمیئہ یا کسی اور نے دور سے پکارا ' محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیئے گئے' یہ سنتے ہی مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے اور پاؤں اکھڑ گئے بعض مسلمان جنگ چھوڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔ اب لڑنے کا کیا فائدہ ہے اور بعض کمزور دل مسلمانوں کو یہ خیال آیا کہ جاکر مشرکوں کے سردار ابو سفیان سے امان حاصل کرلیں اور اس بدحواسی کے عالم میں بعض یہ بھی سوچنے لگے کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل ہوگئے تو ہمیں اپنے پہلے دین میں واپس چلے جانا چاہئے۔ یہی وہ وقت تھا جب منافقوں نے یوں زبان درازی شروع کردی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر اللہ کے رسول ہوتے تو مارے نہ جاتے۔ اس وقت حضرت انس بن مالک (رض) کے چچا انس بن نضر نے کہا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل ہوگئے تو رب محمد قتل نہیں ہوئے۔ آپ کے بعد تمہارا زندہ رہنا کس کام کا ؟ جس بات پر آپ نے جان دی ہے اسی پر تم بھی اپنی جان دے دو اور کٹ مرو۔ یہ کہہ کر آپ کافروں میں گھس گئے اور بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے آخر شہید ہوگئے۔ اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوش آگیا تو آپ نے آواز دی 'الی عباد اللہ انا رسول اللہ ' (اللہ کے بندو! ادھر آؤ میں اللہ کا رسول ہوں) اور کعب بن مالک آپ کو پہچان کر چلائے۔ مسلمانو! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں موجود ہیں۔ چنانچہ مسلمان آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ تیس کے قریب صحابہ (رض) نے آپ کے قریب ہو کر دفاع کیا اور مشرکوں کی فوج کو منتشر کردیا۔ اس موقع پر سعد بن ابی وقاص اور ابو طلحہ (رض) نے نہایت جانبازی اور جانثاری کا نمونہ پیش کیا۔ اس موقع سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی، محمد صلی اللہ علیہ وسلّم  آخر اللہ تو نہیں جو حی و قیوم ہوں، ایک رسول ہی ہیں۔ ان سے پہلے سب رسول دنیا سے رخصت ہوچکے پھر آگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اسلام چھوڑ دو گے؟۔ دین کی حفاظت اور جہاد فی سبیل اللہ ترک کردو گے؟ تمہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اللہ کاتو کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گا۔
 واضح رہے کہ اس آیت کے نزول کے ساڑھے سات سال بعد جب فی الواقعہ آپ کی وفات ہوگئی تو اس وقت مسلمانوں کو اتنا صدمہ ہوا کہ ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ دوسرے صحابہ (رض) کا کیا ذکر حضرت عمر (رض) جیسے فقیہ اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر تقریر کر رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) آئے اور حضرت عمر (رض) کو بیٹھ جانے کو کہا۔ لیکن جوش خطابت میں انہوں نے اس بات پر کان ہی نہ دھرا۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) الگ کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگے تو لوگ ادھر متوجہ ہوگئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : تم میں سے جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلاشبہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے اور جو شخص اللہ کو پوجتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی (وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ ١٤٤۔) 3- آل عمران :144) تک۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے۔ جب تک حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے یہ آیت نہ پڑھی پھر ابو بکر صدیق (رض) سے لوگوں نے یہ آیت سیکھی۔ پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود حضرت عمر (رض) کہتے ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں نے یہ آیت ابو بکر صدیق (رض) کی تلاوت کرنے سے پہلے سنی ہی نہ تھی اور جب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں اٹھ رہے تھے میں زمین پر گرگیا اور جب میں نے ابو بکر صدیق (رض) کو یہ آیت پڑھتے سنا تب معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔' (بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی)
 پھر اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ یہ آیت غزوہ احد کے موقعہ پر نازل ہوئی تھی اور حضرت عمر (رض) نے اور اسی طرح دوسرے صحابہ کرام (رض) نے اسے سینکڑوں بار پڑھا بھی ہوگا۔ لیکن اس آیت کی صحیح سمجھ انہیں اس وقت آئی جب فی الواقع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ اس سے پہلے نہیں آئی اور یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے قول (وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ 39؀) 10- یونس :39) کا۔ نیز اس سے لفظ تاویل کا صحیح مفہوم بھی سمجھا سکتا ہے۔
پھر جس وقت میدان احد میں بعض کمزور ایمان والوں نے سوچا کہ اسلام کو چھوڑ کر پہلے دین میں چلے جائیں، اسی طرح آپ کی وفات پر واقعی کئی عرب قبائل مرتد ہوگئے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ دین اسلام کی ساری سربلندیاں آپ کی ذات سے وابستہ ہیں۔ پھر جب آپ نہ رہے تو اسلام از خود مٹ جائے گا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے ایسے مرتدین سے جہاد کیا اور انہیں شکست فاش دی۔ ان میں سے کچھ مارے گئے اور باقی پھر سے دین اسلام پر قائم ہوگئے۔ گویا ان لوگوں نے اپنا ہی نقصان کیا۔ اسلام اللہ کے فضل سے سربلند رہا۔
ترجمہ: "کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر کبھی نہیں مرسکتا۔[١٣٢] موت کا وقت لکھا ہوا ہے۔ جو شخص دنیا میں ہی بدلہ کی نیت سے کام کرے گا تو اسے ہم دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور جو آخرت کا بدلہ چاہتا ہو اسے ہم آخرت میں بدلہ دیں گے اور شکرگزاروں [١٣٣] کو عنقریب ہم جزا دیں گے" (سورۃ آلِ عمران، آیۃ نمبر-145)
[١٣٢] اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت جرات مندانہ سبق سکھلایا گیا ہے۔ جس سے میدان جنگ میں بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھانے میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ موت کا تعلق میدان جنگ سے قطعاً نہیں بلکہ وہ گھر پر بھی آسکتی ہے۔ اس کا تو ایک وقت مقرر ہے اب دیکھئے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین نے بے شمار غزوات میں شرکت فرمائی لیکن چونکہ ابھی موت کا وقت نہیں آیا تھا۔ اس لیے صحیح سلامت واپس آتے رہے اور جب موت کا وقت آجاتا ہے تو گھر پر بھی انسان اس سے بچ نہیں سکتا۔ اسی طرح سپہ سالار ہونے کی حیثیت سے حضرت خالد بن ولید کا جو مقام ہے اسے سب جانتے ہیں۔ آپ کی ساری زندگی جنگوں میں گزری۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں تلوار یا نیزہ کا نشان موجود نہ ہو۔ لیکن موت میدان جنگ میں نہیں بلکہ گھر پر بستر مرگ پر ہی آئی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ موت کا جنگ اور میدان جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا اپنا ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ آجاتا ہے تو کوئی انسانی تدبیر مرنے والے کو موت کے منہ سے بچا نہیں سکتی۔
[١٣٣] ایک متواتر حدیث ہے۔ (اِنَّمَا الاَعْمَال بالنِّیَاتِ) یعنی کوئی عمل کرتے وقت انسان کی جیسی نیت ہوگی ویسا ہی اسے بدلہ ملے گا۔ ایک ہی کام ہوتا ہے جو نیت کی تبدیلی سے کچھ کا کچھ بن جاتا ہے۔ مثلاً دور نبوی میں ایک صحابی نے مسجد نبوی کی طرف اپنے مکان کی کھڑکی رکھی۔ آپ نے پوچھا: یہ کھڑکی کیوں رکھی ہے؟ اس نے جواب دیا۔ ''اس لیے کہ ہوا آتی جاتی رہے۔'' آپ نے فرمایا : اگر تم یہ نیت رکھتے کہ ادھر سے آذان کی آواز آئے گی تو تمہیں ثواب بھی ملتا رہتا اور ہوا تو بہرحال آنا ہی تھی۔ اگر غور کیا جائے تو انسان کے بہت کاموں کا یہی حال ہے۔ مثال کے طور پر ہر انسان خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اپنے بال بچوں کی پرورش اور ان پر خرچ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اب اگر یہی کام ایک مسلمان اللہ کا حکم سمجھ کر کرے تو اسے اخروی زندگی میں صدقہ کا ثواب بھی مل جائے گا۔ یعنی جو لوگ صرف دنیوی مفاد چاہتے ہیں اللہ انہیں وہی دیتا ہے اور جو اخروی مفاد چاہتے ہیں اللہ انہیں اخروی تو ضرور دیتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیاوی مفاد بھی جتنا اس کے مقدر ہے اسے عطا کرتا ہے۔
ترجمہ: (اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ میں جہاد(کوشش) کرنے سے تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا " (سورۃ التوبہ، اٰیۃ نمبر:24)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب!
(تحریر: پروفیسر ڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں)