Thursday, 24 September 2015

قرآنِ مجید کے تراجم وتفاسیر کی شرعی حیثیت ،ان میں پائے جانے والے فقہی وتفسیری اختلافات کے اسباب وعوامل،محرکات واثرات اورنتائج کا تحقیقی جائزہ۔ حِصّہ-1

بسم  اللہ الرحمن الرحیم
قرآنِ مجید کے تراجم وتفاسیر کی شرعی حیثیت ،ان میں پائے جانے والے فقہی وتفسیری اختلافات کے اسباب وعوامل،محرکات واثرات اورنتائج کا تحقیقی جائزہ۔ (حِصّہ-1)
مقالہ نگار: پروفیسرڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں
فہرست مضامین
عنوان
نمبرشمار
کتاب ہدایت
1
قرآن کی زبان
2
تفسیر کی ضرورت واہمیت
3
ترجمہ کی ضرورت
4
کیا لفظی ترجمہ قرآن مجید کہلائے گا
5
قابل قبول ترجمہ قرآن
6
تفسیری ترجمہ بالاجماع جائزہے
7
ترجمہ قرآن کی شرائط
8
ہندوستان میں پہلا فارسی ترجمہ قرآن
9
تراجم قرآن کے مختلف اسباب
10
ترجمہ قرآن میں اختلاف کے اسباب
11
فہم قرآن میں صحابہ کے اندر تفاوت
12
وضع علی الرسول کا عنصر
13
بیان رسول اور کی مقدرا میں صحابہ کا اختلاف
14
ملکہ اجتہاد واستنباط میںا ختلاف
15
اہل کتاب سے اخذ میں اختلاف
16
اسرائلیات کا حکم واختلاف
17
شعر جاہلی کی طرف رجوع کا اختلاف
18
عہد صحابہ وتابعین میں مدارس فکر
19
عہد تابعین میں مذہبی اختلافات
20
بعد کے زمانوں میں اختلاف میں شدت
21
عبارت اور تعبیر کا فرق سبب اختلاف
22
تفسیر عقلی بھی سبب اختلاف ہے
23
علوم وفنون نے تفسیر پر اثر ڈالا
24
معاشرتی اور ادبی رنگ تفسیر میں آگیا
25
تفسیر ماثور میں شخصیات کی چھاپ
26
تفسیر ماثور کا ضعف اور اس کے اسباب
27
وضع فی التفسیر کا آغاز اور اس کے اسباب
28
مذہبی تعصب
29
سیاسی مفادات
30
دشمنان اسلام کی دسیسہ کاری
31
تفسیر بالرائے کااختلاف
32
اعتزال کی نمائندہ تفاسیر
33
آیات قرآنیہ کی خانہ ساز تاویلیں
34
علمائے امت کا معتزلہ پر نقد
35
تفسیر قرآن پر شیعیت کا اثر
36
شیعوں کے عقائد وافکار
37
اسماعیلی باطنی ہیں
38
امامیہ اثنا عشریہ کے ابابیل
39
تفسیر قرآن میں شیعوں کا طرز
40
شیعہ فرقہ اور تحریف قرآن
41
تحریف قرآن کے چند نمونے
42
خوارج کی تفسیریں
43
قرآن کے طاہر وباطن میں افراط وتفریط
44
خوارج کے عقائد اور قرآن
45
صوفیاءکی تفاسیر
46
باطنی اور اشاری تفسیر
47
فلاسفہ کا صوفیاءپر اثر
48
وحدت والوجود کا نظریہ اور اس کا سرچشمہ
49
فقہ کی شرعی حیثیت
50
فقہ کی ضرورت
51
فقہ کی امتیازی حیثیت
52
فقہ پر اعتماد نہ کرنے کا نقصان
53
فقہی تفاسیر اور اس کا آغاز وارتقاء
54
فقہ کے تین ارتقائی مراحل
55
چند فقہی تفاسیر
56
خلاصہ کلام
57
حوالہ جات
58
کتابیات
59


                                                                                                                         





تمہید:
قرآن مجید اللہ تبارک وتعالی کی تمام کتابوں میں افضل ترین کتاب ہے جس طرح سال کے بارہ مہینوں میں سے افضل ومبارک مہینہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے اور اس کی افضلیت کی ایک اہم وجہ اس ماہ مقدس میں قرآن کریم کا نزول بھی ہے ۔اللہ تعالی نے دنیا کی طرف بھیجے گئے تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش انبیاءعلیہم الصلاة والسلام دنیا میں موجود انسانوں کے رہنمائی کے لئے مبعوث فرمائے اس کے ساتھ مقدس صحیفے اور کتابیں بھی نازل فرمائیں ہیں جن کی یقینی تعداد کسی کو معلوم نہیں ہے۔البتہ ان میں سے چار بڑی اور مشہور کتابیں ہیں ۔ان میں سے ایک تورات ہے جو حضرت موسی علیہ السلام پر عبرانی زبان میں نازل ہوئی ۔دوسری کتاب انجیل مقدس ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام پر یونانی زبان میں نازل ہوئی ۔تیسری کتاب زبور ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام پر سریانی زبان میں نازل ہوئی ۔چوتھی اور آخری کتاب قرآن مجید ہے جو خاتم الانبیاءحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عربی زبان میں نازل ہوئی ۔
ان چار بڑی کتابوں کے علاوہ کچھ صحیفے یعنی چھوٹی کتابیں بھی اللہ تبارک وتعالی نے نازل فرمائیں جن میں سے کچھ صحیفے حضرت آدم علیہ السلام پر اور کچھ حضرت شیث علیہ السلام پر اور کچھ حضرت ابراہیم وحضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہوئے چنانچہ آخری دو پیغمبروں کا ذکر قرآن مجید میں ہے ۔سورة الاعلی میں ہے ۔بے شک یہ باتیں پہلے صحیفوں ،حضرت ابراہیم علیہ السلام وحضرت موسی علیہ السلام کے صحیفوں میں مذکور ہیں۔ایک دوسرے مقام پر ارشادہے ۔اس کا ذکر پہلی امتوں کے کتابوں میں بھی ہے ۔
ان تمام صحیفوں اور کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے جو انبیائے کرام علیہ الصلاة والسلام پر نازل ہوئی ہیں اور یہ بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ یہ سب صحیفے اور کتابیں اللہ تبار ک وتعالی کا کلام ہیں۔ان میں اللہ تعالی کی حمد وثناء،امر ونہی،وعدہ وعید، جنت ودوزخ وغیرہ کی بابت جو کچھ مذکور ہے وہ سب صحیح ہے ۔لیکن آج کل جو تورات وزبور وانجیل موجود ہیں وہ اصلی حالت میں نہیں ہیں بلکہ ان میں ردو بدل کیا گیا ہے ۔
قرآن مجید جو اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے اور جو تاقیامت آخری کتاب ہی رہے گی۔ اس کے بعد نہ کوئی کتاب آئے گی اور نہ کوئی نبی آنے والا ہے۔قرآن مجید عربی زبان میں پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے ۔اس نے اپنے سے پہلے کے تمام صحیفوں اور کتابوں کو منسوخ کردیا ہے جو کچھ اس میں ہے وہ سب حق ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ باطل ہے،یہ آخری کتاب ہے اور قیامت تک ہر قسم کے ردو بدل سے محفوظ ومامون رہے گی۔
قرآن مجید سے قبل کی کتابیں اور صحیفے ایک مخصوص زمانے تک کے لئے ہوتے تھے ،اس لئے ان کی حفاظت اسی وقت تک کے لئے فرمائی گئی ۔قرآن مجید چونکہ مسلمانوں کے لئے ضابطہ حیات ہے اس لئے اللہ تبارک وتعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ذمے لی ہے۔جس کی وجہ سے قرآن مجید ہر قسم کی ظاہری ومعنوی ردو وبدل سے محفوظ ہیں اور قیامت تک محفوظ رہے گا ۔
ہردور میں قرآن مجید کے لاکھوں حفاظ اور اس کے معانی وتفاسیر جاننے والے لوگ موجود رہے ہیں اور صحیفے جن زبانوں میں نازل ہوئے وہ زبانیں ہی دنیا سے ناپید ہوگئیں،لیکن قرآن مجید کی زبان جو کہ عربی ہے ہمیشہ رائج رہے گی۔قرآن مجید ہر قسم کے نقص ،کجی اور عیب سے پاک وصاف ہے ۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص معجزہ ہے ۔تمام آسمانی کتابیں اور صحیفے بنیادی امور میں متفق ہیں ،صرف فروعی مسائل میں زمانہ کے اعتبار سے ردوبدل ہوتا رہا ہے۔ لیکن قرآن مجید کے تمام احکام ایسے جامع ہیں کہ تاقیامت ان میں کسی ردوبدل کی ضرورت نہیں ہے ۔
قرآن مجید عربی ادب کا بہترین شاہکار ہے ۔قرآن مجید کو نازل ہوئے ۴۱ صدیاں گذر چکی ہیں لیکن اس کے بیان کی تروتازگی،الفاظ ومعانی کی سدا بہاری آج تک بلکہ قیامت تک قائم رہے گی ۔
دنیائے ادب میں زمانہ قدیم سے جتنی بھی کتابیں تالیف وتصنیف کی گئیں ان کے الفاظ ومعانی ،محاورے اور اصطلاحیں بہت حد تک متروک ہوچکی ہیںاور ان میں فرسودگی پیدا ہوگئی۔ لیکن قرآن مجید صرف ایک ایسی مقدس کتاب ہے جس کا ایک ایک لفظ ایک طویل مدت سے اب تک متروک نہیں ہوا یہ قیامت تک سرسبز وشاداب رہے گا ۔
آمدم برسر مطلب ،بعض حضرات کہتے ہیں کہ قرآن فہمی اور تدبر فی القرآن اور قرآن حکیم سے احکام کے استنباط واستخراج صرف علماءکی اجارہ داری کیوں ہیں ؟ہم نے بھی تو عربی ،فارسی،ادب ،لغت ،اصول ،قانون وغیرہ کے علوم وفنون حاصل کئے ہیں ۔ہمیں بھی قرآن میں تدبر ،تفکر کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ان علماءکرام کو ،لیکن یہ بات عقل کے قریب نہیں کیونکہ ہر فن کے الگ ماہر لوگ ہوتے ہیں اگر کسی نے میڈیکل کی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن یہ اعتراض کرنے لگے کہ علاج ومعالجہ پر سند یافتہ ڈاکٹروں کا قبضہ کیوں ہیں مجھے بھی بحیثیت انسان کے حق ملنا چاہئے۔تویہ محض خام خیالی ہیں۔ ایسے ہی دیگر علوم وفنون کی مثال ہیں ۔
اس مقالہ میں دراصل یہ ثابت کرنا کہ ترجمہ قرآن کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ترجمہ کی ضرورت ہے یا نہیں ؟کیا ہر شخص کو ترجمہ قرآن کرنے کا حق حاصل ہے یا اس کے کچھ شرائط ہیں؟دیگر مسالک وفرق کے ترجمہ ومطالب کا معیار ،ترجمہ کے لئے فقہ کی ضرورت اور دیگر وغیرہ ابحاث پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ مقالہ کے آخر میں وہ حوالہ جات درج کی گئی ہیں جن سے اس مقالہ سے متعلق رہنمائی کے لئے استفادہ کیا گیا ہے اورکتابیات بھی درج کی گئی ہیں ۔
کتاب ہدایت
قرآن کریم عالم بشری کے لئے ہدایت کی کتاب اور ابدی فلاح وبہبود کا ذریعہ ہے ۔قرآن مجید اور احادیث مطہرہ میں جابجا اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کا یہ مقام اور امتیازی حیثیت واضح فرمائی ہے۔قرآن مجید کی ابتداءہی اس امر سے کی گئی ہے ۔ارشاد ربانی ہے:
ذلک الکتاب لاریب فیہ،ہدی اللمتقین) (1)
 ترجمہ: "اس کتاب میں کچھ شک نہیں ،راہ بتلاتی ہے ڈرنے والوں کو"
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالی ہے :
ہدی اللناس وبینٰت من الھدی (2)
 ترجمہ: "قرآن)  ہدایت ہے لوگوں کے واسطے اور روشن دلیلیں راہ پانے کی"
اور ارشاد ہے:
 ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی أقوم (3)
ترجمہ: "حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دکھاتاہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے"
قرآن حکیم کے ہادی ،رہنما رہبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ قرآن حکیم پڑھ کر اور اسے سمجھ کر اس میں موجود ارشادات الہی اور تعلیمات اسلام سے آگہی حاصل کریں اور ان پر عمل کرکے ابدی اور حقیقی کامیابی اور سعادت سے بہر مند ہوں گے۔اسی بات کو اللہ تبارک وتعالی نے یوں بیان فرمایا:
انا انزلناہ قرآنا عربیا لعلکم تعقلون (4)
ترجمہ: "ہم نے اس کو ایسا قرآن بنا کر اتاراہے جو عربی زبان میں ہے تاکہ تم سمجھ سکو"
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہادی ہیں اور قرآن مجید کتاب ہادی،حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوںکو قرآن مجید سنا سنا کر اور سمجھا سمجھا کر ان کو براہ راست راہ نجات پر گامزن فرمایا،اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافرض منصبی اور نبوی ذمہ داری تھی۔
ابدی کتاب جو کہ کتاب ہدایت ہے اس بات کو قرآن حکیم اور احادیث مطہرہ نے بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون  (5)
ترجمہ: "اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ قرآن حکیم اس لئے نازل کیا تا کہ تم لوگوں کے سامنے اس کی واضح تشریح کرو جو ان کے لئے اتاری گئیں ہیں،اور تاکہ وہ غور فکر سے کام لیں"
پیغمبر اسلام جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآنی تعلیمات کو ایسا معمول بنایااور اپنی زندگی اس طرح قرآنی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال دی تھی کہ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بجا طورپر چلتا پھرتا قرآن کہا جاتاتھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی اور اسلام قبول کرنے والے عام لوگ اور دیگر متلاشیان حق جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرتے تھے وہا ں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کتاب ربانی کے مطالب ومعانی بھی پوچھتے اور سیکھتے تھے ۔اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب قرآن اور شارح قرآن بھی تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرائض منصبی میں یہ بھی تھا کہ قرآن کریم پڑھ کر اللہ تعالی کے بندوں کو سنائیں انہیں پڑھنا سکھائیں اور وہ قرآن حکیم کے الفاظ مقدسہ کی برکتیں حاصل کریں اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک مقصد بعثت تھا کہ قرآن کریم کے معانی اور مفاہیم ان کو سمجھائیں تا کہ لوگوں کی قرآن کریم کے ذریعے اصلاح اور رشدوہدایت پائیں۔ان مندرجہ بالا تین مقاصد کا اس آیت میں ذکر ہے۔
ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منہم یتلو ا علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین (6)
ترجمہ: "وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو اس کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں ،جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے"
تعلیم قرآن ،تزکیہ بالقرآن اور تذکیر بالقرآن قرآن کریم کے مقاصد عالیہ میں داخل ہیں ۔
قرآن کی زبان:
اللہ تبارک وتعالی کے ابدی کتاب قرآن حکیم کے اولین مخاطب قوم عرب تھے۔صاحب کتاب ،صاحب قرآن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اہل عرب تھے اور قانون قدرت کا بھی اپنا ایک ضابطہ ہے جو وہ یوں بیان کرکے اس پر عمل کرتا ہے:
وما ارسلنا من رسول الہ بلسان قومہ لیبین لہم (7)
ترجمہ: "اور ہم نے جب بھی کوئی رسول بھیجا ،خود اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ ان کے سامنے حق کو اچھی طرح واضح کر سکے"۔
اور پھر جیسے عرب قوم کے عرب نبی ناگزیر تھے،عربی نبی کے لئے کتاب بھی عربی ہی میں قرین قیاس تھی۔جس کو اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن کی حکیم کی زبان میں یوں بیان فرمایاہے۔
وَلَوْ جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا لَّـقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰيٰتُہٗ۝۰ۭءَؔ  اَعْجَمِيٌّ وَّعَرَبِيٌّ۝۰ۭ (8)
ترجمہ: "اور اگر ہم اس (قرآن)کو عجمی قرآن بناتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں کھو ل کھول کر کیوں نہیں بیان کی گئیں ؟یہ کیا بات ہے کہ قرآن عجمی ہے اور پیغمبر عربی؟"۔
قرآن مجید کے عربی زبان ہونے کی وجہ سے عربوں کے لئے اسے سمجھنا آسان تھا۔جیسے کہ اللہ تبار وتعالی کے ارشاد:
 انا انزلناہ قرآنا عربیا لعلکم تعقلون (9)
اور
کتاب فصلت آیاتہ قرآنا عربیا لعلکم تعقلون (10)
وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے ۔
یہ الگ بات ہے صرف عربی زبان دانی فہم قرآن کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ صاحب قرآن کی تشریح اور تفسیر متعلم قرآن کی بنیادی ضرورت ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو قرآن کے معانی اور مطالب سمجھائے ہیں۔جسے اہل علم کی اصطلاح میں تفسیر کہا جاتا ہے ۔
اسلامی تعلیمات سے آگہی کے لئے جس طرح کتاب اللہ( قرآن حکیم) کے ساتھ احادیث مقدسہ صلی اللہ علیہ وسلم ضروری ہے ۔ اسی طرح متن قرآن مجید کے ساتھ تفسیر قرآن مجید بھی ضروری ہے ۔
تفسیر کی ضرورت واہمیت
تفسیر کی ضرورت واہمیت پر روشنی ڈالنے سے پہلے چند سوالات غور طلب ہے ۔تفسیر کے معنی ومفہوم ؟ اس کی ضرورت واہمیت ؟نیز تفسیر کا حق کس کو ہے؟تفسیر کونسی معتبر ہے ؟ان سوالات کے جوابات پر داکٹر نسیم عثمانی تفصیل سے روشنے دالتے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں۔
لفظ تفسیر کا مادہ ہے "فسر“(ف،س،ر)جس کا مفہوم ہے واضح کرنا یا ظاہر کرنا۔چنانچہ”فسر المعطی“کے معنی ہوئے”ڈھکے ہوئے کو کھول دینا“اس سے ”التفسیر “کے معنی ہوئے” تاویل،کشف،وضاحت،بیان،شرح"۔
اصطلاحا تفسیر سے مراد کسی تحریر کے مطالب کو سامعین کے لئے قریب الفہم کر دینا ہے،ظاہر ہے کہ اگر کوئی بات مجملا یا مختصرا بیان کی جائے،تشبہات واستعارات کو کام میں لایا جائے ،تلمیحات اور تاریخی واقعات کو استعمال کیا جائے،بیان وبلاغت کے اصولوں کو برتا جائے تو اس کا سمجھنا ہر شخص کے لئے آسان نہیں ہوگا،لہذ ا کسی بھی بات کو قابل فہم بنانے کی غرض سے اس کی مختلف انداز سے توضیح وتشریح کرنی پڑے گی۔اس کے ہر پہلو کو واضح طور پر بیان کیا جائے گا تاکہ بات میں کوئی ابہام یا الجھاؤباقی نہ رہا جائے (11)۔
مزید لکھتے ہیں:
غرض تشریح اور تفسیر کسی بات کی جائے وہ ہر شخص کے لئے مفید ہوتی ہے ۔عام انسانوں کو تواس بات کو سمجھناے کے لئے اس کی ضرورت بھی ہے ،خواص کے لئے بھی اس میں افادیت وتفہیم کا بہت کچھ عنصر ہوتا ہے ۔جب عام انسانوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات کو دوسروں کے ذہن نشین کرانے کی غرض سے اس کی توضیح وتشریح کریں تو قرآن حکیم کے معاملہ میں ،جو اللہ کا کلا م ہے اس کی کیسے ضرورت نہیں ہوگی؟دنیا کے تمام ذی فہم اور سلیم الطبع انسان اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن مجید سے زیادہ جامع کوئی کتاب نہیں ہے۔ اس کا ایجاز حقیقی معنوں میں اعجاز ہے ۔ایک ایسی مختصرکتاب میں پورا نطام زندگی کو سمودینا اور دنیوی واخروی زندگی کے تمام حقائق کو بیان کردینا اس ہستی کا کام ہوسکتا ہے جس کو ہم قادر مطلق کہتے ہیں ۔اللہ تبارک وتعالی کی اس کتاب میں کتنی طرح کے اسٹائل ہیں ۔ایک سے ایک حسین ورنگین۔اس میں سادے نثراور نثر رنگین کے بھی اعلی نمونے موجود ہیں۔مسجع مقفی عبارتیں بھی ہیں ۔ تلمیحات اور تاریخی واقعات کا بھی ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے،روزانہ زندگی کے واقعات بھی ہیں اور حیات اخروی کی کیفیات کا بھی ذکر ہے،روحانی لذتیں بھی اور سائنسی حقائق بھی ۔غرض اس میں اتنی خوبیاں ہیں کہ کوئی انسان بھی ان کا احصاءواحاطہ نہیں کرسکتا ،کسی شاعر کے اس مصرع کا صحیح مصداق یہی کتاب ہے
"دامان نگہ تنگ وگل حسین تو بسیار"
اتنی لامحدود خوبیوں سے مالامال تحریر کی توضیح وتشریح کرنا اور تفسیر بیان کرنا بھی کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
اس کے لئے غیر محدود علم کی ضرورت ہے اور وہ کسی انسان کو حاصل نہیں تاہم اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے اور سمجھانے کے لئے ضروری ہے کہ جن لوگوں کو اس کی جتنی فہم ہے اس کے مطابق وہ دوسروں کو بھی آگاہی بخشیں ،چنانچہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ کام ہورہا ہے اور جن لوگوں کو قدرت نے جتنی صلاحیت اور سمجھ دی ہے اس کے مطابق وہ عوام کو سمجھانے کے لئے اس کی وضاحت اور تشریح وتفسیر بیان کر رہے ہیں ۔
چونکہ اس کے متعدد پہلو اور ان گنت گوشے ہیں اس لئے مفسرین نے اپنے ذوق اور میلان طبع کے بموجب مختلف انداز سے تفسیر بیان کی ہیں۔کسی نے زبان وبیان کے نکات سمجھانے کی کوشش کی ہے، کسی نے تاریخی واقعات کی روشنی میں تشریح کی ہے اور کسی نے اوامر ونواہی اور مسائل شرعیہ کو بنیاد بناکر اسے سمجھایا ہے ۔(12)
عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین رحمہم اللہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر کا انہی الفاط وانداز کے ساتھ دور دورہ رہا۔
مخاطبین قرآن کے متعلق ڈاکٹر نسیم صاحب کہتے ہیں:
چونکہ قرآن کریم کے اول مخاطب عرب تھے اس لئے اس کو عربی زبان میں نازل کیا گیا اور قدرتی طور پر اس کی تفسیریں بھی سب سے پہلے عربی زبان میں کی گئیں ۔ پھر چونکہ مبہط وحی ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی اس لئے قرآن کریم کی سب سے پہلی تفسیر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی زبان مبارک سے ہوئی ۔ اس مقصد کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ بیان فرمایا وہ احادیث صحیحہ کے مجموعہ کی شکل میں آج بھی موجودہے (13)
 عہد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وعہد تابعین رحمہم اللہ میں قرآن مجید کی تفسیری خدمات پر مختصر روشنی دالنے کے بعدڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:
"تبع وتابعین کا دور تقریبا دوسری صدی ہجری کے اختتام تک ہوگیا۔ تیسری صدی کے آغاز سے ہر شعبہ زندگی میں عجمیت کا غلبہ ہونا شروع ہوا تفسیر قرآن پر بھی عجمیت کے اثرات پڑنے لگے ۔اس سلسلے میں بعض نئے فنون ایجاد ہوئے ،جیسے علم افراد وجمع ،علم اسباب نزول،علم اختاف مصاحف،علم ناسخ منسوخ وغیرہ۔اسی عہد سے اسرائیلیات اور تاریخی قصص کا بھی ذکر تفسیر میں آنے لگا ۔فتوحات کے ساتھ ساتھ عربوں کے علاوہ دوسری قومیں بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوتی چلی گئیں ،عرب تو خود اہل زبان تھے اس لئے وہ عربی زبان کی خصوصیات اور باریکیوں کو کسی نہ کسی حد تک سمجھتے تھے علاوہ ازیں وہ فطرتا بھی اختصار پسند تھے لہذا وہ قرآن کی تفسیر کو چند لفظوں بلکہ بعض اوقات اشاروں میں سمجھ لیتے تھے۔لیکن دوسری قومیں جن پر عجمی کا اطلاق ہوتا ہے ان دونوں خوبیوں سے محروم تھیں۔وہ زبان کی باریکیوں کو سمجھتی تھیں اور نہ مختصر تشریح سے مطمئن ہوتی تھیں۔لہذا ان کو سمجھانے کے لئے زیادہ وضاحت کی ضرورت تھی ۔جس کی وجہ سے مفصل تفسیریں بیان کی گئیں"(14)
ترجمہ کی ضرورت
دین اسلام کے جزیرہ عرب میں ظہور کے بعد جب اطراف واکناف اور بلاد عجم میں اس کا پیغام پہنچا اور غیر عرب اقوام میں اسلام سے آگہی کا شوق اور اس پر عمل کا داعیہ پیدا ہو تو علماءاسلام میں بھی ان تک اسلام پہنچانے کی ضرورت کا احساس جاگا۔اس کے بدیہی طور پر دو ہی راستے ممکن تھے ۔
            (1) عجمی قوم عربی زبان سیکھیں۔
(2) ان کی زبان میںقرآن وحدیث اور اسلامی تعلیمات کو منتقل کیا جائے ۔
ان دونوں میں سے اس کا سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ عربی عبارت کا ترجمہ کیا جائے ۔اگر دین اسلام الگ آفاقی دین ہے اور ساری انسانیت کی فلاح وبہبود کا ضامن ہے تو پھر یقینا قرآن وحدیث کا دوسری قوموں کی زبانوں میں ترجمہ بھی ناگزیر ہیں ۔
اس بارے میں ڈاکٹر نسیم عثمانی صاحب یوں رقم طراز ہیں ۔
"عجمیوں کو تفہیم قرآن کے سلسلہ میں اس چیز کی ضرورت بھی پیش آگئی کہ تفسیر سے پہلے ان کو ان کی اپنی زبان میں متن قرآن کا ترجمہ بھی سمجھایا جائے اس لئے کہ تمام عجمی عربی زبان نہیں جانتے تھے ۔جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا گیا ترجمہ کی ضرورت بڑھتی گئی اور اب یہ نوبت آگئی کہ ترجمہ سمجھے بغیر تفسیر کا سمجھنا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے۔اسی لئے موجودہ زمانہ میں غیر عرب قوموں میں قرآن فہمی کے لئے ترجمہ وتفسیر لازم وملزوم سے ہوگئے ہیں اور اس غرض سے ہر زبان میں قرآن کے متعدد ترجمے دکھائی دینے لگے"(15)
قرآن کریم اگر کتاب ہدایت ہے اور ہدایت سار ی انسانیت کی ضرورت ہے تو پھر جن لوگوں کی زبان عربی نہیں ہے ان کے لئے قرآن حکیم کے ترجمے کی ضرورت میں کسی کو کیا کلام ہوسکتا ہے کہ ترجمہ قرآن کی تفسیر اور تاویل ہی ہے اور تاویل وتفسیر قرآن مجید کے مقاصد میں سے ہے۔
علامہ محمد حسین الذہبی نے اپنی معرکة الآراءکتاب ”التفسیر والمفسرون“میں تفسیر اور تاویل کا معنی ومصداق واضح کرنے اور دونوں میں فرق اور نسبتیں بیان کرنے کے بعد کہا ہے ۔ ”المبحث الثانی تفسیر القرآن بغیر لغة“یعنی قرآن کریم کی تفسیر اس کی اپنی زبان (عربی)کے علاوہ دوسری زبان میں۔
اس بحث کی ذیل میں علامہ محمد حسین الذہبی نے بڑی فاضلانہ گفتگو فرمائی ہے اور ترجمہ قرآن کی حیثیت اور حکم کو خوب واضح کیا ہے ۔ان کی عبارت ملاحظہ ہو ۔
تفسیر القرآن بغیر لغة ،او الترجمة التفسیریہ للقرآن بحث نری من الواجب علینا ان نعرض لہ لما لہ من تعلق وثیق بموضوع ھذا الکتاب ،وقبل الخوض فیہ یحسن بنا ان تمھد لہ بعجالة موجزة تکشف عن معنی الترجمة واقسامہا ،ثم نتکلم عما یدخل منھا تحت التفسیر وما لایدخل منقول الترجمة تطلق فی اللغة علی معنیین ۔
الاول :نقل الکلام من لغة الی لغةأُخریٰ،بدون بیان لمعنی الاصل الترجم،وذلک کوضع ردیف مکان ردیف من لغة واحدة الثانی :تفسیر الکلام وبیان معناہ بلغة اخری ،
قال فی تاج العروس :والترجمان المفسر للسنا ،وقد ترجمہ وترجم عنہ اذا فسر کلامہ بلسان آخر۔
قال الجوہری”وقیل :نقلہ من لغة الی لغة اخری (16)
دوسری زبان (غیر عربی) میں قرآن کی تفسیر ،یا (بالفاظ دیگر) قرآن حکیم کو تفسیری ترجمہ ....یہ ایک ایسی بحث ہے جس کی طرف توجہ کو ہم خود پو واجب سمجھتے ہیں۔کیوں کہ اس کا اس کتاب سے مضبوط تعلق ہے ۔اور اس میں پڑنے سے قبل تمہید کے طور ہم ایک مختصر سا تذکرہ چاہتے ہیں جو ترجمہ کا معنی اور اس کی قسمیں واضح کرے۔پھر ہم یہ گفتگو کریں گے کہ ترجمہ کی کونسی قسم تفسیر میں داخل ہے اور کونسی خارج۔
چانچہ ہم کہتے ہیں ترجمہ کی دو قسمیں ہیں۔
(1) کلام کوایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا۔اصل (جن کا ترجمہ ہواہے) کے معنی کے بیان کے بغیر یہ ایک زبان کے ایک مترادف کی جگہ دوسرا مترادف لانے کی طرح ہے ۔
(2) کلام کی دوسری زبان میں تفسیر اور اس کے معنی کا بیان۔
علامہ تاج العروس کہتے ہیں :ترجمان کہا جاتا ہے ایک زبان کی تفسیر کرنے والے کو،کہا جاتا ہے "ترجمہ"اور "ترجم عنہ“یعنی اس نے اپنے کلام کی دوسری زبان میں تشریح کی ۔
امام جوہری کہتے ہیں :ترجمہ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کو کہتے ہیں۔
پھر ترجمہ کی دو قسمیں ہیں :
(1) تحت اللفظ ترجمہ ۔
(2) ترجمہ بالمعنی یا مرادی ترجمہ۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ ان دونوں قسموں کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
وعلی ھذاہ بالترجمة تنقسم الی قسمین: ترجمہ حرفیہ ،وترجمہ معنویہ او تفسیریہ ۔
اما لترجمة الحرفیة:فھی نقل الکلام من لغة الی لغة اخری مع مراعاة المواقعة فی النظم والترتیب،والمحافظة علی جمیع معانی الا صل المترجم۔
واماترجمة التفسیریہ :فھی شرح الکلام وبیان معناہ بلغة اخری بدون مراعاة لنظم الاصل وترتیبہ وبدون المحافظة علی جمیع معانیہ المرداة منہ (17)
اس بناءپر ترجمہ کی دو قسمیں ہوئیں
(1) حرفی ترجمہ اور
  (2) معنوی ترجمہ یا تفسیری ترجمہ ۔
حرفی (یالفظی) کہا جاتاہے کلام کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کو ،اس طرح کہ نظم اور ترتیب میں دونوں (اصل اور ترجمہ)میں موافقت ہو اور اصل مترجم کا اس میںتمام معانی کی پابندی ہو۔
جب کہ تفسیری ترجمہ کہا جاتا ہے کلام کی تشریح اور دوسری زبان میں اس کے معنی بیان کرنے کو اصل مترجم کے نظم اور ترتیب کی رعایت اور تمام مطلوب معانی کی پابندی سے قطع نظر۔
قرآن کریم کا لفظی ترجمہ یا مرادی ترجمہ اور با محاورہ ترجمہ ،کیاقرآن کہلائے گا یا نہیں؟اس حوالے سے بھی اہل علم میں بحث وتمحیص رہی ہے ۔علامہ حسین الذھبی نے اپنی محولہ بالا کتاب میں اس سلسلے میں جو کچھ فرمایا وہ نذر قارئین ہیں ۔فرماتے ہیں:
الترجمة الحرفیہ للقرآن: اما ان تکون ترجمة بالمثل اما ان تکون ترجمة بغیر المثل ،اما الترجمة الحرفیة بالمثل فمعناھا ان یترجم نظم القرآن بلغہ اخری تحاکیہ حذوا بحذو بحیث تحل مفردات الترجمة محل مفرادتہ،اسلوبھا محل اسلوبہ حتی تتحمل الترجمة ما تحملہ نظم الاصل من المعانی التقیدة بکیفیاتھا البلاغیة واحکاماہ التشریعیہ وھذا امر گیر ممکن بالنسبة لکتاب اللہ العزیز (18)
قرآن کریم کا حرفی (یا لفظی )ترجمہ یا تو ترجمہ بالمثل ہوتا ہے یا ترجمہ بغیر المثل ہوتا ہے ۔ترجمہ فیہ بالمثل یہ ہے کہ نظم (لفظ ) قرآن کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے جو اس کی قدم بقدم (برابر سرابر)حکایت اور نقل کرے اس طرح کہ اصل کے مفردات کی جگہ ترجمہ کے مفردات آجائیں اور اصل کے اسلوب کی جگہ ترجمہ کا اسلوب ،یہاں تک کہ ترجمہ میں بھی وہ تمام معانی اپنی کیفیات بلاغیہ اور احکام شرعیہ کے ساتھ ایسے سموئے ہوتے ہوں جیسے اصل میں تھے اور کتاب اللہ کے سلسلے میں یہ امر ناممکن ہے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی کتاب کا مثل اور نظیر لانا کسی بندے کے لئے کیسے ممکن ہے جب کہ اللہ تعالی خود صریح الفاظ میں اعلان فرمایا ہے:
لا یاتون بمثلہ ولوکان بعضہم لبعضہم ظہیرا (19)
"اس کا مثل نہیں لا سکیں گے اگر چہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں"
ترجمہ حرفیہ بغیر المثل کے متعلق علامہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واما الترجمة الحرفیہ بغیر المثل ۔فمعناہا ان یترجم نظم القرآن حذوا بحذوبقدر طاقة المترجم وما تسعہ لغة ،وھذا امر ممکن ،وھو وان جاز فی کلام البشر لا یجوز بالنسبة لکتاب اللہ العزیز لان فیہ من فاعلہ اھدارا لنظم القرآن واخلالا بمعناہ وانتہاءکالحرمتہ فضلا عن کونہ فعلا لا تدعو الیہ ضرورة (20)
"اور ترجمہ حرفیہ بغیر المثل کا معنی یہ ہے کہ نظم (لفظ ) قرآن کا جوں کے توں ترجمہ کیا جائے جس قدر مترجم کے بس میں ہو اور جتنی اس کی زبان میں گنجائش ہو یہ امر ممکن ہے اور یہ ان دونوں کے کلام میں ممکن بھی ہے مگر اللہ تعالی کے کلام کے نسبت سے جائز نہیں ہے ۔اس لئے کہ اس طرح کرنے والا گویا نظم قرآن کو مہمل اور بیکار بنا رہا ہے اور اس کے معنی میں خلل اور نقصان کا ارتکاب کر رہا ہے اور اس کی بے حرمتی کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں یہ ایک غیر ضروری فعل ہے"۔
کیا لفظی ترجمہ قرآن کہلائے گا ؟
الفاظ قرآن کا لفظی ترجمہ کس زمرے میں شمار کیا جائے گا ؟کیا یہ قران کہلائے گا یا کچھ اور ۔ اس کا حکم کیا ہوگا ؟اس بارے میں علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے حرفی لفظی ترجمہ قرآن کی دو قسمیں بیان کیں ۔ترجمہ بالمثل اور ترجمہ بغیر بالمثل ۔اور فرمایا پہلا ناممکن ہے جب کہ دوسرا ناجائز ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر قسم اول ممکن اور قسم ثانی جائز ہوجائے تو کیا یہ قرآن بھی کہلائے گا یا نہیں ؟با الفاظ دیگر یہ تفسیر قرآن کہلائے گا یا نہیں؟۔
 مصنف (التفسیر والمفسرون )پہلی قسم کے متعلق کہتے ہیں:
وعلی فرض امکانھا فھی لیست من قبیل تفسیر القرآن بغیر لغة لانھا عبارة عن ھیکل القرآن بذاتہ الا ان الصورة اختلف باختلاف اللغتین :المترجم منھا اولمترجم الیہا ،وعلی ھذا فابناءاللغة المترجم الیہا یحتاجون الی تفسیرہ وبیان ما فیہ من اسرار واحکام کما یحتاج العربی الذی نزل بلغة الی تفسیرہ والکشف عن اسرارہ واحکامہ ،ضرورة ان ھذہ الترجمة لا شرح فیہا ولا بیان وانما فیہا ابدال لفظ بلفظ آخر نقوم مقامہ ونقل معنی الاصل کما ھو من لغة الی لغة اخری (21)
"ترجمہ بالمثل اگر بالفرض ممکن ہوجائے تو وہ دوسری زبان میں تفسیر قرآن نہیں کہلائے گا اس لئے کہ اس میں اصل قرآن کا ڈھانچہ اور جوہر تو وہی سابقہ موجود ہے تبدیلی صرف صورت ظاہرہ میں آئی ہے ۔یعنی زبانیں مختلف ہوگئیں اسی لئے اس ترجمے والی زبان بولنے والوں کو اب بھی قرآن کی تفسیر کی ضرورت ہے۔(ان کی ضرورت پوری نہیں ہوئی )وہ قرآن کے اسرار واحکام کے بیان کے اس ترجمہ کے ہوتے ہوئے بھی محتاج ہیں جیسے عربی زبان والے قرآن کے ظاہری الفاظ اور ان کے معانی کے واقف ہونے کے باوجود اس کے احکام واسرار جاننے کے لئے تفسیر کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔اس لئے کہ اس ترجمے میں کوئی بیان اور تشریح تو ہے نہیں ۔صرف ایک لفظ کی جگہ لے لی اور اصل جیسے تھا اس طرح (بغیر شرح وبیان کے )دوسری زبان میں اسے منتقل کیا گیا" 
 دوسری قسم ”ترجمہ بغیر المثل “کے متعلق امام ذہبی ؒ لکھتے ہیں:
وعلی فرض جوازہا فھی لیست من قبیل تفسیر القرآن بغیر لغة لانھا عبارة عن ھیکل القرآن منقوص غیر تام،وھذہ الترجمة لم یترتب علیہا سوی ابدال لفظ بلفظ آخر یقوم مقامہ فی تاویة بعض معناہ ،ولیس فی ذلک شئی من الکشف والبیان لا شرح مدلول ،ولا بیان مجمل ولا تقیید مطلق ولا استنباط احکام ولا توجیہ معان ولا غیر ذلک (22)
"اگر ترجمہ بغیر المثل“ کو جائز قرار دیا جائے تو وہ بھی دوسری زبان میں تفسیر قرآن نہیں کہلاے گا۔اس لئے کہ اس میں اصل کا جوہر اورڈھانچہ باقی ہے ہاں وہ نقصان زدہ ہے تام نہیں ہے۔اور اس ترجمہ میں بھی ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ لانے کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں آئی بس دوسری زبان کا لفظ پہلی زبان کے لفظ کی جگہ آگیا اور اس کا تھوڑا بہت معنی ادا کیا ۔ اور اس میں کوئی وضاحت اور بیان نہیں ہوتا نہ تشریح ،نہ مجمل کا بیان،نہ مطلق کی تقیید ،نہ احکام کا استنباط ،نہ معانی کی توجیہ اور نہ کچھ اور ۔(تو پھر اسے توضیح و تفسیر کیسے کہا جائے؟)"۔
قابل قبول ترجمہ قرآن حکیم  
قرآن حکیم کا ترجمہ حرفیہ(یا لفظیہ)کی دونوں قسمیں جب مقاصد ومطالب قرآن حکیم کی وضاحت سے عاجز اور قاصر ہے اور اس حوالے سے بحث ناکافی ہیں۔تو پھر صحیح اور درست طریقہ اور قابل قبول طرز عمل کیا ہے ؟تاکہ اس کے ذریعے تشفی بھی ہوسکیں اور مطلوب مقصد بھی واضح ہوسکیں ۔تو اس سے متعلق امام ذہبیؒ ”الترجمة التفسیریہ للقرآن“ کے عنوان کے تحت کہتے ہیں:
الترجمة التفسیریہ او المعنویہ ،تقدم لنا انھا عبارة عن شرح الکلام وبیان معناہ بلغہ اخری ،بدون محافظة علی نظم الاصل وترتیبہ وبدون المحافظہ علی جمیع معانیہ المرادہ منہ،وذلک بانھم نفھم المعنی الذی یراد من الاصل ثمنأتی لہ بترکیب من اللغة المترجم الیہایؤدیہ علی وفق الغرض الذی سیق لہ،وعلم مما تقدم مقدار الفرق بین الترجمة الحرفیہ والترجمة التفسیریہ ولا یضاح ھذا لفرق نقول.... (23))
"تفسیری اور معنوی ترجمہ کے متعلق سابق میں بتایا گیا کہ وہ دوسری زبان میں کلام کی تشریح اور اس کے معانی کے بیان سے عبارت ہے اصل کے نظم وترتیب اور عام مراد معانی کی پابندی کے بغیر ۔اس کی صورت یہ ہوگی کہ ہم اس معنی کو سمجھیں جو اصل (عبارت)سے مراد ہے پھر ایک ایسی ترکیب (عبارت)دوسری زبان(جس میں ترجمہ مطلوب ہے)سے لائیں،اور وہ عبارت اس معنی اور غرض کو ادا کردے جو اصل سے متصور ہے اور جس کے لئے اصل عبارت لائی گئی ہے۔سابقہ تفصیل ہی سے ترجمہ حرفیہ اور ترجمہ تفسیریہ کے درمیان فرق کی مقدار بھی معلوم اورواضح ہو چکی ہے۔ان دونوں میں فرق کے لئے ہم کہیں گے"....
صاحب کتاب نے اس کے بعد حرفی اور تفسیری ترجمہ میں فرق کو مثال سے واضح کیا ہے۔اور اس سے اول الذکر ناکافی اور ثانی کے قابل قبول ہونے کا بھی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
فرماتے ہیں:
قرآن کریم کی ایک آیت ہے:
ولا تجعل یدک مغلولة الی عنقک ولا تبسطہا کل البسط (24)
"اور نہ باندھو اپنے ہاتھ کو اپنے گردن سے( خرچ کے بارے میں )اور نہ ہی اس کو مکمل طور پرکشادہ کرو"
اگر کوئی اس کا لفظی ترجمہ چاہتا ہے تو وہ ہر لفظ کی جگہ دوسری زبان کا اس کا مترادف لفظ لائے گا ۔جس کے بعد اس کا معنی یہ ہوجائے گا کہ ”بندے کو اللہ تعالی نے گردن کے ساتھ ہاتھ باندھنے اور ہاتھ دراز کرنے سے منع کیا ہے ۔اور کسی غیرعربی زبان میں جب یہ بات کہی جائے گی تو اس سے قرآن کا مقصودی معنی ادا نہیں ہوگابلکہ دوسری زبان والے بعض دفعہ اس طرح کی ترکیب کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے گا اور دل میں کہے گا کہ جب کوئی عقل مند آدمی گلے میں ہاتھ لٹکانے کی حرکت کر ہی نہیں سکتا تواس سے منع کرنے کا کیا مطلب ؟بلکہ اس طرح کو عمل تو مضحکہ خیز اور مسخرہ پن ہوتا ہے۔دوسری زبان والے کو قرآن کے ان الفاظ میں چھپی ہوئی تشبیہ اور اس سے مقصود وہ معنی بلیغ معنی سمجھ ہی نہیں آئے گا جو قرآن مجیدکا مقصود ہے ۔
ہاں اگر اس کا تفسیری معنی کیا جائے گا اور معنوی اور اصطلاحی ترجمہ ہوگا تو اس میں مترجم تبذیر (بے جا خرچ )اورتقتیر (ضروری خرچ میں)بخل اور کنجوسی سے منع کرنے کا ذکر کرے گا اور مقصود بھی ہے کہ فضول خرچی اور کنجوسی کی ایسی تصویر کشی کی جائے کہ اس سے ان کی شناعت اور قباحت واضح ہوجائے۔
اس کے بعد موصوف کہتے ہیں:
ومن ھذا یتبین ان الغرض الذی ارادہ اللہ من ھذہ الایة یکون مفہوما بکل سہولة ووجوح فی الترجمة التفسیریة دون الترجمة الحرفیہ (25)
"اس سے واضح ہوتا ہے کہ آیت کریمہ سے اللہ تعالی کو جو کچھ مقصود ہے وہ تفسیری ترجمہ سے پوری سہولت اور وضاحت کے ساتھ سمجھ آتا ہے ،نہ کہ لفظی ترجمہ سے"
تفسیری ترجمہ قرآن بالاجماع جائز ہے
قرآ ن حکیم کے ترجمہ کی بحث جاری ہے ۔تفسیری ترجمہ قرآن حکیم کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ۔بلکہ باالاجماع تفسیری ترجمہ قرآن جائز ہے ۔تفسیری ترجمہ قرآن کے باالاجماع جواز کے متعلق امام ذہبی رحمہ اللہ نے معنوی اور تفسیری ترجمہ کی مشروعیت وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے۔
چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اذا علم ھذا ،اصبح من السھل علینا وعلی کل انسان ان یقول بجواز ترجمة القرآن ترجمة تفسیریة بدون ان یتردد ادنی تردد،فان ترجمة القرآن ترجمة تفسیریة لیست سوی تفسیرا للقرآن الکریم بلغة غیر لغة التی نزل بھا۔
وحیث اتفقت کلمة المسلمین وانعقد اجماعہم علی جواز تفسیر القرآن لمن کان من اہل التفسیر بما یدخل تحت طاقة البشریة بدون احاطة بجمیع مراد اللہ ۔فانا لا نشک فی ان الترجمة التفسیریة محاذیة لبارة التفسیر لا لعبارة الا صل القرآنی (26)
جب یہ بات معلوم ہوگی تو اب ہمارے لئے اور ہرا نسان کے لئے قرآن کے تفسیری ترجمہ کو بغیر کسی تردد کے جائز کہنا نہایت آسان ہوا ۔
اس لئے کہ قرآن کا تفسیری ترجمہ دوسری زبان میں قرآن ہی ہے۔حرف زبان نزول(عربی)بدل گئی ہے ۔اور جب سارے مسلمان اس بات پر متفق ہوگئے اور ان کا اجماع منعقد ہوا کہ تفسیر قرآن کی اہلیت رکھنے والا جب اللہ تعالی کی ہر مراد کی پابندی کے بغیر قرآن کی تفسیر کرے گا تو یہ جائز ہوگا ۔تو اب اس میں بھی کوئی شک نہیں رہا کہ قرآن کا تفسیری ترجمہ بھی اس اجماع اور اتفاق میں داخل ہے۔
اس لئے کہ ترجمہ تفسیریہ کی عبارت تفسیر کی عبارت کے مقابلہ میں ہے نہ کہ اصل قرآنی کی عبارت کے مقابلہ میں (اور ظاہر ہے اصل قرآنی کی ترجمانی اور عکاس انسانی کلام ناممکن ہے مگر تفسیر کی عکاس تو درست اور ممکن ہے)
ترجمہ قرآن کے شرائط
مندرجہ بالا سطور میں ترجمہ قرآن حکیم کے جواز کا جو ذکر آیا۔اس کے الفاظ ،انداز اور دلائل واسباب جواز سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ترجمہ قرآن کا یہ جواز یا اجازت اور اس کی گنجائش مطلق نہیں ہے کہ ہر کس وناکس قرآن کا ترجمہ اور تفسیر کرتا پھرے، بلکہ یہ ایک محدود اور احتیاطی تدابیر اور کڑے شرائط کے ساتھ مشروط ہے ۔ان شرائط وآداب کے بغیر ترجمہ قرآن کا عمل نامناسب بلکہ ناروا ہے۔
التفسیر والمفسرون کے مصنف نے اس کی ترجہ قرآن کی چار شرطیں ذکر کی ہیں۔ ترجمہ کی ضرورت واہمیت اور اس کی حساسیت اور نزاکت پر روشنی ڈالتے ہوئے موصوف رقم طراز ہیں:
تفسیر القرآن الکریم من العلوم التی فرض اللہ علی الامة تعلمھا ،ولترجمة التفسیریة تفسیر للقرآن بغیر لغة ،فکانت ایضا من الامور التی فرضت علی الامة بل ھی آکد لما بترتب علیہا من لامصالح الھمة ،کتبلیغ معانی القرآن واصال ہدایتہ الی المسلمین ،وغیر المسلمین ممن لایتکلمون بالعربیة ولا یفہمون لغة العرب ،وایضا حمایة العقیدہ الاسلامیہ من کید الملحدین ،والدفاع عن القرآن بالکشف عن اصالیل المبشرین الذین عمدوا الی ترجمة القرآن ترجمة حشوھا بعقائد زائقة وتعالہیم فاسدة ،لیظہروا القرآن لمن لم یعرف لغة فی صورة تنفر منہ وتصد عنہ ،وکثیرا ما علت الاصوات بالشکوی من ھذہ التراجم الفاسدة لھذا نری ان نذکر الشروط التی یجب ان تتوفر وترعی،لتکون الترجمة التفسیریہ ترجمة صحیحة مقبولہ اوالیک ھذہ الشروط۔
اولا....ان نتکون الترجمة علی شریطة التفسیر لا یعول علیہا الا اذا کانت مستمدة من الاحادیث النبویہ،وعلوم اللغة العربیہ،والصول القررہ فی الشریعة الاسلامیہ فلا بد للمترجم من اعتمادہ فی استحضار معنی القرآن ،او اعتمد علی تفسیر لیس مستمدا من تلک الاصول،فلا تجوز ترجمتہ ولایعتد بھا کما لا یعتد بالتفسیر اذا لم یکن مستمدا من تلک المناہل،معتمدا علی ھذہ الاصول۔
ثانیا....ان یکون المترجم بعیدا عن المیل الی عقیدة ذائفة تخالف ما جاءبہ القرآن وھذا شرط المفسر ایضا،فانی لو مال واحد منھما ابی عقیدة فاسدة تسلطت علی تفکیرہ فاذا بالمفسر قد فسر طبقا لھواہ،واذا لمترجم وقد ترجم وفقا لمولہ وکلاھما یبعد بذلک عن القرآن وھذہ۔
ثالثا....ان یکون المترجم عالما بالغتین :المترجم منھا والمترجم الیہا،خبیر باسرارھما،یعلم جھة الوضع والاسلوب والدلالة لکل منھما۔
رابعا....ان یکتب القرآن اولا،ثم یؤتی بعدہ بتفسیرہ ثم یتبع ھذا بترجمة التفسیریة حتی لا یتوھم متوہم أن  ھذہ الترجمة ترجمة حرفیة للقرآن۔
ھذہ ھی الشروط التی یجب مراعتہا لمن یرید أن  یفسر القرآن بغیر لغة،تفسیرا یسلم من کل نقد یوجہ وعیب یلتمس (27)
قرآن کریم کی تفسیر ان علوم میں سے ہے جن کو سیکھنا امت پر فرض ہے اور ترجمہ تفسیر یہ بھی غیر عربی زبان میں قرآن کریم کی تفسیر ہی ہے۔چنانچہ یہ بھی امت پر فرض اور واجب امور میں سے ہے ۔بلکہ اس سے بھی زیادہ موکد ہے کیوں کہ اس پر اہم ترین مسالح مرتب ہوتے ہیں ۔مثلا قرآن کے معانی کی تبلیغ اور مسلمانوں کو قرآن کی ہدایت پہنچانااور ان غیر مسلموں کو پہنچاناجو عربی زبان میں بات نہیں کرتے اور جو عربی زبان نہیں سمجھتے۔اسی طرح ملحدین کے مکر اور منصوبوں سے اسلامی عقائد کی حفاظت کا معاملہ اور ان (عیسائی)مشنری عناصر کی گمراہیوں اور گمراہ کن کاروائیوں سے پردہ اٹھا کر قرآن کے کارنامے کا معاملہ ،جن (عیسائیوں )نے قرآن کا ترجمہ اس نیت سے کیا کہ اس میں کھوٹ عقائد اور ناکارہ تعلیمات پھیلائیں اور یوں قرآن کی زبان نہ جاننے والوں کے سامنے ایسی صورت میں پیش کرے جو اس سے نفرت دلانے اور دور رکھنے کے کام آئے،ایسے نا سر ترجموں کی بڑی شکایات ہیں اس لئے ہم نے ان شروط کو ذکر کرنا ضروری سمجھا جن کا پایاجانا اور ان کی رعایت ترجمہ قرآن کی سلسلہ میں ضروری ہے۔
تاکہ ترجمہ تفسیر یہ صحیح اورقابل قبول ترجمہ بن جائے،وہ شروط یہ ہیں:
پہلی شرط:یہ ہے کہ کہ وہ ترجمہ تفسیر کی شر ط کے مطابق ہو،چنانچہ اس پر اس وقت اعتماد کیا جائے جب وہ احادیث نبویہ سے مستفاد اور ماخوذ ہو اور علوم لغت عربیہ اور اصول شریعت اسلامیہ کے مطابق ہو ۔چنانچہ مترجم کے لئے ضروری ہے کہ اصل کے معنی کے استحضار کے لئے اس اصول سے مطابقت رکھنے والی عربی تفسیر پر بھروسہ کرے ۔اگر وہ اپنی رائے کے بنیاد پر کوئی معنی سوچے یا اصول بالا سے ہٹی ہوئی کسی تفسیر پر اعتماد کرے۔تو پھر تو وہ ترجمہ ناجائز اور ناقابل اعتبار ہے جیسے کہ اس سرچشموں کے فیض اور اصول بالا پر مبنی ہونے سے محروم تفسیر کا بھی اعتبار نہیں ہے۔
دوسری شرط:یہ ہے کہ مترجم قرآن کے مخالف کسی بے بنیاد عقیدے کی طرف میلان سے دور ہو۔اور (مترجم کی طرح)یہ مفسر کے لئے بھی شرط ہے ۔اس لئے کہ ان دونوں میں سے جو بھی کسی غلط عقیدے کی طرف مائل ہوا تو وہ عقیدہ اس کی فکر وسوچ پر مسلط ہوجائے گا۔پھر کوئی شخص مفسر ہوگااور وہ اپنی خواہش کے مطابق تفسیر کرے گا اور کوئی دوسراآدمی مترجم کہلائے گا مگر وہ اپنے خیالات کے مطابق ترجمہ کرے گا اور وہ دونوں اس طریقے سے قرآن اور اس کی ہدایت سے دور ہوں گے۔
تیسری شرط :یہ ہے کہ مترجم دونوں زبانوں میں جس کا ترجمہ ہواہے اور جس میں ترجمہ ہوا ہو ،میں ماہر ہو اور دونوں کے رمزسے آشنا ہو ،دونوں زبانوں کی طرف وضع اسالیب اور دلالت کی طرف سے واقف ہو ۔
چوتھی شرط: یہ ہے کہ پہلے قرآن کریم لکھے پھر اس کی تفسیر لائے پھر یہ تفسیری ترجمہ اس عبارت قرآن کے پیچھے لگایا جائے تاکہ کوئی وہم والااسے قرآن کا لفظی ترجمہ نہ خیال کرے ۔
یہ وہ شروط ہیں جن کی رعایت رکھنا قرآن کریم کے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے والے کے لئے ضروری ہے۔اگر وہ تنقید اور عیب سے پاک ترجمہ کرنا چاہتاہے“۔
ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم شرف الدین بھی اپنی کتاب ”قرآن حکیم کے اردو تراجم “میں تقریبا یہی کچھ فرماتی ہیں ۔"کیا قرآن کا ترجمہ ممکن ہے"کے عنوان کے تحت وہ کہتی ہیں۔
"ہر زبان کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے،ایک خاص رنگ ہوتا ہے ،اس کے اپنے محاورے اور کہاوتیں ہوتی ہیں،مخصوص اصطلاحیں ہوتی ہیں ۔لہذا ایک زبان کو دوسری زبان کا روپ دیتے وقت کئی مشکلات پیش آتی ہیں۔جو لفظ ایک زبان میں ہوتا ہے اس کا ٹھیٹ ترجمہ دوسری زبان میں بہت مشکل ہوتا ہے ۔
اس کے مترادف اگر کوئی لفظ مل جائے تو عموما اس کے رنگ کے درجوں میں فرق ہوجاتاہے جیسے کہ سرخ تو سرخ ہی ہے لیکن اس کے کتنے درجے ہوتے ہیں ذراسی آمیزش اس میں کتنے مدہم اور گہرے اثرات پیدا کرتی ہے اسی طرح ہر لفظ اپنے اندر جذبات اور خیالات کے مخصوص درجوں کا حامل ہوتا ہے اور اس کی بالکل صحیح عکاس دوسری زبان میں اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہے ۔بسا اوقات تو ایک لفظ کا زبان ٹھیٹ اسی معنی میں دوسری زبان میں ہوتا ہی نہیں اس صورت میں اس کا قریب تر معنی ولا لفظ لینا ہوتا ہے یا پھر لفظ کا معنی شرح کرنے پڑتے ہیں۔محاوروں اورکہاوتوں کے ساتھ بھی یہی مشکلات ہوتی ہیں۔یہ توسب انسانی تحریر کے بارے میں ہے چہ جائیکہ کلام اللہ" ۔(28)
لہذا قرآن کریم کا ٹھیٹ ترجمہ تو کوئی انسان کر ہی نہیں سکتا ۔علامہ امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ (متوفی ۷۷۲ہجری مطابق ۰۹۸عیسوی) عربوں کے مختلف اسالیب بیان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"قرآن کریم کا نزول ان تمام اسالیب کلام کے مطابق ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کوئی ترجمہ کرنے والا قرآن کریم کا ترجمہ کسی زبان میں کما حقہ نہیں کر سکتا"۔
عربی زبان اور اصول تفسیر ،علوم قرآن وحدیث وفقہ جاننے والے غیر عربی علماءنے جو اپنی زبان میں بھی پوری دسترس رکھتے تھے۔قرآن کریم کے تراجم کی کوششیں کی ہیںاور اب تک کئی زبانوں میں متعدد تراجم چھپ بھی چکے ہیں ۔ہم انہیں کوشش اس لئے کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا بالکل مترادف ترجمہ کرنا غیر ممکن ہے۔ایک بات خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ اب تک قرآن کے تقریبا جتنے بھی ترجمے ہوئے وہ تمام غیر عربی علماءکی محنت اور عقیدت کا نتیجہ ہیں اب تک کسی عربی عالم نے سنجیدگی سے قرآن کا ترجمہ کسی بھی زبان میں کرنے کی کوشش نہیں کی۔
غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو یہ احساس ہی نہ ہوتا ہو کہ غیر عربی دان کے لئے قرآن سمجھنا کتنا مشکل ہے یا پھر اس احساس کے ہونے کے باوجود اس لئے نہ کہا ہو کہ خود ان کو اس کی ضرورت نہیں۔
اس کے برعکس غیر مسلم عربوں نے بائبل سمجھنے کی ضرورت محسوس کی،لہذا ان غیر مسلم عالموں نے بائبل کے تراجم عربی میں خوب کئے ہیں۔ناچیز نے خود بیروت کے کنیساؤں میں غیر مسلم عربوں کو بائبل کا عربی ترجمہ بڑی روانی سے پڑھتے سنا ہے۔
بقول مولانا محمد الخضر حسین:
"قرآن کے ترجمے کو "ترجمے" کے بجائے "تفسیر" کہنا زیادہ مناسب ہے"
دراصل قرآن کے ترجمے میں ٹھیٹ ترجمے سے قاصرہے وہ خود ہی اپنا مدعی ظاہر کرنا ہے ۔وہ یوں کہ قرآن میں بے شمار الفاظ ایسے ہیں جن کا ترجمہ ایک سے زیادہ ممکن ہے اور ہر مطلب صحیح چسپاں ہوتا ہے ۔
اس لئے عربی تفسیر میں بڑے بڑے مفسرین نے اختلاف رائے ذکر کیا ہے قرآن کااس قدر اعجاز ہے ،اس کا اسلوب اس قدر بلیغ ہے اور معانی اس قدر جامع ہیں کہ اس کی تشریح کئی زاویوں سے کی جاسکتی ہے لہذا مترجم کی شخصیت کو ترجمے میں بڑا دخل ہوتا ہے۔
قرآن کے تراجم اور غیر عربی تفاسیر کی صحت اور عمدگی کا معیار مترجم کی علمیت کے سواءاس کی اپنی نیت اور قابلیت پر بھی منحصر ہے ۔جس طرح بشری تقریر اور تحریر میں مقرر اور محرر کی شخصیت اور عقیدے کی عکاسی ہوتی ہے بالکل اسی طرح قرآن کے ترجمے میں مترجم کے عقیدے اور خیالات کو دخل ہوتا ہے ۔
قرآن کے ترجمے کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے مولانا عبد الماجد دریا آبادی اپنے انگریزی ترجمے قرآن کے مقدمے کی ابتداءان جملوں سے کرتے ہیں:
"Of all great Works the Holy Quran is perhaps the least translatable"             
ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے اس طویل اقتباس میں ترجمہ قرآن کے حوالے سے کئی عقد کھول دئیے ہیں اور اس کی مختلف پہلوؤں  پر کافی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ کہ قرآن کا ایسا لفظی ترجمہ ممکن نہیں ہے جو عربی قرآن ہر لفظ کے عجمی زبان میں بالکل درست اور مکمل عکاسی کرے ۔مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ کہ غیر عربوں کے لئے قرآن کا پیغام اور اس کے مطالب ومعانی اس کی مادری اور قومی زبانوں میں کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔
یقینا شدید ضرورت ہے اور غیر مسلم جب منسوخ ادیان اور محرف کتب کی اشاعت اور خدمت کے سلسلے میں عربی اور غیر عربی کے فرق کے بغیر بہت کچھ کر رہے ہیں تو اہل اسلام اور اہل قرآن کو بھی اشاعت حق اور تبلیغ دین ربانی کے لئے اس کا اہتمام کرنا چاہئے اور اہل علم نے ہر زمانے میں اس کے کار خیرمیں حصہ بھی لیا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ معاملہ حساس اور اہم ہے اس لئے اس میں لاکھ احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔
قدیم اور جدید اہل علم نے ترجمہ قرآن کے ان دونوں پہلوؤں پر احتیاط اور ضرورت کو ملحوظ رکھا ہے اور ترجمہ کے جواز اور عدم جواز اور بصورت جواز اس کی حدود وقیود پر گفتگو کی ہے۔
ہندوستان میں پہلا فارسی ترجمہ قرآن اور حضرت بنوری کا اس پر تبصرہ
علامہ سید محمدیوسف بنوری نور اللہ مرقدہ نے ان آراءاور اقوال کا جائزہ لینے کے بعد جو قول فیصل ذکر کیا ہے وہ نہایت اہم قابل توجہ اور مفید مطلب ہے ۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ نے جو قول فیصل ذکر کیا ہے وہ کچھ یوں ہیں ۔حضرت بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثم اول من ترجم کتاب اللہ الکریم بالفارسیة فی الہندوس للامة الحاضرة سنة مسلوکة فی العالم ھو الحجة العارف المحقق الشاہ ولی اللہ الدھلوی (المتوفی 1176ھ)صاحب حجة اللہ البالغةوالبدور البازغة والخیر الکثیر والتفہیما الہیة وازالة الخفاءعن خلافة الخلفاءوالمسوی والمصفی شرحی الموطا وغیرھا من اسفارجلیلة وابداع فی الترجمة وراعی فیھا دقائق واسرار لطیفة لا یکادیفہمہا کل احد مالم یکن لہذہ الحلبة مجلیا وکتب علیہ فوائد لطیفة مختصرة وجردہا عن الاسرائیلیات سماھ فتح الرحمان وکانہ وضع بذلک اساسا للتوحید للامة المسلمة ورحمہ اللہ تعالی فانہ قد اغنانا نحن نخوض فی بحث عدم جوا زالترجمة باللغة غیر العربیة کما دار البحث الیوم فی علماءمصر وظاہر،انا لاندعی للقرآن فصاحتہ المعجزة لنظمہ او معناہ علحدة حتی یتوہم انحطاط ترجمتہ عن اعجاز ہ ویصرح ذلک فی فصاحة التنزیل ولاریب ان فہم معانیہ یتحصل ذرائعہ من تحصیل العلوم العربیة وما یناط بہ امرہ اولی واعلی ولکن من لم یتیسر لہ ذلک فھل الحرمان لہ عن فہم القرآن المجید او فہمی بترجمة فی لغتہ الوطنة اولی؟
وارجو الثانی اولی بالاعتبار وان کتاب اللہ انزل الناس کافة انسہم وجنہم ،عربہم وعجمہم ۔ثم لاریب ان اصول الدین التی ارشد الیہا القرآن علیھا فرض علی کل مکلف وتعلم العلوم العربیة لیس بتلک المثابة فلو یدار امر فہم القرآن علی تلک العلوم ومن القرآن مو ھو فرض علمہ لکانت ھذہ العلوم فریضہ علی المکلف فان ماکن مقدمة لامرہ واجب فھو واجب کما تقرر فی موضعہ ۔سلمنا ان الترجمة لیست بعزیمة ولکن الاستمساک بالرخصة فی موج یخاف ھذا الامر راسا من العزائم ثم ان اللہ تعالی لم یکلف کل احد بمعرفة اعجازہ وبراعة اطنابہ وایجازہ ،کیف وھذا وراءقدرة کل احد،فرجل تیسر کلہ ذلک ۔
وآخر یوم منہ ولاریب ان القرآن بلاغ للناس وھدی العالمین فان ترجم بلغات العالم ونشرت فیہم لتمر علی العالمین حجة ربھم وقد قال اللہ تعالی:
ولقد یسرنا للقرآن للذکر فھل من مدکر (29)
وای تیسراذا لم یکن ترجمتہ جائزة باللغات العجمیہ ومن خصائص القرآن انہ کل یستفید منہ العالم بعلمہ والعامی بفہمہ اذا اطلع علی معناہ وغرضہ فلیذکرہ ولیعتبر (30)
پھر سب سے پہلا شخص جس نے کتاب اللہ کا ہندوستان میں فارسی زبان میں ترجمہ کیا اور موجودہ امت کے لئے ایک بہترین طریقہ چھوڑا، وہ الحجة العارف الشاہ ولی اللہ الدہلوی المتوفی ۶۷۱۱ءہیں جو ”حجة اللہ البالغہ ،البدور البازغہ ،الخیر الکثیر ،التفہیمات الالہیہ ،ازالة الخفاءعن خلافة الخلفاء،موطا امام مالک کی شروح المسوی ،المصفی اور دیگر جلیل القدر کتب کے مصنف ہیں انہوں نے ایک انوکھا ترجمہ کیا اور اس میں ایسے دقائق اور اسرار لطیفہ کی رعایت رکھی جن کو اس میدان میں نمایاں مقام نہ رکھنے والا کوئی آدمی نہیں سمجھ سکتا ۔
انہوں نے اس میں لطیف مختصر فوائد کو بھی شامل کیا اور اسرائیلیات سے اس کو پاک رکھا اس کانام فتح الرحمن رکھا اور گویا اس طرح انہوں نے امت کے لئے توحید کی بنیاد رکھی ۔اللہ ان پر رحم فرمائیں کہ اس نے ہمیں مستغنی کردیا غیر عربی زبان میں ترجمے کے عدم جواز کی بحث میں پڑنے سے ۔جیسے آج علمائمصر میں اس حوالے سے بحث چھڑی ہے ۔اور طاہر ہے ہم یہ دعوی تو نہیں کرتے کہ قرآن کا صرف لفظ یا صرف معنی معجز ہے کہ (پھر)اس ترجمہ کو اس (قرآن کریم) کے اعجاز سے فروتر کہا جائے یا وہ قرآن کی حفاظت کے لئے عیب کا باعث ہو (بلکہ وہ ترجمہ اصل کے ساتھ ملحوظ ہوگا اس سے الگ نہیں)
اور بلاشبہ قرآن کے معانی کو اس کے ذرائع یعنی علوم عربیہ وغیرہ کی مدد سے سمجھنا زیادہ بہتر اور اعلی ۔مگر قرآن کو ان علوم آلیہ کے ذریعے سمجھنا جس کے لئے میسر نہ ہو تو کیا اس کا قرآن مجید کے فہم سے محروم رہنا بہتر ہے یا اپنی قومی زبان میں ترجمہ کی مدد سے اسے سمجھنا؟
میرے خیال میں یہ دوسرا امر پہلے امر سے بہتر ہے ۔کیوں کہ قرآن کریم کو اللہ تعالی نے سارے لوگوں کے لئے نازل کیا ہے ۔ان میں انسان جنات، عرب اور عجم سب شامل ہیں۔
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جن اصول دین کی طرف قرآن نے رہنمائی کی ہے ہر مکلف پر ان کا علم فرض ہے۔جب کہ علوم عربیہ کو سیکھنا فرض نہیں ہے۔اب اگر قرآن کے فہم کا معاملہ علوم عربیہ سیکھنے پر موقوف اور اس ے مشروط ہوتا تو پھر تو یہ (موقوف علیہ ،یعنی علوم عربی سیکھنا)بھی ہر مکلف پر فرض ہوجاتا۔اس لئے کہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے (جب کہ علوم عربیہ کا تعلم فرض نہیں )یہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ترجمہ کوئی عزیمت والا کام نہیں ہے مگر جہاں کسی امر کے مکمل فوت ہونے کا اندیشہ ہو وہوان رخصت پر عمل بھی عزیمت والے کاموں میں سے ہے۔
پھر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے ہر ایک کو قرآن کریم کے اعجاز اور اس کے اطناب وایجاز کی خوبیوں کو جاننے کا مکلف نہیں بنایا اوربنائے بھی کیسے کہ یہ ہر کسی کی قدرت میں نہیں ہے ۔بلکہ کسی کے لئے اللہ تعالی نے اسے آسان کر دیتے ہیں اور کوئی اس سے محروم رہتا ہے۔
اور قرآن کریم بلا شبہ لوگوں کے لئے اللہ کا بھیجا ہواپیغام ہے اور سارے عالموں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے چناں چہ اگر اس کا عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوجائے تو اللہ تعالی طرف سے سارے عالموں پر حجت تام ہوجائے گی اور اللہ تعالی نے تو فرمابھی دیا ہے :
"ولقد یسرنا للقرآن للذکر فھل من مدکر"
ترجمہ " "اور ہم قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کردیا ہے تو پھر ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا"۔
اب اگر عجمی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ ہے جائزنہ ہو تو پھر اس میں کونسی آسانی ہے،اور قرآن کریم کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اس سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔عالم اپنے علم کے ساتھ اور عالم آدمی اپنے فہم کے ساتھ ۔جب وہ اس کے معانی اور اغراض سے واقف ہوجائے ۔لہذا نصیحت حاصل کی جائے اور سوچا جائے“۔
حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی اس عبارت سے ترجمہ قرآن کے حوالے سے متردد اور شورزش زدہ ذہنوں کے سارے شکوک وشبہات اور عالمہ نکتہ چینیاں ختم ہونی چاہئے کہ حضرت موصوف نے بڑے واضح اور دوٹوک انداز میں ترجمہ ”قرآن“پر قد غن لگانے کوقرآن کی تعلیمات اور اس کا آفاقی پیغام اور انقلابی پروگرام محدود اور مسدود کرنا قرار دیا ہے ۔یقینا اللہ کی کتاب ،اللہ کے بندوں کے ہدایت اور فلاح کے لئے نازل ہوئی ہیں اور اس سے رہنمائی لینے کے عجم بھی اتنے ہی مستحق ہیں جتنا یہ لغت قرآن (عربی)والوں کا استحقاق ہے۔
اور ظاہر ہے یہ جب ہوگا جب قرآن کا ہر عجمی زبان میں ترجمہ جائز بلکہ مستحسن اور ضروری قرار دیا جائے ۔حکمت، بصیرت اور ضرورت اس کا متقاضی ہے ۔
ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم نے اپنی متذکرہ بالا کتاب میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ قرآن کو عربی زبان میں کیوں نازل کیا گیا اور دوسرے زبانوں میں اس کے تراجم کی کیا ضرورت اور اہمیت ہے ؟۔ان کی عبارت ملاحظہ ہو ۔
آفتاب اسلام کی شعاعیں مکہ اور مدینہ سے طلوع ہوتی ہوئی دھیرے دھیرے بڑھتی جارہی تھیں ،روشنی کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا ۔اسلام کی اساس قرآن سے قائم ہے اور یہ پیغام اللہ نے بنی نوع انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توسط سے پہنچایا۔
قرآن کریم میں مکتوب ہے :
"قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا" (31)
ترجمہ: "کہہ دیجئے (اے اللہ کے رسول )کہ اے بنی نوع انسان میں اللہ کا رسول  ہوں تم سب لوگوں کے لئے"
پھر ارشاد ہے:
"وما ارسلناک الا کافة للناس بشیرا ونذیرا ،ولکن اکثر الناس لا یعلمون" (32)
ترجمہ: "اور ہم نے آپ کو بنی نوع انسانی کے لئے خوسخبری سنانے والا اور خدا کو خوف دلانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ یہ نہیں سمجھتے" لہٰذا قرآن کا یہ تخاطب تمام بنی نوع انسان سے ہے اور اس کا پیغام آفاقی ہے ۔لیکن چو کہ وہ محمد بن عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک خاص مکان وزبان میں نازل ہوا۔ لہذا ضروری تھا کہ اس کی زبان مقامی ہو جواس ملک اور عصر کے لوگوں کے لئے عام فہم ،زور اثر اور پر کشش ہو قرآن کوئی مجرد فلسفہ کی کتاب تو نہیں کہ محض زبانی جمع خرچ ہوتا رہے یہ تو بنی نوع انسان کے لئے حقیقی لائحہ حیات ،دعوت عمل اور نور ہدایت ہے ۔اس لئے اس کا اپنی قوم کی زبان میں اترنا ضروری تھا ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
"وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لہم" (33)
ترجمہ: "اور ہم نے بھیجا ہر رسول کو اسی کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ لوگوں کو واضح طور پر سمجھا سکے"
اس کے علاوہ یہ بھی ضروری تھا کہ قرآن اپنے مقامی مواضیع میں بھی عالمی اور آفاقی پیغام کا حامل ہو ۔ایک درخت بار آور ہو جس کے اثمار سے سے دنیا بھر کے انسان تا قیامت مستفید ہوتے رہیں ،ابدی نور ہو جس کی روشنی میں انسان صراط مستقیم پر گامزن رہیں۔آخر کار دین اسلام جزیرہ عرب کی حدود سے باہر پھیلنے لگا اور غیر عرب مسلمانوں کو قرآن سمجھنے کی ضرورت پیش آئی ۔تاکہ وہ اسلام اور اس کے اصولوں سے معرفت حاصل کرسکیں۔قرآن اسلام کا دستوراور آئین ہے اور اس سے شریعت مستنبط ہے ۔قرآن کو سمجھے بغیر شرعی قوانین کا نفاذ ممکن نہیں۔ایک اسلامی معاشرہ تو کیا ایک فرد کی اسلامی طرز معاشرت کے لئے بھی قرآن کا سمجھنا ضروری ہے ۔
قرآن مسلمانوں کے لئے ہدیہ بھی اور ہدایت بھی ہے اور اسی لئے قرآن کی تعلیمات کو سمجھے بغیر مسلمان اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا صحیح حقدار نہیں ہوتا۔لہذا جب دائرہ اسلام غیر عربی دان علاقوں میں داخل ہوا تو قرآن کے ترجمے کی ضرورت پیش آئی ۔
قرآن تو عربی میں تھا اور غیر عرب مسلمان عربی سے نابلد ۔
"زبان یار من ترکی----ومن ترکی نمی دانم"۔ (34)
قرآن کریم کی امتیازی شان،انفرادیت اور آفاقی حیثیت،ناگزیریت اور تمام دنیوی واخروی سعادتوں کی کنجی ہونے کی حقیقت کو موصوفہ نے بڑے عمدہ اسلوب اورمؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔اسلامی تعلیمات اور قرآنی ہدایت کے فروغ اور انسانی سوسائٹی کے بے لوث خیر خواہی رکھنے والوں کا ہر زمانے میں قرآن وحدیث کے حوالے سے اسی طرح وسعت اور گنجائش پر مبنی موقف رہا ہے۔اسی موقف کی بدولت قرآن کریم کی کتابت ،جمع وتدوین، حدیث کی تدوین،تفسیر قرآن اور ترجمہ قرآن وغیرہ ممکن ہوا۔
اور یوں اب ان ہدایت کے سرچشموں ،اللہ تبارک وتعالی کے کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین سے پوری انسانیت مستفید ہوسکتی ہے اور ہورہی ہے،اور اسلام کی حقانیت پر انگلی اٹھانے والوں کی زبانیں گنگ ہے ۔
کیوں کہ اسلام اور قرآن حکیم کے دفاع کے لئے عربوں کے علاوہ دیگر اقوام کے ذہین ،دورس ،دانشمنداور باصلاحیت افراد بھی اپنی ذہنی،قلبی،قلمی،زبانی اور دیگر توانیاں صرف کرہے ہیں۔
ظاہر ہے اگر غیر عربی ہونے کی وجہ سے وہ خود قرآن کریم واحادیث مطہرہ سے ناواقف ہوتے تو یہ سب کیسے ممکن ہوتا۔
ارشادِ ربِّ کائنات ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ "اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلّم) "آپ فرما دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) سے، اور اس کی راہ میں جہاد(کوشش) کرنے سے تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نورِ ہدایت سے بدکار لوگوں کو نہیں نوازتا " (سورۃ التوبہ، اٰیۃ نمبر:24)
(جاری ہے۔۔۔)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب!
(مقالہ نگار: پروفیسرڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں )