Wednesday, 26 August 2015

عصر حاضر میں بین المذاہب اتحاد کی اہمیت اورتعلیمات نبویﷺ

عصر حاضر میں بین المذاہب اتحاد کی اہمیت اورتعلیمات نبویﷺ
  تحریر: پرویز اقبال آرائیں
ریسرچ اسکالر، قرآن اینڈ سنة ڈپارٹمنٹ، فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز، یورنیورسٹی آف کراچی
تمہید:
اسلام نے وحدت فطرت ،وحدت حیات اور توحید الہی کا تصور دیا ہے ۔کائنات کے ذرے سے لے کر حضرت انسان تک کے زندگی کے تمام مظاہر کی حقیقت ایک ہے ،کائنات کی تمام اشیاءکا آپس میں مربوط اور گہرا تعلق ہے ۔عالم رنگ وبو میں حیات مختلف شکلوں میں تقسیم نظر آتی ہے ،دریاؤں کی روانی ،پہاڑوں کا جمود ،پھولوں کی مہک ،ہوا کی سرسراہٹ ،اور زینت الارض بہائم وا نام کی شکل میں پھیلی ہوئی ہے ۔
حضرت انسان کی اصل اور بنیاد ایک ہی ہے لیکن زمین کی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے وہ مختلف مقامات پر براجمان ہیں، اور ساتھ ساتھ قبیلوں اور نسلوں کی تقسیم الگ ہے ۔لیکن ہر انسان بحیثیت فرد کے اللہ تعالی کا نائب وقاصدہے اور اس حیثیت میں ہر انسان دوسرے انسان کے برابر ہے ۔
آج کے اس اعلی اور فنی دور میں جب کہ حدود اور فاصلے کوئی معنی نہیں رکھتے ،اس کے باوجود مذاہب میں مسائل وہی ہے جو شروع سے چلے آرہے ہیں، اور اسی طرح ان مسائل کے حل اور ان کی روک تھام کی کوشش بھی اسی طرح باقی ہے جو روز اول سے کی جارہی ہے ۔اگر چہ بانیان ملل ومذاہب کا آپس میں وہ حسبی نسبی تعلق ہے جو ایک دوسرے سے جداکرنے سے بھی جدا نہیں ہوسکتا بالخصوص دین مسیحیت اور شریعت محمدی کے، کیونکہ دونوں کا سلسلہ نسب حضرت ابراہیم علیہ الصلاة والسلام پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ دونوں خلیل اللہ کے جگر گوشے ہیں ۔دونوں سے خدا کے وعدے ثابت ہوتے ہیں ،دونوں ایک دوسرے کے بھائی ہے ۔
مذہب،معنی مفہوم:
مذہب کے معنی راستہ اور طریقہ کے ہیں مذہب کا ماخذ لاطینی لفظ(Riligion)یعنی باندھنا ہے ،مذہب کی تعریف کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ نمو پاتی ہوئی متحرک چیز ہے اور اپنی ذات اور نفس مضمون میںانتہائی وسیع ہے ۔دراصل مذہب خصوصی اعتبار سے ایک ایسی چیز ہے جسے محسوس اور تجربہ کرنا پڑتا ہے نہ کہ اس کی تعریف کی جاتی ہے ،لیکن پھر بھی مذہب کا کوئی نہ کوئی مفہوم ہے اور اس مفہوم کو جاننا اور سمجھنا ضروری معلوم ہوتا ہے:
 ”مذہب اتحاد اور ہم آہنگی کا قاعدہ ہے ،کوئی بھی اصول جو ہمیں بحیثیت مجموعی باہم باندھتا ہے ،وہ مذہب ہے
یہ محض عقیدہ ہی نہیں بلکہ طرز عمل بھی ہے ،صرف یقین کلی ہی نہیں بلکہ شعار بھی ،صرف ایمان نہیں بلکہ وظائف کی آدائیگی ۔مذہب میں ساری انسانی شخصیت ملوث ہے(1)
ڈاکٹر سید حسین اپنے مقالے ”امام غزالی کا فلسفہ مذہب واخلاق “میں مذہب کے بارے میں برونائیٹ ہیڈ کا یہ قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "مذہب اعتقاد کی اس قوت کا نام ہے جس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ انسان اور اس کے کردار میں انقلاب پیدا کردے ،بشرطیکہ اسے اخلاص کے ساتھ قبول کیا جائے اور بصیرت کے ساتھ سمجھا جائے"(2)
 مذہب ایک فطری ضرورت:
اللہ تعالی نے جب حضرت انسان کو پیدا کیا تو اسکے تمام جسمانی ضروریات کی طرح اس کی روحانی ضروریات کا سامان بھی مہیا کیا کیونکہ ہر وہ انسان جو دنیا میں تشریف لاتا ہے چاہے وہ جس قبیلے ،جس رنگ،جس زبان سے اس کا تعلق ہو،مذہب اس کی ایک فطری ضرورت ہوتی ہے ،اور اللہ تعالی انسانی فطرت کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا۔ اس فطری ضرورت کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں تمام انسانوں کا کسی مبہم چیز پر جمع ہونا عقل سے بعید تر ہے،انسان کی زندگی مذہب سے قائم ہوتی ہے اور وہ اسی سے قوت پاتا ہے مذہب کی اسی فطری ضرورت کے پیش نظر قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے:
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (30/30)
پس اپنا منہ دین کی طرف سیدھا ہو کر لو ،یہ وہ اللہ کی فطرت ہے ،جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے(3)
اتحاداور تعلیمات مذاہب:
دور حاضر میں مذاہب کا تعین اور ان کا شمار ایک مشکل امر ہے ،اس وقت دنیا میں سینکڑوں مذاہب کے پیروکار موجود ہے جن میں سے بعض کی تعداد کروڑوں میں اور بعض سینکڑوں میں ہیں ،دنیا کے قدیم مذاہب میں سے ایک مذہب ہندویت کا ہے ،لیکن ہندو مذہب میں یکساں سلوک ،مساوات بالکل ہی مفقود ہے ،کیونکہ ذات پات اور وراثتکی تقسیم انسانیت کے لیے ظلم اکبر سے کم نہیں ،اس تقسیم کی بناءپر برہمن کا درجہ اتنا بلند ہوتا ہے کہ شودر اور اچھوت کی چیخ وپکار بھی اس کے کانوں تک نہیں پہنچ سکتی ،برہمن شکم مادر سے پاک پیدا ہوتا ہے ،وہ گناہوں سے مبرا اور دیگر گندگیوں سے پاک وصاف سمجھا جاتا ہے، جبکہ شودر پر مندروں کے دروازے تاحیات بند ہوتے ہیں ،انہیں انسانیت کے ابتدائی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے، اور یہاں تک استحصال ہوتا ہے کہ شودر کا سایہ بھی اونچی ذات والے کے لیے ناپاکی کی علامت سمجھی جاتی ہے ،ان کی کنویں اور بستیاں تک علیحدہ بنائی جاتی ہے ۔جب اس کے علاوہ دیگر مذاہب یہودیت ،عیسائیت اور اسلام اس کے بالکل برخلاف ہے۔اور اس مقالے میں اسلام ،یہودیت،عیسائیت کے درمیان بین المذاہب اتحاد ، یکجہتی اور ان مذاہب کے مابین مشترک تعلیمات سے بحث کرنا مقصود ہیں۔
ابتدائے دنیا سے اللہ تعالی نے جتنے بھی انبیاءعلیہ الصلاة والسلام مبعوث فرمائے ان سب کا مقصد معرفت الہی انسانوں کا روحانی ،اخلاقی تزکیہ وتطہیر اوردنیوی واخروی سعادت پیش نظر رہا ہے ،جس کے بغیر دنیا کا نظام قائم نہیں رہ سکتا ۔اس لیے یہ تمام مذاہب سب انسانوں کے لیے باعث رحمت تھے۔ اسلام سے قبل کے تمام مذاہب قومی تھے یعنی ایک قوم کے ساتھ مخصوص تھے ،اس قوم کے افراد کے علاوہ کسی اور کو اس میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ظہوراسلام کے وقت دنیا میں چاربڑے مذاہب تھے یہودیت،عیسائیت،ہندو ازم ،بدھ مت،لیکن ان کے پیروکاروں نے ان تعلیمات کو اپنے ہاتھوں سے مسخ کردیا تھا ۔
یہودی مذہب بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص تھا توریت میں اس بارے میں ذکر ہے کہ:
موسی نے ہم کو ایک شریعت دی جو بنی اسرائیل کی میراث ہو (۴)
اسی طرح ایک دوسری آیت ہے
کہ اسرائیل میں میرا بیٹا بلکہ میرا پلوتھا ہے “(۵)
اور قرآن حکیم نے بھی ان کی اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی چہیتی اولادسمجھتی تھی ۔جیسے کہ سورہ مائدہ میں ارشاد باری تعالی ہے۔
وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللہِ وَاَحِبَّاۗؤُہٗ (5/18)
ہم خدا کے فرزند اور اس کے چہیتے ہیں (6)
دوسری طرف بائبل میں یو ںرقم ہے:
خدا کسی کا طرف دار نہیں ،بلکہ ہر قوم میں جو اس سے ڈرتا ہے اور راست باز ہے وہ اس کو پسند ہے (۷)
جب اسلام کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ نوع انسانی کا ایک ایک فرد بنیادوی حقوق میں یکساں حق رکھتے ہیں اور سارے ایک اللہ وحدہ لاشریک کے مخلوق ہے کسی کو کسی پر کسی قسم کی فوقیت یا کوئی قوم بھی اللہ کی محبوب نہیں اور نہ ہی طرف دار ہے سوائے اس کے جو سب سے زیادہ پرہیز گار اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات وتعلیمات پر عمل پیرا ہو۔اسلام انسانیت کا رودار ہے اور انسانیت سے متعلق خود اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے ارشاد ربانی ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ (49/13)
اے لوگوں !ہم نے رم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر تمارے قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو ں،تاکہ سب سے اللہ کے ہاں پسندیدہ وہی جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو(8)
اس طرح ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰
(3/1)
 اے لوگوں !اپنے رب سے ڈرو ،وہ رب جس نے تم کو اکیلی جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑ پیدا کرلیا پھر ان دونوں کی نسل سے مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد دنیا میں پھیلادی(9)
جب کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو اللہ کا کنبہ قرار دیا ہے ارشاد نبوی ہے:
الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ من احسن عیالہ (10)
ساری مخلوق اللہ کاکنبہ ہے،اس لیے اللہ کو زیادہ محبوب اپنی مخلوق میں وہ آدمی ہے جو اللہ کی عیال کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کریں
الغرض اسلام انسانیت کو مستقل طور پر بانٹنے والے حقوق کو نہیں مانتا وہ ایک عالمی انسانی برادری قائم کرنا چاہتا ہے تا کہ پوری انسانیت ایک خاندان بن جائیں اور اگر تقسیم یا کوئی فرق ہے تو وہ صرف ایمان اور تقوی کا ہوگا اور یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی قوم ،رنگ یا نسل سے وابستہ نہیں بلکہ پوری انسانیت اس سلسلے میں برابر ہے ہر فرد انہیں حاصل کر سکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اور بین المذاہب اتحاد:
دین اسلام کی عالمگیر کتاب قرآن حکیم باہمی امن اتحاد اور رواداری کا قائل ہیں اور اس کی مثالی تعلیمات اس با ت پر شاہد ہیںکہ قرآن حکیم نے ہر کڑے وقت میں اپنے اصول کے ذریے دنیاسے انتشار کو ختم کرنے میں پہل کی ۔شروع اسلام میں جب اسلام اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں مین انتشار وفتراق بڑھا تو قرآن حکیم نے اس بات کی طرف توجہ کی اور مذاہب سماویہ کو وحدت کی طرف پکارا اور یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۝۶۴۔(3/64)
اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ اللہ کے سواءہم کسی کی عبادت نہیں اور اس کے ساتھ کسی شئی کو شریک نہیں ٹھرائیں گے اور ہم میں کوئی کسی کو اللہ کے سواءاپنا کارساز نہ سمجھے ،اگر یہ لوگ اس بات کو نہ مانیں تو ان سے کہدو کہ تم گواہ رہو کہ ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں (11)
مولانا مفتی محمد شفیع ؒ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ:
کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جماعت کو دعوت دین دینے کا خواہشمند ہو جو عقائد ونظریات میں اس سے مختلف ہوتو اس کا طریقہ یہ ہے کہ مخالف العقیدہ فریق یا جماعت کو صرف اس پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے جن پر دونوں کا اتفاق ہو سکتا ہو یعنی اللہ تعالی کی وحدانیت (12)
یہ آیت اور قرآن کا پیغام بالکل واضح ہے اور اس آیت میں خطاب اگر چہ براہ راست صرف اہل کتاب یہود ونصاری کو ہے مگر مفہوم میں دیگر تمام مذاہب شامل ہے یا جو اس جیسے احکامات کو مانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں ۔اسی وجہ سے قرآ ن حکیم کی اس آیت کے مصداق کے متعلق حافظ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں :
ھذا الخطاب یعم اہل الکتاب من الیہود والنصاری ومن جری مجراہم (13)
یہ خطاب براہ راست اگر چہ صرف اہل کتاب یہود ونصاری کو ہے مگر وہ تمام مذاہب اس میں داخل ہے جو ان جیسے احکامات رکھتے ہیں
یہود اور نصاری دونوںکو خصوصیت کے ساتھ اس وجہ سے خطاب فرمایاگیا کہ دونوں ہی توحید کا دعوی رکھتے ہیں ،سو جب ہم اور تم دونوں ہی اس بنیادی نکتے پر متفق ہیں تو اسی پر قائم رہتے ہوئے آؤ ہم اپنے تعلقات استوار کرتے ہیں شرط یہی ہے کہ توحید خالص کو مان لو اور شرک اور اس کی تمام اقسام سے مکمل اجتناب کر لو۔
اس طرف اس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ”یہاں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ بنیادی عقیدہ (خدا کا ایک ہونا اور اپنے آپ کو مسلم ماننا )جس پر ہم دونوں (مسلمان اور اہل کتاب )متفق ہیں ،ایسی چیز ہے جو ہم سب کو ایک کر سکتا ہے ،بشرطیکہ آگے چل کر اپنے تصرف اور تحریف سے اس کی حقیقت بدل نہ ڈالیں ،ضرورت اس کی ہے کہ جس طرح زبان سے مسلم وموحد کہتے ہو حقیقتا وعملا بھی اپنے آپ کو تنہا خدائے واحدہ لاشریک کے سپرد کردو ،نہ اس کے سواءکسی کی بندگی کرو نہ اس کی صفات خاصہ میں کسی کو شریک ٹھراؤ  (14)
جب اسلام کی بات کی جائے تو یہ خالص مذہب اور عقیدہ کی بنیاد بن جاتی ہے اور بین المذاہب اتحاد،یکجہتی کے لیے ضروری ہے کہ ہم دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی دے، تاکہ وہ ایک اسلامی ریاست میں خود کو غیر محفوظ تصور نہ کریں۔اسلام مذہب اختیار کرنے میں کسی قسم کے جبر کا روادار نہیں وہ مذہب کو شخصی مسئلہ قرار دیتا ہے لیکن اخروی اعتبار سے کامیاب انسان وہی ہوگا جو اللہ تعالی کے احکامات پر پوری طرح عمل پیرا ہو۔اسلام نے دنیا میں اپنی دعوت پیش کر نے کے بعد اعلان کیا:
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ (2/256)
دین میں کوئی جبر نہیں ،ہدایت گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے (15)
اس وجہ سے اسلام کے علاوہ دیگرتمام مذاہب کے ماننے والوں کو پوری مذہبی آزادی ملنی چاہیے تاکہ وہ اپنے عقیدہ ومذہب کے مطابق خدا وحدہ کی عبادت کر سکیں ۔
 دنیا کے تمام مذاہب اور ملل کے تعلیمات کیا چیزیں مشترک ہیں تو اس سلسلے میں سارے مذاہب ”انسانی زندگی کی چند عام اوربنیادی قدروں پر متفق ہیں سچائی،انصاف،پاس عہد،امانت کو سب تعریف کا مستحق سمجھتے ہیں ۔جھوٹ ،ظلم،بد عہدی اور خیانت کو سب برا کہتے ہیں ،ہمدردی،رحم ،فیاضی اور فراخ دلی کی سب قدر کرتے ہیں۔خود غرضی ،سنگ دلی ،بخل اور تنگ نظری کو سب حقیر سمجھتے ہیں ،صبر وتحمل ،ضبط نفس،نرمی اور شائستگی سب کے نزدیک خوبیاں ،چھچھورا پن،بندگی نفس،درشتی اور کج خلقی سب کے یہاں برائیاں ہیں فرض شناسی ،وفا شعاری ،مستعدی اور احساس ذمہ داری کی وب عزت کرتے ہیں ،نافرض شناسی،بے وفائی،کام چوری اور غیر ذمہ داری کو سب بری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اسی طرح سماجی زندگی کے لیے نظم وضبط ،ڈسپلن،تعاون،امداد باہمی،آپس کی محبت ،خیر خواہی اور اجتماعی انصاف کو سبھی ضروری قراردیتے ہیں،تفرقہ،انتشار،بد نظمی،نا اتفاقی،آپس کی بد خواہی،ظلم اور ناہمواری کو سب نقصان دہ اور مہلک مانتے ہیں ۔چوری ،زنا،قتل ،ڈاکہ،جعل سازی،رشوت خوری سب ہی کے نزدیک گناہ ہیں،بد زبانی ،مردم آزاری،غیبت،چغل خوری،حسد،بہتان تراشی اور فساد انگیزی سب کے یہاں پاپ ہیں ،والدین کی خدمت ،رشتہ داروں کی امداد ،پڑوسیوں سے سلوک ،دوستوں سے رفاقت ،کمزوروں کی حمایت ،یتیموں اور بیکسوں کی خبر گیری،مریضوں کی تیماداری اور مصیبت زدوں کی اعانت کو سب نیکی کا کام سمجھتے ہیں ،پاکدامن،نرم مزاج،خیر اندیش،راست باز اور ایسے لوگ جن کا ظاہر اور باطن یکساں ہو جو اپنے حق پر مطمئن ہو ں اور دوسروں کا حق دیتے ہیں فراخ دل ہوں ،جو خود شانتی سے رہیں اور دوسروں کو شانتی دیں ،جن کی ذات سے ہر ایک بھلائی کی امید ہو، اور کسی کو براءکا خطرہ نہ ہو ایسے ہی نیک نفسوں اور مہاپرشوں کا پیدا کرنا ہر مذہب کا فریضہ ہے (16)
 رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں مبعوث ہوئے تو آپ نے بحکم ربی یہ علی الاعلان یہودی وعیسائی اور صائبی کو نہ صرف حق پر قائم فرمایا بلکہ ان کو اپنے اطاعت سے بھی مستثنی قرار دیا اور بزبان قرآنی ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  ۝۶۲،(2/62)
 بے شک وہ جو ایمان لائے ہیں اور وہ جو یہودی ہے اور جو نسارای ہیں اور جو صائبی ہے ،ان میں سے ہو وہ شخص جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور عمل صالح کرتا رہتا ہے ،تو ایسے لوگوں کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے ان کے لیے ،نہ تو ان پر خوف مسلط ہوگا نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گے(17)
ملت اسلام نے صلیبیوں کو کئی ایسے حقوق دیے ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں مثلا ان کو ان کے مذہب سے برگشتہ نہ کیا جائے ،جزیہ خود محصل آکر لے جائے گا ،ان کے جان ومال،قافلے اور کاروان تجارت اور دیگر مقبوضات محفوظ رہیں گے جو مذہب وعقیدہ پہلے سے تھا اسی طرح رہے گا وغیرہ وغیرہ ۔
نفاق سے تو دنیا میں فساد اور بد نظمی پیدا ہوتی ہے اور امن مفقود ہوجاتا ہے ۔مذاہب اسلام اور مسیحیت مسلمانوں اور مسیحیوں کو عام طور پر سب کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے کی تعلیم دیتے ہیں ۔مسیحی اور مسلم بہت سی بنیادی اور ایمانی باتوں میں ہم عقیدہ ہے اس لیے اس دنیا میں اتحاد کے جتنے قریب وہ ہوسکتے ہیںاور کوئی نہیں ہوسکتا ۔آج کے درو میں خدمت خلق جتنی اہمیت رکھتی ہے اور کوئی مذہبی عمل وہ اہمیت نہیں رکھتا پھر اگر یہ خدمت ایمان باللہ اور الخلق عیال اللہ کی بنیاد پر کی جائے تو اس سے زیادہ خوبصورت اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔
قرآن حکیم میں دو واقعات ایسے ذکر ہے جن سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آخری دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسیحیوں سے بد ظن ہوچکے تھے اور آپ کے نرمی میں سختی پیدا ہوچکی تھی اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے ان واقعات پر نظر کی جائے ۔
سور ۃ مائدہ کی آیت ہے
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰــثَۃٍ۝۰ۘ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۷۳ (5/73)
البتہ تحقیق جن لوگوں نے یہ کہا کہ بے شک اللہ تین میں ایک ہے اور نہیں ہے اللہ کے سواءکوئی معبود ،اور اگر وہ جو کہتے ہیں ان سے باز نہیں آتے تو ان کے اس کفر کی وجہ سے ان کو دردناک عذاب پہنچے گا (18)
جس میں ایک گروہ کوکافر کہا گیا جو کہتے خدا تین میں ایک ہے ۔اگر قرآن مجید نے ایسے جاہلوں کو جو تین خدا کو مانتے تھے یا خدا کی ذات کو تین میں تقسیم کرتے تھے کافر کہا تو بہت اچھا کیا کیوں کہ ایسا عقیدہ رکھنے والے کافر ہی ہیں ۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی طرف سے کافر نہیں کہا بلکہ انجیل نے بھی ان کو کافر کہا ۔
دوسرا واقعہ سورہ مائدہ کی آیت نمبراشارہ کرتی ہے
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۵۱(5/51)
اے ایمان والوں تم یہود ونصاری کو دوست مت بناو¿ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو مسلمانوں میں سے ان کے ساتھ دوستی کرتا ہے تو وہ انہی میں سے ہوگا ،بے شک اللہ تعالی ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا (19)
 جس میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ ٹھرائیں اس آیت سے یہ سمجھنا کہ تمام عیسائیوں کے حق میں یہ حکم ہے یہ تاریخ اسلام اور تعلیم اسلام سے نا واقفیت کی دلیل ہے اس لیے کہ قرآن حکیم میں یہ حکم بھی کہ تمام اہل کتاب ایک جیسے نہیں ۔
ایک مفکر اس آیت کی بڑی خوبصورت تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”در حقیقت اس آیت میں ان عیسائیوں کی دوستی کی ممانعت کی گئی ہے جو درپردہ بت پرست اور مشرکین عرب سے ملے ہوئے تھے ۔اور محض سراغ رسانی کی غرض سے دوستی گانٹھتے تھے، جو ایک نازیبا حرکت تھی ،اگر یہ ثابت بھی کیا جائیں کہ اسلام مسیحیت کا مخالف ہے تب بھی مسیحیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بت پرستوں اور مشرکوں کے مقابل اسلام کی مدد کریں۔ عیسائیوں کو اس واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ نبوت کے نویں سال جب مسیحی سلطنت اور ایران کی آتش پر ست سلطنت کے درمیان لرائی ہوئی تو مشرکین عرب یہ چاہتے تھے کہ ایرانی غالب ہوں، کیوں کہ وہ بھی مشرک تھے ،اس وقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف رکھتے تھے آپ اور کل مسلمان یہ چاہتے تھے کہ روم کی مسیحی حکومت ہی ایران پر غالب آئے، کیوں کہ وہ اہل کتاب تھے مگر ہوا یہ کہ ایران کو غلبہ ہوا اور مشرکین کی خوشی کی کوئی انتہاءنہ رہی، یہ فتح ان کے لیے باعث طنز وتفاخر بن گئی مسیحیوں کی اس شکست سے مسلمان غمگین ہوئے اور مسلمان بھی کیسے خود مسلمان اور حضرت ابو بکر صدیق جیسے ۔اس پر آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت ابراہیمی جوش میں آئی اور مسلمانوں کو بشارت دی کہ ایرانیوں کی یہ فتح مندی عارضی ہے اور چند سال کے بعد پھر مسیحی غالب ہوں گے اور قرآن مجید کی سورہ روم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں ۔ابی ابن خلف اور حضرت ابو بکر میں تو اس پیشگوئی پر بمرضی رسول خدا سو سو اونٹوں کی شرط بندھ گئی جسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بعد میں جیت لیا اور آن حضرت کے مشورے سے وہ سب کے سب اونٹ مساکین میں تقسیم کر دئیے گئے “(20)
بین المذاہب اتحاد اور رسول اللہ ﷺ:
 مختلف اقوام کی رہنمائی وہدایت کے لئےرب ذوالجلال نے انبیاءکرام علیہ الصلاة والسلام کو مبعوث فرمایا۔قرآن پاک ان انبیاءوحکماءکا تذکرہ نصیحت اور خیرخواہی کے قانون کے تحت کرتا ہے ۔ لہذا کسی بھی قوم کی نصیحت کو غلط الفاظ میں یا غلظ انداز سے پیش نہیں کرنا کیونکہ اس میں اس بات کا بہت حد تک امکان ہے کہ برگزیدہ خدائی شخصیت کے حق میں گستاخی ہو جائے اور اس کے پیروکاروں کی دل آزاری ہو اور معاشرہ میں فتنہ فساد کا اندیشہ پیدا ہو۔
 قرآن حکیم نے دیگر مذاہب کے انبیاءو حکماءکا تذکرہ بے حدادب اور نرم لہجہ میں کیا ہے ان کی عظمت ، وقار اور تقدس کا خیال رکھا ہے ۔ گویا قرآن حکیم نے یہ سمجھایا ہے کہ یہ جتنے بھی انبیاء، صلحاءتھے انہوں نے انسانیت اور خدائی تعلیمات کو عام کرنے کا فریضہ سرانجام دیا جس کو قرآن آگے بڑھارہا ہے جس طرح قرآن اور نبی ﷺکی عزت وتوقیر ضروری ہے اس طرح دیگر انبیاءکی عزت وتوقیر ضروری ہے ۔
اس طرح مقدس شخصیات کے بعد قرآن حکیم اہل کتاب کی عبادت گاہوں کی حرمت اور حفاظت کوبھی بیان کیا ہے ارشاد قرآنی ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْہَا اسْمُ اللہِ كَثِيْرًا (22/40)
اور اگر اﷲ اس کا انتظام نہ کرتا کہ ایک گروہ کی روک تھام دوسرے گروہ کے ذریعے ہوسکے اور وہ سرکش لوگوں کے بے لگام چھوڑدیتا ہے کہ جوجی میں آئے کرتے چلے جائیں تو (اور چیزیں تو ایک طرف ) کسی قوم کی عبادت گاہ تک بھی دنیا میں محفوظ نہ رہتی خانقاہیں، گرجے ، یہودیوں کے عبادت خانے اور مساجد جن میں خدا کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے سب کبھی کے ڈھائے جاچکے ہوتے(21)
ان آیات سے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اوریگانگت کی کیسی زبردست تعلیم ملتی ہے چنانچہ یہاں مسجد کا ذکر فرمایاوہاں گرجاؤں ( صوامع ) اہل کتاب کی عبادت گاہوں ( بیع) ، عام عبادت گاہوں (صلواة ) کا بھی احترام اور تقدس کے ساتھ ذکر فرمایا اور غایت درجہ کی رواداری دیکھئے کہ مسجد یعنی مسلمانوں کی عبادت گاہ کا ذکر سب سے آخر میں فرمایا حالانکہ مسجد کو بڑی آسانی سے مقدم اور دوسری عبادت گاہوں کو مؤخر کیا جاسکتا ہے کیا اس سے بڑھ کر رواداری کی کوئی اور مثال کہیں مل سکتی ہے ؟ اس موقع پر یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ یہ آیت مدنی ہے یعنی مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھی اور اب مسلمان بے بس اور مجبور ومظلوم نہ تھے کہ دم نہ مارسکیں اب ان کے پاس قوت تھی شوکت تھی دبدبہ تھا اور وہ کفار ومشرکین کو نہ صرف کلمہ بہ کلمہ جواب دے سکتے تھے بلکہ ان کی درازدستیوں اور شقاوتوں کا پورا پورا بدلہ بھی لے سکتے تھے (22)
دین اسلام پوری انسانیت کے لیے اور مسلمان کو مسلمان صرف اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام کی دعوت کو قبول کر لیتا ہے یہ کسی گروہ ،نسل خاندان ،قیلے یا قوم کا نام نہیں اسلام کا پیغام سب کے لیے ہے اسے کوئی بھی اختیار کر سکتا ہے اس میں کسی علاقائی ،لسانی ،رنگ ونسل کی کوئی شرط نہیں ہے ۔اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن حکیم میں خطاب کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۲۸ (34/28)
اورہم نے آپ کو جمیع انسانیت کے لیے خوشخبری اور ڈرانے والا بنا کر مبعوث کیا (23)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانےت کی وحدت اور اجتماعیت کے قائل تھے اور انسانی معاشرے مےں ہر طرح کی تمےز ، گروہےت کو انسانی وحدت کے لئے مضر قرار دےتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر اس پر عمل کر کے دےکھا کہ صبر، برداشت اور عفو و درگزر ہی سے وحدت کی تکمےل ہو سکتی ہے۔مولانا ابو کلام آزاد نہاےت دلنشےن انداز مےں پےغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خراج تحسےن پےش کرتے ہےں۔ ”مظلومی ، صبر ، مقابلے مےں عزم ، معاملہ مےں راست بازی اور طاقت و اختےار مےں عفو و درگزر تارےخ انسانےت کے وہ نوادر ہےں ۔ جو کسی اےک زندگی کے اندر اس طرح کبھی جمع نہےں ہوئے“ (24)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشرہ کو ہر طرح کی عصبیت ، فرقہ واریت اور عداوتوں سے پاک کر کے اس کو وحدت کی لڑی مےں پرودیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر اپنے عظےم الشان تارےخی خطبہ مےں ارشاد فرماےا۔
یاایھاالناس الا ان ربکم واحد وان ابا کم وا حد الا لا فضل لعربی علیٰ عجمی ولا لعجمی علیٰ عربی ولا لابیض علی اسود ولا اسود علی ابیض الا بالقویٰ (25)
اے لوگو۔ خبردار بے شک تمھارا خدا اےک ہے اور بے شک تمھارا باپ اےک ہے۔ خبردار کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پرکسی سفید کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو سفید پر کوئی فضےلت نہےںسوائے تقوی اور پرہےز گاری کے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بین المذاہب سرگرمیوں میں جب نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ فرمایا تو اس معاہدہ میں یہ شقیں شامل تھی کہ ”ان کی جان محفوظ رہے گی ،ان کی زمین وجائیداد اور مال وغیرہ ان ہی کے قبضے میں رہے گا ،ان کے مذہبی عہدے کسی تبدیلی کے بغیر برقرار رہیں گے ،صلیبیوں اور مورتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچائےگا (26))
مکالمہ بین المذاہب کی اہمیت وضرورت:
دین اسلام ہر ایک کے ساتھ مہذب اور شائستہ انداز میں بحث ومباحثہ کرنے کا حکم دیتا ہے کہ بحث اس انداز سے ہو کہ اس میں دلیل کو پختگی حاصل ہو ،شیریں کلام ہو ،اخلاقی حدود کے اندر ہو،تاکہ مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے افہام وتفہیم کے ساتھ سمجھا سکیں ،قرآن حکیم نے بین المذاہب مکالمہ کے لیے بہترین اصول وضع کیے ہیں ،ارشاد قرآنی ہے:
وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ  (29/46)
اور آپ مجادلہ (مکالمہ) نہ کرو اہل کتاب کے ساتھ مگر احسن(اچھے)طریقے سے (27)
کہ مجادلہ ہو لیکن نرمی ،خیر خواہی اور اچھے انداز بیاں کے ساتھ ،اگر سامنے والا بد اخلاقی کا مظاہرہ بھی کریں تو بھی تحمل سے کام لو ،شور وغل سے پرہیز کرو تاکہ تمہاری خیر خواہی ان پر ظاہر ہو ۔تفسیر معارف القرآن میں اس بارے میں ذکر ہے
کیونکہ اہل کتاب فی الحال اگر چہ گمراہ ہیں مگر اصل تو رکھتے ہیں آسمانی کتاب اور نبی برحق کے قائل ہیں بخلاف مشرکین اور مجوس کے ،وہ قابل مجادلہ ومبا حثہ نہیں،لہذا اہل کتاب سے مجادلہ میں نرمی برتو (28)
پیر کرم شاہ الازہری اس آیت میں ذکرکردہ مجادلہ کا احسن اندازاس طرح ذکر کرتے ہیں کہ
تم انہیں پہلے ہی بیگانہ اور مد مقابل حریف بنا کر خطاب نہ کرو بلکہ انہیں یوں کہو کہ تمہارے انبیاءکرام تو حید کا جودین لے کر آئے تھے ہمارے نبی مکرم بھی وہی دین لے کر آئے ہیں ،ہم صرف قرآن کریم کو ہی کلام الہی نہیں مانتے بلکہ تورات وانجیل کے متعلق بھی ہمارا یہی دین ایمان ہے، اس لئے ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی ایسی بات نہیں جو وجد اختلاف وباعث افتراق ہو،مرور وقت سے جو عمل اور عقیدے کی خرابیاں تمہارے ہاں رائج ہو چکی ہیں ان کی اصلاح کرو ،پھر ہم سب ایک ہی ملت مسلمہ کے فرد بن جائیں گے (29)
 اس وقت دنیا بھر میں مذاہب کے مابین جو غلظ فہمیاں پائی جاتی ہیں اور بالخصوص اسلام کے حوالے سے ،ان کا بہترین حل اور علاج مکالمہ بین المذاہب ہے ،تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے پوری دنیا دار المکالمہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مملکت حبشہ کے بارے میں جو راہ اختیار کی وہ مکالمہ بین المذاہب اختیار کرنے والوں کے لیے بہترین مشعل راہ ہے۔
بین المذاہب اتحادوتجاویز:
مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں اختلاف اور نااتفاقی کے کچھ وجوہات ہیں جن کی بناءمیں آپس میں اتحاد کی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہوتی ان میں میں ایک اہم وجہ اور سبب یہ کہ ہر مذہب کا ماننے والا اپنے مذہب کی باتوں کو سچا ماننے اور ان پر یقین رکھنے، اپنے اسلاف اور بزرگوں کو ہر ایک سے بہتر اور برتر سمجھتے ہوئے دوسروں پر اپنے مذہب کے نفاذ میں سختی اور مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، طاقت اور سرمایہ کے ذریعے دوسروں کو اپنا ہمنوا بنایاجاتا ہے ،دوسروں کے مذہبی خیالات پر اور  پیشواؤں کا مذاق اڑایا جاتا ہے ،ان کے رسوم ورواج کو حقیر جاننے ،دیگر مذاہب کے لوگوں کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانا،حالانکہ دونوں کا ایک دوسرے سے دور کا بھی تعلق نہیں، کوئی بھی مذہب دوسرے مذاہب کو حقیر یا اس کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیتا۔
کیونکہ اگر ایک انسان اپنے عقیدہ کو درست اور دوسرے کو غلط سمجھتا ہے تو اس سے یہ نتجہ نہیں نکلتا کہ میں دوسرے عقیدے کے لوگوں کو برا بھلا کہوں اور ان کا مذاق اڑاؤں ،اسی طرح اگر میں اپنے مذہب کو صحیح سمجھتا ہوں تو مجھے یہ حق حاصل نہیں کہ میں دوسروں پر اپنی رائے یا عقیدہ زبردستی مسلّط کروں ۔اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ انسانیت ،جمہوری روایات اور خود اپنے مذہب کے اعلٰی قدروں کی بے حرمتی کرے گا جو انسانی احترام کا در س دیتا ہے ۔
اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ہر انسان اپنے مذہب ،اپنے رسوم ورواج،اپنی مذہبی اقدار کو دوسروں پر زبر دستی مسلط نہ کریں، دورسرے مذاہب کے عبادت خانوں ،مذہبی مقدس شخصیات ،مذہبی کتابوں اور طور طریقوں کا حترام کریں ۔لیکن یہاں یہ غلط فہمی بھی نہ رہے کہ دوسرے مذاہب کے احترام کے یہ معنی نکالے جائے کہ ہم اپنی مذہب پر شبہ کریں، اور نہ یہ کہ ہم سب مذاہب کو یکساں ماننے لگیں ہیں ،اور کسی کو کسی کے مقابلے میں ترجیح نہ دیں ،اور صحیح بات کو صحیح اور غلط بات کو غلط نہ ٹھرائیں ،ہر انسان کو اپنی باتوں کو صحیح سمجھنے کا حق حاصل ہے لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسروں کی بے عزتی اور بے حرمتی کریں۔
مذاہب کو قریب لانے کے لیے اسلام کے تالیف قلب والے اصول اپنانا زیادہ بہتر ہوگا جو آپس میں دلوں کو جوڑنے کا اہم سبب ہے اور اس طرح کہ ہم دوسروں کے جذابات واحساسات کا احترام کریں۔
الغرض جب تک اہل کتاب اور مسلمان باہم کوئی لائحہ عمل یا پالیسی مرتب نہ کریں تمام فریق ان امور سے احتراز کریں جن سے خواہ مخواہ کی رنجشیں پیدا ہوجاتی ہے ۔ایک دوسرے کے بزرگوں اور محترم شخصیات کا احترام کریں ،جب باہم کسی مسئلے پر تبادلہ خیال ہو تو اس طور پر ہو کہ تیسرا شخص یہ سمجھے کہ دو حقیقی بھائی کسی امر کا تصفیہ کر رہے ہیں ۔گفتگو کریں تو بھی اصولوں پر کریں، فروعات سے بالکل احتراز کریں اور متفقہ امور پر جو ایک دو نہیں بہت ہیں ان پر عمل پیرا ہوجائیں ۔
حوالہ جات
مولیہ رنجن مہاپتر،فلسفہ مذاہب،مترجم :یاسر جواد،ص15،لاہور ،فکشن ہاؤس، سنہء2001ء (1)
 (۲) سید حسین ،ڈاکٹر،امام غزالی کا فلسفہ ءمذہب واخلاق ،ص ۱۸۱،دہلی ،ندوة المصنفین س،ن
(۳)  القرآن: 30:30
(۴) توریت،استثناء4:33،ص،۴۲۵،لاہور،بائبل سوسائٹی،2003ء
(۵) توریت،خروج۴۔۲۲،ص۲۴۱،لاہور،بائبل سوسائٹی،2003ء
(۶) القرآن: 18:5
(۷) بائبل،اعمال الرسل ،باب۰۱۔آیت ۵۳،کراچی پاکستان،2005ء
(۸) القرآن: 13:49
(۹) القرآن: ۴:۱
(10) ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب ،شیخ ،مشکوة المصابیح ،کتاب الادب ،باب الشفقة والرحمة علی الخلق،الفصل الثالث،ص۵۲۴،کراچی ،اصح المطابع،1350ھ
(۱۱)   القرآن: آل عمران: 64
(12) محمد شفیع ،مفتی ،معارف القرآن ،ج۲،ص87،کراچی ،ادارة المعارف1969ء
(13) ابن کثیر ،ابو الفداءعما دالدین اسماعیل ،تفسیر اب کثیر،ج۲،ص361،مکتبہ النہضہ الحدیثیہ ،قاہرہ،1965ء
(14) علامہ شبیر احمد عثمانی ،تفسیر عثمانی ،ص،75کراچی ،دارلتصنیف،1975
(15) القرآن: 34:2
(۶۱) ماہنامہ الحق ،اکتوبر 1968ئقومی یکجہتی اور اتحاد مذاہب ،ڈاکٹر عبد الحق ،ص265
(17) القرآن: 62:2
(18) القرآن: 73:5
(19) القرآن: 51:5
(20) فکر جدید کی تشکیل جدید،مرتب ضیاءالحسن فاروقی،مقالہ نگارغیاث الدین اڈلفی ،ص446،مکتبہ رحمانیہ ،لاہور ،1984ء
(21) القرآن: 40:22
(22) جعفری،رئیس احمد ،مولانا،اسلام اور رواداری،ص۵۵،لاہور،ادارہ ثقافت اسلامیہ،1955ء
(23) القران: 28:34
(24) غلام رسول مہر ،مولانا،رسول رحمت (مجموعہ مقالات سیرت) ص،439،لاہور،شیخ غلام علی اینڈ سنز ،س،ن
(25) احمد بن حنبل،امام، مسند احمد ،حدیث نمبر 411،باب ۵،بیروت ،دار احیاءالتراث العربی،1993ء
(26) حمید اللہ ،ڈاکٹر،الوثائق الساسیہ ،ص ۷۵،بیروت ،دار النفائس،1965ء
(27) القرآن: 46:29
(28) کاندہلوی،مولانا،محمد ادریس ،معارف القرآن،ص ۶۱۱،ج۶،لاہور ،مکتبہ عثمانیہ،1390ھ
(29) الازہری،مولانا،پیر کرم شا ہ،ضیاءالقرآن،ج۳،ص 538،لاہور ،ضیاءالقرآن پبلی کیشنز،1978ء 

 تحریر: پرویز اقبال آرائیں